skip to Main Content

رات کے اندھیرے میں

میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیخ رحیم علی اور ان کی بیگم دونوں بڑے وضع دار تھے ۔کسی کو گھر میں ملازم رکھ لیتے تھے تو خود اسے ملازمت سے جواب نہیں دیتے تھے۔وہ خود چلا جاتا تو ایک الگ بات تھی۔ان کے دو پرانے ملازم تھے،مدت ہوئی وہ اپنی مرضی سے چلے گئے تھے، مگر خیراں اس گھر کو کسی صورت میں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھی۔اس کی زندگی کا اچھا خاصا حصہ شیخ صاحب کے گھر میں گزرا تھا اور وہ چاہتی تھی کہ جب تک اس کے ہاتھ پاؤں چلیں وہ اپنے بیٹے کے ہاں نہ جائے۔اگرچہ اس کے بیٹے نے بہت اصرار کر کے اسے اپنے ہاں بلایا تھا اور کہا تھا کہ” اماں، بہت کام کر چکی ہو اب آرام کرو۔“مگر خیراں اس کے لیے کبھی آمادہ نہیں ہوئی تھی۔
خیراں بوڑھی ہونے کے باوجود جوانوں کی طرح کام کرتی تھی،مگر اس کی ایک بری عادت تھی۔جب بھی سوتی تھی بڑی گہری نیند سوتی۔ جیسے ہی چارپائی پر لیٹ کر کچھ دیر آرام کرنے کا سوچتی تھی تو چند منٹ بعد سو جاتی تھی ،پھر اردگرد خواہ کتنا شور مچے وہ ذرا مشکل ہی سے آنکھ کھولتی تھی۔اس کی اس عادت سے شیخ صاحب کے گھرانے کو کئی بار پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن انہوں نے ہر بار درگزر سے کام لیا تھا۔
ایک روز راولپنڈی سے شیخ صاحب کے بھائی کا ٹیلی فون آیا کہ دوپہر کو ان کا بیٹا جرمنی میں تین سال گزارنے کے بعد واپس آ رہا ہے،اس لیے آپ اپنے بال بچوں کے ساتھ راولپنڈی پہنچ جائیں۔شیخ صاحب کے پاس اپنی گاڑی تھی۔بارہ بجے تک آسانی کے ساتھ پنڈی پہنچ سکتے تھے اور شام تک واپس بھی آ سکتے تھے۔انہوں نے خیراں سے کہا:
”دیکھو اماں،ہم شام تک ضرور واپس آجائیں گے۔ اگر دیر ہو جائے تو تم اپنے بیٹے کو گھر میں بلا لینا اور مکان کے سارے دروازے اچھی طرح بند کر لینا۔بے احتیاطی بالکل نہ ہو۔“
خیراں بولی:” واہ بیٹے! کیا بات کرتے ہو۔میں سب کچھ جانتی ہوں۔بھلا پہلے کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ نے مکان کی حفاظت میرے حوالے کی ہو اور میں نے ذرا بھی غفلت کی ہو۔“
خیراں ٹھیک کہتی تھی۔ اس نے آج تک کبھی غفلت نہیں برتی تھی۔پوری طرح گھر کی حفاظت کی تھی اور شیخ صاحب نے اس کی فرض شناسی پر ہمیشہ خوشی کا اظہار کیا تھا۔صبح ساڑھے چھ بجے شیخ صاحب اپنی بیگم اور دونوں بیٹوں کو ساتھ لے کر پنڈی روانہ ہوگئے اور خیراں کمروں کی صفائی کرنے لگی۔
دن بیت گیا۔شام کا اندھیرا ذرا پھیلا تو خیراں شیخ صاحب اور ان کے گھر والوں کا انتظار کرنے لگی۔وہ مکان کے سب سے پہلے کمرے کی دہلیز پر بیٹھ گئی اور آہستہ آہستہ چائے کے گھونٹ بھرنے لگی۔اکیلی تھی،مگر اسے کسی قسم کی فکر نہیں تھی۔اسے پورا پورا یقین تھا کہ تھوڑی دیر میں گھر کے لوگ آجائیں گے اور وہ اپنی چارپائی پر لیٹ کر مزے کی نیند سو جائے گی۔آدھ گھنٹہ بیت گیا اور وہ دیوار سے پیٹھ لگائے بیٹھی رہی۔ قریب ذرا سا بھی شور ہوتا تو دروازے کی طرف دیکھنے لگتی،مگر کوئی بھی اندر نہ آتا۔ہر روز دن بھر کام کرنے کے بعد وہ بری طرح تھک جاتی تھی اور اپنی مالکن سے اجازت لے کر فوراً اپنی چارپائی پر لیٹ کر سو جاتی تھی،لیکن اس روز مالکن تھی نہیں،سونے کی اجازت کس سے لیتی؟ شام رات کے اندھیرے میں تبدیل ہونے لگی۔
”وہ تو آہی جائیں گے ابھی کیوں نہ ذرا کمر سیدھی کر لوں۔“اس نے دل میں کہا،”مگر نیند آگئی تو شیخ صاحب کیا کہیں گے اور مالکن کتنا برا مانے گی۔“اس نے کوشش کی کہ اپنی آنکھیں کھلی رکھے۔ کچھ وقت اور بیت گیا۔
”میں سوؤں گی نہیں۔بس ذرا آرام کر لوں گی۔اس میں آخر حرج ہی کیا ہے؟“
وہ اپنی جگہ سے اٹھ بیٹھی اور کمرے سے باہر نکلنے کا ارادہ کر ہی رہی تھی کہ سوچا میں اپنی چارپائی پر نہ لیٹوں، نہیں تو نیند آجائے گی اور یہ اچھا نہ ہوگا۔تو پھر کیا کروں؟یہیں ذرا۔۔۔۔۔بس ذرا لیٹ جاتی ہوں۔ ذرا بھی آواز آئے گی تو اٹھ بیٹھوں گی۔“ اور وہ فرش پر لیٹ گئی۔
”سونا بالکل نہیں۔“ اس نے اپنے آپ سے کہا اور زور زور سے آنکھیں ملنے لگی۔اس کا اتنا اثر ہوا کہ وہ پندرہ منٹ تک سو نہ سکی۔ پھر سو گئی۔ اس کی عادت یہی تھی کہ جب سوتی تھی تو دنیا جہان سے بے خبر سوجاتی تھی۔
وقت گزرتا جا رہا تھا اور وہ دنیا جہان سے بے خبر سو رہی تھی۔اسے وقت گزرنے کا کوئی احساس نہیں تھا اور احساس ہو بھی کیسے سکتا تھا ،وہ تو گہری نیند سو رہی تھی۔
آدھی رات بیتی ہو گی کے باہر تیزی سے جاتے ہوئے کسی رکشا کا شور ہوا اور پھر کئی لوگوں کے بولنے کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔رکشا یا تو کسی سے ٹکرا گیا تھا یا اس کے آگے کچھ لوگ آ گئے ہوں گے اور وہ رکشا ڈرائیور کو اس بے احتیاطی سے رکشا چلانے پر ڈانٹ رہے ہوں گے۔ چند لمحوں کے لئے اتنا اثر ہوا کہ خیراں کی آنکھ کھل گئی۔کمرے میں اندھیرا تھا۔اسے یاد آیا کہ جب وہ ذرا آرام کرنے کی خاطر فرش پر لیٹی تھی تو اس نے بجلی کا بٹن نہیں دبایا تھا۔پھر یہ بٹن کس نے دبایا ہے؟ہو سکتا ہے کہ شیخ صاحب آ گئے ہو ںاور انہوں نے بٹن دبایا ہو۔اس کے دل میں خیال آیا،لیکن اس نے سوچا کہ اگر شیخ صاحب اندھیرا کرتے تو مجھے ضرور جگا دیتے۔وہ مجھے فرش پر لیٹے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکتے۔
فرش پر لیٹے رہنے کی وجہ سے اس کے جسم میں درد ہو رہا تھا۔اچانک اسے ایسا محسوس ہوا کہ دوسرے کمرے میں ذرا روشنی ہو رہی ہے۔”یہ روشنی کیسی؟“ایک شبہ سا اس کے ذہن میں آگیا۔وہ اندھیرے ہی میں باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگی۔کمرے کا ایک ہی دروازہ تھا۔اس نے پٹ کھولنا چاہا تو دروازہ باہر سے بند تھا۔
”ہیں یہ کیا؟“وہ گھبرا گئی۔
کمرے میں ایک کھڑکی بھی تھی،مگر اس میں لوہے کی جالی لگی ہوئی تھی۔
اب تو کھسر پھسر کا مدہم مدہم شور بھی اس کے کانوں میں آنے لگا۔
”ضرور گھر میں چور آگئے ہیں۔“
اس خیال کے آتے ہی خوف و دہشت سے اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔وہ اپنے آپ کو برا بھلا کہنے لگی کہ کیوں اپنا فرض بھول کر لیٹ گئی تھی۔ ”اب کروں کیا۔اگر دروازہ کھٹکھٹاتی ہوں تو وہ فوراً آجائیں گے اور مجھے مار ڈالیں گے یا رسیوں سے باندھ دیں گے،اور خاموش کمرے میں بند رہتی ہوں تو وہ نہ جانے کیا کچھ چرا کر لے جائیں گے۔سارا گھر لوٹ لیں گے۔“
”میں کیا کروں؟“
یہ سوال بار بار اس کے ذہن میں سر اٹھاتا تھا،مگر کوئی جواب اسے سوجھتا ہی نہیں تھا۔ذرا ذرا سا شور ہو رہا تھا۔
مجھے کچھ کرنا چاہیے۔یہ بزدلی ہے کہ خاموش بیٹھی رہوں اور چور سب کچھ لوٹ کر لے جائیں۔میری جان کا خطرہ ضرور ہے،مگر اپنے مالکوں سے بے وفائی نہیں کرسکتی۔اس نے دل میں ارادہ کرلیا۔
وہ فوراً اٹھ بیٹھی۔اسے معلوم تھا کہ کھڑکی کہاں ہے۔سب سے پہلے اس نے کھڑکی کے دونوں پٹ بند کر دیے۔پھر دروازہ بند کر دیا اور چٹخنی لگا دی۔اب کمرے کے اندر آنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔
”ٹھیک ہے، اب مجھے شور مچانا چاہئے۔“
اس نے شور مچانے کا ارادہ کیا تو اسے یوں لگا کہ حلق بالکل خشک ہو گیا ہے۔اس نے حلق پر زبان پھیری اور پکا ارادہ کر لیا کہ وہ جتنا شور مچا سکتی ہے، مچائے گی۔
اس نے“ بچاﺅ بچاﺅ“ زور سے کہنا شروع کردیا۔ایک دم دروازے پر شور ہونے لگا۔وہ چیختی رہی۔دروازہ کھولنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ پھر ایسا ہوا کہ کمرے میں روشنی ہو گئی اور اس نے دیکھا کہ دو لمبی لمبی مونچھوں والے خوفناک آدمی بڑے غصے سے اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
انہیں اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر اس کی ٹانگیں بری طرح لڑکھڑا نے لگیں۔آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور اسے اپنی موت کا یقین ہو گیا اور اسی لمحے وہ دھڑام سے فرش پر گر کر بے ہوش ہو گئی۔پھر کیا ہوا؟اسے کچھ معلوم نہ ہوسکا۔
آہستہ آہستہ اسے ہوش آنے لگا اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔
شیخ صاحب اور بیگم صاحبہ دونوں اس پر جھکے ہوئے تھے۔ان کے علاوہ کئی اور لوگ بھی تھے۔ان سب کو وہ پہچانتی تھی۔یہ لوگ قریبی مکانوں میں رہتے تھے۔اچانک اس کی نظر ان دو خوفناک آدمیوں پر پڑی جنہیں اس نے بے ہوش ہونے سے پہلے دیکھا تھا۔سپاہی ان کو ہتھکڑیاں پہنا رہے تھے۔
”اماں!“ شیخ صاحب نے خیراں کو آنکھیں کھولتے ہوئے دیکھ کر کہا۔
”اماں! اب ٹھیک ہونا؟“بیگم صاحبہ نے پوچھا۔خیراں نے ہاں کے طور پر اپنا سر ہلا دیا۔
”اماں! اب خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔تم سو گئیں۔یہ تمہاری بری عادت ہے،مگر تم نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ایک قابل فخر کام بھی کیا ہے۔“شیخ صاحب مسکرا رہے تھے۔
”تو؟“خیراں کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا سوال کرے۔شیخ صاحب نے اس کی بے چینی سے اندازہ لگالیا کہ وہ کیا پوچھنا چاہتی ہے۔
”اماں!تم نے شور مچایا تھا تو چور دروازہ کھول کر تمہیں مارنے کے لئے کمرے میں پہنچ گئے تھے کہ یکایک ہمارے مہربان پڑوسی آگئے اور چوروں کو پکڑ لیا۔ان چوروں کو تم نے دیکھ ہی لیا ہے۔پولیس انہیں گرفتار کرکے لے گئی ہے۔“
”ہم تمہاری ہمت کی داد دیتے ہیں۔“خاں صاحب بولے جو برابر والے مکان میں رہتے تھے۔
”شاباش!تمہارا یہ کارنامہ قابل تعریف ہے۔ “شیخ صاحب نے کہا۔
شیخ صاحب کی زبان سے یہ جملہ سن کر خیراں صوفے سے اٹھ بیٹھی اور مسکرانے لگی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top