رسولﷺ کا انصاف
عائشہ صدیقی
۔۔۔۔۔۔
سردیوں کے دن تھے۔دادا جان اپنے کمرے میں بیٹھے کتاب پڑھ رہے تھے کہ ساتھ بیٹھے ہوئے بچوں سے بولے۔
”آج میں آپ کو نبی ﷺ کی سیرت کی ایک کہانی سناؤں؟“
”جی دادا جان ضرور سنائیں۔“ افنان علی اور سفیان نے فوراً کہا۔
”اچھا بچو سنو! یہ واقعہ میں نے اس کتاب میں ابھی پڑھاہے۔ اس کتاب کا نام ”ہر واقعہ بے مثال“ ہے۔میں نے سوچا آپ کو بھی سناؤں۔
”رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کی ایک جماعت سفر میں تھی، اثنائے سفر میں آپ نے ایک منزل پر قیام فرمایا۔کھانے پکانے کا انتظام ہونے لگا۔بکری کے ذبح کرنے کی تیاری ہوئی۔ صحابہ کرام میں سے ہر شخص نے ایک ایک کام اپنے اپنے ذمہ لے لیا۔ایک نے بکری ذبح کا،دوسرے نے اس کے بنانے اور صاف کرنے کی خواہش کی، تیسرے نے کہا۔”میں اسکو پکالوں گا۔“
چوتھے صحابی بولنے ہی لگے تھے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:”میں ایندھن کے لئے جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کر لاؤں گا۔“
صحابہ کرام نے نہایت ادب سے عرض کیا:
”اے اللہ کے نبی ﷺ! ہماری جانیں آپ پر قربان!ہمارے ہوتے ہوئے حضور کو کسی کام کرنے کی حاجت نہیں۔“ نبی پاک ﷺ نے فرمایا:
”میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم لوگ کس قدر میری تکریم کرتے ہو اور میری خدمت میں کسر نہیں چھوڑتے ہو، لیکن اس کے باوجود مجھے یہ گوارا نہیں، کہ میں تم میں بڑائی کا طلب گار بن کر بیٹھ جاؤں۔رفیق وہ ہے جو رفیقوں کا شریک کار ہو، یہ نہیں ہو سکتا کہ تم کام کرو اور میں یونہی بیٹھا رہوں، مجھے حقِ رفاقت ادا کرنے دو۔“
چنانچہ آپ ﷺ جنگل سے لکڑیاں جمع کر کے لائے اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا کہ تمام مواقع پر آپ ﷺ اپنے رفقا کے ساتھ برابر کے شریکِ کار رہتے۔
(فضائل و خصائل نبوی ﷺ،مطبوعہ دینی کتب خانہ، جوھر آباد)
پیارے بچو! یہ تھی کہانی، اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کی سیرت ہمارے لئے بہت اچھا نمونہ ہے۔آپ ﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھی کام کرتے تھے، گھر میں بھی اپنا کام خود کرتے تھے۔“
”دادا جان! آج آپ نے بہت اچھی کہانی سنائی ہے۔آج سے ہم سب بھی مل جل کر کام کرنے کو اپنی عادت بنائیں گے۔“ سفیان نے خوش ہو کر کہا تو دوسرے بچوں نے بھی اثبات میں سر ہلا کر تائید کی۔