skip to Main Content

راجا رانی

سعید لخت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا ۔تھا تو بے چارہ غریب مگر نام تھا راجا ۔راجا کی ایک رانی تھی۔اس کا نام تھا نوراں ۔اس کے دو بچے تھے ۔ایک کا نام جُمن تھا اور دوسرے کا گُھمن ۔نوراں جتنی نیک تھی اتنی ہی خوب صورت تھی۔ہنستی تو منہ سے پھول جھڑتے ،روتی تو موتی ۔مگر وہ روتی کبھی نہ تھی۔اس لئے گھر میں پھول تو تھے ،موتی نہ تھے۔

ایک دن نوراں بولی ’’ارے راجا۔ ایک بات کہوں ؟‘‘

راجا بولا۔’’کہو۔مگر ایک ہی کہنا۔‘‘

نوراں بولی ’’سن تو سہی۔یوں تو ہمارے پاس خدا کا دیا سب کچھ ہے۔چھوٹا سا گھر ۔تھوڑی سی زمین ۔دو بیل ۔دو گائیں ۔پر پلے پیسا نہیں ۔جو تو کماتا ہے سب خرچ ہو جاتا ہے ۔کچھ جمع جتھا رکھنا بھی ضروری ہے کہ وقت پڑے تو کام آئے۔‘‘

’’پیسا کہاں سے لاؤں ؟ڈاکا ڈالوں ؟‘‘راجا نے پوچھا ۔

’’توبہ کر توبہ ‘‘نوراں کانوں پر ہاتھ دھر کے بولی ’’ایسی بری باتیں منہ سے نہیں نکالا کرتے ۔دیکھ تو ،ہمارے پاس دوگائیں ہیں ۔دو کی کیا ضرورت ہے ۔ایک کو بیچ ڈال ۔جو پیسے ملیں گے ہم انہیں سنبھال کر رکھ لیں گے۔‘‘

راجا نے کچھ دیر سو چا اورپھر بولا ’’بات تو ٹھیک ہے۔بعض وقت تو تو میرے کان کاٹنے لگتی ہے لے،میں ابھی منڈی جاتا ہوں ۔‘‘

راجا نے گائے کھولی اور شہر لے گیا ۔شام تک منڈی میں کھڑا رہا مگر کوئی گاہک نہ آیا ۔سورج ڈوبنے کو ہوا تو وہ گائے لے کر گھر کی طرف چلا۔تھوڑی دور گیا ہو گا کہ ایک کسان ملا ،جس کے پاس ایک گھوڑا تھا اور اسے بیچنا چاہتا تھا ۔راجا نے سوچا گائے تو میرے پاس ہے پر گھوڑا کوئی نہیں ۔یہ سوچ کر اس نے اپنی گائے اس کسان کو دے دی اورا س کا گھوڑا خود لے لیا۔

کچھ دور اور آگے چلا تو ایک دوسرا کسان ملا۔اس کے پاس ایک موٹی تازی بکری تھی ۔راجا نے اسے گھوڑا دے کر بکری لے لی ۔کچھ دور جا کر اسے ایک تیسرا شخص ملا جس کے پاس بھیڑ تھی ۔راجا کو وہ بھیڑ اتنی اچھی لگی کہ اس نے بکری دے کر بھیڑ لے لی۔

چند قدم آگے بڑھا ہو گا کہ اسے چوتھا آدمی ملا ۔اس کے پاس ایک مرغا تھا ۔راجا نے سوچا ،بھیڑ تو بالکل نکمی ہوتی ہے ۔مرغا بہت اچھا ہے ۔روز صبح سویرے بانگ دیتا ہے ۔یہ سوچ کر اس نے بھیڑ اس شخص کو دے دی اور مرغا خود لے لیا۔

اب گاؤں تھوڑی دور رہ گیا تھا۔چلتے چلتے راجا کے پیر تھک گئے اور مارے بھوک کے پیٹ میں چوہے قلابازیا ں کھانے لگے ۔سامنے ایک قصبہ تھا۔وہ قصبے میں گیا ۔پیسے تھے نہیں کہ روٹی خرید کر کھا تا ۔سوچا کیا کروں یکا یک بغل میں دبا ہوا مرغا زور سے پھڑ پھڑایا ۔اس نے سوچا ’’ارے ! مرغے کو تو میں بھو ل ہی گیا ۔پیٹ کے آگے مرغے کی کیا حقیقت۔کیوں نہ اسے بیچ ڈالوں ؟‘‘

اس نے مرغا ایک شخص کے ہاتھ بیچ دیا اور تنور پر جا کر خوب ڈٹ کر روٹی کھائی ۔پیٹ میں روٹی گئی تو بدن میں جان آئی اور وہ چاق چوبند ہو کر گھر کی طرف چل پڑا ۔

گاؤں میں گھسا ہی تھا کہ ساہوکار سے مُٹھ بھیڑ ہو گئی ۔اس نے پوچھا ۔’’ارے راجا ،تو گائے منڈ ی لے گیا تھا ۔سناؤ کتنے میں بکی ؟‘‘راجا نے کچھ دیر سو چا اور پھر ساری کہانی کہہ سنائی ۔ساہوکار بہت ہنسا ۔بولا’’تجھ سا بے وقوف بھی شاید ہی کوئی ہو ۔بچو! اب تیری خیر نہیں ۔گھر ذرا سنبھل کر جانا ۔بیوی وہ گت بنائے گی کہ عمر بھر یاد رکھے گا۔‘‘

راجا مسکرا کر بولا ’’تم میری بیوی کو نہیں جانتے ۔وہ بہت نیک اور فرماں بردار عورت ہے۔میں چاہے کچھ کروں ،کبھی مجھے نہیں ٹوکتی ۔‘‘

’’او ہو ہو ہو‘‘ ساہو کار نے قہقہہ لگایا ’’بچو! یہاں جو چاہے کہہ لو ۔گھر جاؤ گے تو پتا چلے گا ۔میری مانو ۔سر پر دو چار پگڑیاں اور لپیٹ لو تا کہ کھوپڑی سلامت رہے ۔‘‘

راجا نے کہا ۔’’تمہیں میرا اعتبار نہیں ؟اچھا ،آؤ ۔میرے ساتھ چلو ۔اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا ۔‘‘

ساہوکار بولا ’’چلتا ہوں مگر ایک شرط پر اگر تمہاری بیوی نے تمہیں کچھ نہ کہا تو میں تمہیں پورے سو روپے انعام میں دوں گا اور اگر لڑی بھڑی اور تمہیں صلواتیں سنائیں تو تمہیں ایک مہینے میرے کھیتوں میں مفت کا م کرنا پڑے گا ۔بولو ،منظور ہے ؟‘‘

’’منظور ہے‘‘راجا نے کہا ’’مگر سو روپے ساتھ لے لو ۔ایسا نہ ہو تمہیں واپس آنا پڑے۔‘‘

ساہوکار لپک کے گھر گیا اور سو روپے تھیلی میں ڈال کر لے آیا۔

اب دونو ں گھر پہنچے ۔دروازہ بند تھا ۔ساہوکار دیوار کی اووٹ میں کھڑا ہو گیا اور راجا نے دروازہ کھٹ کھٹایا۔

نوراں دوڑی دوڑی آئی ۔ہاتھ میں لالٹین تھی ۔دروازہ کھول کر لالٹین اوپر اٹھائی تو راجا کا مسکراتا ہوا چہرہ جگ مگا اٹھا ۔بولی’’ارے !اتنی دیر کر دی ؟کھانا رکھے رکھے ٹھنڈا ہو گیا ۔‘‘

’’کھانے کو چھوڑ ‘‘راجا نے کہا ’’یہ پوچھ کہ گائے کا کیا ہوا؟‘‘

’’کیا ہوا ؟‘‘نوراں گھبرا گئی ۔

راجا بولا’’میں گائے منڈی لے گیا ۔۔۔۔۔۔۔‘‘

’’مجھے معلوم ہے‘‘نوراں سر ہلا کر بولی۔

’’اری !پوری بات تو سن ‘‘راجا جلدی سے بولا ۔

’’میں گائے منڈی لے گیا مگر کوئی گاہک پاس تک نہ پھٹکا ۔اس لئے میں اسے گھوڑے سے بدل لیا ۔‘‘

’’یہ تو تو نے بہت اچھا کیا ‘‘نوراں خوش ہو کر بولی ’’گائے تو ہمارے پاس ہے مگر گھوڑا نہیں ۔اب تو اس پر چڑھ کر منڈی جایا کرنا ۔ارے او جمن ،ارے او گھمن ۔جاؤ گھوڑا چھپر تلے باندھ دو ۔‘‘

راجا جلدی سے بولا ’’اری نیک بخت ،پوری بات تو سن۔میں گھوڑا لے کر آگے بڑھا تو ایک بکری والا مل گیا۔میں نے اسے گھوڑا دے کر بکری لے لی ۔‘‘

نوراں خوب ہنسی ۔بولی ’’آہا! یہ تو تو نے بہت ہی اچھا کیا ۔تیری جگہ اگر میں ہوتی تو میں بھی ایسا ہی کرتی ۔گھوڑا تو من بھر چارہ روز کھاتا اور پھر تو ایک غریب کسان ۔گھوڑے پر چڑھتا تو لوگ انگلیا ں اُٹھاتے ۔یہ تو تو نے اچھا کیا کہ بکری لے لی ۔بکری کا دودھ ہلکا ہوتا ہے ا ور جلد ہضم ہو جاتا ہے ۔اب میں اپنے بچوں کو بکری کا ہی دودھ پلاؤں گی۔ارے او جمن، ارے او گھمن ،جاؤ بکری کو چھپر تلے باندھ دو۔‘‘

’’ارر۔آگے تو سن ‘‘ راجا بولا ’’میں بکری لے کر ذرا آگے بڑھا تو ایک بھیڑ والا مل گیا ۔میں نے وہ بکری اس کی بھیڑ سے بدل لی ۔‘‘

’’واہ واہ !‘‘ نوراں کھل کھل کر بولی ۔’’یہ تو تونے اتنا اچھا کیا کہ بس جواب نہیں ۔بھلا بکری کا ہم کیا کرتے ۔بھیڑ ہوگی تو اس کا اون کام آئے گا ۔میں اون کا تا کروں گی تو جا کر منڈی بیچ آیا کرنا۔

ارے او جمن ،ارے او گھمن ،جاؤ بھیڑ کو چھپر تلے باندھ دو ۔‘‘

’’ہت تیرے کی !‘‘راجا سر پیٹ کر بولا ’’پوری بات تو تو سنتی نہیں ۔میں بھیڑ لے کر آگے بڑھا تو ایک مرغی والا مل گیا ۔میں نے اُسے بھیڑ دے کر ایک موٹا تازہ مرغا لے لیا۔‘‘

’’کیاکہا؟مرغا لے لیا ؟ارے واہ!نوراں تالیاں بجا کر بولی ’’جُگ جُگ جئے میرا راجا !بھلا سوچ تو سہی۔بھیڑ بھی کوئی پالنے کی چیز ہے ۔دن بھر بیں بیں کر کے گھر سر پر اُٹھائے رکھتی ۔مرغا اچھا ۔صبح سویرے اذان دے گا تو ہم سب اُٹھ جا یا کریں گے۔آج کل نہ جانے کیوں آنکھ دیر سے کھلتی ہے۔ارے او جمن ، ارے او گھمن ،مرغے کو ٹوکری تلے بند کر دو ۔صبح کو میں دڑبا بنا دوں گی۔‘‘

’’اری او خدا کی بندی !‘‘راجا بولا ’’پوری بات نہ سننے کی تو تونے قسم کھائی ہے ۔ذرا آگے تو سن ۔میں مرغا لے کر گھر کی طرف چلا تو شام ہو گئی ۔بھوک نے بے حال کر دیا۔ راستے میں قصبہ آیا تومیں نے مرغا بیچ ڈالا اور خوب ڈٹ کر روٹی کھائی ۔‘‘

’’اے ہے ۔تو اتنی دیر بھو کا رہا !‘‘ نوراں سر پیٹ کر بولی ’’میں نے کہا تھا کہ روٹی ساتھ لیتا جا ۔مگر تو بھلامیری مانتا ہے۔بھاڑ میں جائے گائے اور گھوڑا اور جہنم میں جائے بھیڑ بکری ۔تو اندر چل ،یہاں ٹھنڈ ہے۔میں نے کریلے پیاز پکائے ہیں ۔کھائے گا تو بس مزہ آجائے گا ۔‘‘

راجا کی باچھیں کھل کر کانوں سے جا لگیں ۔اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور بولا’’ارے میاں ساہو کار ! ارے بھئی ،سنتے ہو؟ذرا ادھر تو آؤ ۔‘‘ساہو کار دیوار کی اوٹ سے باہر آیا ۔راجا نے پوچھا ’’کون جیتا؟میں کہ تم ؟‘‘

ساہو کار نے سر جھکالیا۔

راجا بولا ’’یہ روپوں کی تھیلی ذرامجھے پکڑا دو ۔معاف کرنا ۔تمہیں تکلیف تو ہوگی۔‘‘

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top