skip to Main Content

راہ نما

عطاء المصطفیٰ سعید
۔۔۔۔۔۔۔

رات کے گیارہ بج چکے تھے اور میں ایک سنسان سڑک پر اپنی کاراڑائے لیے جارہا تھا۔ سردیوں کی راتوں میں لوگ اس وقت تک اپنے اپنے گھروں میں دبک چکے ہوتے تھے۔ اس لیے سڑک پر کوئی ذی روح نظر نہیں آرہاتھا۔ شدید سردی سے بچنے کے لیے میں نے کار کے شیشے چڑھا رکھے تھے اور ایک غزل بھی گنگنا تا جارہا تھا۔ اچانک میری بے فکری کی کیفیت ٹوٹی اور میں چونک کر پوری قوت سے بریک لگانے پر مجبور ہوگیا۔ چر چراہٹ کی تیز آواز گونجی اور کار عین اس مفلوک الحال اور بھیانک صورت آدمی کے پاس جارکی جو اچانک نہ جانے کہاں سے میری کار کے سامنے آموجود ہوا تھا۔ میں نے سائیڈ کے دروازے کا شیشہ نیچے کیا اور چلایا۔
”اندھے ہو…… نظر نہیں آتا کیا۔ ابھی کار کے نیچے کچلے جاتے تو کون ذمہ دار تھا۔“
مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا کار کے دروازے کے قریب آکھڑا ہوا اور کار کے دروازے کو تھام کر جھک کر مجھے گھورنے لگا۔ میں نے پہلی بار غور سے اسے دیکھا اور میرے بدن میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس کا چہرہ حقیقی معنوں میں دل کو لرزا دینے والا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے چہرے پر تشدد کی انتہا کر دی گئی ہو۔ اس کے جلے ہوئے اور زخموں سے بھر پور چہرے پر اندر کو دھنسی ہوئی چھوٹی چوٹی آنکھیں کسی بھی شخص کو ڈرا دینے کے لیے کافی تھیں۔ مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ رگوں کو منجمد کر دینے والی سردی میں بھی اس کے جسم پر ایک پھٹی پرانی بنیان اور شلوار کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں اپنی تمام تر ہمت جمع کرتے ہوئے بولا۔
”کون ہو تم! اور کیوں اپنی زندگی کے دشمن ہورہے تھے۔ میں بروقت بریک نہ لگا تا تو تمہارا کچومر بن چکا ہوتا۔“
جواب میں اپنے بھدے ہونٹوں کو پھیلاتے ہوئے شاید مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔’’میری موت کا سامان بھی کر رہے ہو اور یہ بھی پوچھتے ہو کہ تم کون ہو۔“ اس کے لہجے میں طنز تھا۔ اس کی یہ فضول بات مجھے ناگوار گزری۔
”کیا بکواس ہے یہ…… سچ سچ بتاؤ تم کون ہو اور کیوں مجھے اس وقت پریشان کرنے پر تلے ہوئے ہو۔“
وہ کچھ دیر تک خاموش کھڑا رہا پھر کہنے لگا۔
”کیا سچ سچ بتادوں۔“ اس نے استہزائیہ انداز میں کہا۔
”ہاں، ہاں۔ بتاؤ۔“
ؔؔ”کیا سچ کا یقین کر لو گے۔“
”ہاں بھئی! تم بتاؤ تو سہی۔ ویسے ہی بات بڑھا ئے جارہے ہو۔“ میں جھنجھلا گیا”تو پھر سنو۔“ اس نے کہا۔ ”میں تمھارا ضمیر ہوں۔ جسے تم نے اپنی برے کرتوتوں سے تقریباََ ختم کر ڈالا ہے۔“
”کیا مذاق ہے یہ۔ سیدھی بات کرو…… پہیلیاں مت بجھواؤ۔“میں نے غصے سے کہا۔
”مجھے یقین تھا تم اسے مذاق ہی سمجھو گے۔ مگر یہ حقیقت ہے۔ تم جیسے دنیا کے پجاری ضمیر کو کچھ نہیں سمجھتے۔ زندگی کے ہر موڑ پر ضمیر تمھارے رو برو ہوتا ہے۔ لیکن تم اسے جھٹلا دیتے ہو جیسا کہ تم اسے مذاق سمجھ رہے ہو۔ اگر یقین نہیں آتا تو اپنے ان اعمال کی رداد سنو جو تمھارے سوا کسی کے علم میں نہیں۔“
پھر جو اس نے میرے جرائم گنوانے شروع تو مجھے یقین کرتے ہی بنی کہ واقعی میرا ضمیر ہی مجھ سے ہم کلام ہے۔ یہ عقدہ کھلتے ہی ایک عجیب سا احساس میرے رگ و پے میں سرایت کر گیا۔ یوں لگا جیسے بھرے بازار میں مجھے چوری کرتے پکڑ لیا گیا ہو۔میرا سر جھک گیا۔وہ گویا ہوا۔
”اے نادان تونے چند سکوں کے عوض کئی بار عزت نفس کا گلہ دبایا۔ انصاف کے تقاضوں کو پامال کیا۔ میری چیخیں تجھے سنائی نہیں دیں جو تو ہمیشہ برائیوں کی جانب ہی لپکتا رہا؟ میں کبھی مطمئن نہیں ہوا۔ اس لیے تو نے بھی کبھی حقیقی سکون حاصل نہیں کیا۔تو نے ہمیشہ مجھے روند کر شیطانی رہ اپنائی۔ آخر تو نے ایسا کیوں کیا؟“ اس کے لہجے میں شدید کرب تھا۔
”کیا تجھے آخرت کا خیال نہ آیا؟ خدا کو کیوں بھول گیا جو تجھ سے ضرور سوال وجواب کرے گا۔ میں ختم ہونے کے قریب ہوں۔تم مجھے بچانا چاہتے ہو یا نہیں۔ یہ تم پر منحصر ہے۔ میری موت کے بعد تم جنگلی درندوں سے بھی بدتر ہو جاؤ گے۔ جو ہر فعل حدوں سے نکل کر کرتے ہیں۔ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ اب آگے تمھاری مرضی۔“ یہ کہتے ہوئے وہ واپس پلٹا اور مجھے یوں لگا جیسے وہ تحلیل ہو کر میرے بدن میں سما گیا ہو۔ کافی دیر تک میں پسینے میں شرابور بے حس و حرکت اپنی جگہ پر بیٹھا رہا۔ پھر میرے بدن میں اپنے ضمیر کے کہے الفاظ گونجنے لگے۔
”میں کبھی مطمئن نہیں ہوا۔اس لیے تم نے بھی کبھی حقیقی سکون حاصل نہیں کیا۔“
اور یہ حقیقت تھے۔ میرے پاس زندگی کی ہر آسائش اور نعمت موجود تھی۔ مگر کبھی میرے دل نے سکون کی بلندیوں کو نہیں چھواتھا۔ کبھی میرا بدن اطمینان اور خوشی سے سرشار نہیں ہوا تھا…… میں ایسے عہدے پر فائز تھاجس میں ایمان داری اور ثابت قدمی کی اشد ضرورت تھی۔مگر میں اس عہدے کے فرائض نہ نبھا سکا اور دولت کی ہوس میں ضمیر کو کچل ڈالا۔
میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر گھوم گیا جب میں نے قومی راز فروخت کر کے پاک دھرتی کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کا سامان کیا تھا۔ اس وقت میرے ضمیر نے چیخ چیخ کر میرے اس گناہ سے روکا تھا مگر نفس کی ہوس نے مجھے اندھا کر دیا تھا…… میرے سامنے وہ لمحات بھی گھوم گئے جب بھاری رقم کے عوض میٹرک پاس لڑکے کو میں نے کئی غریب مگر قابل نوجوانوں پر فوقیت دے کر نوکری دلوائی تھی۔ میرے ضمیر کو اس وقت بھی قرار نہ آیا تھا مگر میری نظر میں دولت سب کچھ تھی نہ کہ انسانی قدریں ……
ایسے بے شمار جرائم کر کے میں نے اپنے بینک کو تو دولت سے بھر لیا تھا مگر یہ بھول گیا تھا کہ سکون کی دولت دنیا بھر کے جواہرات سے بھی نہیں خریدی جاسکتی۔ اس وقت تمام گزرے ہوئے گناہ سوچ سوچ کر مجھے عجیب سی بے چینی اور دکھ سا محسوس ہورہا تھا۔ ”اف یہ کیا کرتا رہا“ پچھتاوا میرے اندر آگ سی لگا رہا تھا۔ ”میں اپنے دامن سے گناہوں کی اس سیاہی کو کیسے دھوؤں گا۔“ احساس زیاں میرے اندر ٹوٹ پھوٹ مچا رہا تھا۔
”کاش۔ کاش میں نے یہ سب نہ کیا ہوتا ……کاش۔“ میرے دل کی گہرائیوں سے صدا نکلی اور ساتھ ہی میرے گلے میں آنسوؤں کا پھندا سا پڑ گیا۔ مجھے اب محسوس ہوا تھا کہ میں نے ساری عمر بے چینی اور اضطراب میں گزاردی تھی اور اب یہ بے چینی عروج پر تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ فریبی اور غلط کار شخص کبھی سکھی نہیں رہ سکتا۔ وہ اندر ہی اندر ٹوٹتا رہتا ہے اور بالآخر بکھر جاتا ہے۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ جی چاہتا تھا کہ زمین شق ہو اور میں اس میں اتر جاؤں مگر یہ پاک زمین میرے لیے اتنی مہربان ثابت نہ ہو سکتی تھی۔ جب دل کا بوجھ ہلکا ہوا تومیں نے دل میں ایک فیصلہ کیا اور کار ایک جھٹکے سے آگے بڑھادی۔
نئی صبح میرے گھر والوں کے لیے حیرانی و پریشانی کا پیغام لے کر آئی تھی۔ صبح کے وقت میں دفتر جانے کے بجائے اپنے ضمیر کو موت سے بچانے کے لیے تھانے جا پہنچا تھا اور اپنی تمام غداریوں کا اعتراف کر لیا تھا۔ اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے مجھے یوں لگا جیسے میرے کندھوں سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہو۔ اب جیل میں ہوں مگر میرے دل کو ایک عجیب سی خوشی اور اطمینان حاصل ہوا ہے۔ ایک ایسا اطمینان جو مجھے کبھی نصیب نہیں ہوا تھا۔ یقینا میرے ضمیر کے اطمینان نے میرے اندر سکون کی شمع روشن کر دی تھی۔
جیل کے اندر پہلی رات میں زمین پر لیٹا ہوا اپنے گزرے ہوئے حالات پر غور کر رہا تھا کہ اچانک تاریک کمرہ دودھیا روشنی سے منور ہوگیا۔ اس غیر متوقع افتاد پر میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ میرے سامنے میرا ضمیر موجود تھا۔ وہ ضمیر جو پہلے موت کی دہلیز پر کھڑا تھا جو کہ مسخ ہو چکا تھا۔ مگر اب اس کا چہرہ خوب روشن ہورہا تھا اور کمرے میں موجود روشنی اس کی آمد کا نتیجہ تھی۔ ایک دل آویز مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر جیسے ثبت ہو کر رہ گئی تھی۔
وہ مجھ پر نظریں گاڑے ہوئے بولا۔
”تم نے مجھے موت سے بچا کر خودکو نئی زندگی دے دی ہے۔ میں مطمئن ہوں کہ تم راہ رست پر آچکے ہو۔ خدا تمھاری مدد ضرور کرے گا۔ تمھیں اس کا صلہ ضرور دے گا۔“
یہ کہہ کر وہ تحلیل ہوگیا اور میں خدا کے حضور سجدے میں گر گیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top