skip to Main Content

۲ ۔ قریشی سردار

نظرزیدی

۔۔۔۔۔۔

زید کو منہ بولا بیٹا بنانے والے قریشی سردار کا نام محمد ؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب تھا ۔عربوں کا قاعدہ ہے کہ کسی آدمی کا نام بتائیں تو ساتھ اس کے باپ کا نام بھی بتاتے ہیں ۔جیسے ہم نے قریشی سردار کا نام محمد بن عبد اللہ لکھا ۔بن کا مطلب ہے بیٹا۔کسی عورت کا نام بتائیں تو بن کے بجائے بنت لکھتے یا بولتے ہیں ۔جس کا مطلب بیٹی ہے۔اس قاعدے کے مطابق قریشی سردار کا نام یوں ہوا:محمد عبداللہ کے فرزند اور عبداللہ عبدالمطلب کے فر زند۔
معزز سردار کو قریشی اس وجہ سے کہا جاتا تھا کہ ان کا تعلق مکہ شہر کے قبیلے قریش سے تھا ۔اس قبیلے کو نہ صرف مکہ بلکہ پورے عرب میں سب سے زیادہ طاقتور اور عزت والا سمجھا جاتا تھا ۔اس بڑائی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس قبیلے کے لوگ بہت عقلمند ‘بہادر اور امیر تھے۔ وہ عام طور پر تجارت کرتے تھے اور اپنے اس کاروبار میں بہت روپیہ کماتے تھے ۔عرب میں جو چیزیں پیدا ہو تی تھیں وہ ملک شام ‘عراق‘ یمن اور مصر وغیرہ لے جاتے تھے اور دوسرے ملکوں کا سامان لا کر اپنے شہروں میں فروخت کرتے تھے۔ان لوگوں کی اچھا ئیوں کی وجہ سے دوسرے ملکوں میں ان کی بہت عزت کی جا تی تھی ۔
ٍ اس قبیلے کے معزز سمجھے جانے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ دنیا کی سب سے پہلی عبادت گاہ یا مسجد‘کعبہ شریف کی حفا ظت اور دیکھ بھال کا کام یہی قبیلہ کرتا تھا اور جو لوگ حج کرنے کے لیے آتے تھے ان کی خدمت بھی یہی قبیلہ کرتا تھا ۔
کعبہ شریف وہ مقدس عبادت گاہ ہے جس کی طرف ساری دنیا کے مسلمان منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں ۔
کعبہ شریف کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کی بنیاد سب سے پہلے ہم سب کے باپ اور سب سے پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام نے رکھی تھی ۔حضرت آدم علیہ السلام کے بعد کچھ عرصہ یہ عبادت گاہ باقی رہی اور اس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ہوتی رہی ‘لیکن پھر ایسا ہوا کہ اس کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا ۔لوگوں نے سچے دین اسلام کو چھوڑ کر نئے نئے مذہب کی عبادت گاہیں بنا لیں ۔کعبہ کو لوگ بھول ہی گئے۔
کافی زمانہ اسی طرح گزر گیا پھر مشہور پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ مسجد دوبارہ تعمیر کی اوریہ اعلان کیا کہ سب لوگ حج کرنے کے لیے مکہ آیا کر یں اور کعبہ شریف میں نمازیں پڑ ھنے کے علاوہ اللہ کے اس گھر کا طواف کیا کریں ۔
طواف عربی زبان کا لفظ ہے اس کا مطلب ہے کسی چیز کے گرد چکر لگانا ۔کعبہ کے طواف سے دراصل یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اللہ کے اس گھر سے سچی عقیدت اور محبت ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کے بعد لوگوں نے پھر اپنا دین بدل لیا تھا ۔یہاں تک کہ کعبہ شریف کے اندر بت رکھ دیئے تھے اور انہی کی عبادت کیا کرتے تھے ‘لیکن حج کرنے کا طریقہ باقی تھا اور جب حاجی ‘یعنی حج کرنے والے مکہ آ تے تھے ‘توقریش قبیلے کے لوگ ان کی حفاظت اور انہیں آرام پہنچا نے کی پوری کو شش کرتے تھے اور اسی وجہ سے ان کی عزت کی جاتی تھی ۔
ٍ اس قبیلے کا نام قر یش کیوں پڑا؟ اس کے متعلق کئی باتیں بیان کی جاتی ہیں ۔ان میں دو زیادہ مشہور ہیں ‘ایک تو یہ کہ یہ نام عربی زبان کے لفظ قرش سے نکلا ہے۔قرش کا مطلب ہے :کمانا اور جمع کرنا۔ اندازہ یہ ہوتا ہے کہ اس قبیلے کے لوگوں میں شروع سے یہ خوبی تھی کہ وہ خوب محنت سے روزی کماتے تھے ۔ جو روپیہ کماتے تھے اسے حفاظت سے جمع کرتے تھے اور پھر بھلائی کے کاموں میں خرچ کیا کرتے تھے چنانچہ انہی باتوں کی وجہ سے انہیں قریش کہا جائے گا ۔
دوسری روا یت یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس قبیلے کا ایک بزرگ قر یش بد ر بن بخلو بن نضر بھولے بھٹکے قافلوں کو راستہ بتایا کرتا تھا۔ اس نیکی کی وجہ سے اس کی اولاد کو قریش یا قریشی کہا جانے لگا ۔بہر حال وجہ کچھ بھی ہو ‘لیکن یہ بات سب مانتے ہیں کہ پورے عرب میں اس قبیلے کو سب سے زیادہ معزز مانا جاتا تھا۔
قریشی سردار محمدؐبن عبداللہ کے دادا عبدالمطلب اس زمانے میں قریش کے سردار تھے اور وہ ایسی خوبیوں کے بزرگ تھے کہ کوئی بھی ان کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا ۔
قریشی سردار کی پیدائش
قریشی سردار کے والد صاحب حضرت عبداللہ کے بارے میں ایک عجیب بات بیان کی جاتی ہے۔کہتے ہیں کہ ان کے والد صاحب ‘عبدالمطلب نے یہ منت مانی تھی کہ اگر ان کے دس بیٹے ان کی زندگی میں جوانی کی عمر کو پہنچ گئے ‘تو وہ ان میں سے ایک کو اللہ کے نام پر قربان کر دیں گے ‘اس زمانے میں منتیں ماننے کا تو عام رواج تھا ‘لیکن بیٹے کو قربان کردینے کی یہ منت ایک نرالی بات تھی۔
اب ہوا یہ کہ سردار عبدالمطلب کے دس بیٹے ان کی زندگی میں ہی جوان ہو گئے اور اپنی منت پوری کرنے کے لئے انہوں نے قرعہ ڈالاکہ جس بیٹے کا نام نکل آئے گا اسی کو قربان کر دیں گے۔
عبدالمطلب نے قرعہ ڈالا تو ان کے سب سے چھوٹے بیٹے حضرت عبداللہ کا نام نکلا اوریوں یہ بات ضروری ہو گئی کہ انہیں قربان کر دیا جائے۔
حضرت عبداللہ اپنے بھائیوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور نیک تھے اور ان کی ان اچھائیوں کی وجہ سے سبھی ان سے بہت محبت کرتے تھے ۔ان کا نام نکلا تو خاندان کے سب لوگوں کو بہت رنج ہوا۔لوگوں نے عبدالمطلب کو یہ بھی کہا کہ اگر آپ نے اپنے بیٹے کو قربان کیا تو یہ رواج پڑ جا ئے گا۔عبدالمطلب کو بھی یہ بات ٹھیک لگی اورآخر یہ فیصلہ ہوا کہ حضرت عبداللہ اور اونٹوں کے درمیان قرعہ ڈالا جائے اور اگر عبداللہ کے بجائے اونٹوں کا نام نکل آئے ‘ تو ان کی جگہ اونٹ قربان کر دیے جائیں ۔قرعہ ڈالا گیا اور خوش قسمتی سے اونٹوں کا نام نکل آیا ۔یوں حضرت عبداللہ کی جان بچ گئی ۔ان کی جگہ سو اونٹ قربان کر دئیے گئے۔
اس مصیبت سے بچ جانے کے بعد حضرت عبداللہ نے قبیلے بنو زہرہ کے سردار وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرۃ کی بیٹی حضرت آمنہ سے شادی کی جو اپنی اچھی عادتوں کی وجہ سے اس وقت عرب کی تمام عورتوں سے بڑھ کر سمجھی جاتی تھیں۔ان کی والدہ کا نام براۃ بنت العزیٰ تھا۔
قبیلہ بنو زہرا بھی قبیلہ قریش کی ایک شاخ تھا۔آگے چل کر اس کا سلسلہ نسب فہر یا قریش سے مل جاتا تھا جس کی وجہ سے اس قبیلے کا نام قریش مشہور ہوا تھا۔
حضرت عبداللہ شادی کے بعد تین دن اپنے سسرال میں رہے اور پھر تجارت کا سامان لے کرایک قافلے کے ساتھ ملک شام چلے گئے۔یہ حضرت عبداللہ کی زندگی کا آخری سفر تھا ۔وہ واپس آتے ہوئے راستے میں بیمار ہو گئے اور بیماری کی وجہ سے مدینہ میں رک گئے۔ان کے والد صاحب کے نانا کا گھر اسی شہر میں تھا ۔اس زمانے میں اس شہر کا نام یثرب تھا۔بیماری نے زور پکڑا اور یہیں آپ کا انتقال ہو گیا۔اس وقت آپ کی عمر چوبیس برس تھی۔
جس برس عبداللہ کا انتقال ہوا اسے عام الفیل کہا جاتا ہے۔اس برس کا یہ نام اس لئے مشہور ہوا کہ حبشہ کے بادشاہ کی طرف سے یمن پر حکو مت کرنے والے حبشی سردار نے ہاتھیوں کا لشکر لے کر مکہ پر چڑھائی کی تھی۔عر بی زبان میں ہاتھی کو فیل کہتے ہیں ۔اسی وجہ سے اس برس کو عام الفیل کہا جانے لگا۔
اس موقع پر آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ مظلوم زید کو منہ بولا بیٹا بنانے والے اور اسے غلامی کی مصیبت سے نکالنے والے قریشی سردار حضرت محمد ؐانہی عبداللہ بن عبدالمطلب کے بیٹے تھے اور یہی وہ محمد ﷺبن عبد المطلب ہیں جو سب نبیوں کے سردار اور دین اسلام کومکمل کرنے والے ہیں ۔ ہم مسلمان آپؐہی کی امت ہیں۔
جس وقت آپؐ کے والد صاحب حضرت عبداللہ کا انتقال ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی والدہ صاحبہ کے شکم میں تھے۔اس سلسلے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب حضرت عبداللہ کا نتقال ہو ا آپ ﷺ کی عمر دو مہینے ‘سات مہینے یا آٹھ مہینے تھی۔یہ بات حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب سید المرسلین میں لکھی ہے۔
آپ ؐکے پیدا ہونے کی تاریخ کے بارے میں بھی دو باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ایک یہ کہ آپؐ ربیع الاول کی ۱۲ تا ریخ پیر کے دن پیدا ہوئے۔یہ بہار کا موسم تھا اور آپ ؐ نور کے تڑ کے دنیا میں تشریف لائے۔سن عیسویں کے حساب سے اپریل ۵۷۱ ء کی۲۲تاریخ تھی۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپؐربیع الاول کی ۹ تاریخ ‘پیر کے دن دنیا میں تشریف لائے ۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ ہی نے اپنی کتاب میں یہ دوسری تاریخ بھی لکھی ہے ‘بہرحال اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ جب آپؐ دنیا میں آئے بہار کا مو سم ‘ربیع الاول کا مہینہ اور پیر کا دن تھا ۔
آپ کے دادا نے آپؐ کا نام محمد ؐاور والدہ صا حبہ نے احمدؐ رکھا۔آپؐ کی پیدائش کے وقت ایسی بہت سی نشانیاں ظاہر ہوئیں جن سے یہ اندازہ ہوا کہ دنیا میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے ۔مثال کے طور پر ایران کے بادشاہ کسریٰ کے محل کو زلزلے نے ہلا دیا اور اس کے چودہ کنگرے گر گئے اور آگ کی پوجا کرنے والے ایرانیوں کی عبادت گاہ میں جلنے والی وہ آگ بجھ گئی جو ایک ہزار برس سے برابر جل رہی تھی۔
رسول اللہؐ کا بچپن
رسول اللہ ؐ کے دادا عبدالمطلب کو آپ ؐکے دنیا میں تشریف لانے کی خبر ملی تو وہ آپ ؐ کوکعبہ شریف میں لے گئے اور وہاں آپؐ کے لیے دعائیں مانگیں ۔
جب آپ ؑ کی عمر سات دن کی ہوئی تو عبدالمطلب نے آپؑ کا عقیقہ کیا‘یعنی جانور ذبح کر کے برادری کے لوگوں کی دعوت کی اور آپ ؐ کے سر کے بال اتروائے۔
اس زمانے میں قریش اپنے بچوں کوگاؤں میں رہنے والی عورتوں کے ساتھ بھیج دیتے تھے جو انہیں دودھ پلاتی تھیں اور گاؤ ں کے صاف ستھرے ماحول میں پر ورش کرتی تھیں۔
جب حضور ؐ دنیا میں تشریف لائے ،دیہات کی کچھ عورتیں اس لئے مکہ آئی تھیں کہ قریش کے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے اپنے ساتھ لے جائیں۔ان عورتوں میں قبیلہ بنو سعد کی ایک خوش قسمت خاتون حضرت حلیمہ سعدیہ بنت ابی زوہیب بھی تھیں۔حضورؐ کو یہی خاتون اپنے ساتھ لے گئیں اور یوں انہیں یہ عزت حاصل ہوئی کہ انہوں نے اس مبارک بچے کو دودھ پلایا جو دنیا کا سب سے بڑا انسان اور سارے نبیوں کا سردار بنا۔
حضرت حلیمہ کے خاندان کا نام الحارث تھا اور ان کے تین بچے تھے۔ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ۔لڑکے کانام عبداللہ اور لڑکیوں میں سے ایک کا نام انیسہ اور دوسری کانام شیبہ تھا۔
حضور ؐ کو دودھ پلانے کے سلسلے میں یہ روایت بھی ہے کہ آپؐکو سب سے پہلے آپؐکی والدہ صاحبہ حضرت آمنہ نے دودھ پلایا اور ان کے بعدآ پ ﷺ کے چچا ابو لہب کی کنیز ثوبیہ نے دودھ پلایا اور ان کے بعد حضرت حلیمہ اپنے ساتھ لے گئیں ۔
حضرت حلیمہ سعدیہ کے ساتھ جانے سے پہلے جس خاتون نے آپؐ کو گود کھلایا تھا وہ آپؐ کے والد صاحب کی کنیز حضرت ام ایمن تھیں ۔حضور ؐ کی برکت سے ان دونوں کنیزوں کو آزاد کر دیا گیا
حلیمہ کے گھر بر کتوں کی بارش
دیہات کی جو عورتیں قریش کے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے لینے مکہ آئی تھیں ان میں حضرت حلیمہ سب سے غریب تھیں۔ان کی سواری کی اونٹنی بالکل کمزور اور دبلی پتلی تھی‘لیکن جب انہوں نے حضور ؐ کو دودھ پلانے کے لیے لیا اور اپنے گھر کی طرف چلیں ‘تو یہ برکت ظاہر ہوئی کہ ان کی وہی کمزور اونٹنی قافلے کے سب جانوروں سے زیا دہ تیز چلنے لگی ۔
اس کے بعد دوسری برکت یہ ظاہر ہوئی کہ حضرت حلیمہ کی بکریوں نے پہلے سے زیادہ دودھ دینا شروع کر دیا۔اسی طرح دوسری چیزوں میں بھی بر کت نظر آنے لگی اور کچھ ہی دنوں میں حضرت سعدیہ خوش حال ہو گئیں۔
حضرت حلیمہ سعدیہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دو برس دودھ پلایا ۔بچوں کو اتنے ہی دن دودھ پلایا جاتا تھا ۔جب آپؐدو برس کے ہوگئے تو حضرت حلیمہ آپ کو مکہ لے آئیں ‘لیکن حضرت آمنہ سے کہا کہ آپ اپنے بیٹے کو کچھ دن اور میرے ساتھ رہنے دیں ۔
حضرت آمنہ نے یہ بات مان لی اور حضرت حلیمہ آپؐ کو اپنے ساتھ پھر اپنے گاؤں لے گئیں ۔آپ ؐ دو برس اور ان کے پاس رہے ۔چار برس عمر ہوئی تو حضرت حلیمہ نے آپؐ کو آپؐ کی والدہ صاحبہ کے پاس مکہ پہنچا دیا ۔
ان چار برسوں میں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حلیمہ سعدیہ کے گھرگزارے۔ حضرت حلیمہ چھ چھ مہینے بعد آپؐ کو آپؐ کی والدہ صاحبہ سے ملانے کے لئے مکہ لا تی رہیں ۔
حضرت حلیمہ کے گھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت خوش رہے۔آپؐ کے دودھ شریک بھا ئی اور بہنیں‘یعنی حضرت حلیمہ کے بچے اپنی بکریاں چرانے کے لیے جنگل لے جا یا کرتے تھے اور ان کے ساتھ کھیلتے رہتے تھے ۔
ایک عجیب واقعہ
ٍ اس زمانے میں ایک بہت عجیب واقعہ بھی ہواکہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ جنگل میں تھے کہ دو فرشتے انسانوں کی شکل میں ظاہر ہوئے اور انہوں نے آپؐ کا سینہ چاک کر کے آپؐ کا دل باہر نکالا۔کالے رنگ کی کوئی چیز الگ کی اور پھر سینے میں رکھ کرزخم بند کر دیا ۔
آپ ؐ کے دودھ شریک بھائی اور بہنیں یہ دیکھ کر بہت ڈرے ۔بھاگے بھاگے اپنی ماں کے پاس آئے اور ان سے کہا’’ہمارے قریشی بھائی کو دو آدمیوں نے مار ڈالا۔‘‘
یہ بات سن کر حضرت حلیمہ جنگل میں گئیں ‘تو وہاں آپؐ کو بالکل ٹھیک حالت میں دیکھا۔یہ دراصل پہلا معجزہ تھا جو آپؐ کی زندگی میں ظاہر ہوا۔
معجزہ ایسے واقعے کو کہتے ہیں جس میں انسان کی کوشش اور ارادے کو بالکل دخل نہ ہو بلکہ وہ اللہ کی قدرت کی وجہ سے ظاہر ہوا ہو اور ایسا عجیب ہو کہ بڑے سے بڑاعقل مند آدمی بھی یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ کس طرح ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص مہر بانی سے اپنے نبیوں اور رسولوں کو معجزے دیئے تھے ۔مثال کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزہ دیا تھا کہ اپنی لاٹھی زمین پر ڈالتے تھے تو وہ سانپ بن جاتی تھی اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر باہر نکالتے تھے ‘تو وہ چمکنے لگتا تھا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ دیا تھا کہ آپ پیدائشی اندھے کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرتے تھے تو اس کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہو جاتی تھیں اور کوڑھی کے بدن پر ہاتھ پھیرتے تھے تو تو وہ تندرست ہو جاتا تھا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سب نبیوں سے زیادہ معجزے دیئے تھے۔ان کے بارے میں آگے چل کر بتائیں گے۔ان میں پہلا معجزہ یہی تھا کہ فرشتوں نے آپؐ کا سینہ چیر کر دل باہر نکالا اور اس سے کالے رنگ کی کوئی چیز دور کر کے پھر سینے میں رکھ دیا اور سینے کا زخم اس طرح ٹھیک ہو گیا جیسے تھا ہی نہ۔
بزرگوں نے اس سلسلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ آپؐ کے دل سے کالے رنگ کی کو ئی چیز دور کر کے اسے نور سے بھر دیا گیا تھا ایسا کرنے سے وہ ساری کمزوریاں آپؐ سے دور ہو گئیں جو عام انسانوں میں ہوتی ہیں اور ایسی سب اچھائیاں مل گئیں کہ کسی اور کو نہیں ملیں۔
والدہ صا حبہ کا انتقال
حضرت حلیمہ سعدیہ اس وقت آپ ﷺکو حضرت آمنہ کے پاس چھوڑ گئی تھیں جب آپ کی عمر چار برس تھی۔جب آپ ؐ کی عمر چھ برس ہوئی تو آپؐ کی والدہ صاحبہ اپنے ساتھ مدینہ لے گئیں ۔یہ سفر انہوں نے ایک تو اس وجہ سے کیا کہ آپؐ کے دادا کے ننھیال والوں سے ملانا چاہتی تھیں ۔ دوسرے اپنے شوہر‘یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ کی قبر کی زیارت کرنا چاہتی تھیں۔
چند دن مدینہ میں ٹھہر کر جب آپ مکہ لوٹ رہی تھیں ‘تو’ الابواء‘ نامی مقام پر آپ کا انتقال ہو گیا ۔آپ کے والد کی کنیز ام ایمن برکہ حبشیہ ساتھ تھیں وہی حضور ﷺ کو اپنے ساتھ مکہ لائیں اور آپؐ کے دادا حضرت عبدالمطلب کے سپرد کیا۔
عبدالمطلب نے آپؐ کی پرورش بہت محبت سے کی ۔آپ ؐ ان کے اس بیٹے کی اولاد تھے جسے وہ بہت چاہتے تھے ‘دوسرے خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی پیاری پیاری شکل و صورت اور اچھی عادتوں کی وجہ سے ایسے تھے کہ جو دیکھتا تھا اسے آپؐ پر پیار آتا تھا ۔بیان کیا جاتا ہے عبدالمطلب آپ کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے تھے ۔
دادا کا انتقال
عبدالمطلب اپنے پیارے پوتے کو بہت محبت سے پرورش کر رہے تھے ۔وہ چاہتے تھے کہ ان کا یتیم پوتا اس طرح پھلے پھو لے کہ اپنی عمر کے بچوں میں سب سے اچھا بن جائے ۔وہ قیمتی خزانے کی طرح حضورؐ کی حفاظت کرتے تھے ‘لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔وہ اچانک بیمار ہوئے اور ۸۳ برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا ۔
دادا کی وفات کے وقت حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر آٹھ برس دو ماہ اور دس دن تھی۔
دادا کی وفات کے بعد آپؐکے چچا ابو طالب آپؐ کو اپنے گھر لے گئے اور دادا ہی کی طرح بہت محبت سے دیکھ بھال کرنے لگے ۔
اس چھوٹی عمر میں بچوں کو زیادہ سمجھ بوجھ نہیں ہوتی ۔وہ اچھی اچھی چیزوں کے لیے ضد کرتے ہیں ۔آپس میں لڑتے جھگڑتے اور ہر وقت کھیل کود میں لگے رہنا چاہتے ہیں ‘لیکن حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایسی ایک بھی عادت نہ تھی ۔آپؐ کی عادتیں بہت ہی اچھی تھیں ۔بھول کر بھی کوئی ایسا کام نہ کرتے تھے جو برا لگے‘یہاں تک کے عام بچوں کے ساتھ گلی محلے میں کھیلتے بھی نہ تھے ۔آپؐ بہت حیا دار تھے۔ کسی سے کچھ کہنا ہوتا ‘تو بہت ادب اور تمیز سے کہتے ۔آپؐکے ہر کام اور ہر بات میں بڑائی اور پاکیزگی نظر آتی تھی ۔دیکھنے والوں کو آسانی سے اندازہ ہو جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو خاص خوبیاں دی ہیں ۔
بکریوں کی رکھوالی
حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے حالات میں یہ بات بھی بتائی جاتی ہے کہ جب ذرا سیانے ہوئے تو بکریاں چرانے کے لیے جنگل لے جایا کرتے تھے ۔یہ بکریاں آپؐ کے چچا ابو طالب کی بھی ہوتی تھیں اور مکہ کے کچھ اورلوگوں کی بھی جو آپ کو اس کام کی کچھ مزدوری دیا کرتے تھے ۔
کہا جاتا ہے کہ بکریاں چرانا ایک ایسا کام ہے جو قریب قریب سبھی پیغمبروں نے کیا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اس زمانے کا ایسا واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ پچپن ہی سے سچے اور ایماندار تھے ۔
ایک دن ایسا ہوا کہ ریوڑ کی ایک بکری گم ہو گئی ۔آپؐ اسے بہت ڈھونڈتے رہے ‘لیکن بکری نہ ملی ‘ یہاں تک کہ شام ہو گئی اور آپؐ کے ساتھی چرواہے لڑکے اپنی بکریاں بستی کی طرف لے جانے لگے ۔ایک ساتھی نے آپؐ سے کہا ’’تم یہ کہہ دینا کے بکری کو بھیڑیا کھا گیا ۔سب اس بات کو سچ مان لیں گے ۔پریشان کیوں ہو رہے ہو۔ہمارے ساتھ چلو۔‘‘
یہ بات ایسی تھی کہ اسے سب مان لیتے‘ایسے حادثے ہوتے ہی رہتے تھے‘لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات نہ مانی۔فر مایا ’’میں جھوٹ نہیں بول سکتا ۔‘‘اور اس وقت تک جنگل ہی میں رہے جب تک بکری مل نہ گئی۔
تجارتی سفر
قریش کے دوسرے لوگوں کی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب تجارت کیا کرتے تھے۔ایک بار تجارت کا سامان لے کر ملک شام جانے لگے‘تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ساتھ جانے کے لیے کہا۔عبدالمطلب کی طرح ابو طالب بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت محبت کرتے تھے۔آپؐ نے ساتھ جانے کے لیے شوق ظاہر کیا‘تو انہوں نے آپؐ کو اپنے ساتھ لے لیا۔اس وقت آپ کی عمر بارہ برس تھی۔
ابو طالب سفر کرتے ہوئے جب بصریٰ نامی بستی میں پہنچے ‘تو ایک عیسائی راہب نے ان سے کہا ’’اے قریشی سردار‘آپ کے ساتھ جو بچہ ہے، میں اس میں وہ نشانیاں دیکھ رہا ہوں جو آنے والے نبی میں ہوں گی۔مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درخت اور پتھر اس بچے کو سجدہ کرتے ہیں۔میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اسے آگے نہ لے جائیں ۔اسی جگہ سے مکہ لوٹ جائیں۔اگر یہودیوں نے پہچان لیا ‘تو وہ اسے زندہ نہ چھوڑیں گے۔وہ یہ چاہتے ہیں کہ آنے والا نبی ان کی قوم میں پیدا ہو۔‘‘
جس راہب نے یہ بات کہی اس کا نام’ بحیرا‘تھا اور اسے یہ بات اس وجہ سے معلوم ہوئی تھی کہ پہلی آسمانی کتابوں میں یہ بات بتائی گئی تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد آخری نبی دنیا میں آئے گا۔
ابو طالب اپنے بھتیجے میں نیکی اور بھلائی کی ایسی نشانیاں خود بھی دیکھ رہے تھے جو عام بچوں میں نہیں ہوتیں۔راہب کی یہ بات سنی‘تو اسی جگہ سے مکہ لوٹ آئے۔
جیسا کہ پہلے بتا چکے ہیں ‘اس عیسائی راہب کا نام بحیراتھا۔راہب ان عیسائیوں کو کہا جاتا ہے جو دنیا کے کام دھندے چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگ جاتے ہیں۔ہمارے مذہب اسلام نے ایسا کرنے سے روکا ہے۔اسلام کا حکم ہے دنیا کے کام دھندے بھی اس طرح کیے جائیں جیسا دین نے کہا ہے تو وہ بھی عبادت بن جاتے ہیں ۔بس یہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ جن کاموں سے اللہ اور اسکے نبی ؐ ناراض ہوں، وہ نہیں کرنے چاہئیں اور پوری طرح ایماندار رہنا چاہیے۔
ایک سبق
اب تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاک زندگی کے جو حالات پڑھے وہ بارہ سال کی عمر تک کے ہیں ۔ان حالات اور واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شروع زندگی ہی سے آپ ﷺ کو سخت مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔مثال کے طور پر پیدا ہونے سے پہلے ہی والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔صرف چھ برس کے تھے کہ والد ہ صاحبہ دنیا سے تشریف لے گئیں ۔آٹھ برس کے ہوئے تو دادا کا بھی انتقال ہو گیا ۔چھوٹی سی عمر میں آپ کو اتنے صدمے سہنے پڑے۔
ان صدموں کے علاوہ آپ ﷺ کو غربت کی تکلیفیں بھی سہنا پڑیں ۔آپ کے دادا خوشحال تھے ‘ان کی زندگی میں آپ ﷺکو کسی قسم کی پریشانی نہ ہوئی‘لیکن چچا ابو طالب زیادہ امیر نہ تھے۔بال بچے زیادہ اور آمدنی کم تھی۔ظاہر ہے ایسی حالت میں تنگی ترشی ہی سے گزارا ہوتا ہوگا ۔اسی لیے تو آپ ؐ نے بکریاں چرائیں۔
ایک کم عمر بچے کو ایسی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے‘تو اس کی زندگی پر ان کا اثر پڑتا ہے۔جن لوگوں نے اچھائی اور نیکی کا راستہ چھوڑ کر بری عادتیں اپنا لیں وہ اپنے برابن جانے کی یہی وجہ بتاتے ہیں کہ شروع زندگی میں انہیں سخت مصیبتیں اٹھا نا پڑیں اور ان مصیبتوں کی وجہ ہی سے ان کی عادتیں بگڑ گئیں‘لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاک زندگی سے پہلا سبق یہی ملتا ہے کہ اچھی عادتیں اختیار کرنے اور اپنی زندگی کو پاک صاف رکھنے کے لیے مال ودولت اور پریشانیوں سے پاک حالات کی اتنی ضرورت نہیں جتنی اپنے آپ کو اچھا بنانے کے پکے ارادے کی ہے ۔جتنی پریشانیاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھا نی پڑیں اور کسی کو کم ہی اٹھانی پڑی ہوں گی‘لیکن ان کا آپؐ کی عادتوں پر ذرا بھی اثر نہ پڑا۔آپؐ نے ایسی ایک عادت بھی اختیار نہ کی جو کسی کو بری لگتی۔ایسی پاک صاف زندگی گزاری کہ دشمنوں کو بھی تعریف کرنا پڑی۔
دوسری بات یہ کہ اگر کسی بچے کے پیدا ہونے کے بعد رنج بھرے واقعات ہوں ‘تو لوگ اس کے بارے میں کہنے لگتے ہیں کہ وہ منحوس ہے۔ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زندگی سے یہ خیال بھی غلط ہو جاتا ہے۔آپؐ ابھی ماں کے شکم میں تھے کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا ۔پھر والدہ صاحبہ اور دادا بھی دنیا سے تشریف لے گئے۔یہ سب کچھ ہوا لیکن اس بات میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ آپؐ سے زیادہ مبارک پوری تاریخ میں کوئی نہیں۔نہ ویسا پاک کوئی ہے نہ ویسا اچھا کوئی ہے ۔
ہم اپنی دنیا میں جس قدر خوبصورتی اور پاکیزگی دیکھتے ہیں وہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہی حاصل ہوئی ہے۔آپؐ سے پہلے دنیا کی جو حالت تھی اس کا کچھ حال بچے اس کتاب کے پہلے صفحات میں پڑھ چکے ہیں۔
اس بات کو بھی آپؐ کا معجزہ ہی کہا جائے گا کہ آپؐ نے دنیا میں تشریف لاتے ہی انسانی برادری کو یہ بتا دیا کہ نیک اور اچھا بننے کا تعلق امیر اور خوشحال ہونے سے نہیں ‘بلکہ نیک اور اچھا بننے کے پکے ارادے سے ہے۔دوسرے یہ کہ کسی بچے کے پیدا ہونے کے بعدغم بھرے واقعات کا ہونا اسی کی نحوست کی وجہ سے نہیں ہوتا‘بلکہ ایسے واقعات تو اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق ہوتے رہتے ہیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top