قسمت کی دیوی
یونان کی کہانی
رضوانہ سید علی
۔۔۔۔۔
ایک بوڑھا بھکاری بہت دیر سے گلی گلی جا کر صدائیں لگار ہاتھا مگر اسے ابھی تک بھیک نہیں ملی تھی۔ ویسے یہ بوڑ ھاتھا بھی بہت لالچی۔ نہ جانے کتنے پیسے جمع کر کر کے اپنی جھونپڑی میں گاڑر کھے تھے لیکن اپنا گزارہ بھیک مانگ کر ہی کرتا تھا۔ آج وہ امیروں کی بستی میں آیا تھا پر ابھی تک کسی نے اسے ایک دھیلہ تک نہ دیا تھا۔ اسے کافی غصہ آ رہا تھا۔ وہ کچھ دیرا ایک درخت کے نیچے بیٹھار ہا کیونکہ صبح سے پھرتے پھرتے اسکی ٹانگیں تھک گئی تھیں۔ پھر وہ دوبارہ بھیک مانگنے کے لئے گلیوں میں گھس گیا۔ اس نے ایک ایسے امیر آدمی کے گھر میں جھانکا جسکے جہاز مال لے کر چین تک جاتے تھے۔ وہ بہت دیر تک گلا پھاڑ پھاڑ کر صدائیں لگاتا رہا اور یہ کہتا رہا کہ کاروبار پھلے پھولے،محل سلامت رہیں پر جب کوئی کچھ دینے کو نہ آیا تو جل کر کہنے لگا کہ تمام جہاز غرق ہوں اور محلوں کو آگ لگے۔ یہ سنتے ہی نجانے کہاں سے دو ملازم نکل آئے اور انہوں نے دھکے دے کر اسے دروازے سے ہٹا دیا۔ کچھ آگے ایک گھر کے مالک کے بارے میں مشہور تھا کہ اس نے اپنی تمام دولت جوا کھیل کھیل کر جوڑی ہے۔ بھکاری وہاں بھی طرح طرح کی صدائیں لگاتا رہا جن سے گھر کا مالک خوش ہو کراسے کچھ خیرات دیدے۔ مگر جب ایسا نہ ہواتو جل کر بولا۔”جیسے اس گھر میں دولت آئی ہے ویسے ہی چلی بھی جائے۔“ اس پر اندر سے آواز آئی۔”اس منحوس گدا گر کو جوتے لگا کر بھگا ؤ یہاں سے۔“
یہ سنتے ہی وہ خود ہی وہاں سے آگے چل پڑا۔ بہت برادن تھا۔ جانے کیسے لوگوں کی بستی میں پھنساتھا بوڑھا کہ صبح سے کھانے کو کچھ ملا تھا اور نہ ہی کوئی دھیلہ پیسہ۔ آخر بھکاری کی ہمت جواب دے گئی اور وہ بڑبڑ کرتا بستی سے باہر نکل آیا۔ وہ بستی والوں کو خوب برا بھلا کہہ رہا تھا اور ان کی کنجوسی،لا لچ اور طمع پہ لعنتیں بھیج رہاتھا۔
اتفاق سے ادھر سے قسمت کی دیوی کا گزر ہوا۔ وہ بھکاری کو بھی خوب جانتی تھی اور بستی والوں کو بھی۔ اسے یونہی شرارت سوجھی اور وہ بھکاری کے سامنے ظاہر ہوگئی۔ بوڑھا اسے دیکھ کر گڑ بڑا گیا۔ اس نے اپنی زندگی میں کبھی اتنی حسین و جمیل خاتون نہیں دیکھی تھی نہ ہی اس قد رقیمتی لباس جو اس نے پہن رکھا تھا۔ اسکے ہاتھ میں ایک انتہائی خوبصورت مرتبان تھا جوقیمتی پتھروں سے جڑ اجگمگارہا تھا۔
”سنو! میں قسمت کی دیوی ہوں۔“ عورت نے تعارف کروایا۔
”قسمت کی دیوی؟“ بوڑھے نے حیرت سے کہا۔
”ہاں ہاں قسمت کی دیوی۔ جس پر مہربان ہو جائے۔ اسکے کیا کہنے۔“ وہ ہنس کر بولی۔
”تو کیا تم مجھ پر مہربان ہو چکی ہو؟“ بوڑھا ہکلایا۔
”ہاں ایسا کرو۔ اپنا جھولا میرے سامنے پھیلا ؤ۔ میں اسے سونے کے سکوں سے بھر دوں گی۔“
”ہی ہی ہی……“بوڑھے کی بانچھیں کھل گئیں اور اس نے اپنا جھولا دیوی کے سامنے پھیلا دیا۔
”دیکھو اس بات کا خیال رکھنا کہ ایک سکہ بھی زمین پہ نہ گرے۔ اگر ایسا ہوا تو سب سکے مٹی کے ہو جائیں گے۔ ٹھیک؟“
”ہاں ہاں بالکل ٹھیک۔ تم سکے ڈالو تو سہی۔ میں ایک بھی زمین پہ نہیں گر نے دوں گا۔“
دیوی نے اپنے مرتبان سے سونے کے سکے بوڑھے کے جھولے میں ڈالنے شروع کر دیئے۔”کھن کھن کھنکھنا کھن……“ واہ کیا جھنکار ہے۔ بوڑھا خوشی سے پاگل ہوا جار ہا تھا۔ دیوی نے ہاتھ روکتے ہوئے کہا۔
”بس کافی ہیں نا؟“
”نہیں تھوڑے سے اور“فقیر نے لجا کر کہا تو دیوی نے کچھ سکے اسکے جھولے میں ڈال دیئے۔ ”بس تھوڑے سے اور“ فقیر نے التجا کی۔ دیوی نے چند اور سکے پھینکتے ہوئے کہا کہ”اب بس کرو۔ تمہارا جھولا منہ تک بھر چکا ہے اور یہ ہے بھی کافی پرانا۔ کہیں بوجھ سے پھٹ ہی نہ جائے۔“
”بس چند سکے اور ڈال دو۔ میری پیاری دیوی!تم پھر مجھے کہاں ملو گی۔ پوری زندگی گزار کراب بڑھاپے میں تمہاری شکل دیکھی ہے۔“ فقیر نے ہنس کر کہا تو قسمت کی دیوی بھی ہنس پڑی اور چند اور سکے فقیر کے جھولے میں ڈال کر غائب ہوگئی اور یہ چند سکے اونٹ پہ آخری تنکا ثابت ہوئے کیونکہ فقیر کا جھولا واقعی بہت پرانا اور بوسیدہ تھا۔ وہ نیچے سے پھٹ گیا اور سکے نکل کر زمین پر گرے اور مٹی کا ڈھیر ہو گئے۔ فقیر نے باقی سکے جھولے میں ہی روکنے کے لئے سوراخ کو مضبوطی سے تھام لیا مگر کیا فائدہ۔ دیوی نے تو اسے سمجھا دیا تھا کہ ایک سکہ بھی نیچے گرا تو سب سکے مٹی کے ہو جائیں گے سواسکے جھولے میں بھی مٹی کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ زمین پہ بیٹھ کر رونے لگا۔ دیوی دور آسمان پہ اڑی جارہی تھی اور انسانوں کے لانچ پہ مسکرار ہی تھی۔