قاضی کا امتحان
فہیم احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک قاضی کا قصہ۔۔۔جب اس کا امتحان لینے کے لیے وقت کا حاکم خود فریادی بن کر اس کی عدالت میں پہنچا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ ابوعکاس کی عمر انچاس سال تھی۔ اس کا تعلق ایک بہت قدیم خاندان سے تھا جس کا سلسلہ ابن خلدون سے جا ملتا ہے۔ ابوعکاس ہمیشہ فوجی لباس زیب تن کرتا تھا۔ سر پر سرخ صافہ رہتا تھا۔ کمر کے گرد بندھے چمڑے کے پٹے میں ہمیشہ ایک سیاہ رنگ کا خنجر اَڑسا رہتا تھا۔ وہ جب بھی کہیں جاتا تھا تو اس کے آگے حبشی غلام ہوتا تھا اور ساتھ ہی ایک پالتو شکاری کتا جس کی زنجیر غلام تھامے رکھتا تھا۔ وہ بارہ قبیلوں کا سردار تھا۔ جب بھی اسے کسی قبیلے میں واقعے کی اطلاع ملتی۔ وہ اپنے خاص خادم کو اپنی مخصوص چھڑی اور خنجر بطور نشانی دے کر روانہ کردیتا اور خادم یہ نشانیاں دکھا کر سردار کی طرف سے معاملات طے کر لیتا تھا۔
اگر کوئی شخص حج کے لیے جاتے ہوئے اس کی بستی سے گزرتا تو ابوعکاس کی جانب سے تین سو فرانک اسے تحفتاً پیش کیے جاتے۔ لیکن اگر کوئی شخص جھوٹا حاجی بن کر یہ رقم لیتے ہوئے پکڑا جاتا تو اسے بیس کوڑوں کی سزا ملتی تھی۔ شیخ کبھی کبھی بستی والوں کی دعوت بھی کرتا تھا جہاں وہ خود نہ کھاتا اور کبھی اگر کمانے پر بھی جاتا تو سب سے آخر میں کھاتا۔
جب شیخ ابوعکاس نے حکومت سنبھالی تھی اس وقت اس کے علاقے میں چوروں کی بہتات تھی۔ اس نے ان کو پکڑنے کی ایک تدبیر سوجھی۔ اس نے ایک تاجر کا بھیس بدلا اور نقد مال لے کر نکلا۔ چور مال ہتھیانے کے بہانے آتے اور شیخ کے قریب موجود ساتھی اسے گرفتار کرلیتے۔ کچھ ہی عرصے بعد اس کے علاقے میں مثالی امن و امان قائم ہو گیا۔ تب ہی یہ بات بھی مشہور ہو گئی کہ رات کو اگر کوئی بڑھیا بھی سونا اچھالتے ہوئے گزرے تو کسی چور کی اتنی ہمت نہ تھی کہ اسے چوری کرسکے۔
ایک دن شیخ کے مصاحبوں نے اسے خبر دی کہ اس کی بارہ بستیوں میں ایک بستی ایسی بھی ہے کہ جہاں ایک انصاف پسند قاضی کے فیصلوں کی بڑی دھوم ہے۔ شیخ نے سوچا کہ ذرا دیکھنا چاہیے کہ ان باتوں میں کتنی سچائی ہے اس نے ایک عام آدمی کا بھیس بدلا اور کسی ہتھیار کے بغیر ہی اس بستی کی جانب روانہ ہو گیا۔ جہاں وہ قاضی قیام پذیر تھا۔ وہاں سے بستی تین دن کی مسافت پر تھی جب وہ وہاں پہنچا تو پتا چلا کہ بستی میں میلا لگا ہوا ہے اور وہیں پر اس قاضی نے اپنی عدالت لگا رکھی ہے۔ ابھی وہ عدالت کی جانب جانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے ایک مفلوج آدمی دیکھا جس کا پیر مفلوج تھا۔ وہ شخص ابوعکاس کو دیکھتے ہی مدد کے لیے صدا بلند کرنے لگا۔ ابوعکاس نے تھوڑی سی رقم اسے دی مگر اس شخص نے سردار کا پیر پکڑ لیا۔ میری ایک درخواست ہے۔ اس شخص نے مدد چاہنے والے لہجے میں کہا۔ ’’کہو!‘‘ شیخ نے مختصر سا جواب دیا۔
’’میں بستی کے اندر تک نہیں جاسکتا۔‘‘ اس نے اپنا مفلوج پیر دکھایا اور کہا ۔’’آپ مجھے بستی کے بازار تک پہنچا دیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ شیخ ابوعکاس نے کہا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے کسی طرح گھوڑے کی پشت پر بٹھا دیا۔ پھر وہ دونوں بستی کے اندر پہنچ گئے۔ جب بازار آگیا تو شیخ نے کہا :’’ ارے تم اُتر جاؤ۔ ‘‘
’’نہیں۔‘‘ اس نے شخص نے پرسکون لہجے میں کہا۔ ’’میں نہیں اُتروں گا تم اُتر جاؤ۔‘‘
’’اچھا اچھا۔‘‘ شیخ نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا۔ ’’تم خود نہیں اُتر سکتے۔‘‘ جب شیخ نیچے اُترا تو گھوڑے سے اُترنے کے بجاے اس شخص نے کہا:’’ اب تم یہ گھوڑا بھی مجھے دے دو۔‘‘
’’ وہ کیوں؟ ‘‘شیخ نے حیرت سے پوچھا۔
’’کیونکہ یہ گھوڑا میرا ہے۔‘‘
’’بہت خوب۔‘‘ شیخ ہنسا۔ ’’اچھا مذاق کرتے ہو۔‘‘
’’تم غور سے میری بات سنو۔‘‘ اس شخص نے کہا ’’اور سمجھو بھی۔ تمھیں پتا ہے ناں کہ تم نہایت انصاف پسند قاضی کی بستی میں ہو؟‘‘
’’ہاں مجھے معلوم ہے۔‘‘ شیخ نے سر ہلایا۔
’’اگر میں گھوڑا نہ دوں تو تم مجھے اس کی عدالت میں گھسیٹو گے؟‘‘ اس نے پھر پوچھا۔
’’ظاہر ہے۔ ‘‘شیخ نے مختصر جواب دیا۔
’’اب سنو! جب قاضی ہم دونوں کو دیکھے گا تو یہ بھی دیکھے گا کہ تمھارے دونوں پیر سلامت ہیں جب کہ میں ایک پیر سے مفلوج ہوں۔ پھر وہ یہ بھی سوچے گا کہ ہم دونوں میں سے گھوڑے کی زیادہ ضرورت کسے ہے؟‘‘
’’یہ کوئی بات نہ ہوئی۔‘‘ شیخ نے کہا ۔’’اگر اس نے اس طرح فیصلہ دیا تو وہ قاضی کہلانے کے قابل نہیں۔ جب کہ لوگ اسے انصاف پسند قاضی کہتے ہیں۔‘‘
وہ شخص ہنسا اور بولا :’’مگر وہ لوگ اسے بے سقم قاضی نہیں کہتے۔‘‘
اسی وقت شیخ ابوعکاس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ یہ بہترین موقع ہے۔ میں قاضی کی صلاحیتوں کی آزمائش کرسکتا ہوں۔ پھر اس نے بلند آواز میں کہا: ’’ٹھیک ہے۔ میں تمھیں قاضی کے سامنے پیش کروں گا۔‘‘ پھر وہ اسے عدالت کی جانب لے کر چلا۔وہ شخص گھوڑے پر بیٹھا رہا۔ اس وقت قاضی کے سامنے ایک مقدمہ پیش کیا گیا تھا جس کی سماعت جاری تھی۔ یہ مقدمہ ایک قسائی اور تیل فروش کے درمیان تھا۔ تیل فروش کے سارے جسم پر تیل کے دھبے پڑے ہوئے تھے اور اسی طرح قسائی کے جسم پر خون کے چھینٹے تھے۔ قاضی نے پہلے قسائی کو بولنے کے لیے کہا۔
قسائی نے کہنا شروع کیا۔ ’’ میں اس شخص کے پاس تیل خریدنے گیا۔ اس نے میری بوتل تیل سے بھر دی۔ میں نے جیب سے مٹھی بھر سکے نکالے تاکہ قیمت ادا کرسکوں۔ یہ رقم دیکھ کر لالچ میں آگیا کیونکہ وہ بہت زیادہ تھی۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور رقم چھیننے کی کوشش کرنے لگا۔ میں نے مزاحمت شروع کر دی۔ اب یہ شخص شور مچا رہا ہے کہ یہ اس کی رقم ہے حالانکہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ یہ تمام رقم میری ہے۔ ‘‘
قسائی کے چپ ہوتے ہی تیل فروش نے کہنا شروع کیا:’’یہ شخص ایک بوتل تیل خریدنے میرے پاس آیا۔ میں نے تیل بھر دیا۔ اس نے کہا کہ تمھارے پاس کچھ سکے ہیں۔ میرے پاس سونے کا سکہ ہے۔ جواباً میں نے اپنی جیبیں ٹٹولیں تو میرے پاس خاصی نقدی برآمد ہوئی۔ اس نے وہ ساری رقم ہتھیا لی اور اب شور مچا رہا ہے کہ یہ اس کا مال ہے۔ میں اسے آ پ کے پاس پکڑ لایاہوں تاکہ آپ انصاف کرسکیں۔‘‘
قاضی نے دونوں کو اپنا اپنا بیان دہرانے کے لیے کہا۔ دونوں نے فوراً اپنے اپنے بیان دہرا دیے۔ ان میں ذرا بھی فرق نہ تھا۔ قاضی نے رقم اپنے پاس رکھ لی اور دونوں کو کل آنے کے لیے کہا۔ قسائی نے رقم بغیر کسی حجت کے قاضی کے حوالے کی۔ دونوں نے جھک کر قاضی کی تعظیم کی اور چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد قاضی شیخ ابوعکاس کی جانب متوجہ ہوا۔ ’’محترم قاضی۔‘‘ ابوعکاس نے بولنا شروع کیا۔
’’ میں ایک دور کی بستی سے میلے میں شرکت کے لیے یہاں آیا ہوں۔ بستی کے دروازے پر مجھے یہ مفلوج آدمی ملا۔ اس نے مجھ سے خیرات مانگی۔ میں نے اسے دے دی۔ پھر اس نے درخواست کی کہ میں اسے اپنے گھوڑے پر بٹھا کر بازار تک پہنچا دوں کیونکہ یہ معذور تھا۔ میں نے اسے ساتھ بٹھا لیا اور بازار پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے گھوڑے سے اُترنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ اس کا ہے۔ جب میں نے معاملہ عدالت پہنچانے کے لیے کہا تو اس نے پرزور انداز میں دعویٰ کیا کہ قاضی صاحب ایسے ناسمجھ نہیں ہیں وہ فوراً سمجھ جائیں گے کہ گھوڑا تو میری ہی ضرورت ہے۔ بس یہ ہے وہ حقیقت جو میں نے بیان کی ہے۔‘‘
اب مفلوج شخص نے اپنا دعویٰ بیان کیا:’’ حقیقت یہ ہے کہ میں اپنے گھوڑے پر بستی کے بازار جارہا تھا ۔ میں نے ایک طرف اس شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ میں نے اس سے اس کا حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ یہ لمبا فاصلہ پیدل طے کرکے آیا ہے اور اب بے حد تھک گیا ہے ۔ میں نے اس پر مہربانی کی اور اسے بستی کے بازار تک لے آیا۔ بازار پہنچ کر اس نے کہا کہ میں گھوڑے سے اُتر جاؤں کیونکہ یہ گھوڑا تو اس کا ہے۔ مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی لیکن میں نے گھوڑا نہیں چھوڑا۔ اب یہ شخص مجھے آپ کے پاس لے آیا ہے۔‘‘ قاضی نے کہا کہ وہ دونوں اپنی اپنی کہانی دہرائیں۔ پھر اس نے دونوں سے قسمیں کھلوائیں۔ دونوں نے اپنے دعوے کی صداقت میں اﷲ کی قسم کھائی۔ قاضی نے کچھ دیر سوچا پھر گھوڑا اپنے قبضے میں لے کر دونوں کو کل آنے کے لیے کہا۔ دونوں نے قاضی کی تعظیم کی اور چل دیے۔
دوسرے روز عدالت پھر لگی۔ پہلے تیل فروش اور قسائی کا مقدمہ پیش ہوا۔ قاضی نے قسائی سے کہا: ’’یہ لو وہ یہ رقم تمھاری ہے۔ تیل فروش کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ پھر اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ پچاس کوڑے اس تیل فروش کے ہاتھوں پر رسید کیے جائیں جس نے قسائی کی رقم پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔‘‘
اب قاضی شیخ ابوعکاس اور مفلوج شخص کی جانب متوجہ ہوا۔ ’’کیا تم ایک جیسے گھوڑے کے درمیان اپنے گھوڑے کو پہچان سکتے ہو۔ ‘‘
’’یقینا۔‘‘ ابوعکاس نے اعتماد سے کہا۔
’’اور تم۔‘‘ قاضی نے مفلوج آدمی سے پوچھا۔
’’بالکل جناب والا!‘‘
’’اچھا تم میرے ساتھ آؤ۔‘‘ قاضی نے ابوعکاس سے کہا وہ اسے تھوڑی دور موجود اصطبل میں لے آیا جہاں ایک ہی رنگ اور قد والے کئی گھوڑے موجود تھے۔ ابوعکاس نے فوراً اپنے گھوڑے کو پہچان لیا۔
’’ٹھیک ہے اب تم جا کر اس مفلوج کو ادھر بھیج دو۔‘‘ قاضی نے کہا۔ قاضی نے اس کے ساتھ بھی یہ عمل دہرایا پھر عدالت چل کر ابوعکاس کو مخاطب کرکے کہا۔
’’وہ رہا تمھارا گھوڑا۔ تم اسے پہچان سکتے ہو۔‘‘ پھر اس نے مفلوج شخص کی طرف اشارہ کرکے سپاہی کو حکم دیا اس شخص کو پچاس کوڑے پشت پر ماریں جائیں کیونکہ اس نے جھوٹا دعویٰ دائر کیا تھا۔
عدالت سے فراغت پا کر قاضی اپنے گھر پہنچا تو ابوعکاس کو اپنا منتظر پایا۔ ’’کیا تم میرے فیصلے سے مطمئن نہیں ہو؟‘‘ قاضی نے پوچھا۔
’’بالکل جناب۔‘‘ ابوعکاس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’میں تو یہاں صرف یہ جاننے آیا ہوں کہ آپ نے یہ درست فیصلے کس طرح کیے ہیں۔ ‘‘قاضی نے مسکرا کر کہا۔ یہ بہت سادہ سی بات ہے۔ تم نے دیکھا ہوگا کہ تیل فروش کا جسم تیل سے داغدار تھا اور اس کے ہاتھ بھی گیلے تھے۔ میں نے وہ سکے وصول کرنے کے بعد شام کو پانی میں ڈال دیے اور صبح ان کا جائزہ لیا۔ پانی کی سطح پر تیل کی ذرا بھی آمیزش نہ تھی میں سمجھ گیا کہ یہ رقم قسائی کی ہے۔‘‘
ابوعکاس نے تعریفی نظروں سے قاضی کو دیکھا اور اپنے معاملے کے بارے میں دریافت کیا۔ قاضی نے کہنا شروع کیا۔
’’اس معاملے میں، میں خاصا فکر مند تھا کہ یہ فیصلہ کیسے کروں۔ ‘‘
’’پھر۔۔۔ ‘‘ابوعکاس نے قاضی کی بات درمیان سے کاٹی اور کہا ۔’’یقیناًمفلوج شخص گھوڑے کو پہچاننے میں ناکام رہا ہوگا اور آپ نے گھوڑا میرے حوالے کر دیا۔‘‘
’’نہیں اس شخص نے بھی گھوڑے کو پہچان لیا تھا۔‘‘ قاضی نے کہا۔
’’تب پھر آپ نے فیصلہ کس بنیاد پر کیا۔‘‘ ابوعکاس نے حیرت سے پوچھا۔
’’دراصل میں تم دونوں کو اصطبل اس لیے نہیں لے کر گیا تھا کہ تم گھوڑے کو پہچانو بلکہ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ گھوڑا تم دونوں میں سے کس کو پہچانتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ تمھیں قریب پاکر گھوڑا آہستہ سے ہنہنایا اور اس کی آنکھوں میں شناسائی کی چمک آگئی۔ جبکہ مفلوج شخص کو دیکھ کر اس نے نظریں پھیر لیں اور بدکنے لگا۔ میں سمجھ گیا کہ گھوڑے پر مفلوج شخص کا دعویٰ سراسر باطل ہے۔‘‘
شیخ ابوعکاس نے قاضی کی ستائش کی اور کہا:’’ یقیناًاﷲ آپ کا مددگار ہے آپ ہر طرح سے اپنے منصب کے لیے موزوں ہیں۔‘‘ حاکم ہونے کے باوجود جھک کر قاضی کی تعظیم کی اور اپنی بستی کی جانب چل پڑا۔
*۔۔۔*