قیامت
شوکت تھانوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اول تو خدا سے ڈرتا ہوں بھی عین ایمان ہے، دوسرے ایسی میں جب کہ قیامت کا آنا برحق ہو۔۔۔ اور زلزلہ کی صورت نصف قیامت آبھی چکی ہو۔ اگر کوئی خدا سے نہ ڈرے تو معاف کیجئے یہ بہادری نہیں بلکہ ہم تو اس کو فرعونیت کہیں گے، بہرحال ہم اپنے اس ایمانی استقلال پر ناز ہے کہ جیسے ہی اخبار میں ہماری سے یہ خبر گزری کہ چاند گرہن کے وقت ایک چھوٹا ستارہ چاند متصادم ہوکر پاش پاش ہوجائے گا اور اس کے ٹکڑے خط استوا کے اوپر دنیا کے کسی حصہ میں گریں گے۔ جس سے سخت نقصانات پہنچیں گے اور زمین ان کے گرنے کی دھمک سے ہل جائے گی۔ تو اب ہمارا خون منجمد ہوگیا۔ طائر روح قفس عنصری سے پرواز کرنے کے لئے پر تولنے لگا اور اخبار ہمارے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑا۔ قصہ اصل میں یہ ہے کہ اگر ہم گنہگار نہ ہوتے اور عاقبت کی طرف سے دل کو اطمینان ہوتا تو شاید سراسیمگی کا عالم طاری نہ ہوتا مگر یہاں تو اس طالب علم کا سا حال تھا۔ جس نے تمام سال گلی ڈنڈا کی نظر کیاہوا اور سالانہ امتحان بغیر اطلاع کے سر پر آموجود ہو۔بلکہ یہ مثال بھی ذرا کمزور ہی ہے ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا اس وقت یہ عالم تھا کہ گویا موت کی سزا کا حکم سننے کے بعد موت کے خوفناک انتظار میں۔
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کی کیفیت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ کچھ دیر تک تو اس خوفناک خبر کی تخیّلی فلم دیکھتے رہے اس کے بعد اپنے تمام گناہوں سے بے ساختگی کے ساتھ توبہ کرتے ہوئے گھر میں آئے تاکہ اس بقیہ مختصر سی زندگی کو بال بچوں کے ساتھ اور خدا کی یاد میں صرف کریں۔ گھر میں آکر ہم نے سب سے پہلے کام یہ کیا کہ خود اپنے کو ذرا مضبوط بنا کر بیگم کو خوفناک خبر سنا دی تاکہ وہ بے ٰخبر نہ رہیں۔ بیگم نے پہلے تو ہمارے متعلق یہ سمجھا کہ ہم شایدمذاق کر رہے ہیں۔ لیکن جب ہم ان کو اخبار دکھایا تو وہ سنگر مشین کو اس طرح دبوچ کر بیٹھ گئیں کہ گویا قیامت سے اگر بچنے کا کوئی ذریعہ ہے تو وہ سنگر مشین ہی ہے اس نے اپنی ہمت مردانہ اور استقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے زبردست متبسم ہوکر کہا۔‘‘ آپ اس قدر پریشان کیوں ہوگئیں۔‘‘
سہمی ہوئی آواز میں بولیں۔‘‘ اب بتائیے کیا ہوگا۔‘‘
ہم نے اپنے کو سنبھالتے ہوئے کہا۔‘‘ ہوگا کیا۔ وہی ہوگا۔ جو خدا کو منظور ہے۔‘‘
جنوری کے مہینے میں چہرے کا پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔‘‘ اب بتائیے کیا کریں؟‘‘
ہم نے کہا۔ ’’یہ بھی کوئی اپنے بس کی بات ہے۔ خدا کو یاد کرو اور کیا کروگی۔‘‘
ٹھنڈی سانس لے کر دل کی گہرائیوں سے ’’یا اللہ توبہ‘‘ کہہ کر بیگم نے کہا۔‘‘ اور یہ چاند گرہن ہے ؟‘‘
ہم نے کہا۔ کل رات کو دس بجے کے بعد پڑے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ آج نہالوں تاکہ کم سے کم نماز ہی پڑھ سکوں۔‘‘
بیگم نے گردن ہلا کر جواب دیا کہ ’’ہاں‘‘ اور ہم غسلخانہ میں چلے سچ تو یہ ہے کہ جس احتیاط اور باقاعدگی کے ساتھ آج ہم نے غسل کیا ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ اپنے نزدیک جب ہم بالکل ظاہر ہوگئے اور کلمہ پڑھ پڑھ کر وضو وغیرہ کرچکے تو غسل خانہ سے نکلے یہاں بیگم پہلے ہی سے سجدہ میں موجود تھیں۔ ہم نے بھی کپڑے پہنے اور ایک سچے مسلمان کی طرح زندگی میں پہلی مرتبہ چار رکعت نماز فرض کی نیت باندھ کر اپنے کو خدا کے حضور میں پیش کیا۔ کچھ نہ پوچھئے کہ کس انہاک کے ساتھ یہ نماز ہوئی ہے اور اس کے بعد جو نوافل کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو قضائے عمری کا لطف آگیا بس یہ سمجھ لیجئے کہ چار بجے نماز کے لئے کھڑے ہوئے تھے چھ بجے کے قریب ہٹے۔ اس کے بعد ہی مغرب کا وقت آگیا اور ہم پھر وضو کر کے کھڑے ہوگئے۔ مختصر یہ کہ نمازوں کا سلسلہ رات کو دس بجے تک قائم رہا۔ جب عشاء کی نماز اور نماز کے بعد تسبیح وغیرہ سے فارغ ہوکر ہم دسترخواں پر آئے کھانا وانا تو خیر یوں ہی ساکھایا۔ البتہ یہ رسم بھی ادا ہوگئی اور ہم سونے کے لئے لحاف میں پہنچ گئے۔مگر تو بہ کیجئے نیند کا کہیں کوسوں پتہ بھی نہ تھا۔ اور یہی حال بیگم کا تھا کہ ادھر سے ادھر کروٹیں لے رہی تھیں کبھی کبھی ’’یا اللہ تو یہ ہے‘‘۔ نعرہ بلند کرتی تھیں اور رہ جاتی تھیں۔ آخر ہم نے خود ہی ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’کیا نیند نہیں آرہی ہے؟‘‘
کہنے لگیں۔ ’’اور آپ بھی تو جاگ رہے ہیں۔‘‘
ہم نے کہا۔ ’’ہاں ذرا کچھ وحشت سی ہے۔‘‘
بولیں۔ ’’میرا بھی دل گھبرا رہا ہے‘‘۔
ہم نے مرد مسلمان بنتے ہوئے کہا۔ ’’ارے جی کوئی بات ہیں اللہ مالک ہے سو بھی جاؤ۔‘‘
کہنے لگیں۔ ’’ہاں یہ تو ہے مگر دل جیسے الجھ سا رہا ہے معلوم ہوتا ہے جیسے دم الٹا جاتا ہے۔‘‘
ہم نے جما ہی لیتے ہوئے کہا۔‘‘ کچھ نہیں، بس اللہ مالک ہے اس کے حکم سے نجوم غلط ہوسکتا ہے اور منجم کی پیشین گوئی جھوٹی ہوسکتی ہے اور اگر قیامت آہی گئی ہے تو جو سب کا حشر ہوگا ہمارا بھی ہوگا۔ بہرحال یہ کوئی اپنے اختیار کی بات نہیں ہے‘‘۔
بیگم نے کہا۔ ’’ہوں‘‘
ہم چپ ہو رہے اور ادھر ادھر کی کروٹیں بدلنے لگے۔ یکایک ہم کو خیال آیا کہ ذرا صحن میں چل کر چاند دیکھیں تو سہی کہ اس سے کونسا ستارہ قریب ہے کہ ٹکرا ہی جائے گا۔ اب ہم جو باہر آئے تو دیکھتے کیا ہیں کہ ایک ذرا چھوٹا سرخ رنگ کا دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح کا ستارہ چاند سے کوئی ایک فٹ کے فاصلے پر ہے اور چاند گرہن پڑا ہوا ہے ہم نے دوڑ کر بیگم کو اٹھا دیا اور دونوں بچوں کا کلیجہ سے چمٹا کر بیٹھ گئے۔ نظریں چاند اور ستارہ پر جمی ہوئی تھیں اور دل کی دھڑکن خود ہم کو ہلائے دیتی ہے ستارہ رفتہ رفتہ چاند کے قریب ہوتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ چاند اور اس ستارہ کے درمیان شاید ایک انچ فاصلہ رہ گیا۔ ہم برابر کلمہ پڑھ رہے تھے اور دونوں بچوں کو خوب بھینچے ہوئے تھے کہ ایک دم سے ایک ہولناک فلک شگاف دھماکے کے ساتھ وہ ستارہ ٹکرا کر پارہ پارہ ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی ہم اس طرح اچھل پڑے کہ آنکھ کھل گئی۔ بیگم نے کہا ’’یہ کیا ہے؟‘‘
ہم نے لرزتی اور ہانپتی ہوئی آواز میں کہا۔‘‘ کچھ نہیں‘‘۔
بیگم نے کہا۔ ’’کیا ڈر گئے؟‘‘
ہم نے کہا۔‘‘ نہیں تو ۔۔۔ ایک خواب دیکھا تھا۔‘‘
بیگم چپ ہوگئیں اور ہم بھی اس ہولناک خواب سے سہمے ہوئے پڑے رہے۔ خدا جانے کس وقت آنکھ لگ گئی۔ بہرحال ہم اس وقت بیدار ہوئے جب موذن ’’الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ کہہ کہہ کر مسلمانوں کو آواز دے رہا تھا۔ ہم نے آج سے پہلے بارہا یہ آواز سنی تھی لیکن کبھی اس کے مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ اور ہمیشہ ہم یہ آواز سن کر لحاف کے اندر اپنا منہ چھپا لیا کرتے تھے۔ لیکن آج یہ آواز سنتے ہی ایک لات مار کر لحاف الٹ دیا۔ اور کلمہ پڑھتے ہوئے اٹھ بیٹھے جلدی جلدی ضروریات سے فارغ ہوئے۔ وضو کر کے نماز کے لئے کھڑے ہوگئے اور نہایت محویت کے ساتھ نماز پڑھی۔ نماز سے فارغ ہوکر کلام پاک کھول کر بیٹھ گئے۔ ادھر بیگم دس دس پندرہ پندرہ منٹ تک سجدے میں پڑی ہوئی دعاؤں میں مصروف تھیں۔ مختصر یہ کہ اس دین داری میں دونوں نے سات بجا دیئے۔ ہر طرف دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ یہ وہی دھوپ تھی جو آج آخری مرتبہ اپنی چمک دمک دکھا رہی تھی۔ بیگم اپنے بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہوگئیں اور ہم ذرا اٹھتے ہوئے اپنے پڑوسی میر صاحب کی طرف چل دیئے کہ دیکھیں وہاں کیا رنگ ہے میر صاحب اس وقت باہر کے مردانے کمرے میں بیٹھے رہتے تھے مگر آج خلاف معمول گھر کے اندر گھسے ہوئے تھے ہم نے آواز دی تو ملازمہ نے جواب دیا کہ نماز پڑ رہے ہیں۔ لہٰذا ہم نے بھی انگلیوں پر درود شریف پڑھنا اور ٹہلنا شروع کر دیا۔ اتنے میں میر صاحب سر پر بلوچیوں کی طرح رومال باندھے کچھ بدبداتے ہوئے برآمد ہوئے۔
ہم نے کہا۔ ’’میر صاحب اس وقت کون سی نماز پڑھ رہے تھے‘‘ کہنے لگے ’’چاشت‘‘ ہم نے کہا۔ ’’اللہ اکبر‘‘ کہنے لگے۔ بھائی یہی وقت دعاؤں کا ہے اور یہی تھوڑا سا وقت ہے کہ ہم عمر بھر کے گناہگار توبہ کرلیں۔‘‘ ہم نے بھی دل کی گہرائیوں سے میر صاحب کے چہرے پر وحشت برس رہی تھی ہم آئے تھے ذرا دل بہلانے مگر یہاں تو اور بھی خوف اور دہشت کا ماحول تھا۔ لہٰذا ہم واپس ہونا ہی چاہتے تھے کہ میر صاحب نے کہا۔ ’’سنا ہے کہ جو ستارہ ٹوٹنے والا ہے وہ ہماری دنیا کی طرح مٹی کا نہیں ہے بلکہ لوہے کا ہے تو خود اس کو نہ ٹوٹنا چاہئے بلکہ وہ تو چاند کو توڑ سکتا ہے۔‘‘ میر صاحب نے ایک بھولے بھالے مسلمان کی طرح جواب دیا۔‘‘ یہ سب خدا کی قدرت ہے۔ آپ کو کیا معلوم ہے کہ وہ زیادہ مضبوط ہے یا چاند ممکن ہے کہ چاند اس سے بھی زیادہ سخت کسی دھات کا بنا ہو اور نہ بھی سہی تو کیا یہ خدا کی قدرت سے کچھ بعید ہے کہ مٹی لوہے کو توڑ دے اور کمزور چیز مضبوط چیز پر غالب آجائے۔‘‘ ہم کو ماننا پڑا کہ واقعی میر صاحب سچ کہتے ہیں ۔ قصہ اصل میں یہ ہے کہ یہ قدرت کی کاریگری ہے جناب ہم نے کہا ’’میر صاحب یہ تو گویا قیامت ہے۔‘‘ کہنے لگے ’’اور کیا جناب اور کسے کہتے ہیں۔ اب آپ ہی سمجھئے کہ وہ ستارہ چاند سے تھوڑا ہی چھوٹا ہے اور چاند بالکل دنیا کے سر پر ہے۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ جس وقت وہ چاند سے ٹکرا کر ٹوٹے گا اس کے تمام ٹکڑے خط استو سے اوپر دنیا میں گریں گے۔ فرض کرلیجئے کہ کوئی ٹکڑا ہندوستان کے برابر ہے اگر وہ ہندوستان کے اوپر گر پڑا تو ہندوستان کا کیا حال ہوگا؟‘‘ ہم نے لرزتے ہوئے کہا۔ ‘‘ہندوستان بھی پاش پاش ہوجائے گا۔‘‘ جوش میں کہنے لگے۔‘‘ پاش پاش ہوجائے گا۔ جناب یہ کہئے کہ چٹنی ہوجائے گا چٹنی۔ کہیں پتہ بھی نہ چلے گا کہ دنیا کے نقشہ پر ہندوستان بھی تھا یا نہیں‘‘ ہم نے جھر جھری لے کر کہا‘‘۔ یا اللہ توبہ ہے۔ یا اللہ توبہ ہے‘‘۔ میر صاحب نے بھیانک طریقہ پر آسمان کی طرف دیکھ کر اپنے کان پکڑے اور رخساروں پر توبہ کے تھپڑ رسید کرنے لگے۔ ہم نے کہا‘‘ میر صاحب، جو کچھ ہوتا ہے وہ ٹل نہیں سکتا اور نہ ہم کہیں بچ کرجاسکتے ہیں۔ مگر دل چاہتا ہے کہ چاند گرہن کے وقت سب لوگ پاس ہوں تو اچھا ہے۔‘‘ میر صاحب نے ہماری تائید کرتے ہوئے کہا۔‘‘ ہے تو بہت اچھا۔ مگر اس میں ایک رکاوٹ ہے کہ ہم لوگ عورتوں سے علیحدہ رہیں گے اس لئے کہ پردہ کی وجہ سے ہمارے اور آپ کے یہاں کی مستورات اور مرد کیونکر یکجا ہوسکتے ہیں۔‘‘ ہم نے کہا بھائی ایسے نازک وقت میں پردہ کا کیا سوال۔ پردہ تو وہ کرے جس کو اس دنیا میں رہنا ہے۔ کہنے لگے۔ یہ ٹھیک ہے مگر ہم اس وقت شرع کا نام سن کر لاجواب ہوگئے اور یہی طے پایا کہ اس وقت اپنے اپنے گھر میں اپنے اپنے بال بچوں کے ساتھ اللہ اللہ کریں۔
میر صاحب کے یہاں سے واپس آکر ہم کو دفتر جانا چاہئے تھا مگر بیگم نے کہا۔ ’’آج دفتر نہ جائے درخواست بھیج دیجئے۔‘‘ ہم نے بھی یہی مناسب سمجھا کہ دفتر نہ جائیں۔ بلکہ اس تھوڑے وقت کو گھر ہی میں گزاریں مگر درخواست بھیجنے کی ضرورت اس لئے محسوس نہ کی کہ درخواست تو وہ بھیجے جس کو ملازمت کرنا ہو اور اس دفتر میں بھیجنے جو آئندہ بھی دفتر رہنے والا ہو۔ مگر آج کے بعد نہ تو ہم ملازم ہی رہ سکتے ہیں نہ کل ہمارا دفتر ہی ہوگا۔ دفتر جب رہ سکتا ہے جب یہ دنیا رہے اور جب دنیا ہی ختم ہونے والی ہے تو کیسا دفتر اور کہاں کی ملازمت لہٰذا ہم بغیر درخواست بھیجے ہوئے بیٹھ رہے اور بجائے دفتری چکی چلانے کے کلام خدا کی تلاوت سے اپنے مردہ ایمان میں روح پھونکنے لگے۔ ادھر بیگم اپنے دونوں بچوں کو ننھے ننھے ہاتھ اٹھوا کر دعائیں کر رہی تھیں اور ان کو طوطے کی طرح پڑھا رہی تھیں۔ کہ ’’جل تو جلال تو، صاحب کمال تو، آئی بلا کو ٹال تو۔‘‘
ہم نے تمام دن عبادت اور خدا کی یاد میں گزارا اور مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر ہم اس ایک ہی کمرہ میں بلکہ ایک ہی چار پائی پر اس طرح خاموش بیٹھ گئے کہ اگر نا سمجھ بچے ذرا دیر بھی خاموش ہوجاتے تھے تو ہم دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی دل کی دھڑکن تک بخوبی سن سکتے تھے رات کی خوفناک تاریکی بڑھتی جاتی تھی اور اسی کے ساتھ ہمارے جسم میں خون منجمد ہوتا جاتا تھا۔ ہم نے آٹھ بجے کے قریب بیگم سے کہا۔ ’’بجائے یہاں بیٹھنے کے ہم کو چاہئے کہ کسی ایسی جگہ بیٹھیں جہاں سے چاند نظر آسکے چلو صحن میں کیوں نہ بیٹھیں۔‘‘
بیگم نے ہمارا گھٹنا مضبوطی سے پکڑ کر کہا۔ ’’واہ بالکل آسمان کے نیچے جاکر بیٹھ جائیں۔‘‘
ہم نے کہا۔ ‘‘ تو کیا چھت کے نیچے ہونے سے ہم آسمان کے اوپر ہیں۔ اچھا خیر باہر نہ جاؤ۔ مگر عشاء کی نماز تو پڑھ ہی لیں۔‘‘
بیگم نے پوچھا۔ ’’گرہن کتنے بجے پڑے گا؟‘‘
ہم نے کہا‘‘ دس بجے کے قریب‘‘۔
بیگم نے کہا۔’’اچھا تو پہلے آپ جلدی سے پڑھ لیجئے پھر آپ بچوں کو لے کر وظیفہ پڑھیئے گا تو میں نماز پڑھ لوں گی۔ مگر نماز کی چوکی چارپائی کے قریب بچھا لیجئے۔‘‘
ہم نے بغیر کچھ جواب دیئے ہوئے نماز پڑھنے کی چوکی چارپائی سے بالکل ملا کر نماز شروع کردی اور انتہائی کوشش کرتے رہے کہ قیامت کے خوف کے بجائے خدا کی محبت اپنے اوپر طار ی کر کے نماز پڑھیں مگر یہ کوئی اپنے بس کی بات نہ تھی۔ بہرحال گھبرا کر کسی نہ کسی طرح گر پڑ کرنماز پڑھ ڈالی۔ ہمارے آجانے کے بعد بیگم نے نماز شروع کردی۔
اور ہم بچوں کو لئے ہوئے تسبیح پڑھتے رہے۔ بڑے صاحبزادے جو بڑی دیر سے نہایت خاموشی کے ساتھ ہمارا منہ دیکھ رہے تھے۔ کہنے لگے ، ’’تو کیا آپ کے اللہ اللہ کرنے سے قیامت بھاگ جائے گی؟‘‘
ہم نے تسبیح پڑھتے ہوئے گردن کے اشارے سے کہا۔ ’’ہاں؟
وہ بولے۔‘‘ نہ بھاگے گی وہ تو آئے گی۔‘‘
ہم نے تسبیح پڑھتے ہوئے آنکھیں نکال کر اشارہ سے کہا کہ ’’دعا مانگو‘‘ وہ غریب سہم گیا۔ اور ہاتھ اٹھا کر جو اس کی سمجھ میں آیا۔ دعائیں کرتا رہا۔ یہاں تک کہ دعائیں مانگے مانگتے سوگیا۔ چھوٹا بچہ پہلے ہی سورہا تھا اور ہم تسبیح کے دانے نہایت مستعدی سے اس طرح گننے میں مصروف تھے کہ گویا نہر پر چل رہی ہے پن چکی۔ بیگم بھی نماز پڑھنے کے بعد ہمارے پاس ہی بیٹھی ہوئی تصور ہی تصور میں گویا خدا کے دربار میں حاضر تھیں اور اپنے گناہ بخشوا نے پر اڑی ہوئی تھیں کہ گھڑیال نے گونج جانے والی آواز کے ساتھ آخری مرتبہ اس کا گھنٹہ بجا دیا اور ادھر ہمارا دم گھٹنا شروع ہوا۔ بیگم تو بالکل ایک بے جان مجسمہ بنی ہوئی بیٹھی تھیں۔ مگر ہم کو یہ محسوس ہورہا تھا کہ ہمارے دل کی دھڑکن ہم کو پنڈولم کی طرح متزلزل بنائے ہوئے ہے ابھی بالکل اس کیفیت کو دس منٹ گزرے ہوں گے کہ سڑک پر کسی نے کہا۔ پڑ گیا چاند میں گرہن یہ آواز سننا تھی کہ بیگم اپنے بچوں کو کلیجہ سے چمٹا کر اور خود ہم کو بلی کا شکار گئے ہوئے چو ہے کی طرح دبوچ کر بیٹھ گئیں۔ ہم نے کہا اللہ اللہ کرو۔‘‘ بیگم نے کہا۔‘‘ یا اللہ تو مالک ہے۔‘‘ سڑک پر آواز آئی’’دیا کرو، دھرم کرو۔ یہ آواز گویا صورتھی۔ بیگم نے تھر تھر کانپنا شروع کیا۔ اور ہمارے ہاتھ پیر اس طرح سرد ہوگئے کہ گویا اب ان میں جان ہی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ٹھنڈا پسینہ بہنا شروع ہوا۔ ‘‘ دیا کرو، دھرم کرو،‘‘ کی دل ہلا دینے والی آوازیں برابر آرہی تھیں۔ اور ایک سے ایک بھیانک آواز والا مہتر یہ صدائیں بلند کر رہا تھا۔ دس سے گیارہ بجے اور بارہ سے ایک مگر قیامت نہ آئی نہ دل ٹھہرا۔ چاند گرہن میں تھا اور ہم موت کے منہ میں مع اہل وعیال، اگر کہیں کھٹ سے بھی ہوتا تھا تو ہم یہی سمجھ کر اچھل پڑتے تھے کہ ستارہ چاند سے ٹکرا گیا۔ مگر چونکہ خدا نے یہ دیکھ لیا کہ ابھی اس دنیا میں اس سے ڈرنے والے بندوں کی کوئی کمی نہیں ہے لہٰذا ستارہ کو چاند سے ٹکرانے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ نتیجہ یہی ہوا کہ چاند گرہن سے نکل گیا۔ اور ہم چاند کے صاف ہوجانے کے بعد کچھ دیر قیامت کا انتظار کر کے سورہے۔ البتہ صبح جب بیگم نے نماز کے لئے اٹھانا چاہا تو ہم نے یہ کہہ کر لحاف میں منہ چھپا کر کروٹ لے لی کہ۔ ’’قضا پڑھ لیں گے۔‘‘
*۔۔۔*