skip to Main Content

۹ ۔ قاتلانہ حملوں کی بھر مار

ڈاکٹر عبدالرؤف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کافروں اور یہودیوں کو اس بات سے سخت رنج تھا کہ حضور ﷺ نے اُن کے آبائی مذہب اور اندازِحیات کے کھوکھلے پن کا بھانڈاپھوڑ دیا ۔چنانچہ وہ حضور ﷺ کو ختم کرنے کی ناپاک سازشیں تیز تر کرتے چلے گئے ۔مکّی اور مدنی زندگی کے مختلف مرحلوں پر پتھر ،تلوار ،تیر اور زہر کی مدد سے آپ ﷺ پر جتنے قاتلانہ حملے ہُوئے یہاں ان سب کی تفصیلات کو یکجا کر کے پیش کیا جا رہا ہے ۔دشمن کے یہ سب حربے ناکام ہُوئے اور آپ ﷺ ہر بار اُس کے نرغے سے نکل جاتے رہے ۔
پہلا قاتلانہ حملہ
آپ ﷺ پر پہلاقاتلانہ حملہ مکّہ میں ہُوا۔اس وقت مسلمانوں کی کل تعداد چالیس کے لگ بھگ تھی ۔ہُواےُوں کہ ایک روز حضور ﷺخانہ کعبہ میں داخل ہُوئے اور خُدا کی واحد نیّت کا کھُلم کھُلا اعلان فرمادیا۔کفّارِ مکّہ نے اِسے اپنے محبوب بُتوں کی سخت توہین تصوّر کیا ۔چنانچہ شمشیریں نیاموں سے باہر نِکل آئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سب آپ ﷺ پر پل پڑے۔
حضور ﷺ کے ایک صحابی حضرت حارثؓ بن ابی ہالہ اس وقت اپنے گھر پر تھے ۔جب اُنھیں صورتِ حال کی اطلاع ہُوئی تو وہ تشویش اور اضطراب کے عالم میں کعبہ کی جانب اُٹھ بھاگے اور اندر داخل ہوتے ہی حضورﷺ کو بچانے کے لئے مشتعل ہجوم سے گھتم گتھا ہو گئے ۔اس خون ریز ہنگامہ میں حضور ﷺ تو بچ گئے مگر حارث کفّار کے ہتھے چڑھ گئے ۔وہ شدید گھائل ہو کر زمین پر گر پڑے اور زخموں کی تاب نہ لا کر موقعہ پر ہی جاں بحق ہو گئے ۔
حضور ﷺ اور حق کے دفاع میں یہ پہلی شہادت تھی جس نے ایک جان نثار صحابی کے مقدّس خون سے کعبہ کی سر زمین کو رنگین کر دیا ۔
غُنڈوں کا ہلّہ اور بیچ بچاؤ
ایک روز آپ ﷺ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے کہ چند غنڈوں نے آپ ﷺ پر آوازے کسے اور بے بنیاد الزام لگائے ۔جب اُن غنڈوں نے دل آزار باتوں کو تیسری بار دہرایا تو حضور ﷺطواف کرتے کرتے چند لمحوں کے لیے رُکے اور اُنھیں نہایت سختی سے ڈانٹتے ہُوئے کہا ’’اے اہلِ قریش ! قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ،میں تُمھیں فنا کر دوں گا ۔‘‘
حضور ﷺنے اِس قسم کا تلخ لہجہ کبھی اختیار نہ کیا تھا ۔غنڈوں نے جب آپ ﷺ کے تیور بدلتے دیکھے تو سراسیمہ سے ہو گئے ۔اُنھوں نے اپنی بکواس فوراًبند کر دی اور انتہائی نرم انداز میں بولے :’’چلو چھوڑو اے محمّد ﷺ !بخداآپ ﷺ تو متشدّد نہ ہُوا کرتے تھے ۔‘‘اِس پر آپ ﷺ نے طواف کا سلسلہ پھر شروع کر دیا اور یوں بظاہر یہ بات آئی گئی ہو گئی ۔
دُوسرے دن وُہی بدمعاش کعبہ میں پھر جمع ہُوئے اور پچھلے روز کے واقعہ پر سوچ بچارکرنے لگے ۔اُنھیں سمجھ نہیں آتا تھا کہ حضور ﷺ سے اتنی تند تلخ باتیں سُننے کے باوجود اُنھوں نے آپ ﷺ کو اپنی گرفت سے نکلنے کیونکر دیا ۔ابھی وہ اپنی سوچوں میں ڈوبے ہوئے تھے کہ حضورﷺ بھی خانہ کعبہ میں داخل ہوئے ۔غُنڈوں نے آپ ﷺ کو چاروں طرف گھیر لیا اور بولے :’’تم وُہی ہو نا جس نے ہمارے بُتوں اور ہمارے مذہب کے بارے میں ایسی نازیبا باتیں کہی تھیں ؟‘‘آ پ ﷺ نے انتہائی جرأت سے فوراًجواب دیا:’’ہاں ،وُہ شخص میں ہی ہُوں جس نے یہ سب کُچھ کہا تھا ۔‘‘اِس پرغنڈے اور مشتعل ہو گئے اور آ پ ﷺ پر ٹوٹ پڑے ۔ایک بدتمیز نے تو سامنے سے بڑھ کر آپ ﷺ کا جبہ بھی پکڑ لیا ۔
معاملہ زیادہ سنگین صورت اِختیار کرنے ہی والا تھا کہ حضرت ابو بکرؓ بیچ بچاؤ کے لیے بیچ میں کود پڑے ۔آپؓ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور آپ چلّا چلّا کر کہہ رہے تھے :’’خُدا تمھیں برباد کرے ۔کیا تُم ایک شخص کو محض اِس لیے ختم کرنے پر تُل بیٹھے ہو کہ وُہ کہتاہے کہ میرا مالک خُدا ہے ؟‘‘اس پر غنڈے مزید مشتعل ہو گئے ۔اُنھوں نے حضور ﷺکو تو چھوڑ دیا مگر ابو بکرؓ کو دبوچ لیا ۔اُنھوں نے آپؓ کی داڑھی کھینچی ۔ابو بکرؓ کے سر کے بال گھنے تھے ۔غنڈوں نے آپؓ کے بالوں کو انتہائی بے دردی سے نوچا اور آپؓ کوبُہت مارا پیٹا ۔جب یہ ہنگامہ ختم ہوا تو حضرت ابو بکرؓ نہ صرف زخمی ہو چکے تھے بلکہ سخت درد سے اُن کا سر بھی پھٹاجا رہا تھا ۔
پتھّر سے سر کُچلنے کا منصوبہ
ایک دفعہ ابو جہل نے لوگوں کو حضور ﷺکے خلاف کُچھ زیادہ ہی بھڑکا دیا ۔اس نے پھر اعلان کیا کہ وہ اگلے دن ایک وزنی پتھّر سے حضور ﷺ کا خاتمہ کر دے گا ۔چنانچہ دُوسری صُبح ابو جہل سچ مُچ ایک بُہت بڑا پتھر اُٹھا لایااور خانہ کعبہ میں اِس گھات میں بیٹھ گیا کہ جُونہی حضور ﷺ سجدہ میں جائیں وہ پتھر مار کر آپ ﷺ کا سر کُچل ڈالے ۔جب آپﷺ سجدہ میں گئے تو ابو جہل پتھر اُٹھا ئے بڑی پھُرتی سے آپ ﷺ کی طرف لپکا۔
اُس کے چند ساتھی پاس ہی کھڑے یہ سب تماشہ دیکھ رہے تھے ۔وہ اسی انتظار میں تھے کہ حضورﷺ کا اب کام تمام ہُوا کہ ہُوا۔مگر کیا دیکھتے ہیں کہ حضور ﷺ کے عین قریب پُہنچ کر ابو جَہل نے یک لخت پلٹا کھایا۔وہ خوف سے سخت سہما ہُوا تھا ۔اُس کا رنگ اُڑا جا رہا تھااور وُہ تھر تھر کانپ رہا تھا ۔اُس کے دونوں ہاتھ پتھّر پر جم چُکے تھے ۔وُہ دفعتاًپیچھے ہٹا اور پتھّر کو پرے پھینک دیا ۔
ابو جہل کے سب ساتھی اُس کی غیر متوقّع اور قدرے عجیب حرکت پر سخت حیران تھے ۔اُنھوں نے بعد میں اس کے بارے میں پُوچھا تو ابو جہل بولا:’’میں اُس کے سر پر کھڑ ہو کر وُہ کام کرنے ہی والا تھا جس کا میں نے کل اعلان بھی کر دیا تھا۔مگر جُونہی ذرا اور قریب ہُوا تو کیا دیکھتا ہُوں کہ میرے اور مُحمّد ﷺ کے درمیان ایک بُہت بڑااُونٹ کھڑا ہے۔بخدا میں نے آج تک اِتنا بڑا اُونٹ نہیں دیکھا تھا۔نہ کسی اُونٹ کی ایسی گردن اور نہ ہی ایسے دانت دیکھے تھے ۔وہ اُونٹ تو مُجھے نگلنے ہی لگا تھا ۔‘‘جب حضور ﷺ سے اُس اُونٹ کے بارے میں پوچھا گیاتو آپ ﷺ نے فرمایا :’’وُہ تو جبرئیل ؑ تھے ۔ابو جہل اُن کے قریب چلا جاتا تو اُنھوں نے اُسے دبوچ لینا تھا ۔‘‘
عمرؓ نے قتل کی ٹھان لی
اسلام قبول کرنے سے پہلے ایک دفعہ حضرت عُمرؓ نے بھی آپ ﷺ کوقتل کرنے کا اِرادہ کر لیا تھا۔اِسلام کی بڑھتی ہُوئی مقبولیت سے تنگ آکر آپؓ نے ایک تیز تلوار اُٹھائی اور آپ ﷺکو ٹھکانے لگانے کے لیے گھر سے چل نکلے ۔راستے میں آپؓ کو نعیمؓ بن عبداللہ ملے تو اُنھوں نے کہا :’’تُمھاری بہن اور بہنوئی بھی مسلمان ہو چکے ہیں ۔پہلے اُن کی خبر تو لو ۔‘‘
عمرؓ اور طیش کھا گئے ۔اُنھوں نے فوراًراستہ بدلا اور سیدھے بہن کے گھر جا پہنچے۔عمرؓ بُہت طاقتور اور تُرش رُو جوان تھے ۔اُنھوں نے آتے ہی بہنوئی کو لہو لہان کر دیا۔مگر جب بہن کو تلاوتِ قرآن کرتے سُنا تو اُن کی ذہنی کائنات ہی بدل گئی ۔پھر وُہی عمرؓ جو آنحضور ﷺ کو ختم کرنے کی نیت سے نکلے تھے ،تلوار نیام میں ڈالے نہایت ادب و احترام سے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے ۔جب اُنھوں نے اسلام قبول کر لیا تو مسلمانوں نے خوشی سے اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے بلند کیے۔
سوتے میں قتل کی گھناؤنی سازش
جب قریش کے کافر سردار حضور ﷺسے زیادہ تنگ پڑگئے تو اُنھوں نے اس معاملے کے فوری حل کے لیے ایک بُہت بڑی پنچائت منعقد کی ۔یہ اُن دنوں کی بات ہے جب مسلمانوں کی ایک خاصی تعداد مدینہ ہجرت کر چکی تھی اور آنحضور ﷺ ،ابو بکرؓ ،علیؓ اور اکا دُکا اور مُسلمان مکّہ میں رہ گئے تھے ۔
اس تاریخی پنچائت میں حضور ﷺ کو ٹھکانے لگانے کے لیے یہ تین تجویزیں زیربحث آئیں :
اوّل :آپ ﷺ کو زنجیروں میں جکڑ کر کسی مناسب مقام پر عمر بھر کے لیے محبوس کر دیا جائے ۔
دوم :آپ ﷺ کو جلا وطن کر دیا جائے ۔
سوم :آپ ﷺ کا فوری طور پر خاتمہ کر دیا جائے ۔
تیسری تجویز ابو جہل نے پیش کی تھی ۔اسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا ۔چنانچہ فیصلہ یہ ہُوا کہ اُس رات حضور ﷺ کے گھر کے باہر سخت پہرہ لگا دیا جائے تا کہ آپ ﷺ کہیں جانے نہ پائیں اور پھر سوتے میں آپ ﷺ کو ختم کر دیا جائے ۔
اِدھر حضور ﷺ نے اپنی چارپائی پر حضرت علیﷺ کو لٹا دیا اور اُن پر اپنی چادر ڈال دی ۔اِس کے بعد آپ ﷺ را ت کی تاریکی میں پچھلے دروازہ سے نکل کر حضرت ابو بکرؓ کے مکان پر پہنچے اور اُن کو ساتھ لے کر مکّہ سے باہر نکل گئے ۔آپ دونوں نے مکّہ سے باہر غارِثور میں تین دِن قیام کیا اور چوتھے روز اُونٹوں پر سوار ہو کر مدینہ کی جانب روانہ ہوگئے ۔جب کافروں کو آپ ﷺ کے فرار کا پتہ چلا تو اُنھوں نے آپ ﷺ کی فوری گرفتاری کے لیے ایک سو اُونٹنیوں کے اِنعام کا اِعلان کر دیا ۔اِس بڑے انعام کے لالچ میں کئی گُھڑ سوار کُچھ عرصہ آپﷺ کی تلاش میں سر گرداں رہے ۔مگر آپ ﷺ بخیر یّت تمام مدینہ پہنچے کامیاب ہو گئے ۔
زہریلی تلوار سے قتل کا اِرادہ
مکّہ کے دو کافر عمیر بن وہب اور صفوان بن اُمیّہ جنگِ بدر میں کفّار کی شکست کے بعد بُہت افسردہ خاطر رہا کرتے تھے ۔عمیر کا بیٹا مدینہ میں جنگی قیدی بن چکا تھا ۔اور صفوان کا باپ جنگ میں قتل ہو چکا تھا ۔ایک روز حضور ﷺ کو قتل کرنے کی خفیہ سازش کے لیے دونوں مکّہ سے باہر ایک سنسان جگہ ملے۔صفوان کہنے لگا :’’خُدا کی قسم اب جینے کا مزہ ہی باقی نہیں رہا ۔‘‘عمیر بولا :’’سچ کہتے ہو ۔اگر میں مقروض نہ ہوتا تو مدینہ جا کر محمّدﷺ کو قتل کر آتا ۔میرا بیٹا وہاں قید میں ہے ۔‘‘اس پر صفوان نے کہا :’’تم قرضوں اور بچّوں کی فکر نہ کرو ۔میں ان کا ذمّہ لیتا ہُوں ۔تم بس اپنا کام کر ڈالو !‘‘
عمیر فوراًگھر لوٹا ،تلوار اُٹھائی ۔اسے تیز کیا ۔زہر میں بُجھایا اور اُونٹ پر سوار ہو کر سیدھا مدینہ جا پہنچا ۔حضرت عمرؓ نے عمیر کے بدلے ہُوئے تیور سے اس کی بد نیتی بھانپ لی ۔اُنھوں نے اُس سے زہر آلود تلوار چھین لی ۔اور گردن دبائے اُسے حضور ﷺ کی خدمت میں گھسیٹ لائے ۔آپ ﷺ نے فرمایا:’’عمیر کو چھوڑدو !‘‘پھر عمیر سے کہا :’’قریب آجاؤ!کہو کس اِرادہ سے آئے ہو ؟‘‘عمیر بولا :’’بیٹے کی خبر لینے آیا ہُوں ۔‘‘آپﷺ نے فرمایا:’’یہ تلوار کا ہے کو لٹکا رکھی تھی ؟‘‘کیا تم نے اور صفوان نے مکّہ کے فلاں ویرانے میں بیٹھ کر میرے خلاف قتل کی سازش نہیں تھی ؟اور اب تُم اِسی ارادے سے یہاں آئے ہو ۔تُم نے یہ نہ سمجھا کہ میرا تو خُدا محافظ ہے !‘‘
عمیر یہ باتیں سُن کر سنّاٹے میں آگیا اور بے اختیار پُکاراُٹھا :’’محمّدﷺ!آپ ﷺ بے شک خُدا کے پیغمبر ہیں ۔بخدا میرے اور صفوان کے سوا کسی اور کو اِس سازش کی خبر تک نہ تھی !‘‘اِتنا کہا اور اِسلام قبول کر لیا۔
جنگِ اُحد میں قتل کی کو شِشیں
اگر چہ جنگِ اُحد حق و باطل کی قوّتوں کے درمیان ایک عظیم معرکہ تھاتاہم ےُوں دکھائی دیتا ہے جیسے دُشمن کا بنیادی مقصدایک اور صرف ایک ہی تھا :یعنی حضور ﷺکا خاتمہ ۔
مصعبؓ بن عمیر ایک صحابی تھے جن کی شکل وصُورت حضور ﷺکے بہت مشابہہ تھی ۔کفّار کے ایک جوان ابنِ قمیہ نے مصعب کو شہید کر دیا تو ڈنکے کی چوٹ اعلا ن کر دیا کہ ’’میں نے محمّد ﷺ کو قتل کر ڈالا ہے ۔‘‘یہ افواہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔مسلمان کافی بد دل ہو گئے ۔اور اُن کے حوصلے پست ہو گئے ۔حتیٰ کہ حضرت عمرؓ نے بھی غم ویاس کے عالم میں اپنی تلوار زمین پر دے ماری ۔بعد میں یہ افواہ غلط ثابت ہُوئی تو مسلمانوں کی جان میں جان آئی اور پھر ڈٹ گئے ۔پہلا شخص جس نے غلط افواہ کے بعد حضور ﷺکو زندہ حالت میں دیکھا ،کعب بن مالک تھا ۔کعبؓ نے اِس واقعہ کو ےُوں بیان کیا:’’میں نے دیکھا کہ حضور ﷺخود پہن کر ڈٹے ہو ئے ہیں ۔خود کے نیچے سے آپ ﷺ کی چمکتی ہُوئی آنکھیں میں نے فوراََپہچان لیں ۔میں خوشی سے چلّا اُٹھا :’’مُسلمانو!کمر ہمت باندھ لو ۔محمّد رسول اللہ یہاں ہیں ۔چنانچہ مسلمان پھر دلیری سے لڑنے لگے ۔‘‘
اِس جنگ میں کئی کافر حضور ﷺکی تاک میں تھے ۔ایک مقام پر تو ابنِ قمیہ آپﷺکے بالکل قریب جا پہنچا ۔اُس نے آپ ﷺ پر تلوار کا ایک بھر پور وار کیا ۔حضور ﷺکا چہرہ مبارک بُری طرح زخمی ہو گیا ۔چار دانت بھی شہید ہو گئے ۔آپ ﷺ کے چہرہ سے خون بہنے لگا ۔حضرت فاطمہؓ نے خون بند کرنے کی بہتیری کوشِش کی مگر بے سُود ۔آخر ایک موٹی چادر کا ٹکڑا جلایا گیا ۔اور اسے زخم پر رکھ دیا گیا ۔اِس سے خُون بہنا فوراََبند ہوگیا۔
’’تُمھیں مجھ سے کون بچائے گا ؟‘‘
ایک دفعہ حضور ﷺاپنے چندساتھیوں سمیت نجد میں کسی غزوہ کے بعد لوٹ رہے تھے ۔دوپہر کا وقت تھا۔راستہ میں درختوں کے ایک جھُنڈ کے قریب کچھ دیر آرام کرنے کا فیصلہ ہوا ۔صحابہ درختوں کے ایک جھُنڈ تلے لیٹے تو اُن کی آنکھ لگ گئی ۔کُچھ فاصلے پر آنحضور ﷺ بھی ایک پیڑ کے نیچے بیٹھ گئے ۔آپ ﷺ نے اپنی تلوار ایک شاخ سے لٹکا دی اور سو گئے ۔
اِتنے میں ایک بدوی غورث الحارث اُدھر آ نکلا ۔اُس نے موقع پا کر آپ ﷺ کی تلوار اُٹھا ئی اور آپ ﷺ پر لپک پڑا ۔غورث نے تلوار حضورﷺکے سینہ پر تان لی اور چلّایا :’’اب تمھیں مجھ سے کو ن بچائے گا ؟‘‘اس شوروغل سے آپ ﷺکی آنکھ کھُل گئی۔آپ ﷺنے فرمایا :’’صرف اللہ۔ ‘‘ حضور ﷺکے پُروقار چہرے اور اس قدر بے باک جواب سے حملہ آور غورث پر رعشہ سا طاری ہو گیا ۔اس کے ہاتھ تھر تھر کانپنے لگے اور تلوار زمین پر گر پڑی ۔حضورﷺنے اسے جھٹ اُٹھا لیا اور فرمایا ’’اب تجھے مُجھ سے کون بچائے گا ؟‘‘بدوی چکرا گیا ۔آپ ﷺ نے اسے معاف کر دیا ۔اس مشفقانہ سلوک سے بدوی بے حد متأثر ہُوا اور اُسی لمحہ اسلا م قبول کر لیا ۔
جب سب معاملہ ختم ہو چکا تو حضورﷺنے اپنے سوئے ہوئے ساتھیوں کو جگایا اور اُنھیں اپنے پاس بُلا کر یہ دلچسپ واقعہ سُنایا۔
پتھّر تلے کُچلنے کی سازش
۴ہجری کے قریب کا واقعہ ہے کی حضور ﷺیہودیوں کے بد نام ترین قبیلہ بنو نضیر کے لوگوں کے پاس گئے ۔اُنھوں نے آپﷺ کو ایک گڑھے کے قریب بٹھا دیا اور خود اس سازش میں منہمک ہو گئے کہ قریبی مکان کی چھت سے ایک بُہت بڑا پتھر آپ ﷺپر لڑھکا دیا جائے ۔چنانچہ قبیلے کا ایک آدمی عامر بن حجاس اس حرکت کے لیے چھت پر چڑھ بھی چُکا تھا کہ حضور ﷺموقع کی نزاکت بھانپ گئے ۔آپ ﷺ رفع حاجت کا بہانہ بنا کر دُشمن کے چنگل سے نکل گئے ۔
’’ضیافت ‘‘میں ہلاکت کا منصوبہ
یہودیوں کے مشہُور سردار کعب بن اشرف کو مال وزر ،عزت واقتداراور شعروشعری میں بے حد شہرت حاصل تھی ۔اُسے اسلام سے بھیِ اتنی ہی نفرت تھی۔ ایک دفعہ اُس نے یہ منصوبہ بنایا کہ حضورﷺ کے اعزاز میں ایک فرضی ’’ضیافت ‘‘کا اہتمام کیا جائے اور اس’’ضیافت ‘‘کے دوران حضورﷺ پر حملہ کر کے ہلاک کر دیا جائے ۔چنانچہ کعب نے اس مذموم حرکت کے لیے چند بد نام غنڈوں کی خدمات بھی حاصل کر لیں ۔مگر یہ سازش بھی ناکام رہی ۔
فرضی ’’مباحثہ ‘‘میں قاتلانہ حملہ
یہودی قبیلہ بنو نضیر نے ایک دفعہ ایک فرضی ’’مباحثہ ‘‘کے دوران حضور ﷺپر قاتلانہ حملہ کا منصوبہ بنایا ۔چنانچہ اُنھوں نے آپﷺ کو یہ پیغام بھیجا کہ’’ آپ ﷺ ،اپنے تین آدمیوں سمیت ہمارے ہاں آجائیں اور ہمارے عالموں اور راہبوں سے ’’بحث مباحثہ ‘‘کریں ۔اگر ہمارے لوگ آپ کی باتوں سے مطمئن ہو جائیں ،تو ہم اسلام قبول کر لیں گے۔‘‘
آنحضور ﷺ نے یہ دعوت قبول کر لی اور مقرّرہ مقام کی جانب روانہ ہو گئے ۔مگر ابھی راستہ ہی میں تھے کہ آپ ﷺ کو اطّلاع ملی کہ اُن مکار یہودیوں نے تو آپﷺ کے قتل کا جچا تلا منصوبہ بنا رکھا ہے ۔اور ہتھیاروں سے پُوری طرح مسلّح ہو کر گھات میں بیٹھے ہُوئے ہیں ۔آپﷺ راستے ہی سے واپس لوٹ آئے ۔
بارہ نقاب پوشوں کا ہنگامہ
ایک دفعہ بارہ نقاب پوش بد معاشوں کے ایک ٹولہ نے حضور ﷺپرقاتلانہ حملہ کی ایک خطر ناک سازش تیّار کی ۔چنانچہ اُنھوں نے ایک جگہ اپنا خفیہ اجلاس منعقد کیا جس میں بے حداشتعال انگیز تقریریں کی گئیں ۔طے یہ پایا کہ جب حضور ﷺرات کی تاریکی میں عقبہ سے گزریں تو وہ نقاب پوش غنڈے آپﷺ پر یکا یک ہلّہ بول کر آپﷺ کو ٹھکانے لگا دیں ۔
آپ ﷺکواس سازش کا پہلے ہی علم ہو چکا تھا ۔اِس لیے آپﷺ بال بال بچ گئے ۔آپﷺ کے ایک صحابی سے ہاتھا پائی کے دوران نقاب پوشوں کی شناخت بھی کر لی گئی ۔اِس پر وہ خوف زدہ ہو کر بھاگ نکلے اور اِدھر اُدھر چھُپ گئے ۔اگلی صبح حضور ﷺنے ان سازشیوں کو بُلا بھیجا تو وہ بھانت بھانت کے عذر لنگ کرنے لگے ۔مگر آخر کار سب نے اعتراف جُر م کر لیا ۔جُرم کی سنگینی اور اعتراف کے باوجود حضور ﷺنے سارے ٹولے کو معاف کر دیا۔
باتوں باتوں میں قتل کا منصُوبہ
عامر بن طفیل اور اربد بن قیس ودعیّار بد معاش تھے۔ایک دفعہ اِن دونوں نے مِل کر آپ ﷺپر قاتلانہ حملے کا منصوبہ بنایا۔طے یہ پایا کہ دونوں مدینہ میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں ۔پھر عامر آپﷺ کو باتوں میں لگا لے اور اَربد تلوار کے ایک ہی وار سے آپﷺ کا خاتمہ کر دے ۔چنانچہ عامر آپﷺ سے باتوں میں مصروف ہو گیا ۔مگر اَربد وہیں کھڑا رہا ۔کافی انتظار کے بعد بھی جب اَربد نے اپنے حصّے کے کام کا کوئی اِرادہ ظاہر نہ کیا تو عامر سخت مایوس ہُوا ۔وُہ حضور ﷺکو طرح طرح کی دھمکیاں دیتا ہُوا اَربد کے ہمراہ وہاں سے رُخصت ہُوا ۔
راستے میں عامر نے اَربد سے کہا:’’بخدا تم تو بے حد بُزدل ہو۔مُجھے سمجھ نہیں آتا کہ تُم نے آپ ﷺپر وار کیوں نہیں کیا۔بس آج سے میرا تُم سے کوئی واسطہ نہ ہوگا۔‘‘اِس پر اَربد بولا:’’ارے بھئی ، میری بات بھی سنو!میں جب بھی حملہ کی نیت سے آگے بڑھتا مُجھے صرف تُم ہی تم نظر آتے تھے ۔ آپ ﷺ تو بالکل دکھائی ہی نہ دیتے تھے ۔اب بولو،کیامیں تمھیں ہی مار ڈالتا؟‘‘
دونوں باتیں کرتے کرتے اپنے گاؤں کی طرف چلتے گئے ۔راستے میں عامر پر طاعون کا حملہ ہُوا ۔اُس کی گردن پر ایک بڑا سا پھوڑابھی نکل آیااور اُس نے بنی سلول کی ایک عورت کے گھر دم توڑ دیا ۔عامر کی تدفین سے فارغ ہو کر جب اَربد گاؤں پہنچا تو لوگوں نے اُسے حضورﷺکے قتل کی سازش کے بارے میں پُوچھا۔وہ بولا:’’بخدا محمّد ﷺنے ہمیں ایک ایسی ہستی کی عبادت کو کہا تھا جو اگر میرے ہاتھ لگ جائے تو میں اُسے اپنے تیروں سے چھلنی کر دوں ۔‘‘ایک آدھ دِن بعد اَربد اپنا اُونٹ فروخت کرنے کی خاطر گھر سے نِکلا ۔راستے میں اُس پر آسمانی بجلی گری اور وُہ اُونٹ سمیت بھسم ہو گیا۔
بھُنے ہُوئے زہریلے بکرے کا ڈرامہ
ایک مکار یہودی عورت زینب الحارث نے فتح خیبر کے وقت حضور ﷺکو زہر سے ہلاک کرنے کا منصُوبہ بنایا۔اُس نے آپ ﷺ کے لیے ایک بھنا ہُوا بکرا تیّار کیا۔وُہ جانتی تھی کہ آپﷺ کوبکرے کی پنجی بُہت مرغوب ہے ۔چنانچہ اُس نے بکرے کی پنجی میں ایک بے حد مہلک قسم کا زہر زیادہ کثرت سے مِلا دیا۔پھر وُہ زہر شدہ بکرے کو لے کر حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہُوئی اور اسے بڑے ’’ادب ‘‘کے ساتھ آپﷺ کو بطورِ’’تحفہ ‘‘پیش کیا۔
حضورﷺ نے ابھی گوشت کا ایک نوالہ ہی چکھا تھا کہ آپﷺ کو اصل بات سمجھ آگئی ۔آپ ﷺ نے وہ نوالہ فوراًتھوک دیا ۔اور اپنے ساتھیوں کو بھی کھانے کی ممانعت کر دی۔آپﷺ کے ایک ساتھی بشر بن برآء بھی زہریلے گوشت کا ایک نوالہ مُنہ میں ڈال چکے تھے اور اُنھیں بھی زہر کی تلخی کا احساس ہو چکا تھامگر اُنھیں اپنے پیارے نبیﷺ کے سامنے زہریلا نوالہ اُگلنے کی جرأت نہ ہُوئی ۔زہریلا نوالہ اُنکے حلق سے نیچے اُتر گیااور کُچھ عرصہ بعد اُن کی موت کا باعث بنا۔بعد میں جب اس واقعہ کی تحقیقات شُروع ہُوئی تو مکّار عورت کے علاوہ کئی اور یہودی بھی اس خطر ناک سازش میں ملوّث پائے گئے ۔اُن سب نے اعتراف جر م کر لیا ۔مگر حضور ﷺنے سب کو معاف کر دیا۔
اس افسوس ناک سانحہ کے کافی عرصہ بعد جب حضورﷺمرض الموت میں مُبتلاہُوئے تو مرحوم بشر کی والدہ بھی آپ ﷺ کی عیادت کو آئیں ۔باتوں باتوں میں آپ ﷺ نے فرمایا :’’میں ابھی اُس زہر کے اثر سے نہیں نکل پایا جو میں نے تمھارے بیٹے کے ساتھ خیبر میں چکھا تھا ۔‘‘
طواف کے دوران قاتلانہ حملہ
فتح مکّہ کے بعد حضور ﷺنے کُچھ عرصہ مکّہ مکرّمہ میں قیام فرمایا۔انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک روز آپ ﷺ خانہ کعبہ کے طواف میں مصرُوف تھے کہ فضالہ بن عمیر چھپتا چھُپاتاوہاں آنکلااور ارادہِ قتل سے چُپکے سے حضور ﷺ کی تاک میں بیٹھ گیا۔وہ ابھی حملہ کی تیّاریاں ہی کر رہا تھا کہ حضورﷺ خود ہی اس کے قریب جا پہنچے اور اُسے اُس کے دِل کی بات بتا دی ۔
فضالہ اِس اچانک گرفت پر بے حد شرمسار ہُوا۔اس پر آپ ﷺنے اسے توبہ کا مشورہ دیا اور اس کے سینے پر شفقت سے ہاتھ پھیرا ۔ارادہ قتل کے ایک صریح مُجرم کو اپنے پکڑے جانے کے بعد اس قسم کے حسنِ سلوک کی قطعی توقّع نہ تھی ۔فضالہ کی ذہنی کائنات بالکل بدل گئی اور وہ فوراًتائب ہو کر مُسلمان ہو گیا۔
’’میں آج محمّدﷺکو ختم کر دوں گا ‘‘
فتح مکّہ ہی کے دِنوں کی بات ہے کہ ایک روز شیبہ بن عثمان نے اعلان کیا کہ ’’آج میں محمّدﷺ سے اپنے باپ کا بدلہ لوں گا ۔‘‘بات یہ تھی کہ شیبہ کا باپ جنگِ احد میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہو چُکا تھا اور وُہ اُس روز سے آتشِ انتقام میں بُری طرح جل رہا تھا ۔فتح مکّہ کے ایّام میں جب اُس نے حضور ﷺاور مسلمانوں کو قریب سے دیکھا تو اُس کے جذبۂ اِنتقام کے شعلے اور بھڑک اُٹھے ۔وُہ آپے سے باہر ہو گیا ۔اُس نے بڑی شدّومد سے کہا :’’آج میں محمّد ﷺ کو ختم کر دُوں گا ۔‘‘یہ کہہ کر اُ س نے انتہائی مشتعل انداز میں حضورﷺکے اِرد گرد چکّر لگانے شُروع کر دیے۔
وہ ابھی چکّر کاٹ ہی رہا تھا کہ اُسے یوں محسوس ہُوا کہ کوئی اَن دیکھی طاقت اُس کے اور حضورﷺ کے درمیان حائل ہو گئی ہے اور اُسے اپنے بد ارادہ سے باز رکھنے کے لیے سخت دباؤڈال رہی ہے۔اُس کا دِل اچانک بیٹھ گیا اور اِنتقام اور قتل کے لیے اشتعال کے شعلے بالکل سرد پڑ گئے ۔اُسے مکمّل یقین ہو گیا کہ کسی غیبی قوّت نے حضور ﷺکو اُس کی زد سے قطعی محفوظ کر دیا ہے اور وُہ اپنے جُرم کا اِرتکاب نہ کر سکے گا ۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top