قتل کا معما
اعظم طارق کوہستانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ٹرن ۔۔۔ ٹرن۔۔۔ نن۔۔۔ن ن۔۔۔ٹرن۔۔۔‘‘ ٹیلی فون کی گھنٹی جب مسلسل بجنی شروع ہوئی تو لحاف اوڑھے عمار سلجوقی کو بالآخر ہاتھ نکال کر ریسیو ر اٹھانا پڑا۔
’’ یس عمار سلجوقی اسپیکنگ!‘‘ عمار سلجوقی نے حتی الامکان لہجے میں نیند کی آمیزش محسوس نہ ہونے دی۔ جس میں اسے کافی حد تک کامیابی بھی ہوئی۔
’’سر میں وقار بول رہا ہوں، ایک بری خبر ہے۔‘‘
دوسری جانب سے وقار نے کہا تو عمار سلجوقی چونک کر بیٹھ گیا۔
’’کیسی بری خبر؟‘‘
’’سر آج رات کو کنگ ایڈورڈ کالج میں ایک طالب علم کو قتل کر دیا گیا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ یہ خبر عمار سلجوقی کے لیے کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔ کیونکہ کل ہی اس کالج کے حوالے سے ایک فائل اس کے زیر مطالعہ تھی جس میں صرف بیس سال پہلے اسی کالج میں ایک قتل ہوا تھا جس کے متعلق بعد میں پتا چلا کہ وہ ایک خودکشی کا واقعہ تھا۔ وقار نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
’’ سر ! وہ کوئی چور تھا جو چوری کرنے آیا تھا، نذیر نے اسے دیکھ لیا۔۔۔ وہ۔‘‘
عمار سلجوقی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا:’’ یہ نذیر کون ہے؟‘‘
’’سر وہ طالب علم، جو قتل ہوا۔‘‘ وقار نے جواب دیا۔
’’ سر! اس نے شور مچانے کی کوشش کی تو چور نے خنجر مار کر اسے شدید زخمی کر دیا اور اتنی دیر میں اس کے روم میٹ ’’یونس ‘‘ کی آنکھ کھلی تو اس وقت تک چور فرار ہو چکا تھا۔ نذیر کو فوراً ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ چکا تھا۔‘‘ وقار نے تفصیل بتائی۔
’’تم نے تفتیش کے لیے کوئی عملہ روانہ کیا ہے۔‘‘ عمار سلجوقی اب پوری طرح نیند سے بیدار ہوچکا تھا۔
’’ یس سر! عملہ روانہ کر دیا ہے۔ آپ کو اطلاع دینے کے لیے میں رک گیا تھا۔‘‘
’’اچھا ۔۔۔ تم ایسا کرو کہ کالج جاؤ۔۔۔ میں بھی آدھے گھنٹے میں پہنچتا ہوں۔‘‘ عمار سلجوقی نے وقت کا حساب لگا کر کہا۔
’’ٹھیک ہے سر!‘‘ دوسری جانب سے وقار نے جواب دیا تو عمار سلجوقی نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
عمار سلجوقی ایک پولیس انسپکٹر تھا۔ دو ماہ قبل اس کا خیبر پختونخواہ کے اس چھوٹے سے قصبے ہیٹی میں تبادلہ ہوا تھا۔ یہاں اگرچہ چوری کی چھوٹی موٹی وارداتیں ہوا کرتی تھیں مگر قتل شاذو نادر ہی ہوا کرتے تھے اور اب تو ایک ایسے کالج میں قتل ہوا جہاں ۲۰سال پہلے ایک طالب علم نے خودکشی کی تھی۔ قتل کے اُس واقعے پر میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ عمار سلجوقی نے سوچا کہ مجھے قاتل کو فوراً گرفتار کرنا ہوگا۔ اس سے پہلے کہ میڈیا کو اس واقعے کی بھنک بھی پڑے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کالج پہنچ کر عمار سلجوقی نے اس کمرے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جہاں نذیر کو چور نے خنجر مار کر ہلاک کردیا تھا۔
’’اس کمرے میں باہر کی جانب ایک کھڑکی کھلتی ہے اور کسی بھی چور کے لیے مشکل وقت میں وہاں سے چھلانگ لگا کر فرار ہو جانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔‘‘ وقار نے عمار سلجوقی کو بتایا۔ عمار سلجوقی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
نذیر کا روم میٹ ’’یونس‘‘ اس واقعے پر کافی پریشان تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے دوست کی موت سے بہت ڈرا ہوا ہے۔ وہ ۲۰ سال کا ایک کھلنڈرا نوجوان تھا۔
’’کیا تم نے چور کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے؟ کیا اس کا حلیہ تمہیں یاد ہے؟‘‘ عمار سلجوقی نے یونس سے پوچھا۔
’’نہیں۔۔۔ مجھے اس کا چہرہ یاد نہیں ہے کیوں کہ میں صرف اس کی پیٹھ ہی دیکھ سکا تھا۔ اس وقت نذیر کی حالت خون بہہ جانے کی وجہ سے کافی خراب تھی۔ خنجر اس کے پیٹ میں بری طرح دھنساہوا تھا اور وہ بری طرح تڑپ رہا تھا ۔میری ساری توجہ اس کی جانب تھی۔‘‘
یونس نے مزید بتایا: ’’چور نے شاید چہرہ چھپانے کے لیے یہ کپڑا منھ پر باندھ رکھا تھا۔ جو نذیر سے مزاحمت کے دوران کمرے میں گر گیا تھا۔‘‘
عمار سلجوقی نے دستانے پہن کر کپڑے کو دیکھا۔ وہ واقعی چہرے پر لپیٹنے والا رومال تھا۔
وقار نے کپڑا دیکھ کر کہا۔ ’’ اب ہمارا کام کافی آسان ہوجائے گا۔ جاسوسی کتوں سے کام لینے کا وقت آگیا ہے۔‘‘
ویسے بھی ہیٹی قصبہ کوئی اتنا بڑا بھی نہیں تھا کہ جاسوسی کتوں کو کوئی پریشانی پیش آتی۔ اگر قاتل چور قصبہ میں ہے تو وہ ضرور پکڑا جاتا۔۔۔ عمار سلجوقی نے وقار کو کپڑا پکڑاتے ہوئے فوری کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
تقریباً دو گھنٹے بعد عمار سلجوقی پولیس اسٹیشن میں اپنے آفس میں بیٹھا ناشتے میں مصروف تھا کہ وقار چہرے پر ایک پرجوش مسکراہٹ کے ساتھ اندر داخل ہوا۔
’’سر کامیابی مبارک ہو! قاتل چور پکڑا گیا۔‘‘
’’کم از کم مجھے ناشتہ تو کر لینے دیتے، کہاں ہے قاتل چور۔‘‘ عمار سلجوقی کا چہرہ سپاٹ تھا۔
ابھی عمار سلجوقی کی بات زبان پر تھی کہ چار سپاہیوں کی حراست میں ایک درمیانے قد، منحنی(جھکا ہوا) سا جسم اور چھوٹی آنکھوں والا شخص لڑکھڑاتے ہوئے داخل ہوا۔
’’سر کھڑکی سے چھلانگ لگاتے ہوئے اس کی بائیں ٹانگ بھی زخمی ہو گئی تھی۔ یہ مقامی ہوٹل میں ملازم ہے اور اس قسم کی یہ متعدد بار وارداتیں کر چکا ہے۔ کافی پھسڈی ثابت ہوا۔۔۔ میں نے دو ہاتھ جما کر کیا لگائے۔۔۔ فر فر اَگلا پچھلا سب بولنا شروع کر دیا۔‘‘
وقار نے اپنا کارنامہ بیان کرتے ہوئے کہا۔۔۔ لیکن عمار سلجوقی کے چہرے پر ہلکی سی بے چینی ابھی بھی محسوس کی جارہی تھی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اس واقعے کے چار دن بعد عمار سلجوقی آفس میں بیٹھا ایک سائنسی میگزین کی ورق گردانی کررہا تھا۔ اچانک اس کی نظر ایک سنسنی خیزرپورٹ پر پڑی۔ پوری رپورٹ پڑھ کر عمار سلجوقی اتنی زور سے اچھلا۔ جتنا وہ اچھل سکتا تھا۔ پاس بیٹھے وقار نے بھی چونک کر اپنے باس کی جانب حیرت بھری نظر ڈالی۔
’’ کیا ہوا سر؟‘‘
’’ یہ خبر پڑھو۔۔۔‘‘ عمار سلجوقی نے میگزین اس کی جانب کھسکاتے ہوئے کہا۔ اب اچھلنے کی باری وقار کی تھی ۔ وہ دونوں میز پر کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر ۔۔۔تیر کی مانند پولیس اسٹیشن سے نکلے۔۔۔
پولیس اسٹیشن میں بیٹھے دوسرے تمام ساتھیوں نے ان کی اس پھرتی پر حیرت کا اظہار کیا۔۔۔ لیکن اس وقت تک وہ گاڑی میں بیٹھے کالج روانہ ہو چکے تھے۔ کالج کے پرنسپل نے ایک بار پھر جب کالج کی دہلیز پر پولیس کو دیکھا تو ان کے چہرے پر ناخوشگوار تاثرات ابھر آئے۔
’’ آپ لوگوں نے تو قاتل پکڑ لیا ہے، پھر کیسے آنا ہوا؟‘‘ پرنسپل نے نہ چاہتے ہوئے بھی چہرے پر مخصوص مسکراہٹ برقرار رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ جناب پرنسپل صاحب! کیا یہ کالج میڈیکل کی ہی تعلیم دیتا ہے؟‘‘ عمار سلجوقی نے الٹا آسان ساسوال کیا۔
’’جی۔۔۔ یہ کالج میڈکل کے طلبہ کا ہے۔‘‘ پرنسپل نے اطمینان بھرے لہجے میں کہا۔
آپ کا کہنا ٹھیک ہے کہ قاتل توپکڑا جا چکا ہے لیکن ۔۔۔‘‘ عمار سلجوقی نے بات ادھوری چھوڑی۔
’’لیکن کیا۔‘‘ پرنسپل کے لہجے میں کرختگی اور حیرت کا مِلا جُلا تاثر تھا۔
’’مارنے والے چور کے علاوہ ایک قاتل اور بھی ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ پرنسپل حیرت سے چیخ پڑا۔
’’ جی ہاں! اور وہ قاتل آپ کے کالج میں ہی زیرِ تعلیم ہے۔‘‘
’’جی۔۔۔ کیا مطلب۔۔۔؟‘‘ پرنسپل کے چہرے پر خوف کے تاثرات ابھر آئے۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ اس سے کالج کی مزید بدنامی ہوجائے گی۔
’’ مطلب یہ کہ مسٹر نذیر کے روم میٹ دوست مسٹر یونس ان کے ’’اصل‘‘ قاتل ہیں۔‘‘
’’یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔ ضرور اس میں کوئی سازش چھپی ہے۔‘‘ پرنسپل حواس باختہ ہو گیا۔
’’ آپ نے جو کچھ بھی کہنا ہے عدالت میں آکر کہیں۔‘‘ اس بار وقار نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عدالتی کارروائی جاری تھی۔ حکومتی وکیل کے دلائل کافی وزنی تھے۔ پوری عدالت ان کو بغور سن رہی تھی۔
’’ اس رات جب چور کو معلوم ہوا کہ وہ بری طرح پھنس جائے گا تو اس نے نذیر کو خنجر مار کر زخمی کر دیا۔ اس وقت مسٹر یونس کی آنکھ کھلی ، عدالت یہ نوٹ کرے کہ اس رات مسٹر نذیر اور مسٹر یونس کا جھگڑا ہوا تھا۔ دوران تفتیش مسٹر یونس نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے امتحانات میں پاس ہونے کے لیے پیپر کو غیر قانونی طریقے سے چوری کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ جس پر نذیر نے اسے منع کیا اورباز نہ آنے پر پرنسپل کو سب کچھ سچ سچ بتانے کا ارادہ کیا۔ جس کی وجہ سے دونوں روم میٹ دوستوں کا جھگڑا ہو گیا لیکن رات کا وقت ہونے کی وجہ سے پرنسپل کو صبح ہی شکایت لگائی جا سکتی تھی۔
لیکن۔۔۔!
رات کو آنے والے چور نے جب خنجر نذیر کے پیٹ میں اتارا تو اس وقت یونس کے اٹھنے پر وہ خنجر نکالے بغیر فرار ہو گیا لیکن رومال گر جانے کی وجہ سے وہ پکڑا گیا۔‘‘ وکیل نے گہرا سانس خارج کیا۔
سب مبہوت ہو کر یہ سنسنی خیز کہانی سن رہے تھے۔ جیسے یہ قتل کا کیس نہ ہو، علی بابا چالیس چوروں کا قصہ ہو۔
’’اصل کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ خنجر نذیر کے پھیپھڑوں میں اتر چکا تھا اور میڈیکل کا طالب علم یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ پھیپھڑے میں لگا خنجر نکال لینا، خنجر نہ نکالنے سے زیادہ خطرناک اور مہلک ہے۔ میڈیکل کی رو سے ایسی حالت میں خنجر نکال لیا جائے تو زخمی فوراً مر جاتا ہے لیکن اگر خنجر کو آپریشن کے ذریعے نکالا جائے تو زخمی کے بچنے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔‘‘ حکومتی وکیل کے اس اہم نکتے پر جج نے بھی اپنے ہونٹ سکیڑ لیے۔
’’عدالت اور مسٹر یونس کے ہمدردوں کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ زخمی نذیر سے خنجر کو نکالنے کی غلطی مسٹر یونس نے جان بوجھ کر کی تھی۔ مسٹر یونس نہیں چاہتے تھے کہ وہ اس بہترین موقع کو گنوائے۔۔۔ صبح پرنسپل کو چوری کے علم ہوجانے کے ڈر سے مسٹر یونس اس گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے۔‘‘
عدالت میں بلائے گئے ڈاکٹروں نے بھی اس صورتحال میں مسٹر یونس کو قاتل ٹھہرایا اور یونس کے اساتذہ نے بھی۔ اساتذہ کا کہنا تھا کہ وہ اس موضوع پر کلاس میں لیکچر دے چکے ہیں جس میں مسٹر یونس نے بھی شرکت کی تھی۔
مسٹر یونس کو سبھی ملامت کر رہے تھے کہ جس نے محض ذرا سی رنجش کے بدلے اپنے دوست کو اذیت ناک موت کے حوالے کر دیا اور پھر جب یونس نے بھی اپنے گناہ کا بھری عدالت میں اقرار کیا تو عدالت نے قاتل چور اور مسٹر یونس کو عمر قید کی سزا سنائی۔ سزا سناتے وقت عدالت میں مکمل طور پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ فیصلہ سننے کے بعد انسپکٹر عمار سلجوقی، اپنے اسسٹنٹ وقار کو دیکھ کر مسکرا دیا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ اگر وہ میگزین میں وہ رپورٹ نہ پڑھتا کہ جس میں لکھا تھا کہ پھیپھڑوں میں خنجر لگنے کے بعد اسے فوراً نہیں نکالنا چاہیے، اگر ایسا کیا گیا تو زخمی فوراً مر جائے گا ، تو شاید آج مسٹر یونس قاتل ہونے کے باوجود کوئی سزا نہیں پاتا۔
اس لیے کہتے ہیں کہ جرم کبھی نہیں چھپتا، چاہے وہ سات پردوں کے پیچھے چھپ کر کیوں نہ کیا جائے۔
*۔۔۔*۔۔۔*