قلعی کھل گئی
عشرت رحمانی
۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹلی میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کی رعایا اسے ناپسند کرتی تھی مگر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اس کی بہت تعریف کرتے تھے۔اس بادشاہ کا ایک خوشامدی وزیر تھا۔ وہ دن رات بادشاہ کی جھوٹی تعریفیں کرتا۔ بادشاہ کا حکم تھا کہ اسے رعایا کا حال سچ مچ بتایا جائے کہ کون کس حالت میں ہے اور میرے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں۔ اس طرح میں ان کی رائے اور سب کے حالات صحیح طور پر معلوم کرسکوں گا۔ اس کے جواب میں دوسرے وزیر تو خاموش رہتے، مگر تعریف کرنے والا وزیر فوراً کہتا، حضور کی نیکی اور انصاف کے چرچے سارے ملک بلکہ دنیا بھر میں ہوتے ہیں۔ بھلا وہ کون بے وقوف آدمی ہوگا جو حضور کے انتظام سے خوش نہ ہو۔ ہمارے ملک کی رعایا تو بے حد آرام اور چین سے ہے۔
بادشاہ کو اس کی باتیں سنتے سنتے شک ہونے لگا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ خوشامدی مجھ سے سچی اور صاف باتیں نہیں کرتا اور اس کے دھوکے میں اپنی رعایا کے اصل حال سے بے خبر رہوں۔ یہ سوچ کر اس نے ارادہ کیا کہ اس وزیر کو کسی طرح آزمانا چاہیے۔ پہلے تو وہ اسے باتوں باتوں میں سمجھاتا رہا کہ دیکھو دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہوتا جس کے سارے لوگ اپنے بادشاہ سے خوش ہوں اور کوئی بادشاہ ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ جو کسی معاملے میں بے جا فیصلہ نہ کر بیٹھے، جس سے کسی کو تکلیف پہنچے۔ وزیر کو چاہئے کہ اس کے سامنے سچ بولے اور حق بات کہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم نڈر ہو کر میرے سامنے رعایا کا حال، ان کے خیالات اور میرے انتظام کی صحیح حالت مجھے بتادیا کرو تاکہ میں سب لوگوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کر سکوں ، لیکن وزیر اپنی خوشامد کی عادت سے باز نہ آیا اور اسی طرح جھوٹی سچی باتیں بنا کر تعریفیں کرتا رہا۔ آخر بادشاہ نے تنگ آکر اس کی آزمائش کے لئے اس سے کہاکہ ہم تمہارے کام اور تمہاری باتوں سے بہت خوش ہیں اور اس صلے میں تمہیں بہت بڑا انعام دینا چاہتے ہیں۔ یہ انعام ایک دن کی بادشاہت ہے۔ کل تم بادشاہ بنو گے اور دربار میں سب امیروں، وزیروں اور رعایا کے اعلیٰ و ادنیٰ لوگوں کو جمع کرکے تمہاری دن بھر کی بادشاہت کا ہم اعلان کریں گے۔
وزیر یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ دوسرے دن شاہی دربار میں مہمان آنا شروع ہوئے۔ ہر طبقے کے لوگوں کو دعوت دی گئی تھی اور ان کے سامنے وزیر کو بادشاہ نے اپنا تاج پہنا کر اپنے تخت پر بٹھا دیا اور اعلان کیا کہ آج کے دن ہم بادشاہ نہیں۔ آپ لوگوں کا یہ بادشاہ ہے۔ اس کے بعد سب لوگ کھانے پینے میں مصروف ہوگئے۔ خوشامدی وزیر بادشاہ بنا، بڑی شان سے تخت پر بیٹھا، نئے نئے حکم چلا رہا تھا اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہاتھا۔
اصلی بادشاہ ایک دن کے نقلی بادشاہ کے پاس چپ چاپ بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک دن کے بادشاہ کی نظر جو اچانک اٹھی تو وہ ایک دم خوف سے کانپنے لگا۔ اصلی بادشاہ اس کی یہ حالت دیکھ کر مسکراتا رہا۔ قصہ یہ تھا کہ نقلی بادشاہ نے دیکھا کہ شاہی تخت کے اوپر اس جگہ جہاں وہ بیٹھا تھا سر پر ایک چمک دار خنجر لٹک رہا تھا جو بال جیسی باریک ڈوری سے بندھا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر نقلی بادشاہ کا ڈر کے مارے برا حال ہوگیا کہ کہیں یہ بال ٹوٹ نہ جائے اور خنجر اس کے اوپر نہ آپڑے۔ اس نے ضبط کر کے بہت سنبھلنے کی کوشش کی، مگر اس سے خوف کی وجہ سے سیدھا نہ بیٹھا گیا۔
آخر مجبور ہو کر اصلی بادشاہ سے کہنے لگا:”حضور! یہ خنجر میرے سر پر سے ہٹوادیا جائے۔“
اصلی بادشاہ نے مسکرا کر کہا:”یہ کیسے ہٹایا جاسکتا ہے۔ یہ تو ہر بادشاہ کے سر پر ہر وقت لٹکا رہتا ہے۔ اسے فرض کا خنجر کہتے ہیں۔ اگر کوئی بادشاہ اپنے فرض سے ذرا غافل ہوتا ہے تو یہی خنجر اس کے سر کی خبر لیتا ہے، لیکن جو بادشاہ انصاف اور سچائی سے حکومت کرتا ہے یہ خنجر اس کی حفاظت کرتا ہے۔“
اب تو وزیر کی بہت بری حالت ہوگئی اور وہ پریشان ہو کر سوچنے لگا کہ اب کیا کرے، کیا نہ کرے۔ اس کے دل میں خیال آرہا تھا کہ ایک دن کی بادشاہت میں وہ ایسے ایسے حکم چلائے جس سے اس کے خاندان والوں، عزیزوں اور دوستوں کو خوب فائدے پہنچیں، مگر اب تو اس کے سارے منصوبے خاک میں ملتے نظر آرہے تھے۔ اس نے سوچا اگر کوئی حکم اس نے انصاف کے خلاف دیا تو یہ خنجر اس کی گردن اڑادے گا۔ اصلی بادشاہ اس کی گھبراہٹ دیکھ کر کہنے لگا، اب تمہاری سمجھ میں آیا کہ بادشاہ کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اس کی جان کو کیا کیا عذاب جھیلنے پڑتے ہیں۔ یہ تخت آرام اور من مانی کے لیے نہیں ہے۔ رعایا کا حال اور ملکی انتظام کے بارے میں صحیح صحیح حالات بتاؤ۔ خوشامدی وزیر اپنے بادشاہ کی جھوٹی تعریف کر کے ملک، بادشاہ اور رعایا کی بھلائی نہیں کرتے اور خود اپنے بھی خیر خواہ نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ اپنے بادشاہ کو اس چمک دار خنجر کی زد میں لاتے ہیں جو اس کے سر پر لٹک رہا ہے۔ وزیر اپنے بادشاہ کی یہ باتیں سن کر بہت شرمندہ ہوا اور جھوٹی خوشامد سے باز رہنے کی توبہ کر کے بادشاہت سے دست بردار ہوگیا۔