قید یا موت
تلخیص: شہباز شاہین
…….
ایک امیر بوڑھے شخص اور وکیل کا ماجرا…… انسانی خیالات کو تبدیل کرنے والی تحریر
…..
خزاں کی ایک اداس شام تھی اور وہ سرجھکا ئے اپنے کمرے میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک اب تک نہ جانے کتنے چکر کاٹ چکا تھا۔ ایسے میں وہ پندرہ برس پہلے کی اس یادگار اور پرلطف تقریب کی یادیں تازہ کررہا تھا۔ جب اس کی ملاقات شہر کے سب سے مشہور نوجوان وکیل سے ہوئی تھی اور اس کے ساتھ رسمی علیک سلیک کے بعد گفتگو بہت جلد ایک انتہائی دلچسپ بحث میں تبدیل ہوگئی تھی۔ وہ خود ایک بڑا دولت مند آدمی تھا۔
نوجوان وکیل اس کے ساتھ کاروبار کرنے والی ایک فرم کا قانونی مشیر تھا اور دوسرے لوگوں کے ساتھ اس نے اسے بھی مدعو کر رکھا تھا۔ پیشہ ورانہ ذہانت کے علاوہ اس نوجوان کی شخصیت بے پناہ سحر انگیز تھی، بحث اس بات پر چل نکلی تھی کہ سزائے موت ایک انتہائی ظالمانہ اور قبیح فعل ہے۔ تقریب میں پروفیسر، صحافی، مصنف اور دوسرے دانشور بھی تھے۔ اکثریت کا خیال تھا کہ قرون اولیٰ کی اس یادگار کو بھی ختم کر دینا چاہیے، ہمارا مہذب معاشرہ اتنی بہیمانہ سزا کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بعض کا خیال تھا کہ سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دینا چاہیے۔
”میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا۔“ میزبان یہودی نے بڑے پرجوش انداز سے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔
”اگرچہ مجھے سزائے موت یا عمر قید سے کبھی واسطہ نہیں پڑا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر کبھی مجھے ان دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو میں سزائے موت کو اپنے لیے پسند کروں گا۔ یہ صرف ایک لمحے کی اذیت ہوگی جبکہ عمر قید کا ہر لمحہ پھانسی سے زیادہ اذیت ناک ہوگا۔ میں عمر قید کو سزائے موت کے مقابلے میں زیادہ غیر انسانی سمجھتا ہوں۔ آپ ہی بتائیے جناب! کونسی بات زیادہ بری ہے، اچانک جان سے مار دینا یا سسکا سسکا کر بتدریج ہلاک کرنا؟“
”دونوں ہی غیر انسانی ہیں۔“ ایک مہمان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: ”کیونکہ دونوں کا مقصد قیمتی انسانی جان کو ختم کرنا ہے۔ ریاست یا حکومت خدا نہیں ہوتی، اگر یہ کسی کو زندگی دے نہیں سکتی تو اسے زندگی واپس لینے کا بھی حق نہیں دیا جا سکتا۔“
”آپ ماہر قانون ہیں۔ آپ کی حتمی رائے کیا ہے؟“ایک شخص نے نوجوان وکیل سے پوچھا ”سزائے موت اور عمر قید دونوں بڑی بھیانک اور غیر انسانی سزائیں ہیں، لیکن اگر مجھے ان میں سے ایک کا انتخاب کرنے کے لیے کہا جائے تو میں معزز میزبان کے برعکس عمر قید کو اپنے لیے پسند کروں گا۔ اس طرح زندگی تو ختم نہیں ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں بالکل نہ رہنے سے کسی نہ کسی حال میں زندہ رہنا بہتر ہے۔“
”ہر گز نہیں، ہرگز نہیں۔“
”یہ درست کہتے ہیں۔ میرا موقف بھی یہی ہے۔“
”بالکل غلط۔ سراسر غلط۔“
بیک وقت کئی آوازوں سے کمرہ گونج اٹھا۔ بحث میں اچانک شدت پیدا ہو گئی تھی۔ نوجوان میزبان جوا ب تک بڑے تحمل سے باتیں کررہا تھا، اچانک جوش میں آگیا اور ہوا میں مکے لہرا لہرا کر کہنے لگا۔
”یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ عمر بھر کی قید کاٹنا آسان نہیں، نوجوان وکیل ایک مہینے کی قید نہیں کاٹ سکتا۔ عمر بھر کی قید کیا کاٹے گا۔“
”میں نے کہاہے اگر مجھے دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو میں عمر قید کو ترجیح دوں گا۔“ وکیل نے کہا۔
”یہ جھوٹ ہے۔ تم قید کے پہلے سال ہی میں چلا اٹھو گے کہ مجھے سزائے موت دے دو۔ مجھے عمر قید نہیں چاہیے۔“
”ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ میں ایک سال چھوڑ پندرہ سال تک یہ مطالبہ نہ کروں گا۔“
”یہ بات ہے تو آؤ میں شرط لگاتا ہوں۔ بیس لاکھ ڈالر کی۔“
”بیس لاکھ ڈالر۔“ نوجوان ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑ گیا۔ ”چلو منظور۔“ پھر وہ چلایا۔ ”منظور“
”سب لوگ گواہ رہنا۔“
”ہم سب گواہ ہیں۔“ سب بیک آواز بول پڑے۔
اور یہودی میزبان اور نوجوان وکیل نے آگے بڑھ کر ہاتھ پر ہاتھ مار کر شرط کو قطعی شکل دے دی۔
”میں اپنی زندگی کے پندرہ برسوں کی قید مسلسل قبول کرتا ہوں۔“
”اور میں اس قید مسلسل کی کامیاب تکمیل پر آپ کو بیس لاکھ ڈالر انعام دینے کا وعدہ کرتا ہوں۔“
اور یوں باتوں ہی باتوں میں بحث اچانک سنجیدہ شکل اختیار کر گئی اور ایک مضحکہ خیز بلکہ وحشیانہ معاہدہ طے پا گیا۔ کچھ دیر بعد کھانے کی میز پر یہودی میزبان نے دعویٰ قبول کرنے والے وکیل سے کہا: ”میرے پاس بے اندازہ دولت ہے، اتنی کہ میں شمار بھی نہیں کر سکتا۔ بیس لاکھ ڈالر میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے لیکن تم اچھی طرح سوچ لو۔ زندگی بھر کی اذیت خرید رہے ہو۔ ایک دفعہ پھر موقع دیتا ہوں، ہوش میں آجاؤ۔“
”میں اپنے الفاظ سے پھرنے والا نہیں۔ یہ بھی ایک انوکھا تجربہ ہی سہی۔“
”میں کہتا ہوں تم اپنی زندگی کے تین چار قیمتی سال یونہی گنوا دو گے۔ تین چا رسال اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھے یقین ہے کہ تم اس سے زیادہ مدت جیل میں زندہ نہ رہ سکوگے۔ پاگل ہوجاؤ گے یا قید خانے کی دیواروں سے سر ٹکرا کر جان دے دو گے۔“
”ایسا کبھی نہیں ہوگا، تم اپنے دعوے پر قائم رہو۔“
”میں اپنے دعوے پر قائم ہوں مگر تم شاید زندگی سے تنگ آئے ہوئے ہو۔ خود پر رحم کرو، ترس کھاؤ، یہ مت بھولو کہ اپنی مرضی سے قید کاٹنا جبراً قید سے زیادہ مشکل ہے۔ یہ خیال کہ جب تم چاہو شرط ہار کر جیل سے باہر آسکتے ہو، تم پر زندگی کا ایک ایک لمحہ عذاب بنا دے گا۔ نوجوان دوست! مجھے تم پر ترس آرہا ہے۔“
بوڑھا شخص کمرے میں چکر کاٹتے ہوئے ایک ایک لمحے کی یادیں تازہ کررہا تھا۔ پورے پندرہ برس…… ایک مسلسل فلم کی طرح اس کے ذہن کے پردے پر آتے چلے جارہے تھے اور وہ سوچ رہا تھا کہ اس نے یہ احمقانہ بلکہ ظالمانہ دعویٰ کیا ہی کیوں تھا؟ باتوں ہی باتوں میں وہ اتنی جلدی کیوں سنجیدہ ہو گیا تھا؟ وکیل نے اپنی زندگی کے پندرہ سال داؤ پر لگا دیئے تھے اور اس نے بیس لاکھ ڈالر جھونک دیئے تھے، لیکن کیا ان کی اس حرکت سے اس بات کا ہمیشہ کے لیے تصفیہ ہو سکتا تھا کہ سزائے موت بہتر ہے یا عمر قید؟ بوڑھے نے بڑبڑا کر کہا۔ ”ہر گز نہیں، ہر گز نہیں، یہ سب بکواس تھی، بیہودگی تھی۔ کاش میں نے ہی عقل کے ناخن لیے ہوتے! میری طرف سے یہ بے پناہ دولت کی اندھی نمائش تھی اور نوجوان وکیل کی طرف سے دولت کی حرص کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔“
اب اس کی یادداشت میں پارٹی کے بعد واقع ہونے والی باتیں تازہ ہو رہی تھیں۔ تب یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ وکیل اس کے باغ کے ایک کونے میں واقع اس کے مکان کے ایک کونے میں قید تنہائی میں پندرہ سال رہے گا۔ اس کی کڑی نگرانی کی جائے گی۔ یہ بھی طے پایا کہ اس عرصے میں وہ اپنے کمرے سے باہر نہیں نکل سکے گا۔ دوسرے لوگوں سے ملنے اور ان سے باتیں کرنے یا ان کی شکل دیکھنے کی بھی اجازت نہ ہوگی۔ وہ انسانی آوازیں بھی نہ سنے گا۔ البتہ اسے روزانہ اخبار اور مطلوبہ کتابیں مہیا کی جاتی رہیں گی۔ اسے موسیقی کا ایک آلہ مہیا کر دیا جائے گا۔ خط لکھنے اور وصول کرنے کا حق ہوگا۔
یہ بھی طے پایا کہ وہ بیرونی دنیا سے کمرے میں خاص طور پر بلندی پر بنائے جانے والے دریچے کے ذریعے خاموش رابطہ رکھ سکے گا یعنی اپنی ضروریات کا اظہار تحریر کے ذریعے کرے گا۔ اسی دریچے سے اسے خوراک اور ضرورت کی دوسری چیزیں مہیا کی جائیں گی۔ معاہدہ تحریری اور قانونی طور پر طے پایا اور اس میں تمام تر تفصیلات قلمبند کر دی گئیں۔ یہ بھی لکھ دیا گیا کہ”نوجوان وکیل چیلنج کی رو سے ۴۱ نومبر ۰۷۸۱ء کو رات ٹھیک بارہ بجے اپنی قید تنہائی کا آغاز کرے گا اور پندرہ برس کی قید مکمل کرنے کے بعد ۴۱ نومبر ۵۸۸۱ء کو رات ٹھیک بارہ بج کر ایک منٹ پر اس کی کوٹھری کا دروازہ کھول کر اسے رہا کر دیا جائے گا اور اس دعوے کی کامیاب تکمیل پر اسے بیس لاکھ ڈالر نقد ادا کر دیئے جائیں گے لیکن اگر وہ طے شدہ وقت سے دو منٹ بھی پہلے باہر نکلتا ہے یا کسی اور قسم کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ بیس لاکھ ڈالر کا قطعاً مستحق نہیں ہوگا اور شرط ہار جائے گا۔“
٭……٭
دریچے کے راستے باہر بھیجی جانے والی چھوٹی چھوٹی پرچیوں سے یہ اندازہ ہوا کہ قید کے پہلے سال وکیل تنہائی اور بوریت سے ازحد پریشان رہا۔ اس کے بند کمرے میں دن رات پیانو بجانے کی آوازیں آتی رہتی تھیں۔ قید کے پہلے سال وکیل کو اس کے مطالبے پر ہلکی پھلکی کہانیوں کی کتابیں اور ناول مہیا کیے گئے اس نے محبت اور جرائم کامیڈی اور تصوراتی کہانیوں میں زیادہ دلچسپی ظاہر کی۔
دوسرے برس کے دوران پیانو بجنا بند ہو چکا ہے، اسے اب اس ساز سے بھی چڑ ہو گئی تھی۔ اب اس نے زیادہ تر کلاسیکی کتابوں کی فرمائش کی۔ پانچویں برس میں اس کے کمرے سے موسیقی کی آوازیں پھر ابھرنا شروع ہوگئیں۔ چھپ چھپ کر اس کی جھلک دیکھنے والوں نے بتایا کہ وہ سارا سال کھاتا پیتا اور سوتا رہا۔ وہ اکثر بڑبڑانے لگتا اور اپنے آپ کو برا بھلا کہنا شروع کردیتا۔ اس سال اس نے کتابیں بالکل نہ پڑھیں۔ اس سے پہلے کے چار برسوں میں اس کی فرمائش پر تقریباً چھ سو کتابیں خرید کر اسے مہیا کی گئیں تھیں۔ اس کے بے پناہ مطالعے کا نتیجہ تھا کہ ایک روز یہودی کو اس کی طرف سے ایک رقعہ ملا جس پر لکھا تھا:
”پیارے! میں تمہیں یہ خط چھ زبانوں میں لکھ رہا ہوں، اسے ان زبانوں کے ماہرین کو دکھاؤ اور پڑھاؤ۔ اگر انہیں میرے جملوں میں زبان و بیان کی کوئی غلطی نظر نہ آئے تو میری تم سے درخواست ہے کہ میرے کمرے کے قریب باغ میں کسی جگہ بندوق کا ایک فائر کر دینا۔ اس آواز سے مجھے پتہ چل جائے گا کہ میں نے یہ زبانیں سیکھنے کے لیے جو ریاضت کی وہ ضائع نہیں گئی۔ یہی وہ مختلف عالمی زبانیں ہیں جنہیں مختلف قوموں کے لوگ بولتے ہیں اور جن میں تمام ادوار کے انسانوں کی ذہانت کے انمول خزانے سمٹ آئے ہیں۔ تم میری خوشیوں کا اندازہ نہیں کرسکو گے جو مجھے ان زبانوں پر عبور حاصل کرکے ہوئی ہے۔“
مختلف لسانی ماہرین کو اس کا خط پڑھوانے کے بعد باغ میں بندوق داغ دی گئی۔ آگے چل کر قید تنہائی کے دسویں برس میں عموماً وکیل کو اپنے مطالعہ کی میز پر ایک ہی کتاب کے آگے سرجھکائے دیکھا گیا۔ یہودی حیران تھا کہ وہ شخص جس نے پہلے چار برسوں میں چھ سو ضخیم اور مشکل ترین کتابیں پڑھ ڈالی ہوں، پورا سال صرف ایک کتاب ہی کو کیوں پڑھتا رہا؟ یہ سال ختم ہونے پر نوجوان نے اس کی جگہ عالمی مذاہب اور عقائد کے بارے میں ایک نئی کتاب کا مطالعہ شروع کر دیا۔
قید کے آخری دو برسوں میں وکیل نے ہر قسم کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ اب جو بھی کتاب اس کے ہاتھ آئی وہ اسے پڑھ ڈالتا۔ اس نے پہلے تو مطالعہ فطرت سے متعلق کتابوں کو کھنگال ڈالا پھر بائرن اور شیکسپیئر کو پڑھا۔ اب اس کی طرف سے جو خط ملتے ان میں بیک وقت کیمیا، طب، ناولوں اور فلسفہ و مذاہب سے متعلق رسالوں، کتابوں اور کتابچوں کی فرمائش کی گئی ہوتی۔ یوں لگتا تھا جیسے سمندر میں ایک شکستہ کشتی جیسا انسان ہے جو کبھی ایک تختے کا سہارا لیتا ہے اور کبھی لپک کر دوسرے تختے کو پکڑ لیتا ہے اور یوں خود کو ڈوبنے سے بچانے کی سرتوڑ کوشش کررہا ہے۔
یہودی سر جھکائے ٹہلتا ہوا اپنی یادداشتوں کا ایک ایک ورق الٹ رہا تھا:
”کل رات ٹھیک بارہ بجے اس کی قید کی طویل المعیادمدت ختم ہوجائے گی۔ پورے پندرہ برس بعد وہ میری قید سے آزاد ہوجائے گا اور معاہدے کی رو سے مجھے اسے بیس لاکھ ڈالر ادا کرنے ہوں گے لیکن میرے پاس اب اتنی بھاری رقم کہاں؟ اور اگر میں اپنا سارا کچھ بیچ باچ کر اور سارے اثاثے سمیٹ سماٹ کر اسے یہ رقم ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو بالکل تباہ و برباد ہوجاؤں گا۔ دیوالیہ!
ایک دم دیوالیہ! پندرہ برس پہلے تو میرے پاس ایک بیس لاکھ کیا کئی بیس لاکھ ڈالر تھے، اتنے کہ ان کی گنتی اور حساب کتاب رکھنا بھی مشکل تھا لیکن آج میری جمع پونجی کے مقابلے میں مجھ پر قرضوں کا بوجھ کہیں زیادہ ہے۔ کاروبار میں سٹے بازی نے مجھے بالکل ہی تباہ کر دیا ہے، مجھے منہ دکھانے کو نہیں چھوڑا۔ مالی پریشانیوں نے مجھے یوں بھی بہت زیادہ بوڑھا کر دیا ہے۔ مارکیٹ میں میری ساکھ اجڑ چکی ہے۔ خود میں اعتماد کی دولت سے محروم ہوں۔ اب کسی کام میں ہاتھ ڈالتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ جن بڑی بڑی فرموں سے رقمیں لینی تھیں ان میں سے بھی کئی ایک دیوالیہ ہو چکی ہیں۔ مقدر نے بہت بری طرح دبوچا ہے۔
قرض خواہ اپنی رقمیں وصول کرنے کے لیے عدالتوں میں میرے خلاف جانے کا سوچ رہے ہیں اور پھر یہ ڈالر دینے ہوں گے۔ یا خدا میں کیا کروں، یا خدا میں کیا کروں، کہاں جاؤ۔“ یہ کہہ کر بوڑھے شخص نے دونوں ہاتھوں سے الجھے ہوئے سفید بالوں والا سر تھام لیا۔
وہ پھر سوچنے لگا: ”یہ شخص مر کیوں نہیں جاتا! مگر ابھی تو اس کی عمر صرف چالیس سال ہے۔ وہ کل مجھ سے بیس لاکھ ڈالر وصول کرے گا۔ نہ دوں گا تو عدالت کے ذریعے نکلوالے گا پھر میرے پیسوں پر عیش کرتا پھرے گا اور مجھے ایک پائی کا محتاج کرجائے گا۔ وہ لکھ پتی بن جائے گا اور میں گداگر۔ پھر وہ ہر روز بڑے طنز سے مجھے خیرات دیتے ہوئے یہ جملہ کہا کرے گا، میری یہ عمارت و خوشحالی تمہاری وجہ سے ہے آؤ میں تمہاری مدد کروں۔ نہیں، نہیں، میں یہ سب کچھ نہیں سن سکتا۔ ایسا کبھی نہ ہوگا۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔“
بوڑھا شخص چلا اٹھا اور اس نے اپنے الجھے ہوئے بال پوری وحشت سے نوچ ڈالے۔ پھر اسے اچانک خیال آیا۔
”دیوالیہ ہونے اور سوائی و ذلت سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے، وکیل کو جان سے مار دیا جائے۔“ اس خیال کے آتے ہی بوڑھے شخص کے مضطرب دل کو سکون آگیا۔ گھڑی نے تین بجائے بوڑھا شخص اب تک جاگ رہا تھا۔ گھر کا باقی ہر فرد گہری نیند میں غرق تھا۔ باہر بارش میں درختوں کی شائیں شائیں کے سوا کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔ بوڑھے شخص نے کسی کوجگائے بغیر اپنے آہنی سیف سے قیدی کے کمرے کی چابی نکالی۔ پندرہ برسوں میں اس چابی کو ایک دفعہ بھی استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ اس نے اپنا اوورکوٹ کندھے پر ڈالا اور خاموشی سے باہر نکل گیا۔ باغ میں تاریکی اور بلا کی سردی تھی۔ بارش بھی جاری تھی۔ سرد ہوا کے تھپیڑے درختوں کو ایک دوسرے کے ساتھ پٹخ رہے تھے۔ یہودی قیدی کے کمرے کے باہر دالان میں پہنچ کر رک گیا۔ اس نے چوکیدار کو دو دفعہ آواز دی لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ یوں لگتا تھا کہ خراب موسم کی وجہ سے چوکیدار نے باورچی خانے یا کسی دوسری عمارت میں پناہ لے رکھی ہے اور جا کر سو گیا ہے۔ بوڑھے شخص نے دل ہی دل میں سوچا ”مجھ میں ہمت تو ہے۔ میں نے جو پروگرام بنایا ہے اس پر عمل کر گزرتا ہوں۔ شک پڑا بھی تو چوکیدار پر پڑے گا۔“ وہ اندھیرے میں ٹٹولتا ٹٹولتا قیدی کے کمرے تک پہنچ گیا۔ پھر اس نے دیا سلائی جلائی اور اس کی روشنی میں ادھر ادھر دیکھا، گندے برتن جا بجا بکھرے ہوئے تھے۔ ایک جگہ بجھا ہوا اسٹوو پڑا تھا۔ چوکیدار کا بستر خالی پڑا تھااور اس پر چادر تک نہ تھی۔ کہیں کسی ذی روح کی موجودگی کا احساس نہ ہوتا تھا۔ دیا سلائی کے بجھتے ہی بوڑھا شخص کانپتی ہوئی ٹانگوں کو ہاتھوں سے پکڑ کر تپائی پر چڑھ گیا اوراس نے روشندان کے راستے قیدی کے کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ جلتی ہوئی موم بتی آخری دموں پر تھی۔ قیدی میز پر سر جھکائے بیٹھا تھا۔ پیچھے سے بس اس کی کمر، سفید الجھے ہوئے بال اور سوکھے ہوئے ہاتھ ہی نظر آرہے تھے۔
میز اس کے ساتھ دو کرسیاں اور نیچے قالین پر جگہ جگہ کتابیں بکھری پڑی تھیں۔ پانچ منٹ گزر گئے لیکن قیدی کے جسم میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔ یہودی نے دریچے کے طاقچوں پر اپنی انگلیوں سے ہلکی سی دستک دی، لیکن اس کے جواب میں بھی قیدی کے جسم نے کوئی حرکت نہ کی۔ اب یہودی نے بڑی آہستگی سے تالے پر منڈھے ہوئے کپڑے پر لگی ہوئی سیل کو توڑا، کپڑے کو چاقو سے کاٹا اور چابی اس کے اندر اتار دی۔ تالے کے لیور پندرہ سال تک بند رہنے سے جام ہو گئے تھے تاہم قدرے زور لگانے سے تالا کھل گیا۔ اسے پوری امید تھی کہ تالا کھلنے کی آواز کے ساتھ ہی قیدی فرط مسرت سے چیخ اٹھے گا اور دروازے کی طرف لپکے گا لیکن ایسا بالکل نہ ہوا۔ تین منٹ گزر گئے۔خاموشی کو کسی آواز یا حرکت نے نہیں توڑا۔ اب اس نے کمرے کے اندر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ میز کے آگے جو آدمی بیٹھا تھا وہ عام انسانوں سے مختلف تھا…… محض ایک انسانی ڈھانچہ۔ غیر صحت مند، نحیف و ناتواں ہڈیوں پر سوکھی ہوئی انسانی کھال منڈھی تھی۔۔ اس کے چہرے کا رنگ زرد مٹیالا تھا۔ گال سوکھ کر اندر دھنس گئے تھے۔ بال چاندی کے تاروں کی طرح چمک رہے تھے اور کوئی بھی شخص اسے دیکھ کر اس بات پر یقین نہیں کرسکتا تھا کہ اس کی عمر صرف چالیس سال ہوگی۔ میز پر اس کے جھکے ہوئے سر کے نیچے ایک کاغذ پڑا تھا جس پر باریک لفظوں میں عبارت لکھی تھی۔
”چہ! بچارہ وکیل“ بوڑھے شخص نے اس پر ترس کھاتے ہوئے دل ہی دل میں کہا ”اس کو تو ٹھکانے لگانے کے لیے مجھے کچھ زیادہ تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ نیم مردہ ڈھانچے کو اٹھا کر پلنگ پر ڈالوں گا اور منہ پر تکیہ رکھ کر زور سے دبا دوں گا۔ دوسرے دن کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکے گا کہ اس کی موت غیر طبعی طریقے سے واقع ہوئی ہے لیکن اس سے پہلے میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ اس نے کاغذ پر کیا لکھ رکھا ہے۔“
چنانچہ یہودی نے اس کے سامنے سے کاغذ اٹھایا اور پڑھنا شروع کر دیا۔
”کل رات ٹھیک بارہ بجے میری یہ طویل قید تنہائی ختم ہوجائے گی اور میری آزادی بحال ہوجائے گی اور میں دوسرے لوگوں سے مل سکوں گا۔ لیکن قبل اس کے کہ میں اس کمرے سے باہر نکلوں اور سورج کی روشنی کو دیکھوں میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ تم سے کچھ باتیں کہہ دوں۔ مجھے اپنے پاک، صاف اور بے داغ ضمیر اور اس خداوند کی قسم ہے جو مجھے ہر وقت ہر لمحے دیکھ رہا ہے کہ میں تمہارے سامنے یہ اعلان کر دوں کہ آزادی، زندگی اور صحت غرض ہر چیز میری نظروں میں بے حیثیت و بے وقعت چیز ہے جسے تمہاری کتابیں دنیا کی نعمت قرار دیتی ہیں۔ پورے پندرہ سال تک میں نے بڑے انہماک سے زمینی زندگی کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ میں نے اس عرصے میں زمین دیکھی اور نہ اس پر بسنے والے لیکن تمہاری مہیا کی ہوئی کتابوں کے ذریعے میں نے اس زمین اور اس کی نعمتوں اور برکتوں کو اچھی طرح چکھا، پرکھا اور محسوس کیا۔ میں نے لہکتے ہوئے گیت گائے، جنگلوں، پہاڑوں، وادیوں اور مرغزاروں میں غزالوں کے پیچھے دوڑا، ہرنوں کا شکار کیا، تمہاری کتابوں کے ذریعے میں البرز جیسے بلند و بالااور پرہیبت پہاڑوں پر چڑھ گیا اور چوٹیوں سے میں نے سورج کو صبح کے وقت افق سے طلوع ہوتے اور شفق کے میدان میں غروب ہوتے دیکھا۔ میں نے تادیر نیلگوں اور سفید آسمان کے کناروں پر رنگوں کے طلسمات بکھرنے کا نظارہ کیا، سمندروں کی چھاتیوں پر کرنوں کا رقص بسمل دیکھا اور سورج کی الوداعی شعاعوں کو سیاہ گھٹاؤں کا سینہ چیرتے دیکھا۔
تمہاری کتابوں نے مجھے عقل و دانش عطا کی اور ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک انسانی ذہن نے جو کچھ بھی سوچا، وہ سب جوہر بن کر میری اس چھوٹی سی کھوپڑی میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا اور میں جانتا ہوں کہ میں تم سے کہیں زیادہ عقل و خرد کا مالک ہوں۔ تم سے کہیں زیادہ چالاک ہوں، مگر میں تمہاری ان کتابوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ دنیاوی تخلیق اور دانش میرے سامنے بے وقعت چیزیں ہیں۔ ہر چیز بے حقیقت ہے، بے حیثیت ہے، فریب ہے، دھوکا ہے، سراب ہے۔ مانا کہ تم کو خود پر بڑا ناز ہوگا، خوبصورت بھی ہوگے اور عقلمند بھی، لیکن ایک ایسی بھی طاقت ہے جسے تم موت کہتے ہو، جو زمین پر سے تمہارے وجود کو یوں مٹا کر رکھ دے گی جیسے تمہارا بھی وجود ہی نہ تھا اور تمہاری خوشحالی کی یہ ساری داستانیں اور تمہارے غیر فانی فلسفیوں اور دانشوروں کا لافانی نام اور کام سب ایک نہ ایک دن اس دنیا کے ساتھ ہی مٹ جائے گا۔
تم پاگل ہو، غلط رستے پر چلے گئے ہو، تم نے جھوٹ کو سچ کو اور بدصورتی کو خوبصورتی کی جگہ دی۔ اگر بعض حالات کے نتیجے میں درختوں پر پھلوں اور پھلوں کے بجائے مینڈک لگنے لگیں تو تم تعجب کرو گے، اسی طرح آج میں تم پر تعجب کر رہا ہوں جس نے اس زمین کو جنت کا دل سمجھ رکھا ہے، خوبصورت کا سودا بدصورتی سے کر رکھا ہے۔ میں تمہیں سمجھانے یا قائل کرنے کی ہر گز کوشش نہ کروں گا۔ تاہم میں تمہیں آئینہ ضرور دکھانا چاہتا ہوں اور ان چیزوں کے لیے اپنی نفرت کا کھل کر اظہار کرنا چاہتا ہوں جن کے لیے اور صرف جن کے لیے تم زندہ رہ رہے ہو، میں بیس لاکھ ڈالر کی اس رقم سے دستبردار ہوتا ہوں جسے کبھی میں نے نعمت ارضی سمجھ کر پندرہ سال کی غلامی ہنسی خوشی قبول کر لی تھی۔ اب یہ رقم میرے نزدیک کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ میں اس قسم کو توڑتے ہوئے رقم سے دستبرداری کا اظہار کروں گااور مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے قید تنہائی سے نکل جاؤں گا۔“
جب بوڑھا شخص یہ عبارت پڑھ چکا تو ایک خفیف سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر بکھر گئی۔ اس نے کاغذ کو میز پر واپس رکھ دیا۔ قیدی کے جھکے ہوئے سر پر بوسہ دیا اور پھر اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ وہ کمرے کو پہلے کی طرح بند کرکے واپس چلا گیا۔ اس سے پہلے زندگی کے بڑے سے بڑے نقصان پر اس کی یہ حالت کبھی نہ ہوئی تھی اور آج سے پہلے کبھی وہ خود اپنی نظروں میں اس قدر ذلیل اور حقیر نہ تھا۔ گھر آکر وہ بستر پر پڑ رہا لیکن ضمیر کی لعن طعن اور آنسوؤں کے تسلسل نے نیند کو ایک پل کے لیے بھی اس کے نزدیک نہ آنے دیا۔
اگلی صبح چوکیدار بدحواسی کے عالم میں دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا، اس نے انکشاف کیا کہ قیدی روشن دان کے راستے بھاگ نکلا ہے اور اس نے خود اسے باغ کی دیوار پھلانگتے دیکھا ہے۔ وہ اس کے پیچھے بھاگا لیکن قیدی جلد ہی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ یہ سن کر بوڑھا شخص اپنے تمام ملازموں کو ساتھ لے کر قیدی کے کمرے میں پہنچااور سب کو قیدی کے فرار کا گواہ بنا لیا۔ مزید کسی قانونی الجھن سے بچنے کے لیے اس نے میز پر چھوڑی ہوئی قیدی کی آخری تحریر کو اٹھا لیا اور واپس آکر اسے اپنے آہنی سیف میں محفوظ کر لیا۔
٭……٭