پُراسرار مکان
ظفر محمود
۔۔۔۔۔
نیا ماحول
لندن کے ہوائی اڈے پر کُہر چھائی ہوئی تھی۔ اُوپر سے نیچے دیکھنے پر معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے نیچے کوئی سمندر ہے۔ کوئی بھی چیز نظر نہیں آ رہی تھی۔ عمران، شازیہ اور رضوان نے جہاز کی کھڑکیوں سے نیچے کی طرف دیکھا تو اُنہیں ہلکی ہلکی سی روشنی نظر آئی۔ دِن میں بھی بلب جل رہے تھے مگر اُن کی روشنی بہت ہلکی تھی بالکل موم بتّی کی طرح۔ جہاز رن وے پر آہستہ آہستہ دوڑتا ہوا رُک گیا۔ فوراً ہی ہوائی اڈّے کا عملہ حرکت میں آ گیا۔ عمران، شازیہ اور رضوان جب کسٹم وغیرہ سے فارغ ہو کر باہر نکلے تو خالہ صفیہ اُن کا انتظار کر رہی تھیں۔ اُنہوں نے اِس سے پہلے کبھی خالہ صفیہ کو نہیں دیکھا تھا۔ پاکستان سے چلتے وقت ان کے ابّو نعمان خان نے ان کو خالہ صفیہ کی ایک تصویر دے دی تھی تا کہ بچّے اُن کو آسانی سے پہچان لیں۔ پہلی نظر میں خالہ اُن کو اچھّی نہیں لگیں۔ دُبلی پتلی، لمبا قد اور چہرے کی ہڈّیاں اُبھری ہوئی۔ اُنہوں نے اپنے کھچڑی بال بڑے پھوہڑ پن سے ایک رِبّن سے باندھ رکھے تھے۔ پتا نہیں خالہ نے اپنا حُلیہ ایسا کیوں بنا رکھا تھا۔ وہ اپنے سائز سے بڑا اوور کوٹ پہنے ہوئے تھیں۔ اُن کی حالت دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ وہ بہت ہی لا پروا اور بد سلیقہ ہیں۔ جہاز سے اُتر کر جب تینوں بچّے باہر آئے تو سردی سے اُن کی رگوں میں خون جمنے لگا۔ اُنہوں نے سُنا تھا کہ لندن میں ہفتوں سورج نہیں نکلتا۔ عمران سوچ رہا تھا کہ یہاں کِس طرح رہیں گے۔ اللہ کی پناہ! اگر برف باری شروع ہو گئی تو پھر خیر نہیں۔
خالہ صفیہ نے بچّوں کا زیادہ خوشی سے استقبال نہیں کیا تھا۔ وہ کُچھ خاموش اور اُلجھی اُلجھی سی نظر آ رہی تھیں۔ شکل سے تو بالکل ہی چِڑچِڑی معلوم ہو رہی تھیں۔ اُنہوں نے بچّوں کو دیکھتے ہی کہا:
’’شکر ہے تُم آ گئے۔ تمہارا جہاز چار گھنٹے دیر سے آیا ہے۔ میں سمجھ رہی تھی کہ کہیں تمہارا پروگرام نہ بدل گیا ہو۔‘‘
اُن کی بات سُن کر شازیہ کو دھکّا سا لگا۔ اُسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے خالہ کو چار گھنٹے خراب ہونے پر غصّہ آ رہا ہے، بچّوں کی کوئی فکر نہیں تھی۔
شازیہ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ’’خالہ! ہمیں معاف کر دیجیے۔‘‘ اُسے اتنی دُور ابّو سے آ کر بہت ڈر لگ رہا تھا اور پھر اتنے لمبے ہوائی سفر نے بھی تو اُسے تھکا مارا تھا۔ اِس کے علاوہ بھوک الگ لگ رہی تھی۔ اُس وقت خالہ صفیہ کا غصّہ دیکھ کر اُس کا دِل رونے کو چاہ رہا تھا۔
یہ تینوں بہن بھائی اپنی خالہ کے پاس لندن آئے تھے۔ اُن کی امّی کا حال ہی میں کراچی میں انتقال ہو گیا تھا۔ یہ لوگ نیروبی میں رہتے تھے۔ اُن کے ابّو کو حکومتِ پاکستان نے جڑی بُوٹیوں پر تحقیق کرنے کے لیے نیروبی بھیجا تھا۔ وہاں اِن تینوں بچّوں کی پیدائش بھی ہوئی تھی۔ اُن کی امّی پچھلے سال اچانک بیمار ہو گئیں۔ بہت علاج کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ جب اُن کی امّی کو احساس ہوا کہ اب اُن کا آخری وقت آ پہنچا ہے تو اُنہوں نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے وطن چلا جائے۔ ان کی خواہش تھی کہ پاکستان کی مٹّی میں دفن ہوں۔ نعمان صاحب نے اپنی بیوی شکیلہ کی خواہش کا احترام کیا اور اُنہیں بچّوں سمیت پاکستان لے آئے۔ چھے مہینے بعد ہی شکیلہ کا انتقال ہو گیا۔ حال آں کہ نعمان صاحب کا کراچی کے ایک علاقے ملیر میں اپنا فارم تھا، مگر اُنہیں تو جڑی بُوٹیوں پر تحقیق کرنے کا بہت شوق تھا۔ پاکستان میں ایک تو بچّوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ تھا اور پھر دوسری بات یہ تھی کہ ان بچّوں کا ماحول اور بات چیت سب میں انگریزی زبان حاوی تھی۔ اس وجہ سے ان کو یہاں پر رہنے میں زیادہ پریشانی ہو رہی تھی۔ نعمان صاحب اگر بچّوں کو اپنے ساتھ نیروبی لے جاتے تو وہ تو اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے، بچّوں کی دیکھ بھال کون کرتا۔ وہ بڑے پریشان تھے کہ کیا کریں۔ آخر اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ اِن بچّوں کو لندن بھیج دیں۔ لندن میں اُن کی بیوی کی بڑی بہن صفیہ رہتی تھیں۔ وہ دونوں بہنیں لندن میں ہی پیدا ہوئی تھیں ،وہیں پلی بڑھی تھیں۔ صفیہ کی شادی تو نجم خان سے ہو گئی تھی جو برطانوی بحریہ میں ملازم تھے اور شکیلہ کی شادی نعمان صاحب سے ہو گئی اور وہ نیروبی چلی گئیں۔ اِدھر قسمت نے صفیہ کے ساتھ بڑا بھیانک مذاق کیا۔ اُن کے شوہر نجم خان اپنی ڈیوٹی پر تھے کہ بحری جہاز سمندر میں ڈوب گیا اور وہ ہلاک ہو گئے۔ صفیہ شادی کے صرف دو سال بعد بیوہ ہو گئیں مگر اُنہوں نے ہمّت نہ ہاری اور حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ لندن میں اُن کا ذاتی گھر تھا۔ اس گھر کو اُنہوں نے ایک طرح سے ’’لاج‘‘ بنا دیا تھا۔ لوگ اُن کے ہاں آ کر ٹھیرتے اور رہنے اور کھانے پینے کا معاوضہ صفیہ کو دیتے تھے جس سے اُن کی گُزر اوقات ہوئی تھی۔
نعمان صاحب نے بہتر یہی سمجھا کہ عمران، شازیہ اور رضوان کو لندن اُن کی خالہ صفیہ کے پاس بھیج دیں اور خود نیروبی چلے جائیں ۔ اس وقت شازیہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر خالہ صفیہ ایک دم سٹپٹا گئیں اور جلدی سے اس کو گلے لگا کر بولیں:
’’ارے! تُم تو رونے لگیں۔ جہاز دیر سے آیا ہے تو اِس میں تمہارا کیا قصور ہے؟‘‘
پھر اُنہوں نے عمران اور رضوان کے سر پر بھی ہاتھ پھیرا۔ عمران سب سے بڑا تھا۔ اس سے چھوٹی شازیہ تھی اور رضوان سب سے چھوٹا اور ان دونوں کا چہیتا بھائی تھا۔ عمران بارہ سال کا تھا، شازیہ گیارہ سال کی اور رضوان سات سال کا تھا۔ رضوان کے بال بہت لمبے لمبے ہو گئے تھے۔ خالہ صفیہ نے اسے دیکھ کر کہا۔ ’’چلو، آج ہی تمہارے بال بھی کٹوا دوں گی۔‘‘ رضوان خاموش کھڑا اُنہیں گھورتا رہا۔ پھر وہ سب ائیر پورٹ کی بس میں بیٹھ گئے۔ بس چل پڑی۔ اُن کا سفر خاموشی سے کٹ رہا تھا۔ اُنہیں اس بات کا احساس تھا کہ خالہ صفیہ اُن سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔
رضوان بڑی دِل چسپی سے لندن کی سٹرکوں کو، مکانوں کو اور لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ رضوان نے خالہ صفیہ سے پوچھا، ’’لندن میں بچّے کہاں کھیلتے ہیں؟‘‘
’’پارک میں یا اپنے گھروں میں اگر وہ بڑے ہوں تو۔‘‘ خالہ صفیہ نے جواب دیا۔
’’مگر یہاں تو مُجھے کھیلنے کی جگہ نظر ہی نہیں آ رہی ہے۔ نیروبی میں تو ہمارے بنگلے کے باہر دُور دُور تک کھُلا میدان تھا جہاں سبزہ تھا، ہریالی تھی۔ وہاں ہم لوگ خوب کھیلتے تھے اور کھیلتے کھیلتے دُور تک نکل جاتے تھے۔ پاکستان میں ملیر میں بھی ہمارا فارم بہت بڑا تھا جس کے آس پاس دُور دُور تک لہلہاتے کھیت تھے۔ ہم وہاں اُچھلتے کوُدتے پھرتے تھے مگر لندن تو مُجھے بہت چھوٹا لگ رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ یہاں کوئی میدان ہے ہی نہیں۔‘‘ رضوان نے خالہ صفیہ کو بتایا۔
خالہ صفیہ نے مختصر جواب دیا۔ ’’یہاں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے۔ جہاں میدان ہیں، اُن میں فصلیں اُگائی جاتی ہیں، وہاں تُم جا نہیں سکو گے۔‘‘
رضوان نے مُنہ بنا کر کہا۔ ’’توبہ توبہ! ایسا لگ رہا ہے جیسے یہاں لوگ اُبلے پڑ رہے ہیں۔ ایسے چھوٹے چھوٹے اور تنگ فلیٹ جن میں آدمی کا دم گھُٹ کر رہ جائے۔ یہ بھی کوئی جگہ ہے رہنے کی۔‘‘ شازیہ اور عمران نے چونک کر رضوان کو اور پھر خالہ صفیہ کو دیکھا۔ وہ خاموشی سے رضوان کو دیکھ رہی تھیں اور سوچ رہی تھیں کہ اِس کو کنٹرول کرنا آسان نہیں ہو گا۔ اس وقت اُن کی بس ایک فلائی اوور کے اوپر سے گزر رہی تھی کہ رضوان چیخا۔ ’’وہ دیکھو ہمارے نیچے کاریں جا رہی ہیں اور ہم اُن کے اُوپر اُڑ رہے ہیں۔‘‘
عمران اور شازیہ نے بھی سیٹوں سے اُچک کر دیکھنے کی کوشش کی مگر سردی اتنی لگ رہی تھی کہ وہ جلدی سے بیٹھ گئے۔ بس سے اُتر کر جب وہ ٹیکسی کا انتظار کر رہے تھے تو خالہ صفیہ نے شازیہ کے کوٹ کا کالر کھڑا کر دیا، تا کہ وہ سردی سے بچ سکے۔ ٹیکسی سے اُن کو ریلوے اسٹیشن جانا تھا۔ ٹرین میں بیٹھ کر خالہ صفیہ نے اپنی ٹوکری سے سینڈوچ نکال کر تینوں بچّوں کو کھِلائے۔ رضوان نے اُن سے کہا۔ ’’خالہ! آپ ہمیں اچھّے اچھّے کھلونے دِلوائیں گی نا؟‘‘
خالہ نے خاموشی سے جواب دیا۔ ’’شاید تمہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گی کہ تمہارے لیے کپڑے اور کھلونے خریدنا میرے بس سے باہر ہے۔ تمہارے ابّو نے مُجھے لکھا تھا کہ تمہاری ہر جائز اور نا جائز ضرورت پوری کی گئی ہے۔ مگر یہاں ایسا نہیں ہو سکتا۔ میں ضروری چیزیں تو تُم کو ضرور دوں گی مگر ایسی کوئی چیز نہیں دِلواؤں کی جو تمہارے لیے زیادہ ضروری نہ ہو۔ میرا خیال ہے شروع میں ہی ساری بات تُم کو صاف صاف بتا دی جائے تو بہتر ہے۔ تُم سمجھ دار ہو۔ میری بات کو اچھّی طرح سمجھ گئے ہوں گے۔‘‘
’’تم سمجھ گئے خالہ!‘‘ شازیہ نے آہستہ سے کہا، حال آں کہ وہ اُن کی بات سمجھ نہیں پائی تھی۔ اُن کو اُن کے ابّو نے ہر چیز لا کر دی تھی کبھی کوئی فرمائش رد نہیں کی تھی مگر اِس وقت جس طرح خالہ صفیہ نے اُن سے بات کی تھی یہ اس کو اچھّا نہیں لگا تھا۔
رضوان نے اچانک خالہ صفیہ سے کہا۔ ’’خالہ! کیا آپ غریب ہیں؟‘‘
خالہ غصّے سے سُرخ ہو گئیں۔ عمران جلدی سے بولا۔ ’’خالہ رضوان کا یہ مطلب نہیں ہے۔ یہ تو یہ پُوچھ رہا ہے کہ کیا ہم ایسے غریب ہیں جیسے افریقہ میں ہوتے ہیں۔ وہاں کے لوگ اور اُن کے بیوی بچّے ہر وقت فاقے کرتے ہیں۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ خالہ صفیہ نے کہا۔ ’’میں اُس قسم کی غریب نہیں ہوں۔ میرا ایک بورڈنگ ہاؤس ہے جہاں لوگ آ کر ٹھیرتے ہیں۔ میرا گھر ساحلِ سمندر کے قریب ہے۔ اگر لوگ وہاں گھومنے پھِرنے آتے ہیں تو میرے ہاں ٹھیرتے ہیں۔ اِس سے میری آمدنی ہو جاتی ہے اور اگر کوئی نہیں ٹھیرتا تو میں غریب ہو جاتی ہوں۔ سمجھ گئے بات!‘‘ بچّے اُن کو خاموشی سے دیکھ رہے تھے۔ اچانک رضوان بولا۔ ’’بورڈنگ ہاؤس کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’بورڈنگ ہاؤس میں لوگ اپنی چھُٹیاں منانے آتے ہیں۔ وہ وہاں آ کر ٹھیرتے ہیں اور ٹھیرنے کا اور کھانے پینے کا معاوضہ مُجھے دیتے ہیں۔ میں نے اپنے گھر کو بورڈنگ ہاؤس بنا دیا ہے۔ آج کل چوں کہ سردیاں ہیں، اِس لیے میرے ہاں صرف دو مہمان ٹھیرے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں پاکستانی ہیں۔ ایک شیرازی ہیں۔ شیرازی صاحب ایک سنگ تراش ہیں اور بڑے اچھّے اچھّے مجسّمے بناتے ہیں اور دوسری نُور جہاں بیگم ہیں۔ بیگم صاحبہ عجیب مزاج کی عورت ہیں۔ الگ تھلگ رہتی ہیں۔ تُم لوگ شیرازی صاحب اور بیگم صاحبہ کو بالکل نہیں ستانا۔ اُنہیں تنہائی زیادہ پسند ہے۔‘‘ خالہ صفیہ نے اُنہیں تفصیل سے بتایا۔
شازیہ نے پوچھا۔ ’’خالہ! کیا یہ وہی گھر ہے جہاں آپ کا اور امّی کا بچپن گُزرا ہے؟‘‘
’’نہیں، وہ اُس سے اگلا گھر ہے۔ وہ بہت بڑی جگہ ہے۔ جب تمہارے خالُو کا اِنتقال ہوا تو یہ جگہ مُجھے کاٹ کھانے کو دوڑتی تھی۔ اتنا بڑا گھر بھائیں بھائیں کرتا تھا۔ لہٰذا میں نے اُسے بیچ دیا۔ اس کو جس شخص نے خریدا ہے وہ یہاں صرف گرمیوں میں آتا ہے۔ وہ بہت امیر آدمی ہے۔ اس کے پاس اتنی دولت ہے کہ خود اُس کو بھی نہیں معلوم۔ آج کل وہ بیمار ہو گیا ہے۔ ویسے بھی وہ بُوڑھا ہے اس لیے عام طور پر یہ گھر بند رہتا ہے۔ یہ بہت بڑا اور شان دار گھر ہے۔ اُس میں بڑے بڑے کمرے ہیں، چکّر دار زینے ہیں، کئی بالا خانے ہیں اور مکان کے آگے بہت بڑا باغ ہے۔ تمہاری امّی اور میں جب چھوٹی تھیں تو بالا خانوں میں کھیلا کرتی تھیں۔ بالا خانے کی کھڑکیوں سے نیلا نیلا جھاگ اُڑاتا سمندر بھی نظر آتا ہے۔ بالا خانے میں ہی ایک سنہری اور چمک دار بیڈ بھی ہے جس پر ہم دونوں بہنیں کھیلا کرتی تھیں۔ ہو سکتا ہے یہ بیڈ اب بھی وہاں موجود ہو۔ میں نے جب یہ مکان اُس شخص کے ہاتھ بیچا تھا تو سارا سامان جُوں کا تُوں اُس میں چھوڑ دیا تھا اور مُجھے اچھّی طرح یاد ہے کہ میں نے آج تک اُس شخص کو کوئی چیز یہاں سے لے جاتے نہیں دیکھا۔‘‘
خالہ صفیہ کا چہرہ اُس وقت بڑا معصوم اور خُوش نظر آ رہا تھا۔ وہ اپنے گُزرے دِنوں کی خوشیاں یاد کر کے خوش ہو رہی تھیں۔ شازیہ نے پوچھا۔ ’’ہماری امّی جب چھوٹی سی تھیں تو کیسی تھیں؟‘‘
شازیہ نے جب یہ بات پوچھی تو اُس کی آنکھیں چمک رہی تھیں، سانس زور زور سے چل رہی تھی اور اُس کی آواز بھرّائی ہوئی تھی۔ رضوان اور عمران نے ایک نظر شازیہ کو دیکھا اور پھر اُن کی آنکھیں بھی بھر آئیں۔ ان کی امّی کے انتقال کے بعد پہلا موقع تھا جو اُن کا ذکر ہوا تھا۔ امّی کی یاد نے انہیں غمگین کر دیا تھا۔
خالہ صفیہ نے گہری سانس لے کر کہا۔ ’’وہ بہت خُوب صُورت تھی، بہت ہی زیادہ خُوب صُورت، بالکل شازیہ کی طرح۔‘‘ شکیلہ کو یاد کر کے خالہ صفیہ بھی بے چین ہو گئی تھیں۔
ٹرین رُک گئی۔ وہ لوگ پلیٹ فارم پر آ گئے۔ باہر نکلتے ہی سردی کی تیز لہر نے اُنہیں جما دیا۔ ٹھنڈی ہوا کِسی چھُری کی طرح اُن کو کاٹ رہی ہے۔ وہ ٹیکسی میں سوار ہوئے اور جھِلملاتے اسٹیشن سے نکل کر تاریک اور اندھیرے قصبے کی طرف روانہ ہو گئے۔ مکانوں کی قطاریں دونوں طرف دُور تک چلی گئی تھیں۔ لمبے اور تنگ مکان۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے برفانی ہوا نے اِن مکانوں کو ایک طرف جھُکا دیا ہے۔ ٹیکسی ایک عمارت کے سامنے جا کر رُک گئی جس پر ’’دی کریسنٹ‘‘ لکھا ہوا تھا۔ یہ ایک اُونچی اور پتلی سی عمارت تھی۔ اس سے بالکل ملی ہوئی دوسری عمارت تھی جو بڑے بڑے ستونوں پر بنی ہوئی تھی۔ اس کی کھڑکیوں میں اندھیرا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مکان ویران ہے۔ اس کو دیکھ کر عمران نے سرگوشی میں شازیہ سے کہا:
’’یہ وہی مکان لگتا ہے جس کے بارے میں خالہ صفیہ نے ہمیں بتایا تھا کہ اُس میں امّی رہتی تھیں۔‘‘
اسی دوران خالہ صفیہ ٹیکسی کا کرایہ دیے کر واپس پلٹیں۔ عمران خاموش ہو گیا۔ گھر کے اندر بھی ویسی ہی سردی تھی جیسی باہر تھی۔ ہال تنگ اور اُونچا تھا۔ بائیں طرف ایک بند دروازہ تھا۔ خالہ صفیہ نے کہا:
’’وہ ڈائننگ روم ہے۔ سردیوں میں ہم اِسے استعمال نہیں کرتے۔‘‘
وہ ہال سے گُزر کر ایک تنگ سی جگہ میں آ گئے اور چند سیڑھیاں اُتر کر نیچے پہنچ گئے۔ یہاں ایک بڑا باورچی خانہ تھا اور اُس کے کونے میں ایک اندھیری سی اور وحشت ناک جگہ تھی جہاں سے باز گشت کی سی ہلکی ہلکی آواز آ رہی تھی۔ خالہ صفیہ نے پُرانے اور زنگ آلود بوائلر کو کھول دیا اور ہلکی ہلکی گرم گرم پھوار اُن پر پڑنے لگی۔ اتنی زبردست سردی کے بعد یہ گرمی اُن کو بڑی بھلی معلوم ہو رہی۔ خالہ صفیہ نے کہا:
’’آؤ سب لوگ آگے آ جاؤ۔ اب مُجھے بتاؤ کہ تُم میں سے کھانے کی میز پر کھانا کون لگائے گا؟‘‘
عمران، شازیہ اور رضوان نے ایک دو سرے کو دیکھا اور پھر شازیہ خاموشی سے آگے بڑھ گئی۔ خالہ صفیہ کھانے پینے کی چیزیں نکال کر ٹرالی میں رکھتی جا رہی تھیں۔یہ سب انگریزی طرز کے کھانے تھے۔ پلیٹیں ، چمچے، گلاس سب چمچماتے، صاف شفاف بڑے اچھے لگ رہے تھے۔ شازیہ چپ چاپ کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی۔ خالہ صفیہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ بولیں:
’’ارے تم ابھی تک کھڑی ہو۔ کیا اس سے پہلے تم نے میز پر کھانا نہیں لگایاہے؟‘‘
شازیہ نے ڈبڈباتی آنکھوں سے خالہ کو دیکھتے ہوئے کہا:’’ گھر میں سب کام جونس کرتا تھا۔‘‘
خالہ صفیہ نے کہا:’’اوہ! میں تو بھول گئی تھی کہ تمہیں ہر چیز تیار ملتی تھی۔ ہر کام پہلے سے کیا ہوا ملتا تھا۔ خیر کوئی بات نہیں،مگر اب تم کو بہت سے کام خود کرنے ہوں گے۔ اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کر لو۔‘‘
اپنی تیز آواز اور سخت لہجے کے باوجود انہوں نے شازیہ کو بہت اچھی طرح سمجھایا کہ میز پر کھانا کس طرح لگایا جاتا ہے۔ شازیہ کو بھی یہ سب کرنے میں بڑا مزہ آیا۔وہ سوچ رہی تھی کہ واقعی یہ تو دلچسپ کام ہے۔اور پھر اس ٹھنڈی سرزمین پر گھر کے اندر مصروف رہنے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔وہ سوچ رہی تھی کہ میں اس کام کے علاوہ گھر کی صفائی بھی کیا کروں گی جیسے کھڑکیوں کے شیشے صاف کرنا اور کمروں کی صفائی کرنا۔
کھانا کھانے کے بعد عمران نے خالہ سے کہا:’’ اگر آپ اجازت دیں تو میں برتن دھو لوں۔‘‘
خالہ صفیہ نے ایک نظر ان تینوں کے تھکے ہوئے چہروں پر ڈالی اور پھر ان سے بولیں:
’’ تم لوگ بہت تھکے ہوئے ہو، بہتر ہے کہ آرام کرو۔‘‘
ان کو سونے کے لیے اوپر کا کمرا دیا گیا تھا،کیونکہ باقی تمام کمرے سجے سجائے پیئنگ گیسٹ کے لیے تھے۔ وہ ایک ایک کرکے تنگ سیڑھیوں پر چڑھتے گئے۔ ان کے بالکل سامنے ایک راستہ تھا جو بالکل اندھیرے میں تھا۔عمران نے سر گوشی کرتے ہوئے کہا:’’ کیا واقعی سب کمرے خلائی ہیں؟‘‘عمران کی نگاہیں سامنے تاریک راستے پر تھیں۔ اس کی آنکھوں میں ڈر اور خوف تھا۔
’’ہاں۔‘‘ اس آواز پر وہ اچھل پڑے۔ایک دروازہ کھول کر خالہ صفیہ ان کی طرف آرہی تھیں۔
’’میرے جانے کے بعد کسی کمرے میں تاکا جھانکی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے ایک بڑے اور اندھیرے کمرے میں جھانکا جس کی چھت بہت اونچی تھی۔ اس کے بالکل بیچ میں ایک بیڈ پڑا ہوا تھا جس پر سفید چادر بچھی ہوئی تھی۔ وہاں اندھیرا تھا۔بس گلی میں جلنے والے بلب کی روشنی کمرے میں آرہی تھی۔عمران نے شازیہ اور رضوان کے ہاتھ پکڑ لیے۔ وہ تینوں کانپ رہے تھے۔
عمران نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’ایسے گھر میں جہاں بڑے بڑے کمرے ہوں اور سب خالی پڑے ہوں، رہنا عجیب لگتا ہے۔‘‘
شازیہ نے عمران کو تسلّی دی۔ وہ اِن خالی اور بڑے بڑے کمروں سے خوف زدہ نہیں تھی۔ اُسے ہلکا سا ڈر محسوس ہو رہا تھا مگر عمران سے کم۔ عمران کوئی بُزدل لڑکا نہیں تھا۔ وہ صحت مند، طاقت ور اور بہادر لڑکا تھا مگر اُس نے کئی بار بھُوت نما چیزیں دیکھی تھیں۔ شازیہ کا بھی اِن چیزوں سے کبھی کبھار ہی واسطہ پڑا تھا اور رضوان نے اِن چیزوں کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ رضوان بڑا بہادر بچّہ تھا۔ وہ صرف حقیقی چیزوں سے ڈرتا تھا جیسے بپھرے ہوئے ہاتھی یا بگڑے ہوئے گینڈے۔
اتنے میں خالہ صفیہ نے زور سے دروازہ بند کر دیا اور پھر سیڑھیاں چڑھنے لگیں۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بچّوں نے پہلی بار ایک ہلکی سی آواز سُنی جو آہستہ آہستہ تیز ہو گئی۔ بچّے یہ آواز سُن کر سہم گئے۔ بچّوں کو دیکھ کر خالہ صفیہ ہنس پڑیں اور بولیں:
’’فکر مت کرو۔ یہ شیرازی صاحب کے خرّاٹے لینے کی آواز ہے۔ وہ بڑے عجیب آدمی ہیں۔‘‘
’’مگر ابھی تو زیادہ وقت نہیں ہوا ہے۔ یہ اتنی جلدی سو گئے!‘‘ رضوان نے مُنہ بناتے ہوئے کہا۔
’’شیرازی صاحب، پتھّروں کو کاٹ کر مجسّمے بناتے ہیں۔ وہ ایک فن کار ہیں اور فن کاروں کے سونے کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔ وہ جب سوتے ہیں تو کئی کئی دِن تک سوتے رہتے ہیں اور جب جاگنے پر آتے ہیں تو مسلسل جاگتے رہتے ہیں۔‘‘ خالہ صفیہ نے روکھے پن سے جواب دیا۔
بچّوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر شازیہ بولی۔ ’’خالہ! وہ بیگم صاحبہ کہاں رہتی ہیں؟‘‘
’’وہ نیچے والی منزل پر ہیں۔ اُن کی ٹانگوں میں تکلیف ہے نا! وہ کبھی اپنے کمرے سے باہر نہیں آتیں۔‘‘
بچّے حیران ہو رہے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ یہ کیسی عجیب جگہ ہے جہاں شیرازی صاحب آٹھ بجے سو جاتے ہیں اور بیگم صاحبہ کبھی کمرے سے نہیں نکلتیں۔ خالہ صفیہ بچّوں کو غور سے دیکھ رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اُنہوں نے بچّوں کے ذہن میں پیدا ہونے والی باتیں پڑھ لی ہیں۔ وہ خُشک لہجے میں بولیں:
’’سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ لوگوں کی عادتیں مختلف ہوتی ہیں۔ بیگم صاحبہ شیرازی صاحب سے مختلف ہیں۔‘‘
دوسرا زینہ چڑھتے ہوئے رضوان تو ٹانگیں پکڑ کر بیٹھ گیا۔ واقعی بہت اُونچائی تھی۔ شازیہ نے جلدی سے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔ ’’خالہ! دراصل ہم لوگوں کو سیڑھیوں پر چڑھنے کی عادت نہیں ہے۔‘‘
’’عادت بھی ہو جائے گی۔ اور ابھی تو تُم لوگوں کو یہاں بہت سی چیزوں کی عادت ڈالنی پڑے گی۔‘‘ خالہ صفیہ نے کہا۔ پھر اُنہوں نے اوپر کی منزل پر انہیں ایک کمرا دِکھاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ ہے تمہارا کمرا۔‘‘
یہ نیچی سی چھت کا ایک لمبا کمرا تھا۔ اُس کی کھڑکیاں بھی زیادہ اُونچی نہیں تھیں اور اُن میں پردے بھی نہیں تھے۔ کمرے میں تھوڑا سا فرنیچر تھا۔ تین پلنگ تھے جن پر صاف سُتھرے بستر بِچھے ہوئے تھے۔
پھر خالہ صفیہ بچّوں کو جلدی سو جانے کے لیے کہہ کر نیچے آ گئیں۔ وہ سب تھکے ہوئے تھے۔ اِس لیے شازیہ اور رضوان تو فوراً سو گئے مگر عمران کو نیند نہیں آئی۔ وہ کُرسی لے کر کھڑکی کے پاس کھڑا ہو گیا اور کھڑکی کھول کر باہر دیکھنے لگا۔ باہر برفانی ہوا چل رہی تھی۔ عمران کو کپکپی آ گئی۔ سمندر کی لہریں ایک شور کے ساتھ ساحل پر سر پٹک رہی تھیں۔ اُن کا دُودھ جیسا سفید جھاگ اندھیرے میں بہت اچھّا معلوم ہو رہا تھا۔ ایسالگ رہا تھا کہ جیسے کسی نے دُور تک سفید بے داغ قالین بِچھا دیا ہے۔ پھر اُس نے شازیہ کو آواز دیتے ہوئے کہا:
’’دیکھو شازیہ، باہر اُس اُونچی دیوار کے دوسری طرف ایک بڑا باغیچہ ہے۔ اُس میں لمبی لمبی گھاس اُگی ہوئی ہے۔ یہ بڑا شان دار گھر معلوم ہوتا ہے۔ اُس میں بہت سارے کمرے ہیں جو بالکل خالی ہیں۔ وہاں بالکل اندھیرا ہے۔ آنکھ مچولی کھیلنے کے لیے یہ بڑی اچھّی جگہ ہے۔‘‘
پھر وہ اچانک شازیہ کی طرف مُڑا مگر وہ تو سو چکی تھی۔
نواب زادی نُور جہاں بیگم
اگلے دِن صُبح عمران کی سب سے پہلے آنکھ کھُل گئی۔ بالا خانے پر سورج کی چمکیلی دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ عمران نے کرسی پر چڑھ کر کھڑکی سے جھانکا تو اُسے باہر کا منظر بہت اچھّا لگا۔ نیلے آسمان پر دُودھ جیسے سفید بادلوں کے ٹکڑے، روئی کے گالوں کی طرح تیرتے پھر رہے تھے۔ باغ کے کونے سے دور تک سفید مکانوں کی ایک قطار نظر آ رہی تھی۔ اُن کی گلابی ڈھلوان چھتیں بہت بھلی لگ رہی تھیں۔ سمندر کے کنارے سفید بُراق بگلے پانی میں غوطے لگا رہے تھے۔ سمندر کی موجیں جب ساحل سے ٹکراتیں تو ہلکا سا شور مچ جاتا۔
عمران کی کھڑکی کے بالکل نیچے جو باغ تھا وہ لمبا اور پتلا تھا۔ اُس کے آخری سِرے پر ایک لکڑی کا شیڈ بنا ہوا تھا، جب کہ برابر والے بڑے مکان کا باغ بہت بڑا اور خوب صورت تھا۔ اُس کے دونوں طرف اینٹوں کی بنی ہوئی کافی اونچی دیوار تھی۔ باغ میں ہر طرف جھاڑ جھنکار نظر آ رہا تھا جیسے کافی دِنوں سے اُس کی دیکھ بھال نہیں کی گئی ہو۔ عمران یہ سب دیکھتے دیکھتے اچانک زور سے چیخا۔ ’’شازیہ، رضوان جلدی اُٹھو۔ دیکھو سمندر کتنا خوب صورت لگ رہا ہے۔‘‘
شازیہ نے جلدی سے کہا۔ ’’بند کرو یہ کھڑکی! اتنی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔ سردی لگ گئی تو کیا ہو گا۔‘‘
اس کے بعد یہ لوگ جب اُتر کر نیچے آئے تو خالہ صفیہ نے ناشتہ کرنے کے بعد عمران اور شازیہ کو باہر جا کر سیر کرنے کی اجازت دے دی مگر رضوان کو روک لیا۔ رضوان نے کہا۔ ’’مگر میں بھی باہر جاؤں گا۔ اس بھدّے اور پُرانے گھر میں اکیلے میرا دِل گھبرائے گا۔‘‘
’’تُم سے جو کہا گیا ہے صرف وہی کرو گے۔‘‘ خالہ صفیہ نے سختی سے کہا۔
خالہ نے رضوان پر سختی اِس لیے کی کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ وہ آسانی سے قابو میں آنے والا نہیں ہے۔ اُن کا خیال کسی حد تک ٹھیک بھی تھا۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ رضوان کوئی شرارتی یا ضدّی بچّہ نہیں تھا، بلکہ اس کے سوچنے کا اور کام کرنے کا اپنا ایک الگ انداز تھا۔ اُسے یہ پسند نہیں تھا کہ کوئی کام اُس کی مرضی کے خلاف کیا جائے۔ نیروبی میں اس کے والدین نے جب یہ دیکھا کہ اُس میں صحیح اور غَلَط کو سمجھنے کی صلاحیت ہے تو پھر اُنہوں نے کبھی اُس کے معاملے میں دخل نہیں دیا۔ وہ اُس کو اُس کی مرضی کرنے دیتے تھے، کیوں کہ وہ ہر کام صحیح اور سوچ سمجھ کر کرتا تھا۔ اِس وقت جب خالہ صفیہ نے اُسے باہر جانے سے روکا تو وہ چیخ اٹھا: ’’میں نہیں رکوں گا، میں بھی باہر جا کر سمندر دیکھوں گا۔‘‘ وہ خالہ صفیہ کو بڑی ناگواری سے دیکھ رہا تھا۔ اُس وقت خالہ صفیہ اگر تھوڑا سا ہنس دیتیں تو بات ختم ہو جاتی، مگر وہ خاموش کھڑی اُسے گھوُرتی رہیں۔ رضوان نے جس طرح اُن سے بات کی تھی وہ اُس سے پریشان تھیں۔ ویسے بھی اُنہیں بچّوں سے نمٹنا نہیں آتا تھا۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اِس ضدّی لڑکے کو کِس طرح سنبھالیں جس نے اُن کا حُکم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اُنہوں نے سخت لہجے میں کہا۔ ’’پاگل مت بنو۔ میں تمہیں باہر نہیں جانے دوں گی۔ اگر تمہیں نمونیہ ہو گیا تو تمہاری دیکھ بھال کون کرے گا۔ مُجھے بیمار بچّوں کی تیمار داری کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ میں نے تمہیں کہہ دیا کہ اپنے کمرے میں جاؤ۔ بس۔‘‘ خالہ نے فیصلہ کُن لہجے میں کہا۔
رضوان خالہ کو گھُور رہا تھا اور خالہ رضوان کو۔ شازیہ سہمی ہوئی کبھی خالہ کو دیکھتی اور کبھی رضوان کو۔ اچانک رضوان کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ اُس کی آنکھوں کی چمک بھی ہلکی پڑ گئی۔
’’مُجھے آپ سے نفرت ہے…شدید نفرت۔‘‘ رضوان یہ کہتے ہوئے خالہ صفیہ کی طرف لپکا اور اُن کا ہاتھ پکڑ کر زور زور سے چیخنے لگا۔ خالہ نے جھنجھلا کر اُس کی کلائی پکڑی اور اُس کے ایک طمانچہ مارا۔ اُن کا غصّے سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ اُنہوں نے اُس کا کالر پکڑا اور گھسیٹتی ہوئی کمرے سے باہر لے گئیں۔
شازیہ اور عمران تو سُن ہو کر رہ گئے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اُن کے دِل دھڑکنا بھول گئے ہوں۔ عمران نے دروازہ کھول کر سیڑھیوں کی طرف دیکھا مگر اُسے وہاں سے کوئی آواز نہیں آئی۔ پانچ منٹ گُزر گئے۔ پھر خالہ صفیہ واپس آ گئیں۔ اُنہوں نے شازیہ اور عمران کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ وہ بہت غصّے میں تھیں۔ اُن کے بال کھُلے ہوئے تھے۔ اِس وقت تو شازیہ اور عمران کو اُن سے بہت ہی ڈر لگ رہا تھا۔ اُنہوں نے جھٹکے سے، بوائلر کا دروازہ بند کیا اور پھر اُن کی طرف مُڑ کر بولیں۔ ’’رضوان کو غَلَط کام کرنے اور بد تمیزی پر سزا دی گئی ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم ماتمی صُورتیں بنا کر کھڑے ہو جاؤ۔ اپنے کوٹ پہنو اور سمندر کی سیر کو جاؤ۔‘‘
شازیہ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ’’خالہ! بات یہ ہے کہ ہم کبھی بھی رضوان کے بغیر باہر نہیں کھیلتے تھے۔ میرا خیال ہے ہم اُس کی طبعیت صحیح ہونے تک انتظار کر لیں گے۔‘‘ خالہ صفیہ نے شازیہ کو گھُوم کر دیکھا اور اپنے کندھے اچکاتے ہوئے بھاری آواز میں بولیں:
’’ٹھیک ہے، جیسی تمہاری مرضی۔ مُجھے نہیں معلوم اِس سے پہلے تُم کیا کرتی تھیں اور کیسے کرتی تھیں۔‘‘
یہ کہہ کر اُنہوں نے صفائی شروع کر دی۔ شازیہ اُن کی مدد کو آگے بڑھی مگر اُنہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا۔ ’’رہنے دو، یہ کام میں خود کر لوں گی۔ اگر تمہیں میرا ہاتھ ہی بٹانا ہے تو ذرا جا کر شیرازی صاحب سے کہہ آؤ کہ دس منٹ میں ناشتا تیّار ہو جائے گا۔‘‘
عمران نے شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کُچھ نہ سمجھنے والے انداز میں خالہ صفیہ سے پوچھا: ’’شیرازی صاحب کہاں ملیں گے؟‘‘
’’باغ کے شیڈ کے نیچے۔ موسم کُچھ بہتر ہے پھر بھی کوٹ پہن جاؤ۔‘‘ خالہ نے اُسے بتایا۔
وہ دونوں پہلے سیڑھیوں پر چڑھے اور پھر اُس اندھیرے راستے سے گُزر کر پیچھے والے دروازے کی طرف گئے۔ وہ لمبا اور پتلا باغ بالکل ویران تھا۔ حال آں کہ موسمِ گرما تھا مگر پھر بھی وہاں بہار نہیں آئی تھی۔ عمران سوچ رہا تھا کہ اگر یہاں اِس موسم میں بہار نہیں آئی ہے تو پھر شاید کبھی نہیں آتی ہو گی۔ اندر لکڑی کے بنے ہوئے شیڈ میں سے ہتھوڑی سے کُچھ توڑنے کی آواز آ رہی تھی۔ دروازے کے باہر ایک کیل پر ایک آدمی کی جیکٹ ٹنگی ہوئی تھی، لمبی چوڑی جیکٹ بالکل اوور کوٹ کی طرح۔ عمران اور شازیہ دونوں حیرت سے اُس جیکٹ کو گھُور رہے تھے۔ پھر عمران نے سرگوشی کی، ’’شاید یہ دُنیا کا سب سے بڑا آدمی ہے۔‘‘
شازیہ نے کہا۔ ’’شش۔۔۔۔‘‘ کیوں کہ اچانک ہی شیرازی صاحب دروازے میں نظر آ گئے۔ وہ بہت بھاری جسم والے انسان تھے۔ اُن کا لمبا چوڑا سُرخ سفید چہرہ اور نیلی نیلی آنکھیں گھنی پلکوں کے نیچے بڑی رُعب والی معلوم ہو رہی تھیں۔ آدھی آستینوں کی قمیص میں سے اُن کے بھرے بھرے بازو بالوں سے بھرے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ وہ بالکل دیو معلوم ہو رہے تھے۔
’’کون ہو تُم لوگ؟ اور یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ اُن کے جسم کی طرح اُن کی آواز بھی بہت بھاری اور خوف ناک تھی۔ شازیہ نے بالکل مری ہوئی آواز میں کہا۔ ’’دیکھیے… جناب ہمیں خالہ صفیہ نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ آپ کا ناشتا تیّار ہے۔‘‘
اُنہوں نے تیوریاں چڑھا کر اُسے دیکھا۔ پھر اُن کے ماتھے کے بل ختم ہو گئے اور وہ بڑے زور سے قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔ بڑا زبردست قہقہہ تھا۔ اُن کی آواز پتلے اور لمبے باغ کی دیواروں میں بجلی کی کڑک کی طرح گونجتی رہی۔ اب بچّوں کی سمجھ میں آیا کہ اُن کے خرّاٹے اتنے زور دار کیوں تھے۔ ’’کیا یہ کوئی یتیم خانہ ہے؟‘‘ اُنہوں نے بچّوں کے کندھوں پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ ’’آؤ، اندر آ جاؤ۔‘‘
عمران نے کہا۔ ’’ہم یتیم نہیں ہیں۔‘‘ اُس کی آواز میں بڑی اکڑ اور غصّہ تھا، مگر شیرازی صاحب نے اُس کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔ وہ اُن کو شیڈ کے اندر لے گئے۔ شیڈ کے اندر لکڑی کے فرش کے بالکل بیچوں بیچ پتھّر کا اُونچا سا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ اُس کی اُونچائی شیرازی صاحب کے قد سے بھی زیادہ تھی۔ شیرازی صاحب نے اُن سے پوچھا۔ ’’مُجھے بتاؤ کہ یہ کیا ہے۔ ڈرو نہیں۔ آؤ قریب آ جاؤ۔‘‘
عمران اور شازیہ خاموشی سے اُس ڈھیر نما مجسّمے کو دیکھ رہے تھے۔ شازیہ نے آہستہ سے پوچھا۔ ’’کیا ہے یہ؟‘‘
’’یہ تو تُم لوگ بتاؤ گے۔‘‘ شیرازی صاحب نے مُسکراتے ہوئے کہا۔
’’یہ ایک موٹی عورت کا مجسّمہ ہے جو جھُکی ہوئی ہے۔‘‘ عمران نے بڑے اطمینان سے کہا۔
شیرازی صاحب بے تحاشہ ہنسنے لگے۔ عمران اور شازیہ حیرت سے اُنہیں دیکھنے لگے۔ وہ ہنسے چلے جا رہے تھے۔ اُن کے قہقہے بڑے خوف ناک لگ رہے تھے۔ ہنستے ہنستے شیرازی صاحب کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ جب اُن کی ہنسی میں بریک لگنے شروع ہوئے تو اُن کے مُنہ سے جہاز کے سائرن کی سی آوازیں نکلنے لگیں۔ عمران اور شازیہ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کِس بات پر اِتنا ہنس رہے ہیں۔ شیرازی صاحب نے ہنستے، ہنستے اپنی آنکھیں صاف کیں اور پھر بولے۔ ’’بہت خوب، واہ وا! موٹی عورت… کیا بات کہی ہے بچّوں نے۔‘‘
پھر وہ خاموش کھڑے مجسّمے کو دیکھتے رہے جو ابھی نا مکمل تھا۔ایسا لگ رہا تھا کہ اُنہوں نے شازیہ اور عمران کی موجودگی کو بھُلا دیا ہے۔
’’آپ کا ناشتا تیّار ہے شیرازی صاحب۔‘‘ عمران کی آواز سے وہ چونک اُٹھے۔
’’اوہ!‘‘ اُنہوں نے پیار سے عمران کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’مُجھے شیرازی صاحب نہ کہا کرو بلکہ مُجھے چچا جان کہہ کر پکارا کرو۔ پیارے چچا جان۔‘‘ شیرازی صاحب نے آگے بڑھ کر کیل پر سے اپنی جیکٹ اُتاری اور اُس کو پہننے لگے۔ پھر اُنہوں نے مُڑ کر عمران سے کہا۔ ’’کیا تمہیں مٹّی سے کھیلنا پسند ہے؟ وہ سامنے بنچ پر کُچھ رکھی ہوئی ہے۔ اُسے لے لو اور اُس سے جو چاہو بناؤ۔‘‘
شازیہ نے دِل چسپی سے گُندھی ہوئی مٹّی کے ڈھیر کو دیکھا اور پھر جلدی سے اپنے کپڑوں کو دیکھنے لگی اور شیرازی صاحب سے بولی۔ ’’در اصل مسز ایپسم، میرا مطلب ہے خالہ صفیہ، کپڑے گندے کرنے پر ناراض ہوں گی۔‘‘ اُس کے مُنہ سے مسز ایپسم کا نام اچانک نکلا تھا۔ مسز ایپسم نیروبی میں اُن کی گھریلو ملازمہ تھیں اور اُن کی بہت دیکھ بھال کرتی تھیں۔ خاص طور سے جب اُن کی امّی کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی تو وہ ہی سارا کام کرتی تھیں۔ مگر وہ کپڑے گندے کرنے پر اور گندی جگہوں پر کھیلنے سے بہت ناراض ہوتی تھیں۔
شاید شیرازی صاحب نے مسز ایپسم کے نام پر زیادہ دھیان نہیں دیا۔ اُنہوں نے شازیہ سے کہا۔ ’’کیا تُم اپنی خالہ صفیہ سے خوف زدہ ہو؟‘‘
شازیہ نے اقرار میں سر ہلایا تو اُنہیں ایک دم غصّہ آ گیا۔ اُنہوں نے تیوریوں پر بل ڈال کر کہا۔ ’’تُم اپنی خالہ کو نہیں جانتیں۔ وہ فرشتہ ہیں فرشتہ۔‘‘ کہتے کہتے شیرازی صاحب گھومے اور دھپ دھپ کرتے ہوئے مکان کے اندر چلے گئے۔
عمران نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں، وہ سزا کا فرشتہ ہیں۔‘‘
شازیہ نے اوپر کی منزل کی کھڑکیوں کو دیکھا جو سورج کی روشنی میں چمک رہی تھیں۔ غریب رضوان میرا ننھّا مُنّا بھائی! وہ کتنا پریشان ہو گا اِس وقت۔ وہ سوچنے لگی۔
رضوان بہت غصّے میں تھا۔ آج تک کسی نے اُس کے طمانچہ نہیں مارا تھا اور نہ اِس طرح کی بے تُکی سزا دی تھی۔ وہ اپنے چھوٹے سے بیڈ کے کنارے پر بیٹھا ہوا تھا۔ غصّے اور جھنجھلاہٹ سے اُس کا بُرا حال تھا۔ اب تو اُس کے سر میں درد بھی ہونے لگا تھا۔ نیروبی میں جب کبھی اُسے غصّہ آتا تھا تو وہ باہر چلا جاتا تھا اور جب تک اُس کا غصّہ ٹھنڈا نہ ہو جاتا تھا واپس نہیں آتا تھا۔ نیروبی کا خیال آتے ہی اُسے امّی یاد آ گئیں۔ وہ اداس ہو گیا۔ اُس کا غصّہ اچانک کم ہو گیا تھا۔ اُس نے سوچا کہ مُجھے خالہ صفیہ سے اِتنی بد تمیزی نہیں کرنی چاہیے۔ اُن کو اُس کی باتوں سے بڑا دُکھ ہوا ہو گا۔ وہ اُن کو ہرگز دُکھ نہیں دینا چاہتا تھا۔ پھر اُس نے سوچا کہ خالہ کو اِس بات کا ضرور احساس ہوا ہو گا کہ اُنہوں نے اُس کے تھپڑ کیوں مارا۔ اُس نے سوچا کہ چل کر خالہ صفیہ کو تلاش کیا جائے۔ اس لیے نہیں کہ میں اُن سے معافی مانگوں، کیوں کہ میرا تو کوئی قصور ہی نہیں ہے، بلکہ اس لیے کہ ہو سکتا ہے خالہ صفیہ کو اپنی غَلَطی کا احساس ہو جائے اور وہ مُجھے گلے لگا لیں۔
وہ دبے پاؤں سیڑھیوں پر آیا۔ ابھی وہ نیچے اُترنے کے لیے سوچ ہی رہا تھا کہ اُسے ایک مرد کی آواز سُنائی دی۔ خالہ صفیہ کسی آدمی سے باتیں کر رہی تھیں۔ رضوان نے سوچا کہ یہ وقت نیچے جانے کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اُن سے اکیلے میں ملنا ہی ٹھیک رہے گا۔ پھر اُس نے سوچا کہ چلو اِدھر اُدھر کی کھوج لگائی جائے۔ اُس نے بڑے اور اندھیرے ڈائننگ روم میں جھانکا جس میں سے عجیب طرح کی خُوش بُو آتی رہتی تھی۔ اُس میں ڈھیروں میزیں رکھی ہوئی تھیں جن پر کرسیاں اُلٹی رکھی ہوئی تھیں۔ دیوار کے ساتھ ایک بڑی الماری تھی جس میں ہر قسم کے جام، جیلی، اچار اور مربّوں کی شیشیاں رکھی ہوئی تھیں۔ کمرے میں ایک بہت بڑا گھنٹہ لگا ہوا تھا جِس کی ٹک ٹک کمرے میں گُونج رہی تھی۔ رضوان نے کُچھ بوتلوں کے ڈھکنے کھولے اور اُنہیں چکھا۔ پھر اُس نے ایک گلاس نکال کر ایک بوتل سے اُس میں شربت اُنڈیلا۔ اس کا مزہ عجیب سا تھا۔ اُس کی زبان سُن ہو گئی۔ پتا نہیں کیسا شربت تھا۔ اُس نے اپنی پتلون کی جیب سے رومال نکالا اور گلاس کو اچھی طرح صاف کر کے دوبارہ الماری میں رکھ دیا۔
اِسی طرف آگے بڑھنے پر ایک دروازہ نظر آیا جو بند تھا۔ رضوان سوچ رہا تھا کہ کیا اُس کے دوسری طرف بھی کوئی کمرا ہو گا۔ وہ دروازے کا ہینڈل پکڑ کر گھُمانے ہی والا تھا کہ اندر اُسے کسی کے باتیں کرنے کی آواز سُنائی دی۔ یہ بہت ہلکی اور باریک آواز تھی۔ اُس نے تھوڑی دیر انتظار کیا اور پھر بہت آہستگی اور خاموشی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ اندر کوئی بھی نہیں تھا۔ کمرا بالکل خالی تھا۔ یہ بہت چھوٹا اور تاریک کمرا تھا۔ کھڑکیوں پر موٹے مخملی پردے لٹکے ہوئے تھے۔ اُن کے درمیان سے بہت ہلکی اور باریک سی روشنی کی کِرن اندر آ رہی تھی۔ مینٹل پیس کے اوپر ایک بھاری اور موٹے سے فریم میں کوئی تصویر لگی ہوئی تھی مگر اندھیرے کی وجہ سے صاف نظر نہیں آ رہی تھی۔ کمرا چھوٹی چھوٹی میزوں اور منقّش صندوقوں سے بھرا ہوا تھا اور اُس میں چلنے پھرنے کے لیے بہت تھوڑی جگہ تھی۔ آتش دان کے سامنے ایک بہت سادہ مگر خوب صورت لکڑی کا بنا ہوا گھوڑا رکھا ہوا تھا۔ اس گھوڑے کے قریب جو چیز رضوان نے دیکھی وہ اسے بہت پسند آئی۔ لکڑی کی ایک نقشین میز پر چینی کی چھوٹی چھوٹی مورتیاں اور دُودھیا اور سبز رنگ کے شیشوں کی بنی ہوئی چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔ رضوان بڑی احتیاط کے ساتھ اُن چیزوں کے بیچ میں سے آگے بڑھتا رہا۔ وہ پوری کوشش کر رہا تھا کہ کسی چیز سے ٹکرا نہ جائے۔ اُس نے ایک جگہ رُک کر ایک پیالہ اُٹھایا۔ اس پر ہرے، رنگ کے پھول بڑی خوب صورتی سے پینٹ کیے گئے تھے۔
’’لڑکے! ذرا دھیان سے۔ بڑا قیمتی پیالہ ہے یہ۔‘‘
اُس آواز نے رضوان کو اُچھلنے پر مجبور کر دیا۔ وہ اتنا بد حواس ہو گیا تھا کہ اس کے ہاتھ سے پیالہ گِرتے گِرتے رہ گیا۔ اس نے جلدی سے پیالے کو دونوں ہاتھوں سے تھاما اور احتیاط سے میز پر رکھ کر بولا:
’’آپ نے تو مُجھے ڈرا ہی دیا۔‘‘
اندھیرے کمرے میں کوئی موجود تھا جو اپنی بٹن جیسی چھوٹی چھوٹی اور چمکتی آنکھوں سے اُس کو گھُور رہا تھا۔ ایک مٹّی کے تیل کے چولھے کے آگے، اُس لکڑی کے گھوڑے کے پیچھے چھوٹے قد کی ایک بوڑھی عورت شوخ رنگوں کی شال اوڑھے بیٹھی تھی۔ رنگ برنگے پَروں سے بنا ہوا ایک ہیٹ بھی اُس کے سر پر تھا۔ ہیٹ کے نیچے سے اُس کا چھوٹا سا زرد چہرہ جھانک رہا تھا جس پر بے شمار جھُرّیاں تھیں۔ وہ ننگے پاؤں تھی۔ پانی سے بھرے ہوئے ایک برتن سے بھاپ اُٹھ رہی تھی وہ اپنے پاؤں سینک رہی تھی۔ ایک کیتلی اُس کی گود میں رکھی ہوئی تھی اور دوسری چولھے پر رکھی ہوئی تھی۔
رضوان نے بڑی اکڑ کے ساتھ اُس سے پوچھا۔ ’’آپ کون ہیں؟‘‘
بُوڑھی عورت نے آنکھیں جھپکا کر کہا۔ ’’یہ سوال تو ہمیں آپ سے کرنا چاہیے۔‘‘
’’میرا نام رضوان نعمان خان ہے۔‘‘ رضوان نے اپنا تعارف کرایا۔
اُس عورت نے بڑے شاہانہ انداز میں سر جھُکایا اور بالکل کسی ملکہ کے انداز میں کہا:
’’ہم نُور جہاں بیگم ہیں۔ آپ سے ملاقات کر کے ہم بہت مسرور ہوئے۔‘‘ وہ اپنے ہاتھ پر لمبے اور کالے دستانے پہنے ہوئے تھی۔ اُس نے بڑے آہستگی سے سیدھے ہاتھ کا دستانہ اُتارا۔ اُس کی اُنگلیاں پتلی اور بالکل سفید تھیں اور سب انگلیوں میں قیمتی انگوٹھیاں تھیں۔
’’کیا آپ کو سردی محسوس ہو رہی ہے؟‘‘ رضوان نے اُس سے پوچھا۔
’’جی ہاں رضوان صاحب! آپ بے شک نہایت ذہین ہیں۔ آپ نے کتنی آسانی سے سمجھ لیا۔ عام طور سے لوگ اتنے ذہین نہیں ہوتے۔ اب دیکھیے نا بیگم نجم خان ہماری باتوں پر ہنستی ہیں۔‘‘ اُس کی آواز آہستہ آہستہ کم ہو کر صرف سرگوشی رہ گئی۔ ’’وہ کہتی ہیں کہ ہم پاگل ہیں۔ وہ ہمیں پاگل بیگم کہتی ہیں۔ وہ ہماری پیٹھ پیچھے ہمیں اِسی نام سے پُکارتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ہمیں کُچھ معلوم نہیں۔ آج کے دور میں ملازم اپنے مالکوں کی عزّت نہیں کرتے۔‘‘
’’مُجھے بھی سردی لگ رہی ہے۔‘‘ رضوان نے کہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ گرم پانی کی یہ کیتلیاں خود کو گرم رکھنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ جب سے میں انگلینڈ آیا ہوں، سردی زکام نے میرا پیچھا لے لیا ہے۔
نُور جہاں بیگم نے بغیر دستانے والے ہاتھ سے اپنی گود میں رکھی ہوئی کیتلی کو پکڑا اور بولیں۔ ’’سردی لگ رہی ہے؟‘‘
اُنہوں نے چولھے پر سے گرم پانی کی بھری ہوئی کیتلی اُتار کر اُس کا پانی اپنی گود میں رکھی خالی کیتلی میں انڈیلا اور وہ رضوان کی طرف بڑھا دی: ’’رضوان صاحب! از راہِ کرم آپ اِسے دوبارہ بھر دیجیے گا۔ وہ سامنے کونے میں نل لگا ہوا ہے۔‘‘ اُنہوں نے اپنی نازک جھُرّیوں دار اُنگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ کونے میں مخملی پردوں کے پیچھے ایک واش بیسن لگا ہوا تھا۔ رضوان نے بڑی احتیاط سے کیتلی بھری اور واپس لے آیا۔
’’اب اِس کو وہاں رکھ دیجیے۔‘‘ بوڑھی عورت نے حُکم جاری کیا۔ ’’نہیں نہیں میاں! آپ تو بالکل بے وقوف ہیں۔ کیا آپ کو نظر نہیں آ رہا ہے؟‘‘ وہ نیچے جھُکیں اور فرش سے کوئی چیز اُٹھائی اور بولیں۔ ’’یہ ہیں مسٹر گولڈی۔‘‘ اُن کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا کچھوا تھا جس کے پورے خول کے اوپر ایک نیلا ربن بندھا ہوا تھا۔ اُنہوں نے بہت ہلکی اور مہین سی آواز میں سے کہا۔ ’’مسٹر گولڈی! اِن سے ملیے۔ یہ جناب رضوان نعمان خان صاحب ہیں۔‘‘ کچھوے نے اپنی ننّھی مُنّی آنکھیں گھُما کر رضوان کی طرف دیکھا۔ نُور جہاں بیگم بولیں:
’’اِس بے چارے کو بھی ہماری طرح بہت سردی لگتی ہے۔ کبھی کبھی ہم اِن کو ارنڈی کے تیل میں غُسل دے دیتے ہیں۔ اگر آپ احتیاط کریں تو ہم آپ کو اِس بات کی اجازت دے دیں گے کہ آپ اِس کو چھُو لیں۔‘‘
رضوان نے بڑے پیار سے کچھوے کے کھُردرے خول پر ہاتھ پھیرا۔ پھر اس نے نُور جہاں بیگم کو بتایا کہ افریقہ میں اُس کے پاس ایک بندر تھا۔ پھر وہ اسٹول پر بیٹھ کر اُنہیں اُس بندر کے بارے میں بتانے لگا۔ نُور جہاں بیگم پوری توجّہ اور دِل چسپی سے سُن رہی تھیں۔ اُنہوں نے اپنی بٹن جیسی چمک دار آنکھیں گھُماتے ہوئے کہا۔ ’’ہمیں افریقہ کے بارے میں اور کُچھ بتائیے۔ یہ تو واقعی بڑی عجیب اور پُر اسرار سی جگہ معلوم ہوتی ہے۔ ہمیں اس سر زمین کو دیکھنے کا بڑا شوق تھا، مگر ہمارے والد نوّاب صاحب ہمیں کبھی وہاں نہ لے گئے۔ حال آں کہ وہ خود وہاں کئی بار ہو کر آ چکے تھے۔ ابّا حضور نے اپنی زندگی کا زیادہ حصّہ ہندوستان میں بسر کیا تھا مگر وہاں اُن کی جاگیر پر ابّا حضور کے بہت سے دُشمن پیدا ہو گئے تھے لہٰذا وہ ہمیں لے کر یہاں چلے آئے اور پھر وہ کبھی واپس نہیں گئے۔ مرتے دم تک یہیں رہے۔‘‘ نُور جہاں بیگم نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔
رضوان نے پوچھا۔ ’’آپ کی عُمر کیا ہو گی؟‘‘
’’بیاسی سال۔‘‘ بیگم صاحبہ نے آہستہ سے جواب دیا۔
رضوان نے گہری سانس لی۔ وہ اُن کی شال اور پَروں والے ہیٹ کو دیکھ رہا تھا۔ وہ آج تک اِتنی بوڑھی اور اِتنی پُر اسرار ہستی سے نہیں ملا تھا۔
’’آپ کے والد کے دُشمن کون تھے؟‘‘ رضوان نے اچانک پوچھا۔
’’شش۔‘‘ اُنہوں نے کرسی پر آگے جھُولتے ہوئے کہا۔ ’’اتنے تیز نہ بولیے۔ وہ سب ہمارے آس پاس ہیں۔ ہم کو دیکھ رہے ہیں۔ ہماری نگرانی کر رہے ہیں۔ مگر آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اِس مکان کے اندر ہم بالکل محفوظ ہیں۔ اگر وہ کسی طرح زبردستی اندر داخل ہو بھی جائیں گے تو بھی یہاں بے شمار جگہیں ایسی ہیں جہاں اُن سے چھُپا جا سکتا ہے۔ ایسی جگہیں جہاں وہ ہمیں کبھی تلاش نہیں کر سکیں گے لیکن آپ ڈریے نہیں۔‘‘
’’مُجھے ڈر نہیں لگتا۔‘‘ کہنے کو تو رضوان نے کہہ دیا مگر دِل ہی دِل میں وہ بہت ڈر رہا تھا۔
’’اگر وہ اندر آ گئے تو آپ کہاں چھُپیں گی؟‘‘
اُنہوں نے بہت دِھیمی آواز میں کہا۔ ’’پتا نہیں آپ کو بتانا چاہیے یا نہیں۔ کیا آپ اِس کو راز میں رکھیں گے؟ ہمیں اُمّید ہے کہ آپ کسی کو نہیں بتائیں گے۔ آپ بہت ذہین بچّے ہیں۔‘‘
رضوان نے اقرار میں سر ہلایا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کوئی بہت دِل چسپ بات ہی ہو گی۔ نُور جہاں بیگم نے چولھے پر سے کیتلی اُتاری ۔ اُسے چھُو کر دیکھا اور اپنی گود میں رکھ لی اور بولیں۔ ’’جب ہم یہاں آئے تھے تو ہمارا یہ خیال تھا کہ یہ بہت پُرانا مکان ہے۔ یہ دوسرے مکانوں سے بالکل مختلف تھا۔ ہم اکیلے بچّے تھے۔ اِس لیے ابّا حضور نہیں چاہتے تھے کہ ہم دوسرے بچّوں سے ملیں۔ کہیں کسی دُشمن کی نظر ہم پر نہ پڑ جائے۔ ہم بہت امیر اور لاڈلے تھے۔ ضرورت کی ہر چیز ایک اشارے پر ہم کو مل جاتی تھی۔ ابّا حضور اپنی تمام دولت ہندوستان سے لے آئے تھے۔ ہم اکثر گھر میں بے کار پڑے رہتے تھے۔ ایک سہ پہر جب خانساماں گھر سے باہر تھا، ہم نے ایک خُفیہ راستہ ڈھونڈ نکالا اور اِس طرح ایک تہہ خانے کا پتا چلا لیا۔‘‘
’’تہہ خانہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ رضوان نے پوچھا۔
جوش میں رضوان اتنے زور سے بولا کہ باہر گُزرتی ہوئی خالہ صفیہ نے اُس کی آواز سُن لی۔ وہ دروازہ کھول کر اندر آ گئیں:
’’رضوان! تُم بہت شریر ہو۔‘‘ اُن کی آواز میں بڑا غصّہ تھا۔ ’’میں نے تُم سے کہا تھا کہ اپنے کمرے میں جاؤ۔‘‘ اُنہوں نے اُس کا بازو پکڑ کر دروازے کی طرف گھسٹتے ہوئے کہا۔ ’’آئندہ اگر کوئی غَلَط حرکت کی تو میں تمہیں سزا دوں گی۔‘‘ پھر اُنہوں نے بیگم نُور جہاں کی طرف مُڑ کر کہا:
’’نُور جہاں بیگم! معاف کیجیے گا۔ اِس نے آپ کو تنگ کیا۔‘‘
نُور جہاں بیگم کرسی پر آرام سے بیٹھی ہوئی تھیں۔ عجیب ہیٹ، گود میں کیتلی، ننگے پاؤں۔ اِس عجیب حُلیے کے باوجود وہ بڑی پُر وقار اور شان دار لگ رہی تھیں۔ وہ نوّاب زادی معلوم ہو رہی تھیں۔ اُسی شان سے وہ بولیں: ’’بیگم نجم، آپ اپنے فرائض سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ رضوان نعمان خان ہمارے اچھّے دوست ہیں۔ ہمیں اِس بات کی بے حد خوشی ہوئی کہ یہ ہم سے ملنے آئے۔‘‘
’’اوہ… اگر ایسی بات ہے تو ٹھیک ہے۔ مگر اِس طرح آپ اپنے آپ کو تھکائیں گی۔ آپ کو معلوم ہے کہ ڈاکٹر نے آپ کو آرام کرنے کی ہدایت کی ہے۔‘‘
رضوان کھڑا چُپ چاپ دیکھ رہا تھا۔ حال آں کہ خالہ صفیہ کی آواز میں طنز تھا۔ پھر بھی وہ بڑی نرمی اور ادب سے نُور جہاں بیگم کی کمر کے پیچھے تکیے لگا کر اُنہیں آرام سے بستر پر بِٹھا رہی تھیں۔
’’سارا دِن اکیلے رہنے سے بہتر ہے کہ تھوڑا بہت اپنے آپ کو تھکا لیا جائے۔‘‘ نُور جہاں بیگم نے کہا۔ پھر اُنہوں نے رضوان کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’آپ دوبارہ آئیں گے نا؟‘‘
’’جی، میں ضرور آؤں گا۔‘‘ رضوان نے جواب دیا۔
’’ہمارے پاس آئیے۔ ہم آپ کو تحفہ دینا چاہتے ہیں۔‘‘ نُور جہاں بیگم نے کہا۔
رضوان اُن کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ اُنہوں نے اپنے برابر رکھی ہوئی میز پر سے ایک چھوٹا سا چینی کا خوب صورت گھوڑا منتخب کیا۔
’’اِس کی اچھّی طرح دیکھ بھال کیجیے گا۔‘‘
گھوڑا اُس نے اپنے ہاتھ میں نے لیا۔ یہ برف کی طرح ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ ’’یہ بہت پیارا ہے۔ آپ کا شکریہ! میں اِس کی ہمیشہ حفاظت کروں گا۔‘‘
خالہ صفیہ نے دروازے میں سے اُسے پکارا۔ ’’رضوان! بس اب آ جاؤ۔‘‘ باہر راہداری سے گُزر کر جب وہ اتنی دور آ گئے کہ نُورجہاں اُن کی آواز نہ سن سکیں تو خالہ صفیہ نے رضوان کا بازو پکڑ کر اُس کو اپنی طرف گھُماتے ہوئے کہا۔ ’’رضوان! کان کھول کر سن لو، نُور جہاں بیگم کُچھ بھی کہیں، تمہیں اُن کی بات پر دھیان نہیں دینا ہے۔ وہ بُوڑھی ہیں اور بیمار ہیں۔ لاؤ مُجھے دِکھاؤ اُنہوں نے تمہیں کیا دیا ہے۔‘‘
رضوان نے تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد اُن کو وہ پیلا اور ہرا گھوڑا دکھا دیا۔ خالہ صفیہ نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔ ’’چلو اچھّا ہوا۔ ایک اور چیز کو صاف کرنے سے میں بچ جاؤں گی۔ اُن کے پاس ایسی بے شمار چیزیں ہیں جن کی مُجھے صفائی کرنی پڑتی ہے۔ لیکن تُم اس بات کا خیال رکھنا کہ نہ کبھی ان سے کوئی چیز مانگنا اور نہ کوئی چیز اُن سے لینا۔ وہ ایک غریب عورت ہیں اور لالچی بچّوں کو اِس طرح کے قیمتی تحفے نہیں دے سکتیں۔ سمجھ گئے؟‘‘
رضوان کو ایک دم غصّہ آ گیا۔ ’’میں نے اُن سے کوئی تحفہ نہیں مانگا اور وہ اتنی غریب بھی نہیں ہیں۔ وہ بہت امیر ہیں۔ اُنہوں نے خود مُجھے بتایا ہے۔‘‘
خالہ صفیہ نے اُسے دیکھا پھر بولیں۔ ’’خیر مُجھے کیا۔‘‘
پھر اُنہوں نے اپنی گھڑی کو دیکھتے ہوئے کہا، ’’اب مُجھے تمہاری طبیعت کُچھ بہتر معلوم ہو رہی ہے۔ جاؤ، جا کر تھوڑی دیر باغ میں کھیل لو۔‘‘
رضوان باغ میں دوڑتا چلا جا رہا تھا۔ وہ شازیہ اور عمران کو نُور جہاں کے بارے میں بتانے کے لیے بے چین تھا۔ وہ اُنہیں اپنا چھوٹا سا گھوڑا بھی دِکھانا چاہتا تھا مگر وہ دونوں بہت دُور تھے۔ وہ باغ کے دوسری طرف دیوار کے پاس کھڑے ہوئے اُس پرانے اور پُر اسرار مکان کو تک رہے تھے۔ شام کے سائے لمبے ہونے شروع ہو گئے تھے۔ عمران کہہ رہا تھا۔ ’’میں تُم سے کہہ رہا ہوں کہ میں نے اُسے دیکھا ہے۔ اُس کی آواز بڑی پُر اسرار تھی۔ اُسی وقت رضوان ہانپتا کانپتا وہاں پہنچ گیا۔ اُس کے ہاتھ میں گھوڑا دبا ہوا تھا۔ ’’تُم نے کِسے دیکھا ہے۔‘‘ شازیہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’رضوان! عمران کہہ رہا ہے کہ اُس نے اِس مکان میں کسی کو چلتے پھِرتے دیکھا ہے۔ حال آں کہ یہ مکان بالکل خالی ہے۔ خالہ صفیہ کا بھی یہی کہنا ہے۔ یہ بے تُکی باتیں کر رہا ہے نا؟‘‘
عمران نے غصّے سے مُٹھّیاں بھینچتے ہوئے کہا۔ ’’میں کہہ رہا ہوں میں نے کھڑکی میں کسی کا چہرہ دیکھا ہے۔ تُم میری بات کا یقین نہیں کرتیں۔‘‘ وہ غصّے سے سُرخ ہو گیا تھا۔
خُفیہ راستہ
برابر والا پُرانا مکان اب جس شخص کی ملکیت تھا اس کا نام رینالڈ تھا۔ وہ آرٹ کا شوقین تھا۔ اُس کا گھر نادِر نمونوں سے بھرا ہوا تھا۔ اُس نے ساری دُنیا سے آرٹ کی چیزیں لا کر وہاں جمع کر دی تھیں۔ یہ ساری بات خالہ صفیہ نے عمران کو بتائی تھی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس کے پاس لندن میں ایک اور بڑا مکان بھی ہے اور فرانس میں ایک حویلی ہے۔ میرا تو یہی خیال ہے کہ اُس نے میرا مکان صرف اِس لیے خریدا ہے تا کہ اپنی جمع کی ہوئی تصویروں اور دوسری نادِر چیزوں کو اُس میں رکھ سکے۔ مگر وہ یہاں بہت کم آتا ہے۔ تقریباً دو سال سے تو وہ ایک بار بھی نہیں آیا۔
عمران کو یہ بات بڑی عجیب لگی کہ کوئی آرٹ کا شوقین ایک بڑا گھر خریدے، اُسے تصویروں اور دوسری قیمتی چیزوں سجائے اور پھر دو سال تک وہاں نہ آئے۔ اِس بات نے اُس مکان کو اب عمران کی نظر میں پہلے سے بھی زیادہ پُر اسرار بنا دیا تھا۔ عمران کی بڑی خواہش تھی کہ کسی طرح اندر سے اُس مکان کو دیکھا جائے مگر اُس نے شازیہ سے اپنی اِس خواہش کا ذکر نہیں کیا۔ اُس نے سوچا کہ وہ میرا مذاق اُڑائے گی۔ اِس سے پہلے بھی جب اس نے اس کو بتایا تھا کہ اس نے کھڑکی میں کسی کا چہرہ دیکھا ہے تو شازیہ نے اُس کا خوب مذاق اُڑایا تھا۔ اُس نے صرف ایک لمحے کے لیے وہ پیلا سا چہرہ دیکھا تھا جو سب سے اوپر والی منزل کی کھڑکی میں نظر آیا تھا۔ پھر اُس نے سوچا کہ کہیں وہ صرف اس کا وہم نہ ہو۔ اُس مکان میں داخل ہونا اتنا آسان بھی تو نہ تھا۔ حال آں کہ وہ بالکل خالی تھا مگر بند تھا اور پھر اُس کے باغ کی دیواریں بھی بہت اُونچی تھیں۔
وہ ہر وقت اِس مکان کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ شازیہ، خالہ صفیہ کے ساتھ لگی رہتی تھی۔ وہ برتن دھوتی، بستر بدلتی اور خالہ کے ساتھ بازار سے کھانے پینے کی چیزیں خریدنے جاتی تھی اور رضوان تو ہر وقت نُور جہاں بیگم کے پاس بیٹھا رہتا تھا۔ وہ دونوں اُس چھوٹے سے اور اندھیرے کمرے میں ہر وقت آہستہ آہستہ باتیں کرتے رہتے تھے۔ کئی بار اُن دونوں نے دروازے سے کان لگا کر سُننے کی کوشش کی مگر کُچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
عمران نے رضوان سے پوچھا۔ ’’تُم ہر وقت نُور جہاں بیگم سے کیا باتیں کرتے رہتے ہو؟‘‘
رضوان نے بڑے پُر اسرار انداز میں جواب دیا۔ ’’بہت سی باتیں، اُن دِنوں کی باتیں جب وہ ایک لڑکی تھیں۔ یہ بڑی دِل چسپ کہانی ہے۔ اُنہیں بڑی اچھّی کہانیاں آتی ہیں۔‘‘ خالہ صفیہ اِس بات سے بہت خوش تھیں کہ رضوان کو نُور جہاں بیگم پسند آ گئی تھیں۔ اُن کی بہت سے کاموں سے جان چھوٹ گئی تھی۔ ہر وقت کا کھانا اور ناشتا رضوان ہی اُنہیں پہنچاتا تھا۔ یا ضرورت کے وقت جب وہ خالہ کو بلاتیں تو رضوان ہی اُن کے پاس جاتا تھا۔ اِس طرح خالہ صفیہ کا کام کافی ہلکا ہو گیا تھا۔
ایک صُبح جب بچّوں کو یہاں آئے ہوئے دو ماہ ہو چکے تھے، خالہ صفیہ بہت زیادہ مصروف نظر آ رہی تھیں، عام دِنوں سے زیادہ مصروف۔ گزشتہ رات لندن سے ایک شخص نے ٹیلے فون کر کے ایک کمرے کی فرمائش کی تھی۔ اُس نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر مُجھے آپ کا بورڈنگ ہاؤس پسند آ گیا تو میں کُچھ زیادہ دِن تک بھی وہاں ٹھیر سکتا ہوں۔ خالہ صفیہ نے بچّوں کو بتایا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہی ہے جو سال کے اِس حصّے میں کوئی رہنے کے لیے آ رہا ہے، ورنہ اِس موسم میں یہاں کوئی نہیں آتا۔ خالہ نے اپنے ساتھ شازیہ کو لگا کر ایک کمرا صاف کر دیا اور عمران کو مارکیٹ بھیج کر ایک مُرغی بھی منگوا لی۔ دوپہر کے کھانے سے تھوڑی دیر پہلے مہمان آ پہنچا۔ وہ ایک چھوٹے سے قد کا زرد چہرے والا آدمی تھا۔ اس کی پیشانی اُبھری ہوئی تھی اور دو پیلے دانت باہر کو نکلے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ اُس نے اندر آ کر اپنا کمرا نہیں دیکھا جو اُس کے لیے تیّار کیا گیا تھا بلکہ وہ سیدھا ڈائننگ روم میں چلا گیا۔ اُس نے اپنا سوٹ کیس ہال میں ہی رکھ دیا تھا۔ خالہ صفیہ نے اُسے ایک میز کے پاس بِٹھا دیا اور باہر آ کر بچّوں سے سرگوشی میں بولیں:
’’بچّو! دوپہر کے کھانے کے لیے تُم لوگوں کو تھوڑا سا انتظار کرنا ہو گا۔‘‘
تینوں بچّے سیڑھیوں پر ایک دوسرے سے جڑے بیٹھے تھے۔ خالہ صفیہ ایک ٹرے میں مہمان کا کھانا لے کر آتی نظر آئیں۔ اُس میں بھُنا ہوا مُرغ تھا۔ اُس کے علاوہ مٹر، گاجر اور آلو کی ڈشیں تھیں۔ سب مکھّن میں پکی ہوئی تھیں۔ یہ دیکھ کر رضوان کے مُنہ میں پانی بھر آیا۔ اُس نے زبان چٹخاتے ہوئے کہا۔ ’’کیا وہ یہ سب کھائے گا؟‘‘ خالہ صفیہ ڈائننگ روم سے خالی ٹرے لیے باہر آئیں اور نیچے اُتر کر باورچی خانے میں چلی گئیں۔ دوبارہ جب وہ نظر آئیں تو اُن کے ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں سیب کی پُڈنگ اور کریم سے بھرا ہوا ایک پیالہ تھا۔ ڈائننگ روم میں داخل ہونے سے پہلے وہ بچّوں کی طرف دیکھ کر مُسکرائیں، مگر جب وہ باہر آئیں تو اُن کی مُسکراہٹ غائب تھی۔ اُن کے چہرے پر فکر اور پریشانی صاف نظر آ رہی تھی۔ ٹرے میں مُرغ جُوں کا تُوں رکھا ہوا تھا۔ اُسے چھُوا تک نہیں گیا تھا۔
رضوان نے کہا۔ ’’دیکھا! ہمارے کھانے کے لیے کتنا سارا بچ گیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اُس کو کھانا پسند نہیں آیا ہے۔‘‘
شازیہ نے اُسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ’’اگر اُسے کھانا پسند نہیں آیا تو وہ یہاں نہیں ٹھیرے گا۔‘‘
وہ بڑی فکر کے ساتھ دیکھتے رہے۔ اِس دوران خالہ صفیہ کافی لے کر گئیں اور باہر آئیں تو پُڈنگ بھی واپس آ گئی تھی۔ اُس نے مُشکل سے ہی کوئی چیز کھائی ہو گی۔ صرف کسٹرڈ کی ڈش میں سے کُچھ لیا گیا تھا۔ وہ بھی شاید اُس نے چکھی ہی تھی۔ خالہ صفیہ نے بچّوں کی طرف دیکھا تک نہیں بلکہ سیدھی باورچی خانے میں چلی گئیں۔ عمران نے کُچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ’’ہو سکتا ہے کہ وہ صرف دال سبزیاں شوق سے کھاتا ہو۔‘‘
شازیہ نے کہا۔ ’’اگر وہ دال سبزیوں کا شوقین ہوتا تو مٹر، آلو وغیرہ کی ڈشیں بھی تو تھیں۔‘‘
تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی۔ پھر رضوان نے کہا۔ ’’کُچھ بھی ہو۔ اُسے اِن چیزوں کا معاوضہ ضرور دینا ہو گا۔‘‘
’’پتا نہیں۔‘‘ شازیہ کے ماتھے پر بل پڑ گئے تھے۔ وہ سوچ رہی تھی کہ خالہ صفیہ نے کتنی محنت سے اُس کے کمرے کو ٹھیک ٹھاک کیا تھا اور کتنے شوق سے اُس کے لیے کھانا تیّار کیا تھا۔ اچھّے خاصے پیسے خرچ ہو گئے تھے۔ ہر چیز پر پیسے لگے تھے یہاں تک کہ پکانے میں بھی کافی گیس خرچ ہوئی تھی۔ پھر مہمان ہال میں داخل ہوا۔ وہ اپنے رومال سے اپنا ہاتھ مُنہ صاف کر رہا تھا اور اِدھر اُدھر بڑے عجیب سے انداز میں دیکھ رہا تھا۔
عمران نے سرگوشی کی۔ ’’شاید وہ باتھ روم جانا چاہتا ہے۔‘‘
شازیہ کھڑی ہو گئی اور ڈرتے ڈرتے آگے بڑھ کر کہنے لگی:
’’آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟‘‘
آدمی نے ایک نظر اس کو دیکھا۔ شازیہ جلدی سے بولی۔ ’’آپ نے اتنا عمدہ کھانا کھائے بغیر واپس کر دیا۔ مُجھے اُمّید ہے کہ آپ نے بھُوک نہ ہونے کی وجہ سے اسے واپس کیا ہو گا ورنہ کھانا تو بہت اچھّا تھا۔‘‘
اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ بس اپنی پیلی پیلی آنکھوں سے شازیہ کو تکتا رہا۔ حال آں کہ اُس نے بہت کم کھایا تھا مگر کھانے کے ذرّے اُس کی ٹائی اور صدری پر لگے ہوئے تھے۔ شازیہ کُچھ گھبرا گئی تھی مگر ہمّت کر کے اُس نے کہا، ’’ہمیں اُمّید ہے کہ ہمارا بورڈنگ ہاؤس آپ کو ضرور پسند آیا ہو گا۔ آپ یہاں کافی لمبے عرصے کے لیے ٹھیر سکتے ہیں۔ آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی اور خالہ صفیہ کی مالی پریشانی بھی دور ہو جائے گی۔‘‘
’’اُف توبہ… اُف توبہ…‘‘ وہ کافی غصّے میں نظر آ رہا تھا۔ اُس نے خالہ صفیہ کی طرف نگاہ اُٹھا کر دیکھا جو ہال میں داخل ہو رہی تھیں۔ اُنہوں نے خاموشی سے سب کو دیکھا اور پھر سرد آواز میں بولیں۔ ’’شازیہ اور تُم سب لوگ فوراً نیچے باورچی خانے میں چلے جاؤ۔‘‘ وہ سب خاموشی سے نیچے چل دئیے۔ ان کے پیچھے خالہ صفیہ بھی تھیں۔ اُنہوں نے باورچی خانے میں جا کر اُس کا دروازہ کے بند کیا اور بولیں:
’’شازیہ! تُم بہت بد تمیز لڑکی ہو۔ یاد رکھو آئندہ کبھی مہمان سے بات نہ کرنا۔ یہ صاحب شہر کی اہم شخصیت ہیں۔ یہ یہاں آرام کرنے آئے ہیں۔ اِس لیے نہیں آئے کہ بد تمیز بچّے اُنہیں تنگ کریں۔‘‘
وہ بالکل سفید ہو رہی تھیں۔ اُن کی آواز بھی لرز رہی تھی۔
رضوان نے کہا۔ ’’مُجھے تو یہ کہیں سے اہم شخصیت نہیں لگتا۔ مُجھے تو یہ خرگوش لگتا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہی رضوان نے جلدی سے اپنے مُنہ پر ہاتھ رکھ لیا۔
خالہ صفیہ نے اُسے غصّے سے دیکھا اور باہر چلی گئیں۔ تھوڑی دیر تک کوئی بھی کُچھ نہ بولا۔ شازیہ کی نگاہیں فرش پر گڑی ہوئی تھیں۔ اُس کے رُخسار سُرخ ہو رہے تھے۔ اُسے اِس بات کا رنج تھا کہ خالہ صفیہ نے اسے بد تمیز کہہ دیا تھا۔
سہ پہر کو خالہ صفیہ نے بچّوں کو سمندر کے کنارے سیر کرنے بھیج دیا اور کہا کہ چائے کے وقت تک مہمان کے سامنے بالکل نہ آئیں۔ باہر بہت سردی تھی۔ حال آں کہ مارچ کا مہینہ تھا مگر باغ میں کوئی بھی پھول نظر نہیں آ رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کلیاں بھی ٹھنڈ سے جم گئی ہیں اور اپنی پنکھڑیاں نہیں کھول پا رہی ہیں اور سمندر تو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کالی سفید چادر۔ نیروبی میں اُنہوں نے جو سمندر دیکھا تھا وہ نیلا تھا۔ اُس کے شفّاف پانی میں لوگ سارا دِن نہاتے رہتے تھے مگر یہاں تو معاملہ ہی دوسرا تھا۔ سمندر کے اُوپر کُہر اور دُھند چھائی ہوئی تھی۔
جب سے یہ بچّے انگلینڈ آئے تھے، اُنہوں نے زیادہ تر وقت اِس ٹھنڈے سمندر کے قریب گُزارا تھا۔ کیوں کہ خالہ صفیہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ گرمیاں آنے تک وہ اسکول نہیں جائیں گے۔ اُن سب کو کھانسی، نزلہ اور بخار ہو گیا تھا۔ جب خالہ صفیہ اُن کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئیں تو اس نے کہا۔ ’’ابھی اُنہیں اسکول نہ بھیجئے۔ ویسے بچّے بالکل تن درست ہیں مگر یہ چوں کہ زیادہ وقت افریقہ میں رہے ہیں اِس لیے یہ یہاں کا موسم برداشت نہیں کر پا رہے ہیں۔ آپ اُنہیں باہر کھیلنے کودنے دیں تا کہ یہ یہاں کی آب و ہوا کے عادی ہو جائیں۔‘‘
اپنے جسم کو گرم رکھنے کے لیے اُنہیں بہت بھاگ دوڑ کرنی پڑتی تھی۔ شازیہ اور عمران کے تو سردی کی وجہ سے ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کی کھال پھٹ گئی تھی اور زخم ہو گئے تھے۔ آگ کے سامنے جب وہ بیٹھتے تو اُن زخموں میں آگ سی لگ جاتی تھی۔ خالہ نے اُن کو دوا دی اور ہر طرح سے اُن کی دیکھ بھال کی۔ اِس معاملے میں اُن کا رویّہ بہت اچھّا تھا۔ مگر کسی رات بھی اُنہوں نے نہ بچّوں کو پیار کیا نہ اُنہیں شب بخیر کہا اور نہ یہ پوچھا کہ تُم لوگ یہاں خوش تو ہو نا! شازیہ اکثر سوچتی تھی کہ عمران اور رضوان نہ ہوتے تو پتا نہیں کیا ہوتا۔ اس نے عمران سے کہا:
’’یہ بات نہیں ہے کہ خالہ صفیہ پریشان ہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ ہم لوگ اُنہیں پسند نہیں۔ ‘‘وہ دونوں اُس وقت سمندر کے کنارے بیٹھے ہوئے پانی میں پتھّر اُچھال رہے تھے۔ لہریں دوڑ دوڑ کر آتیں اور اُن کے قدموں سے لپٹ جاتیں۔ رضوان سیپیوں اور گھونگوں کی تلاش میں مصروف تھا۔
عمران نے کہا۔ ’’اُنہیں لوگوں سے محبّت کرنی نہیں آتی۔ اُن کا کوئی ہے ہی نہیں جو وہ کسی سے محبّت کریں، کسی کا دُکھ درد سمجھ سکیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم لوگوں کے کھانے پینے پر اچھّا خاصا خرچ ہو رہا ہے، اِس لیے وہ بہت پریشان ہیں۔‘‘
’’تو پھر ابّو اُن کو ہمارے خرچ کے لیے کُچھ رقم کیوں نہیں بھیج دیتے؟‘‘ شازیہ نے پوچھا۔
عمران نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’اُنہیں اِس بات کی فُرصت کہاں ہے۔ جڑی بُوٹیوں پر تحقیق کرنے کے علاوہ اُنہیں کسی اور چیز کا ہوش نہیں۔ تمہیں یاد ہو گا، امّی ہی ہماری ہر چیز کا خیال رکھتی تھیں۔‘‘ اچانک وہ بہت غمگین ہو گیا تھا۔ اُس نے زیادہ تیزی سے پانی میں پتھّر پھینکے شروع کر دیے۔
’’اچھا تو نُور جہاں بیگم اور شیرازی صاحب کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اگر ہمارے یہاں ہونے سے خالہ کا خرچ بڑھ گیا اور وہ خرگوش کی شکل والا آدمی ہمیں دیکھ کر چلا گیا ہے تو نُور جہاں بیگم اور شیرازی صاحب کے بارے میں بھی خالہ اِسی طرح کیوں نہیں سوچتیں۔‘‘
عمران نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’میرا خیال ہے کہ وہ لوگ یہاں رہنے اور کھانے کا کُچھ نہیں دیتے۔ تمہیں یاد نہیں شیرازی صاحب نے کہا تھا، خالہ صفیہ ایک فرشتہ ہیں۔ اب وہ فرشتہ اِس لیے تو ہو نہیں سکتیں کہ وہ بہت مہربان اور خوش مزاج ہیں۔ بلکہ وہ اِس لیے شیرازی صاحب کی نظر میں فرشتہ ہو سکتی ہیں کہ وہ اُن سے یہاں رہنے اور کھانے پینے کا کُچھ نہیں لیتیں۔ میرا تو یہی خیال ہے۔‘‘
شازیہ نے پوچھا۔ ’’کیا اُنہوں نے تمہیں یہ بات بتائی ہے؟‘‘
’’نہیں، میرا صرف اندازہ ہے، کیوں کہ وہ کبھی اپنے بنائے ہوئے مجسّمے نہیں بیچتے۔ اُن کے کپڑے بھی بہت معمولی سے ہیں، لیکن اُنہوں نے مُجھے نُور جہاں بیگم کے بارے میں ضرور بتایا تھا۔ کل میں اُن کے ورکشاپ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اُنہوں نے رضوان کے بارے میں پوچھا۔ میں نے کہا کہ وہ خالہ صفیہ کے ساتھ نُور جہاں بیگم کے کمرے کی صفائی کر رہا ہے۔ شیرازی صاحب یہ سُن کر بہت خوش ہوئے اور بولے کہ چلو اچھّا ہوا تمہاری خالہ صفیہ پر سے کام کا بوجھ تو خاصا کم ہوا۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ نُور جہاں بیگم کب سے یہاں ہیں۔ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ بہت عرصے سے۔ تمہاری خالہ صفیہ نے یہ مکان خریدا بھی نہیں تھا جب سے نُور جہاں بیگم یہاں ہیں۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ نُور جہاں بیگم کی ایک بھابھی تھی جو کُچھ عرصے تک نُور جہاں بیگم کے یہاں رہنے کا معاوضہ دیتی رہی۔ بعد میں اُس نے معاوضہ دینا بند کر دیا اور کہا کہ اب اُس کے لیے ادائی کرنا ممکن نہیں۔ وہ اُنہیں اپنے گھر لے جانا چاہتی تھی مگر صفیہ نے روک دیا اور کہہ دیا کہ اُنہیں کوئی معاوضہ نہیں چاہیے۔ جب تک اُن کی صحت اجازت دیتی ہے اور اُن کے دم میں دم ہے وہ اُن کی خدمت کرتی رہیں گی۔ یہ بات مُجھے شیرازی صاحب نے خود بتائی تھی۔‘‘ عمران نے تفصیل بتائی۔
اس کی بات سُن کر نازیہ بولی۔ ’’یہ کام تو خالہ صفیہ نے بہت اچھّا کیا ہے۔‘‘
عمران نے کہا۔ ’’شیرازی صاحب کا کہنا ہے کہ خالہ صفیہ کے سینے میں سونے کا دِل ہے مگر کسی کو نظر نہیں آتا۔ وہ بہت اچھّی اور پیاری خاتون ہیں۔ مگر چوں کہ کافی عرصے سے اُن کو محبّت کرنے کے لیے کوئی نہیں ملا، اِس لیے اُن کی محبّت کے اظہار کی عادت ہی ختم ہو گئی ہے۔ وہ دِل کی بُری نہیں ہیں۔‘‘
شازیہ نے کہا۔ ’’میرا خیال ہے اُنہیں اپنے شوہر کے حادثے نے بے حس بنا دیا ہے۔ ڈیڈی نے مُجھے بتایا تھا کہ اُن کی شادی کو زیادہ وقت نہیں گزرا تھا اور نجم خالو بہت زندہ دِل اور ہنس مُکھ آدمی تھے۔‘‘
شازیہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے آنسو پونچھ کر کہا۔ ’’ایک بات میری سمجھ میں بالکل نہیں آئی۔ رضوان کا کہنا ہے کہ نُور جہاں بیگم بہت مال دار ہیں۔‘‘
’’پاگل ہیں وہ۔‘‘ عمران نے بے زاری سے کہا۔
رضوان اُسی وقت اپنا دامن سیپیوں اور گھونگوں سے بھر کر اُوپر اس چٹّان پر آ رہا تھا جہاں شازیہ اور عمران بیٹھے ہوئے تھے۔ اُس نے عمران کی بات سُن لی۔ وہ غصّے سے بولا۔ ’’وہ بہت اچھّی ہیں، بہت مال دار ہیں۔ اُنہیں بہت سی کہانیاں آتی ہیں اور اِس پُر اسرار مکان کے بارے میں وہ بہت کُچھ جانتی ہیں جو کسی اور کو نہیں معلوم۔‘‘
’’تو مُجھے بتاؤ۔‘‘ عمران نے کہا۔
’’نہیں، یہ ایک راز ہے۔‘‘ رضوان نے جواب دیا۔
عمران غصّے میں اُس کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔ ’’تمہیں بتانا ہو گا۔‘‘ مگر رضوان اِنکار میں سر ہلاتا ہوا پیچھے ہٹتا رہا۔ اچانک شازیہ چیخی۔ ’’کیا ہو گیا ہے تُم دونوں کو۔ آپس میں کیوں لڑ رہے ہو؟ چلو چلیں۔ چائے کا وقت ہو گیا ہے۔‘‘
مگر گھر میں چائے تیّار نہیں تھی۔ وہ ابھی گھر سے دُور ہی تھے کہ اُنہوں کے گھر کے دروازے پر ایک ٹیکسی رُکتی دیکھی۔ اُس میں وہ خرگوش کی شکل والا آدمی بیٹھ رہا تھا۔ خالہ صفیہ سیڑھیوں پر کھڑی ہوئی اُسے جاتا دیکھ رہی تھیں۔ شازیہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر خالہ سے پوچھا۔ ’’کیا یہ جا رہے ہیں؟‘‘
خالہ صفیہ نے اُس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ وہ مُڑیں اور اندر چلی گئیں۔ جب وہ لوگ اُن کے پیچھے باورچی خانے میں داخل ہوئے تو وہ بولیں۔ ’’ہاں، وہ چلے گئے ہیں۔ شازیہ! چلو ذرا میز پر چائے تو لگاؤ۔‘‘ خالہ صفیہ کے چہرے پر اِتنی پریشانی اور دُکھ تھا کہ کوئی اُن سے کُچھ نہ بولا۔ چائے تیّار ہونے کے بعد وہ سب میز کے چاروں طرف بیٹھ گئے، مگر کسی کا بھی چائے پینے کو دِل نہیں چاہ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد شازیہ بولی۔ ’’خالہ… کیا یہ صاحب میرے بولنے… کی وجہ سے چلے گئے؟‘‘
’’نہیں، یہ بات نہیں۔‘‘ خالہ صفیہ نے کہا۔ ’’وہ اِس لیے چلے گئے کہ اُن کا کمرا بہت ٹھنڈا تھا۔‘‘ شازیہ کو تھوڑا سا اطمینان ہوا کہ اُس کا کوئی قصور نہ تھا مگر خالہ نے جس سخت لہجے میں جواب دیا تھا اُس نے شازیہ کو پریشان کر دیا تھا۔ عمران اور رضوان خاموشی سے بیٹھے تھے۔
اُن کو دیکھ کر خالہ صفیہ کو دُکھ ہوا۔ اُن کو وہ پریشان بھلا کس طرح دیکھ سکتی تھیں۔ اُن کو تو اِس بات کا احساس تک نہ تھا کہ اُنہوں نے بچّوں سے تیز لہجے میں بات کی ہے۔ وہ پہلے ہی پریشان تھیں، اپنی زندگی سے عاجز آ چُکی تھیں کہ اِن تین بچّوں کی ذمّہ داری کا بوجھ بھی اُن کے کندھوں پر اور آن پڑا تھا۔ اِس وجہ سے اُن کے مزاج اور آواز میں تبدیلی آ گئی تھی۔ مگر وہ اس سے بے خبر تھیں۔ وہ در حقیقت بڑی نرم دل اور خُوش مزاج تھیں۔ اُنہیں بچّے بھی بہت اچھّے لگتے تھے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ اُن سے محبّت کس طرح شروع کی جائے۔ شازیہ سوچ رہی تھی کہ خالہ صفیہ کے ساتھ گزارا کرنا آسان نہیں ہے۔
چائے کے بعد خالہ صفیہ نُور جہاں بیگم کے لیے مچھلی خریدنے مارکیٹ چلی گئیں۔ اُن کے جانے کے بعد رضوان نے اچانک کہا۔ ’’میں نے پیسہ کمانے کا ایک طریقہ سوچا ہے۔ ہم گھونگے اور سیپیاں جمع کریں گے۔ میں نے ساحل پر کئی لوگ دیکھے جو سیپیاں اور گھونگے جمع کر رہے تھے۔ وہ لوگ اُن کو مچھلی مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں۔ ہمیں یہی کام کرنا چاہیے تا کہ خالہ صفیہ ہمارے لیے کھانے پینے کی چیزیں آسانی سے خرید سکیں۔‘‘
’’ہاں، کام تو اچھّا ہے۔ اگر اِس کے لیے کوئی جال مل جائے تو ہمارا کام آسان ہو جائے گا۔‘‘ عمران نے کہا۔
رضوان نے کہا۔ ’’میں نے تہہ خانے میں کئی جال پڑے ہوئے دیکھے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ سیدھا باورچی خانے کی طرف بھاگا اور اندر جا کر غائب ہو گیا۔ عمران اور شازیہ اُس کے پیچھے تھے۔ وہ اِس سے پہلے کبھی بھی تہہ خانے میں نہیں گئے تھے، اِس لیے اُنہوں نے احتیاطاً تہہ خانے میں داخل ہونے سے پہلے رُک کر اندر کی طرف جھانکا۔ نیچے اندھیرا تھا۔ نیچے سے رضوان کی آواز آئی: ’’بتّی کھول دو۔ سوئچ دروازے کے ساتھ ہی لگا ہوا ہے۔‘‘
عمران نے سوئچ دبا دیا اور نیچے روشنی ہو گئی۔ تہہ خانہ چھوٹا سا اور بل کھایا ہوا تھا۔ اُس میں سے پرانی لکڑی اور مٹّی کی بُو آ رہی تھی۔ ایک کونے میں کوئلے کا ڈھیر پڑا ہوا تھا اور دوسرے میں لکڑیوں کا۔ دیوار کے ساتھ ایک بنچ رکھی ہوئی تھی۔ اُس پر ایک آری اور کُچھ کیلیں پڑی ہوئی تھیں۔ بنچ کے نیچے عمران کو جال کا ڈھیر پڑا نظر آیا۔ اُس نے شازیہ کے ساتھ مِل کر بڑی مُشکل سے جال کو باہر نکالا۔ اِس دوران رضوان تہہ خانے میں گھومتا رہا۔ اینٹوں کی دیوار کے ایک سِرے پر دو تراشے ہوئے لکڑی کے چھوٹے چھوٹے دروازے تھے۔ یہ اِتنے چھوٹے تھے کہ اُن میں سے صرف بونے یا چھوٹے چھوٹے بچّے ہی گُزر سکتے تھے۔ رضوان نے ایک دروازہ کھولا۔ وہاں فرش میں سوراخ تھے اور چھت لکڑی کی تھی۔ یہ ایک چھوٹی سی کمرے نما گیلری تھی۔ اِس کے آگے ایک اور دروازہ تھا۔
رضوان نے اُس دروازے کو کھولنے کی کوشش کی تو وہ نہ کھُلا۔ اس میں تالا لگا ہوا تھا۔ اُس نے آواز دے کر شازیہ اور عمران کو بُلایا۔ ’’یہاں آ کر میری مدد کرو۔ اِس دروازے میں تالا ہے۔‘‘
شازیہ نے عمران سے کہا۔ ’’میں نے دیوار پر ایک کیل کے اُوپر پُرانی اور زنگ آلود چابیوں کا ایک گُچھّا لٹکا ہوا دیکھا ہے۔ شاید اُس میں کوئی چابی اِس تالے کی ہو۔‘‘ اُس نے وہ گُچھّا اُتارا اور چھوٹے دروازے کی طرف بڑھا۔ عمران نے بہت سی چابیاں آزمائیں۔ آخر ایک چابی تالے میں لگ گئی۔ تالا اور چابی چوں کہ زنگ آلود تھے اِس لیے کافی کوشش کرنے کے باوجود تالا نہ کھُل سکا۔ عمران نے اپنی پوری طاقت لگا دی مگر کُچھ نہ ہوا۔ جب اُس نے زیادہ زور لگایا تو تالا تو نہ کھُلا البتّہ دروازہ ایک چرچراہٹ کے ساتھ جھُولتا ہوا پیچھے جا گِرا۔
اِس دروازے کے پیچھے ایک چھوٹا سا کمرا تھا۔ یہ بھی پہلے جیسا تھا، مگر اِس میں تہہ خانے سے زیادہ سردی تھی۔ پھر اُنہیں دیوار میں اُوپر کی طرف ایک چھوٹا سا چوکور اور تاریک سوراخ نظر آیا۔ اُس میں سے ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا اندر آ رہی تھی۔
شازیہ نے سرگوشی کی۔ ’’یہ کیا ہے؟‘‘
کسی نے بھی جواب نہ دیا۔ پھر رضوان نے بڑے تجسّس بھرے اور جوشیلے انداز میں کہا۔ ’’یہی وہ خُفیہ راستہ ہے۔‘‘ اُس کی آنکھوں میں بڑی چمک تھی جیسے اُس نے کوئی راز حل کر لیا ہے۔ پھر اُس نے بتایا کہ ’’اِس جگہ کے بارے میں نُور جہاں بیگم مُجھے پہلے ہی بتا چُکی تھیں مگر اُنہوں نے مُجھے منع کیا تھا کہ کسی کو نہ بتاؤں۔ لیکن اب چوں کہ اِس جگہ کا پتا تُم لوگوں نے خود لگایا ہے اس لیے اب ٹھیک ہے۔‘‘
شازیہ نے سر سہلاتے ہوئے کہا۔ ’’وہ تو سب ٹھیک ہے مگر یہ خُفیہ راستہ کہیں تو جاتا ہو گا۔ کیا نُور جہاں بیگم نے اِس بارے میں کُچھ بتایا ہے؟‘‘
رضوان نے اِنکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’اُنہوں نے تو مُجھے صرف یہ بتایا تھا کہ یہ جگہ چھُپنے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ اب آگے کا پتا ہم خود نکالیں گے۔‘‘
شازیہ نے کہا۔ ’’وہاں ایک ٹارچ کیل پر لٹک رہی ہے۔ عمران! تُم جا کر لے آؤ۔‘‘
رضوان نے کہا۔ ’’چھوڑو اُسے۔ آؤ آگے بڑھ کر اِس تاریک سوراخ کے دوسری طرف دیکھیں۔ ڈرنے کی کیا بات ہے۔‘‘
عمران نے کہا۔ ’’ٹھہر جاؤ رضوان! اندر کوئی خطرہ نہ ہو۔ میں بڑا ہوں۔ آگے میں جاؤں گا۔‘‘
اِس دوران شازیہ بھاگ کر ٹارچ لے آئی تھی۔ عمران نے ٹارچ ہاتھ میں لی اور آگے بڑھا۔ وہ سوراخ آگے جا کر سُرنگ کی طرح ہو گیا تھا۔ یہ سُرنگ صرف اتنی چوڑی اور اُونچی تھی کہ عمران گھُٹنوں کے بل اُس میں چل رہا تھا۔ دو گز آگے بڑھ کر جگہ تھوڑی سی بڑی ہو گئی۔ اب عمران ذرا آسانی سے چل رہا تھا۔ اُس نے ٹارچ گھُما کر چاروں طرف کا جائزہ لیا۔ دونوں طرف دیوار تھی اور سر کے اوپر کھڑیوں کی چھت۔ شازیہ نے اُس کے پیچھے رینگتے ہوئے کہا۔ ’’ہم مکان کے بالکل نیچے ہیں۔ میرا تو سارا لباس جگہ جگہ سے پھٹ گیا ہے۔ یہ عمارت کی بنیادیں ہیں۔‘‘
اچانک رضوان زور سے بولا۔ ’’دیکھو! ذرا مُجھے ٹارچ دو۔‘‘ فرش سے تھوڑا اوپر دیوار میں ایک اور سوراخ دِکھائی دے رہا تھا۔
رضوان نے ٹارچ عمران کو تھمائی اور رینگ کر اُس سوراخ کے اندر داخل ہو گیا۔ اُس کی گونج دار آواز آئی: ’’اندر آ جاؤ۔ یہ راستہ کافی لمبا ہے۔ سیدھے چلے آؤ۔‘‘
یہ سُرنگ پہلے والی سُرنگ سے بھی چھوٹی تھی۔ عمران اور شازیہ کے لیے اِس میں چلنا بہت مُشکل ہو رہا تھا۔ وہ اپنی کہنیوں اور پیٹ کے بل رینگ رہے تھے۔ رضوان کو زیادہ پریشانی نہیں ہو رہی تھی۔ ایک تو وہ چھوٹا تھا اور دوسرے اُس کے پاس ٹارچ تھی۔ وہ ان دونوں سے کافی آگے بڑھ گیا تھا۔ اُنہیں ٹارچ کے بغیر پریشانی ہو رہی تھی۔ اندھیرے میں ایک جگہ تو اُنہیں ایسا لگا کہ آگے دیوار آ گئی ہے۔ راستہ بند ہے۔ اُنہوں نے گھبرا کر رضوان کو پُکارا۔ جواب میں رضوان کی باز گشت کرتی ہوئی آواز آئی، ’’سیدھے چلے آؤ۔‘‘
اچانک وہ سُرنگ ختم ہو گئی۔ رضوان ٹارچ گھُما کر ہر طرف دیکھ رہا تھا۔ شازیہ اور عمران بھی اُس کے پاس پہنچ گئے۔ عمران نے رضوان سے ٹارچ لے کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ یہ کافی بڑا کمرا تھا، بالکل خُشک۔ اِس میں اینٹوں کا فرش تھا۔ اِس کمرے کا دروازہ دوسرے کمرے میں کھُل رہا تھا۔ اُس کمرے کی دیواروں میں بھی سوراخ بنے ہوئے تھے۔ دور آخری کنارے پر لکڑی کی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں جو اُوپر جا رہی تھیں۔ یہ سیڑھیاں ایک بند دروازے پر ختم ہو رہی تھیں۔ عمران نے ٹارچ کی روشنی اِن سیڑھیوں پر ڈالی اور بولا۔ ’’شازیہ! شازیہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ ہم کہاں ہیں؟ ہم برابر والے اُسی پُر اسرار مکان کے تہہ خانے میں ہیں۔‘‘ وہ دوڑ کر سیڑھیوں پر چڑھا اور دروازے کا ہینڈل گھمانے لگا مگر وہ نہ کھُلا۔ اِس وقت وہ بڑے جوش میں تھا اور اِسی جوش نے اُس کے دِل سے ہر طرح کا ڈر اور خوف ختم کر دیا تھا۔
پُراسرار مکان
’’شاید اس چابیوں کے گُچھے میں سے کوئی چابی اِس دروازے میں لگ جائے۔‘‘ یہ عمران نے تجویز پیش کی۔
وہ تینوں اب سُرنگ کے ذریعہ سے واپس آ رہے تھے۔ عمران پُر اسرار مکان میں جانے کے لیے بے چین تھا۔ وہ اس مکان کے تہہ خانے تک تو ہو آیا تھا۔ اب اسے صرف ایک چابی کی تلاش تھی اور جیسے ہی وہ چابی اُس کے ہاتھ میں آتی وہ پُر اسرار مکان میں داخل ہو جاتا۔ شازیہ نے چابیوں کا وہ گُچھّا اپنے مکان کے تہہ خانے میں بنچ پر رکھ دیا تھا مگر جب وہ وہاں پہنچی تو گُچھّا غائب تھا۔
اُس نے بڑی حیرت سے کہا۔ ’’مُجھے اچھّی طرح یاد ہے۔ چابیاں میں نے یہیں رکھی تھیں۔‘‘
عمران نے اُس کے پیچھے سے سرگوشی کی:’’آہستہ بولو! بالکل آہستہ۔‘‘
اُس کی آنکھیں تہہ خانے کے دروازے پر جمی ہوئی تھیں۔ اُن آنکھوں میں پُر اسرار سی چمک پیدا ہو گئی تھی۔ اُسے کسی خطرے کا احساس ہو گیا تھا۔ باورچی خانے میں سے جانی پہچانی سی آواز آ رہی تھی۔ خالہ صفیہ بوائلر کو کھول رہی تھیں۔ شازیہ نے کہا۔ ’’ضرور خالہ نے ہی چابیاں یہاں سے اُٹھائی ہیں۔ ارے ہاں! وہ دیکھو! وہ دیوار پر ٹنگا ہوا ہے۔‘‘
شازیہ اور عمران ایک دوسرے کو خوف زدہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ اُن دونوں کی حالت بہت خراب ہو رہی تھی۔ اُن کے کپڑے، بال، آنکھیں اور بھنویں سب مٹّی میں اَٹ گئے تھے۔
رضوان نے کہا۔ ’’ہمیں اِس حالت میں دیکھ کر وہ ڈر نہ جائیں۔‘‘
عمران نے کہا۔ ’’ہماری اِس حالت سے وہ خفیہ راستے کے بارے میں جان جائیں گی۔‘‘
عمران کا دِل یہ سوچ کر بُری طرح دھڑکنے لگا کہ اگر خالہ صفیہ سمجھ گئیں کہ ہم خُفیہ راستے تک گئے ہیں تو وہ آئندہ کبھی بھی ہمیں اِدھر کا رُخ نہیں کرنے دیں گی۔ اور پھر ہم کبھی بھی پُر اسرار مکان کو نہیں دیکھ سکیں گے۔ مگر میں پُر اسرار مکان میں ضرور جاؤں گا۔ ضرور ضرور۔ اُس نے شازیہ کو دیکھا۔ وہ بولی۔ ’’اگر خالہ کوئلا لینے نیچے آ گئیں تو کیا ہو گا؟‘‘ پھر وہ گہرا سانس لے کر بولی۔ ’’عمران! تُم اور رضوان کُچھ نہ بولنا۔ جو کُچھ کہنا ہے میں ہی کہوں گی۔ تُم لوگ بس خاموش رہنا۔‘‘
شازیہ جب تہہ خانے سے باہر کی طرف چلی تو اُس کی گردن تنی ہوئی تھی اور کمر بالکل سیدھی تھی۔ رضوان اور عمران بالکل اُس کے غُلاموں کی طرح سر جھُکائے خاموشی سے اُس کے پیچھے چلے جا رہے تھے۔ عمران کو کُچھ ڈر محسوس ہو رہا تھا مگر رضوان بڑی بہادری سے سینہ تانے چل رہا تھا۔ خالہ صفیہ کی نظر جیسے ہی اُن پر پڑی اُن کا مُنہ حیرت سے کھُل گیا۔
شازیہ جلدی سے بولی۔ ’’خالہ! ہم لوگ تہہ خانے میں آنکھ مچولی کھیل رہے تھے اسی لیے ہمارے کپڑے اِتنے گندے ہو گئے۔ ہم ذرا آ گے چلے گئے تھے۔‘‘
خالہ نے کہا۔ ’’اچھّا! تو وہ تُم لوگ تھے جنہوں نے وہاں سے چابیاں لی تھیں۔‘‘
عمران جلدی سے بول پڑا۔ ’’خالہ! ہم نے وہ چابیاں آپ سے بغیر پوچھے لی تھیں۔ آپ ہم سے ناراض تو نہیں ہیں؟‘‘
’’پُرانی چابیوں کا گُچھّا میرے کسی کام کا نہیں ہے۔ بس برسوں سے وہاں ٹنگا ہوا ہے۔ اُن میں زیادہ تر چابیاں پچھلے والے مکان کی ہیں۔ یہ اب کسی تالے میں نہیں لگتیں۔‘‘
عمران نے اطمینان کا سانس لیا۔ اُس کے چہرے پر ہلکی سی مُسکراہٹ نمودار ہو گئی تھی۔ اب یہ بہت زیادہ مُمکن تھا کہ اُن میں سے کوئی چابی تہہ خانے کے خُفیہ راستے والے دروازے میں لگ جائے۔ اس بات سے وہ اتنا خوش ہوا کہ جوش میں اپنے آپ ہنس پڑا۔ خالہ صفیہ نے اُس کو غور سے دیکھا۔ پھر شازیہ اور رضوان پر نظر ڈال کر بولیں۔ ’’ایسا لگ رہا ہے جیسے تُم لوگ چمنیوں میں گھُسے ہوئے تھے۔ وہ تو اچھّا ہوا کہ تُم نے پُرانے کپڑے پہن رکھے تھے۔‘‘ اُن کا لہجہ اُس وقت سخت نہیں تھا۔ اچانک شازیہ کی نگاہ نیلے رنگ کے ایک خوب صورت سے لفافے پر پڑی۔ وہ خوشی سے چیخ پڑی۔ ’’کیا یہ ڈیڈی کے پاس سے آیا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ خالہ صفیہ نے کہا۔ ’’یہ خط مسز ایپسم نے لکھا ہے۔ تمہارے ڈیڈی آج کل چھُٹّی پر ہیں۔ میں سوچ رہی تھی کہ شاید تمہارے ڈیڈی نے تمہیں خط لکھا ہو گا۔‘‘
’’اُن کے پاس اتنا وقت کہاں ہو گا؟‘‘ رضوان نے ہنستے ہوئے کہا۔
پھر خالہ صفیہ تیزی سے بولیں۔ ’’اچھّا چلو، جلدی سے نہا کر آؤ۔ اچھّی طرح سے۔ خوب صابن مَلنا۔‘‘ جب وہ سب چلے گئے تو خالہ صفیہ نے وہ خط نکال کر پڑھنا شروع کیا۔ جب شیرازی صاحب رات کے کھانے کے لیے اندر داخل ہوئے اُس وقت تک وہ خط ہاتھ میں لیے بیٹھی ہوئی سامنے دیوار کو تک رہی تھیں۔
’’کیا چکّر ہے بھئی؟‘‘ شیرازی صاحب نے کہا۔
شیرازی صاحب نے صفیہ بیگم کو پہلی بار اتنا سنجیدہ اور پریشان دیکھا تھا۔ خالہ صفیہ نے خاموشی سے خط شیرازی صاحب کی طرف بڑھا دیا۔ شیرازی صاحب نے خط پڑھا اور پھر خالہ صفیہ کو واپس دے دیا۔ ’’غریب بچّے! کیا اُنہیں اپنے ڈیڈی بہت یاد آتے ہیں؟‘‘
خالہ نے جواب دیا۔ ’’شاید وہ کبھی اُن کے بارے میں بات نہیں کرتے، مگر شازیہ ہر صُبح لیٹر بکس ضرور دیکھتی ہے۔ وہ روز صُبح دوڑتی ہوئی جاتی ہے اور مایوسی سے واپس آ جاتی ہے۔ نعمان صاحب نے اُنہیں آج تک کوئی خط نہیں لکھا، ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے بچّوں کو بھُول چُکے ہیں۔ اب دیکھیے خط میں مسٹر ایپسم نے لکھا ہے کہ اُنہیں اپنا کوئی ہوش ہی نہیں ہے۔ وہ تو بس ہر وقت اپنے تجربات میں گُم رہتے ہیں۔‘‘
’’مُجھے اُمّید ہے ایک نہ ایک دِن اُنہیں بچّوں کی یاد ستائے گی۔ اور وہ اِدھر دوڑے چلے آئیں گے۔‘‘ شیرازی صاحب نے کہا۔
خالہ صفیہ نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔ ’’کاش ایسا ہو۔ یہ میری بہن کے بچّے ہیں۔ میں اُن کی ہر طرح دیکھ بھال کروں گی مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ مُجھ سے بہت سی اُمّیدیں لگا بیٹھے ہیں جو میرے لیے پوری کرنا مشکل ہے۔ اب دیکھیے نا وہ چاہتے ہیں کہ ہر شخص ان سے ہر وقت پیار کرتا رہے۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ میں اُن کے لیے ہر روز کھانے پینے کا انتظام کر سکتی ہوں مگر اُن کے لیے زیادہ قیمتی کپڑے بنانا یا کھلونے خریدنا میرے بس کی بات نہیں۔‘‘
شیرازی صاحب اُن کو دیکھتے رہے اور پھر بولے۔ ’’آپ اُن کے سر پر ایک سایہ ہیں اور یہی سب سے اہم بات ہے۔ آخر آپ نے مُجھ کو بھی تو ایک ٹھکانا دے دیا ہے۔ ٹھیک ہے، میں آپ کا پیئنگ گیسٹ ہوں، مگر یاد ہے میں نے آخری بار آپ کو کرایہ کب دیا تھا؟‘‘
’’اوہ! آپ یہ کیسی بے تُکی باتیں کرنے لگے۔‘‘ خالہ صفیہ کہہ کر کھڑی ہو گئیں اور شیرازی صاحب کے لیے کھانا نکالنے لگیں۔
’’میں بے تُکی باتیں نہیں کر رہا ہوں۔ میں آپ کا قرض دار ہوں۔ مُجھے آپ کی رقم ادا کرنی چاہیے تا کہ آپ بچّوں کے لیے کُچھ بندوبست کر سکیں۔‘‘ خالہ نے اُن کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ شیرازی نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور بولے۔ ’’میں بہت جلد آپ کی رقم ادا کر دوں گا۔ کل میں ایک شخص سے مل رہا ہوں جو لندن میں ایک آرٹ گیلری کا مالک ہے۔ وہ میری بنائی ہوئی چیزیں دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘
’’تو پھر کل آپ صُبح اُٹھ کر اچھّی طرح نہائیں، صاف کپڑے پہنیں اور اپنے ناخن ضرور کاٹیں۔‘‘ خالہ صفیہ کا لہجہ ایک دم ایسا ہو گیا تھا جیسے وہ کسی بچّے کو ہدایت دے رہی ہوں۔ مگر شیرازی صاحب نے اس کا بُرا نہیں منایا کیوں کہ وہ اِس کے عادی تھے۔
عمران نے اپنی پتلون کی بیلٹ میں چابیوں کا گُچھّا لگا رکھا تھا۔ وہ سب پرانے میلے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ یہ کپڑے اُنہوں نے کل سے پہن رکھے تھے مگر خالہ کہیں بھی نہیں گئیں اور اُنہیں خُفیہ راستے تک جانے کا موقع نہ مل سکا۔ عام طور سے خالہ ناشتے کے بعد خریداری کے لیے بازار جاتی تھیں، مگر آج تو وہ باورچی خانے کی صفائی میں لگی ہوئی تھیں۔ الماریوں میں صاف کاغذ بِچھا رہی تھیں۔ عمران اور شازیہ بھی اُن کے ساتھ لگے ہوئے تھے مگر وہ بہت آہستہ آہستہ کام کر رہی تھیں۔ ایک ایک برتن چمکا رہی تھیں۔ شازیہ نے کہا۔ ’’خالہ! آپ تھوڑی دیر کے لیے تازہ ہوا میں ہو آئیے۔‘‘
خالہ صفیہ نے اُس کو نظر بھر کر دیکھا اور بولیں۔ ’’تمہیں میری صحت میں کب سے دِل چسپی ہو گئی؟‘‘
عمران نے کہا۔ ’’در اصل آپ کُچھ کم زور سی لگ رہی ہیں۔‘‘
خالہ نے ایک پھیکی سی مُسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔ ’’جب فُرصت ہو گی باہر ہو آؤں گی۔ فی الحال تو مُجھے بہت سے کام کرنے ہیں۔ کل لائف بوٹ ڈے منایا جا رہا ہے اور مُجھے جھنڈیاں بیچنی ہیں۔‘‘
لائف بوٹ ڈے انگلینڈ میں اُن لوگوں کے لیے منایا جاتا ہے جو بحری جہازوں پر ملک کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ خالہ صفیہ بھی جھنڈیاں بیچ کر چندہ جمع کرتی تھیں اور بحری حادثوں کی انجمن کو بھیج دیتی تھیں۔ یہ دِن ہر سال زور شور سے منایا جاتا ہے اور لوگ اِس میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں۔
عمران جلدی سے بولا۔ ’’خالہ! کیا آپ سارا دِن باہر رہیں گی؟‘‘ اس کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔ شازیہ بھی اُس کو دیکھ رہی تھی۔ ’’ہاں تقریباً۔‘‘ خالہ نے مختصر جواب دیا۔ ’’مگر تُم میری مدد…‘‘
’’خالہ…‘‘ شازیہ اور عمران نے مری ہوئی آواز میں کہا کہ خالہ صفیہ چونک کر اُنہیں دیکھنے لگیں۔ خالہ تو ہمیشہ یہ سوچتی رہتی تھیں کہ عمران اور شازیہ اُس کی مدد کریں گے مگر اِس وقت اُن کے چہرے دیکھ کر وہ اُلجھن میں پڑ گئیں۔
’’خیر، اِس بارے میں کل بات کریں گے۔ تم لوگ بے فکر رہو۔ میں تُم سے تمہاری مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کراؤں گی۔‘‘
’’خالہ… یہ بات نہیں ہے۔ در اصل…‘‘ شازیہ جلدی سے بولی۔ مگر خالہ صفیہ نے اُس کی بات کاٹ کر کہا۔ ’’جو بھی بات ہو۔ اِس وقت تُم لوگ جا کر کھیلو کُودو۔ میں بہت مصروف ہوں۔ رضوان کو بھی اپنے ساتھ لے جانا۔ کہاں ہے وہ؟‘‘
عمران نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا۔ ’’وہ؟ وہ تو نُور جہاں بیگم کے پاس ہے۔‘‘
پچھلے ایک گھنٹے سے رضوان، نُور جہاں بیگم کے پاس تھا۔ وہ اُس سے خالہ صفیہ کے بارے میں باتیں کر رہی تھیں۔ ’’کاش آپ اپنی خالہ صفیہ کو اُس وقت دیکھتے جب وہ جوان تھیں۔ وہ اِس علاقے کی سب خوب صورت لڑکی تھیں۔ لمبا قد، کھِلتی ہوئی رنگت، سُرخ سفید چہرہ، لمبے لمبے سیاہ بال۔ ہم اکثر یہاں اِسی کمرے میں بیٹھے رہتے تھے۔ ہماری طبیعت خراب تھی اور صفیہ اگلے مکان کے باغ میں گُنگُناتی پھِرتی تھیں۔ وہ اپنی چھوٹی بہن یعنی آپ کی والدہ کو گانے سُنا سُنا کر بہلاتی رہتی تھیں۔ ہم نے آج تک دو سگی بہنوں کو اتنی محبّت کرتے نہیں دیکھا ،رضوان صاحب! صفیہ کی شادی پر ہمیں بھی دعوت دی گئی تھی مگر ہم اپنی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے نہ جا سکے۔ ویسے بھی ہم ابّا حضور کا خزانہ چھوڑ کر باہر نہیں نکلتے تھے۔ ہم نے اُن سے وعدہ کیا تھا کہ ہم اُن کے خزانے کی ہمیشہ حفاظت کریں گے۔‘‘
پھر نُور جہاں بیگم نے رضوان سے کہا کہ وہ کیتلی میں پانی بھرے اور چولھے پر رکھ دے۔ گرم پانی کی کیتلی اُنہوں نے اپنی گود میں رکھ لی، کرسی سے کمر ٹِکائی، شال اچھّی طرح جسم سے لپیٹی اور پھر بولنا شروع کیا۔
’’ایک سال تک آپ کی خالہ اور خالو بہت خوش و خُرّم زندگی بسر کرتے رہے مگر اچانک ہی اُن کی خوشیوں کو کِسی کی نظر لگ گئی۔‘‘ ان کی آواز لرزنے لگی۔ پھر وہ سرد آہ بھر کر بولیں۔ ’’وہ سمندر کا شدید طوفان ہمیں آج بھی یاد ہے۔ طوفانی موجوں پر جہاز تنکے کی طرح ڈول رہا تھا۔ لہریں بِپھر بِپھر کر اُس کو سمندر میں غرق کر دینے پر تُلی ہوئی تھیں۔ غریب ملّاح اپنی جانیں بچانے کی فکر میں تھے۔ طوفان کوئی ایک گھنٹہ رہا۔ ایک گھنٹے بعد سب کُچھ ختم ہو چکا تھا۔ اُنہوں نے ڈوبنے سے پہلے کئی پیغام بھیجے مگر آس پاس کوئی جہاز نہ تھا جو اُن کی مدد کو آتا۔ جب یہ بحری جہاز ٹوٹ کر سمندر میں غرق ہوا تو اُس کا بہادر کپتان عرشے پر کھڑا ہوا سلامی دے رہا تھا۔ جہاز کے عملے کے کُچھ لوگوں نے لائف بوٹس حاصل کر لی تھیں مگر اُن کا بھی کوئی پتا نہ چلا۔ کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا۔ اُس وقت آپ کی خالہ صفیہ کی شادی کو صرف ایک سال گزرا تھا۔‘‘ نُور جہاں بیگم نے اپنی شال کے کونے سے آنسو پونچھے اور کہنا شروع کیا: ’’صرف ایک مہینے میں دو حادثے ہوئے۔ صفیہ کے شوہر نجم خان ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے اور ان کی ننّھی مُنّی بچّی کھو گئی تھی۔ اُس وقت تک آپ کی والدہ صفیہ بیگم کے ساتھ تھیں، مگر اُس کے بعد وہ بھی شادی ہو کر نیروبی چلی گئیں۔‘‘
رضوان جلدی سے بولا۔ ’’خالہ صفیہ کی بچّی؟ کھو گئی؟ کیا مطلب؟ کیا خالہ صفیہ کی کوئی بچّی بھی تھی۔‘‘
’’جی ہاں، اُن کی بڑی پیاری سی بچّی تھی۔ بالکل گڑیا جیسی۔ آپ کی والدہ اور آپ کی خالہ دونوں برابر والے مکان میں رہتی تھیں۔ آپ کے نانا اور نانی کا کافی عرصے پہلے اِنتقال ہو گیا تھا۔ ایک دِن آپ کی خالہ کُچھ خریداری کرنے بازار جانے کو تیّار ہوئیں۔ اُنہوں نے بچّہ گاڑی میں اپنی بچّی کو بِٹھایا اور گھر کے اندر کُچھ لینے چلی گئیں۔ مگر جب واپس آئیں تو بچّی گاڑی میں نہیں تھی۔‘‘
’’کیا اُس بچّی کو دُشمن لے گئے تھے؟‘‘
نُور جہاں بیگم کی آنکھوں میں ایک چمک سی پیدا ہوئی۔ ’’بالکل ٹھیک سمجھے آپ رضوان صاحب! اس بچّی کو دُشمن ہی لے گئے تھے مگر آپ اِس بات کا ذکر اپنی خالہ سے ہر گز نہ کریں، ورنہ وہ ہم سے ناراض ہو جائیں گی۔‘‘
’’آپ بے فکر رہیے۔ میں کِسی کو کُچھ نہیں بتاؤں گا۔‘‘ رضوان نے کہا۔
ابھی وہ نُور جہاں بیگم سے آگے کی کہانی سُنانے کو کہنے ہی والا تھا کہ دروازہ کھلا۔ یہ عمران تھا۔ اُس نے آہستہ سے رضوان کو پُکار کر کہا۔ ’’جلدی کرو۔ وہ باہر جا چکی ہیں۔‘‘ رضوان ایک دم کھڑا ہو گیا اور نُور جہاں بیگم سے اجازت لے کر باہر آ گیا۔
اِس بار وہ خُفیہ راستہ زیادہ تاریک نہ لگا اور نہ زیادہ لمبا محسوس ہوا۔ اُن کے پاس بڑی ٹارچ کے علاوہ ایک چھوٹی بیٹری بھی تھی۔ سیڑھیوں پر چڑھ کر اُنہوں نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔ شازیہ برابر عمران کی مدد کر رہی تھی۔ یہ اتنا آسان کام نہیں تھا جتنا اُنہوں نے سمجھ لیا تھا۔ چابیوں کے گُچھے میں سے کوئی بھی چابی دروازے میں نہیں لگ رہی تھی۔ عمران ایک ایک کر کے چابیاں آزماتا جا رہا تھا۔ اُس کے چہرے پر مایوسی پھیلنی شروع ہو گئی تھی۔
رضوان نے کہا۔ ’’تہہ خانے میں آری تو ہے ہی۔ کیوں نہ ہم دروازے کو کاٹ ڈالیں؟‘‘
شازیہ نے اُسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ’’بے وقوفی کی باتیں نہ کرو۔ تمہیں کسی کے مکان کو نقصان پہنچانے کا کوئی حق نہیں۔‘‘
عمران نے کہا۔ ’’یہ تو کھُل ہی نہیں رہا ہے۔‘‘ اُس نے غصّے میں چابیوں کا گُچھّا دُور پھینک دیا۔ وہ بہت پریشان اور اُداس ہو گیا تھا۔
شازیہ عمران کے پاس جا کر بولی۔ ’’ایک تو تُم بہت جلدی مایوس ہو جاتے ہو اور پھر تُم کو بہت غصّہ آتا ہے۔ اگر ہم اس مکان میں داخل نہ ہو سکے تو کیا ہوا۔‘‘
اچانک رضوان بول اُٹھا: ’’مگر یہ دروازہ تو کھُلا ہے۔ اِس میں تالا نہیں لگا ہوا۔‘‘
دونوں نے اُوپر دیکھا۔ اُوپر دروازے میں ہلکی سی جھری تھی جس کو رضوان اپنی اُنگلیوں کی مدد سے آہستہ آہستہ بڑا کر رہا تھا۔ عمران حیرت سے بولا۔ ’’مگر اِس میں تو تالا لگا ہوا تھا۔ مُجھے یقین ہے۔‘‘
رضوان نے اطمینان سے کہا۔ ’’ہو گا۔ مگر اب نہیں ہے۔ اب اِدھر آؤ۔ تمہاری خواہش پوری ہونے کا وقت آ گیا ہے۔‘‘
عمران دو چھلانگوں میں اوپر پہنچ گیا۔ وہ دروازہ کھول کر باہر جانے ہی والا تھا کہ رضوان نے ’’ہاؤ!‘‘ کر کے عمران کو ڈرا دیا۔ عمران نے اس کی طرف گھوم کر اس سے کہا۔ ’’گڑبڑ نہ کرو۔‘‘ وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھے، تہہ خانے سے وہ باورچی خانے میں آئے جو برف کی طرح ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ وہ سرگوشیوں میں باتیں کرتے آگے چلتے گئے۔
یہ بڑا شان دار گھر تھا۔ قبرستان جیسا خاموش۔ اُس میں اندھیرا بھی تھا۔ کیوں کہ تمام کمروں کی کھڑکیوں کے پردے گِرے ہوئے تھے۔ پھر بھی اِتنی روشنی تھی کہ وہ آسانی سے دیکھ سکتے تھے۔ کمرا خوب صورت چیزوں سے بھرا ہوا تھا۔ فرش پر موٹا اور نرم قالین بِچھا ہوا تھا جس میں اُن کے پیر دھنسے جا رہے تھے۔ لمبے چوڑے ہال میں بھی قالین تھا۔ خوب صورت سنہری الماریاں، نازک چینی پرندوں، جانوروں اور دوسرے چھوٹے چھوٹے انسانی مجسّموں سے بھری ہوئی تھیں۔ شیلف میں کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ اس بڑے ڈرائنگ روم میں ایک بڑا سنگِ مرمر کا مجسّمہ بھی رکھا ہوا تھا اور تمام دیواروں پر نادر تصویریں فریموں میں لگی ہوئی تھیں۔ ایک تصویر میں ایک لڑکا گہرے رنگ کا مخملی لباس پہنے ہوئے کھڑا تھا۔ اُس کے ہاتھ پر فاختہ بیٹھی ہوئی تھی۔ ایک دوسری تصویر میں سفید گھوڑے پر ایک آدمی چُغّہ پہنے بڑی شان سے بیٹھا تھا۔ عمران کافی دیر تک اُس تصویر کو دیکھتا رہا۔ وہ پہلے اُس منزل کے سب کمروں میں گھومے اور پھر چکّر دار زینے کی طرف بڑھے جو پہلی منزل پر جا رہا تھا۔ تمام کمرے چوڑے تھے۔ اُن میں پُرانے فیشن کی اُونچی اُونچی مسہریاں بھی تھیں جِن کے چاروں طرف پردے لگے ہوئے تھے۔ رضوان نے ایک پردے کو چھوا تو گرد جھڑنے لگی۔
’’شاید یہاں کوئی صدیوں سے نہیں سویا ہے۔‘‘ اُس نے کہا۔
شازیہ نے کہا۔ ’’ہاں، مسٹر رینالڈ جو اِس مکان کے مالک ہیں، یہاں دو برس سے نہیں آئے ہیں۔ ذرا سوچو تو سہی ایک آدمی کے پاس اِتنا شان دار مکان ہو، اِتنی خوب صورت تصویریں اور مجسّمے ہوں اور وہ دو دو سال تک پلٹ کر یہاں کی خبر نہ لے۔‘‘
ایک کمرا بڑا خُوب صُورت تھا۔ اُس میں کھڑکیوں پر نیلے رنگ کے مخملی پردے لٹکے ہوئے تھے۔ ایک طرف سُنہری رنگ کی شیشے کی الماری تھی جس میں نازک اور خُوب صُورت زیورات سجے ہوئے تھے۔ رضوان اُس الماری سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔ ’’اِس میں سب چیزیں ویسی ہیں جیسی نُور جہاں بیگم کے پاس ہیں۔ شازیہ! دیکھو وہ گھوڑا بالکل ویسا ہی ہے جیسا نُور جہاں بیگم نے مُجھے تحفے میں دیا ہے۔ اس گھوڑے کا نام میں نے خان رکھا ہے۔‘‘
’’بُرا تو نہیں مانیں گی نُور جہاں بیگم۔‘‘ شازیہ نے چونک کر پوچھا۔ ’’نہیں، وہ تو اِس بات پر خوش ہوئی تھیں۔‘‘
’’واقعی، یہ گھوڑا تو بالکل ویسا ہی ہے اور اِس کا رنگ بھی اُسی جیسا پیارا ہے مگر اس کے باوجود یہ بالکل ہو بہو اُس جیسا نہیں ہے۔ یہ زیادہ قیمتی ہے جبھی تو تالے میں رکھا ہوا ہے۔‘‘ شازیہ نے کہا۔
رضوان اکڑ کر بولا۔ ’’میرا گھوڑا بھی قیمتی ہے اور اِس سے زیادہ خُوب صُورت ہے۔‘‘ اُس نے اپنی جیب سے خان کو نکالا اور اس پر پیار سے ہاتھ پھیرنے لگا۔
شازیہ نے کہا۔ ’’یہ خُوب صُورت ضرور ہے مگر زیادہ قیمتی نہیں ہے، ورنہ نُور جہاں بیگم تُم کو اتنا قیمتی گھوڑا ہر گز نہ دیتیں۔‘‘
رضوان نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ غصّے سے پیر پٹختا ہوا سیڑھیوں پر چڑھتا چلا گیا۔ اُوپر ایک خوب صورت سنگِ مرمر کا بنا ہوا غُسل خانہ تھا جس میں نہانے کا ٹب بھی تھا۔ یہ ٹب بھی سنگِ مرمر کا تھا۔ یہاں بھی کئی کمرے تھے، مگر یہ سب نیچے والی منزل کے کمروں سے چھوٹے تھے۔ اور اُن کا فرنیچر بھی سادہ تھا۔ اِس منزل کے ایک کونے میں دروازہ تھا۔ عمران نے دروازہ کھولا تو وہاں سے سیڑھیاں اُوپر جاتی دِکھائی دیں۔ یہ سیڑھیاں بَل کھاتی ہوئی اوپر جا رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ کوئی مینار ہو۔ اِن سیڑھیوں پر قالین نہیں تھا اور جگہ جگہ سے پلاسٹر اُکھڑا ہوا تھا اور رنگ بھی اُڑ گیا تھا۔ وہ اِس چکّر دار زینے پر چڑھتے رہے یہاں تک کہ اُن کی ٹانگیں شل ہو گئیں۔ مگر پھر اچانک ایک موڑ اور گھُوم کر سیڑھیاں ختم ہو گئیں اور اُنہوں نے اپنے آپ کو سورج کی تیز اور چمکیلی دھوپ میں پایا۔
عمران خوشی سے چیخا۔ ’’یہ تو مکان کی چھت ہے۔ وہ اِس وقت اُس پُر اسرار اور شان دار مکان کی چھت پر تھے۔ چھت والا کمرا لمبا مُستطیل تھا جس کی چھت دونوں طرف سے ڈھلوان نما تھی، جیسی جھونپڑی کی چھت ہوتی ہے۔ اِس میں کھڑکی بھی تھی جس میں سے سورج کی روشنی اندر کمرے میں آ رہی تھی۔ فرش پر مٹّی جمی ہوئی تھی اور کئی جگہ کھڑکی کے ٹوٹے ہوئے شیشے پڑے ہوئے تھے۔ کمرے کے کونوں میں مکڑیوں کے جالے لگے ہوئے تھے۔ کھڑکی کے بالکل نیچے ایک بہت بڑا صندُوق رکھا ہوا تھا۔ اُس پر بھی مٹّی جمی تھی۔ دیوار کے قریب ہی ایک پُرانا اور چھوٹا سا پلنگ بھی تھا۔ اُس پر پتلا سا گدّا تھا جو آدھا ایک شال سے ڈھکا ہوا تھا۔ شال اُس گدّے پر اِس طرح بچھائی گئی تھی کہ زیادہ سے زیادہ گدّا اُس سے ڈھک جائے۔ شازیہ کی نگاہ کبھی بستر پر جاتی اور کبھی صندُوق پر۔ اُس کی سانس تیز چل رہی تھی۔ وہ بڑے جوش میں تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس نے اچانک جوشیلی آواز میں کہا۔ ’’یہی وہ پلنگ ہے جس کے بارے میں خالہ صفیہ نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ اور امّی اُس پر کھیلا کرتی تھیں۔‘‘
عمران بھی حیرت سے مُنہ کھولے اُس پلنگ کی طرف بڑھا اور آہستہ آہستہ اس پر بِچھی ہوئی چادر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اُس نے خالہ کو یا اپنی امّی کو چھُو لیا ہو۔ اُس کے جسم میں ایک لہر سی دوڑ گئی۔ ماں کا خیال آتے ہی وہ افسردہ ہو گیا تھا۔
’’شاید چودہ سال بعد ہم یہاں آنے والے پہلے لوگ ہیں۔ خالہ صفیہ نے بتایا تھا کہ اُنہوں نے خالو نجم خان کے انتقال کے بعد یہ مکان بیچ دیا تھا۔ یہ چودہ سال پہلے کی بات ہے۔‘‘ عمران نے غم گیں آواز میں کہا۔
شازیہ بولی۔ ’’کیا یہ جگہ مسٹر رینالڈ نے نہیں دیکھی تھی؟ اُنہیں چاہیے تھا کہ اِس جگہ کی مرمّت کرا کے رنگ روغن کروا کے اِس کو بھی اُسی طرح سجاتے سنوارتے جس طرح نیچے کی منزلوں کو سجایا ہے۔‘‘
عمران نے کہا۔ ’’ہو سکتا ہے یہ جگہ اُنہیں پسند نہ آئی ہو۔‘‘ مگر وہ جگہ تھی بڑی خُوب صُورت۔ کھڑکی کافی اُونچی تھی۔ عمران اور شازیہ اُس لکڑی کے صندُوق پر چڑھ گئے جو کھڑکی کے نیچے رکھا ہوا تھا تو اُن کی نظروں کے سامنے سمندر تھا۔ نیلا نیلا اور جھاگ اُڑاتا ہوا۔ عمران اور شازیہ خاموشی سے کھڑے دیکھتے رہے۔ سمندر میں بگلے تھے اور چھوٹے چھوٹے اسٹیمر اُفق کے پار جاتے نظر آ رہے تھے۔
عمران نے کہا۔ ’’بہت خُوب صُورت… بہت ہی خُوب صُورت جگہ ہے۔ مُجھے یقین ہے کہ مسٹر رینالڈ یہاں آتے ہی نہیں ورنہ ایسی حسین جگہ اُن کی نظر سے اوجھل کیسے رہ سکتی ہے۔‘‘
رضوان اچانک بولا۔ ’’مگر اِس جگہ کوئی نہ کوئی حال ہی میں رہا ہے۔‘‘
شازیہ اور عمران چونک کر اُس کو دیکھنے لگے۔ وہ بستر پر بیٹھا ہوا تھا۔ دونوں ہاتھ جیبوں میں تھے اور چہرے پر مُسکراہٹ تھی۔
شازیہ نے کہا۔ ’’رضوان! تُم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
رضوان تھوڑی دیر تک مُسکراتا رہا۔ اُسے اِن دونوں کو ستانے میں بڑا مزا آتا تھا۔ کافی دیر گُزر گئی۔ وہ بیٹھا مُسکراتا رہا اور شازیہ اور عمران اُسے دیکھتے رہے۔ آخر اُس کو اُن پر ترس آ ہی گیا۔ اُس کے بڑی جاسوسی کے انداز میں کہا:
’’خالہ صفیہ کے ڈائننگ روم میں کُچھ پیتل کے شمع دان ہیں۔ وہ ہر وقت اُن کو پالش کر کے چمکاتی رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر میں اُن کے ساتھ اتنی محنت نہ کروں تو اُن کی چمک بالکل ختم ہو جائے۔ اِس پلنگ میں پیتل کی پٹیاں لگی ہوئی ہیں۔ یہ بالکل چمک دار اور نئی لگ رہی ہیں۔ ایسے جیسے اِن پر آج ہی پالش کی گئی ہو۔‘‘
بات بالکل صحیح تھی۔ شازیہ اور عمران تھوڑے سے شرمندہ ہو گئے کہ اُنہوں نے پہلے اِس بات پر دھیان کیوں نہیں دیا۔ رضوان شان میں آ گیا۔ اُس نے بڑے ڈرامائی انداز میں کہا۔ ’’صرف یہی بات نہیں ہے۔ ذرا غور سے سُنیے۔ کوئی آواز آ رہی ہے؟‘‘
جب اُنہوں نے غور سے سُنا تو واقعی ایک آواز آ رہی تھی۔ یہ ایک گھڑی کی ٹِک ٹِک تھی۔ عمران نے اُسے تلاش کر لیا۔ یہ معمولی الارم والی سستی سی گھڑی بستر پر شال کے نیچے پڑی تھی۔ شازیہ نے کہا۔ ’’ہو سکتا ہے بستر پر ہمارے بیٹھنے کی وجہ سے یہ خود بخود چل پڑی ہو۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ عمران نے زور سے سر ہلایا۔ ’’اِس میں چابی بھری گئی ہے۔ یہاں کوئی نہ کوئی موجود ہے۔‘‘
کوئی دیکھ رہا ہے
اُس رات جب رضوان سو گیا تو شازیہ نے کہا، ’’مُجھے یقین ہے کہ رضوان نے یہ چکّر چلّایا ہے۔ جب ہم دونوں کھڑکی میں کھڑے باہر کی سیر کر رہے تھے اُس وقت اُس نے گھڑی میں چابی بھر دی۔ ہمیں ستانے کے لیے اُس نے ایسا کیا ہے۔‘‘
شازیہ بڑی سُلجھی ہوئی لڑکی تھی۔ وہ جِنوں، پریوں کی کہانی پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ وہ حقیقت کی دُنیا میں رہتی تھی، خیالی دُنیا سے دُور۔ اُس کے مُقابلے میں عمران مختلف قسم کا لڑکا تھا۔ حال آں کہ وہ کافی بڑا ہو چُکا تھا، مگر اب بھی پریوں کی کہانیوں پر یقین کرتا تھا۔ اُس کو رات کی تنہائی اور اندھیرے میں بھُوتوں کی کہانیاں سُننے کا بہت شوق تھا۔ اُسے ڈر بھی لگتا تھا مگر اِس ڈر میں بڑا مزہ آتا تھا۔ اُس کو یہ خیال کر کے خوف محسوس ہوا تھا کہ اِس پُر اسرار مکان میں کوئی چھُپا ہوا تھا۔ اب شازیہ کی یہ بات سُن کر مایوسی ہوئی کہ گھڑی میں چابی رضوان نے بھر دی ہو گی۔ اُس کا خیال تھا کہ شازیہ اکثر پُر اسرار اور تجسّس بھری کہانیوں کو بے مزہ اور عام سا بنا دیتی ہے۔
اُس نے شازیہ سے کہا۔ ’’ہم نے مُشکل سے ایک منٹ کھڑکی سے باہر دیکھا ہو گا۔ یہ ممکن ہے کہ اتنی سی دیر میں رضوان نے اُس گھڑی میں چابی بھر دی ہو؟‘‘ شازیہ نے کہا۔ ’’رضوان بلّی کی طرح دبے پاؤں آتا ہے اور چیتے کی طرح جھپٹ کر اپنا کام کر جاتا ہے۔ وہ بہت تیز اور پھُرتیلا ہے۔‘‘
عمران نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر بولا۔ ’’مگر اُس کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ پلنگ کی پیتل کی پٹیوں پر پالش کر کے چمکا دیتا۔‘‘
وہ اپنے خیال پر بڑا خوش ہو رہا تھا۔ شازیہ نے جواب دیا۔ ’’مگر خالہ صفیہ نے مُجھے بتایا تھا کہ ہر چیز پر پالش نہیں کی جاتی ہے۔ خالہ کا کوئلا رکھنے کا ڈرم، ڈائننگ روم کا پیتل کا جگ، اُن کو خالہ جلدی جلدی پالش نہیں کرتیں۔ خالہ مُجھے بتا رہی تھیں کہ اِن چیزوں پر ایک طرح کی وارنش سی لگا دی جاتی ہے جِس سے اُن کی چمک برسوں نہیں جاتی۔‘‘ وہ سوچ رہی تھی کہ عمران نے اپنے ذہن میں جو تصوّر قائم کر رکھا ہے، اُسے وہ کیوں ختم کر رہی ہے۔
عمران کہنے لگا۔ ’’شازیہ! ہو سکتا ہے وہاں واقعی کوئی نہ ہو۔ کیوں نہ ہم اُس جگہ کو اپنے اُٹھنے بیٹھنے کے لیے صاف کر لیں! کِسی کو کیا معلوم ہو گا کہ ہم بالا خانے میں جاتے ہیں۔ مُجھے یہ جگہ بہت پسند ہے۔ یہاں کوئی ہو یا نہ ہو، مگر ہے یہ جگہ بڑی پُر اسرار۔‘‘
’’مگر ہمیں بہت ہوشیار رہنا ہو گا، کیوں کہ خالہ صفیہ کی کئی آنکھیں ہیں۔ ہم کوئی جھاڑو تلاش کر کے وہاں کی صفائی کر لیں گے۔ میں شیرازی صاحب سے کُچھ رنگ وغیرہ اور بُرش لے کر تصویریں بناؤں گی اور اُنہیں دیوار پر لٹکاؤں گی۔‘‘
’’اور ہم کُچھ گوشت وغیرہ وہاں لے جائیں گے اور وہیں پکائیں گے۔ شیرازی صاحب کے پاس ایک چھوٹا سا تیل کا چُولہا ہے۔ وہ اُس چُولہے کو استعمال نہیں کرتے، اِس لیے وہ بے کار پڑے پڑے خراب ہو گیا ہے۔ ہم اُس کو ٹھیک کر کے استعمال کریں گے۔ پانی کا مسئلہ اِس طرح حل کر لیں گے کہ اگر اُس مکان میں پانی نہ ہوا تو ہم تہہ خانے میں پڑی ہوئی مربّوں، اچار اور جام کی خالی بوتلیں بھر کر لے جائیں گے۔ پرانے دروازے کو پالش کر کے چمکا لیں گے اور وہاں لائٹ کا انتظام بھی کر لیں گے۔‘‘ اُس نے مُڑ کر شازیہ کی طرف دیکھا مگر وہ تو کب کی سو چُکی تھی۔
اگلے روز جب وہ صُبح سو کر اُٹھے تو اُن کے دماغوں میں بے شمار خیالات بھرے ہوئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے سوتے میں بھی اُن کا ذہن مسلسل کام کرتا رہا ہو۔ عمران نے لکڑی کے تختے اور کیلیں تلاش کرنے کے لیے تہہ خانے کا رُخ کیا تا کہ اُس پُر اسرار مکان کے چھت والے کمرے میں کتابیں رکھنے کے لیے شیلف بنا سکے۔ شازیہ نے سوچا کہ خالہ صفیہ سے کُچھ پھٹے پرانے کپڑے مانگ لوں گی تا کہ اُس سے کُشن بنائے جا سکیں اور صفائی کا کام لیا جائے۔ اب رہا مسئلہ کھانے کا! یہ تو کُچھ مناسب نہ تھا کہ باورچی خانے سے کوئی چیز لی جائے، بلکہ یہی بہتر تھا کہ ہر روز اپنے اپنے ناشتے میں سے کُچھ نہ کُچھ بچا لیا جائے۔ جیسے ڈبل روٹی کے ٹکڑے، جام، جیلی وغیرہ۔ اِس سے اُن کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا اور خالہ صفیہ پر بھی زیادہ بوجھ نہ پڑتا۔ شازیہ اور عمران نے یہ طے کیا تھا کہ اُس وقت تک رضوان کو کُچھ نہیں بتائیں گے جب تک ناشتا ختم نہ ہو جائے اور خالہ صفیہ ’’لائف بوٹ ڈے‘‘ کے سِلسِلے میں جھنڈیاں بیچنے باہر نہ چلی جائیں۔ ویسے تو رضوان کو بتانے میں کُچھ ہرج بھی نہ تھا مگر وہ ذرا زیادہ جوشیلا تھا۔ ناشتے پر زیادہ تیزی سے کھانے پینے کی چیزیں اُٹھانا شروع کرتا تو خالہ صفیہ چونک سکتی تھیں۔ اِس سے سارا بھانڈا پھوٹنے کا خطرہ تھا۔ اُن کو اِس بات کا بالکل بھی خیال نہ تھا کہ خالہ صفیہ نے کہا تھا کہ لائف بوٹ ڈے پر مُجھے تُم لوگوں کی مدد کی ضرورت ہو گی مگر اُنہوں نے اُس کی کوئی تفصیل نہیں بتائی تھی۔ ابھی وہ ناشتا کر رہے تھے کہ عمران نے بھُنے ہوئے گوشت کا ایک ٹکڑا اُٹھا کر اپنی قمیص کی جیب میں رکھ لیا۔ اِسی دوران شیرازی صاحب اندر داخل ہوئے۔ اُنہوں نے اپنی بھاری بھر کم اور تیز آواز میں کہا۔ ’’مُجھے کُچھ والنٹیئر چاہئیں۔‘‘ شیرازی صاحب آج بالکل مختلف لگ رہے تھے۔ وہ ایک لمبا اور ڈھیلا ڈھالا سا ہلکے سے رنگ کا کُرتہ پہنے ہوئے تھے۔ کمر پر ایک سنہری بیلٹ تھی۔ بازو کندھوں تک ننگے تھے اور اُن پر نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ یہی حال اُن کے پیروں کا بھی تھا۔ سر پر اُنہوں نے عجیب وضع کا ہرا پھیلا خوب صورت سا پگّڑ پہن رکھا تھا جس میں پِنوں سے موتی لگے ہوئے تھے۔ اُن کے ہاتھ میں ایک چھڑی سی تھی جس کا ایک سِرا دو شاخہ تھا۔ اُنہوں نے بچّوں کو دیکھ کر جوکروں کی طرح مُسکراتے ہوئے کہا:
’’میں نیپچون بنا ہوں اور یہ میرا ترشول ہے۔‘‘ اُنہوں نے اُسے ہوا میں لہرایا اور ہنس پڑے۔ ’’کیا خیال ہے تُم لوگوں کا؟ میں کیسا لگ رہا ہوں؟‘‘
بچّے تو بالکل خاموش اور حیران کھڑے تھے۔ عمران بڑی مُشکل سے اپنی ہنسی ضبط کر رہا تھا مگر شازیہ قہقہہ مار کر ہنس پڑی۔ آخر کافی مشکل سے اُس کی ہنسی رُکی تو اُس نے کہا۔ ’’آپ بہت اچھّے لگ رہے ہیں۔‘‘ عمران سے اب برداشت نہ ہو سکا۔ اُس کا قہقہہ بڑا زور دار تھا۔ وہ اُٹھا اور بھاگ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔ ہنستے ہنستے اُس کی بُری حالت ہو گئی تھی۔
شیرازی صاحب بولے۔ ’’اچھّا، اب میں سمجھا۔ میں اِس لباس میں مسخرہ لگ رہا ہوں جبھی تو تُم لوگوں کے مُنہ پھٹے جا رہے ہیں۔ مگر اب کیا کروں مجبوری ہے۔ تمہاری خالہ کی کوشش ہے کہ لوگ ہماری طرف زیادہ متوجّہ ہوں۔‘‘
اِسی دوران خالہ صفیہ باورچی خانے میں داخل ہوئیں۔ اُن کے ہاتھ میں ایک بڑا سا بنڈل تھا۔ شیرازی صاحب نے اُن سے کہا۔ ’’بھئی مزہ نہیں آیا۔ تُم نے تو مُجھے اچھّا خاصا جوکر بنا ڈالا۔ پتا نہیں لوگ اِس کا اچھّا اثر لیں گے یا اِس کو پاگل پن کہیں گے۔ ابھی عمران مُجھے دیکھ کر ہنستا ہوا باہر بھاگا ہے۔ مُجھے دیکھ کر تو لوگ اِسی طرح بھاگیں گے۔ میرا خیال ہے کہ آپ میرا حلیہ بدل دیں۔‘‘
’’نہیں، آپ بہت…‘‘ خالہ صفیہ رُکیں اور شیرازی صاحب کو دیکھتے ہوئے بولیں۔ ’’مناسب لگ رہے ہیں۔‘‘
رضوان تیزی سے بولا۔ ’’والنٹیئر سے کیا مراد ہے آپ کی؟‘‘
خالہ صفیہ نے ہلکی سی مُسکراہٹ کے ساتھ اُس کو دیکھ کر کہا۔
’’ہم ایک تقریب کر رہے ہیں۔ ہمیں لائف بوٹ کے لیے زیادہ سے زیادہ جھنڈیاں جمع کرنی ہیں۔ ہم اپنے ساتھ بینڈ بھی لے کر جائیں گے۔ شیرازی صاحب ایک کشتی میں بیٹھیں گے جو جیٹی کے دوسرے سِرے پر ہو گی۔ جیسے ہی بینڈ بجنا شروع ہو گا، شیرازی صاحب کشتی سے باہر نکل کر جیٹی پر چہل قدمی کریں گے۔‘‘
’’اس طرح نیپچون کو سمندر سے نکلتا ہوا دِکھایا جائے گا۔‘‘ شیرازی صاحب اُداسی سے بولے۔
’’اور اِن کے ساتھ دو مدد گار بھی ہوں گے۔ سمندری بھُوت۔‘‘ خالہ صفیہ بولیں۔ ’’اِس کام کے لیے مسٹر کرافٹ کا بیٹا اور بیٹی تیّار تھے مگر اچانک وہ بیمار ہو گئے۔‘‘ اُنہوں نے اپنی بات ختم کر کے وہ بنڈل کھولا اور دو عجیب و غریب لباس باہر نکالے اور بولیں۔ ’’یہ لباس شازیہ اور رضوان کے بالکل فٹ آئیں گے۔‘‘
’’میں!‘‘ رضوان خوف زدہ آواز میں بولا۔ ’’مُجھے یہ لباس پہننا ہو گا۔‘‘
خالہ صفیہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں، یہ باریک لباس ہیں۔ اِن کے نیچے تُم کو دوسرے کپڑے پہننے ہوں گے تاکہ تُم کو سردی نہ لگ جائے۔ تُم گرم بھی رہو گے اور خُوب صُورت بھی لگو گے۔‘‘
’’خُوب صُورت؟‘‘ رضوان چیخا۔ اُس کا چہرہ اُس وقت دیکھنے کے قابل تھا۔ شازیہ کی تو ہنسی نکل گئی، حال آں کہ وہ اِس کے لیے بہت پریشان تھی مگر اُس وقت اُس کو دیکھ کر وہ ہنسی نہ روک سکی۔ وہ رضوان کو سمجھاتے ہوئے بولی:
’’تم اپنے سر پر اِسی طرح کا پگّڑ رکھ لو جیسا شیرازی صاحب کا ہے۔ ہر ایک تُم کو سمندری بھُوت سمجھے گا۔‘‘
رضوان کبھی شیرازی صاحب کو دیکھتا، کبھی خالہ صفیہ کو۔ کبھی وہ عمران کو گھُورتا اور کبھی شازیہ پر آنکھیں نکالتا۔ آخر کار اُس نے ہتھیار ڈال دیے۔ ’’ٹھیک ہے۔ جیسی تُم لوگوں کی مرضی۔‘‘
خالہ صفیہ نے اُس کو تیّار کرنا شروع کر دیا۔ وہ بُرے بُرے مُنہ بناتا رہا مگر کیا کرتا ہاں جو کر چُکا تھا۔ اُنہوں نے اُس کو چُغّہ پہنایا۔ پھر کمر کے گِرد سُنہری رنگ کا پٹکا باندھا اور آخر میں اُس کے بالوں میں موتی کی جھالریں سی لگا دیں۔ پھر اُنہوں نے شازیہ کا میک اپ کرنا شروع کر دیا۔ حال آں کہ شازیہ کا پُر اسرار مکان میں جانے کا پروگرام بھی آج ہی تھا مگر اُس وقت اس نے دماغ سے سارے خیالات جھٹک دیے۔ وہ اِس تفریح سے پوری طرح لُطف اُٹھانے کے لیے تیّار ہو گئی تھی۔ اُسے یہ سب اچھّا لگ رہا تھا۔ اُسے ہنستے مُسکراتے لوگ اچھّے لگتے تھے۔ اگر اُس سے خالہ صفیہ خوش ہو جائیں تو اِس سے بڑھ کر اور کیا بات ہو سکتی تھی۔ اُسے اور رضوان کو لائف بوٹ کے لیے رقم جمع کرنی تھی۔ میک اپ کے بعد شازیہ بہت اچھّی لگ رہی تھی، بالکل تصویر کی طرح۔ خالہ صفیہ اُسے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ پھر وہ اُسے رُکنے کے لیے کہہ کر اندر گئیں اور جب واپس آئیں تو اُن کے ہاتھ میں ایک بال پِن تھا جس پر ایک موتی لگا ہوا تھا۔ یہ پِن خالہ صفیہ نے شازیہ کے بالوں میں لگا دیا۔ شازیہ کو وہ پِن بہت ہی اچھّا لگا۔ پھر خالہ بولیں۔ ’’چلو آؤ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ یہ عمران کہاں ہے؟ میں نے اُس سے کہا تھا کہ نُور جہاں بیگم کا دھیان رکھے۔‘‘
عمران نے اُن لوگوں کے جانے کے بعد آدھے گھنٹے تک انتظار کیا۔ اسے بڑی بے چینی تھی۔ آج اس کو پُر اسرار مکان میں اکیلے داخل ہونا تھا۔ وہ بڑا پُر جوش نظر آ رہا تھا۔ عمران نے ٹھیک دس بجے نُور جہاں بیگم کو گرم دودھ پہنچا دیا تھا اور کچھوے کے لیے کیلے بھی دے آیا تھا۔ نُور جہاں بیگم نے کبھی عمران سے اُس طرح بات نہ کی تھی جس طرح وہ رضوان سے کرتی تھیں۔ عمران کو ہمیشہ وہ ایک نوکر سمجھتی تھیں۔
جب اُس نے اُن کی کیتلیاں پانی سے بھر دیں تو اُنہوں نے اپنے نوّابی انداز میں کہا۔ ’’اب آپ تشریف لے جا سکتے ہیں۔‘‘
مگر عمران وہاں سے نہیں گیا۔ وہ دروازے کے قریب اِس طرح کھڑا ہوا تھا کہ نُور جہاں بیگم اُسے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ وہ انتظار کرتا رہا۔ جب اُن کے خرّاٹے کمرے میں گونجنے لگے تو اُس نے جھانک کر تسلّی کر لی۔ وہ سو چُکی تھیں۔ عمران خاموشی سے دروازہ بند کر کے چلا گیا۔ اُس نے سوچا کہ صفائی کرنے کے لیے کوئی جھاڑو یا میلا کپڑا لے لوں مگر پھر وہ ایسے ہی چل دیا۔ اُسے سب سے زیادہ اِس بات کی جلدی تھی کہ کِسی طرح وہاں پہنچ جائے اور کھڑکی سے سمندر کا نظّارہ کرے۔ عمران کو وہاں اکیلے جاتے ہوئے کوئی ڈر محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اِس وقت اُس مکان کے لمبے چوڑے اور اندھیرے زینے پر چڑھ رہا تھا۔ اُس نے سوچا کہ اگر کوئی جِن بھُوت سامنے آ گیا تو دیکھی جائے گی۔ وہ اپنے آپ کو تسلّیاں دیتا جا رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ میں بھُوت کے پاس سے اسی خاموشی سے گُزر جاؤں گا جیسے میں بھی کوئی بھُوت ہوں۔
وہ کسی کمرے میں نہیں گیا۔ اس کا رُخ تو اس خُوب صُورت اور روشن چھت والے کمرے کی طرف تھا۔ اوپر پہنچ کر وہ صندُوق پر چڑھا اور پرانی زنگ آلود کھڑکی کھول دی۔ آج کا دِن خوش گوار اور کُچھ گرم تھا۔ ہوا تازہ اور لطیف محسوس ہو رہی تھی۔ عمران کو یہاں بڑا مزہ آ رہا تھا۔ اُسے اِس وقت دُنیا جہاں کی کوئی فکر نہ تھی۔ بس وہ تھا اور یہ جگہ تھی۔ کافی دیر تک وہاں اِسی طرح کھڑا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر شازیہ اور رضوان اِس وقت یہاں ہوتے تو بڑی اُدھم بازی ہوتی۔ پھر اُسے خیال آیا کہ شازیہ تو اُس سے اِس بات پر بہت لڑے گی کہ سارا دِن وہاں گزارا اور پھر بھی وہاں کی صفائی نہیں کی۔ اُس نے سوچا کہ ہو سکتا ہے اِس صندُوق میں ایسی چیزیں ہوں جن سے کمرے کو ٹھیک ٹھاک کیا جا سکے۔ اس نے ہمّت کرتے اس کا موٹا اور مضبوط کُنڈا کھولا اور کافی طاقت لگا کر اُس کا ڈھکّن اُٹھایا۔ اندر سے پرانے کپڑوں اور عطر کی ملی جلی بُو سی آئی۔
اندر بہت سے پرانے کپڑے تھے۔ جیکٹیں، پتلونیں اور کاغذ کے بہت سے بنڈل۔ دو جیکٹوں پر سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے۔ اُس نے کاغذ کا ایک بنڈل کھولا۔ اُس میں سے ایک ہیٹ نکلا۔ ہیٹ پُرانا تھا۔ اُس میں بہت سے سوراخ تھے۔ پتا نہیں اُس پھٹے پرانے ہیٹ کو اتنی احتیاط سے لپیٹ کر کیوں رکھا گیا تھا۔ دوسرے بنڈل میں سے زنانہ سینڈلوں کی جوڑی نکلی۔ یہ بھی پرانے سے گندے اور استعمال شدہ سفید سینڈل تھے۔ اُس نے یہ چیز یں اسی طرح لیٹ کر اندر رکھ دیں۔ کپڑے اُٹھا کر اُس نے نیچے دیکھا تو وہاں بہت سی چیزیں گڈ مڈ پڑی ہوئی تھیں۔ ایک لکڑی کی چھوٹی سی صندُوقچی تھی، ایک چھوٹی سی پرانی ہتھوڑی اور تصویروں کا ایک البم تھا جس پر ایک رِبّن لپٹا ہوا تھا۔ عمران نے البم کھولا۔ تصویروں کا رنگ بھورا ہو چکا تھا۔ کُچھ تصویریں اتنی مدّھم ہو گئی تھیں کہ صاف نظر نہیں آ رہا تھا کہ کِس کی تصویر ہے۔ اِس میں لوگ پُرانے فیشن کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ اِس میں ایک تصویر دو لڑکیوں کی تھی۔ بڑی لڑکی کے ماتھے پر بل تھے اور چھوٹی کے چہرے پر مُسکراہٹ تھی۔ اس تصویر کے نیچے لکھا ہوا تھا:
’’صفیہ اور شکیلہ‘‘
عمران تصویر کو گھورتا رہا۔ اُس کو ایسا لگا جیسے اُس کا دِل اُچھل کر حلق میں آ گیا ہے۔ شکیلہ تو اُس کی امّی تھیں۔ اِس وقت اپنی امّی کو ننّھی مُنّی بچّی کی حیثیت میں دیکھ کر اُسے عجیب سا احساس ہوا۔ اُس نے آہستہ آہستہ ساری تصویریں دیکھ ڈالیں مگر اُس کی امّی کی کوئی اور تصویر نہیں تھی۔ ایک تصویر میں خالہ صفیہ دُلہنوں کا سا لباس پہنے کھڑی تھیں۔ اُن کے ہاتھوں میں پھُولوں کا گُل دستہ تھا۔ اُن کے ساتھ بحریہ کی وردیوں میں ملبوس کُچھ لوگ کھڑے تھے۔ سب کے چہروں پر مُسکراہٹ تھی۔ البم کی آخری تصویر اِس طرح پھٹی ہوئی تھی جیسے کسی نے بہت ہی بھدّے انداز میں اُس کو وہاں سے پھاڑا ہو۔ پتا نہیں وہ کس کی تصویر تھی۔ عمران نے البم بند کر کے اندر جھانکا۔ اندر بہت سی چیزیں پڑی ہوئی تھیں۔ عمران آدھا جھُک کر صندُوق کے اندر دیکھنے لگا۔ ایک تصویر نظر آئی جس میں خالہ صفیہ اپنی گود میں ایک بہت ہی خوب صورت اور ننھّا مُنّا بچّہ لیے کھڑی تھیں۔ وہ خود بھی اِس تصویر میں بہت پیاری لگ رہی تھیں۔ عمران کو بڑی حیرت ہوئی کہ یہ بچّہ کون ہے۔ پھر اُس نے سوچا کہ ہو سکتا ہے یہ میری تصویر ہو۔ اُسے بتایا گیا تھا کہ اُس کی پیدائش لندن میں ہوئی تھی۔ پھر وہ سوچنے لگا کہ پتا نہیں یہ تصویر خالہ نے البم میں سے نکال کر الگ کیوں ڈال دی ہے۔
ایک بات بہر حال اُسے معلوم ہو گئی تھی کہ وہ صندُوق خالہ صفیہ کا تھا۔ پھر اُس نے جلدی جلدی سب چیزیں واپس صندُوق میں رکھنی شروع کر دیں۔ خالہ صفیہ اور بچّے کی تصویر اُس نے اپنی پتلون کی جیب میں رکھ لی تاکہ رضوان اور شازیہ کو بھی دِکھا سکے۔ جب اُس نے صندُوق کا ڈھکّن بند کیا تو اپنے آپ کو پریشان اور تنہا محسوس کیا۔ اُسے اِس وقت شازیہ اور رضوان بہت یاد آئے۔ وہ آہستہ آہستہ بالا خانے کی سیڑھیوں سے نیچے اُترتا رہا۔ اچانک اُسے اپنا سانس رُکتا محسوس ہوا۔ بڑی ہی خُوب صُورت اور میٹھی دُھن تھی وہ جو اُس کو صاف سُنائی دے رہی تھی۔ اِس پُر اسرار مکان میں کسی جگہ کوئی شخص پیانو بجا رہا تھا۔ اُسے یاد آیا کہ نِچلی منزل پر بڑے کمرے میں ایک پیانو رکھا ہوا تھا، مگر اُسے کون بجا رہا تھا؟ یہ کوئی ڈاکو تو ہو نہیں سکتا تھا جو پیانو بجا کر لوگوں کو اپنی طرف متوجّہ کر لے۔ کیا یہ کوئی بھُوت ہے؟ دُھن بہت اچھّی تھی مگر کُچھ سوگوار تھی۔ چند لمحوں تک عمران ایسے ہی کھڑا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ وہ رینگتا ہوا آگے بڑھا۔ اُس کا دِل بُری طرح دھڑک رہا تھا مگر اُس وقت جوش اور تجسّس خوف پر چھا چُکا تھا۔ جب وہ ہال کے قریب پہنچا تو آواز صاف آنے لگی۔ یہ آواز اُس کمرے میں سے آ رہی تھی جس میں سفید گھوڑے پر سوار آدمی کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ آہستہ آہستہ عمران آگے بڑھا اور کمرے میں جھانکنے لگا۔ اُس کے بالکل سامنے ایک بہت بڑا آئینہ تھا۔ آئینے میں اُس کا عکس نظر آ رہا تھا جو پیانو بجا رہا تھا۔ یہ ایک لڑکی تھی جس نے بند گلے کی جرسی پہن رکھی تھی۔ اُس کے لمبے لمبے سیاہ بال تھے۔ آنکھیں سیاہ اور بڑی بڑی تھیں۔ وہ آنکھیں آئینے میں عمران کو دیکھ رہی تھیں مگر یہ صرف عکس تھا۔ آہستہ آہستہ دُھن ہلکی ہوتی چلی گئی اور پھر بالکل بند ہو گئی۔ وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی۔ عمران نے ایک گہرا سانس لیا اور اندر داخل ہو گیا۔ وہ پیانو کے پاس کھڑی تھی، عمران کے بالکل سامنے۔ وہ لمبی تھی۔ عمران سے بھی زیادہ لمبی۔ وہ بولی:
’’تُم کون ہو؟ مُجھے پہلے ہی شک ہو گیا تھا کہ مُجھے کوئی دیکھ رہا ہے۔‘‘ وہ کوئی بھُوت نہ تھی۔ وہ ایک لڑکی تھی۔ اُس کی آواز بھی انسانوں جیسی تھی اور پھر وہ خود بھی عمران کی طرح گھبرائی ہوئی تھی۔ عمران نے بہادری سے کہا۔ ’’تُم کون ہو؟‘‘ اُس نے کُچھ دیر تک تو جواب نہ دیا۔ بس خاموش کھڑی بے چین نظروں سے عمران کو دیکھتی رہی۔ پھر بولی۔ ’’میں وکٹوریہ ہوں۔‘‘
تُم کون ہو؟
عمران نے اُس سے پوچھا۔ ’’تُم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘ پھر اُسے خیال آیا کہ اگر یہ لڑکی بھُوت نہیں ہے تو پھر وہ یہیں رہتی ہو گی۔
اُس نے پوچھا۔ ’’کیا تُم وکٹوریہ رینالڈ ہو؟‘‘
لڑکی نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اپنا سر جھُکا لیا۔ اُس کی آنکھیں عمران پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ اُس سے بہت خوف زدہ نظر آ رہی تھی۔ اُس کا ڈر اور خوف دیکھ کر عمران اُلجھن میں پڑ گیا کہ اگر یہ اُس کا گھر ہے تو یہ ڈر کیوں رہی ہے اور وہ بھی مُجھ سے۔ مُجھے تو یہاں داخل ہونے کا کوئی حق ہی نہیں ہے۔
وہ بولا۔ ’’میں کوئی بھُوت یا چور نہیں ہوں۔ میرا نام عمران نعمان خان ہے۔ میری خالہ صفیہ پہلے یہاں رہا کرتی تھیں۔ اُن کی کُچھ چیزیں آج بھی اُوپر چھت والے کمرے میں موجود ہیں۔‘‘
وہ جس وقت اُس کو یہ بات بتا رہا تھا اُس کی نظریں لڑکی کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ ایک پرانی سی براؤن رنگ کی جرسی پہنے ہوئی تھی جو کہنیوں پر سے پھٹی ہوئی تھی۔ اُس کی پتلون کا رنگ اُڑا ہوا تھا۔ وہ گھِسی ہوئی تھی۔ سب سے اچھّی اور خوب صورت چیز جو اُس کے پاس تھی وہ پرانے فیشن کا ایک لاکٹ تھا جو ایک نازک زنجیر میں اُس کے گلے میں پڑا ہوا تھا۔ وہ لڑکی کِسی طرح بھی ایسی نہیں لگ رہی تھی کہ اُس کا تعلّق اِس شان دار مکان سے ہوتا۔ عمران نے شرمندگی سے کہا۔ ’’نہ ہم نے کوئی چیز چھوئی ہے اور نہ کوئی نقصان کیا ہے مگر مُجھے ڈر ہے کہ آپ کے والد ہم پر بہت ناراض ہوں گے۔ مسٹر رینالڈ آپ کے والد ہیں نا؟‘‘
اُس نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ خاموشی سے اُس کو دیکھتی رہی۔ پھر اُس کو خیال آیا کہ مسٹر رینالڈ تو ایک بُوڑھے آدمی ہیں۔ وہ جلدی سے بولا۔ ’’مسٹر رینالڈ آپ کے دادا ہوں گے۔‘‘
وہ بولی۔ ’’ہاں، وہ میرے دادا ہیں۔‘‘
’’ہم سمجھے تھے کہ مکان بالکل خالی ہے اور یہاں کھیلنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔‘‘ اچانک اُس کو خالہ صفیہ یاد آ گئیں۔ اُس نے کہا۔ ’’ہماری خالہ بھی بہت ناراض ہوں گی جب اُنہیں پتا چلے گا کہ میں یہاں آیا تھا۔‘‘ پھر اس نے وکٹوریہ کو اُمّید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کسی کو یہ تو نہیں بتائیں گی کہ میں یہاں آیا تھا؟‘‘
’’میں کسی کو نہیں بتاؤں گی بس تُم بھی میرے بارے میں کسی کو نہ بتانا۔‘‘ یہ بات بڑی عجیب لگی۔ وہ بولا۔ ’’کیوں؟ کِسی کو آپ کے بارے میں کیوں نہ بتاؤں؟ کیا یہ آپ کا گھر نہیں ہے؟‘‘
اُس نے گھبرائی ہوئی نظروں سے عمران کو دیکھا اور پھر لرزتی ہوئی آواز میں بولی۔ ’’مُجھے یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اُنہیں نہیں معلوم کہ میں یہاں ہوں۔ وہ تو لندن میں رہتے ہیں۔ اُنہیں میرے بارے میں یہ معلوم ہے کہ میں بورڈنگ اسکول میں ہوں۔‘‘
’’تو پھر تُم یہاں کیوں آئی ہو؟ چھٹیوں وغیرہ کے علاوہ تُم کو بورڈنگ اسکول میں ہی ہونا چاہیے۔‘‘
وکٹوریہ اچانک تیزی سے بولی۔ ’’میں بھاگ آئی ہوں۔ میں مظلوم ہوں۔ ظُلم اور نا انصافی سے بھاگ کر یہاں پناہ لینے آئی ہوں۔‘‘
عمران کی تو آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اُس نے وکٹوریہ سے پوچھا کہ ’’کیا وہ تمہیں تلاش نہیں کر سکتے؟‘‘ اُس نے عمران سے نظریں ملائے بغیر کہا۔ ’’ابھی تک تو نہیں کر سکے کیوں کہ ابھی چھُٹیاں باقی ہیں۔ اُن میں ہر طالبِ علم گھر جا سکتا ہے۔ میں بورڈنگ ہاؤس میں کہہ کر آئی تھی کہ اپنے دادا کے پاس جا رہی ہوں۔ منگل تک چھُٹیاں ہیں۔ جب تک تو اُن کو پتا نہیں چلے گا۔ اِس کے بعد پھر وہ تلاش کریں گے۔‘‘
عمران نے پوچھا: ’’اِس مکان میں تو تالا لگا ہوا ہے۔ تُم اندر کسی طرح آئیں؟‘‘
وکٹوریہ نے کُچھ سوچ کر جواب دیا۔ ’’میرے پاس پِچھلے دروازے کی ایک چابی ہے۔‘‘
’’مگر تُم باغ میں کس طرح داخل ہوئیں؟ اُس کی دیواریں تو بہت اُونچی ہیں؟‘‘
’’باغ کے آخر میں گیراج ہے جِس کی ایک کھڑکی ٹوٹی ہوئی ہے۔ بس اُس میں سے اندر داخل ہو گئی۔‘‘ اچانک وکٹوریہ کو خیال آیا کہ عمران کُچھ زیادہ ہی ہیرو بن رہا ہے اور اُلٹے سیدھے سوال پُوچھ کر اُسے پریشان کر رہا ہے۔ وہ پہلے ہی خوف زدہ تھی، اُس پر یہ کسی پولیس افسر کی طرح اُس کے پیچھے لگ گیا ہے۔ اُسے اچانک غصّہ آ گیا اور وہ تیز لہجے میں بولی۔ ’’تمہارا اِن تمام باتوں سے کیا مطلب ہے؟ تمہیں کس نے حق دیا ہے کہ مُجھ سے سوال جواب کرو۔‘‘
عمران اُس کے اِس رویّے پر حیران رہ گیا۔ پتا نہیں اُس کو غصّہ کیوں آ گیا تھا۔ اُس نے کہا۔ ’’وکٹوریہ! میں تو صرف تمہارے بارے میں جاننا چاہتا تھا اور کوئی خاص بات نہیں ہے۔‘‘
’’مگر کیوں؟ تمہارا اِن تمام باتوں سے کیا تعلّق ہے؟‘‘ اُس نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے عمران سے پوچھا۔
عمران نے کہا۔ ’’نہیں کُچھ نہیں۔ میں اب تُم سے کُچھ نہیں پوچھوں گا۔‘‘
وہ بڑی اکڑ سے بولی۔ ’’میں اب گھر جاؤں گی اور واپس نہیں آؤں گی، اِس لیے تُم اپنا دماغ سوال پُوچھنے میں نہ اُلجھاؤ۔‘‘ عمران تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا چل دیا۔ ابھی وہ ہال کے سِرے تک ہی پہنچا تھا کہ وکٹوریہ بھاگ کر اُس کے پاس آئی اور بولی۔ ’’پلیز نہ جاؤ، رُک جاؤ۔ میرا مقصد تمہارا دِل دُکھانا نہ تھا۔‘‘
عمران ایک بار پھر حیران رہ گیا۔ پھر وہ بولا۔ ’’اگر تُم کہتی ہو تو میں رُک جاؤں گا مگر تمہارے بارے میں کوئی سوال پوچھنے سے قیامت تو نہیں آ جائے گی۔‘‘
وہ ٹھنڈی سانس بھر کر بولی۔ ’’ٹھیک ہے۔ پُوچھو، کیا پُوچھنا ہے؟‘‘
عمران نے کہا۔ ’’تمہارا بورڈنگ اسکول اتنا برا کیوں ہے؟ میرا مطلب ہے تُم اُس جگہ کو پسند کیوں نہیں کرتیں؟ کیا وہ تمہارے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں؟‘‘
وہ آہستہ سے بولی۔ ’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے مگر وہ مُجھے پیانو بجانے نہیں دیتے۔ مُجھے پیانو بجانا بہت پسند ہے اور وہ بجانے نہیں دیتے۔ مُجھے وہ پسند نہیں کرتے اور میں اُن سے نفرت کرتی ہوں۔‘‘ اُس کی آواز جذبات سے لرزنے لگی تھی۔
عمران نے کہا۔ ’’اگر وہ اسکول ایسی ہی خوف ناک جگہ ہے تو تمہارے والدین تُم کو وہاں سے اُٹھا کیوں نہیں لیتے؟‘‘
’’وہ مر چُکے ہیں۔‘‘ وکٹوریہ نے یہ جملہ اُداسی کے بجائے لا پروائی سے کہا جیسے اُسے اُن کے مرنے کا کوئی غم نہ ہو۔ وکٹوریہ کے اِس طریقے پر عمران کو حیرت ہوئی۔ اُس نے کہا۔ ’’تُو پھر اپنے دادا کو بتاؤ‘‘
’’اُنہیں میری کوئی فکر نہیں۔ اُنہیں اپنی تصویروں اور پینٹنگز کے علاوہ اور کُچھ ہوش نہیں۔ میں اُن سے نفرت کرتی ہوں۔‘‘
عمران نے کہا۔ ’’ایسا لگتا ہے تمہیں ہر شخص سے نفرت ہے۔‘‘ عمران کی عادت کُچھ اِس قسم کی تھی کہ اُسے ہر کسی سے نفرت نہیں تھی حال آں کہ اُسے مسز ایپسم اور خالہ صفیہ کے رویّے پسند نہیں آئے تھے مگر نفرت اُس نے اُن سے کبھی نہیں کی تھی۔
وکٹوریہ نے عمران کی بات ٹالتے ہوئے کہا۔ ’’تُم نے شروع میں کہا تھا کہ ہم اِس مکان داخل ہوئے تھے۔ ہم سے تمہارا کیا مطلب تھا؟ تمہارے ساتھ اور کون کون تھا؟‘‘
عمران نے جواب دیا۔ ’’میری چھوٹی بہن اور چھوٹا بھائی۔ آج وہ لائف بوٹ ڈے کے لیے چندہ جمع کرنے گئے ہیں۔ مُجھے اب چلنا ہے، کیوں کہ وہ لنچ تک واپس آ جائیں گے اور پھر میری تلاش شروع ہو جائے گی۔‘‘
’’اوہ!‘‘ اُس نے کہا۔ پھر اچانک اُس نے ماتھے پر بل ڈال دیے جیسے اُسے عمران کے جانے کی کوئی فکر نہ ہو۔ ’’کیا تُم دوبارہ آؤ گے؟‘‘
عمران نے اِنکار میں سر ہلایا۔ اُس کا آئندہ کبھی اِس پُر اسرار مکان میں آنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ اُس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہ جگہ اب خفیہ نہیں رہی تھی۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ وکٹوریہ کا رویّہ اُسے پسند نہیں آیا تھا۔ وکٹوریہ نے اُسے گھورتے ہوئے نہ آنے کی وجہ پوچھی تو عمران نے کہا۔ ’’کیوں کہ یہ مکان ہمارا نہیں ہے۔ پہلے ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہاں کوئی نہیں ہے مگر اب معاملہ مختلف ہے… ویسے بھی اگر میں یہاں آیا تو اپنی بہن شازیہ اور بھائی رضوان کو لے کر آؤں گا۔ ہو سکتا ہے وہ دونوں تُم کو اچھّے نہ لگیں۔‘‘
اُس نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ جگہ کتنی سُنسان ہے۔ میرے پاس کوئی دوست یا ساتھی نہیں ہے۔ تمہاری بہن کتنی بڑی ہے؟‘‘
’’شازیہ گیارہ سال کی ہے مگر وہ اپنی عُمر سے بڑی لگتی ہے۔ بہت سنجیدہ اور سمجھ دار۔‘‘
’’تو پھِر اُن کو لے کر ضرور آنا۔ پلیز۔‘‘ وہ اچانک بچّی بن گئی۔
عمران نے کہا۔ ’’میرا خیال ہے ہم لنچ کے بعد آ سکیں گے۔‘‘ پھر عمران کو کُچھ خیال آیا اور وہ وکٹوریہ سے بولا۔ ’’تمہارے کھانے کا کیا ہوتا ہے؟ میرے خیال میں اِس مکان میں کھانے کی کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘
وہ گھوم کر اپنے پیر کے انگوٹھے سے قالین کو دباتے ہوئے بولی۔ ’’یہاں کھانے کو کُچھ نہیں ہے۔‘‘
’’تو پھر تُم بھُوکی ہو گی؟‘‘ عمران نے حیران ہو کر کہا۔ اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ عمران نے پوچھا۔ ’’تُم یہاں کب آئی تھیں ہے۔‘‘
’’پرسوں میں یہاں رات کو پہنچی تھی اور اُوپر چھت والے کمرے میں سوئی تھی۔ بستر پر مُجھے ایک شال بھی مل گئی۔‘‘
’’اور تُم نے گھڑی میں چابی بھی بھری تھی ہے؟‘‘ عمران نے پوچھا۔
’’وہ میری گھڑی ہے۔ کیا مُجھے اُس میں چابی نہیں بھرنی چاہیے؟‘‘ وکٹوریہ نے عمران سے اُلٹا سوال کر دیا۔
’’نہیں، میں نے ایسے ہی پوچھ لیا۔ دراصل کل جب ہمیں وہ گھڑی ملی تو وہ ٹِک ٹِک کر رہی تھی اور تُم وہاں موجود نہ تھیں۔‘‘
’’ہاں، میں کل نہیں تھی۔ میں تھوڑی دیر کے لیے باہر گئی تھی۔ مُجھے بہت زور کی بھُوک لگ رہی تھی۔ میرے پاس کُچھ پیسے تھے اِس لیے میں نے اسٹیشن کے قریب ایک دُکان سے دُودھ کا ڈبّہ اور ایک بسکٹ کا پیکٹ خریدا تھا۔‘‘
’’بس، صرف یہی کھایا تھا تُم نے۔‘‘ عمران سخت پریشان تھا۔ ’’اِس کا مطلب یہ ہوا کہ تُم بہت بھُوکی ہو۔‘‘
’’میں فاقے کر رہی ہوں۔ میری حالت بُری ہو گئی ہے۔‘‘ اس نے بڑی کم زور سی آواز میں کہا۔
عمران نے کہا۔ ’’میرے پاس رقم تو ہے نہیں کہ تمہارے لیے کھانا خریدا جا سکے مگر میں تمہارے لیے کوئی چیز لے آؤں گا۔ آج دوپہر کے بعد ضرور، میرا وعدہ ہے۔ اور ہاں اگر تُم اُوپر چھت والے کمرے میں جاؤ تو وہاں تُمہیں مینٹل پیس پر ایک سینڈوچ مل جائے گا۔ اِس وقت تو اُس سے کام چلاؤ۔‘‘
وکٹوریہ عجیب سے انداز میں ہنس دی جیسے عمران سے کوئی بات چھُپا رہی ہو۔ پھر بولی۔ ’’تمہارا بہت بہت شکریہ۔‘‘ اور پھر بہت نرمی سے ہوئی۔
’’اگر تم واقعی جا رہے ہو تو میں تمہیں پچھلے دروازے کے ذریعہ سے باہر پہنچا دوں گی۔‘‘
عمران فوراً تیّار ہو گیا۔ اِس لیے کہ ایک تو واپسی میں آرام سے چلا جاتا اور دوسرے یہ کہ کسی کو یہ نہیں بتانا پڑتا کہ وہ کہاں تھا۔ ظاہر ہے گھر کے باہرسے اندر آتا ہوا دیکھ کر کسی کو تعجّب نہ ہوتا مگر وہ تہہ خانے سے سب کے سامنے باہر آتا تو خالہ صفیہ شک میں پڑ جاتیں۔ وہ یہ سوچ کر بھی حیران ہو رہا تھا کہ وکٹوریہ نے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ وہ کِس راستے سے اندر آیا ہے۔ شاید اسے اِس بات کی کوئی پروا نہ تھی۔ وہ دونوں سیڑھیاں اُتر کر باورچی خانے میں آئے اور پچھلے دروازے سے عمران باغ میں آ گیا۔ یہ بڑا گھنا اور اندھیرا سا باغ تھا۔ اُس میں اِس قدر گھنے درخت تھے اور اُن درختوں کی شاخیں آپس میں اِس طرح ملی ہوئی تھیں کہ اُنہوں نے روشنی روک لی تھی۔ وکٹوریہ نے گیراج میں جا کر وہ ٹوٹی ہوئی کھڑکی جھٹکے سے کھولی اور عمران سے بولی:
’’سیدھے جا کر بائیں طرف مُڑ جانا۔ تُم اپنی گلی میں پہنچ جاؤ گے۔‘‘
پھر اُس نے کھڑکی بند کر دی اور اُس سے پہلے کہ عمران اُسے اللہ حافظ کہتا وہ واپس چل دی۔ عمران کُچھ قدم چل کر رُک گیا۔ اُس کی نگاہیں اِسی پُر اسرار مکان پر جمی ہوئی تھیں۔ اُس کی کھڑکیاں اور دروازے سب خالی خالی اندھیرے اندھیرے اور پُر اسرار سے محسوس ہو رہے تھے۔ کِسی کو معلوم نہ تھا کہ یہاں کوئی چھُپا ہوا ہے۔
وہ گھر پہنچا ہی تھا کہ اُس کے پیچھے پیچھے سب لوگ بھی آ گئے۔ وہ سب بہت خُوش نظر آ رہے تھے۔ رضوان بڑے جوشیلے انداز میں بولا۔
’’سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں نے ہمیں دیکھا اور اُنہوں نے خالہ صفیہ کو خُوب چندہ دیا۔ میرا خیال ہے کہ وہ اِس رقم سے ایک بحری جہاز خرید سکتی ہیں۔‘‘
وہ سب باتیں بھُول چُکا تھا کہ اُس نے وہ لباس پہنتے وقت کتنی اُدھم بازی کی تھی، کیسے کیسے مُنہ بنائے تھے۔ اِس وقت تو اُس کو وہ لباس اتنا اچھّا لگ رہا تھا کہ اُس نے خالہ صفیہ سے کہا۔ ’’خالہ جان! کیا میں یہ لباس لنچ تک پہن سکتا ہوں۔ میں اِس لباس کو پہن کر نُورجہاں بیگم کے پاس جاؤں گا۔‘‘ خالہ نے مُسکراتے ہوئے اجازت دے دی۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا نُور جہاں کے کمرے کی طرف چلا گیا۔
شازیہ لپک کر عمران کے پاس آئی اور اُس سے بولی۔ ’’تم نے کیا کِیا؟‘‘
عمران نے خالہ صفیہ کو دیکھا۔ وہ بالکل قریب ہی کھڑی ہوئی تھیں، اِس لیے اُس نے شازیہ کو بتایا۔ ’’کُچھ نہیں، بس صفائی وغیرہ کر رہا تھا۔‘‘ شازیہ کو وہ راز بتانے کا اُسے موقع نہیں مل رہا تھا۔
لنچ کے وقت وہ سوچ رہا تھا کہ شازیہ کو کس طرح اشارہ کروں کہ اپنا تھوڑا سا کھانا بچا لینا۔ وہ خود بھی بہت کم کھا رہا تھا۔ خالہ صفیہ نے عمران سے پوچھا۔ ’’کیا تمہیں بھُوک نہیں ہے؟‘‘
’’جی، زیادہ بھوک نہیں ہے۔‘‘ اُس نے جواب دیا۔ حال آں کہ اُس کا دِل چاہ رہا تھا کہ ساری پلیٹ صاف کر دے اور پھر کُچھ اور لے کر وہ بھی کھا جائے مگر مجبوری تھی۔ اگر وہ ایسا کرتا تو وکٹوریہ کے لیے کُچھ نہیں بچ سکتا تھا۔ خالہ صفیہ نے فکر مندی سے پوچھا۔ ’’تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ آج صُبح ہی سے تم کُچھ پیلے پیلے سے نظر آ رہے ہو؟‘‘
’’نہیں خالہ جان ایسی کوئی بات نہیں۔ میں ٹھیک ہوں۔‘‘ عمران نے جواب دیا۔ شازیہ اور رضوان بھی اُسے غور سے دیکھ رہے تھے۔ خالہ صفیہ نے جلدی جلدی کھانا کھانا شروع کر دیا کیوں کہ اُن کا اِرادہ پھر چندہ جمع کرنے کے لیے باہر جانے کا تھا۔ اُنہوں نے کہا:
’’رضوان اور شازیہ اپنے حصّے کا کام کر چُکے ہیں۔ اب تُم لوگ چاہو تو پکنک منا سکتے ہو۔ نُور جہاں بیگم کے کوئی عزیز اُن سے ملنے چائے کے وقت آئیں گے۔ اب تُم لوگوں کی چھُٹّی۔‘‘
عمران تو خوشی سے اُچھل پڑا۔ جانے سے پہلے خالہ نے اُن کو بہت سے سینڈوچ ایک پلاسٹک کی تھیلی میں رکھ دیے تاکہ وہ لوگ سیر تفریح کرنے باہر جائیں تو وہاں کھا لیں۔
جیسے ہی خالہ صفیہ گھر سے باہر نکلیں عمران سیدھا رضوان اور شازیہ کے پاس اُوپر دوڑا۔ عمران نے اُن دونوں کو اپنی کہانی سُنائی اور پھر ایک تصویر نکال کر اُن کو دِکھائی۔ رضوان نے تصویر دیکھ کر کہا۔ ’’یہ تُم نہیں ہو۔ یہ خالہ صفیہ کی بچّی ہے۔‘‘ شازیہ اور عمران حیرت سے رضوان کو گھُورنے لگے۔ پھر شازیہ بولی۔ ’’مگر خالہ کے تو بچّے تھے ہی نہیں۔‘‘
’’خالہ کی ایک بچّی تھی مگر وہ بچپن میں کھو گئی تھی۔ اُسے دُشمنوں نے چُرا لیا تھا۔‘‘
شازیہ اور عمران نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ ’’نُور جہاں بیگم تو سٹھیا گئی ہیں۔ وہ ایسی ہی اُلٹی سیدھی باتیں کرتی ہیں جِن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔‘‘ عمران بولا۔
رضوان کو غصّہ آ گیا۔ وہ چیخ کر بولا۔ ’’وہ سٹھیائی نہیں ہیں۔ اُنہیں سب کُچھ معلوم ہے۔ اُنہوں نے مُجھے بتایا تھا کہ خالہ صفیہ اپنی بچّی کو بچّہ گاڑی میں بِٹھا کر کِسی کام سے اندر گئیں تھیں لیکن جب وہ واپس آئیں تو بچّی غائب تھی۔‘‘
شازیہ اُس کو سمجھاتے ہوئے بولی۔ ’’مگر رضوان بچّے اِس طرح غائب نہیں ہوا کرتے۔ کِسی نے اُس بچّی کو چُرایا تھا تو پولیس اُس کو کھوج نکالتی۔‘‘
عمران اچانک بولا۔ ’’ہاں، ایسا بھی ہوتا ہے۔ خانہ بدوش اکثر بچّوں کو اُٹھا لے جاتے ہیں۔ میں نے اِسی طرح کی ایک کہانی پڑھی تھی۔ ایک بچّی کو خانہ بدوشوں نے چُرا لیا تھا اور اُس کی پرورش کی۔ جب وہ بڑی ہو گئی تو معلوم ہوا کہ وہ تو کسی نوّاب کی بیٹی ہے۔‘‘
شازیہ نے پوچھا۔ ’’مگر وہ لڑکیوں کو کیوں چُراتے ہیں؟‘‘
’’یہ میں نہیں جانتا۔ شاید لڑکیاں زیادہ قیمتی ہوتی ہیں۔ مگر اِس قسم کی چوریاں افریقہ میں ہوتی ہیں۔ افریقی لوگوں کو لڑکیاں بہت پسند ہیں۔ اِس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جب لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو لڑکی کے باپ کو دُلہن کے بدلے میں بہت سی گائیں دی جاتی ہیں؟‘‘
’’افریقہ میں ایسا ہوتا ہو گا مگر انگلینڈ میں تو ایسا نہیں ہوتا۔‘‘
’’تو پھر یہ وکٹوریہ کا کیا چکّر ہو سکتا ہے؟‘‘ عمران نے کہا۔
وہ تینوں پُر اسرار مکان میں داخل ہو چکے تھے۔ وہ ہر جگہ اُس کو تلاش کرتے رہے مگر وہ نظر نہ آئی۔ اُنہوں نے اُس کو آہستہ آہستہ آوازیں بھی دیں، مگر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ وہاں ہے ہی نہیں۔
عمران نے کہا۔ ’’اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کوئی بھُوت تھی۔‘‘
شازیہ ہنس پڑی اور بولی۔ ’’اُس نے پچھلا دروازہ کھُلا چھوڑ دیا ہے۔ جِن بھُوت دروازے کے تالے نہیں کھولتے۔ وہ بند دروازوں میں سے ایسے ہی گزر جاتے ہیں۔‘‘
آخر میں عمران نے اُس کو پیانو والے کمرے میں پردوں کے پیچھے چھُپے ہوئے دیکھ لیا۔ عمران نے بڑی نرمی سے وکٹوریہ سے شازیہ اور رضوان کا تعارف کرایا۔ پھر عمران اُس سے بولا۔ ’’ہم تمہارے لیے کھانا لائے ہیں۔ خالہ صفیہ نے ہمیں پِک نِک منانے کے لیے باہر جانے کی اجازت دے دی تھی اور ساتھ کُچھ کھانے پینے کا سامان بھی دیا ہے۔ وہ سب ہم یہاں لائے ہیں۔ آج رات تُم بھُوکی نہیں سوؤ گی۔‘‘
وکٹوریہ نے خاموشی سے ٹوکری کی طرف دیکھا مگر مُنہ سے کُچھ نہیں کہا۔ شازیہ کو اُس کی یہ حرکت بہت بُری لگی۔ کم از کم شکریہ تو ادا کرنا چاہیے تھا۔ شازیہ بولی۔ ’’عمران نے لنچ پر بہت کم کھایا تھا تاکہ تمہارے لیے زیادہ سے زیادہ بچایا جا سکے۔‘‘
وکٹوریہ نے گردن اکڑا کر جواب دیا۔ ’’میں نے اُنہیں اپنا لنچ کھانے سے منع تو نہیں کیا تھا۔‘‘
عمران جلدی سے بولا۔ ’’یہ بات نہیں ہے۔ مُجھے بھوک ہی نہیں تھی۔‘‘
اُسے شازیہ سے بڑی شرم آ رہی تھی۔ وکٹوریہ کا بات کرنے کا طریقہ اُسے بھی اچھّا نہیں لگ رہا تھا۔ پھر اُس نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔ ’’کیا تُم اِس وقت کُچھ کھاؤ گی یا کوئی کھیل وغیرہ کھیلو گی؟‘‘
’’جو تُم چاہو۔‘‘
وکٹوریہ کا جواب سُن کر عمران نے ٹوکری میں سے سینڈوچ نکال کر اُس کی طرف بڑھا دیا۔ وہ آہستہ آہستہ کھاتی رہی اور چوری چوری بچّوں کی طرف بھی دیکھتی رہی۔ جب وہ کھا چُکی تو شازیہ اُس سے بولی۔ ’’کیا تُمہیں پیانو بجانا آتا ہے؟ اگر آتا ہے تو ہمیں کوئی پیاری سی دُھن سُناؤ۔ پلیز۔‘‘
عمران کو موسیقی سے کوئی لگاؤ نہیں تھا مگر اُس وقت وکٹوریہ اور شازیہ کی دِل چسپی دیکھ کر اُس نے بھی اُن کی ہاں میں ہاں ملائی۔ وکٹوریہ پیانو کے سامنے جا بیٹھی اور ایک بہت ہی پیاری سی دُھن چھیڑ دی۔ یہ بہت دھیمی اور اثر انگیز دُھن تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے سمندر کی موجیں آہستہ آہستہ ساحل کی طرف بڑھتی ہیں اور پھر اپنا سر پٹک کر واپس ہو جاتی ہیں۔ وکٹوریہ کے چہرے پر اُس وقت بڑی سنجیدگی نظر آ رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ سانس بھی نہیں لے رہی ہے۔ اُس وقت وہ شازیہ کو بہت اچھّی لگ رہی تھی۔ رضوان اور عمران ایک صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے جس کی پُشت بہت اُونچی اور خُوب صُورت تھی۔ یہ صوفہ سفید چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ وہ دونوں اُس دُھن میں کھو گئے تھے۔ دُھن آہستہ آہستہ تیز ہوتی چلی گئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سمندر بپھرنے لگا ہے۔ شازیہ کو ایسا لگ رہا تھا جیسے ہر طرف کالے بادل آ گئے ہیں۔ اچانک وکٹوریہ نے دُھن ختم کر دی۔
شازیہ ایک دم بول اُٹھی۔ ’’واہ واہ۔ بہت خُوب صُورت دُھن بجائی ہے تُم نے وکٹوریہ! میں نے آج تک کسی لڑکی کو ایسا خوب صورت پیانو بجاتے نہیں سُنا۔‘‘
وکٹوریہ کے چہرے پر پہلی بار مُسکراہٹ نظر آئی۔ وہ بولی۔ ’’میں پیانو بجانے کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنا چاہتی تھی مگر اُنہوں نے روک دیا اور کہا کہ اِس طرح وقت اور پیسہ ضائع ہو گا۔ بہت بڑے ہیں وہ ظالم!‘‘
رضوان نے یہ دیکھ کر کہ اُس کا موڈ بُری طرح خراب ہو گیا ہے، جلدی سے کہا۔ ’’ہمیں کوئی کھیل کھیلنا چاہیے۔ میری تو ٹانگیں بیٹھے بیٹھے دُکھنے لگی ہیں۔‘‘
’’ہاں، آؤ آنکھ مچولی کھیلیں۔‘‘ شازیہ بولی۔
’’آنکھ مچولی! میں کوئی بچّی تو نہیں ہوں۔‘‘
عمران نے کہا۔ ’’اِس جگہ اِس کھیل میں بڑا مزہ آئے گا۔ یہاں چھُپنے کے لیے بہت سی جگہیں ہیں۔ رضوان اور میں ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ تُم اور شازیہ دوسری طرف۔ ایک جوڑا چھُپے گا، دوسرا تلاش کرے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ وکٹوریہ تیّار ہو گئی۔ شروع میں تو مزہ نہ آیا کیوں کہ وکٹوریہ کو یہ کھیل نہیں آتا تھا۔ جیسے شازیہ نے کہا وہ کرتی رہی۔ جب اُس کو تلاش کیا جاتا تو وہ چھُپنے کی کوشش نہیں کرتی تھی۔ اِس سے عمران اور شازیہ بور ہو گئے۔ شاید وکٹوریہ کی نظروں میں یہ بچّوں کا کھیل تھا مگر پھر تھوڑی دیر میں اُس کا مُوڈ بدل گیا اور وہ اِس کھیل میں پُوری دِل چسپی لینے لگی۔ وہ بچّوں کی طرح سیڑھیوں پر چھلانگیں لگا رہی تھی۔ اُس کا چہرہ سُرخ ہو گیا تھا اور آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ زندگی بھر یہ کھیل کھیلتی رہی ہے۔ وہ رضوان اور شازیہ سے زیادہ شور مچا رہی تھی۔ ایک دو مرتبہ تو وہ اتنے زور سے ہنسی کہ شازیہ ڈر گئی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کہیں اُس شور کی آواز باہر نہ چلی جائے۔ اچانک وکٹوریہ کا رضوان کے پیچھے سیڑھیوں پر بھاگتے ہوئے پیر پھسلا اور وہ سیدھی اُس سنگِ مرمر کے ستون سے جا ٹکرائی جِس پر مجسّمہ رکھا ہوا تھا۔ اُس کی ٹکّر سے ستون گِر پڑا اور مجسّمے کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ وکٹوریہ کا چہرہ فق ہو گیا۔ وہ تینوں بھی پریشان ہو گئے تھے۔ وکٹوریہ خاموش کھڑی سامنے گھور رہی تھی۔ کُچھ دیر بعد عمران بولا۔ ’’کوئی بات نہیں۔ اِس کی مرمّت کی جا سکتی ہے۔ یہ دوبارہ جُڑ جائے گا۔‘‘
کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ مجسّمے کے اتنے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہو گئے تھے کہ کوئی جادُوگر ہی اُسے جوڑ سکتا تھا۔ وکٹوریہ رونے لگی۔ اُس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ عمران نے اُس کو تسلّی دیتے ہوئے کہا۔ ’’پلیز وکٹوریہ اِس طرح نہ روؤ۔ یہ بہت بُرا ہوا مگر تُم نے جان بُوجھ کر تو نہیں کیا۔ تمہارے دادا تُم سے خفا نہیں ہوں گے۔ اُن کے پاس اور بھی تو بہت سی چیزیں ہیں۔‘‘
وکٹوریہ نے سسکتے ہوئے کہا۔ ’’تُم نہیں سمجھ سکتے۔ تمہیں کُچھ نہیں معلوم۔‘‘
یہ کہہ کر وہ سیڑھیوں کے نیچے بیٹھ گئی۔ اُس کی بُری حالت تھی۔ اُس کے لمبے لمبے سیاہ بال چہرے پر بکھرے ہوئے تھے۔ وہ اِس بری طرح رو رہی تھی کہ شازیہ کا دِل چاہا کہ وہ بھی رو دے۔ پھر وکٹوریہ نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’یہ میں نے کیا کِیا… یہ میں نے کیا کِیا…کاش میں مر جاؤں۔‘‘
شازیہ نے سوچا کہ وکٹوریہ کے دادا بہت ہی غصّے والے ہوں گے جبھی تو یہ اِس قدر رو رہی ہے، ورنہ اُس کو اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ اُٹھ کر وکٹوریہ کے پاس بیٹھ گئی اور اُس سے بولی۔ ’’اگر تُم رونا بند کر دو تو میں یہ الزام اپنے سر لے لوں گی۔ میں کہوں گی کہ مجسّمہ مُجھ سے ٹوٹا ہے۔‘‘
وکٹوریہ نے آہستہ آہستہ اپنا سر اُٹھاتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔ ’’کیا واقعی تُم یہ قصور اپنے سر لے لو گی؟‘‘
شازیہ نے اقرار میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں، اِس سے کیا فرق پڑے گا۔ وہ مُجھے کُچھ نہیں کہیں گے۔‘‘
وکٹوریہ نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔ ’’بھلا تمہیں کیا ضرورت پڑی ہے یہ سب کرنے کی۔‘‘
عمران بولا۔ ’’بس ٹھیک ہے وکٹوریہ! شازیہ کہہ دے گی کہ یہ قصور اُس کا نہیں ہے تو میں کہہ دوں گا کہ میں نے یہ مجسّمہ توڑا ہے۔‘‘
وکٹوریہ نے حیرانی سے عمران کو دیکھا اور بولی۔ ’’میں صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ شازیہ میرا قصور کیوں اپنے سر لے گی؟
عمران نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’کیوں کہ اُسے تُم سے ہمدردی ہے۔ تُم اِتنی ڈر رہی ہو اور اِتنی خوف زدہ ہو، اِس لیے شازیہ تُم سے ہمدردی محسوس کر رہی ہے۔ تُم بے انتہا بُزدل ہو وکٹوریہ! تُم نے شازیہ کا شکریہ تک ادا نہیں کیا۔‘‘
وکٹوریہ کا چہرہ سُرخ ہو گیا۔ اُس کا مُنہ کھُلا اور بند ہو گیا۔ وہ کُچھ کہنا چاہ رہی تھی مگر کہہ نہیں پا رہی تھی۔ وہ کھڑی ہو گئی۔ شازیہ سوچ رہی تھی کہ وہ عمران سے لڑنے کو تیّار ہو رہی ہے مگر وہ بہت نرمی سے بولی۔ ’’مُجھے معاف کر دو۔ اِس سے پہلے کبھی کسی نے میرے ساتھ اِس طرح کی کوئی ہمدردی نہیں کی ہے۔ نہ کسی نے مُجھے پریشانی سے بچانے کی کوشش کی ہے۔‘‘
شازیہ کو یہ سُن کر بہت دُکھ ہوا۔ اُس نے آہستہ سے کہا۔ ’’چھوڑو وکٹوریہ! کوئی اور بات کرو۔ میرا خیال ہے یہاں سے یہ ٹوٹے ہوئے ٹکڑے ہٹا دیں۔ اِس جگہ کی صفائی کر دیں۔‘‘
وکٹوریہ بولی۔ ’’ہاں، یہ ٹھیک ہے۔ میں جھاڑو اور ڈسٹ بِن لے کر آتی ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ بھاگتی ہوئی نیچے چلی گئی۔ رضوان نے شازیہ کی طرف گھورتے ہوئے کہا۔ ’’مُجھے وکٹوریہ بالکل اچھّی نہیں لگی۔ مُجھے تو یہ بالکل خالہ صفیہ کی طرح لگتی ہے۔‘‘
شازیہ نے کہا۔ ’’جب وہ کھیل رہی تھی تو کتنی اچھّی لگ رہی تھی۔ اِسی دوران وکٹوریہ آ گئی اور اُس نے وہاں صفائی کر دی۔ عمران نے سنگِ مرمر کے اُس ستون کو دوبارہ کھڑا کر دیا۔ یہ ستون مجسّمے کے بغیر بالکل خالی خالی لگ رہا تھا۔ اچانک رضوان اُچھل کر بولا۔ ’’ہم دوسرا مجسّمہ لا کر اِس کے اوپر لگا دیں گے۔ پھر اُن کے غصّے والے دادا جی کا دھیان اِس طرف نہیں جائے گا۔‘‘
عمران نے کہا۔ ’’مگر ہم وہ مجسّمہ لائیں گے کہاں سے؟‘‘
’’شیرازی صاحب سے لیں گے۔ اُن کے پاس ڈھیروں مجسّمے ہیں۔ وہ یہ مجسّمے بیچنے کے لیے ہی تو بناتے ہیں تو وہ ہمارے ہاتھ کیوں نہیں بیچیں گے؟‘‘ رضوان نے جواب دیا۔
شازیہ نے کہا۔ ’’ہم اُن کو پیسے کہاں سے دیں گے؟ ایک مجسّمے کی قیمت پتا نہیں کتنی ہو گی۔‘‘
’’ہم اُن کو تھوڑے تھوڑے کر کے پیسے دے دیں گے۔ میرے پاس کُچھ پیسے ہیں۔‘‘ رضوان نے کہا۔
عمران نے رضوان سے کہا۔ ’’یہ پیسے بچا کر رکھنا۔ وکٹوریہ کے کام آئیں گے۔‘‘
شازیہ دوسرے انداز میں سوچ رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ وکٹوریہ کب تک اِس طرح چھُپی رہے گی۔ ایک نہ ایک دِن پکڑی جائے گی۔ وہ آخر بورڈنگ اسکول سے بھاگی تھی۔ اُس کے دادا خاموش تو نہیں بیٹھیں گے۔ وہ ایک حقیقت پسند لڑکی تھی اور صحیح بات سوچ رہی تھی۔
عمران نے کہا۔ ’’ہم لوگ اِس وقت تو وکٹوریہ کے لیے کھانا لے آئے ہیں۔ اسی طرح کل بھی تھوڑا تھوڑا کم کھا کر اِس کے لیے بچا لیں گے اور پھر لے آئیں گے۔‘‘
پھر اُس نے مُڑ کر کہا۔ ’’وکٹوریہ! اب ہم چلتے ہیں۔ کل پھر آئیں گے۔‘‘
وکٹوریہ نے جواب دیا۔ ’’ٹھیک ہے۔ کل ضرور آنا۔‘‘
’’تُم فکر نہ کرو وکٹوریہ! ہم ضرور آئیں گے۔ آخر کو ہمیں یہاں مجسّمہ بھی تو لگانا ہے۔‘‘
بچّوں کے جانے کے بعد وکٹوریہ گیراج میں انتظار کرتی رہی یہاں تک کہ اُن کی بولنے کی آوازیں اور اُن کے قدموں کی آوازیں بالکل ختم ہو گئیں۔ پھر وہ آہستہ سے باغ میں گئی مگر بجائے مکان کے اندر جانے کے اُس نے پِچھلے دروازے کو تالا لگا دیا اور چابی ایک پتھّر کے نیچے چھُپا دی۔ پھر وہ واپس گیراج کی طرف آئی۔ وہ باغ کی مدھم سی روشنی میں کِسی چور کی طرح رینگ رینگ کر اور اِدھر اُدھر دیکھ کر چل رہی تھی۔ پھر وہ کھڑکی پر چڑھی اور دوسری طرف کود گئی۔ اُس نے رک کر اِدھر اُدھر دیکھا، گلی میں جھانکا اور پھر بھاگتی ہوئی سمندر کی طرف چلی گئی۔
نُور جہاں بیگم کی دولت
رات کے کھانے پر رضوان نے ایک پروگرام بنایا اور پھر دِل میں فیصلہ کر لیا کہ شازیہ اور عمران کو نہیں بتاؤں گا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ وہ دونوں اس کی مخالفت کریں گے۔ اُنہیں بہت کُچھ معلوم نہیں تھا۔ مثال کے طور پر اُن دونوں کو یہ پتا نہ تھا کہ نُور جہاں بیگم کتنی امیر ہیں۔ اُسے یقین تھا کہ نُور جہاں بیگم نے اُس کو جو کُچھ بتایا ہے وہ سچ ہے۔ اُس نے سوچا کہ اگر وہ بہت زیادہ دولت مند ہیں تو پھر کیوں نہ اُن سے کُچھ رقم اُدھار لی جائے۔ رضوان کو یاد آیا ایک بار اُس کے ابّو نے بتایا تھا کہ بنک لوگوں کو رقمیں اُدھار دیتا ہے مگر وہ ابھی اتنا چھوٹا تھا کہ کوئی بنک اُس کو رقم نہ دیتا۔ ہاں! نُور جہاں بیگم اُس کو اُدھار دے سکتی تھیں، کیوں کہ وہ اُس کو بڑا آدمی سمجھتی تھیں۔ اُنہوں نے کبھی بھی اُس سے بچّوں والا سلوک نہیں کیا، بلکہ وہ ہر بار اُس سے ایسے انداز میں بات کرتی تھیں جیسے وہ کوئی بہت بڑا اور سنجیدہ آدمی ہے۔
رات کے کھانے کے بعد وہ آہستہ سے کھِسک گیا۔ اُس کا رُخ نُور جہاں بیگم کے کمرے کی طرف تھا۔ نُور جہاں بیگم اُس وقت گانا گا رہی تھیں اور ساتھ ہی اپنے پالتو کچھوے کو کیلا بھی کھلاتی جا رہی تھیں۔ وہ ہر رات اُس کو کیلا کھِلا کر صندُوق میں بند کر دیتی تھیں جہاں وہ آرام سے سوتا رہتا تھا۔ رضوان کو دیکھ کر وہ اپنے مخصوص انداز میں بولیں:
’’تشریف لائیے رضوان صاحب! کیا خیال ہے کوئی کھیل نہ ہو جائے؟‘‘
اُنہوں نے ڈرافٹ کے کئی کھیل کھیلے۔ زیادہ تر رضوان ہی جیتا تھا، مگر کبھی کبھی وہ جان بُوجھ کر ہار جاتا تھا تا کہ نُور جہاں بیگم محسوس نہ کریں۔ زیادہ اچھّا وقت وہ ہوتا تھا جب کھیل ختم ہونے کے بعد رضوان اسٹول پر بیٹھ جاتا اور نُور جہاں بیگم اُسے کہانیاں سُناتی تھیں۔ آج ڈرافٹ کھیلتے ہوئے رضوان نے نُور جہاں بیگم سے کہا:
’’اگلے ہفتے سے میں آپ کے پاس اِس طرح بار بار نہیں آیا کروں گا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ نُور جہاں بیگم نے حیرت سے پوچھا۔
’’چوں کہ میں مصروف ہو جاؤں گا۔‘‘
’’کس کام میں مصروف ہو جائیں گے آپ؟‘‘
’’پیسے کمانے میں۔‘‘
نُور جہاں بیگم بڑی حیرت سے رضوان کو دیکھ رہی تھیں۔ اُن کی تیز نظریں رضوان کو اپنے جسم میں اُترتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔
’’آپ پیسہ کیوں کمانا چاہتے ہیں؟ آپ کو کِس چیز کی ضرورت ہے رضوان صاحب؟‘‘
’’مُجھے کُچھ خریدنا ہے۔ اُس کے لیے مجھے رقم کی ضرورت ہے۔‘‘
’’اگر آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو آپ اپنی خالہ سے کیوں نہیں کہتے؟‘‘
’’خالہ خود غریب ہیں۔ وہ ہم لوگوں کا خرچہ مُشکل سے پورا کرتی ہیں۔ مناسب نہیں ہے کہ میں اُن سے کوئی فرمائش کروں؟‘‘
نُور جہاں بیگم نے اُس کو غور سے دیکھ کر کہا۔ ’’رضوان صاحب! آپ دھیان سے نہیں کھیل رہے ہیں۔ دیکھیے ہم نے آپ کی گوٹ پیٹ دی۔‘‘
پھر اُنہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’ہم یہاں کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہتے۔ مگر بہ ظاہر آپ کی خالہ جان کا کام ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ یہاں کا معیار اب وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ شاید بیگم نجم کسی دشواری میں گھِری ہوئی ہیں۔ خیر ہم نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔‘‘
پھر وہ خاموشی سے کھیلتے رہے۔ رضوان مسلسل ہار رہا تھا۔ شاید اس کی توجّہ کھیل کی طرف نہیں تھی۔ پھر نُور جہاں بیگم بولیں۔ ’’آپ کی خالہ غریب تو نظر نہیں آتیں۔ وہ بڑے عمدہ اور نفیس لباس پہنتی ہیں۔ غریب لوگ تو جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔‘‘
رضوان نے کہا۔ ’’اگر یہاں لوگ آ کر نہیں ٹھیرتے تو خالہ جان کو آمدنی بھی نہیں ہوتی۔ اگر اُن کو آمدنی نہیں ہو گی تو ہم فاقے کریں گے۔‘‘
نُور جہاں بیگم کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ اُنہوں نے کرسی سے اپنی کمر ٹِکاتے ہوئے کہا۔ ’’کیا خیال ہے؟ ایک گیم اور نہ ہو جائے۔‘‘
’’جیسی آپ کی مرضی۔ مگر آج میرا دِل نہیں چاہ رہا ہے۔‘‘
نُور جہاں بیگ نے رضوان کو غور سے دیکھا اور بولیں۔ ’’رضوان صاحب! کیا آپ ہم سے کُچھ مانگ رہے ہیں؟‘‘
زندگی میں پہلی بار رضوان کُچھ گھبرا سا گیا۔ نُور جہاں بیگم بڑی تیز نظروں سے اُسے گھُور رہی تھیں۔ پھر اُس نے ہمّت کر کے کہا۔ ’’نہیں، میں آپ سے صرف اُدھار لینا چاہتا ہوں۔ اگر ہو سکے تو۔ لوگ بینکوں سے بھی تو ادھار لیتے ہیں، اسی طرح میں آپ کو تھوڑے تھوڑے کر کے واپس کر دوں گا۔ میں دوسرے لوگوں کی طرح سمندر کے ساحل سے صدفی مچھلیاں اکٹھّی کر کے اُنہیں مچھلی والوں کے ہاتھ بیچ دیا کروں گا۔‘‘
’’واقعی؟ یہ تو بڑا اچھا کام ہے۔ ہم بھی جب چھوٹے سے تھے تو صدفی مچھلیاں جمع کرتے تھے۔‘‘
رضوان نے ٹھنڈی سانس بھری کیوں کہ اگر ایک بار نُور جہاں بیگم اپنی بچپن کی کہانیاں سُنانی شروع کرتیں تو پھر رُکنے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ مگر آج وہ خود ہی رُک گئیں اور رضوان سے بولیں۔ ’’رضوان صاحب! وہ سامنے کونے میں جو صندُوق رکھا ہوا ہے اُس کے پاس جائیے۔ یہ ہمارے ابّا حضور کا صندُوق ہے۔ اِس صندُوق پر ایک ریشمی کپڑا ڈھکا ہوا تھا، صندُوق میں پیتل کا سنہری اور چمک دار تالا لگا ہوا تھا۔ نُور جہاں بیگم نے اپنی گردن میں جھولتی ہوئی سنہری زنجیر سے چابی نکال کر رضوان کی طرف بڑھا دی۔ رضوان نے بڑی احتیاط کے ساتھ صندُوق کھولا۔ صندُوق ریشمی فیتوں میں لپٹے ہوئے بے شمار بنڈلوں سے بھرا ہوا تھا۔ نُور جہاں بیگم کی آواز آئی۔ ’’ایک طرف کپڑے کی ایک تھیلی ہے۔‘‘
رضوان نے ٹٹول کر وہ تھیلی باہر نکال لی۔ نُور جہاں بیگم نے کہا۔ ’’یہ تھیلی ہمارے پاس لے آئیے؟‘‘
رضوان صندُوق کو اور دیکھنا چاہتا تھا مگر نُور جہاں بیگم کی نظریں اُسی طرف تھیں، اِس لیے وہ تھیلی لے کر اُن کے پاس آیا۔ تھیلی کافی وزنی تھی۔ جب رضوان نے وہ اُن کی گود میں رکھی تو چھن چھن کی آواز آئی۔ نُور جہاں بیگم نے تھیلی کا مُنہ کھولا اور اُسے اپنی گود میں اُلٹ دیا۔ عجیب سے سِکّے تھے۔ رضوان نے اِس سے پہلے کبھی ایسے سِکّے نہیں دیکھے تھے۔ نُور جہاں بیگم نے ایک سِکّہ رضوان کی طرف بڑھا دیا۔
’’لیجیے یہ سِکّہ آپ کی مالی مُشکلات دور کرنے میں بڑی مدد دے گا۔‘‘ اُنہوں نے باقی سِکّے دوبارہ تھیلی میں ڈال دیے اور رضوان سے کہا کہ وہ اُس کو واپس صندُوق میں رکھ دے۔ پھر وہ ٹھنڈی سانس بھر کر بولیں۔ ’’رضوان صاحب! امیر لوگوں پر بہت ذمّے داریاں ہوتی ہیں۔ ایک بوڑھی عورت کے لیے یہ ذمّے داریاں بہت زیادہ ہیں۔‘‘
رضوان نے تھیلی کو صندُوق میں رکھ کر تالا لگایا اور چابی نُور جہاں بیگم کے حوالے کر دی۔ اُسے وہ ننھّا مُنّا سا سِکّہ جو نُور جہاں بیگم نے رضوان کو دیا تھا اپنی ہتھیلی میں بڑا ٹھنڈا اور سخت محسوس ہو رہا تھا۔ پھر وہ فکر مند ہو گیا۔ نُور جہاں بیگم کو پتا نہیں تھا کہ اُنہوں نے اُسے کِسی دوسرے ملک کا پُرانا سِکّہ دے دیا ہے جو بازار میں نہیں چل سکتا تھا۔ اور وہ اُن کو بتا بھی نہیں سکتا تھا۔ پھر بھی اُس نے نُور جہاں بیگم سے کہا۔ ’’آپ کا بہت بہت شکریہ۔ میں جلد ہی آپ کو واپس کر دوں گا۔‘‘
نُور جہاں بیگم نے بڑی شان سے کہا۔ ’’اِسے ایک تُحفہ سمجھ کر قبول کیجئے رضوان صاحب! یہ قرض نہیں ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیے کہ قرض دینا ایسا ہے جیسے کسی کے ہاتھ میں تیز دھار والا خنجر دے دیا جائے۔ یہ خنجر دوستی کو کاٹ دیتا ہے۔ یہ بات ابّا حضور نے ہمیں بتائی تھی۔‘‘
اِس کے بعد نُور جہاں بیگم کی کہانیوں کا سِلسِلہ چل پڑا جو کبھی ختم نہ ہوتا تھا۔ بیچ بیچ میں وہ سو جاتی تھیں اور پھر جاگتے ہی دوبارہ شروع ہو جاتیں۔ اچانک اُنہوں نے اپنا سر جھٹکا اور بولیں۔ ’’رضوان صاحب! آپ کی خالہ بہت غریب ہیں؟‘‘
’’ہاں، وہ بہت غریب ہیں۔ اُنہیں ہمارا پیٹ بھرنے کے لیے سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔‘‘
’’تو پھر آپ ہمارا ایک کام کر دیجیے۔ سامنے الماری میں کاغذ اور قلم دان رکھا ہے۔ آپ اُسے اُٹھا لائیے۔‘‘
الماری کھولنے پر رضوان کو ہاتھی دانت کا بنا ہوا ایک قلم دان نظر آیا اور کاغذ کا ایک پیڈ ملا جس سے بھینی بھینی خُوش بُو اُٹھ رہی تھی۔ اُس نے یہ چیزیں لا کر نُور جہاں بیگم کے برابر میں رکھی ہوئی میز پر رکھ دیں۔ اُنہوں نے کہا۔ ’’ذرا انتظار کیجیے۔ ہم ایک خط لکھ لیں۔‘‘
ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بڑی دیر میں خط مکمّل کریں گی کیوں کہ اُن کی انگلیاں لرزتی رہتی تھیں۔ اُن سے قلم پکڑنا مُشکل تھا۔ بار بار نِب کاغذ پر پھِسل جاتی تھی اور لکیریں پڑ رہی تھیں۔ خط مکمّل کرنے کے بعد اُنہوں نے لفافے پر پتا لکھا اور پھر خط اُس میں رکھ کر بند کر دیا۔ اُنہوں نے اپنی کمر کرسی سے ٹِکا لی۔ شاید وہ بہت تھک گئی تھیں۔ پھر وہ آنکھیں بند کیے کیے بولیں۔ ’’آپ یہ خط پوسٹ کر دیجیے۔ آج رات کو ہی۔ یہ خط ہم نے اپنے وکیل کو لکھا ہے۔ اچھّا اب ذرا اپنی خالہ صفیہ کو بُلا دیجیے۔ ہمیں نیند آ رہی ہے۔‘‘
رضوان نے خالہ کو آواز دے کر کہا کہ آپ کو نُور جہاں بیگم نے بُلایا ہے اور پھر ان کے آنے سے پہلے باہر چلا گیا، ورنہ خالہ اُس سے ضرور پوچھتیں کہ سونے کے وقت تُم کہاں جا رہے ہو۔
باہر اندھیرا تھا اور بارش ہو رہی تھی۔ رضوان قریبی لیٹر بکس کی طرف بھاگا چلا جا رہا تھا۔ لیٹر بکس کے برابر میں اسٹامپ مشین تھی۔ رضوان نے جیب سے تین پینس نکالے اور مشین میں ڈالے۔ مشین کے اندر سے ٹکٹ باہر نکل آیا۔ رضوان نے ٹکٹ لفافے پر چپکایا اور خط کو لیٹر بکس میں ڈال دیا۔ واپسی میں اُس کی نگاہ ایک دُکان پر پڑی جہاں تمباکو اور مِٹھائیاں بِکتی تھیں۔ وہ دُکان کے باہر کھڑا ہو گیا۔ نُور جہاں بیگم نے اُسے جو سِکّہ دیا تھا وہ نکال کر اُس نے ہاتھ میں پکڑ لیا۔
یہ بہت خُوب صُورت پیلے رنگ کا چمک دار سِکّہ تھا۔ اُس کی بناوٹ آدھے تاج کی سی تھی۔ اُس پر ایک گھُڑ سوار کی تصویر بنی ہوئی تھی جو اژدھے کو مار رہا تھا۔ یہ بے قیمت سِکّہ تھا۔ رضوان نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر سیدھا دُکان میں داخل ہو گیا۔
کاؤنٹر کے پیچھے ایک موٹی سی عورت کھڑی ہوئی تھی۔ رضوان نے اُس سے کہا۔ ’’کیا آپ اِس سِکّے کو بدل سکتی ہیں؟ مُجھے چاکلیٹ کا ایک پیکٹ چاہیے۔‘‘ عورت نے سِکّے کو غور سے دیکھا اور بولی، ’’نہیں بیٹے! ہم صرف انگلش سِکّے ہی لیتے ہیں۔‘‘
پھر عورت نے رضوان کے اداس چہرے کو دیکھا اور بولی ’’کیا تمہارے پاس اور کوئی سِکّہ نہیں ہے؟ کوئی بات نہیں تُم چاکلیٹ کا پیکٹ لے جاؤ۔‘‘
’’نہیں، نہیں، میں ایسا نہیں کروں گا۔‘‘ رضوان کا چہرہ سُرخ ہو گیا تھا۔ وہ پھر بولا۔ ’’میرے پاس انگلش سِکّے بھی ہیں مگر میں اُنہیں خرچ نہیں کرنا چاہتا۔ وہ میں نے کسی اور کام کے لیے رکھے ہیں۔‘‘
عورت زور سے ہنسی۔ وہ بڑی خوش مزاج تھی۔ ’’ٹھیک ہے تُم اپنی بچت کو اپنے پاس رکھو۔ چاکلیٹ لے جاؤ اور جب تمہارے پاس پیسے ہوں مُجھے دے دینا۔‘‘
رضوان نے دیکھا کہ اُس کی آنکھوں میں بڑی محبّت تھی، اِس لیے اُس نے اُس عورت کا دِل توڑنا مناسب نہیں سمجھا اور چاکلیٹ کا پیکٹ لے کر اُس کا شکریہ ادا کیا۔
دُکان سے باہر آ کر اُس نے پیکٹ کھولا اور دو چاکلیٹ ایک ساتھ مُنہ میں رکھ لیے، دونوں کلّوں میں۔ وہ سوچ رہا تھا کہ غریب نُورجہاں بیگم کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اُن کے پاس جو دولت ہے وہ کِسی کام کی نہیں۔ وہ تو خالہ صفیہ کی طرح غریب ہیں۔ پھر اُس نے سِکّے کو نِکال کر دیکھا اور محبّت سے دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’میں اِس سِکّے کو ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گا۔ یہ میری خوش قسمتی کا نشان ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دوڑتا ہوا گھر کی طرف چلا گیا۔
جب وہ واپس گھر پہنچا تو دروازہ کھلنے کی آواز پر خالہ صفیہ نے آواز دے کر کہا۔ ’’رضوان! تُم کہاں گئے تھے؟ یہ سونے کا وقت ہے یا گھومنے پھِرنے کا؟‘‘ اُس نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ خاموشی سے بلّی کی چال چلتا ہوا شیرازی صاحب کے شیڈ میں پہنچا۔ میز پر پتھّر کا ایک بڑا ٹکڑا رکھا ہوا تھا اور شیرازی صاحب کام میں مصروف تھے۔ رضوان نے کہا۔ ’’چچا شیرازی! کیا میں آپ کی چیزوں کو دیکھ سکتا ہوں؟‘‘
’’ہاں، ہاں۔ کیوں نہیں؟‘‘ شیرازی صاحب نے اُس کی طرف بغیر دیکھے جواب دیا۔ رضوان آہستہ آہستہ گھومنے لگا۔ شیلف پر چھوٹے چھوٹے مجسّمے رکھے ہوتے تھے اور آدھے مجسّمے بھی تھے۔ ایک مجسّمہ رضوان کو پسند آ گیا۔ یہ ایک افریقی لڑکے کا سر اور کندھوں تک کا مجسّمہ تھا جو بالکل رضوان کے افریقی دوست تھامس کی طرح تھا۔ کافی دیر تک رضوان اُس مجسّمے کو دیکھتا رہا اور پھر بولا۔ ’’چچا شیرازی! آپ اپنے بنائے ہوئے مجسّمے بیچتے ہیں۔ ایک مجسّمہ میرے ہاتھ بیچیں گے؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ شیرازی صاحب تیزی سے گھُومے۔ اُن کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔ پھر اُنہوں نے مُسکراتے ہوئے کہا۔ ’’تمہیں کون سا مجسّمہ پسند ہے؟‘‘
’’یہ۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
رضوان نے جواب دیا۔ ’’یہ میرے افریقی دوست سے ملتا جُلتا ہے۔‘‘
شیرازی صاحب نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔ اگر تُم اِس کو ہر وقت دیکھنا چاہتے ہو تو جب تمہارا دِل چاہے آ جایا کرو۔ یہ یہاں اِسی طرح رکھّا رہے گا جس طرح تمہارے کمرے میں۔‘‘
رضوان نے کہا۔ ’’میرا مطلب یہ نہیں ہے۔ میں اِسے صرف اپنے لیے خریدنا چاہتا ہوں۔‘‘
شیرازی صاحب کے قہقہے سے وہ جگہ گُونجنے لگی۔ پھر اُن کی ہنسی کم ہو گئی تو وہ بولے۔ ’’ٹھیک ہے رضوان! میں تیّار ہوں۔ تُم مُجھے اِس مجسّمے کا کیا دو گے؟‘‘
رضوان بڑی اکڑ کے ساتھ بولا۔ ’’میرے پاس زیادہ رقم نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ میں آپ کو اِس کی ادائی آسان قسطوں میں کر دوں گا جس طرح ٹیلے وژن وغیرہ کی کی جاتی ہے۔ میں پیسہ کما سکتا ہوں۔‘‘
شیرازی صاحب اپنی ٹھوڑی کھُجانے لگے۔ وہ مُنہ سے کُچھ نہ بولے۔
رضوان نے کہا۔ ’’میں سچ کہہ رہا ہوں۔ میں محنت سے کام کروں گا۔ میں صدفی مچھلیاں جمع کر کے بیچوں گا اور آپ کی رقم لوٹاتا رہوں گا۔ اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے لیے بھی کام کر سکتا ہوں۔ میں آپ کے ورکشاپ کی صفائی کر دیا کروں گا۔‘‘
’’نہیں، نہیں۔‘‘ شیرازی صاحب جلدی سے بولے۔ ’’ورکشاپ کی بات چھوڑو۔ کیا تم صدفی مچھلیاں جمع کر سکتے ہو؟ اگر جمع کرو تو میرے لیے بھی لے کر آنا۔ اُس کی رقم میں کاٹتا رہوں گا۔‘‘
پھر شیرازی صاحب بولے۔ ’’یہ ایک آسان سودا ہے۔ چھے پینس ایک دن میں۔ اِس مجسّمے کی قیمت 57 پاؤنڈ ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ…‘‘
’’ایک پاؤنڈ کے لیے آٹھ ہفتے لگیں گے۔ رضوان نے جلدی سے حساب لگا کر بتایا۔
شیرازی صاحب نے اُسے تعریفی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’57 پاؤنڈ ادا ہونے میں کتنا وقت لگے گا؟‘‘
رضوان نے آنکھیں بند کر کے حساب لگایا اور پھر بولا۔ ’’چھے سو ہفتے۔ یہ تقریباً بارہ سال کے برابر ہوتے ہیں۔‘‘
’’بہت خوب۔ مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ تمہارے پاس کیا ہے۔ تُم پیشگی کیا جمع کروا رہے ہو؟‘‘ شیرازی صاحب نے کہا۔
نہ چاہتے ہوئے بھی رضوان نے کُچھ سِکّے نکال کر شیرازی صاحب کو دیے۔ شیرازی صاحب نے کھنکار کر اپنا گلا صاف کیا اور بولے۔ ’’ٹھیک ہے۔ اب تُم کام شروع کر دو۔‘‘
رضوان نے کہا۔ ’’اِن سِکّوں کے علاوہ میرے پاس ایک سِکّہ اور بھی ہے۔ وہ نُور جہاں بیگم نے مُجھے دیا ہے۔ آپ یہ سِکّہ لے لیں۔ یہاں تو یہ کسی کام کا نہیں۔ مگر باہر کے کِسی مُلک میں یہ آپ کے کام آئے گا۔‘‘
شیرازی صاحب جلدی سے بولے۔ ’’نہیں، نہیں۔ وہ سِکّہ بیگم صاحبہ نے تُم کو دیا ہے۔ وہ تُم اپنے پاس رکھو۔ اِس بڑھاپے میں اُنہوں نے سِکّے نکالنے شروع کر دیے آخر۔‘‘ کہہ کر شیرازی صاحب زور سے ہنسے۔
رضوان نے کہا:
’’ان کے پاس اِس جیسے ڈھیروں سِکّے ہیں۔ میں نے خود دیکھے ہیں۔‘‘
خوب پکڑے گئے
اگلے روز پُر اسرار مکان کے باغ میں وکٹوریہ اُن کا انتظار کر رہی تھی۔ اُس وقت وہ بالکل پریشان نظر نہیں آ رہی تھی۔ اُن کو دیکھ کر وہ خوش ہو گئی۔
’’میں سوچ رہی تھی کہ اب تُم لوگ نہیں آؤ گے۔‘‘ شازیہ نے اُسے بتایا۔ ’’ہم انتظار کر رہے تھے کہ خالہ کمروں کی صفائی کرنے اُوپر چلی جائیں اور پھر ہمیں یہ بھی تو لے کر مکان سے باہر آنا تھا نا!‘‘
رضوان نے اپنے ہاتھوں میں کوئی بہت بڑی اور بھاری سی چیز پکڑ رکھی تھی۔ وہ اُس کو اتنی احتیاط سے لا رہا تھا جیسے انڈوں کی ٹوکری ہو۔
وکٹوریہ نے پوچھا۔ ’’یہ کیا ہے؟‘‘
شازیہ نے بڑے پُر اسرار انداز میں کہا۔ ’’خود دیکھ لو مگر ٹھیرو۔ پہلے تُم باورچی خانے میں جاؤ۔ جب ہم تیّار ہوں گے تو آواز دیں گے۔ تُم آ جانا۔‘‘
وہ باورچی خانے سے گُزر کر اوپر گئے اور پھر ہال میں پہنچ گئے۔ رضوان نے آہستہ سے وہ بنڈل فرش پر رکھ دیا اور پھر اس پر سے کاغذ ہٹا دیا۔ عمران نے آگے بڑھ کر بڑی احتیاط سے افریقی لڑکے کا آدھا مجسّمہ اُٹھایا اور سنگِ مرمر کے خالی ستون کے اوپر رکھ دیا۔ پھر اُس نے وکٹوریہ کو آواز دے کر بُلایا۔ وکٹوریہ جیسے ہی ہال میں داخل ہوئی اُس کی نِگاہ اُس مجسّمے پر پڑی۔ وہ تو اُس کو دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ ’’خوب صورت… بہت ہی خوب صورت۔‘‘ اُس نے بہت مدھم آواز میں سرگوشی کی۔ پھر عمران نے اُسے چونکا دیا:
’’میں تمہارے لیے ناشتا لایا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے پیکٹ اُس کی طرف بڑھا دیا۔ ’’مُجھے افسوس ہے کہ انڈا ٹھنڈا ہے اور میں چمچہ بھی لانا بھول گیا۔ یہاں الماری میں پلیٹیں، چمچے اور پیالے رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
وکٹوریہ اُس کے پیچھے پیچھے ڈائننگ روم میں آ گئی۔ اُس نے عمران سے کہا۔ ’’یہ برتن بہت قیمتی ہیں۔‘‘
’’تو کیا ہوا۔ ہیں تو تمہارے۔ تمہارے دادا اِس کا بالکل بُرا نہیں مانیں گے۔‘‘ شازیہ نے کہا۔
الماری کے دروازے میں تالا نہیں لگا ہوا تھا۔ شازیہ نے دروازہ کھول کر ایک بہت خُوب صُورت پلیٹ نکالی جِس کے کناروں پر ہرے اور سنہری پھول پتّے بنے ہوئے تھے۔ پھر اُس نے گلاس اور کپ بھی نکالے اور وکٹوریہ سے بولی۔ ’’اس آرام کرسی پر بیٹھ جاؤ۔ تُم بالکل ملکہ لگو گی۔‘‘
’’اور ہم تمہارے چاروں طرف خادموں کی طرح ہاتھ باندھے کھڑے رہیں گے۔‘‘ رضوان نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’نہیں، نہیں۔ میں یہ نہیں کر سکتی۔‘‘ وکٹوریہ کی آواز میں اتنا ڈر اور خوف تھا کہ وہ تینوں چونک کر اُسے دیکھنے لگے۔ شازیہ اور عمران بھی اُس کی یہ حالت دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ رضوان ایسے موقع پر گھبرانے والا نہیں تھا۔ وہ بڑی اکڑ کے ساتھ بولا۔ ’’بے وقوفی کی حرکتیں نہ کرو۔ اِن برتنوں میں کھانے میں کوئی ہرج نہیں ہے، تُم کوئی بچّی تو نہیں ہو جو اِس طرح ڈر رہی ہو۔‘‘
وکٹوریہ مُسکرا دی۔ وہ خاموشی سے کرسی میں بیٹھ گئی مگر ایک کنارے پر۔ اُس نے ناشتا کرنا شروع کر دیا۔ وہ بالکل اِس طرح کھا رہی تھی جیسے پیٹ بھرے کھاتے ہیں، آہستہ آہستہ اور بے دِلی سے۔ عمران نے شازیہ کو ٹہوکا دیتے ہوئے کہا: ’’چلو، ذرا بالا خانے تک ہو آئیں۔‘‘ پھر اُس نے وکٹوریہ سے کہا۔ ’’جب تک تُم ناشتا ختم کرو، ہم اُوپر ہو کر آتے ہیں۔‘‘
چکّر دار زینوں پر چڑھتے ہوئے عمران نے شازیہ کو بتایا کہ یہ بڑا عجیب سا لگتا ہے کہ ایک آدمی کھا رہا ہو اور باقی اُسے دیکھ رہے ہوں۔
رضوان نے کہا۔ ’’مُجھے تو وہ بالکل بھی بھُوکی نہیں معلوم ہو رہی تھی۔‘‘
’’زیادہ بھوک ہونے کی حالت میں بھی کھانا مُشکل ہو جاتا ہے۔ میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ جب آدمی بہت زیادہ بھُوکا ہوتا ہے تو وہ فوراً ہی کھانا شروع نہیں کرتا۔ اِسی لیے زیادہ لمبے فاقے کے بعد اکثر ٹھوس غذا کے بجائے کوئی پتلی غذا دینی چاہیے، جیسے جوس وغیرہ۔‘‘
شازیہ نے کہا۔ ’’وہ فاقہ زدہ نہیں ہے۔ کل ہم اُس کے لیے کھانا، ناشتا اور چائے لائے تھے۔‘‘
عمران نے کہا۔ ’’وہ بہت زیادہ تو نہ تھا۔ صرف چند سینڈوچ تھے۔‘‘
اس وقت عمران کو بھُوک لگ رہی تھی۔ اُسے وہ اُبلا ہوا انڈا یاد آ رہا تھا جو اُس نے خالہ صفیہ کے گھومتے ہی اپنی جیب میں رکھ لیا تھا اور پھر وکٹوریہ کے لیے لے آیا تھا۔
رضوان نے کہا۔ ’’یہاں کیا کرنے آئے ہیں ہم؟ سردی بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘
واقعی بہت سردی تھی۔ سورج نہیں نکلا تھا۔ چھت والا کمرا اُجاڑ اور اُداس اُداس سا لگ رہا تھا۔ آسمان پر دُھند اور کُہر چھائی ہوئی تھی۔ عجیب بے رنگ سا موسم تھا۔
عمران نے کہا۔ ’’ہمیں آگ جلانی چاہیے۔ تہہ خانے میں لکڑیاں پڑی ہوئی ہیں۔ اُن میں کُچھ نکال کر ہم باغ کے راستے یہاں لا سکتے ہیں۔‘‘
شازیہ نے کہا۔ ’’چمنی میں سے دھواں نِکلتا دیکھ کر لوگ اِس طرف متوجّہ نہیں ہو جائیں گے ؟‘‘
’’خیر آگ کا مسئلہ ہم حل کر لیں گے۔ تُم اور وکٹوریہ مل کر اِس کمرے کی صفائی کرو۔ یہ عورتوں کا کام ہے۔‘‘ عمران نے بڑی اکڑ کے ساتھ کہا۔
شازیہ بے دِلی کے ساتھ نیچے چلی گئی۔ وکٹوریہ اُس سے عمر میں کافی بڑی تھی اِس لیے اُس کے ساتھ رہنے اور کھیلنے میں شازیہ کو مزہ نہیں آ رہا تھا۔ کل آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے بھی شازیہ کو وہ بالکل اچھّی نہیں لگ رہی تھی۔ شازیہ سوچ رہی تھی کہ وکٹوریہ میرے ساتھ چھت والا کمرا صاف کرنے پر تیّار نہیں ہو گی۔ اور اُس کا خیال صحیح نکلا۔ اُس کی یہ بات سُن کر وکٹوریہ کا مُنہ کھُلا کا کھُلا رہ گیا۔ اُس نے کہا۔ ’’کیا مطلب… کیا تُم اور میں… میرا مطلب ہے ہم… اُس گندے سے… کمرے کو صاف کریں گے۔ مُجھے گھر کا کام کاج کرنا بالکل پسند نہیں۔ سمجھیں تُم!‘‘
شازیہ آہستہ سے بولی۔ ’’مُجھے یہ کام کرنا کُچھ کُچھ اچھّا لگتا ہے۔ افریقہ میں میں نے اِس طرح کا کوئی بھی کام نہیں کیا تھا۔ اِس کے باوجود مُجھے بستر تیّار کرنا اور کپڑے دھونا بہت اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’مگر میں کُچھ نہیں کروں گی۔‘‘ وکٹوریہ نے بڑی بد تمیزی سے کہا۔ ’’میں پہلے ہی بہت کُچھ…‘‘ اچانک وہ ایسے خاموش ہو گئی، جیسے کوئی غَلَط بات اُس کے مُنہ سے نِکل گئی ہے۔ شازیہ سوچتی رہی کہ اُس کا رویّہ اِتنا عجیب کیوں ہے۔ پھر اُسے خیال آیا کہ بورڈنگ اسکول میں وہ گھریلو کام کاج کرنا تو سکھاتے نہیں اِسی لیے وکٹوریہ کو کوئی کام کرنے کی عادت نہیں ہے۔ اُس نے آہستہ سے کہا:
’’کوئی بات نہیں۔ یہ تو صرف ایک کھیل ہے۔ ہم کھیل ہی کھیل میں کمرے کی صفائی کر لیتے۔ کوئی زبردستی نہیں ہے۔ اگر تُم کو یہ اچھّا نہیں لگتا تو چھوڑو۔‘‘ یہ کہہ کر شازیہ اُوپر کی طرف چل دی۔
وکٹوریہ نے کُچھ سوچا اور پھر وہ بھی اُس کے پیچھے پیچھے چل دی۔ اوپر جا کر شازیہ نے برش سے کمرے کی صفائی شروع کر دی۔ پہلے تو وکٹوریہ کھڑی اُسے دیکھتی رہی اور پھر بولی۔ ’’ہٹو یہاں سے۔ مُجھے برش دو۔ میں تُم سے زیادہ تیزی سے صفائی کر سکتی ہوں۔‘‘ وہ واقعی بہت تیزی اور زیادہ صفائی سے کام کر رہی تھی، بالکل خالہ صفیہ کی طرح۔ جب فرش بالکل صاف ہو گیا تو اُس نے کھڑکی سے مٹّی صاف کی اور ہنستے ہوئے بولی۔ ’’اب کیا کرنا ہے؟‘‘
لڑکے پہلے ہی آگ جلا چُکے تھے۔ وکٹوریہ نے آگ کے پاس اپنے ہاتھ لا کر آپس میں رگڑے۔ اِس سے اُس کے ہاتھوں میں گرمی آ گئی تھی۔ پھر وکٹوریہ بولی۔ ’’ایسا کرتے ہیں نیچے چل کر کُچھ اور لکڑیاں لے آتے ہیں تاکہ یہ آگ جلتی رہے۔‘‘
وہ سب فوراً تیّار ہو گئے۔ وہ نیچے اُترے اور جب ہال میں پہنچے تو اُنہیں ایسا لگا کہ جیسے کسی نے اُن کا دم نکال دیا ہو۔ اُن کی سانسیں رُک گئیں۔ سامنے والے دروازے کے دوسری طرف کوئی چل رہا تھا۔ کِسی نے تالے میں چابی لگائی۔ وکٹوریہ بھاگ کر واپس سیڑھیوں پر پہنچی۔ وہ تینوں وہاں گُم سُم کھڑے ہوئے تھے۔ عمران کا چہرہ سفید پڑ گیا تھا۔
رضوان نے کہا۔ ’’چھُپ جاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ عمران کا ہاتھ پکڑ کر اُس کو گھسیٹتا ہوا ڈائننگ روم میں لے گیا۔ کھڑکی کے پاس ایک بڑا صوفہ رکھا ہوا تھا۔ خطرے کے موقعوں پر رضوان کا ذہن بہت تیزی سے کام کرتا تھا۔ اُس نے عمران کا بازو پکڑا اور اُسے لے کر صوفے کے نیچے گھُس گیا۔ شازیہ کا اِرادہ بھی صوفے کے نیچے چھُپنے کا تھا مگر دیر ہو چُکی تھی۔ دروازہ بہت زور دار دھماکے کے ساتھ کھُلا۔ شازیہ بھاگ کر ڈائننگ روم کے دروازے کے پیچھے چھُپ گئی۔ کوئی ہال میں داخل ہوا۔ وہ شاید دو تھے اِس لیے کہ ایک دوسرے سے کُچھ کہہ رہا تھا۔ ایک آدمی کی آواز آئی:
’’مسٹر رینالڈ! یہ بے تُکی بات ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ مکان بند ہے۔ خواہ مخواہ کا شک شُبہ آپ کو پریشانی میں ڈال دے گا۔‘‘
’’پھر دھواں کیسا ہے؟‘‘ دوسرا آدمی جو یقینا مسٹر رینالڈ ہو گا، بولا۔ ’’یقینامسز کلارک اندر ہوں گی۔‘‘
’’مگر وہ تو بیمار تھی۔ اُس کی کمر میں درد تھا۔ اُس کے شوہر نے کہا تھا کہ وہ ایک دو ماہ تک کام نہیں کر سکے گی۔‘‘ پہلی آواز آئی۔
’’اس نے میری غیر حاضری سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ آج کل کسی پر بھروسا کرنا بڑا مُشکل ہے۔‘‘ رینالڈ کی آواز میں بہت غصّہ تھا۔ ’’ٹھیک ہے مسٹر جیکسن! ہم گھُوم کر ہر طرف کا جائزہ لیں گے۔‘‘
قدموں کی آواز ہال کے پاس آتی گئی اور پھر ختم ہو گئی۔ شازیہ سوچ رہی تھی کہ وہ ڈائننگ روم کے دروازے کے پاس کھڑے ہوئے ہیں۔ اُس نے اپنی سانس روک لی اور دیوار کے ساتھ چپک گئی۔ اُس کی کوشش تھی کہ کسی طرح بالکل نظر نہ آئے۔ وہ اب اتنے قریب آ گئے تھے کہ اُن کی سانس لینے کی آوازیں اُسے صاف سُنائی دے رہی تھیں۔
اچانک رینالڈ کی آواز سُنائی دی: ’’جیکسن! دیکھو وہ بد معاش میرے قیمتی برتن استعمال کر رہا ہے۔ یہ قیمتی برتن… اوہ میرے اللہ…‘‘ اُس کی آواز تیز غصّے میں بدل گئی۔
جیکسن نے کہا۔ ’’سر! کوئی پلیٹ برتن ٹوٹا تو نہیں ہے نا!‘‘ وہ بڑے مؤدب انداز میں اُس سے بات کر رہا تھا۔
’’نہیں، یہی غنیمت ہے۔ ہر جگہ کو اچھّی طرح دیکھو۔ کیا کیا نقصان ہوا ہے۔ اس کے بعد میں انشورنس کمپنی اور پولیس دونوں کو ایک ساتھ بُلاؤں گا۔‘‘
دروازے کے پیچھے شازیہ لرز رہی تھی۔ وہ اتنی بُری طرح کپکپا رہی تھی کہ اُسے خیال آیا کہیں میری کپکپاہٹ کی آواز وہ سُن نہ لیں۔ پتا نہیں عمران اور رضوان کا کیا حال ہو گا۔ اگر یہ لوگ صوفے کی طرف گئے تو رضوان اور عمران ہر حالت میں اُنہیں نظر آ جائیں گے۔ پھر مسٹر رینالڈ کی آواز آئی:
’’میرا خیال ہے کہ ہمیں پہلے پولیس کو اِطلاع کرنی چاہیے۔ میں یہاں انتظار کروں گا اور جیکسن! تُم سیدھے پولیس اِسٹیشن جاؤ اور ایک کانسٹیبل کو ساتھ لے کر آؤ، ہر حالت میں وہ تُم کو ٹالنے کی کوشش کریں تو ٹلنا نہیں۔ اُن سے کہنا کہ میرے مکان کا تالا توڑ دیا گیا ہے اور بہت سا نقصان ہوا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مجرموں کو فوراً گرفتار کیا جائے۔‘‘
وہ بڑے غصّے میں بول رہا تھا اور شازیہ مُٹھّیاں کسے سُن رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کِسی پولیس والے کے ہاتھوں پکڑا جانا بہت ہی افسوس کی بات ہو گی۔ حال آں کہ وہ بہت خوف زدہ تھی مگر اُسے مسٹر رینالڈ پر غصّہ بھی بہت آ رہا تھا۔ مسٹر رینالڈ نے نقصان کے اُلٹے سیدھے اور بے بُنیاد الزامات لگا دیے تھے جب کہ اُنہوں نے ہر کام ہوشیاری اور دھیان سے کیا تھا اور بالا خانے کو تو بالکل صاف ستھرا کر دیا تھا۔ اچانک وہ دروازے کے پیچھے سے نکل آئی اور بولی:
’’یہاں کوئی چور نہیں مسٹر رینالڈ! یہاں صرف ہم ہیں۔‘‘
اُس نے اپنے سامنے ایک لمبے اور نوجوان آدمی کو دیکھا جو شوفر جیسی وردی پہنے ہوئے تھا۔ اُس کے بالکل سامنے چھوٹے قد کا ایک بُوڑھا کھڑا ہوا تھا جو موٹا اور سیاہ کوٹ پہنے ہوئے تھا۔ اُس نے گلے تک بٹن لگائے ہوئے تھے۔ اُس کے سر پر ایک سیاہ ہیٹ تھا جو اُس کے ماتھے پر جھُکا ہوا تھا۔ اُس کی ناک کسی عُقاب کی چونچ کی طرح لمبی اور مُڑی ہوئی تھی۔ اُس کی نگاہیں شازیہ پر جم گئیں۔ اُس آنکھیں انگارے برسا رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ شازیہ کو کچّا چبا جائے گا۔ شازیہ بڑی بے فکری سے اُن کے سامنے کھڑی رہی۔ اچانک وہ جیسے پھٹ پڑا:
’’کون ہو تم؟ اور یہ تُم نے کیا کہا کہ ہم، کیا تُم اکیلی نہیں ہو۔‘‘
صوفے کے نیچے سے کھڑبڑاہٹ کی آواز سُنائی دی۔ چادر ہٹی اور عمران نکل کر باہر آ گیا۔ اُس کا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا۔ وہ دھول میں اَٹ گیا تھا۔ اُس کے پیچھے رضوان بھی اُسی حُلیے میں بر آمد ہوا۔
مسٹر رینالڈ نے کہا۔ ’’جیکسن! آوارہ گردوں کا پورا گروہ ہے یہ۔‘‘ پھر وہ شازیہ کی طرف مُڑ کر بولا۔ ’’اب بتاؤ۔ تُم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘ پھر اس نے ڈرامائی انداز میں کہا۔ ’’نہیں، نہیں۔ مُجھے بتا کر کیوں میرا وقت خراب کرو۔ پولیس تُم سے خود ہی پوچھ لے گی۔ بتائیے مُلک کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ کوئی شخص اپنے مکان کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘
جیکسن نے بڑی نرم آواز میں کہا۔ ’’مسٹر رینالڈ! بے کار غصّہ نہ کریں۔‘‘ مگر بُوڑھے نے اُس کی بات پر کوئی توجّہ نہ کی۔ وہ سخت غصّے میں تھا۔
شازیہ نے تیز لہجے میں کہا۔ ’’ہم آوارہ گرد نہیں ہیں۔ ہم برابر والے مکان سے آئے ہیں۔‘‘
’’اوہ! برابر والے مکان سے آئے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ لوگ بڑے با عزّت ہیں۔ خیر، مُجھے بتاؤ کہ تُم لوگ یہاں کیاکر رہے ہو۔‘‘
’’کھیل رہے ہیں۔‘‘ شازیہ نے جواب دیا۔
’’کھیل رہے ہیں میری قیمتی چیزوں سے؟‘‘
عمران آگے بڑھ کر بولا۔ ’’ہم چھت والے کمرے میں کھیل رہے تھے۔ ہم نے سوچا کہ یہ ٹھیک ہے، کیوں کہ شاید برسوں سے یہ کمرا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ وہاں پر خالہ صفیہ کی بہت سی چیزیں آج تک موجود ہیں۔ یقین کیجئے، ہم نے کسی چیز کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے۔ ہم نے آپ کی تمام تصویروں اور پینٹنگز کا خاص خیال رکھا ہے۔ آگ کے سامنے بیٹھنے کے لیے ہم نے آپ کا ایک کمبل لیا تھا۔‘‘ پھر اُسے خیال آیا کہ وہ ٹوٹا ہوا مجسّمہ تو بھول ہی گیا۔
مسٹر رینالڈ نے اُچھلتے ہوئے کہا۔ ’’تُم نے آگ بھی جلائی؟ جیکسن! سُنا تُم نے؟ یہ مکان کو جلا کر راکھ کر دینا چاہتے تھے۔ فوراً پولیس کو بلاؤ۔ پتا نہیں اُنہوں نے یہاں کیا کِیا ہے۔ تالا توڑا، اندر داخل ہوئے، توڑ پھوڑ مچائی اور آگ لگانے کی کوشش کی۔ یہ سب چور ہیں۔‘‘
عمران نے بھی اکڑ کر کہا۔ ’’ہم چور نہیں ہیں۔‘‘
’’تو پھر تُم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ اُس کی تیز آنکھیں اُن تینوں پر گھومتی رہیں اور پھر رضوان پر جم کیں۔ ’’تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘
رضوان کے ہاتھ میں وہی چھوٹا سا ہرا گھوڑا تھا جو اُس نے صوفے کے نیچے چھُپتے وقت جیب سے نکال لیا تھا۔ وہ اُس کے چُبھ رہا تھا۔ رینالڈ رضوان پر اُس طرح جھپٹا جیسے کسی چوہے پر باز جھپٹتا ہے اور اُس کے ہاتھ سے گھوڑا چھین لیا۔ اُس نے وہ گھوڑا پکڑ کر سخت غصّے سے کہا۔ ’’ہم چور نہیں ہیں! تو پھر یہ تمہارے پاس کیسے آیا؟ تُم نے اِسے چوری کیا ہے۔ تُم نے! ننّھے چور۔ تُم نے اِسے میری الماری سے چُرایا ہے۔‘‘
’’میں نے اِسے نہیں چُرایا ہے۔ یہ میرا ہے۔ مُجھے معلوم ہے کہ آپ کے پاس بھی ایسا گھوڑا ہے مگر یہ وہ نہیں ہے۔ یہ مُجھے…‘‘
مسٹر رینالڈ نے کہا۔ ’’بڑی عمدہ کہانی گھڑی ہے تُم ہے۔ اِس قسم کی قیمتی چیز کسی بچّے کو کوئی بھلا کیوں دے گا۔ اِس نے سنہری کمانی والا چشمہ لگایا اور گھوڑے کا جائزہ لینے لگا۔ وہ اُس پر بڑے پیار سے ہاتھ پھیر رہا تھا۔
’’یہ نُور جہاں بیگم نے مُجھے دیا ہے۔‘‘ رضوان بولا۔
’’میرا خیال ہے تُم بہت گستاخ ہو۔‘‘ مسٹر رینالڈ بولے۔ ’’جیکسن! اِن بچّوں کو پولیس اسٹیشن لے چلو۔ میں اِن پر تالا توڑ کر مکان میں داخل ہونے کے جُرم میں مقدمہ چلاؤں گا۔ میں اُوپر جا کر ذرا اپنی چیزوں کا جائزہ لے لوں۔ میں اپنی کھوئی ہوئی چیزوں کی مکمّل فہرست انسپکٹر کو پیش کروں گا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ مُڑا اور ڈائننگ روم سے باہر چلا گیا۔ شازیہ نے دوڑ کر اس کا بازو پکڑ لیا اور بولی، پلیز، پلیز مسٹر رینالڈ! ہمیں پولیس کے حوالے نہ کریں۔ آپ اوپر جا کر سب چیزیں چیک کر لیں۔ آپ کی کوئی چیز کم نہیں ہو گی۔ یہ گھوڑا رضوان کا ہے۔ یہ آپ کے گھوڑے کی طرح قیمتی نہیں ہے۔ یہ تو…‘‘
مسٹر رینالڈ نے کُچھ نہیں کہا۔ اُس نے جھٹکے سے اپنا بازو شازیہ کے ہاتھ سے چھڑایا اور اوپر چلا گیا۔ جیکسن نے اُس کے جانے کے بعد نرمی سے کہا:
’’اُس کو زیادہ غصّہ نہ دِلاؤ بچّو! اگر اُس کی کوئی چیز کم نہیں ہے تو ہو سکتا ہے وہ کُچھ نہ کہے۔‘‘
شازیہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ جیکسن نرمی سے بولا۔ ’’تم لوگوں نے بُرا کیا۔ تمہیں اس مکان کے اندر نہیں گھُسنا چاہیے تھا۔ کیا تمہاری امّی کو اس بارے میں معلوم ہے؟‘‘
’’وہ مر چُکی ہیں۔‘‘
’’اوہ!‘‘ جیکسن کو اِن بچّوں سے ہمدردی سی ہو گئی تھی۔
اچانک عمران کہنے لگا۔ ’’کیا میں اُوپر باتھ روم تک جا سکتا ہوں؟ مُجھے باتھ روم جانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔‘‘
پہلے تو جیکسن ہچکچایا۔ پھر بولا۔ ’’ٹھیک ہے لیکن خاموشی سے۔ مسٹر رینالڈ کو پتا نہ چلے اور جلدی سے۔ بھاگنے کی کوشش نہ کرنا۔ یہ دونوں میرے پاس ہیں۔‘‘ پھر اُس نے شازیہ اور رضوان کو پکڑ لیا اور عمران کو جانے کا اشارہ کر دیا۔
عمران لپکتا ہوا کئی کئی سیڑھیاں ایک ساتھ پھلانگتا ہوا اُوپر پہنچا۔ وہ وکٹوریہ کو اِس بات پر آمادہ کرنا چاہتا تھا کہ وہ نیچے آ کر اپنے دادا کو بتائے کہ وہ بھی یہاں موجود ہے اور یہ کہ اِن لوگوں نے کوئی چیز نہیں چُرائی ہے۔ اِس طرح وہ جیل جانے سے بچ سکتے تھے اور اِس میں وکٹوریہ کو کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ چاہے مسٹر رینالڈ کتنے ہی غصّے والے اور سخت مزاج آدمی ہوں مگر آخر وہ اُس کے دادا تھے۔ وکٹوریہ بستر پر دُبکی بیٹھی تھیں۔ اُس نے اپنا مُنہ شال میں چھُپا رکھا تھا۔ جسم کانپ رہا تھا۔
عمران نے کہا۔ ’’وکٹوریہ! رونا دھونا بند کرو۔‘‘
وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی اور عمران کو دیکھنے لگی۔ اُس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔ ’’کیا وہ جان گئے ہیں؟ کیا اُن کو معلوم ہے کہ میں یہاں ہوں؟‘‘
عمران نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں۔‘‘
وہ جلدی سے بولی۔ ’’تُم اُن کو میرے بارے میں نہ بتانا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ میں نہیں بتاؤں گا۔ مگر تُم کو اُنہیں بتانا ہو گا۔ وہ بہت زیادہ غصّے میں ہیں۔ وہ ہمیں پولیس کے حوالے کر رہے ہیں۔ وہ ہمیں چور سمجھ رہے ہیں۔ وہ خالہ صفیہ کو بُلائیں گے۔ وہ ہم سے بہت ناراض ہوں گی اور ہمارے والد بھی بہت خفا ہوں گے۔ اِس لیے تُم نیچے آؤ اور اُنہیں صرف اتنا بتا دو کہ ہم چور نہیں ہیں۔ رضوان نے اُن کا گھوڑا نہیں چُرایا ہے۔‘‘
وکٹوریہ نے آہستہ سے کہا۔ ’’نہیں، میں یہ نہیں کر سکتی۔‘‘
’’تمہیں یہ کرنا ہو گا۔ وہ تمہیں کُچھ نہیں کہیں گے۔ اگر تُم اُنہیں سچ سچ بتا دو گی کہ اسکول میں تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے تو وہ سب سمجھ جائیں گے اور تُم کو اپنے ساتھ لے جائیں گے۔‘‘ مگر وکٹوریہ مسلسل انکار میں سر ہلاتی رہی۔
عمران کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ کوئی اتنا بھی خود غرض ہو سکتا ہے۔ اُس نے وکٹوریہ کو بہت سمجھایا کہ اپنے دادا کو سچّی بات سمجھاتے ہوئے اُسے کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ وکٹوریہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ کہنے لگی۔ ’’وہ میرے دادا نہیں ہیں۔‘‘
’’کیا تمہارے دادا نہیں ہیں؟ مگر تُم نے تو ہم سے کہا تھا کہ…‘‘ عمران نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’ہاں میں نے کہا تھا مگر یہ سچ نہیں تھا۔ میرے ماں باپ تو میرے پیدا ہوتے ہی مر گئے تھے۔ میرے باپ مسٹر رینالڈ کے بیٹے کے دوست تھے اور وہ مُجھے اپنے گھر لے آئے اور اُنہوں نے میری پرورش کی۔ پھر چند سال بعد اُن کا بھی اِنتقال ہو گیا تو مسٹر رینالڈ نے مُجھے بورڈنگ اسکول بھجوا دیا۔
عمران کو اب وکٹوریہ سے ہمدردی پیدا ہو گئی۔
وکٹوریہ بولی۔ ’’میرے ابّا بھی بہت امیر تھے۔ لو دیکھو، یہ میری امّی کی تصویر ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے اپنے گلے میں سے ایک لاکٹ اُتارا اور کھول کر عمران کے ہاتھ میں دے دیا۔ عمران کی نظر اُس میں لگی ہوئی تصویر پر پڑی تو وہ حیران رہ گیا۔ یہ تصویر خالہ صفیہ کی تھی۔
عمران کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہے اچانک سیڑھیوں پر تیز تیز چلنے کی آواز آئی۔ پھر جیکسن دروازے میں نظر آیا۔ وہ بہت غصّے میں تھا۔ وکٹوریہ کو دیکھ کر اُس کی تو آنکھیں پھیل گئیں۔ ’’اوہ! تو ایک اور۔ یہاں پورا گروہ موجود ہے۔‘‘
راز کھُل گیا
لمبی چوڑی چمک دار کار فرّاٹے بھر رہی تھی۔ پیچھے کی سیٹ پر وہ چاروں بچّے خاموش بیٹھے تھے۔ شازیہ پریشان اور اداس تھی۔ دوپہر ہو چُکی تھی۔ اُس کو بھُوک بھی لگ رہی تھی۔ اُس کے بر خلاف عمران کے چہرے پر خوشی نظر آ رہی تھی۔ شازیہ کو تعجّب ہوا کہ ایسے موقع پر جب کہ اُنہیں پولیس اسٹیشن لے جایا جا رہا ہے وہ خوش نظر آ رہا ہے۔ اِدھر رضوان بڑے غصّے میںدکھائی دے رہا تھا۔ رینالڈ نے اس پر گھوڑا چوری کرنے کا جو الزام لگایا تھا۔ اُس کی وجہ سے اُسے غصّہ آ رہا تھا۔ وکٹوریہ کی حالت سب سے زیادہ خراب تھی۔ وہ سیٹ کے کونے میں دُبکی بیٹھی تھی۔ وہ اِس طرح کانپ رہی تھی جیسے اُسے سردی لگ گئی ہو۔ اُس کا چہرہ ڈر اور خوف سے پیلا پڑ چُکا تھا۔
کار ایک جھٹکے سے رُک گئی۔ جیکسن نے اُتر کر کار کا پچھلا دروازہ کھولا اور پھر اُنہیں سختی سے باہر نکلنے کا حُکم دیا۔ وہ پتھّر کی چند سیڑھیاں چڑھ کر ایک بڑے اور خالی سے کمرے میں داخل ہو گئے۔
وہاں ایک کاؤنٹر سا تھا جس کے پیچھے ایک پولیس مین کھڑا تھا۔ بچّے خاموشی سے ایک طرف کھڑے ہو گئے اور جیکسن نے آہستہ آہستہ اُس پولیس مین سے کُچھ کہنا شروع کیا۔ وہ سُرخ چہرے، لمبے بالوں اور بڑی بڑی مونچھوں والا ایک بھاری بھر کم آدمی تھا۔ جیکسن اُس سے باتیں کرتا رہا اور وہ سر ہلا ہلا کر سُنتا رہا اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد بچّوں کی طرف بھی دیکھتا جاتا تھا۔ پولیس مین نے اُن سے کہا کہ آپ لوگوں کو تھوڑی دیر یہاں رُکنا ہو گا، اپنے نام اور اپنے اپنے پتے لکھوا دیجیے تا کہ آپ کے والدین کو یہاں بُلوایا جا سکے۔
شازیہ نے سب کے نام، خالہ صفیہ کا نام، پتا اور ٹیلے فون نمبر لکھوا دیا۔ پولیس مین نے اُس سے کُچھ سوال کیے۔ اُس کے لہجے میں بڑی نرمی تھی۔ اِس سے شازیہ کو حوصلہ ہو گیا اور اُس کا ڈر کافی کم ہو گیا۔ جب وہ فارغ ہو گئی تو اُس نے ایک بار پھر وکٹوریہ کی طرف دیکھا اور پھر اُس کے دِل میں بھی وہی خیال آیا جو کُچھ دیر پہلے عمران کے دِل میں آیا تھا۔ وکٹوریہ کو پولیس مین کو صرف اِتنا بتانا تھا کہ اُس کا نام وکٹوریہ رینالڈ ہے۔ اُس کے بعد ہر شخص جان جائے گا کہ وہ لوگ مُجرم نہیں ہیں۔ صرف شریر بچّے ہیں جو کھیلنے کے لیے برابر والے مکان میں داخل ہو گئے۔ اور چاہے اُس کے دادا کتنے ہی ناراض کیوں نہ ہوں، وہ اپنی پوتی کے دوستوں کو ہرگز جیل نہیں بھجوائیں گے۔
اُس کو یہ دیکھ کر بہت تعجّب ہوا کہ وکٹوریہ نے اپنے بارے میں کُچھ بھی نہیں بتایا۔ شازیہ نے سوچا کہ وکٹوریہ پولیس مین کو اپنا نام نہیں بنانا چاہتی۔ اُدھر پولیس مین نے بھی اُس سے ہمدردی محسوس کی، اُس نے اُس سے کُچھ نہیں پوچھا۔ حال آں کہ اُس نے اُس کو دو تین مرتبہ غور سے دیکھا تھا مگر پوچھا کُچھ نہیں۔ شاید اُس نے اُس کو بھی اُن کی بہن سمجھا ہو گا۔
شازیہ نے جو کُچھ بیان دیا تھا، اُس نے لکھ لیا اور پھر اُن سب کو کاؤنٹر کے پیچھے ایک دوسرے کمرے میں لے گیا۔ وہاں ایک بینچ اور کُچھ کُرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ پولیس مین نے اُن سے کہا کہ وہ تھوڑی دیر یہاں اِنتظار کریں۔ اُس کے باہر جانے کے بعد ایک دوسرا پولیس مین کمرے میں داخل ہوا۔ اُس کے ہاتھوں میں ایک ٹرے تھی۔ اُس میں چار کپ گرم گرم چائے کے رکھے ہوئے تھے۔ وہ اُس نے بچّوں کے سامنے رکھ دیے۔
شازیہ اور عمران کی توقّع کے خلاف پولیس اسٹیشن میں اُن کے ساتھ اچھّا برتاؤ کیا گیا اور اُنہیں عمدہ چائے بھی پلائی گئی۔ وہ سب خاموش تھے۔ وکٹوریہ گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی رہی۔ عمران بار بار اُس کو دیکھ رہا تھا۔ اُس کے چہرے پر عجیب سی مُسکراہٹ تھی جس کو دیکھ دیکھ کر شازیہ اُلجھن میں پڑ گئی۔ اچانک دروازہ کھُلا اور خالہ صفیہ لمبے بالوں والے پولیس مین کے ساتھ اندر داخل ہوئیں۔ شازیہ بے اختیّار بھاگ کر اُن کے پاس پہنچی اور روتے ہوئے بولی:
’’پلیز، پلیز خالہ صفیہ! ہمیں جیل جانے سے بچا لیں۔‘‘ خالہ صفیہ کا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا۔ وہ غصّے میں تھیں۔ پھر بھی اُنہوں نے شازیہ کا سر اپنے سینے سے لگا لیا اور تسلّی دینے والے انداز میں بولیں۔ ’’گھبراؤ نہیں۔‘‘ پھر کُچھ پریشان سی ہو کر بولیں۔ ’’یہ تم لوگوں نے کیا حرکت کی۔ تمہارے ابّو کو معلوم ہو گیا تو وہ کیا کہیں گے۔‘‘
رضوان نے شازیہ کو ایک طرف کر کے آگے بڑھ کر خالہ صفیہ سے کہا۔ ’’وہ ہم کو چور کہہ رہے تھے۔ ہم چور نہیں ہیں۔ نُور جہاں بیگم کو معلوم ہے۔ میں اُن کو بتا کر آتا ہوں۔‘‘ اُس کی بات سُن کر شازیہ اور عمران کی ہنسی چھُوٹ گئی۔ اچانک رضوان دروازے کی طرف دوڑا اور سیدھا نکلتا چلا گیا۔ سب اُسے حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔ وہ پولیس اسٹیشن سے نکل کر سڑک پر آ گیا۔ خالہ صفیہ نے اُسے آواز دی۔ ’’رضوان، کہاں جا رہے ہو؟ اِدھر آؤ میرے پاس۔‘‘
پھر وہ تیزی سے خود بھی باہر کی طرف لپکیں مگر پولیس مین نے اُنہیں روک دیا اور ہنستے ہوئے اُن سے بولا:
’’اِس کو جانے دیجیے، بیگم نجم! ہمیں معلوم ہے وہ کہاں رہتا ہے۔ ہمیں جب ضرورت ہو گی اُسے لے آئیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دروازہ بند کر کے باہر چلا گیا۔
خالہ صفیہ نے کہا۔ ’’تُم لوگوں نے خود ہی یہ مُصیبت مول لی ہے۔ اب تُم کو خود ہی…‘‘ اُن کی بات ادھوری رہ گئی کیوں کہ اچانک اُن کی نظر وکٹوریہ پر پڑی۔
’’تم؟‘‘
عمران نے بڑے ڈرامائی انداز میں کہا۔ ’’خالہ صفیہ! یہ وکٹوریہ ہے۔ یہ آپ کی وہ بیٹی ہے جو کھو گئی تھی۔‘‘
خالہ صفیہ نے گھور کر عمران کو دیکھا۔ اُن کو ایک جھٹکا سا لگا۔ عمران نے کہا۔ ’’اِس کے لاکٹ میں آپ کی تصویر ہے۔ میں نے پہچان لی۔ ہم نے اُس پُر اسرار مکان میں آپ کا پلنگ بھی دیکھا اور ایک صندُوق میں آپ کی اور آپ کی بیٹی کی تصویر بھی دیکھی ہے۔‘‘ وہ سوچ رہا تھا کہ ایک منٹ بعد یہ خبر خالہ پر اثر کرے گی۔ وہ اپنے بازو پھیلائیں گی اور وکٹوریہ کو اپنے گلے لگا لیں گی۔ وہ تھوڑا سا حیران بھی ہو رہا تھا۔ خالہ صفیہ پر تو اِس خبر کا کوئی اثر نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ خاموش کھڑی تھیں۔ کبھی اُن کا مُنہ کھُل جاتا، کبھی بند ہو جاتا۔ وہ وکٹوریہ کو عجیب سی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ شاید کوئی گڑبڑ تھی۔ اُن کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر عمران اُلجھن میں پڑ گیا۔ آخر خالہ صفیہ نے خاموشی توڑ دی۔ ’’وکٹوریہ! تُم نے اِن بچّوں کو کیا بتایا ہے؟‘‘
وکٹوریہ اچانک پھُوٹ پھُوٹ کر رونے لگی اور کہنے لگی۔ ’’میں نے کُچھ نہیں کہا۔ اُنہوں نے مُجھے اُس مکان میں دیکھ لیا تھا۔ یہ مُجھ سے اُوپر تلے سوال کرتے چلے گئے۔ میں گھبرائی ہوئی تو تھی ہی، اِن کی ہر بات پر ہاں کرتی چلی گئی۔ پھر اُنہوں نے مُجھ سے پوچھا کہ مسٹر رینالڈ میرے دادا ہیں تو میں نے کہہ دیا، ہاں۔ اگر میں ہاں نہ کہتی تو کیا کہتی! میں کِسی اور مُصیبت میں پھنس جاتی؟‘‘
عمران حیرت سے مُنہ کھولے اُسے تَک رہا تھا۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وکٹوریہ نے اِتنے جھوٹ کیوں بولے۔ وہ وکٹوریہ سے بولا۔ ’’مگر تمہارے پاس تو وہ لاکٹ تھا۔ تُم نے کہا…‘‘
اُس نے عمران کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’جب میں اُوپر چھت والے کمرے میں تھی اُس وقت میں نے لاکٹ صندُوق میں سے نکال لیا تھا۔ یہ مُجھے بہت اچھّا لگا۔ میرا دِل چاہا کہ اِسے پہن لوں، چاہے تھوڑی دیر کے لیے سہی۔ مگر جب تُم نے مُجھے یہ لاکٹ پہنے دیکھا تو میں نے یہ سوچ کر کہ کہیں تُم مُجھے چور نہ سمجھو اِس لاکٹ کو اپنی ماں کا لاکٹ کہہ دیا۔‘‘
’’مگر تُم نے ہمیں دوسری باتیں کیوں بتائی تھیں۔ سب جھوٹ۔ اسکول کے بارے میں اور اپنے گود لینے کے بارے میں اور اپنے والدین کے بارے میں۔ کیا وہ سب جھوٹ تھا؟‘‘
عمران کو بُری طرح غصّہ آ گیا تھا۔ اُس کی بڑی وجہ مایوسی تھی۔ اُس کو تو یہ معلوم ہو کر بڑی خوشی ہوئی تھی کہ وکٹوریہ خالہ صفیہ کی بیٹی ہے، مگر یہ بات جھوٹ نکلی اور پھر یہ بات بھی غَلَط نِکلی کہ مسٹر رینالڈ وکٹوریہ کے دادا ہیں۔ اِن سارے جھوٹوں نے اُس کے سسپنس کو ختم کر دیا تھا۔
وکٹوریہ نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔ ’’میرا مقصد تُم لوگوں سے جھوٹ بولنا نہ تھا۔ بس یوں ہی جھُوٹ بولتی چلی گئی۔ میں خیالوں کی دُنیا میں رہنے لگی تھی۔ اپنے آپ کو سچ مچ امیر والدین کی اولاد اور اس مکان کی مالک سمجھنے لگی تھی۔‘‘
خالہ صفیہ نے وکٹوریہ کو گلے لگا لیا۔ پھر کہنے لگیں۔ ’’عمران! ساری باتیں جھُوٹ نہیں ہیں۔ وکٹوریہ کے ماں باپ نہیں ہیں۔ وہ ایک یتیم بچّی ہے۔ مسٹر کلارک نے اِسے بیٹی بنا لیا ہے۔ یہ اُنہی کے ساتھ رہتی ہے۔ مسز کلارک مسٹر رینالڈ کے گھر میں صفائی کا کام کرتی ہیں۔‘‘
شازیہ کو وکٹوریہ کا حال سُن کر اُس پر بڑا ترس آ رہا تھا۔ اُس نے بہت نرمی سے کہا۔ ’’وکٹوریہ! چلو کوئی بات نہیں جو ہوا سو ہوا۔‘‘
پھر خالہ صفیہ نے وکٹوریہ سے پوچھا۔ ’’تم اِس گھر میں کیا کر رہی تھیں؟ کیا مسز کلارک کو معلوم تھا کہ تُم وہاں ہو؟‘‘ وکٹوریہ نے جواب دیا۔ ’’ممّی کی کمر میں تکلیف ہو گئی تھی۔ اُنہیں سیڑھیاں اُترنے چڑھنے میں دقّت ہو رہی تھی۔ اِس لیے اُنہوں نے مُجھے یہاں کی صفائی کرنے بھیجا تھا۔ میں روزانہ اسکول سے واپسی پر مسٹر رینالڈ کے مکان کی صفائی کرنے آتی تھی۔ مُجھے اِس اکیلے اور اندھیرے مکان میں ڈر لگتا تھا۔ میں نے کئی بار مسٹر کلارک سے کہا مگر اُنہوں نے مُجھے بے وقوف کہہ کر ٹال دیا۔ ایک دِن صفائی کر کے میں تھک گئی تو میں نے سوچا کہ تھوڑی دیر آرام کر لوں۔ میں کمرے میں گئی تو وہاں پیانو نظر آ گیا۔ میں اُسے بجانے لگی۔ مُجھے بڑا مزہ آیا۔ پھر میں روز پیانو بجانے لگی۔‘‘
خالہ صفیہ بڑی محبّت سے وکٹوریہ کو دیکھ رہی تھیں۔ وکٹوریہ اپنے آنسو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ بولی:
’’مسز کلارک کو پتا چل گیا تو وہ خفا ہوں گی۔ میں نے اگلے دروازے کی چابی اُنہیں دے دی تھی مگر پچھلے دروازے کی چابی اپنے پاس رکھ لی تھی، تا کہ جب میرا دِل چاہے پیانو بجانے کے لیے، چھُپ کر یہاں چلی آیا کروں۔‘‘
خالہ صفیہ نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:
’’مسئلہ مسٹر رینالڈ کا ہے۔ اگر وہ الزامات واپس لے لیں تو مسز کلارک کو پتا بھی نہیں چلے گا۔ مگر مسٹر رینالڈ ایک سخت آدمی ہیں۔‘‘ تھوڑی دیر تک خالہ صفیہ کھڑی اُس کو خاموشی سے دیکھتی رہیں۔ پھر آگے بڑھ کر اُنہوں نے اُسے گلے لگا لیا اور بولیں۔ ’’تُم مت گھبراؤ۔ میں اِس مسئلے کا حل سوچتی ہوں، میرے ساتھ چلو۔ پہلے کُچھ کھا پی لو پھر میں مسز کلارک سے مل کر اُنہیں سمجھانے کی کوشش کروں گی۔‘‘
عمران نے حیران ہو کر پوچھا۔ ’’کیا ہم گھر جا سکتے ہیں؟ میں سوچ رہا تھا کہ ہمیں یہاں بند کر دیا جائے گا۔‘‘
’’نہیں عمران! یہاں کا قانون یہ ہے کہ ثبوت کے بغیر کسی کو جیل میں بند نہیں کیا جاتا۔‘‘
عمران نے اطمینان بھری سانس لی۔ وکٹوریہ خالہ صفیہ سے لپٹ کر بچّوں کی طرح رو دی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ واقعی اُن کی گُم شُدہ بیٹی ہو۔
یہ دولت تمہاری ہے
جب وہ گھر پہنچے تو رضوان سیڑھیوں پر بیٹھا اُن کا انتظار کر رہا تھا۔ جیسے ہی خالہ صفیہ نے دروازہ کھولا وہ بولا۔ ’’یہاں نُور جہاں بیگم سے ملنے ایک آدمی آیا ہے۔ وہ اُن کے کمرے میں اُن سے باتیں کر رہا ہے۔ بیگم صاحبہ نے مُجھے بتایا ہے کہ وہ اُن کا وکیل ہے۔ وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ خالہ صفیہ!‘‘
خالہ صفیہ نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’مُجھ سے… میں خود جا کر دیکھتی ہوں۔ شازیہ تُم چائے کے لیے میز تیّار کرو۔‘‘
’’چائے؟‘‘ رضوان نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔ ’’ہم نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا ہے۔‘‘
’’اُن لوگوں کو جنہیں پولیس پکڑ لیتی ہے کھانا نہیں دیا جاتا۔‘‘ یہ کہہ کر خالہ صفیہ نُور جہاں کے کمرے کی طرف چل دیں۔ بچّے نیچے باورچی خانے میں پہنچے۔
عمران نے کہا۔ ’’میرا پیٹ بالکل خالی ڈرم کی طرح بج رہا ہے۔ فریج میں کیا ہے شازیہ؟‘‘
شازیہ نے فریج میں سے دہی کا پیالہ نکالا۔ اُس کے ساتھ ڈبل روٹی تھی۔
’’لو، بھلا اِس سے کیا پیٹ بھرے گا؟‘‘ رضوان نے مُنہ بناتے ہوئے کہا۔ عمران نے کہا۔ ’’شکر کرو تُم حوالات میں نہیں ہو، ورنہ وہاں تو پتا نہیں کیا کیا کھانا پڑتا۔‘‘
شازیہ نے بیچ میں کہا۔ ’’وہاں جانے کا خطرہ تو اب بھی ہے۔ تُم نے سُنا نہیں تھا، خالہ صفیہ کہہ رہی تھیں کہ ہمیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ وہ ہمیں جیل بھی بھیج سکتا ہے۔‘‘
’’نہیں، وہ ایسا نہیں کر سکتا۔‘‘ رضوان جلدی سے بولا۔ ’’وہ مسٹر رینالڈ کو میرا گھوڑا چھیننے کے الزام میں جیل بھیج دے گا۔‘‘
’’اُنہوں نے تمہارا گھوڑا چھینا نہیں ہے، بلکہ اِس غَلَط فہمی میں لے لیا ہے کہ وہ اُن کے گھوڑے سے ملتا جُلتا ہے۔‘‘ عمران نے رضوان کو بتایا۔
رضوان نے کہا۔ ’’مگر اُس کو وہ گھوڑا مُجھ سے لینے کا کوئی حق نہیں تھا۔ بیگم صاحبہ کہہ رہی ہیں کہ وہ میرا گھوڑا واپس دِلوا دیں گی۔‘‘
شازیہ نے کہا۔ ’’ہاں، رضوان! جب مسٹر رینالڈ اپنے گھوڑے کو دیکھیں گے تو اُن کو اپنی غَلَطی کا احساس ہو جائے گا۔ تمہارا گھوڑا تُم کو واپس ضرور ملے گا۔‘‘
وہ اسی طرح باتیں کرتے رہے اور کھانا کھاتے رہے۔ صرف وکٹوریہ خاموش تھی۔ اِسی دوران خالہ صفیہ کمرے میں داخل ہوئیں۔ اُن کے چہرے پر بڑی اُلجھن تھی۔ اُنہوں نے رضوان سے پوچھا۔ ’’تُم نے بیگم صاحبہ سے کیا کہا ہے؟‘‘
رضوان نے سر جھُکا کر جواب دیا۔ ’’کُچھ نہیں۔‘‘
’’تُم نے اُن سے یہ نہیں کہا کہ تمہاری خالہ بہت غریب ہیں؟‘‘
’’میں نے اُن سے دوسرے انداز میں کہا تھا۔ مُجھے کُچھ رقم کی ضرورت تھی۔ میں کُچھ خریدنا چاہتا تھا۔ اُنہوں نے مُجھ سے کہا کہ اپنی خالہ سے لے لو۔ تو میں نے اُن کو بتایا کہ خالہ ہمارے کھانے پینے کا خرچ ہی مُشکل سے چلاتی ہیں وہ مُجھے رقم کہاں سے دیں گی۔ اِس پر اُنہوں نے مُجھے ایک سِکّہ دیا تھا مگر وہ بے کار ہے۔ یہاں چلنے والا نہیں ہے۔ پرانے زمانے کا سِکّہ ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے وہ سِکّہ نکال کر خالہ صفیہ کو دِکھایا۔
وہ خاموشی سے سِکّہ ہاتھ میں لیے کُچھ سوچتی رہیں اور پھر بولیں۔ ’’رضوان! تُم اوپر والے کمرے میں جاؤ۔ وہاں تُم سے کوئی شخص بات کرنا چاہتا ہے۔‘‘
وہ سب ڈرے اور سہمے اُوپر گئے۔ کمرے میں ایک میز پر کاغذات اور فائلوں کا ایک ڈھیر پڑا ہوا تھا۔ اُس میز کے پیچھے ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ اُس نے چشمہ لگا رکھا تھا۔ اُس نے رضوان کی طرف دیکھا۔ ’’کیا یہ وہی لڑکا ہے؟‘‘ اُس نے پُوچھا اور اپنا چشمہ اُتار کر میز پر رکھ دیا۔
’’جی ہاں، مسٹر گرین! یہ رضوان ہے۔ رضوان نعمان خاں۔‘‘ خالہ صفیہ نے کہا۔
’’اِدھر آؤ رضوان۔‘‘ مسٹر گرین نے رضوان کو اپنے سامنے بُلا کر بِٹھا لیا۔ مسٹر گرین نے خالہ صفیہ سے پوچھا۔ ’’آپ نے اِسے کیا بتایا ہے مسز نجم؟‘‘
’’کُچھ نہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ رضوان! اب دھیان سے میری بات سُنو۔ میں ایک وکیل ہوں، نُور جہاں بیگم کا وکیل۔ تُم جانتے ہو وکیل کسے کہتے ہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ رضوان نے جواب دیا۔
’’خیر، کوئی بات نہیں۔ نُور جہاں بیگم کو تو تُم جانتے ہو۔‘‘
’’جی ہاں، کیوں نہیں، وہ میری اچھّی دوست ہیں۔‘‘
’’تمہاری دوست؟‘‘ مسٹر گرین نے اپنا چشمہ گھُماتے ہوئے پوچھا۔ ’’تُم ایک چھوٹے سے بچّے ہو۔ ایک بُوڑھی عورت تمہاری دوست کیسے ہو سکتی ہے؟‘‘
رضوان تیزی سے بولا۔ ’’وہ میری اچھّی دوست ہیں۔ سب سے اچھّی نہیں کیوں کہ میرا سب سے اچھا دوست تھامس ہے۔ دوسرا نمبر بیگم صاحبہ کا ہے۔‘‘
مسٹر گرین نے کُرسی پر جھُولتے ہوئے کہا۔ ’’کیا تمہیں اُن سے باتیں کرنا اچھّا لگتا ہے؟‘‘
’’ہم صرف باتیں ہی نہیں کرتے، ہم ڈرافٹ بھی کھیلتے ہیں۔ پھر وہ مُجھے کہانیاں سُناتی ہیں۔ یہ سب مُجھے پسند ہے۔‘‘
’’وہ بہت بُوڑھی ہیں۔‘‘ مسٹر گرین بولے۔ ’’تُم جیسے لڑکے کو اُن کی ہر بات پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
رضوان کو غصّہ تو بہت آیا مگر وہ خاموش رہا۔ مسٹر گرین نے چشمہ اپنی پتلی لمبی ناک پر جمایا اور تھوڑی دیر تک خاموشی سے رضوان کو دیکھتے رہے۔ پھر وہ بولے۔ ’’میں تُم سے ایک سوال کروں گا۔ اُس کا جواب تُم مُجھے بالکل صحیح صحیح دو گے۔ اگر تُم نے جھوٹ بولا تو مُجھے فوراً پتا چل جائے گا۔ کیا کسی نے تُم سے کہا تھا کہ جا کر نُور جہاں بیگم سے ملو اور اُن کے ساتھ ڈرافٹ کھیلو۔ مثال کے طور پر کبھی تمہاری خالہ صفیہ نے تُم سے کہا ہو کہ رضوان اُن کے پاس جاؤ۔ اُن سے باتیں کرو۔ اُن کے ساتھ کھیلو۔ یہ تمہارے لیے اچھّا ہو گا؟‘‘
ابھی رضوان مُنہ کھول کر کُچھ کہنا چاہ رہا تھا کہ خالہ صفیہ جلدی سے بولیں۔
’’مسٹر گرین! بڑی عجیب بات کی ہے آپ نے۔ اِس بچّے کو کبھی کِسی نے مجبور نہیں کیا کہ یہ بیگم صاحبہ کے کمرے میں جائے۔ یہ خود ہی اُن سے ملا ہے۔‘‘
مسٹر گرین سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور خالہ صفیہ کی طرف رُخ کر کے بولے۔ ’’بیگم نجم خان! یہ سچ بھی ہو سکتا ہے اور نہیں بھی۔ میں مُستقبل میں پیدا ہونے والی پریشانیوں سے بچنے کے لیے سچ تلاش کر رہا ہوں۔‘‘
’’نُور جہاں بیگم کے رشتے داروں نے کبھی اُن کو پریشان نہیں کیا ہے۔‘‘ خالہ صفیہ کا لہجہ خاصا تیز تھا۔
’’بے شک، بے شک مگر اب وہ اُنہیں ضرور پریشان کریں گے۔ وہ اِس معاملے کو عدالت تک لے جائیں گے اور اِس بات پر زور دیں گے کہ آپ نے اِس بچّے کو زبردستی اُن کے پیچھے لگایا تھا، اپنا فائدہ حاصل کرنے کے لیے۔‘‘ سب بچّے خاموش کھڑے تھے۔ وہاں ہونے والی باتیں اُن کی سمجھ سے باہر تھیں۔ خالہ صفیہ بہت پریشان اور افسردہ تھیں۔ جب کہ رضوان سخت غصّے میں تھا۔ اُس نے بڑے سخت لہجے میں کہا۔
’’مُجھ سے نُور جہاں بیگم سے دوستی کرنے کو کسی نے نہیں کہا۔ وہ مُجھے اچھّی لگی تھیں، اِس لیے میں اُن کے پاس جاتا تھا۔ وہ بُوڑھی ہیں تو کیا ہوا۔ وہ کہانیاں بہت اچھّی اچھّی سُناتی ہیں۔ اگر آپ کو اِن باتوں کا یقین نہیں ہے تو آپ بے وقوف ہیں۔‘‘
رضوان نے تو حد ہی کر دی تھی۔ شازیہ اور عمران کے چہرے فق ہو گئے تھے۔ مسٹر گرین نے شاید اِن باتوں کا بُرا نہیں مانا تھا۔ وہ بہت آہستہ مُسکرائے اور بولے۔ ’’مُجھے پورا یقین ہے رضوان! مُجھے خوشی ہے کہ نُور جہاں بیگم تُم کو بہت پسند ہیں۔ شاید اِس لیے کہ وہ بھی تمہیں بہت اچھّا کہتی ہیں۔ وہ تُم سے اِتنا پیار کرتی ہیں کہ اُنہوں نے اپنی دولت تمہیں دینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
رضوان نے کہا۔ ’’مگر اُن کے پاس تو کُچھ بھی نہیں ہے۔ وہ کہتی تو یہی ہیں کہ اُن کے پاس بہت کُچھ ہے مگر…‘‘ اُس کو بڑا غصّہ آ رہا تھا۔ نُور جہاں بیگم نے اِس سیدھے سادے آدمی کو یہ بات نہیں بتائی تھی کہ اُن کے پاس اصلی سِکّے نہیں ہیں۔ شاید انہیں خود بھی یہ بات معلوم نہ تھی کہ اُن کے پاس جو سِکّے ہیں وہ بے کار ہیں۔ پھر اُسے کہانیوں کا خیال آیا۔ اُس نے مسٹر گرین سے کہا۔ ’’بیگم صاحبہ کو بڑی اچھّی اچھّی کہانیاں آتی ہیں۔ اُنہوں نے مُجھے ایک کہانی یہ بھی سُنائی تھی کہ اُن کے ابّا حضور کے خزانے کے پیچھے دُشمن لگے ہوئے ہیں اور وہ اُس کی دِن رات حفاظت کرتی ہیں، مگر یہ صرف کہانی ہے، کھیل ہے۔ جو خزانہ اُن کے پاس ہے وہ پُرانے زمانے کے سِکّے ہیں اور وہ بھی کسی اور مُلک کے۔ وہ سِکّے یہاں انگلینڈ میں نہیں چلتے۔ اُنہیں یہ بات اِس لیے معلوم نہیں ہے کیوں کہ وہ بہت عرصے سے کسی دُکان پر نہیں گئی ہیں ۔ مُجھے یہ بات اِس لیے معلوم ہے کہ اُنہوں نے مُجھے ایک سِکّہ دیا تھا۔ یہ دیکھیے۔ ‘‘اِس نے وہ سِکّہ نِکال کر میز پر رکھ دیا۔
مسٹر گرین نے سِکّے کا اچھّی طرح جائزہ لینے کے بعد کہا:
’’رضوان! یہ غیر مُلکی سِکّہ نہیں ہے۔ یہ انگریزی سِکّہ ہے۔ یہ سُونے کی مُہر ہے، مگر بازار میں نہیں چلتا۔ میرا خیال ہے تُم نے یہ پہلے کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔‘‘ یہ کہہ کر اُنہوں نے سِکّہ رضوان کو واپس دے دیا۔ پھر وہ آہستہ سے بولے۔ ’’نُور جہاں بیگم بہت امیر ہیں۔ کبھی کبھی وہ سٹھیا جاتی ہیں، مگر اِس معاملے میں اُن کی ہر بات صحیح ہے۔ وہ بہت دولت مند عورت ہیں۔ رضوان! ایک دِن تُم بھی بہت دولت مند آدمی ہو گے۔ اُن کی خواہش کے مطابق میں سارے مالی معاملات کی دیکھ بھال کروں گا۔ ابھی تو میں اِن سونے کی مُہروں سے موجودہ اخراجات پورے کروں گا اور پھر۔‘‘ اُنہوں نے خالہ صفیہ کی جانب دیکھ کر مُسکراتے ہوئے کہا۔ ’’آپ نے برسوں جو اُن کی دیکھ بھال کی ہے، اُن کی خدمت کی ہے، اُس کا پورا معاوضہ آپ کو دیا جائے گا۔‘‘
’’میں ہمیشہ یہ سمجھتی رہی کہ اُن کے پاس ایک پینی بھی نہیں ہے، مگر اب معلوم ہوا کہ اُن کے پاس نوادرات کا جو ذخیرہ ہے وہ انمول ہے۔‘‘
’’کیا میرا گھوڑا بھی قیمتی ہے؟‘‘ رضوان نے حیرانی کے ساتھ پوچھا۔
خالہ صفیہ اور مسٹر گرین نے چونک کر ایک ساتھ رضوان کو دیکھا۔ اپنی باتوں میں وہ یہ بالکل بھُول گئے تھے کہ یہاں بچّے بھی موجود ہیں۔
’’کیسا گھوڑا؟‘‘ مسٹر گرین نے پوچھا۔
رضوان نے کہا۔ ’’مُجھے بیگم صاحبہ نے دیا تھا۔ مسٹر رینالڈ نے مُجھ سے چھین لیا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟ مسٹر رینالڈ یہاں کہاں سے آ گئے؟‘‘ مسٹر گرین نے کہا۔
اِس پر اُن سب بچّوں نے ایک ساتھ کہانی سُنانی شروع کی۔ خالہ صفیہ نے ہاتھ کے اشارے سے اُنہیں روکا اور پھر شازیہ کو اشارہ کیا کہ وہ ساری بات بتائے۔ شازیہ نے شروع سے آخر تک کا سارا قصّہ مسٹر گرین کو سُنا دیا۔ تھوڑی دیر تک مسٹر گرین کُچھ سوچتے رہے۔ پھر عمران کی طرف مُنہ کر کے بولے:
’’تُم تالا توڑ کر اندر داخل ہوئے۔ یہ اپنی جگہ ایک جُرم ہے، مگر تُم نے وہاں کِسی چیز کو نقصان تو نہیں پہنچایا؟‘‘
عمران نے شازیہ کی طرف دیکھا۔ اب تو اُنہیں اُس مجسّمے کے بارے میں بتانا ہی تھا مگر ابھی وہ ہمّت کر ہی رہا تھا کہ رضوان تیزی سے بولا:
’’میرا گھوڑا واقعی بہت قیمتی ہے۔ میرا خیال ہے بیگم صاحبہ کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ وہ اتنا قیمتی ہے، ورنہ وہ اُسے ایک بچّے کو کیوں دیتیں؟‘‘
مسٹر گرین خالہ صفیہ کی طرف دیکھتے ہوئے مُسکرائے اور بولے:
’’بیگم صاحبہ نے وہ گھوڑا تُم کو دیا ہے رضوان! وہ تمہارا ہے۔ وہ تُم سے کبھی واپس نہیں مانگیں گی۔ اگر تُم کُچھ اور بھی مانگو گے تو وہ دے دیں گی۔‘‘
رضوان کی آنکھوں میں تیز چمک آ گئی۔ وہ بولا۔ ’’میں چاہتا ہوں کہ میرے ابّو میرے پاس آ جائیں۔‘‘
وہ اب میری بیٹی ہے
مسٹر گرین نے رضوان کی بات پر چونک کر اُس کی طرف دیکھا۔ اُن کی مُسکراہٹ غائب ہو گئی تھی۔ وہ بڑے رنجیدہ سے نظر آنے لگے تھے۔ وہ خالہ صفیہ سے بولے،’’میں کل صُبح آپ سے فون پر بات کروں گا۔ اس وقت مُجھے کام ہے۔ پھر اُنہوں نے کاغذات سمیٹ کر بریف کیس میں رکھے، پھر اپنا ہیٹ اور چھتری سنبھالی اور روانہ ہو گئے۔
اُن کے جانے کے بعد وہ سب ہال میں خاموش کھڑے ہو گئے۔ عمران اور شازیہ کی عجیب حالت تھی۔ عمران نے کہا۔ ’’بھئی، مُجھے تو بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کچن کی طرف چل دیا۔ اُس کے پیچھے پیچھے شازیہ بھی چل دی اور وکٹوریہ بھی بغیر سوچے سمجھے خاموشی سے اُدھر چلی آئی۔
عمران نے کہا۔ ’’میں یہ سوچ رہا ہوں کہ دولت مند بن کر رضوان اس آدمی کی طرح موٹا تازہ ہو جائے گا جو نیروبی سے آتے وقت جہاز پر ہم نے دیکھا تھا۔ بالکل بھینس کی طرح تھا وہ۔‘‘
شازیہ نے کہا۔ ’’رضوان تو اتنا امیر ہو جائے گا کہ وہ اپنا ذاتی جہاز خرید لے گا۔‘‘
پھر وہ آپس میں باتیں کرتے رہے اور زور زور سے ہنستے رہے۔ اچانک اُنہیں خیال آیا کہ وکٹوریہ تو ہے ہی نہیں۔ اُنہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ وہ کچن کے دروازے پر اُداس سی کھڑی تھی۔
’’کیا بات ہے وکٹوریہ؟‘‘ عمران نے اُس سے پوچھا۔
اُس نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے اور بولی۔ ’’کُچھ نہیں، ایسے ہی۔‘‘
’’نہیں، کوئی بات تو ہے۔‘‘
وکٹوریہ نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’تمہارے سارے مسائل اب حل ہو جائیں گے۔ خالہ صفیہ، مسٹر گرین اور نُور جہاں بیگم سب مل کر تُم کو بچا لیں گے۔ مگر میرا کیا ہو گا؟ مُجھے مسز کلارک یتیم خانے بھیج دیں گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ سِسکیاں بھرنے لگی۔ ’’میں کبھی پیانو نہیں بجا سکوں گی۔‘‘
شازیہ نے کہا۔ ’’تمہیں پیانو سے بہت پیار ہو گیا ہے؟‘‘
’’ہاں، بہت زیادہ! بہت ہی زیادہ۔‘‘ وکٹوریہ نے جواب دیا۔
عمران نے اُس سے پوچھا۔ ’’کیا تُم مسز کلارک سے پریشان ہو؟‘‘
’’وہ اتنی بُری بھی نہیں ہیں۔ مگر مُجھے اُن کے ہاں بہت کام کرنے پڑتے ہیں۔ میں صُبح اُٹھتی ہوں، آگ جلاتی ہوں، بچّوں کو کپڑے پہناتی ہوں اور پھر اسکول جانے سے پہلے ڈھیروں چھوٹے موٹے کام کرنے پڑتے ہیں۔ مُجھے کام کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر وہ مُجھے پیار نہیں کرتیں۔ کیوں کہ میں اُن کی بیٹی نہیں ہوں۔‘‘
شازیہ کو یہ سب سُن کر بہت دُکھ ہوا۔ اسے کبھی اپنی امّی بہت یاد آتی تھیں اور خالہ صفیہ کا سلوک دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے وہ اُنہیں بالکل پسند نہ کرتی ہوں۔
’’مگر میں، رضوان اور عمران تُمہیں بہت پسند کرتے ہیں وکٹوریہ!‘‘
’’واقعی؟ کیا تُم سب کو میں اچھّی لگتی ہوں؟‘‘ وکٹوریہ نے خوش ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘ عمران نے آہستگی سے کہا۔ ’’مگر تُم بہت سے لوگوں کو پسند نہیں کرتی ہو۔ جِن لوگوں کو تُم پسند نہیں کرتیں، اُن سے کیوں توقّع کرتی ہو کہ وہ تُمہیں پسند کریں گے؟‘‘
’’تمہاری بات صحیح ہے عمران!‘‘ وکٹوریہ نے کہا۔ اُسے شدّت سے دوسروں کے ساتھ اپنے سلوک کا احساس ہو رہا تھا۔ پھر وہ بولی۔ ’’اگر ہم لوگوں سے محبّت کرنی شروع کر دیں تو وہ بھی ہم سے محبّت کریں گے۔ کِسی سے محبّت کرنے کا خیال میرے دِل کو بُہت سکون پہنچاتا ہے۔ میں نے آج سے اپنے خیالات بدل دیے ہیں اور آج سے دوسروں کو اچھّا سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ تُم لوگوں کو اور خالہ صفیہ کو میں دِل سے پسند کرنے لگی ہوں۔‘‘
اس کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ اُس کی باتیں سُن کر شازیہ اور عمران حیران رہ گئے۔ اُنہیں تو اُمّید بھی نہیں تھی کہ خالہ صفیہ کو کوئی اتنا پسند کرتا ہے۔ اچانک دروازے کی گھنٹی بجی۔ خالہ صفیہ دروازے کی طرف لپکیں۔ پھر اُنہوں نے ایک کرخت آواز سُنی۔ یہ آواز مسٹر رینالڈ کی تھی۔ تھوڑی دیر تک مسٹر رینالڈ اور خالہ صفیہ آپس میں باتیں کرتے رہے۔ پھر خالہ صفیہ کی آواز آئی:
’’عمران، شازیہ، رضوان! یہاں آؤ۔‘‘ عمران سر جھُکائے خاموشی سے جا کھڑا ہوا۔ اُس کے پیچھے رضوان اور شازیہ بھی پہنچ گئے۔ مسٹر رینالڈ اکیلے تھے۔ بچّے دِل ہی دِل میں ڈر رہے تھے کہ پتا نہیں اب کیا ہو گا۔
مسٹر رینالڈ اپنی کرخت آواز میں بولے۔ ’’میں تُم لوگوں سے معافی مانگنے آیا ہوں۔‘‘
بچّوں کے مُنہ کھُلے کے کھُلے رہ گئے۔
مسٹر رینالڈ نے رُک کر پھر بولنا شروع کیا۔ ’’تم لوگوں کو میرے مکان میں داخل ہونے کا کوئی حق نہ تھا مگر میں نے بھی تُم لوگوں سے جو سلوک کیا وہ بالکل نا مناسب تھا۔ میں نے تُم لوگوں کو چور بنا دیا۔ میں خاص طور سے اِس ننّھے بچّے سے شرمندہ ہوں۔‘‘ اُنہوں نے رضوان کی طرف اشارہ کیا جو اُنہیں گھور رہا تھا۔ پھر مسٹر رینالڈ نے اپنی جیب سے وہی گھوڑا نکالا جو اُنہوں نے رضوان سے چھینا تھا اور رضوان کو دیتے ہوئے بولے:
’’یہ تمہارا ہے۔ یہ ہو بہو میرے گھوڑے جیسا ہے، اِسی لیے میں دھوکا کھا گیا تھا۔‘‘
’’جی نہیں، یہ آپ کے گھوڑے سے بہت زیادہ خوب صورت ہے۔‘‘ رضوان نے کہا۔
’’ہاں بھئی، واقعی یہ بات تو ہے۔ اپنی خالہ سے پوچھ کر اِسے میرے ہاتھ بیچ دو۔‘‘
’’نہیں نہیں۔ یہ مُجھے تحفے میں ملا ہے اور تحفے بیچنے کے لیے نہیں ہوتے۔‘‘ رضوان جلدی سے بولا۔
’’خیر، کوئی بات نہیں۔‘‘ مسٹر رینالڈ نے کہا۔ ’’ہاں میں پولیس اسٹیشن جا کر تمہارے خلاف لکھوائی جانے والی رپورٹ واپس لے لیتا ہوں۔ تُم بہت شریر بچّے ہو مگر تُم نے میرا کوئی نقصان نہیں کیا ہے۔‘‘
’’نہیں مسٹر رینالڈ! ہم نے آپ کی ایک چیز توڑی ہے، مگر جان بُوجھ کر نہیں۔ میں اُس سے ٹکرا گئی تھی اور وہ گِر پڑی۔‘‘ شازیہ نے صاف گوئی سے کہا۔
مسٹر رینالڈ نے حیرت سے پوچھا۔ ’’کیا چیز گِر پڑی تھی؟‘‘
رضوان نے کہا۔ ’’چل کر خود دیکھ لیں۔‘‘ اُس نے دروازہ کھولا اور سب کو لے کر باہر آ گیا۔ یہ چھوٹا سا جلوس چلتا ہوا برابر والے گھر میں پہنچا۔ اُس کے دروازے پر پہنچ کر سب لوگ تو اندر داخل ہوگئے مگر وکٹوریہ باہر ہی رُک گئی۔
’’یہ دیکھیے!‘‘ رضوان نے کہا۔ ’’یہاں جو مجسّمہ تھا وہ گِر کر ٹُوٹ گیا تھا۔ پھر ہم نے یہاں دوسرا مجسّمہ لگا دیا۔ یہ اُس سے بھی زیادہ اچھّا لگ رہا ہے۔ یہ میرا ہے مگر میں نے آپ کو دے دیا، کیوں کہ آپ کا مجسّمہ ہم سے ٹوٹ گیا تھا۔‘‘
’’تُم کو یہ مجسّمہ کِس نے دیا ہے؟‘‘ مسٹر رینالڈ نے حیرت سے پوچھا۔ پھر اُنہوں نے چشمہ نکالا اور اُسے لگا کر افریقی لڑکے کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔
’’بہت خُوب۔ واہ وا…‘‘ اُن کے چہرے کی لکیریں کم ہوتی چلی گئیں۔ اُن کو وہ مجسّمہ بہت پسند آیا تھا۔ وہ آرٹ کا ایک نادِر نمونہ تھا۔ ایک شاہکار تھا۔
’’مُجھے اُس شخص کا نام بتاؤ جِس سے تُم نے یہ خریدا ہے۔‘‘
’’شیرازی چچا نے یہ میرے ہاتھ بیچ دیا ہے۔ وہ مجسّمے بناتے ہیں۔ میں نے اُن کو پیشگی کُچھ رقم دے دی ہے۔ وہ اپنی بنائی ہوئی چیزیں بیچتے نہیں ہیں۔ مگر چوں کہ وہ میرے دوست ہیں اِس لیے اُنہوں نے مُجھے یہ بیچ دیا۔ بہت سستے داموں میں۔‘‘
مسٹر رینالڈ نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔ ’’تُم نے اِس کی کیا قیمت ادا کی ہے؟‘‘
’’پچھتر پاؤنڈ۔ میں نے اُن کو پیشگی ایک پنس اور تین ہاف پنس دیے ہیں۔‘‘
’’واقعی؟‘‘ مسٹر رینالڈ نے اپنا چشمہ اُتار کر رومال سے صاف کیا اور بولے۔ ’’مگر وہ اپنے بنائے ہوئے مجسّمے بیچتے نہیں ہیں۔ یہی کہا نا تُم نے؟‘‘ اُن کی آنکھوں میں تیز چمک پیدا ہو گئی۔ ’’مُجھے اپنے چچا شیرازی سے ملواؤ۔ میں اُن سے کُچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’در اصل…‘‘ خالہ صفیہ ابھی بولی ہی تھیں کہ دروازہ ایک جھٹکے سے کھُلا اور وکٹوریہ اندر داخل ہوئی۔ وہ بُری طرح ہانپ رہی تھی۔ ایسا لگ رہا جیسے وہ کافی دُور سے دوڑتی چلی آ رہی ہے۔ اُس نے ہانپتے ہوئے کہا:
’’مسٹر… مسٹر رینالڈ! آپ شازیہ پر ناراض… نہ ہوں۔ یہ مجسّمہ… میں نے… توڑا تھا۔‘‘ پھر وہ بولی۔ ’’میں یہاں سے چلی گئی تھی مگر پھر مُجھے اپنا یہ عہد یاد آ گیا کہ آج سے میں سب سے محبّت کروں گی، اِس لیے واپس چلی آئی۔ اگر شازیہ میری خاطر، میرے قصور کا الزام اپنے سر لے سکتی ہے تو پھر میں اُس کی محبّت میں سچ کیوں نہ بولوں؟ اب آپ اِس کی جو سزا چاہیں دے لیں۔‘‘ مسٹر رینالڈ بڑبڑائے: ’’ایک اور مُصیبت! یہ کون ہے بھئی ؟‘‘
وکٹوریہ خالہ صفیہ کی طرف مُڑی جو اُس کو دیکھ کر مُسکرا رہی تھیں۔ اُنہوں نے مُسکراتے ہوئے مسٹر رینالڈ کو بتایا۔ ’’یہ وکٹوریہ کلارک ہے جِس کے بارے میں مَیں نے آپ کو بتایا تھا۔‘‘
’’اچھّا، اچھّا وہ لڑکی۔‘‘ اُنہوں نے اپنی تیز نگاہیں اُس پر گاڑتے ہوئے کہا۔ ’’تو تُم وہ لڑکی ہو جو پیانو بجاتی تھی۔‘‘
مگر اُن کی تیز نگاہوں میں غصّے کے بجائے محبّت تھی۔ وکٹوریہ گھبرا گئی۔ اُس نے عاجزی سے کہا۔ ’’مُجھے معاف کر دیجیے۔ میں نے اِسے خراب نہیں کیا ہے۔ وہ بڑا پیارا پیانو ہے۔‘‘
مسٹر رینالڈ کے چہرے پر بڑی خُوب صُورت مُسکراہٹ تھی۔ وہ بولے۔ ’’میرا خیال ہے اب تُم میرے لیے پیانو بجاؤ گی۔ کیا خیال ہے؟ جتنا تیز تُم چاہو بجانا۔‘‘
’’مُجھے معاف کر دیجیے۔ مُجھے معاف کر دیجیے۔‘‘ وکٹوریہ نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔ خالہ صفیہ تیزی سے بولیں۔ ’’وکٹوریہ! مسٹر رینالڈ تُم سے مذاق نہیں کر رہے ہیں۔ تُم نے اُن کی اجازت کے بغیر پیانو بجایا تھا۔ اب یہ اپنی موجودگی میں سُننا چاہتے ہیں کہ تُم کیسا پیانو بجاتی ہو۔‘‘
وکٹوریہ نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا، ’’ابھی؟‘‘
’’ہاں، ابھی۔‘‘ یہ کہہ کر خالہ صفیہ اُس کو کندھوں سے پکڑ کر پیانو والے کمرے کی طرف چل دیں۔ وکٹوریہ خواب کی سی حالت میں چلی جا رہی تھی۔ آج کمرے کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ کھڑکیوں پر سے پردے اُٹھے ہوئے تھے جِن میں سے پھُولوں کی خُوش بُو کمرے میں آ رہی تھی۔ وکٹوریہ نے بڑا اچھّا پیانو بجایا۔ اُن لوگوں کو پیاری پیاری دُھنیں سُنائیں۔ اُس کے چہرے پر بڑا سکون اور اطمینان تھا۔ مسٹر رینالڈ نے خالہ صفیہ سے کہا۔ ’’یہ لڑکی بہت اچھّا پیانو بجاتی ہے۔ اگر اِسے باقاعدہ تربیت دی جائے تو اِس کا فن نکھر جائے گا۔‘‘ پھر مسٹر رینالڈ نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اس لڑکی کو میوزک اسکول میں ضرور داخل کرائیں گے۔ آخر میں مسٹر رینالڈ نے وکٹوریہ سے پوچھا۔ ’’کیا تُم مسز کلارک کے ساتھ خوش ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ وکٹوریہ نے جواب دیا۔
’’تو پھر تُم اب مسز نجم خان کے پاس رہو گی۔ اِس سِلسِلے میں مَیں قانونی کارروائی بھی کر لوں گا تا کہ مسز کلارک بعد میں یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم نے وکٹوریہ کو زبردستی روکا ہے۔‘‘
شازیہ نے خوش ہو کر خالہ صفیہ سے کہا۔ ’’ہاں خالہ جان! وکٹوریہ کو آپ اپنے ساتھ رکھ لیں۔‘‘
خالہ صفیہ نے مُسکراتے ہوئے شازیہ کی پیٹھ تھپتھپائی اور بولیں:
’’فکر نہ کرو شازیہ۔ وکٹوریہ ہمارے ساتھ ہی رہے گی۔ اب وہ میری بیٹی ہے۔‘‘
وکٹوریہ کا چہرہ کھِل اُٹھا اور وہ دوڑ کر خالہ صفیہ سے لپٹ گئی۔
اپنے وطن واپسی
رضوان اپنے پلنگ پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔ وہ بولا۔ ’’مسٹر رینالڈ، شیرازی صاحب کے پاس گئے تھے اور وہ سارے مجسّمے خرید رہے ہیں۔ وہ موٹی عورت کا مجسّمہ بھی۔ چچا شیرازی کہہ رہے تھے کہ یہ مجسّمہ میرے لیے بڑا اچھّا ثابت ہوا ہے۔‘‘
شازیہ نے کہا۔ ’’وہ پُر اسرار مکان ہم سب کے لیے اچھّا ثابت ہوا ہے۔ کیوں نہ ہم اُس کو لکی ہاؤس کہہ کر پُکاریں۔ اگر ہم نے وہ مجسّمہ وہاں نہ توڑا ہوتا اور شیرازی صاحب سے دوسرا مجسّمہ لے کر وہاں نہ لگایا ہوتا اور مسٹر رینالڈ نے وہ مجسّمہ نہ دیکھا ہوتا تو اُن کو شیرازی صاحب کے بارے میں کیسے معلوم ہوتا اور وہ کِس طرح شیرازی صاحب کے بنائے ہوئے مجسّمے خریدتے۔‘‘
نیچے دروازہ کھُلنے کی آواز آئی۔ خالہ صفیہ واپس آ رہی تھیں۔ وہ سیدھی اُوپر اُن کے بیڈ روم میں آ گئیں۔
شازیہ نے پوچھا۔ ’’کیا ہوا خالہ؟ کیا مسز کلارک تیّار ہو گئیں؟‘‘
’’ہاں سب کُچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔‘‘ پھر وہ کُچھ سنجیدہ ہو گئیں اور بولیں:
’’بچّو! مُجھے تُم سے ایک ضروری بات پُوچھنی ہے۔‘‘ تُم سے یہ کِس نے کہا کہ میری بچّی بچپن میں کہیں غائب ہو گئی تھی؟‘‘
رضوان نے کہا۔ ’’مُجھے نُور جہاں بیگم نے بتایا تھا کہ آپ کی بچّی دُشمنوں نے چُرا لی ہے۔‘‘
خالہ صفیہ ہنسنے لگیں۔ پھر اُن کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ تھوڑی دیر تک وہ ہچکیاں لے کر روتی رہیں۔ شازیہ، رضوان اور عمران تینوں پریشان ہو گئے۔ جب خالہ صفیہ کی حالت کُچھ سنبھلی تو وہ بولیں۔ ’’رضوان میرے بچّے! نُور جہاں بیگم بھی تمہاری طرح بالکل بچّہ ہیں۔ میری بیٹی اچانک بیمار پڑی اور پھر اُس کا اِنتقال ہو گیا۔ وہ کہیں غائب نہیں ہوئی، اللہ کے ہاں واپس چلی گئی۔‘‘ اُن کی آواز بھرّا گئی تھی۔ ’’میں نے اُس کو کھو دیا تھا مگر اِس معنی میں نہیں جِس میں تُم سمجھے ہو۔‘‘
تینوں بچّے بہت افسردہ تھے۔ شازیہ اُٹھ کر خالہ صفیہ کے پاس گئی اور بولی۔ ’’خالہ جان! آپ یہ سمجھئے کہ آپ کی بیٹی کہیں نہیں گئی۔ وہ اب بھی یہاں موجود ہے۔ میں آپ کی بیٹی ہوں، وکٹوریہ آپ کی بیٹی ہے۔‘‘
خالہ صفیہ نے وکٹوریہ اور شازیہ کو سینے سے لگا لیا۔ وہ بہت خوش اور مطمئن نظر آ رہی تھیں۔ پھر وہ اُٹھ کر عمران اور رضوان کے پاس گئیں اور بولیں۔ ’’صرف شازیہ میری بیٹی نہیں ہے۔ عمران اور رضوان! تُم بھی میرے بیٹے ہو۔ اللہ نے مُجھے پلے پلائے بچّے دے دیے۔‘‘ پھر اُنہوں نے وکٹوریہ کو بتایا کہ مسز کلارک سے بات کر لی گئی ہے۔ وہ اُسے قانونی طور پر اُنہیں دینے کو تیّار ہیں۔ وکٹوریہ کا چہرہ خوشی سے دمک اُٹھا۔
اچانک ٹیلے فون کی گھنٹی بجی۔ عمران سیدھا فون کی طرف دوڑا۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا تو کھِلا پڑ رہا تھا۔ وہ زور سے بولا:۔ ’’سب سے عمدہ خبر آ گئی ہے۔ ہوشیار ہو جاؤ۔ ابّو ٹیلے فون پر خالہ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
کمرے میں وہ شور مچا کہ کان پڑی آواز سُنائی نہیں دے رہی تھی۔ خالہ صفیہ تیزی سے فون کی طرف لپکیں۔ کمرے میں رضوان اور عمران نے دھماچوکڑی مچا رکھی تھی۔ عمران نے چِلّاتے ہوئے کہا۔ ’’وہ اسٹیشن پر ہیں۔ تھوڑی دیر میں وہ یہاں ہوں گے۔‘‘ شازیہ نے تو مارے خُوشی کے رونا شروع کر دیا۔ رضوان خاموش کھڑا تھا۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ تھوڑی دیر بعد خالہ صفیہ واپس کمرے میں آئیں اور کہنے لگیں۔ ’’تمہارے ابّو سخت بیمار ہیں۔ کینیا میں وہ جڑی بُوٹی کی تلاش میں کسی جنگل میں گئے، جہاں اُنہیں کسی کیڑے نے کاٹ لیا۔ جب سے اُنہیں بخار ہے۔ وہ اکیلے اپنے خیمے میں پڑے تھے کہ ایک شکاری نے اُن کو دیکھا اور ہسپتال پہنچا دیا۔ کُچھ دِن تک اُن کو کُچھ یاد نہ رہا۔ پھر رفتہ رفتہ وہ ٹھیک ہوتے گئے۔ اب اُن کی حالت بہتر ہے، مگر تُم لوگ اِتنا شور نہ کرو۔ اُن کو آرام کی سخت ضرورت ہے۔‘‘
خالہ صفیہ نے بات ختم کی ہی تھی کہ دروازے کی گھنٹی بج اُٹھی۔ عمران اور شازیہ بجلی کی طرح کمرے سے باہر نکلے۔ رضوان آرام سے چلتا ہوا باہر گیا۔ باہر نعمان صاحب شازیہ اور عمران کو سینے سے لگائے کھڑے تھے۔ رضوان کو دیکھتے ہی اُنہوں نے اپنے بازو پھیلا دیے اور رضوان بڑا با وقار چلتا ہوا اُن سے لپٹ گیا۔
اگلے روز ناشتے پر نعمان صاحب کا شیرازی صاحب اور وکٹوریہ سے بھی تعارف کرایا گیا۔ وہ اُن دونوں سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ عمران تو اپنے ابّو کی موجودگی میں بات بات پر چہک رہا تھا۔ رضوان ناشتا کرتے کرتے اُٹھ کر بیگم نُور جہاں کے کمرے میں گیا۔ پھر وہ فوراً ہی واپس آ گیا۔ وہ سخت گھبرایا ہوا تھا۔ ’’جلدی کیجئے خالہ صفیہ! بیگم صاحبہ کی حالت بہت خراب ہے۔‘‘
رضوان کے الفاظ بم کے دھماکے سے کم نہ تھے۔ لوگ اُن کے کمرے کی طرف دوڑے۔ مگر دیر ہو چُکی تھی۔ نُور جہاں بیگم ہمیشہ کی نیند سو چُکی تھیں۔ شام کو سب لوگ بیٹھے ہوئے مُستقبل کے پروگرام بنا رہے تھے۔ خالہ نے نعمان صاحب سے پوچھا۔ ’’اب آپ کا کیا پروگرام ہے؟‘‘
’’مُجھے اب وطن کی یاد بہت آ رہی ہے۔ میں نیروبی سے سیدھا یہاں اِس لیے آیا تھا کہ بچّوں کو ساتھ لے کر پاکستان چلا جاؤں گا۔ وہاں میرا اِرادہ ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا ہے جو جڑی بُوٹیوں پر تحقیق کا کام ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کر سکے۔ اِس کے لیے مُجھے اچھّے خاصے سرمائے کی ضرورت ہے۔ میرے پاس سرمایہ کم ہے مگر میں کوشش کروں گا۔‘‘
رضوان اچانک بولا۔ ’’ابّو! آپ کو کتنے روپے کی ضرورت ہے؟ مُجھے بتائیے میں آپ کو دوں گا۔‘‘ نعمان صاحب نے حیران ہو کر رضوان کی طرف دیکھا تو خالہ صفیہ نے اُنہیں ساری بات بتائی کہ نُور جہاں بیگم نے اپنی تمام دولت رضوان کے نام کر دی ہے۔
ضروری قانونی کارروائی کے بعد نُور جہاں بیگم کی ساری دولت رضوان کو مل گئی اور پھر نعمان صاحب نے بچّوں کو ساتھ لے کر پاکستان جانے کی تیّاریاں شروع کر دیں۔
ایک دِن شازیہ نے نعمان صاحب سے کہا۔ ’’ابّو! کیا ہمارے بعد خالہ صفیہ اور وکٹوریہ کا دِل یہاں لگ جائے گا؟ میں دیکھ رہی ہوں کہ جیسے جیسے ہمارے جانے کے دِن قریب آ رہے ہیں وہ دونوں اداس ہوتی جا رہی ہیں۔‘‘
نعمان صاحب نے کہا۔ ’’بیٹی! تُم اُن سے بات کر لو۔ اگر وہ ہمارے ساتھ پاکستان چلی چلیں تو اِس سے اچھّی کیا بات ہے۔‘‘
اگلے دِن نعمان صاحب، شازیہ، عمران اور رضوان سب نے خالہ صفیہ سے اِس مسئلے پر بات کی۔ پہلے تو وہ تیّار نہ ہوئیں۔ پھر گھنٹوں کی بحث اور کوشش کے بعد وہ وکٹوریہ کو ساتھ لے کر پاکستان چلنے پر تیّار ہو گئیں۔ اپنا مکان اُنہوں نے بیچ دیا۔
ایک ماہ بعد خالہ صفیہ، نعمان صاحب، عمران، شازیہ، رضوان اور فائزہ پی آئی اے کے دیو ہیکل بوئنگ 747 میں پاکستان کی طرف پرواز کر رہے تھے۔ جی ہاں، وکٹوریہ کا نیا نام فائزہ تھا، شازیہ کی بڑی بہن۔
Facebook Comments