پرانا پنکھا
میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منگل کی شام کو اسلم کی سالگرہ ہوئی۔ سالگرہ کی اس تقریب میں اسلم کے قریب قریب تمام ساتھی شریک ہوئے اور جیسا کہ طریقہ ہے کہ اس کے دوستوں اور عزیزوں نے رنگارنگ تحفے دیے۔یہ تحفے اس قدر زیادہ تھے کہ ساری میز بھر گئی تھی۔یہ تحفے نہ صرف زیادہ تھے بلکہ خوب صورت بھی تھے۔جب سب نے چائے پی لی تو میاں صاحب نے اسلم سے کہا:
”اسلم بیٹا ! سال گرہ تو ختم ہوگئی ہے۔اب معلوم ہے تمہیں کیا کرنا ہے۔“
اسلم بولا:” معلوم ہے چچا جان! مجھے یہ بتانا ہے کہ یہ تحفے جو آج مجھے سال گرہ پر ملے ہیں ان میں سے وہ تحفہ کون سا ہے جو مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔“
”بالکل ٹھیک۔“میاں صاحب نے کہا۔
چند منٹ گزرے ہوں گے کہ اسلم تحفوں والے کمرے کے اندر جاکر ایک کھلونا اٹھا لایا۔یہ ایک بہت خوب صورت مور تھا۔اسے اسلم کے ماموں جان کسی بیرونی ملک سے اس کے لئے لائے تھے۔سب نے اسے دیکھا تھا اور انہیں یقین تھا کہ اسلم اسی کو سب سے زیادہ پسند کرے گا۔
”بہت اچھا،تمہارا انتخاب بالکل ٹھیک ہے۔مجھے تمہاری پسند کا علم ہوگیا ہے۔اب یہ مور لے جاؤ۔“اور اسلم خوش خوش مور لے گیا۔
چار دن بعد زبیر کی سال گرہ تھی۔تقریب ختم ہوئی تو میاں صاحب نے زبیر سے وہی کچھ کہا جو اسلم سے کہہ چکے تھے۔زبیر تحفوں میں سے ایک ریل گاڑی لے آیا جو چابی دینے پر چھک چھک چلتی تھی اور کئی منٹ تک چلتی رہتی تھی۔
”تمہاری پسند بھی بہت اچھی ہے۔“میاں صاحب نے گاڑی دیکھ کر کہا۔
تیسری سال گرہ کسی لڑکے کی نہیں،ایک لڑکی کی تھی جس کا نام ثریا تھا اور یہ سالگرہ اکیس روز بعد آنے والی تھی۔جو بچے اور لوگ ان تقریبات میں شامل ہوئے تھے وہ اب ثریا کی سال گرہ کا انتظار کرنے لگے تھے۔
عزیز بچو!تمہارے ذہن میں یہ خیال ضرور آیا ہوگا کہ سال گرہ تو ہوتی ہی رہتی ہے۔ہر سال گرہ پر بچوں کو تحفے بھی ملتے ہیں،مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سال گرہ ختم ہوجائے تو کوئی بزرگ سال گرہ والے بچے سے یہ کہے،”بھئی جو تحفہ تمہیں سب سے زیادہ پسند ہے وہ ہمیں دکھا دو۔“ سال گرہ کے ان دو موقعوں پر ایسا کیوں ہوا ہے؟کیوں ہے نا عجیب وغریب معاملہ!
خیر، میں اس کی وجہ بتاتا ہوں۔
ایک محلے میں یہ تین بچے رہتے تھے۔اسلم،زبیر اور ثریا۔ان کا آپس میں رشتہ بھی تھا۔یعنی ایک دوسرے کے عزیز تھے اور آپس میں دوستی تھی۔تینوں اپنی اپنی سال گرہ مناتے تھے۔اسی محلے میں ایک بزرگ میاں عالم علی بھی رہتے تھے۔وہ تینوں کی سال گرہ کے موقع پر آتے تھے اور بڑی دلچسپی کے ساتھ ہر ایک کے تحفے دیکھتے تھے۔اس مرتبہ انہوں نے کہا:
”میں بچوں کی پسند کا اندازہ لگانا چاہتا ہوں۔اب کے جو بچہ اپنا بہترین تحفہ ہمیں دکھائے گا، میں اسے اپنی طرف سے بھی ایک خوب صورت تحفہ دوں گا۔“
طے یہ ہوا تھا کہ تینوں کی سال گرہ کی تقریبیں ختم ہو جائیں گی اور ہر بچہ اپنا اپنا بہترین تحفہ دکھا چکا ہوگا تو میاں صاحب خود فیصلہ کریں گے کہ کس کا تحفہ واقعی بہترین ہے اور وہ اس بچے کو اپنا انعام دیں گے۔تو اسلم اور زبیر اپنی اپنی سال گرہ کے بعد اپنا پسندیدہ تحفہ دکھا چکے، اب سال گرہ ہونے والی تھی ثریا کی۔
اللہ اللہ کر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور ثریا کی سال گرہ کا دن آگیا۔اس شام بچوں اور بڑوں کی تعداد پہلی دونوں تقریبوں کے مقابلے میں زیادہ تھی اور وہ اس وجہ سے کہ اس تقریب کے ختم ہونے پر میاں صاحب کو اپنا فیصلہ سنانا تھا۔یعنی سال گرہ کی تینوں تقریبوں میں کس کا تحفہ بہترین ہے اور کون انعام کا حق دار ہے۔ ثریا کے عزیزوں اور سہیلیوں نے کوشش کی کہ اچھے سے اچھے تحفے دیں تاکہ اسے اپنے بہترین تحفے کے انتخاب میں ہر طرح سہولت حاصل ہو جائے اور میاں صاحب اس کی پسند کے تحفے کو مقابلے میں اول نمبر قرار دے کر انعام دیں۔
ثریا کی سال گرہ میں بڑی دھوم دھام تھی۔ثریا کے گھر والوں نے دعوت کا بھی بہت اچھا انتظام کر رکھا تھا۔کھانے پینے کی چیزیں بڑی تعداد میں تھیں۔تحفوں میں برابر اضافہ ہوتا چلا گیا۔ہر ایک نے اپنی طرف سے بہت خوب صورت تحفے دیے۔جن لوگوں نے ان تحفوں کو دیکھا تھا وہ سوچ رہے تھے کہ ثریا کس تحفے کو باقی تمام تحفوں پر ترجیح دے گی۔اس کے لیے اپنی پسند کا اظہار مشکل ہوجائے گا۔
جب تقریب ختم ہوئی تو ثریاکی بے تکلف سہیلیاں تحفوں والے کمرے میں چلی گئیں اور اسے تحفے کے انتخاب میں مشورہ دینے لگیں۔ طلعت جو ثریا کی سب سے پرانی سہیلی تھی، اس نے ثریا کو مشورہ دیا،”ثریا دیکھو،اسلم اور زبیر نے بڑے خوب صورت تحفوں کو پسند کیا تھا۔تم ان سے پیچھے نہ رہنا۔میرا مشورہ یہ ہے کہ اس گھڑی کو پسند کر لو اور میاں صاحب کو بتا دو کہ یہ گھڑی میرا بہترین تحفہ ہے۔“
وہ گھڑی جو طلعت نے پسند کی تھی بے حد قیمتی اور خوب صورت تھی۔اس کے اندر ایک ننھی سی پری ناچتی ہوئی دکھائی دیتی تھی،جو ناچتے ناچتے رک جاتی تھی تو وقت ایک گھنٹہ یا آدھا گھنٹہ زیادہ ہوجاتا تھا۔گویا یہ پری گھڑی کی سوئیوں کے اشاروں پر ناچتی رہتی یارک جاتی تھی۔ثریا کی دوسری سہیلیوں نے بھی طلعت کی تائید کردی تھی۔یہ سب سہیلیاں اپنی طرف سے ثریا کا مسئلہ حل کر چکی تھیں اور انہیں یقین تھا کہ جب میاں صاحب پوچھیں گے کہ ثریالاﺅاپنی پسند کا تحفہ تو وہ فوراً کمرے کے اندر جاکر یہی گھڑی اٹھا کر باہر لے آئے گی اور میاں صاحب سے ان کا بہترین تحفے والا انعام حاصل کرے گی۔طلعت نے دوسروں کو بھی بتا دیا تھا کہ ثریا گھڑی کے سوا اور کچھ نہیں لائے گی۔یہ خبر میاں صاحب کو ہو چکی تھی۔
جب سب بیٹھ گئے تو میاں صاحب نے ثریا سے مخاطب ہوکر کہا:
”ثریا بیٹی!مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے وہ خوب صورت گھڑی پسند کی ہے جو تمہیں تمہارے چچا نے دی ہے۔لے آؤ یہ گھڑی۔“
ثریا نے جواب دیا:”چچا جان نے جو تحفہ دیا ہے وہ بے حد پیارا ہے اور میں ان کی بہت ممنون ہوں مگر….“
”مگر کیا ثریا؟“میاں صاحب نے پوچھا۔
”میرا بہترین تحفہ اور ہے۔“
”اور ہے؟“طلعت اور اس کی سہیلیوں کے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ نزہت نے طلعت کے کان میں کہا،”گھڑی سے بڑھ کر اور کیا تحفہ ہوگا۔“
طلعت بڑی حیران تھی،بولی:” پتہ نہیں اور کیا تحفہ ہو سکتا ہے۔“
”گھڑی بہترین تحفہ نہیں ہے ثریا؟“میاں صاحب نے کہا۔
”جی نہیں،میری نظر میں تو کوئی اور چیز ہے۔“
”تو بیٹی! وہ چیز لے آؤ۔“
ثریا اٹھی اور برابر والے کمرے کے اندر چلی گئی۔سب اس کا بڑی بے تابی سے انتظار کرنے لگے۔ان کی نگاہیں کمرے کے دروازے پر جمی تھیں۔چند لمحوں کے بعد ثریا دروازے پر دکھائی دی مگر یہ کیا؟ اس کے ہاتھ میں تو ایک پرانا پنکھا تھا۔
”ہیں یہ کیا؟“
طلعت اور دوسری لڑکیوں کو اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آیا تھا۔باقی لوگ سب حیران تھے کہ اس لڑکی نے کیا کیا ہے۔سارے قیمتی تحفے چھوڑ کر ایک پرانا پنکھا اٹھا لائی ہے۔ثریا کے اپنے گھر والے بھی سوچنے لگے کہ ثریا کو آج کیا ہوگیا ہے۔میاں صاحب کہنے لگے،”ثریا!“
”جی میاں صاحب!“
”یہی ہے تمہارا سب سے زیادہ پسندیدہ تحفہ۔“
”جی ہاں۔“
میاں صاحب بولے:” دیکھو بیٹی! یہاں کسی کو بھی یہ امید نہیں تھی کہ تم اس پرانے پنکھے کو اپنا اعلیٰ ترین تحفہ کہوگی۔اس لئے میں تم سے پوچھتا ہوں کہ تم نے اسے کیوں باقی تحفوں پر ترجیح دیں۔“
ثریا میاں صاحب کے سامنے کھڑی تھی اور ادب و احترام سے اس کا سر جھکا ہوا تھا۔اس نے کہا ،” میں نے اسی کو سب تحفوں پر ترجیح دی ہے۔“
”مگر کیوں بیٹی؟“
”بتاتی ہوں میاں صاحب! میں جب چھوٹی سی بچی تھی تو ہمارے گھر میں ایک نوکرانی کام کرتی تھی جس کا نام کریمن تھا۔میری امی اور باجی دونوں گھر کے کاموں میں مصروف ہو جاتی تھیں تو کریمن مجھے گود میں اٹھا کر باہر باغ میں لے جاتی تھی۔باغ میں گرمی ہوتی تھی۔کریم نے خود ایک پنکھا بنایا تھا جسے وہ جھلتی رہتی تھی۔جب میں بڑی ہو کر اسکول جانے لگی تو کریمن چلی گئی۔سال دو سال بعد ملنے کے لیے آجاتی تھی۔ چند روز پہلے وہ آئی تھی تو اسے میری سال گرہ کا علم ہوا۔بولی چھیا،”میں بھی تحفہ دو ں؟“میں نے کہا،” دینا چاہتی ہو تو دو،مگر پیسہ ایک بھی خرچ نہیں کرنا۔“کہنے لگی،”نہیں خرچ کروں گی۔“اور وہ گھر سے یہی پنکھا لے آئی۔میں نے کہا،”اماں ذرا پہلے کی طرح جھل کر تو دکھاؤ۔“کریمن نے مجھے گود میں لے لیا اور وہ پنکھا جھلنے لگی۔میاں صاحب میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ جب اس کا دایاں ہاتھ حرکت کر رہا تھا تو کیسی میٹھی ہوا مجھے چھو رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں تو اتنا پیار تھا کہ کبھی بھی لفظوں میں یہ بیان نہیں کر سکتی۔مجھے لگا جیسے میں ایک دم ہی چھوٹی بچی بن گئی ہوں اور کریمن اسی طرح بڑی محبت سے مجھے پنکھا جھل رہی ہے۔کچھ دیر بعد کریمن یہ کہہ کر چلی گئی:
”چھیا! میرے پاس تو یہی تحفہ ہے جسے میں نے اب تک سنبھال سنبھال کر رکھا ہے۔“
اور میں نے کریمن کا شکریہ ادا کرکے یہ پنکھا لے لیا اور اسے الماری میں رکھ دیا۔“
تقریب میں جتنے لوگ بیٹھے تھے اور جو ثریا کے ہاتھ میں پہلے یہ بہت معمولی پنکھا دیکھ کر اسے پاگل سمجھنے لگے تھے اب خاصے متاثر لگتے تھے۔
میاں صاحب بولے:
” ثریا بیٹی! تم نے بالکل درست فیصلہ کیاہے،مگر بیٹی میرے پاس کوئی ایسا انعام نہیں ہے جو میں تمہارے اس انمول تحفے کے بعد دے سکوں۔ میں تمہیں صرف دعا دیتا ہوں اللہ کرے تم زندگی میں ہمیشہ ایسا ہی مناسب اور درست فیصلہ کیا کرو۔“
میاں صاحب نے اپنا فقرہ ختم کیا ہی تھا کہ ثریا کے چچا جان اپنی جگہ سے اٹھے اور ثریا کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر کر بولے:
”ثریا بیٹی!شاباش! اس پنکھے کے سامنے میری گھڑی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔میں بھی تمہیں وہ دعا دیتا ہوں جو میاں صاحب نے دی ہے۔“
اب کیا تھا، سب کے سب ثریا کے فیصلے کی تعریف کرنے لگے۔