skip to Main Content

بچوں کے لیے مشہور انگریزی ناولوں کے اردو تراجم

احمد عدنان طارق

کا مقالہ بہ عنوان

بچوں کے لیے مشہور انگریزی ناولوں کے اردو تراجم

جو انہوں نے

شعبہ اردو:علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،اسلام آباد

کے تحت منعقد ہونے والی

دوروزہ بین الاقوامی اردو کانفرنس
18-19 اگست 2017

کے سیشن بہ عنوان
ترجمہ نگاری:تہذیبوں کے مابین فکری مکالمہ
میں پیش کیا

۔۔۔۔۔۔

میرا موضوع پاکستان میں بچوں کے ادب میں انگریزی سے ترجمہ ہے۔ یہاں اس محفل میں اس موضوع پر مقالہ پڑھنے کے لئے میرا انتخاب دو بنیادں پر کیا گیا ہے۔ ایک تو یہ کہ میں بچپن سے آج تک بچوں کے ادب سے کسی نہ کسی حیثیت سے منسلک رہا ہوں اور دوسرے یہ کہ اس عمر میں بچوں کے ادب سے میں بچوں کے ایک ادیب کی حیثیت سے جڑا ہوا ہوں اور امید واثق ہے کہ جب تک جیوں گا اس حیثیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کروں گا۔
اس سے پہلے کہ میں اس مقالے کے موضوع کے عین مطابق حقائق اور اعداد وشمار کی طرف جاو¿ں آپ حضرات کو میرے مقالے میں ”میں“ کا ذکر برداشت کرنا ہوگا۔ اس کی بھی وجوہات ہیں کیونکہ سارے جہاں میں شور مچا ہوا ہے کہ غالباً انگریزی زبان کے مقابلے میں اردو زبان سے سوتیلی زبان سا سلوک روا رکھا جاتا ہے لیکن میرے مشاہدے اور میرے محسوسات کے مطابق بچوں کے ادب میں انگریزی زبان کی بچوں کی کہانیوں کو صرف بہت زیادہ کھاتے پیتے گھرانوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اب اگر اس مشاہدے کا میں تذکرہ کروں گا یا اپنے محسوسات آپ حضرات تک پہنچاو¿ں گا تو مجھے ”میں “ ،”مجھے“ کے طرز تکلم کو اپنا کر بات کرنی ہوگی اور آج کل دوسرے ادیبوں سے زیادہ کیونکہ اس زبان کی ماں بولی کہانیوں کو میں اپنے درمیانے طبقے کے ماں باپ کے بچوں سے متعارف کروا رہا ہوں تو اگر میری گفتگو میں تنقید کا پہلو نکلتا ہو تو وہ خود میری ذات سے شروع ہونا چاہیے۔
پاکستان بننے کے فوراً بعد جب بچوں کی کہانیوں کی پہلی کتابیں شائع ہونی شروع ہوئیں تو پڑھے لکھے لوگ خواہ وہ ہندوستان میں مقیم تھے یا پاکستان میں وہ بخوبی ” اینڈ بلٹن“ کے نام کو جانتے تھے۔ وہ اینڈ بلٹن کے بارے میں صرف یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ ایک خاتون بچوں کی مصنفہ تھیں یا یہ کہ وہ 1926 میں انتقال کر گئی تھیں۔ بلکہ انہیں معلوم تھا کہ وہ بچوں کے لئے آٹھ سو کتابیں تحریر کرکے اس جہان فانی سے رخصت ہوئی تھیں اور آج بھی دنیا کے چھبیس ممالک میں ان کتابوں کی اشاعت پر ملنے والی رائلٹی سے بچوں کی فلاح بہبود کے کام کئے جا رہے ہیں۔ اس لئے اگرچہ پاکستانی بچوں کے مصنفین نے بے شک مقابلتاًتھوڑا دیر سے سہی لیکن ان پر کام ضرور کیا۔
ان کی ایڈوینچر سیریز کے ناولRiver of Adventure کو سید ذاکر اعجاز نے اردو زبان میں”دیوی کا خزانہ“ کے نام سے ڈھالا۔ ان کے مشہور ناول Secret of Moon Castle کو محترم احمد سعید صاحب نے ”اونچی حویلی کا راز“ کے نام سے مشرف با اردو کیا۔ ان کے ناول Boys Six Bad کو محترم آفتاب احمد صاحب نے”چھ برے لڑکے“ کے نام سے اردو میں اختیار کیا۔ محترم ابراہیم رامے نے اینڈ بلٹن کے ایک ناول کو” خفیہ جزیرے “کا نام دیا اور یہ اردو میں اختیار کئے ناول اتنے خوب صورت اور مزے کے تھے کہ مجھ سمیت تب کے بچے اور آج کے بوڑھے ان بچوں کے ناولوں کے طلسم سے نہیں نکل سکتے۔ یہ تمام ناول ستر کی دہائی میں فیروز سنز نے چھاپے۔ بچوں کے ادب پر جس پبلشر نے قیام پاکستان کے بعد سب سے بڑا احسان کیا ہے وہ فیروز سنز ہی تو ہے۔
انگریزی کی کلاسک داستانیں اور ہیرو قیام پاکستان کے فوراً بعد بچوں میں مشہور ہونا شروع ہو گئے تھے اور ابھی بھی رہنا چاہئیں کیونکہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی ہم سب مصنفین مل کر بھی کوئی پاکستانی ہیرو بچوں میں پیدا کر نہیں سکے جسے ہم ٹارزن۔ حاتم طائی۔ امیر حمزہ یا عمرو عیار کے پائے کا کہہ سکیں۔ ٹارزن صاحب اگر انگلستان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کو ایڈ گر رائس برو نے تخلیق کیا تھا تو باقی حضرات کا تعلق عربی زبان کی کہانیوں سے تھا۔ ٹارزن کا ترجمہ بہت سی زبانوں میں ہوا ہوگا لیکن جو کمال محترم مقبول انصاری صاحب نے اردو میں دکھایا شاید اسکا کوئی ثانی نہیں۔ جنگل کی کہانیوں میں مقبول جہانگیر صاحب نے افریقن ایڈونچر کو ”افریقہ کے جنگلوں میں “ کے نام سے اردو میں لکھا اور ولرڈ پرائس کے افریقن ایڈونچر کو اپنے ناول ”خونی بستی“ کے نام سے اردو پڑھنے والے بچوں تک پہنچایا۔
ولرڈ پرائس کے باقی جنگل کے ناولوں کو محمد یونس حسرت صاحب نے ”خونی دیوتا“،”خونی مقابلے“ کے نام سے ڈھالا تو ہمارے اپنے اشتیاق احمد مرحوم نے بھی جو ترجمہ نہیں کرتے تھے ایک ناول”خونی جنگل“ کے نام سے بچوں کو اردو میں لکھ کر دے دیا۔ پھر انگریزی زبان میں بچوں کی مشہور ناولوں کی سیریز Investigators Three کو ہمارے بچوں میں مقبول جہانگیر صاحب نے ”تین ننھے سراغرساں“ کے نام سے تیرہ ناولوں میں لکھا۔ ان ناولوں میں سے بیشتر مقبول جہانگیر صاحب کے تھے جبکہ ان میں سے ایک دو”سلیم احمد صدیقی صاحب“ نے ترجمہ کئے تھے۔
یہی مقبول جہانگیر تھے جنہوں نے سن رائز پبلی کیشنز کی وساطت سے مشہور فرانسیسی ناول نگار ” گائی بوتھبی“ کے ناول ”ڈاکٹر نکولا“ جو انگریزی زبان میں زبان زدعام تھا بچوں کے لئے دو حصوں میں لکھا۔ محترم سلیم احمد صدیقی کا ذکر بار بار آ رہا ہے تو حال ہی میں ریلیز ہونے والی بچوں کی پسندیدہ فلمThe Hail Kong کے ہیرو کنگ کانگ کو انتہائی خوش اسلوبی سے بچوں کے لئے ”کنگ کانگ“ کے نام سے ناول کا روپ دیا۔ پبلشر جانے پہچانے تھے یعنی فیروز سنز۔
آج ہم ہر دوسرے سال اپنے بچوں کے ساتھ سپرمین سیریز کی نئی فلم دیکھتے ہیں ،یہ کالک ہیرو سے adapt کی ہوئیں فلمیں ہمیں بھی بھاتی ہیں اور بچوں کو بھی۔ لیکن ہماری سپر مین سے ہمارے بچپن میں ملاقات ہمارے پسندیدہ ادیب ”محمد یونس حسرت“ صاحب نے کروائی تھی۔ انہوں نے سپر مین کا اردو نام رکھا تھا ”ارژنگ“ اور تین ناولوں میں ارژنگ کو ہم سے روشناس کروایا تھا۔ آج بچے جو آنکھوں سے دیکھتے ہیں ہمارے پسندیدہ ادیب ان ہیروز کو کہانیوں کے ذریعے ہمارے لا شعور میں بٹھا دیا کرتے تھے۔ہم اپنے بچپن میں سپر مین کو ارژنگ کے روپ میں دیکھ چکے تھے۔تب کی بات ہے جب ٹیلیویژن تک ہماری رسائی نہیں ہوا کرتی تھی۔میں آٹھ سال کا تھا تو کیونکہ میری والدہ ہیڈمسٹریس تھیں اور میں تاندلیانوالہ جیسے غیر معروف اور چھوٹے سے قصبے میں ان کے ساتھ رہتا تھا تو ان کے سکول کی لائبریری سے میں نے بچوں کا ایک ناول لے کر پڑھا۔ ناول کا نام تھا”ان دیکھی دنیا“ مصنف کا نام تھا”سعید رضا سعید“ صاحب۔ یہ ناول ڈائنو سارز کے بارے میں تھا اور انگریزی کے ناول Unseen World کا ترجمہ تھا جو سر آرتھر کونن ڈائل نے لکھا تھا۔
یوں ان ترجموں کے صدقے میں آٹھ سال کی عمر میں تاندلیانوالہ میں ڈائنوسارز سے متعارف ہو چکا تھا۔ جن سے پاکستانی بچوں کی اکثریت 1995 میں فلم Jurasic Park دیکھ کر متعارف ہوئی۔ میں نے وینڈی کوپر کا نام The Cat Strikes at Nightپڑھ کر جانا تھا لیکن تب تو میں انگریزی جانتا ہی نہیں تھا کیونکہ میں پانچویں جماعت میں تھا اور میں نے انگریزی چھٹی جماعت میں پڑھنی شروع کی تھی وینڈی کوپر کو میں نے” سید ذاکر اعجاز“ صاحب کی وساطت سے جانا جنہوں نے ” چھاپا مار بلا“ کے نام سے اس ناول کا ترجمہ کیا ۔میں نے رائیڈر ہیگرڈ کے ناول King Solomen Mines کا ترجمہ ”سلیم الرحمن“ کی زبانی ”سلیمانی خزانہ“ کی صورت میں پڑھا۔میں نے اسی عظیم ناول نگار کا عظیم ناولShe کو محترم ذوالفقار احمد تابش کی زبانی پڑھا۔
ایرک کاسٹنر کے ناول کو ابو ضیا اقبال صاحب نے ” چھنگلو میاں کے کارنامے“ کے نام سے اردو میں لکھا۔ ” ارسلاوان ویز“ کے ناول کو ایک ہمارے اور مایہ ناز ادیب ”راز یوسفی“ جو زیادہ طبع زاد کام کرتے تھے نے ”سرکس کا ہاتھی“ کے نام سے بچوں کا کلاسک ناول بچوں کو تحفے میں دیا۔ انہی محترم نے بچوں کو دو اور لازوال ترجمہ شدہ ناول عنایت کئے جن میں سے ایک ”جیکسن بونزون“ کا ناول ”سمترا کے یتیم“ تھااور اردو میں ہم آج تک اس ناول کو”دویتیم“کے نام سے جانتے ہیں۔دوسرے ناول کا نام”نیلا طوطا“تھا۔ یہ ناول بھی ماخوذ تھا۔ رائیڈر ہیگرڈ کے ناول She کو بعد میں محترم ستار طاہر نے بھی ترجمہ کیا۔
مقبول جہانگیر صاحب نے شرلاک ہومز جیسے کردار کو بھی پاکستانی بچوں میں متعارف کروایا۔ سب کو معلوم ہے کہ شرلاک ہومز کا کردار سر آرتھر کونن ڈائل کے ذہن کی اختراع تھی لیکن بچے آج بھی شرلاک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن کو مقبول جہانگیر کے ترجمہ شدہ ناولوں” کبڑا مداری“ ”ناچتی تصویریں “اور” ہیرے کی تلاش“ میں پڑھتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ شرلاک ہومز کوئی پاکستانی کردار ہے اور اس نے تفتیش کی کہانیاں ہماری پولیس سے مستعار لی ہیں۔ جیمز ہلٹن کے مشہور ناول” لاسٹ ہور آیزن“ کی تخلیص و ترجمہ محترم ” رفیع الزمان زبیری“ صاحب نے ” خواب نگر“ کے نام سے کیا اور یہ ناول”ہمدرد مطبوعات“ نے چھاپا۔ حکیم محمد سعید مرحوم کے اس ادارے نے مسعود احمد برکاتی صاحب کی زیر قیادت اس ضمن میں بہت کام کیا جس کا تذکرہ آگے چل کر آئے گا۔ ولیم شیکسپئر کہتے تھے ” بچوں کو تعلیم یافتہ کرنا ہے تو انہیں مزید پریوں کی کہانیاں سنائیں۔“
ولیم شیکسپئر کی تصنیف ”میکبتھ“ کو ستار طاہر صاحب نے اسی نام سے اردو میں ڈھالا۔ پبلشر تھے ” دوست پبلیکیشنز“ رڈیارڈ کپلنگ کی ”جنگل بک“ پچھلے دنوں سب بچوں نے بڑے مزے مزے سے دیکھی۔ موگلی اور رکھشا کے کرداروں سے ہمارا تعارف محترم ”احفاظ الرحمن“نے کروایا تھا اور ان کے ترجمے کا نام تھا ” جنگل کا بادشاہ“ میں نے اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر یہ فلم دیکھی تو مجھے لگا جیسے میں ان کرداروں کو اپنے بچپن سے جانتا ہوں اور یہ حقیقت ہے ۔میں موگلی اور رکھشا کو بچپن سے جانتا تھا۔ میں احفاظ الرحمن کا شکریہ ادا کروں گا جنہوں نے ”نکولائی گوگول“ کے مشہور کردار” تارس بلبا“ کو مجھ سے روشناس کروا دیا تھا۔
اس مشہور کردار کو برباد کرنے کی ایک مذموم کوشش ہمارے ہمسایہ ملک نے فلم ”ویر“ بنا کر کی جس میں ان کے ایک فلمی اداکار متھن چکربورتی نے تارس بلبا بننے کی ناکام کوشش کی۔ جس سے تارس بلبا پڑھنے والوں کو دلی تکلیف ہوئی، بہرکیف بچپن میں تارس بلبا ہمارا پسندیدہ ناول تھا۔ ڈاکٹر احسن فاروقی صاحب نے اس کام میں اپنا حصہ ڈالا اور ایم اے فلاسفی ، ایم اے انگلش اور پی ایچ ڈی (انگلش لٹریچر) کرنے کے بعد اولیور ٹوئسٹ کو ہمارے بچوں کے درمیان لے آئے ان کے ناول کا نام ”گرہ کٹ“ تھا۔ ان کے تقریباً ہم نام محترم ”احسن فرخی“ صاحب نے ہماری واقفیت ”لورنا ڈون“ کے مشہور کردار سے کروائی اور ان کا ناول”قزاقوں کی وادی“ کے نام سے فیروز سنز نے ستر کی دہائی میں چھاپا۔
ہیرلڈلیم تاریخ لکھنے کا ایک مسند نام ہے۔ ان کی مشہور داستان The Curved Saber کو فیروز سنز ادارے کے لئے سید ہادی حسین نے اردو میں بچوں کے لئے”خلت قزاق“ کے نام سے لکھا۔ ہیرلڈلیم کی صلیبی جنگوں کے احوال کو بھی ”صلیبی جنگیں“ کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ ناولوں کے ذریعے جتنی ایجادات کا خیال سائنسدانوں کو” ایچ جی ویلز“ کے ناول پڑھ کر آیا شاید کسی اور ناول نگار کا نام اس صف میں نہیں ہے۔ ”چاند پر پہلا آدمی“،”مریخ کا حملہ“ محترم عباس صاحب نے بچوں کے لئے ایچ جی ویلز کو اردو میں ڈھالا۔
قمر نقوی شکاریات لکھتے لکھتے بچوں کی خدمت ” ڈینیل ڈیفوئی“ کے ناول” رابن سن کروسو“ کو اسی نام سے اردو میں لکھ کر بچوں کے لئے کر گئے۔ ”جم ہاکس“ کے کردار کو پاکستانی بچوں میں ”شوکت ہاشمی“ صاحب نے ” خونی جزیرہ“ لکھ کر متعارف کروایا اور شاید سمندری قزاقوں کو بھی۔ اس زمانے میں مشہور ناول ” اے ٹیل آف ٹو سیٹز“ جسے چارلس ڈکنز نے لکھا اور دوامی شہرت پائی بچوں کے لئے انقلاب فرانس پر یہ ناول ” خون کی ہولی“ کے نام سے بیگم ایچ آئی احمد نے لکھا۔
انگریزوں کے دو ہیرو ہیں۔امیروں کا ہیرو ہے کنگ آرتھر اور غریبوں کا ہیرو ہے رابن ہڈ۔وہی رابن ہڈ جو شیروڈ کے جنگلوں میں رہتاتھا اور نا ٹنگھم شائرکاﺅنٹی کے بارے میں ہم پاکستانی جانتے ہیں کہ وسیم اکرم اس کاﺅنٹی کی طرف سے کرکٹ کھیلتے رہے ہیں اور پاکستانی بچوں کو معلوم ہے کہ نا ٹنگھم کاﺅنٹی سے رابن ہڈ کا تعلق تھا جو امیروں کو لوٹتا تھا اور غریبوں کی مدد کرتا تھا۔وہ انگلستان کا حاتم طائی تھاادبی دنیا کا۔لیکن جن بچوں کو پاکستان میں اس کردار سے واقفیت نہیں تھی وہ کروائی ذاکراعجاز صاحب نے،جنہوں نے فیروز سنز کی طرف سے رابن ہڈ پر بہت خوب صورت ناول تحریر کیا۔
ایچ جی ویلز کا ایک اور ناول فیروز سنز نے ”غیبی انسان“کے نام سے شائع کیا جو لکھا سلیم الرحمن نے۔سلیم الرحمن صاحب کے دونوں ناول ”سلیمانی خزانہ“ اور”غیبی انسان“اب دوبارہ ریڈنگزنے نئے روپ سے شائع کیے ہیں۔Around The World 80 Days جو جولز ورنے نے لکھاکا ترجمہ”دنیا کا سفر “کے نام سے فیروز سنز کی طرف سے کیا گیا۔اسی جولز ورنے کے ”کپتان نیمو“کو بھی فیروز سنز نے اردو پڑھنے والے بچوں کی خدمت میں پیش کیا۔
ولیم شکیسپئرکا”مرچنٹ آف وینس“منور جاوید صاحب نے ”وینس کا سوداگر“کے نام سے بچوں کے لیے ڈھالا۔واشنگٹن ارونگ کی کہانیوں کو ریاض احمد صاحب نے”سر کٹا گھڑ سوار“کے نام سے ترتیب دیا۔فیروز سنز نے دنیا بھر کی کہانیوں کو ملکوں کے حساب سے ترتیب دے کر اردو میں بچوں کے لیے ترجمہ کروایا۔فرخندہ لودھی صاحبہ،زبیدہ سلطانہ صاحبہ،یونس حسرت صاحب،مقبول جہانگیر صاحب،کشور ناہید صاحبہ نے ہندوستانی، ترکی،اسپین،عربی۔غرضیکہ ہر زبان کی کہانیوں کا ترجمہ کیا۔اگرچہ یہ کہانیاں مختلف زبانوں سے تعلق رکھتی تھیں مگر ترجمہ انگریزی زبان سے ہی کیا گیا تھا۔
جیسے کشور ناہید صاحبہ کی کہانیوں کی کتاب”بندر ناچا ناچی چڑیا“انگریزی کہانیوں کا ترجمہ تھی۔سید ابو تمیم کی کتابیں”گدھے نے بجائی بانسری“اور”بچوں کی الف لیلہ“کا نام بھی اسی زمرے میں لیا جا سکتا ہے۔ابھی چند دن قبل chronicles of narnia کا سنیما گھروں میں بڑا تذکرہ تھااور بچے بہت مزے سے ان فلموں کودیکھ رہے تھے۔انہیں کیا معلوم کہ 1976ءمیں اسی داستان کو امان اللہ نیر شوکت اردو میں ترجمہ کر چکے ہیں۔حتیٰ کہ ماضی قریب میں محترم ابن آس نے ہیری پوٹر سیریز کا بہت خوب صورت ترجمہ کیا ہے۔
کالولودی کا مشہور کردار ”پناکو“ہوگا کسی اورملک کا لیکن ہمارے اپنے آنجہانی سعید لخت نے اسے انگریزی سے اٹھایا اوراردو میں”شرارت کا پتلا“ بنا کر پیش کردیا۔ٹام سائر کے کردار کے بارے میں ”اندھیرا غار“کے نام سے فیروز سنز کی طرف سے بہت مزے کا ناول اردو میں چھپا اورلکھنے والے صاحب تھے اشتیاق طالب صاحب۔اسی طرح قدسیہ سعید صاحبہ نے انگلش کلاسک ”گریٹ ایکسپکٹیشن“ کو ”قیدی“ کے نام میں ڈھالا۔اور ننھے”پپ“کا تعارف ہمارے ننھے منوں سے کروایاگیا۔
آرایل سٹیونسن کے تین ناولٹThe Bottle Imp،The Speckled Bandاور The Canterville Ghostکا ترجمہ ایک ہی کتاب بنا کر بچوں کے لیے پیش کی گئی۔ کتاب کا نام تھا”ایک دو تین“ترجمہ نگار تھے اختر رضوی اور ادارہ تھا پھر فیروز سنز۔یہ وہی اختر رضوی صاحب ہیں جو عمرو عیار کی داستان کو اردو میں فیروز سنز کی طرف سے دس حصوں میں پیش کر چکے ہیں۔
اب آئیے محترمہ زبیدہ سلطانہ کی طرف۔بچوں کی یہ لکھاری سو سال کی عمر میں بھی لکھتی رہیں اور ان گنت ناول بچوں کو دئیے۔ان میں سے ایک ناول”شمسی جادو گر“بہت مقبول ہوا جو انہوں نے موریل ہالینڈ کے ناول Wizard Winkle won’t tellکا ترجمہ کیا تھا۔انہی زبیدہ سلطانہ مرحومہ نے ول اسکاٹ کے ایک ناول کا ترجمہ ”دریا کنارے والا بنگلا“کے نام سے کیا۔حکیم محمد سعید مرحوم نے بچوں کے لیے اپنے ادارے سے بہت سے تراجم کروائے۔مسعود احمد برکاتی صاحب نے”ہیڈی“ کا ترجمہ کیا۔اس ناول کا ترجمہ سیف الدین حسام صاحب”عجیب لڑکی“کے نام سے کر چکے تھے۔میں نے بھی ”اینڈ بلٹن“کے ناول کا حال ہی میں ترجمہ کیا ہے جس کا نام ہے ”ویران جزیرے کا راز“اور وہ بچوں کے پاکستان کے نمبر ایک رسالے تعلیم و تربیت میں قسط وار چھپ رہا ہے۔
دنیا کے ادب کی اتنی واقفیت جو ستر کی دہائی تک پاکستانی بچوں کو پاکستان کے بہترین بچوں کے ادیبوں نے پہنچائی وہ اچانک یا بتدریج ختم کیوں ہو گئی۔ایک سٹڈی کہتی ہے کہ پاکستان میں فنون لطیفہ کے ہرشعبے میں ہی نہیں زندگی کے ہر شعبے میں انحطاط اسّی کی دہائی سے شروع ہوا۔میں اس کی وجوہات میں نہیں جاتا۔مجھے نہیں علم کہ آج بچوں کے ادیب کسی اسلامی کتاب سے پورا واقعہ اٹھا کر اسے کہانی کا نام دے دیں تو وہ Adaptionکیوں نہیں اور انگریزی زبان کی کسی کہانی پر پیسے خرچ کرکے کتاب ڈھونڈ کر۔پڑھے لکھے ہونے کی شرط پوری کرکے کوئی کہانی ترجمہ کردے تو کیوں کچھ حلقوں میں شور مچ جاتا ہے ۔کیا دنیا بھر کے بچوں کی کہانیاں اور خصوصاً ماں بولی کہانیاں ایک جیسی ہی نہیں ہوتیں۔کیا کہانیاں بھی سرحدوں میں قید ہیں۔
میں بچوں کے ادیبوں سے پوچھتاہوں کہ آپ کی کہانی محلہ سے شروع ہو کر گھر یا گلی میں ختم ہو جاتی ہے۔وہی نصیحت جو بچوں کو کہانی میں آپ کر رہے ہیںوہ ہیڈ ماسٹر صاحب بھی کرتے ہیں۔مولوی صاحب بھی کرتے ہیں۔ماں باپ بھی کرتے ہیں۔وہ کہانی پڑھنے کے لئے کیایہ ظلم نہیں ہے کہ بچے پینتیس روپے کسی رسالے کو خریدنے کے لیے بھی خرچیں۔کیوں نہ اس کے بجائے وہ ڈورے مون اور بھیم دیکھ لیں۔وہ کیوں نہ ڈورے مون کے تجسس کو انجوائے کریں۔
میں پانچ سے آٹھ سال کے بچوں کے لیے لکھتا ہوں۔اگر میں تعلیم یافتہ ہوں،کہانی لکھنے کا فن جانتا ہوں،لکھنا چاہتا ہوں،بہت بڑے رائٹرز جو دنیا بھر میں بچوں کے لیے لکھتے رہے ہیں۔بچوں کی تربیت کرنے کے لیے مجھ سے بہتر کہانیاں لکھتے تھے اور غیر محسوس طریقے سے بچوں کو اچھا انسان بناتے تھے تو کیا ہرج ہے ان کے یہ اسباق ہمارے بچوںتک بھی پہنچیں۔میں شکریہ ادا کرتا ہوں فیروز سنز کا۔ہمدرد نونہال کا۔سنگ میل پبلی کیشنز کا۔غلام علی اینڈ سنز کا۔تمام ادیبوں کا۔آج کے حاضرین کا جنہوں نے اس ضمن میں کا م کیا اور آج بھی میرے سامنے دل میں ٹھانے بیٹھے ہیں کہ پاکستانی بچوں کاجائز حق ان تک پہنچائیں گے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top