پوریاں
ہاجرہ مسرور
۔۔۔۔۔۔
جہاں دوپہر ہوئی، کھانا پیٹ میں گیا، تو اوروں کی طرح مجھے بھی میٹھی میٹھی تھکان میں نیند سی محسوس ہوتی ہے۔ میں اپنی بیٹی سے کہتی ہوں :
”بٹو سو جاؤ جلدی سے ، بھر شام کو اٹھ کر اپنے اسکول کا کام کر لینا۔“
مگر میرا یہ مشورہ میری بیٹی کو منمنانے پر مجبور کر دیتا ہے:
”نہیں امی! میں نہیں سوؤں گی، مجھے ابھی نیند نہیں آرہی، مجھے کام کرنا ہے۔“
اس کی اس بات پر مجھے بہت غصہ آتا ہے۔ ابھی اسکول سے آکر کھانا کھایا ہے ، صبح مجھ سے پہلے جاگی تھی اور اب نیند نہیں آتی۔
میں آنکھیں بند کر لیتی ہوں۔ اس دوران میں جب ذراسی کھٹ پٹ سے آنکھ کھلتی ہے ، تو دیکھتی ہوں کہ وہ میرے گھر کی مالک بنی ہوئی ہے۔ قینچی سے کپڑوں کی کتر نیں کاٹ رہی ہے۔میںسوتے سے چلاتی ہوں:
”سو جاؤ بدتمیز!“
وہ ڈر کے مارے جلدی سے اپنے بستر پر لیٹ جاتی ہے، مگر پھر ذرا دیر بعد وہی کھٹ پٹ، میں اسے مارنا چاہتی ہو ں مگر ہاتھ نہیں اٹھتا اور میں صبر کر لیتی ہوں۔
ایک زمانے میں ہمیں بھی دوپہر کو نیند نہیں آتی تھی، سوتے کیسے؟ اتنے بہت سارے کام جو سر پر پڑے ہوتے تھے۔ جلتی دوپہرمیں جب ہم سب بھائی بہنوں کو ایک کمرے میں سونے کے لیے ہانک دیا جاتا تو ہماری دنیا جاگ جاتی۔لیٹے لیٹے خیال آتا، طاق پر رکھی ہوئی گڑیا کمبخت کیسی میلی ہو رہی ہے۔ہم اسکول گئے تو منی بہن کے ہاتھوں میں آنگن میں لوٹتی رہی ہے۔ اب اٹھ کر اس کے کپڑے دھوئیں۔ غسل خانے میں گڑیا کے کپڑے دھلتے۔ وہاں کمبخت بالٹی جو اوندھ کر شور مچاتی تو ادھر اماں ابا کے کمرے سے جو ڈانٹ پڑتی تو وہاں سے ہول کر بھاگنا پڑتا۔
پھر خیال آتا کہ اکلوتی فراک کی وجہ سے گڑ بڑ ہوئی ۔دوسری فراک سینا چاہیے۔اب کپڑا کہاں سے ملے!الگنی پر جو نظر پڑتی، وہاںاماں کا ایک میلا کچیلا ریشمی دوپٹہ نظر آتا۔ یہ اماں جان کے کس کام کا ہے بالکل تو میلا ہو گیا۔جھر سے اسے پھاڑ کر ، سب بہنیں سر جوڑ کر بیٹھ جاتیں اور فراکیں سینا شروع کر دیتیں۔اورپھر شام کو ہمیں جو تھپڑ لگتے، ان کا غم دوسرے دن کی مصروفیات میں یاد بھی نہ آتا۔ یہ تو تھیں اپنی روز مرہ کی مصروفیات!
مگر ایک دن ہم نے اپنے چھوٹے سے ماموں کے ساتھ باورچی خانے پر حملہ کر دیا۔
ہوایوں کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں چھوٹے ماموں ہمارے پاس آئے ہوئے تھے۔ دوپہر کو خدا جانے کیسی مرچوں بھری چیزپکی تھی کہ ہمیں پسند نہ آئی۔دوپہر کو جب ہماری کمرہ بندی ہوئی تو بھوک سے کچھ نیند سی آنے لگی۔منے سے ماموں جان بھی آج جب چپ چاپ اپنے پاؤں گیلے پلنگ کی دوائن میں اڑائے چھت پر لٹکے ہوئے لکڑی اور کپڑے کے بڑے سے ہلتے ہوئے پنکھے کو گھور رہے تھے۔
جس کی ڈوری اماں ابا کے پنکھے سے بندھی ہوئی تھی اور پھر یہ ڈوری ایک لوہے کی گراری پر سے ہوتی ہوئی دیوار کے ایک سوراخ میں سے گزر کر ، ڈیوڑھی میں بیٹھے ہوئے جمعدار کے لڑکے کے ہاتھ میں ہوتی۔ جسے کبھی وہ ہاتھوں سے کھینچتا اور کبھی زمین پر لیٹ کر اور رسی کوپاؤں میں لپیٹ کر پاؤں سے کھینچتا۔
پنکھا ایک بار چند منٹ کے لیے رک گیا۔ ہم سمجھ گئے کہ دلو سو گیا۔ پھر کیا تھا۔ ماموں ایک دم اچھل کر کھڑے ہو گئے۔ چلو، دلو کو ذرا ٹھو کیں۔ دو روپے مہینہ لیتا ہے اور پھر بھی سو جاتا ہے۔
ہم سب چپکے سے دروازہ کھول کر ڈیوڑھی میں پہنچے تو دیکھا کہ دلو پنکھے کی ڈوری پاؤں میں لگائے ، ٹانگ کھڑی کیے ، سو رہا تھا۔
ماموں سے پہلے بجیانے اس کی ننگی ٹانگ پر ایک زور دار ہاتھ جڑ دیا۔ دلو کی ٹانگ پہلے ہلنے لگی اور آنکھیں بعد میں کھلیں۔
”کیوںبے! سو گیا تھا؟ کہوں دولہا بھائی سے ؟“
دلونے پاؤں سے ڈوری کھول کر جلدی سے ہاتھ میں لے لی اور زور زور سے پنکھا کھینچنے لگا۔
اس کے دبلے پتلے کا لے جسم کی تیز حرکت اور وہ ہمیں دیکھ کر کھسر پھسر رونے لگا۔ارے، رے ، یہ کیا، دلو! ہم سب پر ہمدردی ٹو ٹ پڑی۔ ماں نے روٹی نہیں دی آج، جبھی نیند آتی ہے، مر جائے! اس کے ہاتھ سے پنکھے کی ڈوری چھوٹ گئی اورمٹھیوں سے آنکھیں ملنے لگا۔
”دلو!“ ابا کی آواز کمرے سے سنائی دی۔
اور ہم سب پنکھے کی ڈوری سے جھول پڑے، ہاں، ورنہ کہیں اگر ابا ادھر آجاتے تو ضرور دلو کو ایک آدھ چیت پڑ جاتی۔ایک تو بے چارے کی سوتیلی ماں ہے، جو اسے روٹی بھی نہیں دیتی۔ اس پر سے ابا، ابا نے آخر اس کی مدد ہی کے لیے تو اسے دوروپے مہینے پر پنکھا کھینچے پر ملازم رکھا تھا۔
”دلو کے لیے روٹی لانی چاہیے۔“ ماموں نے تجویز پیش کی اور بجیا فوراً باورچی خانے کی طرف دوڑیں۔
”روٹی نہیں ہے ۔نعمت خانے میں تالا پڑا ہے۔“ بجیا نے واپس آکر اطلاع دی۔
”پھر کیا ہوا؟“ ماموں نے کھسر پھسر کی۔
”کیا ہو سکتاہے! “بجیا بالکل مایوس تھیں۔
”روٹی پکائی جائے۔ گندھا آٹا بچا ہوا کو ٹھڑی میں رکھا ہے۔“ میں نے اطلاع دی ۔
”اور کوٹھڑی کے دروازے کی زنجیر جو چڑھی ہوئی ہے۔ اسے کیسے اتاریں؟“ بجیا نے مجھے گھو رکر دیکھا۔
میںلاجواب ہو گئی۔ مگر ہمارے چھوٹے ماموں کب ہارنے والے تھے۔انھوں نے ہم سب کو کمرے سے باہر آنے کا اشارہ کیا۔
پھر ہم سب نے مل کر کمرے سے پلنگ نہایت رازداری سے باہر نکالا۔ اس پر کھڑے ہو کے کو ٹھڑی کے دروازے کی زنجیر تک پہنچنے کی کوشش کی گئی مگر نا کام۔ پھر چھوٹے ماموں کے کہنے پر پلنگ کو آڑا کھڑا کیا گیا۔ماموں لپک کر فوراًپلنگ کے اوپر چڑھے اور کھڑاک سے دروازے کی زنجیر کھل کر دروازے کے ساتھ لگی۔ تھوڑی سی آواز پیدا ہوئی، ہم سب کی نگاہیں گھبراہٹ کے مارے ایک دم کمرے کی طرف اٹھ گئیں مگر وہاں تک آواز نہیں پہنچی تھی۔ ہماری جان میں جان آئی۔
ہم لوگوں نے اطمینان سے اپنا کام شروع کیا ۔بچے ہوئے آٹے کی لگن نکلی تو بجیا نے چولہے کی دبی ہوئی راکھ کرید کر چنگاریاں اکٹھا کیں اور آگ جلائی۔ماموں نے بیلن پڑہ سنبھالا اور پھر انھوں نے بڑی محنت سے سات کونوں کی ایک روٹی بیل لی۔
ڈیوڑھی کے دروازے سے دلو نہایت ہی بے صبری کے ساتھ جھانک رہا تھا اور پنکھے کی گراری کی چرخ چوں بڑے زور سے سنائی دے رہی تھی۔
”بے چارہ دلو، معلوم ہوتا ہے کہ بڑے زور کی بھوک لگی ہے اسے۔“ دیدی رونے کے قریب ہوگئی۔
”اور روکھی روٹی پک رہی ہے! بے چارہ دلو کیسے کھائے گا؟ کیوں نہ پوریاں پکائی جائیں، خوش ہو جائے گا دلو۔“ ماموں نے بیلن چھوڑ کر چٹکی بجائی۔
اب گھی یا تیل کی تلاش شروع ہوئی۔ خدا جانے یہ تالا کس کم بخت نے ایجاد کیا تھا کہ اس وقت ہر چیز تالے میں پائی گئی۔ اب کیا کیا جائے! منے ماموں میاں ہار کر بیٹھ گئے ۔آگ دھڑا دھڑجل رہی تھی۔ روٹی بیلی جا رہی تھی مگر گھی یا تیل نہیں تھا۔
”ارے ٹھہرو ہسپتال کے اسٹور میں تیل کا ایک ڈبہ میں نے دیکھا تھا۔“ چھوٹے ماموں نے ایک دم اچھل کر کہا۔
”آہاہا،ہاں!“ہم سب خوشی کے مارے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔مگر اسٹور تک پہنچنے کے لیے صرف ابا کا کمرہ ہی راستہ تھا ۔ماموں کٹورا لے کر ننگے پاؤں بڑھے۔
اچانک دیدی بولی:”سب کتابوں میں لکھا ہے چوری بری بات ہے۔“
”ہٹ! غریب کے لیے چوری کرنے میں گناہ نہیں ہوتا، وہ جو سلطانہ ڈاکو تھا، وہ سب لوٹ کر غریبوں میں بانٹ دیا کرتا تھا۔“ میں نے کہا۔
اور پھر ہم سب خاموش ہو گئے۔
ماموں، ابا کے کمرے کے دروازے تک پہنچ چکے تھے ۔ہمارا دل اتنے زور سے دھڑک رہا تھا کہ ہم اس کی آواز بخوبی سن سکتے تھے۔
دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ماموں ابا کے کمرے کی دہلیز پر نظر آئے۔ انھوں نے ہاتھ بڑھا کر کٹورا زمین پر رکھا اور دروازہ ہوشیاری سے بند کر دیا۔باورچی خانے تک جس تیزی سے پہنچے، اس کی وجہ سے کٹورے کا کافی تیل آنگن میں چھلک گیا۔ کڑھائی چڑھی چڑھائی تھی، جلدی سے اس میں تیل ڈالا اور پھر قسم قسم کی پوریاں اترنے لگیں ۔کوئی تکونی، کوئی چوکھنٹی، کوئی لمبی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہم نے کتنی عزت کے ساتھ اس دلو کی خدمت میں پوریاں پیش کیں۔
کبھی ماموں گرم گرم پوری لیے ڈیوڑھی میں بیٹھے دلو کی طرف بھاگتے کبھی میں اور کبھی دیدی۔بجیا کفگیر ہاتھ میں لیے اور منہ کھولے ، چھپا چھب پوریاں اتارتی رہیں۔
جب آٹا ختم ہو گیا اور آخری پوری اتری، تو خیال آیا کہ ہمیں بھی بڑے زوروں کی بھوک لگی ہے، ایک ننھی پوری کے چار ٹکڑے ہوئے اور اسے ہم چاروں نے گرم گرم نکل لیا۔
”اچھی نہیں پکائی تم نے ۔“ ماموں نے پوری نگل کر بجیا کا سارا کیا کرایا ملیامیٹ کر دیا۔
” جانے یہ کیسی پوری تھی۔“ میں نے پانی کے گھونٹ لے کر کہا۔
بجیا، چولھے سے لکڑیاں باہر گھسیٹ کر، منہ تھتھائے، کمرے میں چلی گئیں۔ وہ بے چاری اس فرحت سے محروم ہو گئیں ، جو ہم تینوں نے دلو کے چلو میں گھڑے کا ٹھنڈا پانی انڈیل کر حاصل کی اور پھر انھوں نے دلو کی وہ لمبی ڈکار بھی نہ سنی جو اس نے شکریے کے طور پر ہمیں پیش کی۔
”اب بٹیااور بھیا لوگ جاؤ، اب پنکھا نہیں رکے گا۔“ دلونے مشورہ دیا۔
ہم لوگ اپنے کمرے میں آگئے، بجیا آگ کی تپش سے تھک کر سو گئی تھیں، ہمیں بھی انھیں دیکھ کر نیند آنے لگی۔ مہم بھی تو کتنی بڑی سر کی تھی۔ پنکھا بھی اتنے زور سے چل رہا تھا کہ بے خبر ہو کر سوجانا پڑا۔
پھر پنکھا رُک گیا، اور رُکا ہی رہا۔
ابا کی ڈانٹ سے آنکھ کھل گئی اور ہم ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے ۔وہ دلو کو پکار رہے تھے۔دلو غائب تھا۔ نوکر کو جگا کر بلایا گیا کہ دلو کو پکڑ کر لائے، دلو نہیں آیا، دلو کا بابا آیا۔اس نے ہاتھ جوڑکر، کانپتے ہوئے بتایا:
”دلو کا تو پیٹ خراب ہو گیا ہے!“
پھر ذرا ہی دیر میں ماما نے آکر شور مچا دیا:
”جانے بچوں نے چولھے پر کیا چڑھا رکھا ہے۔“
بدبو کے مارے ناک نہیں دی جاتی۔پکڑ ہم سب کی ہوئی، معلوم ہوا کہ کسٹرآئل میں پوریاں تلی گئی تھیں!