پیارے نبی ﷺ کا بچپن
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
ایک صاحب کمرہ جماعت میں داخل ہوئے۔ انھوں نے سفید رنگ کی قمیض شلوار پہن رکھی تھی۔ چہرے پر خوب صورت سیاہ داڑھی اُن کی گوری رنگت پر بہت اچھی لگ رہی تھی۔ ان کے کمرہ جماعت میں داخل ہوتے ہی خاموشی چھا گئی۔
”السلام علیکم!‘‘آنے والے صاحب نے مسکرا کر کہا۔
”وعلیکم السلام!“تمام بچوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔
”بچو! میں آپ کا نیا استاد ہوں۔ میرا نام بشیر احمد ہے۔ آئیے ہم پہلے ایک دوسرے سے تعارف حاصل کر لیتے ہیں۔“
تمام لڑکے باری باری اپنے نام بتانے لگے۔ تعارف ختم ہوا تو بشیر صاحب نے کہا:
”بچو! آپ لوگوں کو معلوم ہے، یہ کون سا مہینا ہے؟“
”جی ہاں جناب، یہ جولائی کا مہینا ہے۔“ کئی لڑکے ایک ساتھ بولے۔
”میں اسلامی مہینے کی بات کر رہا ہوں۔“ بشیر صاحب نے کہا۔
بہت سے لڑکے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ عمر نے کھڑے ہو کر کہا:
”جناب! یہ ربیع الاول کا مہینا ہے۔“
”بالکل درست، شاباش! اب یہ بتائیے کہ اس مہینے کی اہمیت کیا ہے؟“
”جناب! اس مہینے میں بارہ ربیع الاول کی چھٹی ہوتی ہے۔“شکیل نے جلدی سے کہا۔
”ٹھیک ہے، مگر یہ چھٹی کیوں ہوتی ہے؟“ بشیر صاحب نے پوچھا۔
”جناب! اس تاریخ کو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تھے۔“عمر نے جواب دیا۔
”آپ نے صحیح جواب دیا۔ اسی تاریخ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے تھے۔ بچو! اس مبارک مہینے میں یہ کتنی اچھی بات ہوگی کہ ہم پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں۔“
”بالکل ٹھیک ہے جناب۔“ کئی آوازیں آئیں۔
”میں آپ کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کے بارے میں کچھ باتیں بتاتا ہوں۔ بچو! پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت، مکہ مکرمہ میں نو یا بارہ ربیع الاول کو پیر کے دن ہوئی۔ اس روز اپریل کی بیس تاریخ تھی اور سال تھا، پانچ سو اکہتر (571ء)۔ پیارے نبی کے والد محترم عبداللہ، آپ کی ولادت سے کچھ عرصہ پہلے وفات پاچکے تھے۔ آپ کے دادا عبدالمطلب کو پوتے کی ولادت کی خوش خبری پہنچائی گئی تو وہ تشریف لائے۔ انھوں نے اپنے پیارے پوتے کا نام رکھا، بتائیے کیا نام رکھا تھا؟“
”جناب، انھوں نے محمد نام رکھا تھا۔“ عمر نے کھڑے ہو کر جواب دیا۔
”بالکل درست۔“
اسی وقت پیریڈ ختم ہونے کی گھنٹی بج گئی۔ بشیر صاحب کہنے لگے:
”اب باقی باتیں ان شاء اللہ کل کریں گے۔“
”نہیں جناب! آج ہی۔“کئی لڑکے ایک ساتھ بولے اور شوکت نے کہا:
”جناب یہ پیریڈ اردو کا ہے۔ اُردو نذیر صاحب پڑھاتے ہیں، آج وہ تشریف نہیں لائے۔“
”اچھا؟ اگر ایسی بات ہے تو ہم پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ اور باتیں کر لیتے ہیں۔ بچو! عرب کے معزز یعنی عزت والے گھرانوں میں یہ رواج تھا کہ بہت چھوٹے بچوں کو کسی گاؤں کے اچھے قبیلے میں بھیج دیتے تھے تا کہ گاؤں کی کھلی فضا اور اچھی آب و ہوا میں ان کی پرورش ہو اور وہ خالص عربی زبان بھی سیکھ لیں۔ گاؤں کی عورتیں اکثر شہر میں آتی تھیں اور چھوٹے بچوں کو اپنے ساتھ لے جاتی تھیں۔ ان کی پرورش کرتی تھیں، جس کا معاوضہ ان کو ملتا تھا۔ انھی عورتوں میں قبیلہ بنی سعد کی ایک خاتون تھیں، جو اپنے شوہر کے ساتھ مکہ مکرمہ آئی تھیں تاکہ کسی بچے کو اپنے ساتھ لے جائیں۔ آپ کو معلوم ہے ان خاتون کا نام کیا تھا؟“
سب بچوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ بشیر صاحب مسکرائے اور بولے:
”ان کا نام تھا حلیمہ سعدیہ۔ بچو! حلیمہ سعدیہ خود بتاتی تھیں کہ ان دنوں ہماری مالی حالت خراب تھی۔ علاقے میں قحط پڑا ہوا تھا۔ ہماری اونٹنی اتنی کمز ور تھی کہ قافلے والوں سے پیچھے رہ جاتی تھی۔ ہماری اونٹنی ذرا سا بھی دودھ نہ دیتی تھی۔
حلیمہ سعدیہ اپنے شوہر اور اپنے دودھ پیتے بچے کے ساتھ مکہ مکرمہ پہنچیں۔ گاؤں کی دوسری عورتیں تو اپنی اپنی پسند کا بچہ لے گئیں۔ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی عورت لے جانے پر تیار نہ ہوئی کیونکہ آپ کے والد زندہ نہ تھے۔ حضرت حلیمہ سعدیہ نے اپنے شوہر سے کہا کہ یہ تو اچھا نہیں لگتا کہ ہم خالی ہاتھ جائیں، کیوں نہ ہم اسی یتیم بچے کو لے چلیں۔ شوہر نے کہا، اس میں کیا حرج ہے۔ حضرت حلیمہ سعدیہ نے حضرت محمد کو لے لیا۔ بچے کو لینا تھا کہ اس کی برکتیں ظاہر ہونے لگیں۔ کہاں تو حضرت حلیمہ سعدیہ کا یہ حال تھا کہ ان کے اپنے بچے کو پیٹ بھر دودھ نہیں ملتا تھا، ننھے محمد کے ان کے پاس آتے ہی اللہ نے اتنی برکت دی کہ حضرت حلیمہ نے نہ صرف اپنے بچے کو بلکہ محمد بن عبداللہ کو بھی اپنا دودھ پیٹ بھر کر پلایا۔ پھر حضرت حلیمہ سعدیہ کے شوہر نے اونٹنی کا دودھ دوہا تو اس نے ڈھیر سارا دودھ دیا۔ اب اس سے آگے ان شاء اللہ کل بیان کریں گے۔“
”جناب، ابھی تو پیریڈ ختم ہونے میں کچھ وقت باقی ہے۔“ عمر نے کھڑے ہو کر کہا توبشیر صاحب مسکرائے اور بولے:
”مجھے خوشی ہے کہ آپ سب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی محبت رکھتے ہیں۔ بہتر ہے، آگے کے حالات سنیے۔ واپسی کے سفر میں حضرت حلیمہ کی اونٹنی نے قافلے کے سارے جانوروں کو پیچھے چھوڑ دیا، پھر جب وہ لوگ اپنے گاؤں میں پہنچے تو حالانکہ وہاں قحط پڑا ہوا تھا لیکن ننھے محمد کی آمد کے بعد حضرت حلیمہ کی بکریاں جہاں جاتیں، پیٹ بھر کر چارا کھاتیں اور خوب دودھ دیتیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس گاؤں میں اپنی رضاعی والدہ کے ساتھ دو سال تک رہے۔“
بشیر صاحب رک گئے کیونکہ اکرم نے ہاتھ بلند کر دیا تھا۔
”جناب، یہ رضاعی والدہ کسے کہتے ہیں؟“
”رضاعی والدہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ خاتون جو کسی دوسرے کے بچے کو اپنا دودھ پلائے۔ وہ اس بچے کی رضاعی والدہ کہلاتی ہے۔“
”جناب، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ واپس آگئے؟“ یعقوب نے کھڑے ہو کر کہا۔
”ہاں، حضرت حلیمہ آپ کو مکہ مکرمہ لے تو آئیں لیکن وہ چاہتی تھیں کہ یہ بچہ ان کے پاس مزید کچھ عرصہ تک رہے۔ اس زمانے میں مکہ مکرمہ میں کوئی و با بھی پھیلی ہوئی تھی، اس لیے آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو رضاعی والدہ کے ساتھ پھر گاؤں بھیج دیا۔ وہاں رہ کر پیارے نبی کی صحت اللہ کے فضل سے بہت اچھی ہوگئی۔“ بشیر صاحب چند لمحے رک کر کہنے لگے:
”دو سال کے بعد آپ اپنی والدہ محترمہ کے پاس آگئے۔ آپ کی عمر جب چھے برس کی ہوئی تو آپ کی والدہ آپ کو لے کر مدینہ منورہ میں اپنے میکے بنی نجار کے ہاں آئیں۔ مدینہ منورہ پہنچ کر انھوں نے حضور کو وہ مکان دکھایا جہاں آپ کے والد حضرت عبداللہ کا انتقال ہوا تھا۔ آپ نے اپنے اس سفر کے حالات صحابہ کرام کو خود بتائے تھے۔“
”جناب! پھر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ ہی میں رہے؟“ عثمان نے پوچھا۔
”نہیں بیٹے! مدینہ منورہ میں ایک ماہ تک رہنے کے بعد آپ کی والدہ حضرت آمنہ آپ کو لے کر مکہ مکرمہ روانہ ہوئیں، مگر مدینہ منورہ سے تقریباً 65 کلومیٹر کے ایک مقام ابوا پہنچیں تو وہ بیمار پڑگئیں اور اسی بیماری میں اُن کا انتقال ہو گیا۔ بچو! آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آپ کی عمر اس وقت صرف چھے سال تھی۔ آپ کے دل پر کیا گزری ہوگی۔“
”جی ہاں جناب۔“کئی بچے بولے۔
”یہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں، جن کو ہم سمجھ نہیں سکتے۔ حضرت آمنہ کی وفات کے بعد، دوہی برس بعد آپ کے دادا کا بھی انتقال ہو گیا۔ ان کے بعد آپ کے چچا ابو طالب نے آپ کو اپنی نگرانی میں لے لیا۔“
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بچپن میں عادات کیسی تھیں؟“شکیل نے پوچھا۔
”آپ بہت پاکیزہ سیرت کے مالک تھے۔ آپ نے جس ماحول میں اپنا بچپن گزارا، اس ماحول میں لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے لیکن آپ ہمیشہ ایسے کاموں سے دور رہے۔ وہاں لوگ شراب پیتے تھے، آپ نے کبھی شراب کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ وہاں جو اکھیلا جاتا تھا، آپ اس بُرے کام سے بھی بچے رہے۔ ایک بار بتوں کے نام پر کسی جانور کا گوشت پکا کر لایا گیا، آپ نے اسے کھانے سے انکار کر دیا۔“
”جناب! کیا پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے باہر بھی تشریف لے گئے؟“عبداللہ نے پہلی بار سوال کیا۔
”ہاں بیٹے! حضور نے بارہ برس کی عمر میں اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ ملک شام کا تجارتی سفر کیا تھا۔ جب آپ راستے میں بصرہ پہنچے تو وہاں ایک راہب سے ملاقات ہوئی۔ اُس نے آپ کے چچا سے کہا: اس بچے کو لے کر فورا ًواپس مکہ چلے جاؤ۔ اسے یہودیوں سے بچانا۔تمہارا بھتیجا بڑی عظیم شخصیت کا مالک ہے۔ یہ سن کر ابو طالب حضور کو لے کر جلد ہی واپس آگئے۔“
اسی وقت پیریڈ ختم ہونے کی گھنٹی بج گئی۔ بشیر صاحب نے بچوں سے کہا:
”بچو! ان شاء اللہ کل پھر ملاقات ہوگی۔“
بشیر صاحب یہ کہتے ہوئے کمرہ جماعت سے باہر چلے گئے۔