پھوپھیاں
محمد الیاس نواز
کردار:
خالہ خیرن: گھر کی مالکن
نگینہ: ایک گھریلو ماسی
سکینہ: نگینہ کی بہن
یاور: خالہ خیرن کا بیٹا
پس منظر:
شہروں کے امیر اور متوسط طبقے کی خواتین اپنی سہولت اور آسانی کے لیے گھریلو ملازمائیں یا ماسیاں رکھتی ہیں،مگر ماسیاں رکھنے والی زیادہ تر خواتین کو ان ماسیوں سے شکایات ہی رہتی ہیں۔آیئے دیکھتے ہیں کہ خالہ خیرن کے ساتھ ماسیوں کا کیا معاملہ ہے۔
منظر:
خالہ خیرن برآمدے میں بیٹھی تسبیح پڑھ رہی ہیں،اتنے میں دروازے کی گھنٹی بجتی ہے۔چند لمحوں بعد ہی دو ماسیاں برآمدے میں داخل ہوتی ہیں۔ان میں سے ایک خالہ خیرن کوسلام کرتی ہے۔
(پردہ اٹھتاہے)
نگینہ: ”سلامالے کم……!“
(خالہ سر کے اشارے سے سلام کا جواب دیتی ہیں مگر نگینہ جواب کی پروا کیے بغیر سوئچ میں لگے چارجر میں اپنا موبائل لگانے لگتی ہے جبکہ سکینہ پانی پینے کے بہانے فریج میں جا گھستی ہے……خالہ خیرن بھری بیٹھی ہیں،آخر بول پڑتی ہیں)
خالہ خیرن: (حیرانی سے)”اوبی بی ی ی ی!……کدھرررر؟……تمہارے آگے کنڈی کس نے کھولی……کمال ہے……میں نے تو کل ہی سب کو منع کیاتھا کہ ان کم بخت ماری پھوپھیوں کو گھر میں کوئی نہ آنے دے……“
نگینہ: ”ہائے خالہ!…ہم کونسا گھر کی ملکانیاں ہیں جو ہمیں کوئی روکے گا……ماسیاں کسی کے روکنے سے بھلا رکتی ہیں خالہ!……“
سکینہ: ”خالہ!……آپ ہمیں پھوپھیاں کہہ کر تو ہماری بیستی کررہی ہیں ……یہ کوئی اچھی بات تونہیں ہے……“
خالہ خیرن: (طنز بھرے لہجے میں)”نہ محترمہ سکینہ بی بی!……معذرت چاہتی ہوں ……جب لفظ ماسی آپ کو برا لگتا ہے،جس کا اظہار آپ کئی بار فرما چکی ہیں ……تو پھر آپ ہماری پھوپھیاں ہی ہوئیں ناں ……اور کیا کہوں آپ کو……والدہ محترمہ توکہنے سے رہی……“
نگینہ: ”خالہ!……نراض نہ ہوں ……نام سے بلا لیا کرو……سکینہ،نگینہ……“
خالہ خیرن: (کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے)”تو بہ،توبہ،توبہ……اتنی محترم پھوپھیوں کو نام لے کر بلا لوں ……ارے زبان نہ جل جائے گی……میں کہتی ہوں دروازہ کس نے کھولا……جب میں آپ معزز خواتین کو رکھنا ہی نہیں چاہتی تو زبردستی گھسنے کا کیا فائدہ؟“
سکینہ: ”ہائے ہائے خالہ!……کیا ہوگیا؟……کیوں نہیں رکھنا چاہتیں ……آخر ہم نے ایسا کیا کردیا ہے خالہ؟“
خالہ خیرن: (انتہائی حیرانی سے)”ہیں ں ں؟……کیا کیا ہے؟……ارے کم بخت ماریو!……کوئی ایک بات ہوتو بتاؤں ……تم میرے فیس واش سے پاؤں دھوؤ……اور پھر پوچھو کہ ایسا کیا کردیا ہے؟……بس میں کہتی ہوں چہرے……نہیں چہرے نہیں ……لاحول ولا قوہ……شکلیں گم کرو شکلیں فوراً……“
نگینہ: ”ارے خالہ!……سب سے پہلے بیٹھک والا غسل خانہ پڑتا ہے……اس لیے ہم سب سے پہلے وہ دھوتیاں ہیں ……اس کو دھونے کے بعد ہم تھوڑا سا فیس واش پیراں پر لگا کر دھو تیاں ہیں تاکہ ہم گھر کے باقی کام کریں تو ہمارے پیراں سے باقی گھر گندا نہ ہو……“
سکینہ: ”ہاں خالہ!……آپ خود بتائیں ……آپ کے پورے گھر میں ہم گندے پیراں کے ساتھ پھریں تو پھر ٹھیک ہے؟……آپ تو خا مخا میں نراض ہو رہی ہیں ……جیسے ہم فیس واش پیراں پر نہیں منہ پر لگا تیاں ہیں ……“
خالہ خیرن: ”لو کرلو بات……تمہارا خانہ خراب ہو……میرا نقصان اور مجھی پر احسان……ہمارے چہرے کی چیز تم نے پاؤں برابر کر دی …… اور یہ بھی تمہاری اچھا ئی رہی کہ فیس واش پیروں پر لگاتی ہو منہ پر نہیں ……نہیں بھئی نہیں ……میں نہیں جھیل سکتی ایسی پھوپھیاں …… جاؤ! کہیں ایسی جگہ کام ڈھونڈو جہاں کے لوگوں کو نقصان کی پروا نہ ہو……شاباش!“
نگینہ: ”اچھا خالہ!……اگر آپ کو ہم سے یہی مسئلہ ہے تو آئندہ پیراں کو نہیں دھوئیں گی……بس س!“
خالہ خیرن: ”پاؤں نہیں دھوئیں گی اور غسل خانے شیمپو سے ہی دھلا کریں گے……میں خیرن ہوں خیرن!……تمہاری کسی بات میں آنے والی نہیں ہوں ……چلو شاباش،اپنا راستہ لو……“
سکینہ: ”(خوشامد والے انداز میں)”میری سوہنڑی خالہ!……یہ بھی کوئی نراض ہونے والی بات ہے……شامپو آپ کا……غسل خانہ آپ کا……ہم کون سا گھر لے کر جاتیاں ہیں یا اپنے اوپر لگاتیاں ہیں ……آپ کا شامپو آپ کے ہی غسل خانے پر لگاتیاں ہیں ناں …… کنویں کی مٹی کنویں کو ہی لگ رہی ہے خالہ!……“
خالہ خیرن: (جل بھن کر)”ارے ے ے ……او ڈھیٹ عورت!……میں نے کہا تھا کہ میرے غسل خانے پر میرا شیمپو برباد کرو……؟“
نگینہ: ”ہائے خالہ!……آپ نے ٹی وی میں نہیں دیکھا……غسل خانے کو گیلی یا بہنے والی چیز سے دھوتے ہیں ……اس سے غسل خانے میں نرمی اور ملائمت کا احساس ہوتا ہے خالہ!……اب سرف گیلی چیز تو نہیں ہے ناں خالہ……ہم تو چاہتیاں ہیں کہ آپ کو غسل خانے میں نرمی اور ملائمت کا احساس ہو……اس لیے شامپو سے دھو تیاں ہیں ……“
خالہ خیرن: ”ارے کم بخت ماری جاہلو!……نرمی اور ملائمت کا احساس کیا مطلب؟……میں غسل خانے میں تکیہ لگا کر سو جاتی ہوں کیا منحوسو؟“
سکینہ: ”کیا پتا خالہ!……ہر کسی کا اپنا اپنا رواج ہے۔“
(خالہ خیرن اپنا سر پیٹ لیتی ہیں)
نگینہ: ”ہائے ہائے خالہ!……یہ کیا کر رہی ہیں آپ؟……شوال کے مہینے میں ایسا کون کرتا ہے……“
خالہ خیرن: (کڑک دار آواز میں)”ماسی کہلانا تمہیں پسند نہیں ……رمضان شروع ہوتے ہی تمہاری زکوٰۃ مانگو مہم شروع ہوجاتی ہے……عید پر تمہیں مہنگے جوڑے چاہئیں ……تو پھر مہینہ کوئی بھی ہو سر ہی پیٹا جا سکتا ہے۔“
سکینہ: ”ہائے خالہ!……زکوٰۃ انہیں سے مانگتیاں ہیں جن پر فرض ہوتی ہے……جن کے اپنے منہ حق داراں جیسے ہوں ……ان سے کون مانگتا ہے خالہ!……“
خالہ خیرن: (غصے میں)”ان شا ء اللہ ساری عمر مانگتی رہو گی……تمہارے اپنے منہ ہیں حق داروں جیسے……حالانکہ تم حق دار ہو نہیں ……اب نکلو یہاں سے شاباش!……“
نگینہ: ”ہائے خالہ!……عید پر مہنگا جوڑا تو ہمارا حق بنتا ہے……جوڑا ایسا تو ہووے کہ انسان کہیں آنے جانے میں پہن لے۔“
خالہ خیرن: (جل کر)”کم بخت!……حق کس بات کا بنتا ہے……ہمیں پورا مہینہ تراویح پڑھاتی ہو ……ہمارا کوئی حق نہیں بنتا کہ ہم پیسے بھی دیں،ہمارا کام بھی ٹھیک نہ ہو اور الٹا چیزیں بھی برباد ہوں۔“
سکینہ: (منت والے انداز میں)”میری سوہنڑی خالہ!……نراض کیوں ہو رہی ہو……صفائی والا کام پسند نہیں تو کھانا پکانے پر رکھ لو……“
خالہ خیرن: (ہاتھ کھڑا کرکے ہتھیلی دکھاتے ہوئے)”بات سنو بی بی!……پچھلے سال تمہاری بہن کو باورچی خانے کے کام پر بھی رکھ کر دیکھا تھا،وہی بہت ہے……ہمارے گھر میں بے برکتی ہوتی رہی……اور تمہارے گھر میں؟……ماشاء اللہ……(ہاتھ گھماتے ہوئے)……برکتیں ہی برکتیں ……ایسا لگتاتھا میں نے کھانا پکانے کے لیے نہیں،پہنچانے کے لیے رکھا تھا……اور ویسے اب بھی باورچی خانے میں تمہارے ہاتھوں سے سبزیاں محفوظ ہیں نہ مسالے……اوپر سے تمہیں باورچی خانے کی داروغہ بنا دوں؟……نہ بی بی ایسی پھوپھیاں نہیں چاہئیں جن کے سر پر کھڑے ہو کر کام کروانا پڑے……“
نگینہ: ”ہائے خالہ!……جو بھی لے کے جاتیاں ہیں، آپ کے سامنے لے کے جاتیاں ہیں ……کوئی چھپا کے تو نہیں لے جاتیاں ……“
خالہ خیرن: (طنزیہ انداز میں)”ہاں ہاں ……دلیر مجرم چوری نہیں کرتے، ڈاکہ ہی ڈالتے ہیں ……فریج سے پانی پینے کے بہانے کھانے کی چیزیں بھی پی جاتی ہو……چھٹیاں تمہاری ختم نہیں ہوتیں ……سچ اتنا بولتی ہو کہ ایک ایک رشتے دار کو کئی کئی بار مار چکی ہو اور وہ پھر بھی زندہ ہیں ……“
سکینہ: (لا جواب ہوتے ہوئے)”یقین کرو خالہ!ہم آپ کی بہت عزت کرتیاں ہیں ……“
خالہ خیرن: ”نہیں بھئی……اس میں تو کوئی شک نہیں ……بے انتہا عزت کرتی ہو تم میری……اتنی ی ی… عزت کرتی ہو کہ آج تک کسی نے نہیں کی……کل نگینہ نے میری بہت عزت کی……فرمانے لگی ’خالہ! آپ میرے لیے چائے بناؤ،میں جب تک جھاڑو لگا لوں‘……یہ تو ویسے بھی میری اتنی عزت کرتی ہے کہ موبائل والی ٹونٹیاں (ہینڈ فری)کانوں میں لگا کرجھاڑو سے اِدھر کا کچرااُدھر اور اُدھرکا اِدھر کرنا شروع کر دیتی ہے……میں چیختی رہوں مگر یہ سنتی ہی نہیں ……ظاہریہ کرتی ہے کہ جیسے اسے آواز ہی نہیں جارہی……کل تو بغیر موبائل کے ٹونٹیاں کانوں میں ٹھونسی ہوئی تھیں ……اسے پتا ہی نہیں تھا کہ دوسرا سرا لٹک رہاہے……مگر اس نے صرف میری عزت کرنے کے لیے کچرا پھیلاتے ہوئے کانوں میں لگا لی تھیں ……اب دیکھو ناں!اس سے زیادہ میری عزت کون کرے گا……“
(خالہ خیرن تخت سے اٹھنے لگتی ہیں،اتنے میں خالہ کا بڑا بیٹا یاور برآمدے میں داخل ہوتا ہے۔خالہ یاور سے مخاطب ہوتی ہیں)
خالہ خیرن: ”یاور!……بیٹا آج جوتیوں سے کام چلنے والا نہیں ……میرے بچے!نکالو ذرا اپنی بندوق……آج ان حرام خور پھوپھیوں سے تو جہان کو پاک کروں ……ٹل ہی نہیں رہیں ……“
(یاور کھونٹی پر ٹنگے تولیے کے نیچے سے پستول نکال کر خالہ کو دیتا ہے)
سکینہ: (دوپٹا سنبھالتے ہوئے)”بھاگووو……“
نگینہ: (بھاگتے ہوئے)”خالہ کا دماغ ٹھیک نہیں ہے، کہیں مار ہی نہ دیوے……“
(ماسیاں بھاگ کر دروازے سے باہر نکل جاتی ہیں،پیچھے سے ”ٹھاہ، ٹھاہ“ کی آوازیں آتی ہیں)
پردہ گرتا ہے۔