چوری پکڑی گئی
نذیر انبالوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’نماز پڑھ رہے تھے یا چوری کر رہے تھے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’سہیل تم…
نذیر انبالوی
……………………………………………………………………………………
وہ سوچ رہا تھا ساری عمر پھولوں میں رہنے کے باوجود اس کے کانٹوں والے راستے کا انتخاب کیوں کیا تھا۔
……………………………………………………………………………………
شہر بھر میں قبرستان کے قریب واقعہ سفینہ بازار کو اس کے اصل نام کے بجائے پھولوں والا بازار کے نام سے پکارا جاتا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس بازار میں تقریباً سو کے قریب پھولوں کی چھوٹی بڑی دُکانیں تھیں۔بازار میں داخل ہوتے ہی طرح طرح کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبوئیں نتھنوں سے ہوتی ہوئی دماغ میں بسیرا کرتی تھیں ۔شہروالوں کو خوشی اور غم کے موقع پر اس بازار میں آنے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔پھولوں کا انسانوں کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے‘پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک کسی نہ کسی ضرورت میں پھول انسانی زندگی کا حصہ بنے رہتے ہیں ۔اسی بازار میں ’’قیوم پھول مرکز ‘‘ کے نام سے ایک دُکان تھی۔ اس دُکان کا شمار بازار کی پرانی دُکانوں میں ہوتا تھا ۔جب شہر کی آبادی کم تھی اور یہی قبرستان شہرکا واحدقبرستان تھا۔تب قیوم نے ایک چھابڑی سے اس دُکان کا آغاز کیا تھا۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے شہر پھیلتا گیا۔ سر سبز کھیت عمارتوں میں تبدیل ہو گئے ۔آبادی کے بڑھتے ہوئے سیلاب نے اس بازار کو شہر کا وسطی بازار بنا دیا۔ آہستہ آہستہ یہاں پھولوں کی دُکانوں میں اضافہ ہونے لگا۔یہ اضافہ اتنی تیزی سے ہوا کہ سفینہ بازار پھولوں والا بازار بن گیا۔یوں تو پھولوں والے بازار میں ہر وقت ہی گہما گہمی رہتی مگر شام کے وقت زیادہ بھیڑ دیکھنے کو ملتی۔ قیوم اپنی دُکان پر بیٹھا سوچوں میں گم تھا کہ گا ہک نے اسے مخاطب کیا تھا۔
’’بھائی جی ! گلاب کے پھولوں کا ہار کتنے کا ہے ؟‘‘
قیوم کی طرف سے جواب نہ پا کر گاہک نے دوبارہ قدرے بلند آواز سے اس سے ہار کی قیمت معلوم کی تو قیوم ایک دم گھبرا کر بولا۔
’’کس ہار کی قیمت پوچھ رہے ہیں؟‘‘
’’اس گلاب کے ہارکی ۔‘‘
’’پندرہ روپے کا ہار ہے‘‘
’’اگر زیادہ لوں تو کیا قیمت ہوگی؟‘‘
’’ایک روپیہ فی ہار کم دے دیں۔‘‘
’’دس روپے ہار دوں گا‘ پچاس ہار دے دیں۔‘‘
دونوں میں بارہ روپے فی ہار پر سودا طے ہو گیا۔قیوم نے گلاب کے پھولوں کے ہاربڑی نفاست سے ٹوکری میں ڈال کر گاہک سے پیسے وصول کرتے ہوئے سوال کیا تھا۔
’’اتنے گلاب کے ہاروں کا کیا کریں گے؟‘‘
’’آج میرے بیٹے کی رسم بسم اللہ ہے‘میرا پیارا بیٹا حمزہ آج اماں بی سے بسم اللہ پڑھے گا۔‘‘
’’آپ کے کتنے بیٹے ہیں؟‘‘قیوم نے پوچھا ۔
’’ایک ہی ہے‘ بڑی دعاؤں کے بعد اللہ نے عطا کیا ہے۔‘‘گاہک تو یہ کہہ کر وہاں سے رخصت ہو گیامگر پھر قیوم کو سوچوں کے حوالے کر گیا۔دس سال پہلے اس کے ہاں اس کے اکلوتے بیٹے فیض کی رسم بسم اللہ تھی۔قیوم نے سارے گھر کو پھولوں کی دُکان بنا دیا تھا۔اس دن ننھا سا فیض بہت خوبصورت دکھا ئی دے رہا تھا۔فیض کی دادی نے نماز مغرب ادا کرنے کے بعد فیض کو گود میں لے کر پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔
’’بیٹے جو میں پڑھوں تم بھی ویسا ہی پڑھو۔‘‘
’’فیض بیٹا وہی پڑھنا جو تمہاری دادی پڑھیں ۔‘‘قیوم نے اُسے سمجھایا۔
’’بیٹا پڑھو بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔‘‘فیض جب خاموش رہا تو اس کی امی جان نے اس کو پیار کرتے ہوئے کہا۔
’’بیٹا پڑھو خاموش کیوں ہو جو دادی جان پڑھ رہی ہیں تم بھی پڑھو۔‘‘
’’میں دوبارہ پڑھتی ہوں۔بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔‘‘اس بار فیض نے بہت دھیمی آواز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کہا تو گھر میں آئے مہمانوں نے مبارک سلامت کی صدائیں بلند کیں ۔سبھی گھر والوں نے فیض کو گود میں اٹھا اٹھا کر پیار کیا۔اس دن سے فیض کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا تھا۔ قیوم کے ہاں شادی کے دس سال بعد فیض کی صورت میں اللہ نے اپنا فیض کیا تھا۔قیوم کے دو بھائی بھی اس کے ساتھ رہتے تھے ان کو اللہ نے اولاد جیسی نعمت سے بہت پہلے نواز دیاتھا۔بچے قیوم کو تایا ابو تایا ابو کہتے نہ تھکتے تھے۔فیض کی پیدائش سے قیوم کی اپنے بھتیجوں کے ساتھ محبت ختم تو نہیں ہوئی تھی مگر اس میں کمی ضرور ہو گئی تھی۔قیوم کو اپنے پیار کا اظہار کا ذریعہ فیض کی صورت میں جو مل گیا تھا۔پہلے تو بازار سے آنے والی ہر چیز اس کے بھتیجوں کے لیے ہوتی تھی مگر ان کا حصہ دار فیض بھی اس میں شامل ہو گیا تھا۔رسم بسم اللہ کے موقع پر قیوم فیض کے لیے بہت سے کھلونے لایا تھا۔اس کے بھتیجے آصف‘کاشف ‘راجہ اور عمران ان کھلونوں کو لینے کے لیے رونے لگے ۔جب وہ کھلونوں کو ہاتھ لگاتے تو فیض چیخنا شروع کر دیتا۔ان کی ماؤں نے اسے بہت سمجھایا مگر بچے کب کسی کی سنتے ہیں ۔بچوں کی فطرت ہے کہ ہر چیز حاصل کرنے کے لیے ضد کرتے ہیں۔جب ضد بڑھ جائے تو اس کا نتیجہ مار پیٹ کی صورت میں نکلتا ہے۔بچوں کے رونے سے رسم بسم اللہ کی تقریب ذرا بد مزہ سی ہو گئی تھی۔
’’بہو بچوں کو کھلونے دے دو۔‘‘
’’اماں بی! میں کب انکار کر رہی ہوں۔‘‘آپ کا لاڈلا فیض مجھے کب ایسا کرنے دے گا۔‘‘
’’فیض بیٹے یہ سارے کھلونے تمہارے بھائیوں کے بھی ہیں‘یہ گاڑی آصف کو دے دو۔‘‘
’’میں نہیں……..میں نہیں……..یہ شارے کھلونے (سارے کھلونے ) میرے ہیں ۔یہ گاری (گاڑی) ابھی میری ہے۔‘‘
’’یہ سارے کھلونے آپ کے ہیں تو یہ بھائی بھی آپ کے ہیں۔ان سب کے ساتھ مل کر کھیلو۔‘‘
’’میں نہیں تھیلوں (کھیلوں) گا ان کے شاتھ (ساتھ)۔‘‘یہ کہہ کر فیض اکیلا ہی اپنے کھلونوں کے ساتھ کھیلنے لگا۔فیض کو بے جا لاڈپیار نے بگاڑ دیا تھا اور وہ بات بے بات ضد کرنے لگا تھا۔اِدھر اس کی کسی فرمائش سے انکار ہوا وہ چیخنے چلانے لگا۔دادی جان سے ڈانٹ پڑتی تو امی جان آڑے آجاتیں ‘ابا جان اول تو اسے کچھ کہتے ہی نہ تھے کبھی کبھار اگر وہ فیض کی کسی ضد کے آگے ہتھیار نہ ڈالتے تو دادی جان کہتی تھیں۔
’’اکلوتی اولاد کے ساتھ بھی ایسا سلوک کرو گے۔بچہ ہے بڑا ہوگا تو ضد نہیں کرے گا۔‘‘
اسے ہنستے بستے گھر میں بہن بھائیوں کے درمیان پہلی بار لڑائی بھی فیض کی وجہ سے ہوئی تھی۔بات کچھ یوں ہے کہ کاشف اور آصف کی امی جان کچھ لینے بازار گئی ہوئی تھیں۔دونوں بھائی بر آمدے میں کھیل کر رہے تھے۔فیض نے جب ان کے ساتھ کھیلناچاہا تو دونوں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کے ساتھ نہیں کھیلیں گے۔فیض کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہو جائے اور وہ کسی رد عمل کا اظہار نہ کرے ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔فیض نے کاشف سے اس کا پیانولے کر دیوار سے دے مارا۔دیوار سے ٹکراتے ہی چھن کی آواز کے ساتھ پیانو دو ٹکڑے ہو گیا۔اپنے پیانو کا حشر دیکھ کر دونوں بھائی زور زور سے رونے لگے تھے۔ان کے رونے کی آواز سن کر فیض کی امی جان نے پوچھا۔
’’کیوں گلا پھاڑ رہے ہو؟‘‘
’’تائی جان فیض نے ہمارا پیانو توڑ دیا ہے۔‘‘
’’امی جان میں نے پیانو نہیں توڑا ۔‘‘
’’فیض جھوٹ مت بولو۔دیوار سے مار کر پیانو تم نے توڑا ہے۔‘‘کاشف روتے ہوئے بولا۔
’’پیانو ٹوٹ گیا ہے تو اتنا شور مچا رہے ہو ‘یہ تم سے بھی تو ٹوٹ سکتا تھا۔‘‘
اس موقع پر کاشف اور آصف کی امی نہ آتیں تو شاید بات زیادہ نہ بڑھتی۔اپنے بچوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اور ساری صورت حال معلوم کر کے وہ غصے میں آگئیں۔
’’بھابھی بر داشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے میں تھوڑی دیر کے لیے بازار کیا گئی فیض نے تو یہاں تماشا ہی لگایا ہے۔‘‘تماشا فیض نے نہیں ان دونوں نے لگایا ہے۔شور یہ مچا رہے ہیں اور نام بیچارے میرے بیٹے کا بدنام ہو رہا ہے۔‘‘
’’اس بیچارے نے تو ان کا پیانو توڑا ہے۔ اتنا ہی شوق ہے تو لے دو اس کو پیانو۔‘‘
’’ایک چھوڑ ہزاروں ایسے پیانو میرے لعل پر قربان۔‘‘
’’اس لعل کو اپنے حصے میں سنبھال کر رکھو۔‘‘
’’ہاں ……ہاں نہیں آئے گا فیض اب اس طرف‘چلو بیٹا چلو……‘امی جان اس کا بازو پکڑ کر اسے کمرے میں لے گئی۔
پیانو کا ٹوٹنا اس گھر کے ٹوٹنے کا باعث بن گیا۔گھر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے پر عمل کا مر حلہ شروع ہوا تو دادی جان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ کس بیٹے کے ساتھ رہیں۔ماں کے لیے تو سب ہی بیٹے برابر ہوتے ہیں ۔سب کی کوشش یہ تھی کہ اماں بی ان کے ساتھ رہے ایساان سے پیار کی وجہ سے نہیں ہو رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ دس مرحلے کا گھر تھا جو ان کے نام تھا۔اماں بی نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایک ایک ماہ ہر بیٹے کے گھر رہا کرے گی ۔اماں بی نے اپنے طور پر گھر کو تقسیم ہونے سے بچانے کی کوشش کی تھی مگر جب دلوں میں میل آجائے تو پھر اکھٹے رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔فیض کے پیدا ہونے کے بعد قیوم کی سوچ میں بہت تبدیلی آئی تھی اس نے پہلے سوچا تھا کہ پھولوں والی دُکان اور یہ گھر اپنے بھائیوں کے نام کر د ے گا۔مگر اب وہ یہ سوچنے لگا یہ سارا گھر وہ کس طرحاصل کرسکتا ہے۔اس کے ایک دوست نے اسکو یہ راستہ دکھایا تھا کہ وہ کس طرح اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنا سکتا ہے ۔ دوست کے کہنے پر اس نے کچھ ہی دنوں میں سارے مکان کے کاغذات بنوا لیے اور ایک اسٹام پیپر بھی لکھوا لیا ۔اب اس کو موقع کی تلاش تھی ۔جائیداد کے حصول نے اس کو اس قدر اندھا کیا ہوا تھا کہ وہ اس کے لیے ہر غلط کام کرنے کے لیے تیا ر تھا۔ایک دن جب اس نے کاغذات پر اماں بی سے انگھوٹا لگانے کے لیے کہا تو اماں بی نے پوچھا تھا۔
’’یہ کاغذات کیسے ہیں ؟‘‘
’’اماں بی آپ کے لیے حج کی درخواست دے رہا ہوں۔‘‘
’’قرآن مجید پڑھنے کے علاوہ اماں بی کچھ پڑھنے کے قا بل نہ تھیں۔قیو م پر اعتماد کرتے ہوئے انھوں نے اسٹام پیپر پر انگھوٹا لگا دیا۔قیوم کے بھائی اس وقت اماں بی کے سامنے سراپا احتجاج بنے جب انہیں اسٹام پیپر کی اصلیت معلوم ہوئی ۔قیوم پورے گھر کا مالک بن بیٹھا تھا ۔اماں بی تو حقیقت جان کر سکتے میں آگئیں ۔قیوم پر کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھاوہ اپنی کامیابی پر خوش تھا۔اماں بی کا اب قیوم کے ہاں رہنے کا کوئی جواز نہ تھا۔یعقوب اور ایوب نے اماں بی کو ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ان دونوں کی محبت اور توجہ تھی جس کی وجہ سے اماں بی کی کچھ حالت بہتر ہوئی ۔اب گھر کی بات عدالت تک جا پہنچی تھی۔قیوم نے مکان کے مالک ہونے کا دعویٰ دائر کر دیا تھا۔عدالتی نظام کی سست روی سے یہ دعویٰ بہت طول کھینچ گیا۔پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا۔موسموں نے اپنے کئی روپ بدلے وقت لمحہ لمحہ گزرتے ہوئے دس سال آگے بڑھ گیا۔فیض سکول کی تعلیم مکمل کر کے کالج میں جا پہنچا ۔وہ اب کبھی کبھار پھولوں والے بازار میں جانے لگا تھااس کو بازار میں پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو بہت اچھی لگتی تھی۔اب اس کو اتنی سمجھ بوجھ آگئی تھی کہ اپنے ارد گرد ہونے والی باتوں کو وہ اچھی طرح جاننے لگا تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ گھر کی تقسیم اور عدالتی کارروائی کا سارا معاملہ اس کی سمجھ میں آگیا تھا۔دونوں چچا کے بیٹوں سے اس کا آمنا سامنا گلی ‘ گراؤنڈ، کالج یا بازار میں ہو جاتا تھا ۔سب اس کو دیکھتے مگر بات نہ کرتے تھے ۔کتنی عیدیں آئیں مگر سب ایک دوسرے سے جدا رہے۔قیوم نے پھولوں جیسا گھر نفرت کے کانٹوں سے بھر دیا تھا۔ فیض سے اب کوئی بات چھپی ہوئی نہ تھی ۔ایک دن فیض سوالیہ نشان بنا اپنے ابو کے سامنے کھڑا تھا ۔
’’ابا جان آپ نے یہ سب کچھ کیوں کیا ہے؟‘‘
’’صرف تمہارے لیے ۔‘‘قیوم نے فوراً جواب دیا۔
’’صرف میرے لیے۔‘‘
’’ہاں صرف تمھارے لیے ،یہ سب کچھ تمھارے لیے کیا ہے۔ یہ گھر ‘کاروبار تمہارے لیے ہی تو ہے میرا اور ہے ہی کون ۔‘‘ قیوم کا خیال یہ تھا کہ فیض یہ سن کر خوش ہو جائے گا مگر ایسا نہ ہوا۔ اس کو تو چپ لگ گئی تھی ۔پھولوں کی طرح کھلتا ہوا چہرہ مرجھا سا گیا تھا ۔اسی دوران ایک دن پھولوں والے بازار میں بیٹھے ہوئے قیوم پر فالج کا حملہ ہوا۔فالج سے اس کے جسم کا دایاں حصہ مفلوج ہو کر رہ گیا ۔فیض نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی تعلیم پرائیویٹ مکمل کرے گا اور زیادہ وقت پھولوں والی دُکان کو دے گا۔پھولوں کے درمیان رہتے ہوئے اسے پھولوں کی قدر و منزلت کا اندازہ ہوا تھا ۔اس کے پاس اب اتنا اختیار تھا کہ وہ کوئی اہم فیصلہ کر سکتا تھا ۔اللہ کی طرف سے عطا کردہ اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ایک رات وہ ایک اسٹام پیپر لیے فالج زدہ قیوم کے پاس موجود تھا ۔قیوم نے اشاروں سے اسٹا م پیپر کے بارے میں پوچھا تو فیض نے جواب دیا۔
’’یہ حج پر جانے کی درخواست نہیں ہے۔یہ کانٹوں بھرے راستے کو پھولوں سے بدلنے کا ذریعہ ہے ۔آپ نے یہ کانٹے میری وجہ سے پھیلائے تھے آج میں خود ہی ان کانٹوں کو چنوں گا۔آپ میرے لیے اپنی آخرت خراب نہ کریں ۔‘‘
’’وہ سانس لینے کے لیے رکا تو اس کی آنکھوں نے ابا جان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے بے بسی کے آنسو دیکھے ۔اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ۔
’’آپ نے یہ سب کچھ میرے لیے کیا تھا حالانکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ ’’قیامت کے دن بد ترین حالت اس شخص کی ہوگی جس نے دوسروں کی دنیا بنانے کی خاطر اپنی آخرت برباد کر ڈالی۔‘‘مجھے کچھ نہیں چاہیے ابو میں خود محنت کروں گا اور اپنے اور آپ کے لیے سب کچھ بناؤں گا ۔آپ اسٹام پیپر پر انگھوٹا لگا دیں آپ کے ایسا کرنے سے دونوں چچا اپنا حصہ بھی پا لیں گے اور کانٹوں بھرا راستہ پھولوں سے بھر بھی جائے گا۔‘‘
’’قیوم نے کانپتے ہاتھ کے ساتھ بری مشکل سے انگھوٹا لگایا تو فیض اسٹام پیپر کو چومتے ہوئے باہر چلا گیا ۔قیوم کمرے میں بھینی بھینی پھولوں کی خوشبو محسوس کر رہا تھا ۔وہ سوچ رہا تھا ساری عمر پھولوں میں رہنے کے باوجود اس کے کانٹوں والے راستے کا انتخاب کیوں کیا تھا۔