پھول کا راز
اعظم طارق کو ہستانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوید بھاشانی کے چہرے پر بے چینی کے تا ثرات رفتہ رفتہ گہرے ہوتے جارہے تھے۔ اس کی نظریں سامنے میز پر ایک بیضوی پیپر ویٹ پر جمی ہوئی تھیں۔ کمرے کی ہیئت بتارہی تھی کہ یہ ایک دفتر ہے۔ کمرے میں موجود نوید بھاشانی کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ عام پولیس والوں سے مختلف ہے۔ وہ اپنے محکمے کا سب سے ذہین پولیس انسپکٹر مانا جاتا تھا۔ اس کے گھنگھریالے بال، چمکتی آنکھیں اور مسکراتا چہرہ اسے کہیں سے پولیس والا ظاہر نہیں کرتا تھا۔
اس وقت دفتر میں رسائل اور اخبارات ایک طرف بکھرے پڑے تھے۔ اخبارات ورسائل کا دفتر میں ہونا یہ ثابت کرتا تھا کہ نوید بھاشانی کو پڑھنے کا خا ص شغف ہے۔ مگر اس وقت اسے یہ رسائل بہت بُرے لگ رہے تھے۔ اس نے اپنی نظریں ابھی تک پیپر ویٹ پر جمائی ہوئی تھیں۔ اچانک دروازہ کھلا اور نوید بھاشانی کا ماتحت احمد کیرالہ آدھمکا۔ آپس میں بے تکلفی نے اجازت لینے کے معاملات ختم کردیے تھے۔
’’خیریت سر! آج موڈ آف لگ رہا ہے، بیگم سے جھگڑا ہوا کیا!‘‘ احمد کیرالہ سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’کیوں صرف اس وجہ سے لوگوں کا موڈ آف ہوتا ہے؟‘‘ نوید بھاشانی نے منھ بناتے ہوئے کہا۔
’’نہیں ۔۔۔وجوہ تو کئی ہوسکتی ہیں۔۔۔مگر آپ کو ہمیشہ کسی پیچیدہ کیس کے سلسلے میں ہی اتنا بے چین دیکھا۔‘‘ احمد کیرالہ سنجیدہ ہوگیا۔
نوید بھاشانی ایک لمحے کے لیے خاموش ہوا اور سر پر ٹوپی رکھتے ہوئے کہا:’’چلو احمد کیرالہ ۔۔۔جلدی سے گاڑی نکالو۔۔۔ہمیں پرنس سبطین کے گھر جانا ہے۔‘‘
’’اوہ۔۔۔میں سمجھ گیا۔۔۔۔۔۔آپ محمد طیب کے قتل پر کام کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’ یہ تمہاری ناتجربہ کاری اور غلط فہمی ہے مسڑ احمد کیرالہ ۔۔۔ محمد طیب کا قتل جنوبی افریقہ میں ہوا ہے اور جنوبی افریقہ کراچی پو لیس کی حدود میں نہیں آتا۔‘‘ نوید بھاشانی کا لہجہ غصیلا تھا۔ احمد کیرالہ جنوبی ا فریقہ کا نام سن کر صرف منھ بنا سکتا تھا ۔۔۔سو منھ بنایا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
پرنس سبطین کراچی کے رئیسوں میں شمار ہوتا تھا۔ وہ کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا مالک تھا۔ اس کا زیادہ تر وقت لندن کے امیر کبیر گھرانوں کی طرف سے دی گئی ’’پارٹیوں‘‘ میں صرف ہوتا تھا۔ وہ گھر میں کم ہی ہوتا تھا لیکن جب گھر میں ہو تا تو اس وقت کسی سے ملنے کی زحمت نہ کرتا۔
پرنس سبطین کا اصل کاروبار کیا تھا؟ نوید بھاشانی اس سے اچھی طرح واقف تھا۔ ہیروں کی اسمگلنگ کا یہ منہگا شوق صرف پرنس سبطین جیسے لوگ ہی اپنا سکتے تھے جو اوپر تک قا نون کے رکھو الوں کی جیبیں گرم رکھ سکیں۔ نوید بھاشانی اور پرنس سبطین ایک دوسرے کو قطعاًنا پسند کرتے تھے۔ نوید بھاشانی بکنے والا اور پرنس سبطین پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا۔
’’جاؤ اپنے مالک سے کہو۔۔۔ مسٹر نوید بھاشانی آئے ہیں۔‘‘ احمد کیرالہ دروازہ پر گن لٹکائے ایک حبشی سے مخا طب ہوا۔
’’صاحب گھر پر نہیں ہے۔‘‘ حبشی نے کھردرے لہجے میں جواب دیا۔
’’وہی پرا نا بہانہ‘‘۔۔۔نوید بھاشانی بڑبڑایا۔
’’بیٹا! ہم ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں تم ہماری آنکھوں میں جھونک رہے ہو۔‘‘ احمد کیرالہ باز نہیں آیا۔
’’میں نے کہہ دیا نا ایک دفعہ ۔۔۔کسی اور طریقے سے سمجھا ؤں کیا۔‘‘ حبشی نے اپنی ہاف آستین میں پھڑکتی ہو ئی مچھلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ ایسے نہیں سمجھے گا۔۔۔جاؤ اپنے باس سے کہو ۔۔۔سیگال بینک میں لاکر نمبر ۵ آدھے گھنٹے میں پریس کے کیمروں کے سامنے ہوگا۔‘‘ نوید بھاشانی نے کہا ۔
’’اور ہا ں سنو!۔۔۔اگر تمہارے باس کو پتا چلا کہ ہم اسے اس مصیبت سے بچانے آئے تھے اورتم نے ملنے نہیں دیا تو وہ تمہیں زندہ زمین میں گاڑ دے گا۔‘‘ احمد کیرالہ نے نوید بھاشانی کے نفسیاتی وار میں مزید مبالغہ آرائی کی۔
حبشی پہلے تو انہیں گھور کر دیکھتا رہا۔۔۔پھر سر جھٹک کر اندر چلاگیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی وہ پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ تقریباً بھاگتا ہوا آیا اور جلدی سے دروازہ کھول کر انہیں اندر جانے کا اشارہ کیا۔ اس کے چہرے سے اندازہ ہورہا تھا کہ اسے سخت قسم کی ڈانٹ پڑی ہے۔ احمد کیرالہ نے گاڑی کو پورچ میں کھڑی کرنے کے لیے اندر کی جانب موڑ دی۔
’’کافی بڑا بنگلہ ہے اور وہ دیکھو کتنے سارے خوب صورت پھول ہیں۔‘‘ احمد کیرالہ نے بائیں جانب گاڑی کو آہستہ کرتے ہوئے کہا۔
’’نوید بھاشانی کی نظریں پھولوں کا مشاہدہ کررہی تھیں۔ واقعی لاجواب پھول ہیں۔‘‘
’’میں نے سنا ہے پرنس سبطین پھولوں کا عاشق ہے۔‘‘
’’واقعی تم نے ٹھیک کہا۔ وہ پھولوں سے انتہائی محبت کرتا ہے۔۔۔لیکن کبھی کبھی۔۔۔ ‘‘
’’لیکن کبھی کبھی۔۔۔کیا سر! آپ خاموش کیوں ہوگئے۔ احمد کیرالہ نے کہا تونوید بھاشانی نے آگے کی جانب اشارہ کیا۔۔۔ پرنس سبطین ان کی گاڑی کی طرف ہی آرہا تھا۔ وہ دونوں بھی گاڑی سے اُترآئے۔۔۔
’’میرے خیال میں لان میں چلتے ہیں۔‘‘ پرنس سبطین نے لان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ تھوڑی دیر میں وہ لان میں بیٹھے باتیں کررہے تھے۔
’’تم سیگال بینک کے اس لاکر کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ اور مجھے دھمکی دینے کی کوشش کر رہے ہو۔‘‘
’’جب ہم بینک کے اس لاکر کے بارے میں جانتے ہیں تو یقیناًیہ بھی جانتے ہیں کہ اس میں کیا چیز موجود ہے۔‘‘
’’اس میں جو کچھ بھی ہے وہ تمہارے کام کا نہیں‘‘۔۔۔ پرنس کے لہجے میں غراہٹ تھی۔
’’لیکن وہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کے لیے کافی کار آمد ہے اور خصوصاً عوام بھی تمہاری اصلیت پہچان لے گی۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے محمد طیب تمہارا کافی اچھا دوست تھا اور تمہیں اس کے مرنے کاکافی افسوس ہے لیکن ۔۔۔نوید بھاشانی! وہ میرا بھی دوست تھا۔‘‘
’’پیسا بہت بری شے ہے پرنس سبطین ‘‘۔۔۔نوید بھاشانی اسے باتوں میں الجھانا چاہتا تھا۔
’’تم چاہتے کیا ہو ؟‘‘ پرنس سبطین نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
’’تم نے محمد طیب کے ساتھ مل کرجنوبی افریقہ میں سونے کی ایک کان خریدی ۔۔۔اس کان سے سونا تو نہیں نکلا۔۔۔ مگر محمد طیب کی ذہانت نے وہاں سے ہیرے کی ایک بڑی مقدار برآمد کرلی۔ وہ ہیرے کافی قیمتی تھے اور تم محمد طیب کو اس سے حصہ دینے کے لیے تیار نہیں تھے اور پھر جنوبی افریقہ کے جس ہوٹل میں محمدطیب رہتا تھا وہاں سے اس کی تشدد زدہ لاش ملی۔ کیا میں صحیح کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’تم یہ بتانا چاہتے ہو کہ محمد طیب کو میں نے قتل کیا۔‘‘ پرنس سبطین نے خود کو پر سکون رکھنے کی ناممکن کوشش کی۔ اس کے ہاتھ بات کرتے ہوئے کپکپانے لگے۔
’’میں نے تو یہ نہیں کہا۔ تم یہ کام کسی اور سے بھی کرواسکتے تھے مگر مجھے لگتاہے تم جیسا زیرک اور محتاط شخص کسی کو اپنا ہمراز بنانے کی غلطی نہیں کرے گا۔ بینک لاکر میں موجود کا غذات سے ثابت ہوتا ہے کہ کان کی ملکیت تمہاری اور محمد طیب کی ہے۔‘‘
’’ہا ہا ہا۔۔۔ تمہارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت بھی ہے کہ میں ان ۱۰؍ دنوں میں کراچی سے باہر کہیں گیا ہوں اور میں نے تو جنوبی افریقہ دیکھا ہی نہیں ہے۔ چاہو تو میرا پاسپورٹ دیکھ سکتے ہو۔‘‘ پرنس نے نوید بھاشانی کا تمسخر اُڑاتے ہوئے کہا۔ نوید بھاشانی اور احمد کیرالہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے۔
’’میرا خیال ہے تمہیں میرے قیمتی وقت کااحساس کرنا چاہیے؟‘‘ پرنس مسکرایا۔
یقیناًآپ کا وقت بے حد قیمتی ہے مگرمحمد طیب ایک بہت اچھا انسان تھا۔ ‘‘نوید بھاشانی نے اٹھتے ہوئے کہا۔
پرنس سبطین کے چہرے پر ناگوار ی کے تاثرات اُبھر آئے۔ نوید بھاشانی اور احمد کیرالہ گاڑی کی طرف بڑھے ۔۔۔ پھولوں کی کیاری سے گزرتے ہوئے احمد کیرالہ اچانک ایک پھول کی جانب جھکا۔
’’پرنس ۔۔۔ یہ پھول بہت خوب صورت ہے۔ پہلی بار دیکھا ہے۔ کہاں سے ملا۔۔۔‘‘
پرنس نے پھول کی طرف دیکھا ۔۔۔ایک لمحے کے لیے ٹھٹکا۔۔۔پھر کہنے لگا: ’’یہ میکسیکوسے میرے دوست شیفرڈ نے بھیجا ہے۔‘‘
’’اوہ ۔۔۔ویسے پھول کمال کا ہے‘‘۔۔۔احمد کیرالہ نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
دفتر پہنچتے ہی نوید بھاشانی کرسی پر ڈھیر ہوگیا۔ احمد کیرالہ راستے میں ’’لیاقت لائبریری‘‘ کے قریب اتر گیا تھا۔ تقریباً ۲ گھنٹے بعد احمد کیرالہ تمتماتے ہوئے چہرے کے ساتھ دفتر میں داخل ہوا۔
’’سر !آپ کے لیے اتنی بڑی خبر لایا ہوں کہ آپ حیرت سے اچھل پڑیں گے۔‘‘ احمد کیرالہ نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا۔
’’خیریت ۔۔۔تمہارا چہرہ کچھ زیادہ تمتما رہا ہے۔ کوئی لاٹری نکل آئی کیا۔‘‘
’’سر! پرنس کے گھر سے نکلتے ہوئے میں نے ایک پھول کے بارے میں پوچھا تھا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔وہ گھوبھی کے پھول جتنا خوب صورت سا پھول۔۔۔کیوں ؟کیا ہوا؟۔۔۔وہ پھول چوری کا ہے۔‘‘
’’نو سر! وہ پھول میکسیکو کا نہیں بلکہ دنیا کے صرف ایک شہر میں پایا جاتا ہے اور سر! حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اگر وہ پھول کسی اور جگہ لگا نے کی کو شش کی جائے تو صرف ایک ماہ تک وہ تروتازہ رہ سکتا ہے۔ اس کے بعد وہ پھول مرجھا جاتا ہے۔‘‘
’’سر ۔۔۔تواس میں بڑی خبر کیا ہے۔‘‘ نوید بھاشانی سچ مچ چڑگیا۔ اسے احمد کیرالہ پر غصہ آرہا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ احمد کیرالہ اس کے خیالات کا رخ بدلنا چاہتا ہے۔
’’سر وہ پھول صرف افریقہ کے شہر ’’پرے ٹوریا‘‘ میں پایا جاتا ہے۔‘‘
’’کیا !‘‘۔۔۔نوید بھاشانی جو کہ پیپر ویٹ سے کھیل رہا تھا۔ ایک دم اپنی ساری توجہ احمد کیرالہ کی جانب مبذول کردی۔ اس کا چہرہ شدت جذبات سے سُرخ ہوگیا۔
’’اور سر! اس نے خود یہ بات کہی کہ وہ پھول اسے میکسیکو سے شیفرڈ نے بھیجا ہے ۔۔۔آپ نے غور کیا ہوگا کہ وہ جو اب دیتے ہوئے ایک لمحے کے لیے ٹھٹکا بھی تھا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ یہ ساری باتیں اس کے خلاف جاتی ہیں ۔۔۔تم کل اس کے گھر جا کر اس پھول کی خفیہ تصویر یں کچھ ایسے کھینچنا کہ پرنس کا گھر بھی صاف طور پر نظر آئے۔ وہ اس بات سے مُکر بھی سکتا ہے کہ یہ تصویر اس کے گھر میں لگے پھول کی ہے۔‘‘
’’لیکن سر! تصویر کھینچنے کا کیا فائدہ؟‘‘ احمد کیرالہ نے چونک کر کہا۔
’’اگر تمہیں فائدے کا خود ہی اندازہ ہوجاتا تو میری جگہ تم یہاں بیٹھے ہوتے۔۔۔ تم نے ہی کہا تھا کہ وہ پھول ایک ماہ بعد مرجھا جائے گا۔ اب ایک ماہ بعد اس پھول کی اس وقت تصویر کھینچنے کی کوشش کریں گے جب وہ مرجھا گیا ہوگا۔‘‘
’’سر!آپ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔‘‘
’’اور اگر پھول مرجھا جاتا ہے تو دال میں واقعی کچھ کالا ہوگا۔ جب تک ہم محمد طیب کے گھر والوں کے ذریعے پرنس سبطین پر مقدمہ درج کروالیتے ہیں۔‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*
ڈیڑھ ماہ بعد کمرہ عدالت سجی ہوئی تھی۔ کمرہ عدالت میں لوگ ہی لوگ موجود تھے۔ پرنس سبطین کٹہرے میں کھڑا تھا۔ محمد طیب کے بھائی کے وکیل نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا:’’می لارڈ! محمد طیب اور پرنس سبطین اچھے دوست تھے اور انہوں نے مل کر جنوبی افریقہ میں سونے کی ایک کان خریدی ۔۔۔کروڑوں ڈالر میں خریدی گئی یہ کان سونے کے علاوہ بیش بہا قیمتی پتھروں سے بھری ہوئی تھی۔ محمد طیب نے اس کان سے ہیرے نکالے جن کی مالیت کروڑوں ڈالر کی تھی۔ہیروں کے معروف اسمگلر پرنس سبطین عرف شیگل کو ہیروں کی لالچ نے اتنا اندھا کردیا کہ وہ اپنا بھیس بدل کر ایک نئے نام اور پاسپورٹ کے ساتھ جنوبی افریقہ گیا۔‘‘
شیگل کا نام سن کر عدالت میں موجود لوگ حیرت ذدہ رہ گئے اور آپس میں چہ مگوئیاں شروع کردیں۔ محمد طیب کے وکیل نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’وہاں انہوں نے محمد طیب کو انتہائی تشدد کا نشانہ بنا کر ان سے ہیرے حاصل کیے اور واپس لندن آگئے۔ ہیرے وہ پہلے ہی سوئزرلینڈ کے بینک میں جمع کراچکے تھے۔ پرنس سبطین کے ساتھ بدقسمتی یہ رہی کہ وہ اپنے شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک ایسا پھول ’’پرے ٹوریا‘‘ سے لایا جو صرف جنوبی افریقہ میں پایا جاتا ہے۔ یہ پھول کسی دوسری جگہ زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کھلا رہتا ہے۔۔۔ پھر ہمیشہ کے لیے مرجھا جاتا ہے۔ پرنس سبطین نے یہ پھول اپنے E:301 پیراڈائز سوسائٹی والے بنگلے میں لگایا۔ یہ پھول پورے ۲۸ دن بعد مرجھا گیا۔۔۔اس کی تصاویر آپ دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ وکیل نے جج کی ٹیبل پر چند تصاویر رکھ دیں۔
’’پرنس سبطین کے لندن صدر کے ایک فلیٹ سے نقلی مونچھیں، ڈاڑھی اور میک اپ کے کچھ اور سامان کے علاوہ پاسپورٹ جس پر جنوبی افریقہ کا ویزہ لگا ہوا ہے۔۔۔ پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیے ہیں۔ فراز کے نام سے یہ ساری کارروائیاں انجام دینے والے پرنس سبطین کا میک اپ کراچی کے ایک ٹی وی چینل کی میک اپ آرٹسٹ تانی نے کیا تھا۔ عدالت تانی کو گواہی دینے کی اجازت دے۔‘‘
’’اجازت دی جاتی ہے۔‘‘ جج نے کہا۔ کمرہ عدالت میں لوگ پرنس سبطین کی مکارانہ سازش کو بے نقاب ہوتادیکھ کر حیرت سے منھ میں انگلیاں دبائے بیٹھے تھے۔ میک اپ آرٹسٹ تانی کی گواہی اور پولیس کی تصدیق نے پرنس سبطین کے وکیل کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔ پرنس سبطین کے چہرے پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔۔۔اس کا چہرہ سائیں سائیں کررہا تھا۔
عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے پرنس سبطین کو عمر قید کی سزا سنائی اور اس کی تمام جائیداد محمد طیب کے وارثوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ سناکر عدالت بر خواست کردی۔ عدالت کا فیصلہ سن کر نوید بھاشانی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔۔
’’سر !ہم جیت گئے۔۔۔سر !ہم نے محمدطیب کے خون کا بدلا لے لیا۔
’’ہاں۔۔۔احمد کیرالہ ۔۔۔ہم جیت گئے ۔۔۔محمد طیب ایک عظیم انسان تھا۔ جب میں کراچی میں دردر کی ٹھوکریں کھارہا تھاتواسی نے۵ سال تک مجھے اپنے گھر میں بھائیوں کی طرح رکھا۔۔۔اور مجھے اس مقام تک پہنچایا۔
سر! جب ہی میں کہوں کہ آپ محمد طیب کو اتنا اچھا کیوں سمجھتے ہیں۔‘‘
’’کیوں کہ احمد کیرالہ ۔۔۔وہ تھا ہی بہت اچھا۔‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*