پہلی ٹھوکر
نذیر انبالوی
……….
سعد ایک مقبول عام فلمی گیت گنگناتے ہوئے مین بازار سے نکل کر نہر کی طرف جانے والی سڑک پر آگیا۔آج وہ بہت خوش تھااور گیت گنگناتے ہوئے وہ اپنا ہاتھ بار بار جیب میں ڈال رہا تھا۔
’’واہ آج تو مزہ آجائے گا،برگر،بوتل اور دہی بڑے کھاؤں گا‘‘۔وہ خوشی میں اس قدر سر مست تھا کہ خود سے باتیں کر رہا تھا۔باغ کے پاس اس کو’’خوشنما برگر ہاؤس‘‘دکھائی دیا۔وہاں خریداروں کا رش تھا۔وہ ایک طرف کھڑا ہو گیا۔بر گر بنانے والا تیزی سے برگر بنا بنا کر گاہکوں کو دے رہا تھا۔ سعد کچھ دیر تو کھڑا رہا پھر اس نے دیکھا کہ یہ رش تو رات گئے تک کم نہ ہوگا۔اس نے برگر بنانے والے کو قدرے اونچی آواز میں کہا:
’’بھائی جی ایک اچھا سا برگر بنا دیں‘‘۔
یہ جملہ اس نے کئی بار دہرایا۔آخر برگر والے نے اس کو دیکھتے ہوئے کہا:
’’صبر کروابھی باری آجائے گی‘‘۔
کچھ دیر بعد سعد کے ہاتھ میں گرما گرم برگر تھا۔
’’یہ لو بھئی بقایا پیسے دو‘‘۔
’’پیسے کھلے دو‘‘۔برگر والا بولا۔
’’میرے پاس تو یہی پانچ سو کا نوٹ ہے‘‘۔
’’اوئے شکورے ذرا پیٹرول پمپ سے کھلا تو لانا‘‘۔
’’ابھی لایا استاد‘‘۔
شکور جس تیزی کے ساتھ گیااس تیزی کے ساتھ واپس آگیا۔اب شکورے کے ساتھ پیٹرول پمپ سے ایک اور آدمی بھی ساتھ آگیا تھا۔
’’یہ پانچ سو کا نوٹ کس کا ہے۔‘‘پیٹرول پمپ سے آنے والے شخص جلال نے پوچھا۔
’’میرا ہے پانچ سو کا نوٹ‘‘۔سعد نے برگر کا پہلا لقمہ کھاتے ہوئے کہا۔
’’ادھر آؤ ذرا‘‘۔جلال نے سعد کو گھورا۔
’’اوئے شکورے کیا بات ہے؟‘‘۔
’’استاد یہ فراڈیا ہے،یہ نوٹ جعلی ہے‘‘۔
’’جے……جے……..جعلی…….نن….نن نہیں یہ اصلی نوٹ ہے‘‘۔گھبراہٹ کے مارے سعد سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔
’’ابھی پتا چل جائے گابچو‘‘یہ کہہ کر جلال نے اس سے برگر چھین لیااور اسے پکڑ کر پیٹرول پمپ لے گیا۔
’’کہاں سے لیتے ہو ایسے نوٹ؟‘‘جلال نے سعد کو گھورتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ میرا اپنا نوٹ ہے‘‘۔
’’یہ نوٹ ہے تو تمہارا مگرایسے جعلی نوٹ کہاں سے لیتے ہو؟‘‘
’’کہیں سے بھی نہیں‘‘۔
’’جلال یہ اس طرح نہیں مانے گا،تم پولیس کو فون کرو‘‘۔یہ مشورہ اسد کا تھا۔
’’پولیس،میں بے قصور ہوں،مجھے گھرجانے دیں‘‘۔سعد نے التجا کی۔
’’تم گھر نہیں اب تھانے کے مہمان بنو گے‘‘۔جلال غرایا۔
کچھ دیر بعد پولیس آگئی۔پندرہ سولہ سالہ سعد کو دیکھ کر انسپکٹر اختر نے کہا:
’’لگتا یہ کتنا معصوم ہے اور اس کے کام دیکھو‘‘۔
’’سر جرائم پیشہ لوگ ایسے ہی بچوں کے ذریعے جعلی نوٹوں کو بازار میں چلاتے ہیں‘‘۔ایک سپاہی بولا۔
’’بولو تم کس کے لئے کام کرتے ہو؟‘‘انسپکٹر اختر نے سوال کیا۔
’’کسی کے لئے بھی نہیں‘‘۔
’’پھر یہ نوٹ تمہارے پاس کہاں سے آیا ہے؟‘‘
’’یہ نوٹ مجھے بازار سے گرا ہوا ملا ہے‘‘۔
’’سر!بہت چالاک ہے یہ،اس طرح نہیں بکنے والا‘‘۔سپاہی نے کہا۔
’’بٹھاؤ اس کو گاڑی میں‘‘۔انسپکٹر اختر بولا۔
’’مجھے چھوڑ دو میں بے قصور ہوں‘‘۔
’’زبان بند رکھو ورنہ ایک ہاتھ دوں گا‘‘بڑی مو نچھوں والا سپاہی چلایا۔
’’زیادہ سختی نہیں بچہ ہے پیار سے بات کرو‘‘۔انسپکٹر اختر نے کہا۔
’’یس سر‘‘۔
’’سر!آپ کے لیے وائرلیس پر پیغام ہے‘‘۔
’’چاندنی چوک پر دو پارٹیوں میں لڑائی ہو رہی ہے،آپ وہاں فوراً پہنچیں اوور‘‘۔
’’میں تھانے سے مزید نفری لے کر جلد چاندنی چوک پہنچ رہا ہوں اوور‘‘۔انسپکٹر فوراً بولا۔
’’ہنگامی صورت حال کی وجہ سے سعد کو حوالات میں بند کرکے انسپکٹر اختر ایک سپاہی کو ڈیوٹی پر لگا کر بھاری نفری لے کر چاندنی چوک چلے گئے۔سعد کے لئے ایک ایک لمحہ صدیوں پر بھاری تھا۔بھوک پیاس سے اس کا برا حال تھا۔اس کو رہ رہ کر امی جان کا خیال بھی آرہا تھا۔
’’کیا ایک گلاس پانی مل جائے گا؟‘‘
’’ابھی دیتا ہوں پانی‘‘۔
پانی پی کر سعد نے سپاہی سے کہا:
’’کیا یہاں سے ایک فون ہو سکتا ہے؟‘‘
’’فون کو تو تالا لگا ہے،کیا گھر اطلاع دینا چاہتے ہو؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’کہاں رہتے ہو؟‘‘
’’بڑی مارکیٹ کے پاس،گھرمیں فون تو نہیں ہے،پڑوس میں فون کرنا تھا‘‘۔سعد ابھی یہ کہہ ہی رہا تھا کہ سپاہی فون کی گھنٹی بجنے پرریسیور اٹھا کرباتوں میں مصروف ہو گیا۔ اس کے کسی بے تکلف دوست کا فون تھا۔پھر باتوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ جو ختم ہو نے میں نہ آتا تھا۔سعد ٹھنڈے فرش پر بیٹھا سوچوں میں گم تھا۔اس نے خود اس راستے کا انتخاب کیا تھا،ماضی کا تعاقب کرتے ہوئے وہ بہت دور نکل گیا۔
’’یار آج اسکول جانے کو دل نہیں چاہ رہا‘‘۔حارث نے کہا۔
’’تو پھر دل کہاں جانے کو چاہ رہا ہے؟‘‘سعد نے پوچھا۔
’’کوئی اچھی سی فلم دیکھتے ہیں۔‘‘
’’اس وقت اورفلم‘‘
’’صرف ایک گھنٹے بعد شالیمار ہوٹل میں وی سی آر پر فلم شروع ہو جائے گی‘‘۔حارث نے کہا۔
’’میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں‘‘۔
’’اس کی تم فکر نہ کرو۔پانچ روپے کا چائے کا ایک کپ پیو اور پوری فلم دیکھو،میرے پاس دس روپے ہیں‘‘۔حارث نے جیب سے دس روپے کا نوٹ نکال کر سعد کو دکھاتے ہوئے کہا۔
وہ ایک گھنٹے تک ادھر ادھر پھرتے رہے۔جب نو بجے تو دونوں شالیمار ہوٹل میں موجود تھے۔فلم ایکشن سے بھرپورتھی۔ساڑھے گیارہ بجے کے قریب فلم ختم ہوئی تودونوں بستے گلے میں ڈالے گول باغ میں داخل ہو گئے۔دو بجے تو دونوں گول باغ سے اپنے اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔سعد کی امی جان نے اس کی بلائیں لیں۔اس کی امی جان یوں تو پہلے بھی اسے بہت پیار کرتی تھیں مگر جب سے اس کے ابو جان ایک حادثے میں انتقال کر گئے تھے ان کی محبت مزید بڑھ گئی تھی۔گھر گاؤں کی تھوڑی سی زمین سے ہونے والی آمدنی اور تایا جان کی مالی مدد سے چلتا تھا۔جب ایک دن سعدگھرسے اسکول جانے کی بجائے ایک باغ میں حارث کے ساتھ موجود تھا تو تایاجان نے انہیں دیکھ لیا۔یاتا جان نے اس کی خوب پٹائی کی۔
’’کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہو،کچھ پڑھ لکھ لو کل کام آئے گا‘‘۔یاتا جان کی باتوں کا اس پر اثر چند روز ہی رہا۔اب پھر وہ پہلی والی ڈگر پر آگیا تھا۔اس کو کئی بار امی جان نے سمجھایامگر وہ سعد ہی کیا جو کسی کی بات مان لے۔ان حالات کو دیکھ کریاتا جان اور امی جان نے فیصلہ کیا کہ سعد اگر پڑھنا نہیں چاہتاتو پھروہ کوئی کام سیکھ لے۔اگلے ہی دن وہ ایک موٹر مکینک کا شاگرد بن چکا تھا۔استاد کی ڈانٹ ڈپٹ اور ہر وقت ہاتھ منہ کے کالا ہونے سے سعد یہاں بھی زیادہ دن نہ گزار سکا۔
’’اگرتمہیں اپنے ہاتھ منہ کا اتنا ہی خیال ہے توپھر پڑھ لکھ لو‘‘۔تایا جان نے اسے سمجھایا۔سعد نے تو ہر اس راستے کو بند کر دیا تھاجو پڑھائی کی طرف جاتا تھا۔
’’بھائی جی!آپ ہی اس بچے کے لے کچھ سوچیں،مجھے تو دن رات اسی کی فکر کھائے جا رہی ہے‘‘۔سعد کی امی جان بہت افسردہ تھیں۔
’’میں آج شام ہی شیخ رحمت سے بات کرتا ہوں‘‘۔
’’وہی شیخ رحمت جن کا مین بازار میں جنرل اسٹور ہے‘‘۔
’’ہاں میں انہی کی بات کر رہا ہوں‘‘۔
دوسری صبح تایا جان سعد کو شیخ رحمت کے پاس لے گئے۔شیخ رحمت نے سعد کو دیکھ کرکہا۔’’کچھ پڑھے لکھے ہو یا ان پڑھ ہو‘‘۔
’’پانچ جماعتیں پاس ہوں‘‘۔سعد بولا۔
’’چلو پھر تو حساب کتاب کر لیا کرو گے،امین بھائی آپ بے فکر ہو جائیں اب سعد کہیں نہیں جائے گا‘‘۔شیخ رحمت کی کہی ہوئی یہ بات واقعی سچ ثابت ہوئی۔وقت کے ساتھ ساتھ سعد نے شیخ رحمت کا اعتماد حاصل کر لیا۔وہ نماز پڑھنے جاتے یا کچھ دیر کے لئے اسٹور سے باہر نکلتے تو کاؤنٹر پر سعد ہی ہوتا۔یوں تو اسٹور میں اوربھی کئی ملازم تھے مگر شیخ رحمت سعد پر ہی اعتماد کرتے تھے۔آج دوپہر کے وقت شیخ رحمت کو قصور میں کسی عزیز کے انتقال کی خبر ملی تو شیخ رحمت نے سعد کواپنے پاس بلا کرضروری باتیں سمجھاتے ہوئے کہا:
’’یہ چار ہزار روپے ہیں،چائے کی پتی والا آئے تو اسے دے دینااور نو بجے دھیان سے اسٹور بند کر دینا‘‘۔
’’اسٹور کی چابیاں کہاں رکھوں؟‘‘سعد نے پوچھا۔
’’گھر میں کوئی نہیں ہوگا اس لئے چابیاں تم اپنے گھر لے جانا۔صبح نو بجے سے پہلے میں قصور سے واپس آجاؤں گا۔چابیاں سنبھال کر رکھنا۔اچھا میں اب جا رہا ہوں۔ہوشیاری سے کام کرنا اور سب پر نظر رکھنا‘‘۔شیخ رحمت یہ کہہ کر چلے گئے۔اب جنرل اسٹور کا مکمل اختیار سعد کے پاس آگیا تھا۔مہینے کے ابتدائی دن تھے اس لیے اسٹور پر گاہکوں کا معمول سے زیادہ رش تھا۔اسٹور بند کرنے تک کاؤنٹر کی درازنوٹوں سے بھر گئی۔اس کے کہنے پر ملازموں نے سامان سمیٹنا شروع کر دیا۔سعد جب بھی نوٹوں کو دیکھتا تو اس کا دل چاہتا کہ کچھ نوٹ وہ اپنی جیب میں ڈال لے۔اس شیطانی سوچ نے اس وقت عملی شکل اختیار کی جب پانچ سو کا ایک نوٹ اس کی جیب میں تھا۔ملازم اپنے کاموں8 میں مصروف تھے،اسی لئے کسی نے اسے یہ بری حرکت کرتے دیکھا نہیں تھا۔اسے کیا خبر تھی کہ وہ جس نوٹ کو چرا رہا ہے وہ جعلی ہے۔کوئی گاہک رش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ نوٹ اسے دے گیا تھا۔یہ جعلی نوٹ اسے گھر کی بجائے تھانے کے لاک اپ میں لے آیا تھا۔ادھر تو یہ پریشان تھا ہی مگر اس کی امی جان اور تایا جان بھی بے حد پریشان تھے۔یاتا جان نے شیخ رحمت کے اسٹوراور گھر فون کیا مگرانہیں سعدکے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا۔آخر انہوں نے شیخ رحمت کے موبائل فون پر رابطہ کیا۔صورت حال کی نزاکت دیکھ کررات 12بجے شیخ رحمت فوری طور پر قصور سے واپس آگئے۔اب وہ بھی تایا جان کے ساتھ سعد کی تلاش میں مصروف تھے۔رات تین بجے کی قریب چاندنی چوک میں لڑنے والی پارٹیوں کو گرفتار کرکے لایا گیاتو انسپکٹر اختر کو سعد کا خیال آیا۔بھوک پیاس اور پولیس کے خوف سے اس کے ہوش ٹھکانے آگئے تھے۔یہی وجہ تھی کہ جب انسپکٹر اختر نے محبت سے اس سے پانچ سوروپے کے جعلی نوٹ کے بارے میں پوچھاتو اس نے ساری بات سچ سچ انہیں بتا دی۔
’’تم جھوٹ تو نہیں بول رہے‘‘۔
’’بالکل بھی نہیں‘‘۔
’’اب نواز اس کے گھر والوں کو اطلاع دو‘‘۔انسپکٹر اختر نے کہا۔
اطلاع ہمسائے کے ہاں فون کرکے دی گئی۔سعد کی گمشدگی سے سارا محلہ ہی پریشان تھا۔تھوڑی دیر میں ہی تایا جان،شیخ رحمت، علاقے کے دیگر لوگ تھانے میں موجود تھے۔سعدان سب کے سامنے گردن جھکائے کھڑا تھا۔تایا نے غصے سے سعد کے منہ پر طمانچہ مارنا چاہا توانسپکٹر اختر نے کہا:
’’مار نہیں پیار،بچہ ہے غلطی کر بیٹھا ہے‘‘۔
’’اس بچے نے تو بے عزت کروا کے رکھ دیا ہے،ہمارا خاندان تو اپنی شرافت کی وجہ سے پورے علاقے میں مشہور ہے اور یہ نہ جانے کس پر گیا ہے۔کہاں سے لیے تھے تم نے پانچ سو روپے‘‘۔تایا جان چلائے۔
سعد نے روتے ہوئے انہیں بھی پانچ سو روپے کا قصہ سنادیا۔وہ روتے ہوئے یہی کہہ رہا تھا کہ اس نے اللہ سے بھی معافی مانگ لی ہے اور وہ سب بھی اسے معاف کر دیں۔آئندہ وہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔سعد کو روتے دیکھ کر انسپکٹراختر نے بتایا:
’’تمہارے لئے یہ بات دل چسپی کا باعث ہوگی کہ چاندنی چوک میں ہونے والی لڑائی کی وجہ ایک جعلی نوٹ تھا۔گلزار نامی ایک شخص نے تنویر جیولرز سے کچھ رقم ادھار لی۔آج جب گلزار نے ادھار کی رقم واپس کی تواس میں ہزارروپے کا ایک نوٹ جعلی تھا۔بس اس جعلی نوٹ کی وجہ سے بات اتنی بڑھی کہ شدید لڑائی کی شکل اختیار کر گئی۔آپ سب معززین آئے ہیں تو میں اس بچے کو چھوڑ رہا ہوں۔‘‘یہ سن کر سعد کی جان میں جان آئی۔سعد نے تھانے سے نکلتے ہیں اسٹور کی چابیاں شیخ رحمت کی طرف بڑھائیں تو انہوں نے کہا۔
’’چابیاں اپنے پاس ہی رکھو،صبح اسٹور تم ہی کھولو گے‘‘۔
’’اس کا مطلب ہے آپ نے مجھے معاف کر دیاہے‘‘۔
’’ہاں میں نے تمہیں معاف کر دیا۔تم نے اللہ سے سچے دل سے معافی مانگی ہے تو اللہ نے بھی یقیناًتمہیں معاف کر دیا ہوگاکیونکہ سورہ نحل میں ارشاد ربانی ہے کہ’’پھر جن لوگوں نے نادانی سے برا کام کیا،پھر اس کے بعد توبہ کی اور نیک ہو گئے تو تمہارا پروردگار(ان کو)توبہ کرنے اور نیک ہو جانے کے بعدبخشنے والا اوران پر رحمت کرنے والا ہے‘‘۔چابیاں جیب میں رکھو اور صبح اسٹور پر آجانا۔شیخ رحمت کی باتوں سے سعد کو ایسا لگ رہا تھا کہ اللہ نے شیخ رحمت کی صورت میں اس پر رحمت کی ہے۔گھر پہنچنے تک پانچ سو روپے کا جعلی نوٹ اس کی آنکھوں کے سامنے گردش کرتا رہا۔وہ سوچ رہا تھا کہ پانچ سو روپے کا جعلی نوٹ بھی تو اس کے لئے رحمت ہی ثابت ہوا کیونکہ اگر یہ نوٹ جعلی نہ ہوتاتو وہ پہلی ٹھوکر کھانے کے بعد کس طرح سنبھل پاتا۔سعد نے اپنے گھر کی دہلیز پرقدم رکھاتورات کے اندھیرے پر دن کا اجالا غالب آرہا تھا۔ایک روشن اور نیا دن اپنے آنے کی نوید سنا رہا تھا۔سعد نے بھی آج پہلی ٹھوکر کھانے کے بعد ایک نئے،روشن اور اچھے دن کاآغاز کر دیا تھا۔