پہلا بحری بیڑہ
فریال یاور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اے اللہ! معاویہ کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنادیجئے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دیجئے۔‘‘ (ترمذی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دارالخلافت میں اس وقت تمام معزز عہدے دار خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ کسی خاص موضوع پر گفتگو ہورہی ہے۔ ایسے میں ایک شخص اندر آکر شام کے گورنر کی آمد کی اطلاع دیتا ہے۔ اس کے کچھ لمحے بعد ایک خوب صورت گورے رنگ والے شام کے گورنر خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ چہرے پر ذہانت اور بردباری صاف نظر آرہی ہے۔ تمام لوگ خلیفہ اور شام کے گورنر کی طرف انتہائی تجسس سے دیکھ رہے ہیں۔ لوگوں کی طرف ایک نگاہ ڈال کر شام کے گورنر خلیفہ وقت سے مخاطب ہوتے ہیں۔
’’امیر المومنین جیسا کہ میں اس سے پہلے بھی آپ کو اس بات سے آگاہ کرچکا ہوں کہ قبرص علاقہ نہ صرف ایک خوب صورت اور زرخیز جزیرہ ہے بلکہ مصر و شام کی فتح کا دروازہ ہے۔ اس مقام کی اس اہمیت سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ مصر اور شام میں جہاں اسلام کا پرچم لہرا رہا ہے۔ اس کی حفاظت اس وقت تک نہیں ہوسکتی۔ جب تک وہ بحری ناکہ مسلمانوں کے قبضے میں نہ آجائے۔ لہٰذا میں ایک بار پھر آپ سے اجازت کا طلب گار ہوں کہ مجھے اس مہم کی سرکوبی کی اجازت فرمائیں۔‘‘ یہ کہہ کر گورنر خلیفہ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ جس میں بے تابی دکھائی دے رہی تھی۔
خلیفہ نے ایک لمحہ توقف کے بعد گورنر کو مخاطب کیا: ’’بے شک تمہاری ذہانت میں کوئی شک نہیں ہے۔ تمہاری ذہانت اور تمہارے حسن انتظام کی وجہ سے ہی میں نے تم کو حمص بحرین اور فلسطین کے علاقوں کی اضافی ذمہ داری بھی سونپی ہے۔ مجھے بھی اسی بات کا اندیشہ ہے جو مجھ سے پہلے امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو تھا۔ سمندری مشکلات کا تمھیں بھی بخوبی اندازہ ہے۔ ان سب باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں تمہیں منع کرنے پر مجبور ہوں۔ یقیناًتم میری بات بخوبی سمجھ گئے ہوگے۔ ‘‘
’’مگر امیر المومنین میری حاضری کا ایک اور مقصد بھی ہے اور وہ یہ کہ میں ایک بحری بیڑہ تشکیل دینا چاہتا ہوں۔ جو اس مہم کو سر کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔‘‘ ساتھ ہی گورنر نے ساتھ لائے نقشوں کی مدد سے وضاحت کی اور پھر اس بات پر خلیفہ کو راضی کرلیا۔ ’’ٹھیک ہے تمہارا یہ خیال بہت عمدہ ہے لیکن ساتھ ہی مشکل بھی۔ ہم سے جو تعاون تمھیں درکار ہو۔ وہ ہم تمھیں دیں گے اب تمھیں اجازت ہے کہ تم اپنے منصوبے پر کام شروع کرو۔‘‘ گورنر اجازت پا کر مطمئن ہوگئے اور خوشی ان کے چہرے پر چمکنے لگی۔
کچھ دیر بعد گورنر نے خلیفہ سے واپسی کی اجازت لی۔ کچھ ہی دنوں میں مصر و شام کے ساحلی علاقوں میں بہت سارے جہاز سازی کے کارخانے تعمیر کیے گئے۔ جہاں دن رات کام کرکے جنگی جہازوں کی تیاری کا کام شروع ہوگیا اور بالآخر ایک ہزار سات سو جنگی جہاز رومیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ اس عظیم الشان بحری بیڑے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ایک جماعت کو قبرص کی جانب روانہ کردیا گیا۔ یوں اس عظیم بحری طاقت سے نہ صرف قبرص اور روڈوس جیسے اہم یونانی علاقے فتح کیے بلکہ اسی بحری بیڑے سے قسطنطنیہ کے حملے میں بھی کام کیا۔
یہ عظیم کارنامہ جو کہ مسلمانوں کی تاریخ و سائنس کی ابتداء ہے۔ یہ کارنامہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سر جاتا ہے۔ بحری بیڑہ تیار کرانا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی محض ایک تاریخی خصوصیت ہی نہیں ہے بلکہ اس لحاظ سے بھی نہایت عظیم سعادت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا ’’بحری جہاز‘‘ تیار کرنے والوں کے حق میں جنت کی بشارت دی تھی۔
۲۷ھ میں آپ قبرص کی طرف اپنا بحری بیڑہ لے کر گئے اور ۲۸ھ میں وہ آپ کے ہاتھوں فتح ہوگیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جہاد کا وہ سلسلہ جو ختم ہوچکا تھا۔ آپ کے دور خلافت میں پورے زور و شور سے شروع ہوگیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہی بحری فوج تشکیل دے دی تھی اور عبداللہ بن قیس حارث کو اس کا افسر مقرر کیا تھا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اہل روم سے جہاد کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اہل روم کے خلاف سولہ جنگیں کیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ ایک حصے کو آپ رضی اللہ عنہ موسم گرما میں جہاد کے لیے روانہ فرماتے تھے۔ دوسرے کو سردیوں کے موسم میں۔ ۴۹ھ میں آپ نے قسطنطنیہ کی جانب لشکر روانہ کیا اور یہی وہ جہاد ہے جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں ہی پیش گوئی فرمادی تھی اور اس میں شریک ہونے والوں کے متعلق فرمایا تھا۔
’’پہلا لشکر جو قسطنطنیہ کا جہاد کرے گا ان کو بخش دیا جائے گا‘‘۔ (حافظ ابن کثیر)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہی صقیلہ کے عظیم الشان جزیرے پر مسلمانوں نے فوج کشی کی اور کثیر تعداد میں مال غنیمت مسلمانوں کے قبضہ میں آیا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سبحستان سے کابل تک کا علاقہ فتح ہوا اور سوڈان کا پورا ملک اسلامی حکومت کے زیر نگیں آگیا۔
آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں علم و حکمت کی سرپرستی کی۔ تاریخ اسلام میں آپ کے دور تک فن تاریخ کے اوراق بالکل سادہ تھے۔ سب سے پہلے آپ نے اس زمانے کے ایک ممتاز اخباری عبید بن شریعہ سے تاریخ قدیم کی داستانیں سلاطین عجم کے حالات اور زبانوں کی ابتدا اور اس کے پھیلنے کی تاریخ لکھوائی۔ یہ مسلمانوں کی سب سے پہلی تاریخ کی کتاب تھی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بعثت نبوی سے پانچ سال قبل پیدا ہوئے ۔ آپ کا تعلق عرب کے مشہور معروف قبیلے قریش سے تھا۔ اس قبیلے کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اس میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا۔ آپ کے والد ماجد حضرت ابو سفیان جو اسلام لانے سے پہلے ہی قریش کے معزز سرداروں میں سے تھے۔ فتح مکہ کے دن اسلام لائے اور جن کے اسلام لانے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت خوشی ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص بھی ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوگا اسے امن دیا جائے گا۔‘‘ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بچپن ہی سے عزم کے پکے تھے۔ والدین نے آپ کی تربیت پر خصوصی توجہ دی تھی اور مختلف علوم و فنون میں آپ کو مہارت دلوائی تھی۔ اس دور میں جب عرب میں لکھنے پڑھنے کا بالکل رواج نہ تھا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار ان چند لوگوں میں ہوتا ہے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ ظاہری طور پر تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ کے دن اپنے والد ابو سفیان کے ہمراہ اسلام قبول کیا مگر درحقیقت آپ رضی اللہ عنہ اس سے پہلے ہی اسلام لے آئے تھے لیکن بعض مجبوریوں کی وجہ سے اسلام کو چھپائے رکھا اور فتح مکہ کے دن ظاہر کیا۔ خود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے اسلام کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’میں عمر القضا (صلح حدیبیہ) سے پہلے اسلام لے آیا تھا لیکن مدینہ جانے سے ڈرتا تھا۔ میری والدہ کہا کرتی تھیں کہ اگر تم گئے تو ضروری اخراجات زندگی دینا بھی ہم بند کردیں گے۔‘‘ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ بدر، احد، خندق اور حدیبیہ میں آپ رضی اللہ عنہ کفار کی طرف سے شریک نہیں ہوئے جبکہ آپ کے والد ابو سفیان سپہ سالار کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ آپ کی عمر کے نوجوان مسلمانوں کے خلاف بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسلام شروع ہی سے آپ کے دل میں تھا۔
آپ کا شمار اسی مقدس جماعت میں ہوتا ہے۔ جسے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابت وحی کے لیے مامور کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین وحی میں سب سے زیادہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر رہے پھر دوسرا درجہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا تھا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی اس خدمت کی وجہ سے کئی بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لیے دعا فرمائی۔ ایک بار پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لیے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! معاویہ کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنادیجئے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دیجئے۔‘‘ (ترمذی)
آپ کی سیرت میں بردباری اور حلم سب سے نمایاں ہیں۔ اپنی بردباری کے بارے میں خود آپ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: ’’جتنا مزہ مجھے غصے کے پی جانے میں آیا ہے وہ اور کسی چیز میں نہیں آتا۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’قریش کے اس نوجوان کی برائی مت کرو جو غصہ کے وقت ہنستا ہے ( یعنی انتہائی بردبار ہے) اور جو کچھ اس کے پاس ہے بغیر اس کی اجازت کے حاصل نہیں کیا جاسکتا ( یعنی انتہائی بہادر اور نڈر ہے)۔‘ ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی بھی آپ رضی اللہ عنہ سے بغیر کسی خوف کے ملتا اور آپ رضی اللہ عنہ سے ہر قسم کی فرمائش کردیتا۔ آپ رضی اللہ عنہ سے اگر ممکن ہوتا تو پورا کردیتے ورنہ ٹال دیتے۔
آپ رضی اللہ عنہ کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا عشق تھا۔ ایک مرتبہ آپ کو پتا چلا کہ بصرہ میں ایک شخص ہے۔ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے وہاں کے گورنر کو خط لکھا کہ تم فوراً اسے عزت و احترام کے ساتھ یہاں روانہ کرو۔ چنانچہ اسے عزت و احترام سے لایا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا۔ اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اس کو انعامات دے کر بھیجا۔ یہی عشق رسول تھا جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول و فعل کو دل و جان سے قبول کرتے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ’’میں نے نماز پڑھنے میں کسی کو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتنا مشابہہ نہیں پایا جتنے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہہ پایا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں۔ جن سے آپ کے اند فکر آخرت اور خوف خدا کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ قیامت کے عبرت آموز واقعات سن کر زار و قطار روتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ انتہائی سادگی پسند تھے اور سادگی کا یہ عالم تھا کہ یونس بن میسرہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو دمشق کے بازاروں میں دیکھا کہ آپ کے بدن پر پیوند لگی ہوئی قمیص تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ دمشق کے بازاروں میں چکر لگا رہے تھے مگر شام کی گورنری کے دوران آپ رضی اللہ عنہ نے ظاہری شان و شوکت بھی اختیار کی جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ شام ایک سرحدی علاقہ تھا اور آپ رضی اللہ عنہ چاہتے تھے کہ کفار کے دلوں پر مسلمانوں کی شان و شوکت کا دبدبہ قائم رہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں چار سال آپ رضی اللہ عنہ شام کے گورنر رہے۔ اس کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس عہدہ پر آپ کو باقی رکھا۔ آپ اکتالیس سال امیر رہے اور ایک بہترین عادل حکمران میں جو اوصاف ہوسکتے ہیں وہ آپ کی ذات میں موجود تھے۔ آپ کا دور حکومت ہر اعتبار سے کامیاب دور شمار کیا جاتا ہے۔ آپ نے رعایا کی بہترین دیکھ بھال کے لیے بہت سے اقدامات کیے۔ ڈاک کا جو محکمہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں قائم ہوچکا تھا۔ آپ نے اس کو مزید بہتر بنایا اور تمام ملک میں اس کا جال پھیلایا۔ اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ نے خانہ کعبہ کی خدمت کے لیے بھی بہت سے غلام مقرر کیے اور دیباو حریر کا بہترین غلاف خانہ کعبہ پر چڑھایا۔ آپ کی وفات ۶۰ ھ میں ہوئی جب آپ کی عمر اٹھتر ۷۸ برس تھی۔ آپ کی نماز جنازہ حضرت ضحاک بن قیس نے پڑھائی اور دمشق کے مقام پر وسط رجب ۶۰ ھ میں تدفین ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سو تریسٹھ احادیث مروی ہیں۔
*۔۔۔*