skip to Main Content

پتھر کے بت

اشتیاق احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک چور ایک امیر آدمی کے گھر کی دیوار پھاند کر اندر داخل ہوا۔ پورا گھر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ دبے پاﺅں آگے بڑھا۔ برآمدے تک ہی پہنچا ہوگا کہ اچانک گھر کے سارے بلب روشن ہوگئے، وہ بوکھلا گیا۔ واپس مڑ کر بھاگ جانا چاہتا تھا کہ مڑتے ہی خوف زدہ انداز میں رُک گیا۔ اس کے اور دروازے کے درمیان مالک مکان اپنے دو نوکروں کے ساتھ کھڑا تھا۔
دونوں نوکروں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں۔ وہ حیران رہ گیا۔ یہ کیسے ممکن تھا۔ انہیں اس کے اندر پھلانگتے ہی کیسے خبر ہوگئی اور وہ اتنی جلدی اس جگہ تک کس طرح پہنچ گئے؟
وہ ان سے ڈر کر دروازے کی بجائے گھر کے اندر کی طرف بھاگا، اس کے سامنے جو کمرہ آیا، اس کا دروازہ کھلا تھا، اس نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ، اس کمرے میں گھس گیا۔ اچانک اس کے کانوں سے ایک قہقہے کی آواز ٹکرائی۔ وہ گڑبڑا گیا۔ پہلا خیال یہی آیا کہ کہیں وہ آج کسی بھوت کے گھر میں تو نہیں پھنس گیا ہے؟ کمرے کا بلب روشن تھا۔ ایک آدمی چارپائی پر لیٹا ہوا تھا۔ وہ ایک کہنی کے بل اوپر کو اُٹھا ہوا تھا۔ اس کی نظریں اس پر تھیں۔ یہ دیکھ کر چور کی سٹی گم ہوگئی کہ اس کے دوسرے ہاتھ میں ایک پستول تھا جس کی نال کا رُخ اس کی طرف تھا۔ قہقہہ اس پستول والے آدمی نے لگایا تھا۔
”تم پھنس گئے دوست۔“ اس نے ہنس کر کہا۔ پھر بولا:”ایک تم ہی کیا، یہاں تو اچھے سے اچھے چور بھی پھنس جاتے ہیں۔“ وہ برابر ہنسے جارہا تھا اور چور ہکّا بکّا کھڑا تھا۔ سوچ رہا تھا، آج کہاں پھنس گیا ہے۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ اسے خاموش پا کر مالک مکان نے کہا:
”کیا بات ہے! تم چپ چپ ہو؟ بھئی ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ چور کبھی نہ کبھی تو پکڑا ہی جاتا ہے۔ سو آج تم پکڑے گئے۔ تم حیران ہورہے ہوگے اور سوچ رہے ہوگے کہ کیا میں اور میرے ملازم چوروں کے انتظار میں ساری رات جاگتے ہی رہتے ہیں؟ سنو! دروازے پر تم نے جس آدمی کو دو نوکروں کے ساتھ کھڑے دیکھا تھا اور جن کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں۔ وہ دراصل آدمی نہیں ہیں۔ پتھر کے بنے ہوئے بُت ہیں، لیکن اس خوب صورتی اور کاری گری سے بنائے گئے ہیں کہ غور سے دیکھنے کے بعد ہی پتا چلتا ہے کہ یہ اصل انسان نہیں ہیں۔ سارے گھر کے بلب اس طرح روشن ہوتے ہیں کہ میں نے برآمدے کے فرش کو اس طرح بنوایا ہے کہ جونہی کوئی اس پر قدم رکھتا ہے۔ سارے بلب جل جاتے ہیں، چور گھبرا جاتا ہے، گھبرا کر واپس مڑتا اور بھاگ جانا چاہتا ہے، لیکن اُسے تین آدمی نظر آتے ہیں جن میں سے دو کے ہاتھوں میں لاٹھیاں ہیں تو وہ اور بھی گڑبڑا جاتا ہے اور باہر کی بجائے اندر کی طرف دوڑا آتا ہے۔ ادھر بلب جلنے کے ساتھ ہی میرے سرہانے رکھا ہوا الارم بج اُٹھتا ہے، لیکن اس الارم کی آواز صرف میرے کانوں میں آتی ہے، کوئی دوسرااس کی آواز نہیں سنتا۔ تم میرے کان میں لگے ہوئے آلے کو دیکھ ہی رہے ہو۔ الارم کی آواز اس آلے کے ذریعے ہی میرے کان میں آتی ہے۔ چنانچہ میں اُٹھ جاتا ہوں اور چور کے استقبال کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہوں۔“
یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔ اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی۔ چور کچھ بھی نہ کہہ سکا۔ وہ تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس شہر کے کسی گھر میں اس قدر زبردست انتظام بھی ہوسکتا ہے۔ اس نے سوچا۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ آدمی ضرورت سے کچھ زیادہ ہی دولت مند ہے۔ ابھی وہ یہ بات سوچ ہی پایا تھا کہ مالک مکان پھر بولا:
”اب تم یہ سوچ رہے ہوگے کہ میں بہت دولت مند ہوں۔ ہاں! یہ ٹھیک ہے۔ خدا نے مجھے بہت دولت دی ہے، لیکن اس نے اپنی مہربانی سے دولت دینے کے ساتھ ساتھ مجھے عقل کی دولت بھی دی ہے۔ میں نے اس عقل سے کام لے کر یہ سارا انتظام کیا ہے۔ یوں بھی میں خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہوں اور جو آدمی خدا کی راہ میں خرچ کرتا رہے، اس کی دولت کو چرایا نہیں جاسکتا۔ اب تم بتاﺅ۔ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں؟“ وہ یہ کہہ کر پھر چپ ہوگیا۔
”میں! میں! میں۔“ چور ہکلا کر رہ گیا۔ کہہ بھی کیا سکتا تھا۔ اس کا تو وہی حال تھا، کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔
”خیر! تم کیا کہو گے۔ میں بتاتا ہوں۔ سنو! اگر تم زندگی بھر کے لیے چوری سے توبہ کر لو تو میں تمہیں ضروریات کے لیے کچھ پیسے بھی دوں گا، تاکہ تم کوئی چھوٹا موٹا کام کر کے اپنا گزارا کر سکو۔“
”ٹھیک ہے! اب میں کبھی چوری نہیں کروں گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔“
”اور اگر تم نے پھر چوری کرنے کی کوشش کی تو؟“
”تو آپ مجھے پولیس کے حوالے کر دیں۔“ چور نے خوش ہو کر کہا۔
”ٹھیک ہے، یا د رکھو، شہر میں کہیں بھی چوری نہ کرنا۔ ورنہ میں نے تمہیں دیکھ تو لیا ہی ہے۔ میرے آدمی تمہیں ڈھونڈ نکالیں گے۔“
”ٹھیک ہے جناب! آپ سے کوئی کام کرنے کے لیے جب رقم مل جائے گی تو پھر چوری کرنے کی ضرورت ہی کیا رہ جائے گی؟“
”ٹھیک ہے! میں تمہیں پچاس ہزار روپے دیتا ہوں۔ تم ان سے کوئی بھی کام شروع کر ڈالو۔ اللہ مدد کرے گا۔“
یہ کہہ کر اس نے اپنے سرہانے کی دیوار میں لگی الماری کا دروازہ کھولا۔ الماری کو تالا نہیں لگا ہوا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس قدر شان دار انتظام کرنے والے کو تالا لگانے کی ضرورت بھی کیا تھی۔ دروازہ کھولنے کے بعد اس نے ایک دراز کھینچی، اس میں سے نوٹوں کی ایک گڈی نکالی اور چور کی طرف اچھال دی۔ چور نے آگے بڑھ کر اسے دبوچ لیا۔ اس وقت اس کی نظر دراز میں پڑی۔ اس میں نوٹوں کی گڈیوں کے علاوہ ہیرے جواہرات بھی رکھے تھے۔ ان کی چمک سے اس کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔
”اگر پیسوں کی پھر ضرورت پڑ جائے تو تمہیں چوروں کی طرح آنے کی ضرورت نہیں۔ دن کی روشنی میں آجانا۔ تمہاری ضرورت پوری کر دی جائے گی۔“
”بہت بہت شکریہ جناب!“ چور نے خوش ہو کر کہا۔
”اب تم جاسکتے ہو! دیوار پھاندنے کی کوشش نہ کرنا۔ دروازہ کھول کر باہر نکل جانا۔“
”جی اچھا!“
یہ کہہ کر چور کمرے سے باہر نکل گیا۔ اس کا دل خوشی سے اچھل رہا تھا۔مفت میں پچاس ہزار روپے مل گئے تھے۔ گھرسے باہر نکلتے ہوئے اُسے دراز میں رکھے جواہرات کا خیال آیا، اس نے سوچا، اب وہ اس گھر کے اندر سے واقف تو ہو ہی چکا ہے۔ آسانی سے ان جواہرات کو چرا سکتا ہے، اس خیال کے آتے ہی وہ خوش ہوگیا، پھر سوچا، اس نے تو پھر کبھی چوری نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
”ہُنہ! کیسا وعدہ! میں ایک چور ہوں اور چوری کرنا میرا پیشہ ہے۔ میں چوری ضرور کروں گا اور اسی گھر میں کروں گا۔ میں دیکھوں گا۔ وہ کس قدر عقل مند ہے۔“ اس نے دل ہی دل میں کہا۔
دوسری رات کو وہ پھر دیوار پھاند کر مکان میں داخل ہوا۔ وہ جانتا تھا، جونہی وہ برآمدے میں قدم رکھے گا، تمام بلب جل اٹھیں گے اور مالک مکان کے کان میں الارم بج اُٹھے گا۔ اس لیے اس نے برآمدے کا رُخ نہ کیا، بلکہ ایک چکرکاٹ کر مالک مکان کے کمرے کی پچھلی طرف آیا۔ یہاں کمرے میں کھڑکیاں موجود تھیں جن میں سلاخیں بھی نہیں تھیں۔ وہ ان کھڑکیوں کو پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔
کھڑکی پھلانگ کر اندر داخل ہونا بھلا کیا مشکل ہے۔ پھر دبے پاﺅں الماری کی طرف بڑھا اور ہینڈل پکڑ کر کھینچا۔ دروازہ کھلتا چلتا گیا۔ الماری کے ساتھ ہی اندھیرے میں اُسے مالک مکان سوتا نظر آرہا تھا اور وہ دل ہی دل میں خوش ہورہا تھا کہ کس قدر بے وقوف آدمی ہے۔ اپنے انتظام پر اتنا مغرور ہے کہ الماری کو تالا لگانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا اور نہ کھڑکیوں میں سلاخیں لگوائی ہیں۔
یہ سوچتے ہوئے اس نے دراز کھینچی اور اندھیرے میں ہی اس میں سے ہیرے جواہرات نکال کر جیبوں میں بھرنے لگا۔ جب دراز خالی ہوگئی تو وہ مڑا اور کھڑکی کے ذریعے باہر نکل آیا، اب اس کا رُخ دروازے کی طرف تھا۔ پتھر کے تین انسان پہرے داروں کی طرح کھڑے تھے اور جن میں سے دو کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں۔
اسے بھلا ان سے کیا ڈر ہوسکتا تھا۔ وہ تو پتھر کے بُت تھے۔ وہ بے خطر ان کے نیچے سے گزرنے لگا، لیکن اچانک اس کے منہ سے ایک بلند اور بھیانک چیخ نکلی، اس کے سر پر دو لاٹھیاں ایک ساتھ لگی تھیں۔ دوسرے ہی لمحے وہ بے ہوش ہوچکا تھا۔
اسے ہوش آیا تو وہ ایک چارپائی پر لیٹا تھا اور مالک مکان اس پر جھکا ہوا تھا۔ اُسے ہوش میں آتے دیکھ کر ا س نے سنجید ہ لہجے میں کہا:
”کیوں بھئی! کیا پچاس ہزار روپے اتنی جلدی ختم ہوگئے تھے اور میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ ختم ہوجائیں تو آکر اور لے لینا، لیکن تم چوری سے باز نہ آئے، دراز میں ہیرے دیکھ کر تم بدنیت ہوگئے اور دوبارہ چوری کرنے یہاں آگئے، لیکن تم یہ بھول گئے کہ خدا نے مجھے دولت کے ساتھ عقل بھی عطا کی ہے۔ پتھر کے یہ انسان بھی حرکت کر سکتے ہیں، تم شاید سوچ بھی نہیں سکتے تھے لیکن، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ جب کوئی شخص ان کے نیچے سے گزرتا ہے تو دونوں لاٹھیاں اس کے سر پر پڑتی ہیں۔ کل یہ لاٹھیاں تمہارے سر پر اس لیے نہیں پڑی تھیں کہ میں نے ایک بٹن دبا دیا تھا۔ اس بٹن کے دبانے کے بعد یہ بُت حرکت نہیں کر سکتے اور اب میں تمہیں پولیس کے حوالے کر رہا ہوں۔“
”نہیں! نہیں! خدا کے لیے ایسا نہ کریں۔“ چور نے چلا کر کہا۔
”کیوں نہ ایسا کروں۔ کل ہمارے درمیان کیا یہ بات طے نہیں ہوئی تھی۔“
”ہاں ہوئی تھی۔ میں بہت بُرا ہوں، میں نے بڑی بھاری غلطی کی ہے، لیکن آپ تو بہت مہربان آدمی ہیں۔ مجھے ایک بار اور معاف کر دیں۔ میں آئندہ زندگی بھر کبھی چوری نہیں کروں گا۔“
”نہیں دوست! یہ نہیں ہوسکتا۔ سنو! ایک حدیث ہے کہ مسلمان ایک ہی سوراخ سے دو بار نہیں کاٹا جاتا۔ میں ایک بار کاٹا جاچکا ہوں۔ دوسری بار نہیں کاٹا جاﺅں گا۔ تمہیں معاف کرنا، لوگوں کے گھروں میں چوری کرنے کے برابر ہوگا۔ میں تمہاری ایک نہیں سنوںگا۔“
یہ کہہ کر مالک مکان پولیس کو فون کرنے لگا۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top