پرکار کا زخم
اعظم طارق کوہستانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ظفر ٹاون سے قذافی ٹاون ایک انتہائی ضروری کام سے جارہا تھا۔ قذافی ٹاون نزدیک تھا اس لیے پیدل ہی رواں دواں ہوگیا۔ میرا ذہن اس کام میں ایسے اٹکا ہوا تھا کہ ایک آدمی سے زوردار ٹکر لگ گئی۔۔۔ وہ ستائیس سال کا نوجوان تھا۔ جس کی آنکھوں پر چشمہ اور چہرے پر گھنی داڑھی تھی۔ اس کے چہرے پر ایسی غضب کی مسکراہٹ تھی کہ کندھے میں شدید درد محسوس ہونے کے باوجود میرا غصہ کافور ہوگیا۔ ’’معاف کیجیے گا‘‘ کہہ کر وہ شخص مڑنے کو تھا کہ اس نے مجھے غور سے گھورنا شروع کیا۔ اس کی نگاہیں میرے ماتھے پر لگے چوٹ کے نشان پر جمی ہوئی تھیں۔ قبل اس کے کہ میں اس کے گھورنے کی وجہ دریافت کرتا اْس نے زوردار انداز سے مجھے گلے لگایا۔ ’’معاف کیجیے گا حضور۔۔۔ میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔‘‘ میں نے حیرت اور ناگواری سے پوچھا۔
’’ہاں واقعی، یہ داڑھی میری پہچان میں رکاوٹ بن رہی ہے۔۔۔ لیکن بہت جلد تم جان جاؤگے۔۔۔ آؤ چاے پی لیتے ہیں۔‘‘ وہ میری حیرت کو یکسر نظرانداز کرتا ہوا مجھے قریبی ہوٹل میں لے گیا۔ مجھے دیر بھی ہورہی تھی لیکن اپنی حیرت اور تجسس کو ختم کرنے کے لیے طوہاً و کرہاً اس کے ساتھ آگیا۔
’’سلطان پور۔۔۔ راہول۔۔۔ کرشنا۔۔۔ کچھ یاد آیا؟‘‘ اس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’سلطان پور۔۔۔ راہول۔۔۔‘‘ میں بڑبڑایا اور دوسرے ہی لمحے اسے پہچان کر حیرت کے مارے کرسی سے اسپرنگ کی طرح اچھلا اور ایک بار پھر اس اجنبی سے گلے لگ گیا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ ہم یوں دوبارہ ملیں گے۔ میرے ذہن کے نہاں خانوں میں ماضی کے اوراق بڑی سبک رفتاری کے ساتھ کھلتے جارہے تھے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
یہ اْن دنوں کی بات تھی جب میں نویں کا امتحان دے چکا تھا کہ والد صاحب کا ٹرانسفر سلطان پور نامی گاؤں میں ہوا۔ ٹرانسفر ہونے کی مشکلات پر والد صاحب نے کبھی اپنے افسران سے محتاجی کا اظہار نہیں کیا۔ انہوں نے پہلی فرصت میں میرے اسکول کا تبادلہ کروایا اور اس سے اگلے دن ہم لوگ سامان وغیرہ باندھ کر ’’سلطان پور‘‘ روانہ ہوگئے۔ میں والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ سلطان پور گاؤں ایک ہزار مکانات پر مشتمل تھا۔ اس گاؤں میں ہندووں کی بھی ایک کثیر تعداد تھی۔ مجھے ایک اسکول میں داخل کرایا گیا جو کہ میٹرک تک تعلیم دیتا تھا۔ اس اسکول میں آنے کے بعد مجھ پر کئی راز افشا ہوئے‘ ایک تو یہ کہ میں خود کو بڑا تیس مار خان سمجھتا تھا لیکن یہاں مجھ سے بھی ذہین بچے موجود تھے۔ دوسرا یہ کہ یہ ذہین بچے اکثریت میں ہندو تھے۔ ہندو لڑکوں کا باقاعدہ گروپ قائم تھا جس کے مرکزی لیڈر راہول اور کرشنا تھے۔ اس گروپ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں کوئی مسلمان بچہ شامل نہیں ہوسکتا تھا۔ دوسرا یہ کٹر ہندو کہلاتے تھے جو گاے کے گوشت سے لے کر پیاز تک کھانے کو پاپ (گناہ) سمجھتے تھے۔ یہ لوگ کھیلتے اور پڑھتے بھی ساتھ تھے۔ جسم بھی ان کے کافی مضبوط اور توانا تھے۔ اس لیے مسلمان بچے پڑھائی کے علاوہ لڑائی میں بھی ان سے الجھنے سے احتراز برتتے تھے۔
ایک دن میں اسکول کے میدان میں بینچ پر بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا کہ راہول اور کرشنا اپنے گروپ کے ہمراہ چہل قدمی کرتے ہوئے بینچ کے ساتھ کھڑے ہوکر باتیں کرنے لگے۔ ’’یار کرشنا! مجھے تو یہ سوچ کر ہی کراہیت آتی ہے کہ انسان ایک معصوم جانور جس کے چہرے سے معصومیت ٹپکتی ہے‘ اسے باندھ کر اپنے ہاتھوں سے۔۔۔ انتہائی بے دردی سے قتل کرکے اسے آگ میں پکاتا ہے اور پھر اسے ۔۔۔۔۔۔کی طرح کھا جاتا ہے۔‘‘ یہ لوگ مجھے سنانا چاہ رہے تھے۔
’’آخ تھو! یار یہ گوشت کھانے کی باتیں مت کیا کرو۔۔۔ معلوم نہیں یہ مسلمان لوگ گوشت کو کھا کیسے لیتے ہیں۔‘‘ یہ کرشنا تھا۔
’’بالکل کتوں کی طرح‘‘۔ یہ بھگوان داس تھا جس کی بات سن کر سب ہنسنے لگے جب کہ میں تڑپ کر رہ گیا۔
’’تم لوگوں کو کیا تکلیف ہے‘ اگر ہم گاے کا گوشت کھاتے ہیں تو۔۔۔ ہمارے مذہب نے اس کی اجازت دے رکھی ہے‘‘۔ میں چلاّ کر بولا۔
’’تم سے کسی نے بات کی ہے؟‘‘ راہول اپنی افرادی قوت کو دیکھ کر اکڑنے لگا۔ ’’چلو بھائی۔۔۔! چھوڑو اسی۔۔۔ ویسے بھی اسلام خونخواروں کا مذہب ہے۔‘‘ وہ میری بات پر قہقہہ لگاتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
ڈنمارک میں جب ایک ملعون نے انسانوں کے عظیم محسن، محسنِ انسانیت کے گستاخانہ خاکے شائع کیے تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسلمان سراپا احتجاج بن گئے۔ پورے ملک میں احتجاج ہورہا تھا۔ اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے ہمیں بھی خبریں مل رہی تھیں۔
اس دوران میں نے راہول اور کرشنا کے مقابلے میں مسلمان بچوں کو متحرک کیا۔ جو لڑکے پڑھائی میں کمزور تھے انہیں کمبائن اسٹڈی کے لیے راضی کیا اور ایک دو ماہ کے اندر اندر ان کا رزلٹ پڑھائی میں انتہائی شاندار ہوگیا تھا۔۔۔ مزہ تو تب آیا جب بورڈ کے پیپرز سے پہلے اسکول میں ہونے والے پیپرز میں، میں نے اوّل پوزیشن حاصل کی۔ راہول کی پوزیشن پر قبضہ کرلینا کوئی آسان کام نہ تھا۔۔۔ اساتذہ اب مجھ پر زیادہ توجہ دیتے اور پھر جب عامر چیمہ شہید نے گستاخِ رسول پر قاتلانہ حملہ کرکے اسے زخمی کردیا تو گاؤں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ البتہ اسکول میں ہندوؤں کا وہ ٹولہ اب ناخوش نظر آتا تھا۔
کلاس میں سر عبدالرحمن کے نہ آنے کی وجہ سے پیریڈ خالی تھا۔ لڑکے عامر چیمہ کی بہادری کے قصے سناکر خوش ہورہے تھے کہ میرے کانوں میں راہول کی آواز ٹکرائی۔۔۔ ’’شدت پسند۔۔۔ اجڈ، جاہل۔۔۔ گنوار اپنی اس حرکت پر یہ لوگ کیسے خوش ہورہے ہیں۔۔۔ شرم سے ڈوب مرنا چاہیے، دنیا چاند پر پہنچ گئی اور انہیں اس بات کا قلق ہے کہ ان کے نبی کا کارٹون بنایا گیا ہے۔‘‘ راہول نے طنز و تشنیع کے تیر برسانے شروع کردیے۔
’’انہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ ایک مشہور آرٹسٹ نے ان کے نبی کی تصویر بنائی‘ لیکن یہ لوگ جنگلیوں کی طرح اس معصوم انسان پر جھپٹ پڑے اور اسے لہولہان کردیا۔‘‘ کرشنا نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔
’’یار ایک کارٹون ہی تو تھا۔۔۔ جس پر اتنا واویلا مچایا جارہا ہے‘‘۔ راہول نے نخوت سے کہا۔ ’’اب بس کرو‘ ہمارے صبر کا امتحان مت لو۔‘‘ صابر نے حتی الامکان اپنے لہجے کو نرم بنانے کی کوشش کی‘ لیکن اس کے لہجے میں غراہٹ نمایاں تھی۔
’’اب واقعی کسی نے ایک لفظ بھی پھوٹا تو اچھا نہیں ہوگا۔‘‘ میرے بولنے سے پہلے ’’وکی‘‘ بول پڑا۔ وکی ہندو تھا اور کرشنا کا بھائی۔۔۔ لیکن وہ میرا گہرا دوست تھا اور راہول اور کرشنا کا سخت مخالف۔
’’تمہیں کیوں آگ لگی ہوئی ہے۔‘‘ کرشنا نے وکی کو برستے ہوئے دیکھا تو حیرت سے کہا۔ ’’جب وہ ہمارے بھگوان کا مذاق نہیں اڑاتے تو تمہیں بھی کوئی حق نہیں کہ ان کے مذہبی جذبات کو چھیڑو۔‘‘ وکی نے چیخ کر جواب دیا۔
’’وکی تم خاموش ہوکر بیٹھ جاؤ۔۔۔ ہم نہیں چاہتے کہ ان مْسلّوں کی وجہ سے ہم اپنے کسی ساتھی پر ہاتھ اٹھائیں۔‘‘ راہول نے وکی کو دھمکاتے ہوئے کہا۔
’’اگر تم لوگوں نے انہیں ہاتھ لگایا تو پھر میں دیکھتا ہوں تم لوگوں کو۔‘‘ وکی بھی اپنے بھائی کی طرح گرانڈیل جسم کا مالک تھا۔ راہول غصے سے اپنی جگہ سے اٹھنے ہی والا تھا کہ کرشنا نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر روک لیا۔
’’چلو راہول۔۔۔ اور تم لوگ بھی آو۔‘‘ کرشنا نے راہول اور اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرکے کہا۔ ان کے جانے کے بعد عمران نے دانت پیستے ہوئے کہا: ’’اس راہول کے بچے کو سبق سکھانا ہوگا‘‘۔
’’ہاں اور اس کرشنا کو بھی۔‘‘ صابر نے وکی کو دیکھتے ہوئے کہا تو وکی نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔ جب کہ میں کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہ رہا تھا کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اگر ہم براہِ راست راہول اور کرشنا کی پٹائی لگاتے تو اس سے ہمیں فائدہ ہونے کے بجاے نقصان ہوتا کیونکہ وہ لوگ اسلام کے حوالے سے اپنی شدت پسندی میں مزید اضافہ کردیتے۔ بالآخر میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور میں نے کل ہی اس پر عمل درآمد کا سوچ لیا۔۔۔ لیکن ہوتا وہ نہیں جو انسان سوچتا ہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
راہول دوسرے دن جیسے ہی کلاس میں داخل ہوا کلاس میں سب بچوں کو ہنستے ہوئے دیکھا اور لڑکوں کی نظر جب اس پر پڑی تو وہ اور زور سے ہنسنے لگے۔ اسمبلی کی بیل بجنے میں ابھی کافی وقت تھا۔ راہول کی نظر بلیک بورڈ پر پڑی تو وہ ہنسنے کا مفہوم سمجھ گیا۔ بلیک بورڈ پر گیلے چاک سے کسی نے ایک مضحکہ خیز قسم کی تصویر بنائی تھی جس کے ماتھے پر راہول کے ابو ’’رام داس‘‘ کا نام لکھا ہوا تھا۔ ’’دیکھ راہول! کسی نے تیرے پتا جی کی تصویر بنائی ہے۔‘‘ یہ فہد تھا۔
’’واہ کیا تصویر ہے۔‘‘ مصطفی بھی چہکا۔
’’کس نے بنائی ہے یہ تصویر؟‘‘ راہول زور سے گرجا۔۔۔ غصے کے مارے اس کا جسم کانپنے لگا۔۔۔ اس نے ڈسٹر ڈھونڈنے کی کوشش کی جو کہ اسے نہ ملنا تھا نہ ملا۔ وہ مزید جھنجھلا گیا اور اپنی کاپی سے صفحہ پھاڑ کر بلیک بورڈ پر جھپٹا اور تصویر مٹانے لگا۔ اس کے غصے کو دیکھتے ہوئے سب کی ہنسی کو بریک لگ گئے۔ تصویر گیلے چاک سے بنائی گئی تھی اس لیے باوجود کوشش کے مٹ نہ سکی۔ وہ غصے سے پھنکارتا ہوا سب کو گھورتے ہوئے بولا: ’’میں پوچھتا ہوں یہ تصویر کس نے بنائی ہے؟‘‘
’’عثمان نے بنائی ہے۔‘‘ کسی نے ہانک لگائی۔ نام لینے کی دیر تھی کہ راہول منھ سے جھاگ اڑاتا ہوا میری جانب بڑھا اور مجھے گریبان سے پکڑلیا: ’’تیری جرأت کیسے ہوئی میرے پتا جی کا مذاق اڑانے کی۔‘‘
میں نے اس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ جمائے اور پرسکون لہجے میں کہا: ’’کچھ زیادہ پیار ہے تمہیں اپنے پتا جی سے‘‘۔
’’تمہاری سوچ سے بھی زیادہ۔۔۔‘‘ وہ گالی دے کر چلاّیا۔ ’’پھر تو میں یہ تصویر روز بناؤں گا۔‘‘ میں نے بھی غصے سے جواب دیا۔ راہول تو جیسے غصے سے پاگل ہوگیا۔ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر نجانے کس وقت ’’پرکار‘‘ نکال لیا تھا اور دوسرے لمحے اس نے آو دیکھا نہ تاؤ میرے پیٹ میں پوری قوت سے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے پرکار گھونپ دیا۔ ایسا لگا کہ کسی نے پیٹ میں بم پھاڑ دیا ہو۔ درد سے میں دوہرا ہوگیا۔ اس صورت حال میں بھی میں نے راہول کی ناک پر مْکّا جمانے کی کوشش کی لیکن تکلیف کے سبب مْکّا ہوا میں ہی گھوم کر رہ گیا۔ اس نے اسی پر بس نہیں کیا‘ پرکار نکال کر دوبارہ میری آنکھ میں مارنا چاہا۔۔۔ پیچھے کھڑا مصطفی مجھے کھینچ نہ لیتا تو شاید میں زندگی بھر دیکھ نہ سکتا‘ لیکن پرکار میرے ماتھے کو چیرتا ہوا نکل گیا۔ اس وقت سارے لڑکوں نے راہول کے ہاتھ پکڑ کر پرکار چھین لیا۔ اس سے آگے میں کچھ نہیں دیکھ سکا اور کسی شہتیر کی مانند زمین پر آرہا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
جب میری آنکھ کھلی تو میں لاہور کے ایک بڑے اسپتال میں زیر علاج تھا۔ گاوں کے کلینک میں صرف مرہم پٹی کی گئی تھی۔ ڈاکٹر نے فوراً لاہور لے جانے کا مشورہ دیا تھا۔ خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے مجھے دو دن بعد ہوش آیا۔ مجھے اپنی امی کے ذریعے پتا چلا کہ راہول کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ چار دن بعد ڈاکٹر نے مجھے گھر جانے کی اجازت دے دی لیکن میرا اصرار یہ تھا کہ جب تک راہول کو رہا کرکے گھر نہیں بھیجا جائے گا میں نہیں جاؤں گا۔ مجھے منانے کی کافی کوشش کی گئی لیکن میں نہ مانا، بالآخر ابو نے تھوڑی سی کوشش کے بعد راہول کو رہا کروادیا۔ میں بھی گھر آگیا اور ایک ہفتے بعد اسکول جانا شروع کردیا۔ پہلے دن ہی پرنسپل نے مجھے اور راہول کو بلایا۔۔۔ شاید وہ ہماری صلح کرانا چاہتے تھے۔ راہول کو اپنے کیے پر ذرا بھی شرمندگی نہ تھی بلکہ وہ اس پر فخر کیا کرتا تھا کہ اس نے اپنے پتا جی کے گستاخ کو سبق سکھا دیا۔ تمام اساتذہ کی موجودگی میں پرنسپل نے مجھے اور راہول کو مسکرا کر دیکھا اور مجھ سے مخاطب ہوئے: ’’تم نے ان کے والد کی تصویر کیوں بنائی تھی جب کہ تم سمجھتے تھے کہ اس سے حالات کشیدہ ہوسکتے ہیں؟‘‘
’’جی سر میں آج تمام ٹیچرز کے سامنے اس بات کی بھی وضاحت کردوں گا۔‘‘
میں نے اپنی سانسوں کو درست کرتے ہوئے کہا۔ ’’سر! آپ کو معلوم ہوگا کہ پچھلے دنوں ڈنمارک میں ایک گستاخ نے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے کارٹون بنائے تھے۔ راہول اپنے گروپ کے ساتھ اس بات پر ہم سے الجھ پڑا کہ صرف ایک کارٹون کے بنانے پر انہوں نے ایک معصوم شخص کو خنجر مار کر لہولہان کردیا اور اس پر یہ لوگ خوش بھی ہورہے ہیں۔‘‘ میرے لہجے میں اچانک ایسا اعتماد آیا جو میں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ راہول کا چہرہ اب بھی سپاٹ تھا۔
’’پھر میں نے جب جان بوجھ کر ان کے والد کا کارٹون بنایا تو یہ اپنے پتا جی سے اتنا پیار کرتے تھے کہ برداشت نہ کرسکے اور ایک بھی نہیں بلکہ دو دفعہ ’’پرکار‘‘ کا وار کیا۔۔۔ اگر خدانخواستہ ان کے ہاتھ میں خنجر ہوتا تو یہ مجھے وہ بھی مار چکے ہوتے۔۔۔ میں راہول سے پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے راہول کو مخاطب کیا۔ ’’جب آپ اپنے پتاجی کے ایک کارٹون کو برداشت نہ کرسکے تو پھر ہم سے کیوں یہ امید رکھ رہے تھے کہ ہم جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی جان سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں، اس کی شان میں معمولی گستاخی بھی برداشت کریں گے۔۔۔ ہرگز نہیں! مسٹر راہول ہم ہر چیز پر کمپرومائز کرسکتے ہیں لیکن۔۔۔ جس طرح تم اپنے پتاجی کے معاملے میں کوئی کمپرومائز نہ کرسکے اس سے کہیں زیادہ ہم اس معاملے میں کسی قسم کا کمپرومائز نہیں کرسکتے۔۔۔‘‘
میں نے ایک گہرا سانس خارج کیا اور کہا: ’’اس لیے غازی عبدالرشید سے لے کر عامر چیمہ شہید تک لاکھوں فرزندانِ توحید محسن انسانیت کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو عبرت ناک سزا دیں گے۔‘‘ میں یہ کہتا ہوا تیزی کے ساتھ اسٹاف روم سے باہر نکل گیا۔ سارے ٹیچرز اور پرنسپل مسلمان تھے لیکن میرے اس انداز پر ہکا بکا رہ گئے۔ جبکہ راہول کے چہرے پر وہ عظیم شرمندگی تھی جس نے شاید مجھے میرے مقصد میں کامیاب کردیا تھا۔ اس کے بعد راہول سے نہ تو میں نے بات کرنے کی کوشش کی نہ وہ پہل کرسکا۔ میٹرک کرنے کے بعد والد صاحب کا کراچی میں ٹرانسفر ہوگیا اور ہم ہمیشہ کے لیے کراچی آگئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج برسوں بعد چہرے پر داڑھی سجائے راہول کو دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ ’’یار میں تو اسی وقت مسلمان ہوگیا تھا جب پرنسپل کے کمرے میں تم نے وہ پْراثر تقریر کی تھی۔ بعد میں تعلیم کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرتا رہا اور بالآخر ۲۰۰۹ء میں اسلام کی آغوش میں سماگیا۔‘‘ راہول نے کہا جو، اب ’’راحیل‘‘ بن چکا تھا۔
’’اچھا۔۔۔ لیکن تم نے مجھے پہچانا کیسے؟‘‘ میں نے پوچھ تو لیا لیکن بعد میں شرمندہ بھی ہوا کہ یہ سامنے کی بات کیوں سمجھ نہیں آئی۔
’’تمہارے ماتھے پر زخم کے نشان کی وجہ سے۔‘‘
’’یعنی تمہارے پرکار سے لگائے ہوئے زخم نے ہمیں ملانے میں کردار ادا کیا۔‘‘ میں نے چاے کی چسکی لیتے ہوئے کہا تو راحیل شرمندہ سا ہنس پڑا۔
’’اور کرشنا کا کیا ہوا؟‘‘ میں نے اس کی خفت مٹانے کی غرض سے پوچھا۔ ’’وہ دونوں بھائی بھی مسلمان ہوگئے ہیں۔۔۔ گھر والوں کے مظالم سے تنگ آکر وہ لوگ سعودی عرب چلے گئے۔۔۔ ہمیشہ کے لیے۔۔۔‘‘ راحیل نے جواب دیا۔
’’ویسے اسلام لانے کے بعد کیسا محسوس کرتے ہو؟‘‘ راحیل نے ایک سکون بھرا سانس لیا اور کہا ’’اگر دنیا جہاں کی دولت و شہرت بھی میرے پاس ہوتی تو شاید میں خوش رہ نہ پاتا لیکن اب اتنا سکون میسر ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اپنی پہلی زندگی کے بارے میں سوچتا ہوں تو جی چاہتا ہے کہ حسرت کے مارے اپنا ہاتھ چبا جاؤں۔ دن میں سو بار افسوس کرتا ہوں کہ اسلام پہلے کیوں قبول نہ کیا۔‘‘اس کی یہ بات سن کر مجھے اپنے مسلمان ہونے پر فخر کا احساس ہوا۔
*۔۔۔*۔۔۔*