پانی والی مسجد
غلام مصطفیٰ سولنگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صوبہ سندھ میں سیکڑوں قدیم، تاریخی اور نرالی مساجد موجود ہیں۔ ایک بہت ہی منفرد مسجد، پانی والی مسجد، بھی سندھ کی تاریخی مساجد میں شمار کی جاتی ہے اور جس کے متعلق بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔
یہ خوب صورت مسجد تحصیل گڑھی یاسین، ضلع شکار پور کے قدیم اور تاریخی گاؤں امروٹ شریف کے جنوب میں دو کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔ کھیر تھر کینال کے بیچ میں موجود پانی والی مسجد، جہاں سے تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان کو وہ طاقتور بنیاد یں فراہم ہوئیں جہاں علم و عرفان اور دانش مندی کے وہ ستارے اُبھرے، جنھوں نے آگے چل کر پاکستان کے نظریاتی سرحدوں کی پاسبانی کی۔ تحریک پاکستان کے حوالے سے شمالی سندھ میں ایک سیاسی قوت کے مرکز کے طور پر شہرت رکھنے والی اس پانی والی مسجد کی بھی ایک الگ ہی کہانی ہے۔
۱۹۲۳ء کی بات ہے، جب سکھر بیراج اور کینال پراجیکٹ کا کام برطانیہ سرکار کی نگرانی میں شروع ہوا۔ بلوچستان کو آب پاشی کا پانی پہنچانے کے مقصد سے جب سکھر کے قریب سے کھیر تھر کینال کی کھدائی شروع ہوئی تو یہ چھوٹی سی مسجد بھی کھیر تھر کینال کے بیچ میں آرہی تھی۔ لہٰذا انگریز سرکار نے اس مسجد کو شہید کرنے کا قطعی فیصلہ کرلیا۔
بیسویں صدی کے ایک بے مثال عالم اور اﷲ کے ولی حضرت مولانا تاج محمود امروٹی نے انگریز سرکار کو مشورہ دیا کہ کینال کا رخ تبدیل کیا جائے اور مسجد کو شہید ہونے سے بچایا جائے لیکن انگریز عملدار مسجد کو شہید کرنے پر بضد تھے۔
مولانا امروٹی نے تحصیلدار، کلیکٹر اور انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے افسران کو کئی ایک درخواستیں لکھیں، لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔ نتیجتاً مولانا صاحب نے انگریز سامراج سے مقابلہ کرنے اور ان سے آزادی حاصل کرنے کا اعلان کر دیا۔ ہزاروں لوگ جمع ہو گئے اور ایک ایسی دینی، سیاسی اور مزاحمتی تحریک شروع ہو گئی ، جس نے برصغیر میں موجود انگریز سرکار کی بنیادیں ہلا دیں۔
مولانا صاحب نے مسجد کی حفاظت کے لیے سیکڑوں لوگوں کے گروہ مقرر کیے، جو الگ الگ اوقات میں مسجد کا پہرہ دینے لگے۔ مولانا صاحب کا کہنا تھا کہ انگریزوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ پورے برصغیر میں لوگوں کو مذہبی آزادی ہوگی اور عبادت گاہوں کو سلامتی ہوگی۔ تو پھر یہ وعدہ خلافی کیوں ہے؟ اس طرح مولانا تاج محمود امروٹی کے سینہ سپر ہوجانے سے اس مسجد کو شہید کرنے کا فیصلہ ترک کردیا گیا۔ یوں کھیرتھر کینال کو مسجد کے دونوں اطراف سے گزارا گیا اور مسجد پانی کے بیچ میں آگئی۔ اس لیے اس مسجد کو پانی والی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔
پانی والی مسجد قدرت کا ایک عجیب نظارہ ہے اور یہ وہ نرالی تاریخی یادگار ہے، جس کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی۔