skip to Main Content

پچھتاوا

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔

مسعود کمرے کے دروازے پر پہنچ کر ایک لمحے کے لیے رکا۔ دروازے کے باہر اے ایس صدیقی چیف ایگزیکٹیو، سرخ حرفوں میں لکھا ہوا تھا۔ اس نے ہولے سے دستک دی۔
”یس کم ان۔“ اس کے کانوں سے صدیقی صاحب کی گو نجیلی آواز ٹکرائی۔ وہ دروازہ آہستگی سے کھول کر اندر چلا گیا۔
”آؤ مسعود بیٹھو۔“ صدیقی صاحب نے ایک فائل پر دستخط کر کے اسے بند کرتے ہوئے کہا۔”کیا پیو گے چائے یا کولڈر نک؟“ اور اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر انہوں نے انٹر کام کا ریسیور اٹھا کر کسی کو چائے بھیجنے کی ہدایت دی۔
”ہاں بھئی، سب تیاریاں مکمل ہو گئیں۔ ٹیم فارم میں ہے۔“ صدیقی صاحب چشمے کے اوپر سے مسعود کو دیکھتے ہوئے پوچھ رہے تھے۔
”جی سر، ٹیم فل فارم میں ہے۔ ہم روزانہ نیٹ پریکٹس بھی کر رہے ہیں۔“
”گڈ، ٹیم کا مورال بلند رکھو۔ اب تو ٹورنامنٹ شروع ہونے میں صرف دو دن رہ گئے ہیں۔ یاد رکھو، فائنل تمہاری ٹیم کو جیتنا ہے۔ پتہ ہے لٹل سن بسکٹ بنانے والوں نے فائنل جیتنے والی ٹیم کے مین آف دی میچ کو عمرے کا ٹکٹ دینے کا اعلان کیا ہے اور کر یسنٹ شوز والوں نے اس ٹورنامنٹ کی چیمپئن ٹیم کے لئے 25 ہزار روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ سی ویو ریستوران والوں نے جیتنے والی ٹیم کے تمام کھلاڑیوں اور ان کے والدین کے لئے فری ڈنر ارینج کیا ہے۔“
”اوہ سر، یہ تو بہت ایکسائٹنگ ہے۔ عمرے کا ٹکٹ، ماشاء اللہ سے یہ تو بہت بڑی سعادت ہوگی۔“
”ہاں بے شک……اور مجھے تو یہ سوچ کر خوشی ہو رہی ہے کہ اس ٹورنامنٹ کی چیمپئن ٹیم کے منتخب کھلاڑیوں کو قومی ٹیم میں بھی کھیلنے کا موقع ملے گا۔ بڑے بڑے ادارے انہیں شاندار ملازمتیں فراہم کریں گے۔ ان شاء اللہ تمہاری ٹیم کے کھلاڑی قومی ٹیم میں شامل ہو کر ملک و قوم کانام روشن کریں گے۔“
”سریہ آپ کی ذاتی توجہ، محنت اور دلچسپی کا نتیجہ ہے۔“ مسعود نے کہا۔
”خیر، مجھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دے دی کہ میں ایک ٹیم کی سرپرستی کروں۔ اسے اپنے ذاتی اسٹیڈیم میں پریکٹس کے مواقع فراہم کروں لیکن مسعود، اگر تم لوگ خلوص اور محنت سے تیاری نہ کرتے اور بہترین ٹیم ورک کا مظاہرہ نہ کرتے تو کیا اس مقام پر ہوتے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لو چائے تو لو؟“ انہوں نے چائے کی طرف اشارہ کیا جو چپراسی اس دوران میز پر نہ جانے کس وقت رکھ گیا تھا۔
”اس ٹورنامنٹ کے لئے تمہاری ٹیم فیورٹ ہے۔ آج دیکھو تمام اخبارات کے مبصرین نے یہی اندازہ لگایا ہے کہ اس ٹورنامنٹ کی فاتح ٹیم شاہین ہی ہوگی۔ عوامی آراء بھی تمہارے حق میں ہیں۔ اپنے مداحوں کو مایوس نہ کرنا۔“
”ہم پوری کوشش کریں گے سر، آپ دعا کیجئے گا۔ اب میں چلتا ہوں اچھا اللہ حافظ۔“

۔۔۔۔۔

کامران اوور کی آخری گیند پر چوکا لگانے کی کوشش میں آؤٹ ہونے کے بعد ڈریسنگ روم میں پہنچ کر پانی پی رہا تھا کہ ایک شخص نے آکر کہا۔”آپ کا فون ہے۔“
کامران اس وقت پسینے میں تر ہو رہا تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ بیٹنگ پیڈا تار کر ذرا آرام سے بیٹھے اور تو لیا لے کر پسینہ خشک کر لے۔ خیر وہ اٹھا اور فون سننے کے لئے چل دیا۔
”ہیلو السلام علیکم۔“ اس نے ماؤتھ پیس میں کہا۔
”ہیلو کامران صاحب، آپ کے لئے ایک زبردست خوشخبری ہے۔“
”کیسی خوشخبری؟“
”میں تفصیل نہیں بتا سکتا۔ آپ یوں کریں کہ آج رات ٹھیک آٹھ بجے ایلیٹ ہوٹل کی پشت پر بنگلہ نمبر C-302 میں مجھ سے ملیں۔ میرا نام ظاہر ہے آپ جانتے ہوں گے۔“
”کیا ظاہر ہے؟ میں تو آپ کو نہیں جانتا۔“ کامران نے حیران ہو کر کہا۔
”افوہ بھئی میرا نام ہی ظاہر خان ہے۔“
”اچھا اچھا۔“
”تو پھر طے رہا۔ آج رات ٹھیک آٹھ بجے۔ دیکھئے آئیے گا ضرور ورنہ آپ کو پچھتاوا ہوگا۔ آپ کے آنے میں آپ کا فائدہ ہے۔ ہزاروں روپے کا اور شہرت و دولت بھی آپ کے قدم چومے گی اچھا خدا حافظ۔“
کامران واپس ڈریسنگ روم میں پہنچا تو عجیب الجھن میں تھا۔ وہ کون تھا اور کیسی خوشخبری سنانا چاہتا تھا۔
رات پونے آٹھ بجے میں وہ ایلیٹ ہوٹل کی پشت پر واقع سنسان سی سڑک پر کھڑا تھا اور بنگلوں کے نمبر ذرا غور سے دیکھ رہا تھا کہ کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ آپ کو C-302 کی تلاش ہے نا؟“
”جی؟ جی ہاں۔“ کامران چونک پڑا۔”مگر آپ کو کیسے پتہ چلا؟ اور آپ ہیں کون؟“
اس کے کندھے پر ہاتھ رکھنے والا مسکرایا۔ وہ ادھیڑ عمر کا شخص تھا۔ اس کے سر کے خاصے بال گر چکے تھے۔ بار یک مونچھیں تھیں۔ اس نے شلوار قمیص پر واسکٹ پہن رکھی تھی۔
”مجھے اپنا دوست سمجھئے۔ آپ کامران صاحب ہیں نا۔ میں آپ کو C-302 لے کرچلتا ہوں۔ ظاہر وہاں ہو گا۔“
”کیا ظاہر ہو گا؟“ کامران نے حیرت سے پوچھا اور اچانک اسے یاد آگیا کہ فون کرنے والے نے اپنا نام ظاہر بتایا تھا۔ وہ جلدی سے مطمئن ہو کر بولا۔”اچھا آپ ظاہر صاحب کی بات کر رہے ہیں،تو چلئے۔“
باریک مونچھوں والے نے کامران کا ہاتھ تھاما اور چند بنگلے چھوڑ کر ایک بنگلے کے سامنے جار کا۔ دروازے پر موجود چوکیدار نے اسے پہچان کر سلام کیا اوردروازہ کھول دیا۔ اندر خوبصورت لان تھا۔ پختہ روش پر چل کر دونوں ایک بڑے کمرے میں پہنچے جہاں کئی صوفے لگے ہوئے تھے۔ کمرہ ایئر کنڈیشنڈ تھا۔
چند ہی لمحوں بعد کمرے کا اندرونی دروازہ کھلا اور ایک تنومند شخص نے کمرے میں قدم رکھا۔ اس نے کانوں سے موبائل فون لگا رکھا تھا۔ اس کا رنگ سانولا تھا۔ چہرے پر بڑی بڑی مونچھیں تھیں،سر پر بال برائے نام تھے۔ اس نے بھی شلوار قمیص پر واسکٹ پہن رکھی تھی۔ وہ
فون پر بات کرتے ہوئے بار بار قہقہہ لگا رہا تھا۔
”اچھا تو پھر……ایک لاکھ لگا دو! کیا؟ نہیں بھئی ابھی تیاری پوری نہیں ہے، تیاری ہو جائے تو میں لالے سے کہہ دوں گا وہ تمہیں بتادے گا۔ اچھا ٹھیک ہے اوکے۔“ اس نے فون بند کیا اور کامران پر نظر ڈالی۔ گھنی مونچھوں تلے اس کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور پان کی پیک سے لتھڑے ہوئے اس کے دانت جھانکنے لگے۔
”آئیے کامران صاحب، آپ سے ملنے کی تمنا تھی۔“ اس نے اپنا بھاری بھر کم ہاتھ مصافحے کے لئے بڑھا دیا۔ میں ظاہر ہوں اور یہ میرا بزنس پارٹنر ہے واحد نیازی۔“ باریک مونچھوں والے نے مسکرا کر سر ہلایا۔
اسی وقت ایک ملازم نے نہایت نفیس گلاسوں میں شربت لا کر پیش کیا۔
”ہاں بھئی کامران صاحب، آپ سے بے حد ضروری کام ہے جس میں آپ کا بھی بڑافائدہ ہے؟“
”جی؟“
”بھئی بات کیا کرنا ہے جی، مطلب کی بات کرتے ہیں۔ قصہ یہ ہے کہ اس بار جو نیئر کرکٹرز ٹورنامنٹ بڑی دھوم دھام سے منایا جا رہا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے آپ کو معلوم ہو گا۔“ ظاہر نے کہا۔
”جی ہاں۔“
”یہ بھی سب کو پتا ہے کہ آپ کی شاہین ٹیم اس ٹورنامنٹ کی فیورٹ ٹیم ہے۔“
”ہاں کہہ سکتے ہیں!“
”کہہ سکتے ہیں، نہیں ……کہنا پڑے گا۔ آج نہیں تو چار روز بعد جب ٹورنامنٹ کا فائنل ہو گا۔ خیر میں یہ کہہ رہا تھا کہ آپ کی ٹیم کی کامیابی آپ جیسے آل راؤنڈر کی وجہ سے ہے۔“
”خیر میں تو کہاں ……“کامران نے کہنا شروع کیا مگر ظاہر اللہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”حقیقت،حقیقت ہوتی ہے جناب، اسے سات پردوں میں بھی چھپا دو پھر بھی وہ حقیقت رہے گی، بہر حال کہنا یہ تھا کہ اگر آپ چاہیں تو آپ کی ٹیم فائنل ہار سکتی ہے!“
”جی؟ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟“ کامران نے غصے سے کہا۔
”وہی جو آپ نے سنا۔“
”لا حول ولا قوۃ……کیا آپ نے اسی لئے مجھے بلایا تھا۔ میں چلتا ہوں۔“ کامران بھنا کر اٹھنے لگا لیکن ظاہر اللہ نے اس کے کندھے تھام کر اسے بٹھا دیا۔
”آرام سے……آپ تو خفا ہو گئے۔ پوری بات تو سن لیں۔“
”اب کوئی بات رہ گئی ہے؟“
”ہاں جناب، اصل بات تو رہ ہی گئی۔ آپ جانتے ہیں کہ فائنل جیتنے والی ٹیم کو سونے کے تمغے کے علاوہ25 ہزار روپے ملیں گے مگر یہ ساری رقم کسی ایک کھلاڑی کو تو نہیں ملے گی۔ تمام کھلاڑیوں میں بٹے گی، اس طرح ہر کھلاڑی کے حصے میں کتنی رقم آئے گی؟ مشکل سے دو سوا دو ہزار روپے۔“
”مگر دیگر انعامات بھی تو ہیں۔“ کامران نے جرح کی۔
”ارے بھائی صاحب،ہم آپ کو اس سے اچھی اسکیم بتاتے ہیں۔ اگر آپ ہماری بات مان لیں تو پورے 25 ہزار روپے ہم آپ کو دیں گے۔ سہولتیں اور انعامات جیتنے والی ٹیم کے کھلاڑیوں کو ملیں گی ہم ان سے دگنے انعامات اور سہولتیں آپ کو دیں گے اور آپ تعاون کریں گے تو ہم آپ کو ٹیم کا کپتان بھی بنوا دیں گے۔“
”تعاون؟“
”جی ہاں تعاون! آپ سب یہ کریں کہ سلو کھلیں۔ کچھ غلطیاں جان بوجھ کر کردیں، اس طرح آپ کی ٹیم ہار جائے گی اور ہماری ٹیم برائٹ اسٹار فائنل جیت جائے گی۔ نمبر ٹو تو وہی ہے۔ہم نے سب انتظام کر لیا ہے، فائنل میں دوسری ٹیم وہی پہنچے گی۔“
”اچھا؟“
”ہاں جی ہمارے ہاتھ بڑے لمبے ہیں۔ بس ذرا فائنل میں پہنچ کر چھوٹے پڑ گئے ہیں! خیر کام تو سب ادھر بھی نکال لیں مگر خرچہ بڑھ جاتا۔ میں نے سوچا کہ جب ”سیدھے“ اور”جائز“ طریقے سے کام ہو سکتا ہے تو انگلیاں ٹیڑھی کرنے سے فائدہ؟“
”یہ شخص تو بڑا تیز لگتا ہے۔“ کامران نے دل میں سوچا۔
”آپ کس سوچ میں پڑگئے کامران صاحب، آپ کے سامنے سنہرا مستقبل ہے۔ آپ ذرا سی ہمت کریں۔ ذراسی عقل سے کام لیں، ذرا سی ہوشیاری دکھائیں، پھر دیکھیں 25 ہزار روپے آپ کے،کپتانی آپ کی، ہر طرح کی سہولتیں آپ کی اور مستقبل میں قومی ٹیم میں نمایاں جگہ آپ کی۔“
”مگریہ تو……“
”او ہو آپ کہیں گے یہ بے ایمانی ہوگی، ہے نا؟ مگر یہ بھی تو دیکھیں کہ آپ جیسے اسٹار بیٹسمین کو تو ٹیم کا کپتان ہونا چاہیے تھا۔ آپ کی تو قدر ہی نہیں ہے۔ یہ بے ایمانی نہیں ہے اور پھر آپ اپنی ٹیم کو سلور میڈل تو دلوا ہی رہے ہیں، وکٹری اسٹینڈ پر تو وہ پھر بھی رہے گی۔ ویسے بھی کچھ دنوں بعد آپ فاتح ٹیم یعنی برائٹ اسٹار کے کپتان بن جائیں گے تو آپ کو شاہین کے ہارنے کا غم بھی نہیں رہے گا۔ جلدی فیصلہ کریں ورنہ یہ گولڈن چانس آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔“
”مگر……“
”اگر مگر چھوڑیں۔ جلدی فیصلہ کریں۔“
”کیا کروں؟ ان کی بات مان لوں؟“ کامران نے دل میں سوچا۔ اس کے دل میں طوفان برپا تھا۔
”موقع اچھا ہے، ایسی پیشکش بھلا کون کرتا ہے؟“ کسی شیطانی آواز نے اس کے کانوں میں سرگوشی کی۔”یوں بھی تمہیں تو اپنی ٹیم کا کپتان ہونا چاہیے تھا۔ ہمیشہ مسعود کو کپتان بنا دیا جاتا ہے۔ تمہاری محنت کا اعتراف تو سب کرتے ہیں، صلہ کوئی نہیں دیتا۔ انعام کی ایک لاکھ روپے کی رقم میں سے تمہیں کیا ملے گا؟ دو ہزار روپے۔ اس رقم میں تو کوئی سائیکل بھی نہیں خریدی جاسکتی۔“
کامران کے دل کا شفاف آئینہ دھندلا گیا۔ اس نے اپنی ٹیم کے میچز اور کپتان وغیرہ کے خلاف دل میں نفرت کے بادل اٹھتے محسوس کیے اور اس لمحے اس نے فیصلہ کر لیا۔

”ٹھیک ہے مجھے آپ کی پیشکش منظور ہے۔ مگر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ بھی اپنے وعدے پورے کریں گے۔“ کامران نے پوچھا۔
”کامران صاحب، یہ ظاہر کا وعدہ ہے ظاہر کا۔ ہم بات کے پکے اور قول کے سچے ہیں، لیجئے ایڈوانس رقم۔“ اس نے سو سو کے نوٹوں کی ایک گڈی جیب سے نکال کر کامران کے سامنے رکھ دی۔
”گن لیجئے۔ پورے دس ہزار ہیں۔“
”نہیں نہیں۔“ کامران گھبرا گیا۔”ا نہیں ابھی اپنے پاس رکھیں میں انہیں کل لے جاؤں گا۔ ابھی اس وقت انہیں کہاں رکھوں گا۔“
”جیسے آپ کی مرضی۔ اب تو یہ آپ کی امانت ہے۔ اس ایگری منٹ پر دستخط کردیں۔“
کامران نے دستخط کر دیے اور بولا۔”اب میں چلتا ہوں۔“
”ٹھیک ہے جی اللہ حافظ اور ہاں، اگر آپ نے ہمارے بارے میں پولیس یا کسی اور کو بتانے کی کوشش کی تو یا درکھیے گا کہ ہمارے ہاتھ بڑے لمبے ہیں۔“
”نہیں، نہیں میں بھلا کیوں بتانے لگا؟“
”یہ بات ہوئی نا ہم تو دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن ہیں۔“ ظاہر اللہ نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
کامران اس کو ٹھی سے نکلا تو اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔
۔۔۔۔۔
اسٹیڈیم تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ آج ٹورنامنٹ کا فائنل ہونا تھا۔ ظاہر اللہ کی پیش گوئی کے مطابق”شاہین“ اور”برائٹ اسٹار“ ہی فائنل میں پہنچی تھیں۔ آج اسٹیڈیم کی رونق دیکھنے کے قابل تھی۔ حفاظتی انتظامات بھی بہت سخت تھے کیونکہ صوبائی وزیر اعلیٰ خود میچ دیکھنے کے لئے آنے والے تھے اور ظاہر ہے کہ ان کے ساتھ وزیروں اور مشیروں کی خاصی بڑی تعداد بھی آنی تھی۔ ہجوم میں کامران کو ظاہر اللہ بھی نظر آیا۔ اس نے سیاہ چشمہ لگارکھا تھا۔ اس کے اطراف جو لوگ بیٹھے تھے۔ وہ صورت سے ہی بدمعاش دکھائی دے رہے تھے۔
میچ شروع ہوا، ٹاس برائٹ اسٹار نے جیتا اور اس کے کپتان نے پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ کامران کو بطور فاسٹ بالر سب سے پہلے بھیجا گیا۔ کامران نے پہلی ہی گیند وائڈ بال پھینکی۔ اسٹیڈیم میں قہقہے گونج اٹھے۔ کامران کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔ اس نے دل میں کہا:
”آج میرے اوپر ہنس لو، کل جب میں برائٹ اسٹار کا کپتان بن جاؤں گا تو پھر میں تم لوگوں پر ہنسوں گا۔“
اس نے اگلی گیند کروائی اور جان بوجھ کر کریز سے باہر قدم رکھ دیا۔
”نو بال۔“ ایمپائر کی آواز گونجی اور مخالف ٹیم کے بیٹسمین نے تاک کر چھکا مارا۔ اپنے حصے کے باقی تمام اوور کامران نے اسی طرح کروائے۔
اس نے دکھانے کے لئے دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا مگر وہ غیر اہم کھلاڑی تھے۔ مخالف ٹیم نے 40 اوور میں 212 رنز بنائے۔ یہ ایک مشکل ٹارگٹ تھا۔ اب ”شاہین“ نے بیٹنگ شروع کی۔ کامران اور سہیل کو بطور اوپنر بھیجا گیا۔ ٹیم کے مینیجر اور کپتان نے دونوں کی پیٹھ ٹھونکی۔ ”ہمت سے کام لینا۔ ٹارگٹ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔“
کامران نے بیٹنگ کا آغاز کیا۔ وہ جان بوجھ کرسست رفتار سے کھیلتا رہا۔ جیسے ٹیسٹ میچ کھیلنے آیا ہو۔ ایک دو بار اس نے دو دو رنز بنائے۔ ظاہر ہے اس کو بیٹنگ کا موقع ملتا رہا پھر ایک گیند پر اس نے شاٹ لگایا اور رن بنانے کے لئے”یس“ کہہ کر دوڑ لگا دی۔ ادھر سے سہیل بھی دوڑا۔ آدھے راستے میں پہنچ کر کامران نے سہیل سے کہا ”نو“ اور خود واپس دو ڑ کر اپنی کریز میں پہنچ گیا مگر سہیل اس صورت حال کے لئے تیار نہ تھا۔ جتنی دیر میں وہ اپنی کریز پر واپس پہنچتا۔ فیلڈر نے گیند تھرو کی اور وکٹوں میں ماردی۔ بے چارہ سہیل رن آؤٹ ہو گیا۔
اب مشتاق کو ون ڈاؤن بھیجا گیا۔ کامران نے ایک رن بنا کر اسے کھیلنے کا موقع دیا۔ پھر جب اگلی گیند پر مشتاق نے شاٹ لگایا اور کامران کو رن بنانے کے لئے ”یس“ کہا تو کامران صاحب ذرا سا دوڑ کر واپس آگئے۔ نتیجہ یہ کہ مشتاق کو بھی رن آؤٹ ہونا پڑا۔ اب الطاف کی باری تھی۔ ساری ٹیم کامران کے عجیب انداز میں کھیلنے سے پریشان تھی۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ کامران احتیاط سے کھیل رہا ہے اور وکٹیں بچا رہا ہے۔ آخر کے دس اوورز میں وہ دھواں دھار بیٹنگ کر کے برائٹ اسٹار کے چھکے چھڑا دے گا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ آج کامران کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ الطاف نے دو چوکے لگائے پھر ایک رن بنایا۔ اب کامران کو کھیلنے کا موقع ملا۔ وہ دل ہی دل میں خوش تھا کہ برائٹ اسٹار کا اسکور بہت زیادہ ہے اور شاہین 10 اوورز میں اتنے رنز نہ بنا پائے گی۔
اسٹیڈیم میں شاہین کے طرف دار ذرا پریشان تھے۔ ان کے نعروں میں جوش و خروش نہ تھا جبکہ برائٹ اسٹار کے حامی زور دار آواز سے بگل بجا بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ کامران نے سست رفتاری سے کھیلتے ہوئے 12 اوور گزار دیے۔ ابھی تک شاہین کا اسکور صرف 38 رنز ہوا تھا اور اس کے تین کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔13 واں اوور شروع ہوا۔ کامران نے برائٹ اسٹار کے فاسٹ بالر شعیب کی گیند کا سامنا کرنے کے لئے بلا اٹھالیا۔ گیند زناٹے سے اس کی طرف آئی۔ کامران نے اسے اسکوائرکٹ کی طرف کھیلنے کی کوشش کی مگر یہ کیا……! گیند بلے سے ٹکرانے کی بجائے کامران کی ٹانگ سے ٹکرائی اور کامران اچھل کر زمین پر گر پڑا۔ اس کے منہ سے درد ناک چیخیں بلند ہور ہی تھیں۔ میچ فوری طور پر روک دیا گیا۔ ڈاکٹر طفیل اپنا بکس اٹھا کر کامران کی طرف تیزی سے لپکے۔ بہت سے تماشائی بھی اسٹیڈیم میں گھس آئے جنہیں پولیس والے ڈنڈوں کی مدد سے پیچھے بنانے کی کوشش کرنے لگے۔
فوری طور پر اسٹریچر لایا گیا۔ کامران کو اسٹریچر پر ڈال کر اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ منتظمین کی جانب سے کچھ دیر کے بعد اعلان کیا گیا کہ چونکہ یہ ٹورنامنٹ کا فائنل ہے اس لئے اسے ملتوی نہیں کیا جاسکتا۔ کامران کے ریٹائرڈ ہرٹ ہو جانے کے باوجود میچ جاری رہے گا۔
شاہین کے کپتان مسعود نے اپنی ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کو جمع کرکے کچھ ہدایات دیں۔ شاہین کا اسکور 12 اوورز میں صرف 38 رنز تھا۔ اب شاہین کے کھلاڑیوں نے جم کر کھیلنا شروع کیا اور صرف 22 ویں اوور کے اختتام پر اس کا اسکور بڑھ کر 114 ہو چکا تھا۔ مزید 10 اوور گزرے تو یہ اسکور 172 تک پہنچ چکا تھا۔ اب آٹھ اوور باقی تھے اور شاہین کے پاس ابھی پانچ وکٹیں باقی تھیں۔ شاہین کو میچ جیتنے کے لئے 41 رنز درکار تھے۔ کپتان مسعود نے اس موقع پر خود بلا سنبھالا۔ اب جو اس نے تاک تاک کر چوکے لگانے شروع کئے تو صرف 14 گیندوں میں ٹیم کا اسکور 204 رنز تک پہنچا دیا۔ فتح صرف 9 رنز کے فاصلے پر تھی۔ مسعود کے ساتھ دوسرے اینڈ پر باسط تھا۔ باسط نے اپنی باری آنے پر تین رنز کا اضافہ کیا۔ بائی کا ایک رن مل کر شاہین کا اسکور 208 رنز ہو گیا تھا۔ اب مسعود کی باری تھی۔ مسعود نے تین گیندوں کو فقط روکنے پر اکتفا کیا۔ وہ کسی تیز گیند کے انتظار میں تھا۔ 35 ویں اوور کی چوتھی گیند پر مسعود کو موقع مل گیا۔ برائٹ اسٹار کے بالر عرفان نے فل ٹاس گیند پھینکی۔ مسعود نے اللہ اکبر کہہ کر بلا گھمایا…… اسے اندازہ ہی نہ ہو سکا کہ گیند کہاں گئی۔ اسے تو اتنا محسوس ہوا کہ اسٹیڈیم تالیوں سے گونج اٹھا ہے اور’’شا…ہیں…شاہیں…‘‘ کے نعروں سے کان پھٹے جارہے ہیں۔ اس کے ساتھی کھلاڑیوں نے اسے کندھے پر اٹھا لیا تھا۔ شاہین نے یہ ٹورنامنٹ 5 وکٹوں سے جیت لیا۔
اسٹیڈیم میں جشن کا سماں تھا۔ شاہین کے کھلاڑی خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔

۔۔۔۔۔

کامران کو شاہین کی فتح کی خبر ایک نرس نے دی۔ کامران اس وقت درد سے کراہ رہا تھا۔ اس کی ٹانگ پلستر میں جکڑی ہوئی تھی۔ شاہین کی فتح کی خبر سن کر کامران نے پاس پڑی چادر اٹھا کر منہ پر ڈال لی۔ نرس اسے عجیب سی نظروں سے دیکھتی ہوئی باہر نکل گئی۔ کامران کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔۔ اس کا دل بھی خون کے آنسو رو رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں دعا کررہا تھا۔ ’’اللہ میاں۔۔ مجھے معاف کر دیجئے۔ میں کس قدر گمراہ ہو گیا تھا۔ اب کیا میں زندگی بھر کبھی کرکٹ نہ کھیل سکوں گا؟‘‘
اس وقت کسی نے اس کا کندھا ہلایا اور اس کے منہ پر سے چادر کھینچ لی۔’’ تم نے ہمیں تباہ کر دیا۔‘‘ یہ ظاہر اللہ تھا جو بظاہر تو اس کے لئے پھول لے کر آیا تھا مگر اس کی آنکھوں سے چنگاریاں برس رہی تھیں۔ ’’تم کو معلوم ہے۔ میں نے اس میچ پر ایک لاکھ روپے لگا دیے تھے۔ ایک لاکھ لگا کے دولاکھ مجھے مل جاتے، مگر میں تو تباہ ہو گیا۔ یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا۔۔۔۔۔مگر میں تمہیں بھی تباہ کردوں گا، تم سمجھتے کیا ہو۔۔۔۔‘‘
کامران کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ گہرائیوں میں گرتا چلا جا رہا ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top