skip to Main Content

اونچا اڑئیے۔۔۔ صرف چند بھات میں

سیما صدیقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھائی لینڈ کے شہر ’’ پٹایا‘‘ (Pattaya) کے ساحل پر زبردست پیراشوٹنگ (Para-Gliding) کا مظاہرہ ہو رہا تھا۔ کھلے سمندر میں تاحد نگاہ رنگ برنگے پیراشوٹس آسمان کی وسعتوں میں جھولتے دکھائی دے رہے تھے۔
کیا ہم پیراشوٹنگ کریں گے؟ اس سوال پر ہم نے ایک جھرجھری لی، تصور کی آنکھ سے خود کو دیکھا۔۔۔ دل کو ٹٹولا۔۔۔ کیا ہم اس طرح بلندیوں پہ جھول سکتے ہیں؟ ایسے کہ نیچے کھڑے لوگ ایک دھبے یا نقطے کے برابر دکھائی دیں۔ اوپر آسمان تو نیچے سمندر! اگر گرے تو اٹکنے کے لیے کھجور کا سہارا بھی نہیں!
ہمارے ساتھی نے ہمیں تسلی دی کہ Para Gliding کا یہ سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے اور آج تک کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔ اب تو ہمارا دم نکل گیا کہ کہیں پہلا حادثہ آج ہی نہ پیش آجائے۔ ابھی ہم گومگو میں تھے کہ چند مقامی لوگوں نے ہمیں چڑھایا! ’’تھائی لینڈ کے ساحل پہ آئیں اور پیراشوٹنگ کیے بغیر چلے جائیں، ایسا بدذوق بھی شاید ہی کوئی ہوگا!‘‘ ہم نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔ ’’ ہمیں کس طرح اڑایا جائے گا؟‘‘
(ہماری طرف عموماً بم سے اڑایا جاتا ہے)
ہمارے ساتھی نے کہا ’’ کچھ نہیں۔۔۔ بس ایک ٹوکری میں بٹھایا جائے گا۔۔۔ آپ اسے پکڑے رہیں۔۔۔ اڑتے رہیں اور مزے کریں۔‘‘
ہم نے ہمت پکڑی اور ’’اسپیڈ بوٹ‘‘ میں بیٹھ گئے، کیوں کہ یہ مظاہرہ کھلے سمندر میں ہو رہا تھا۔
اسپیڈ بوٹ کا سفر۔۔۔ بڑا زبردست تھا۔۔۔ چہار سو تھائی لینڈ کا خوب صورت سمندر۔۔۔ اتنا شفاف کہ گہرائی میں پڑے رنگین پتھر بھی صاف دکھائی دے رہے تھے (کراچی کے ساحل کی طرح نہ فروٹو کے ڈبے نہ کیلے کے چھلکے! ورنہ بچوں کے پیمپرز!!)
وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ’’سی گرین‘‘ رنگ دراصل ہوتا کیسا ہے۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں میں تیز رفتار بوٹ سے سفر کرتے ہم وہاں پہنچ گئے جہاں پیراشوٹنگ اسٹیشن تھا(یہ ایک بڑی کشتی تھی) عرشے پر پڑی رسیاں، رنگ برنگے پیراشوٹس، سیاحوں کی فلائنگ اور لینڈنگ کا منظر قریب سے دیکھ کر ہمارا ارادہ ڈگمگا گیا۔ کیوں کہ ہم نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ پیراشوٹ سے ہوا میں بلند کرنے سے قبل چند ثانیے کے لیے سمندر میں ایک ڈبکی بھی دی جا رہی تھی۔ ایسی ڈبکی جس سے آدمی سر تا پا غرق ہوجائے۔ (جبکہ ہماری طرف ڈوبنے کے لیے محض چلو بھر پانی ہی کافی ہوتا ہے)
یہ سنسنی خیز منظر دیکھ کر ہم نے شرط رکھی کہ اگر ہمیں ’’ڈبکی‘‘ نہ دی جائے اور صرف اڑایا جائے تو ہم اس ایڈونچر کے لیے تیار ہیں کیوں کہ ہم اڑنے سے نہیں ڈوبنے سے ڈرتے ہیں۔
تھائی لینڈ میں سب سے بڑا مسئلہ زبان کا تھا( بدزبانی کا نہیں!!) نہ وہ انگریزی سمجھتے تھے نہ سمجھنا چاہتے تھے۔ ان کی انگریزی اتنی ہی ٹوٹی پھوٹی تھی جتنی ہماری۔ نہ ہم تھائی زبان سے واقف تھے اور نہ وہ اردو سے۔ ایسے میں صرف اشاروں کی زبان ہی کام آتی ہے۔ اسی زبان میں ہم نے سمجھایا کہ دراصل ہم ڈبکی کھانے سے گھبرا رہے ہیں۔ وہاں موجود خاتون کا رکن نے اشاروں میں جو پوچھا اس کا مفہوم کچھ یہ سمجھ میں آیا کہ مادام، آپ کہاں تک ڈوبنا پسند کریں گی۔۔۔ گھٹنوں تک؟ کمر تک؟ یا سر تک؟‘‘
ہم نے فوراً پیروں کو ہاتھ لگایا (ان کے نہیں اپنے) اور کہا ’’صرف ٹخنوں تک!‘‘ اس وقت ہمیں معلوم نہ تھا کہ ہماری آخری خواہش پوچھی جا رہی ہے۔ پتہ ہوتا تو کوئی ڈھنگ کی بات کرتے، بھلا ڈوبنے ڈبانے کی بات کیوں کرتے؟
رن وے کے قریب پہنچے تو دیکھا ایک بھارتی نوجوان چیختا چلاتا واپس لینڈ کررہا تھا۔ ’’اوئے مجھے روکو۔۔۔ بچاؤ۔۔۔ بچاؤ!‘‘ عرشے پہ موجود عملہ نے بڑی چابکدستی سے پیراشوٹ کے رسے تھام لیے تو اس نے بمشکل قدم رن وے پر جمائے۔ اس کی اڑی ہوئی رنگت دیکھ کر ہم نے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ (ہم بہادری کا وہ ایوارڈ نہیں لینا چاہتے تھے جو بعد از مرگ ملتا ہے) مگر عین اسی وقت ایک ملازم نے ہمیں جھپٹ لیا کیوں کہ ہمارے ساتھی ’’چار سو بھات‘‘ کی ادائیگی کرچکے تھے(بھات تھائی کرنسی ہے، جس کا ایک روپیہ تقریباً ہمارے ڈھائی روپے کے برابر ہے) یہ وہی خاتون تھیں جن سے ’’بول میری مچھلی کتنا پانی؟‘‘ کے مصداق شرائط طے ہوئی تھیں۔ انہوں نے ہمیں ایک ’’جیکٹ‘‘ پہنائی، پیراشوٹ کی رسیاں جیکٹ میں لگے کنڈوں میں پھنسا دیں، اسے لاک کرکے کھینچ کر چیک کیا۔۔۔ ایک ورکر نے ہمارا ہاتھ تھاما اور ا س سے پہلے کہ ہم کچھ سوچتے سمجھتے ہلکا سادھکا دے کردوڑنے کو کہا۔ ہم نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی مگر وہ ٹوکری دکھائی نہ دی جس میں ہمیں سوار ہونا تھا۔ ابھی دو قدم ہی آگے بڑھے تھے کہ اچانک ہمارے قدموں تلے زمین نکل گئی۔ اور ہم ہوا میں معلق ہو گئے۔۔۔ یہ کیا؟ نہ ٹوکری نہ تھیلا! ہماری ٹانگیں ہوا میں لہرا رہی تھیں۔ ہمیں محض ایک جیکٹ پہنا کر اڑا دیا گیا تھا۔ دھوکہ۔۔۔ صاف دھوکہ مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔
بقول غالب

نے ہاتھ باگ پہ ہے نہ پا ہے رکاب میں
اسی اثناء میں جس تیزی سے پیراشوٹ اوپر اٹھا تھا اسی تیزی سے قدرے ترچھا ہوتے ہوئے سمندر کے قریب ہونے لگا، ہم سمجھ گئے۔ اب ڈبکی لگنے ہی والی ہے۔ دل ہی دل میں خود کو تسلی دی کہ صرف ٹخنے بھگونے کی بات ہوئی ہے لیکن عین اسی وقت غڑاپ کی آواز آئی اور ہم سمندر میں غائب ہو گئے( یہ منظر بعد میں ہم نے ویڈیو میں دیکھا)۔ ہمیں سر سے پاؤں تک (بلکہ پاؤں سے سر تک) ڈبو دیا گیا تھا مگر یہ محض چند ثانیے کی بات تھی۔ صورت خورشید کی مانند ہم ادھر ڈوبے ادھر نکلے کے مصداق دوبارہ طلوع ہوئے۔ آنکھ اور ناک میں نمکین پانی بھر گیا تھا۔ پیرا شوٹ اب طوفان کی رفتار سے آسمان کی جانب پرواز کررہا تھا۔ فلک بوس عمارات نیچے رہ گئی تھیں۔ فضا میں اڑنے کا یہ ہمارا پہلا اور شاید آخری موقع تھا۔ ہوا کا پریشر اتنا زیادہ تھا کہ ہاتھ رسی پر سے کسی لمحے بھی چھوٹ سکتا تھا۔ پیراشوٹ (جسے بوٹ سے آپریٹ کیا جا رہا تھا) نے گولائی میں ایک چکر لگایا، پھر واپسی کا سفر شروع ہوا۔ اوپر نگاہ کرتے تو آسمان ، نیچے دیکھتے تو سمندر۔ دونوں کی لامحدود وسعتوں کو دیکھ کر خدا کی قدرت کا خیال آیا۔ بوٹ کے قریب آئے تو پریشان تھے کہ بریک کیسے لگائیں گے؟ کہیں اڑتے ہوئے دوسرے چکر پر نہ نکل جائیں۔ مگر یہ سب کچھ اتنا فول پروف اور طے شدہ تھا کہ ہم نے سیدھے بوٹ پر لینڈ کیا۔ قدم عرشے کی زمین پہ لگے تو کچھ جان میں جان آئی۔ آسمان کی جانب نگاہ کی تو پیراشوٹس پر لٹکتے لوگ دیکھ کر یقین نہ آیا کہ ابھی ہم بھی وہیں تھے۔ یہ سنسنی خیز سفر تقریباً پندرہ منٹ پہ محیط تھا۔ تھائی لینڈ سے واپسی پر ہم خوشی خوشی اور فخریہ لوگوں کو اپنی بزدلی ایڈٹ کرکے پیراشوٹنگ کا حال سناتے رہے۔
واپسی کے سفر میں اسپیڈ بوٹ کے عرشے پہ جا بیٹھے۔ بہادری کے اس زبردست یا زبردستی والے مظاہرے نے ہم پہ ایک سرشاری کی سی کیفیت طاری کر دی تھی۔ ساحل پہ پہنچنے لگے تو تصویر کھنچوانے کا خیال آیا۔ ایک تھائی لینڈ خاتون سے درخواست کی تو وہ خوشی خوشی راضی ہو گئیں اور پورے انہماک سے فوکس ٹھیک کرکے تصویر کھینچنے لگیں۔ کشتی چونکہ پانی میں ڈول رہی تھی لہٰذا ہم سہارا لے کر کھڑے تھے اور منتظر تھے کہ ہماری تھائی میزبان اچھی سی تصویر کھینچ لیں۔ جب کچھ لمحے گزر گئے تو ہمارے دائیں جانب سے ایک نرم اور شائستہ آواز ابھری۔
’’مادام! پلیز لیو، مائی گیئر‘‘
(Madam, Please leave my gear)
معلوم ہوا کہ ہم گزشتہ پانچ منٹ سے کشتی کا گیئر پکڑے کھڑے تھے اور ڈرائیور اخلاق کا مارا چپ چاپ ہمارے فارغ ہونے کا انتظار کررہا تھا۔
پٹایا (Pattaya)شہر کی واکنگ اسٹریٹ (walking street)بہت مشہور ہے۔ یہاں گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ لوگوں کی تفریح طبع کے لیے (سڑک کے دونوں اطراف) کہیں کلب، بار اور ریستوران ہیں تو کہیں تھائی آرٹسٹ لوگوں کے اسکیچز بناتے دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں آئس کریم والا، آئس کریم بیچنے کے لیے بچوں کو کرتب دکھا رہا ہے تو کہیں تھائی فنکار، سڑک پہ اپنے فن کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ سینکڑوں لوگ اس معروف سڑک پہ چہل قدمی کررہے ہوتے ہیں۔
تھائی لینڈ کے عام شہری نہایت بااخلاق اور تعاون کرنے والے ہیں لیکن جس طرح دنیا اچھے لوگوں سے خالی نہیں اسی طرح برے لوگ بھی ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ اگر آپ تھائی لینڈ کے شہر ’’بینکاک‘‘ جائیں تو ’’ٹک ٹک‘‘ والوں سے ذرا ہوشیار رہیے گا۔ آپ سوچیں گے کہ یہ ٹک ٹک کیا بلا ہے؟ (تو جناب یہ ایک رکشا ہے۔ ہمارے نئے سی این جی رکشوں سے بھی زیادہ کشادہ اور آرام دہ) بینکاک کے دھوکہ بازوں اور نوسربازوں کا گینگ ان میں سے کچھ ٹک ٹک والوں کو استعمال کررہا ہے۔
شاپنگ کے لیے بینکاک ساری دنیا میں مشہور ہے۔ ہم نے یہاں کے ’’سنڈے مارکیٹ‘‘ کی بہت تعریف سنی تھی۔کہا جاتا ہے کہ بینکاک کی کوئی چیز ایسی نہیں جو سنڈے مارکیٹ میں دستیاب نہ ہو۔
ہم وہاں جانے کے لیے بس اسٹیشن کی طرف چلے تو پُل پہ ایک تھائی بھائی مل گئے جنہوں نے نہایت ملنساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے روٹ سمجھایا پھر ہمارے بارے میں پوچھنے لگے کہ ’’ آپ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘ (یعنی آپ کو بے وقوف بنایا جا سکتا ہے یا نہیں؟) کہنے لگے کہ سنڈے مارکیٹ تو آپ اگلے سنڈے کو بھی جا سکتے ہیں۔ یہ آپ کی خوش نصیبی ہے کہ آج ’’پانچ دسمبر ‘‘ ہے، ہمارے بادشاہ کی سالگرہ کا دن! اسی خوشی میں حکومت نے ایک ’’گرینڈ سیل‘‘ لگائی ہے۔جس میں ہیرے اور دیگر قیمتی زیورات صرف آدھی قیمت پر دیے جارہے ہیں مگر یہ سیل آج ڈیڑھ بجے ختم ہوجائے گی، آپ فوراً وہاں پہنچیں!‘‘
زیورات ہمیں خریدنے نہیں تھے مگر اخلاقاً ان سے نہ کہا کنی کترا کے پُل سے نیچے اترگئے۔ سڑک پہ چلنے لگے تو دیکھا ایک تھائی حضرت سامنے کھڑے ہیں۔ ہمیں دیکھ کر کہنے لگے ’’ جناب اس سڑک پہ پیدل چلنا منع ہے‘‘ (اس وقت دماغ حاضر نہ تھا ورنہ ضرور پوچھتے کہ خود کیا اڑ کر آئے ہیں) آپ ٹک ٹک پہ بیٹھ جائیں ، آج تو سب کا رخ ایک ہی طرف ہے۔ یقیناًآپ کو بھی گرینڈ سیل میں جانا ہوگا۔ ٹک ٹک والے سیاحوں کو لوٹتے ہیں۔دس بھات سے زیادہ نہ دیجئے گا‘‘ اسی اثناء میں ایک ٹک ٹک والا ہمارے نزدیک آکر رکا اور اس چرب زبان شخص نے نہایت عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرایہ طے کیا اور ہمیں ٹک ٹک میں بٹھا دیا۔ بیٹھتے ہی ہمارے ساتھی نے کہا ’’معاملہ گڑبڑ ہے۔‘‘ ٹک ٹک والے سے رکشا روکنے کو کہا تو اس نے کندھے اچکا کر ہمارا مطلب نہ سمجھنے کی اداکاری کی اور رفتار مزید بڑھا دی۔ وہاں پہنچے تو دکاندار لڑکیوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ بڑے سے ہال میں چاروں طرف شوکیس تھے جن میں زیورات سجے تھے بڑی مشکل سے جان چھڑا کر با ہر نکلے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ دو نمبر زیورات تھے اصلی نہیں۔ سیاحوں کو لوٹنے کے لیے انہوں نے ہوٹلوں اور بس اسٹیشنوں پر اپنے گرگے اور ٹک ٹک چھوڑ رکھے تھے۔ بینکاک کی ٹیلی فون ڈائریکٹری میں بھی ان ٹک ٹک والوں سے ہوشیار رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ (اگر آپ رکشا روکنے سے پہلے ڈائریکٹری کھول کر نہ دیکھیں تو یہ آپ کی قسمت ہے)
گویا حکومت خود ان کے آگے بے بس ہے۔ ہم نے شکر ادا کیا کہ ٹھگوں سے بچ گئے۔ اسی تجربے سے ہمیں معلوم ہوا کہ بینکاک کے چور اور ٹھگ کیوں مشہور ہیں!!
بینکاک کے ٹھگ جس صفائی سے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں اتنی صفائی یہاں کے جمعداروں کے ہاتھوں میں نہیں۔۔۔ صفائی ستھرائی کا معیار تقریباً وہی ہے جیسا کراچی کا لیکن ایک بات ضرور ہے کہ ہمیں کسی کونے کھدرے یا نالے گٹر میں ’’کاکروچ‘‘ دکھائی نہیں دیئے۔ ہم اسے تھائی عوام کی نفاست اور صفائی پسندی ہی گردانتے رہتے اگر وہاں کی معروف فوڈ اسٹریٹ پر ٹھیلے والے کو تھائی زبان میں آوازیں لگاتے نہ دیکھ لیا ہوتا۔ جس کا مفہوم کچھ یوں تھا۔
’’مزے دار ۔۔۔مزے دار۔۔۔تلے ہوئے۔۔۔ چٹ پٹے، کرسپی ، کاکروچ مزے دار۔۔۔ ایک کاکروچ مفت چکھیے۔۔۔ پھر جتنا چاہے خریدیئے۔۔۔
صرف چند بھات میں!‘‘
اس فراخ دلانہ آفر پر یورپی سیاحوں نے اسے گھیر لیا۔ (واضح رہے کہ بینکاک کی سڑکوں پہ وہاں کے مقامی باشندوں سے زیادہ سیاح دکھائی دیتے ہیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ملک سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی پہ ہی چل رہا ہے)
ٹھیلے والے نے ایک کالے رنگ کی بڑی سی کڑاہی چولہے پرچڑھائی ہوئی تھی جس کے گرما گرم تیل میں لال لال، لال بیگ تیر رہے تھے، جب تل جاتے تو بے چارے بری طرح چرمرا جاتے، نا معلوم اس میں کھانے کے لیے کیا بچتا؟ وہ چمٹی سے پکڑ کر ایک ’’لال بیگ‘‘ اٹھاتا اور سیاحوں کی جانب بڑھاتا(کہ جو بڑھ کر تھام لے لال بیگ اسی کا ہے) انگریز اسے منہ میں ڈالتے اور تعریفی لہجے میں ’’واؤ‘‘ کی آوازیں نکالتے۔۔۔ ہمیں پہلی بار کاکروچوں اور انگریزوں دونوں پر رحم آیا۔ اس ٹھیلے کی وجہ سے پوری گلی میں ایک عجیب سی مہک پھیلی ہوئی تھی۔
تھائی عوام مذہبی لحاظ سے ’’بدھسٹ‘‘ ہیں۔ سانپ اور چھپکلی کو مقدس سمجھتے ہیں اور بڑے شوق سے کھاتے بھی ہیں۔ کیکڑے سے لے کر سور تک ہر چیز روسٹ ہوتی بازاروں میں دکھائی دیتی ہے۔ عجیب ناگوار سی بو یہاں کی فوڈ مارکیٹ میں پائی جاتی ہے۔ مسلم سیاحوں کے لیے کھانے پینے کا مسئلہ رہتا ہے۔ ہمارے ہوٹل کے بریک فاسٹ پیکج میں سفید، گلابی، اودے، ہرے انڈے ٹرے میں سجے نظر آتے جسے وہ فرمائش پر تل کر پیش کرتے۔ ہم تو ڈر کے مارے محض پھل ، جوس اور چائے پر اکتفا کرتے ۔ کسی تھائی ریستوران میں جا کر کھاتے بھی دھڑکا لگا رہتا کہ پتہ نہیں کتابلی کیا کھلا دیں!
ہم جب بھی اس فوڈ اسٹریٹ سے گزرے، لال بیگ والا، مادام۔۔۔ مادام کہہ کر آوازیں دیتا۔ ساتھ لال بیگ کھانے کا لالچ بھی۔ ہم اکثر کاروبار کرنے کا سوچتے ہیں مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ بغیر محنت، عقل اور سرمایہ کے کون سا کاروبار کریں۔ اس ٹھیلے والے کو دیکھ کر اچانک ہمارے ذہن میں ایک جھماکہ سا ہوا، کیوں نہ ہم ’’کراچی کے کاکروچ سپلائر‘‘ بن جائیں ۔ کراچی کے لال بیگ پکڑ پکڑ کر یہاں لائیں اور منہ مانگے داموں بیچ دیں۔ اس طرح وہاں کے لوگ بھی دعائیں دیں گے اور یہاں کے بھی۔ رہ گیا ہمیں لال بیگ ہی کھانے ہوں گے تو ہم کراچی میں ’’مفت‘‘ ایک نہیں ، درجنوں کھا سکتے ہیں، بلکہ دوچار لوگوں کی دعوت بھی کرسکتے ہیں۔ پھر ہمیں کیا ضرورت ہے یہاں خرید کر کھانے کی! کیوں کیا خیال ہے آپ کا!!

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top