اوکاپی کی تلاش
احمد عدنان طارق
۔۔۔۔۔۔۔۔
افریقہ کے عین وسط میں دریاے کانگو کے ساتھ ساتھ ایک قبیلہ ہے جس کے لوگوں کو پگمیز کہتے ہیں۔ ان لوگوں میں جنگل میں رہنے کے لیے حیرت انگیز صلاحتیں پائی جاتی ہیں۔ یہ پگمیز لوگ اگرچہ بہت پست قد ہوتے ہیں مگر اپنی خداداد صلاحیتوں سے بڑے بڑے قد والوں کو مات دے سکتے ہیں
سلطان نے کبھی چمکتا ہوا سورج نہیں دیکھا تھا ہو سکتا ہے۔ آپ کو یہ بات بہت عجیب لگے۔ کیونکہ وہ عین خط استوا پر پیدا ہوا تھا۔ جہاں سارا سال سورج پوری آب و تاب سے چمکتا تھا۔ لیکن سلطان کانگو کے گھنے جنگلوں میں وہاں رہتا تھا جہاں صرف چھوٹے چھوٹے راستے ہی وہ جگہ تھی جو جنگلی جانوروں اور خود اس کے قبیلے کے لوگوں کے گزرنے سے بنی تھی اور وہاں اونچے گھنے درخت نہیں تھے۔
سروں سے بہت بلند دیو قد درختوں کی شاخوں نے ایک دوسرے میں اُلجھ کر ایک بہت بڑی چھتری بنائی ہوئی تھی۔ جھاڑیوں درختوں اور گھنی بیلوں نے مل جل کر سورج کی روشنی کی ہر کرن روک رکھی تھی۔ سلطان اگر دن ٹھنڈے سبز دھندلکے میں گزارتا تو رات سیاہی کی دوات کے رنگ کی ہوتی۔ وہ پرندوں کے ساتھ ہی سو جاتا اور یہ بات یقینی بات تھی کہ اس نے چاند اور ستاروں کی میٹھی روشنی نہ دیکھ رکھی ہو کیونکہ شاخوں اور بیلوں کی اتنی بڑی چھتری سے روشنی چھن کر بھی نہیں آسکتی تھی۔
سلطان نے کئی دفعہ سر اٹھا کر بلند و بالا سیدھے کھڑے درختوں کے تنوں کو دیکھا تھا لیکن اس نے کوئی ایسا درخت نہیں دیکھا تھا جو باقی درختوں سے تنہا کھڑا ہو۔ سلطان کے گھر کی دیواریں درختوں سے اُتری چھال سے بنی ہوئی تھیں اور چھتیں درختوں کی شاخوں سے جو بعد میں پتوں سے ڈھانپی ہوئی تھیں۔ اس سے مضبوط گھر کی اُنھیں ضرورت بھی نہیں تھی کیوں کہ سلطان کے ماں باپ کبھی بھی تین چار دن سے زیادہ ایک جگہ نہیں ٹھہرتے تھے اور مضبوط مکان نہ بنانے کی ایک وجہ یہ بھی کہ یہاں کبھی اتنی سردی نہیں پڑتی تھی۔
سلطان دس سال کا تھا لیکن پوری زندگی میں اس نے کبھی سلا ہوا کپڑا نہیں پہنا تھا۔ بلکہ درختوں کی چھال سے اس نے جسم کو ڈھانپا ہوتا تھا۔ چھال سے بنے کپڑوں کو اس نے رَسی سے باندھا ہوتا تھا۔ اسی رسی میں اس نے ایک تیروں سے لیس تَرکش اَڑسا ہوتا تھا۔ جو اس کے شانے کے پیچھے بندھا رہتا تھا۔
سلطان کا باپ ہمیشہ اوکاپی کی کھال سے بنی ایک انعامی پٹی اَوڑھتا تھا۔ اوکاپی وسط افریقہ میں قدیم زمانے میں پایا جانے والا جانور تھا۔ جو ہرن اور زیبرے سے ملتا جلتا تھا ’اوکاپی‘ کی جلد سے بنی یہ پٹی پگمیز کے لیے بہت اہم تھی۔ کیونکہ پگمیز کے قبیلے میں یہ مردانگی اور بہادری ظاہر کرنے کے لیے ایک سند تھی۔ سلطان کا والد اور قبیلے کے کچھ دوسرے افراد قبیلے میں سب کو بتاتے کہ شکاریوں نے اوکاپی کا شکار کیا ہے۔ تب قبیلے کے تمام افراد اپنی اپنی یہ عارضی رہائش چھوڑ دیتے اور وہاں آ کر اکٹھے ایک کیمپ بنا لیتے جہاں اوکاپی کا شکار ہوا ہوتا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ایک مشکل کام تھا لیکن نہیں …. کیونکہ قبیلے کا کوئی بھی فرد کوئی ملکیت نہیں رکھتا تھا ما سواے جنگلی لباس کے جو وہ پہنتے تھے۔ ہتھیار اور پھر سب سے بڑھ کر اوکاپی کی فخریہ پٹی ان کے جسموں کی زینت تھی۔ اس لیے قبیلے کا جگہ تبدیل کرتے رہنا بہت ہی آسان عمل تھا۔ ہاں مردہ جانور کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا زیادہ مشکل تھا۔ اس لیے وہ خود اس کے پاس آجاتے تھے۔
اوکاپی جنگل میں پایا جانے والا سب سے بڑا جانور تھا۔ وہ اتنا بڑا جانور تھا کہ سلطان کھڑا ہوتا تو اس کا سر بمشکل اوکاپی کے گھٹنوں تک پہنچتا اور اس کا باپ اوکاپی کے نیچے کھڑا ہو جاتا تو اس کا سر اوکاپی کے پیٹ کو بھی نہ چھوتا۔ سلطان اوراس کے ماں باپ پگمیز قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس قبیلے کے تمام افراد کا قد محض سوا میٹر ہی لمبا ہوتا تھا۔ اگرچہ اوکاپی بہت بڑا جانور تھا۔ لیکن وہ اتنا شرمیلا تھا کہ کوئی انسان شاید ہی اس کے پاس پہنچ سکتا۔ وہ اتنا ساکن کھڑا ہوتا تھا اور اس کی ٹانگوں پر زیبرے کی طرح ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی لکیریں بنی ہوتی تھیں۔ جن کا رنگ درختوں کے ننھے تنوں سے اتنا ملتا جلتا تھا کہ ایک پگمی ایک میٹر کے فاصلے پر کھڑے اوکاپی کا پتا نہیں چلا سکتا تھا۔
اوکاپی اتنی ہوشیاری سے اپنے بچوں کو چھپاتے تھے کہ بہترین نگاہ رکھنے والے شکاری بھی اِنھیں نہیں ڈھونڈ سکتے تھے۔ وہ اتنے مضبوط تھے کہ اپنی ایک ٹکر سے چھوٹے موٹے درخت کے دوٹکڑے کر سکتے تھے۔ وہ اتنے نڈر تھے کہ انسانوں کی بھیڑ پر بھی حملہ کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ جب بھی ایسا ہوتا قبیلہ رنج و غم کا شکار ہو جاتا۔ کیونکہ کوئی نہ کوئی اوکاپی کا شکار ہو جاتا۔ سلطان کے والد کا کہنا تھا کہ جو بھی اوکاپی کا گوشت زیادہ سے زیادہ کھاتا ہے۔ اس کی طرح مضبوط بہادر اور چالاک ہو جاتا ہے اور جو بھی اوکاپی کی پٹی پہنتا ہے وہ گویا جنگل کے دوسرے جانوروں ، پرندوں اور سانپوں کی نظر میں عزت دار گردانا جاتا ہے۔ کوئی آدمی تن تنہا اوکاپی کو مار نہیں سکتا تھا اس لیے اس کی جلد قبیلے کی ملکیت ہوتی تھی۔
قبیلے کے سب سے بوڑھے افراد اوکاپی کی جلد سے پٹیاں بناتے تھے اور پھر ان بہادر افراد کا تعین کرتے تھے جنھیں یہ پٹیاں ملنی ہوتی تھیں۔ جب بھی سلطان کی نظر اپنے والد کی پٹی پر پڑتی وہ سوچتا کہ ایک دن آئے گا جب وہ بھی یہ پٹی حاصل کر پائے گا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے والد کے مرنے کے بعد پٹی اسے نہیں مل سکتی کیونکہ اس کی پٹی اس کے ساتھ ہی دفن کر دی جائے گی۔ سلطان کے والد نے اسے ایک پھونکنی نما ہتھیار بنا کر دیا ہوا تھا اور اس میں استعمال کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے تیر بنانے کا طریقہ بھی بتایا۔
سلطان نشانے کو پکا بنانے کے لیے گھنٹوں مشق کیا کرتا تھا۔ وہ درختوں کا دور سے نشانہ لیتاتھا۔ تھوڑی سی مدت میں ہی سلطان ایک گلہری کی طرح اپنا سانس کھینچنے لگا تھا اور اس کا نشانہ بے مثال لگنے لگا تھا۔ دوسرے شکاری اپنے ساتھ زہر کی تھیلیاں رکھتے تھے۔ جو وہ اپنے تیروں پر مَل لیتے اور ان تیروں سے شکار کیے ہوئے جانور دوسرا سانس نہیں لیتے تھے لیکن ایک اوکاپی کے لیے تین یا چار زہر سے بجھے تیروں کی ضرورت ہوتی تھی۔ یہ زہر ایسا تھا کہ شکار ہوئے جانور کے سارے جسم میں یہ نہیں پھیلتا تھا۔ شکاریوں کو صرف زخم کے کناروں سے تھوڑا گوشت کاٹ کر پھینکنا پڑتا اور باقی گوشت وہ استعمال میں لا سکتے تھے۔
ایک دن سلطان کا والد عظیم دریاے کانگو کے کنارے کھڑا تھا۔ وہ مڑ کر قبیلے کے لوگوں کے پاس آیا اور انھیں بتانے لگا کہ اس نے دریا کے دوسرے کنارے پر تین اوکاپیز دیکھے ہیں۔ دریا کا دہانہ اتنا چوڑا تھا کہ قبیلے کے لوگوں نے اس پر اپنے روایتی جھولتے ہوئے پل بنانے کا کبھی نہیں سوچا تھا۔ اگلے دن قبیلے کے سارے شکاریوں نے دریا کنارے اپنے آپ کو شاخوں میں چھپا لیا اور خاموشی سے انتظار کرنے لگے۔ دوپہر کے وقت بہت سے اوکاپی دریا کے دوسرے کنارے پر پانی پینے آئے۔ اگلے دن بھی اُنھوں نے یہی نظارہ دیکھا۔ وہ سب جان گئے کہ عظیم اور بپھرے ہوئے دریا کے اس پار خوراک ہی خوراک ہے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ دوسرے کنارے تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے۔
آدھا قبیلہ دریا کے بہاﺅ کے ساتھ روانہ ہوا اور باقی آدھا دریا کے بہاﺅ کے مخالف۔ تا کہ دریا کے پاٹ میں کوئی ایسی تنگ جگہ دیکھی جا سکے جہاں یہ افراد درختوں سے لٹکی ہوئی بیلوں سے جھول کر دریا کے دوسرے کنارے پر کود سکیں۔
کئی دن گزر گئے لیکن کسی کو کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ حتیٰ کہ بڑے بوڑھے بھی دل چھوڑ گئے۔ اب ہر کوئی لمبی اور مضبو ط بیلیں کاٹنے میں جت گیا۔ بڑی بیلوں کو وہ تاروں کی طرح استعمال کرنا چاہتے تھے اور چھوٹی بیلوں کو رسیوں کے طور پر۔ لڑکوں نے اپنے بزرگوں سے شکاری چاقو ادھار لیے۔ وہ درختوں پر نوکیلی شاخیں کاٹنے لمبے لمبے درختوں پر چڑھے اور جائزہ لیا۔ آخر انھیں ایک درخت پر ایسی جگہ مل گئی جو اُونچی بھی تھی اورچوڑی بھی تھی۔ مضبو ط تھی اور دریا سے بہت اونچائی پر تھی۔ پھر اُنھوں نے وہاں بہت لمبی بیل باندھی اور قبیلے کا ایک شخص اس بیل سے جھول کر دوسرے کنارے تک جانے کو تیار ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ چھلانگ لگاتا اس پر لازم تھا کہ وہ بیل کو بہت مضبوطی سے تھامے۔ تاکہ وہ چھلا نگ کے دوران دریا کے پانی سے نہ ٹکرائے۔ ورنہ یہ یقینی تھا کہ اس کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ جاتیں اور وہ تیز پانی میں بہہ جاتا۔ بڑے بوڑھوں نے بیل کی لمبائی اور دریا کے فاصلے کا جائزہ لے لیا تھا۔ جھولنے والے شخص نے بہت لمبی چھلانگ لگائی تھی اگرچہ وہ پانی کو عبور کر گیا لیکن جھولے سے وہ اتنی اونچائی پر تھا کہ جھولے نے ایک سے زیادہ بار اسے جھلایا مگر آخر اس کے سفر کا اختتام وہیں ہوا جہاں سے شروع ہوا تھا۔
اس نے سب کو بتایا: ”میں نے دوسرے کنارے پر درخت کو پکڑنے کی بہت کوشش کی مگر کاش میں نے بیل کو ذرا نیچے سے پکڑا ہوتا۔ ورنہ پانی سے بچنے کے لیے میں نے جسم کو باآسانی سکیڑ لیا تھا۔“
اگرچہ معاملہ جما نہیں تھا پھر بھی سب نے اسے خاموشی سے قبول کرلیا۔ خاموشی کا مطلب تھا کہ قبیلے کے لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جھولنے والے نے ایک دفعہ پھر کوشش کی لیکن جھول کر ایک دفعہ پھر وہی نتیجہ نکلا یعنی جھولنے والا پھر وہیں آن پہنچا جہاں سب کھڑے تھے۔ اس دفعہ کوئی نہیں بولا۔ کیونکہ انھیں پتا تھا کہ یہ منصوبہ ناکام ہو گیا ہے۔
اس رات سلطان کو نیند نہیں آئی۔ وہ بیل کے اس جھولے کو ذہن سے نہیں نکال سکا۔ لیکن آدھے سوئے آدھے جاگتے اسے ایک سانپ کا خیال آیا۔ جسے وہ اکثر بیل سے لپٹا دیکھتا تھا۔ ایک لمبا جسم جو کچھ تنے کے ساتھ لپٹا ہوتا تھا اور لمبی دُم شاخ کے گرد۔ یہ دُم کئی دفعہ کسی جانور یا پگمی کے گرد بھی ان جانے میں لپٹ جاتی۔ اس نے سوچا ایک لمبی دُم ایک لڑکے کے جسم سے لپٹی ہوئی ہو تو….؟
سلطان کے پورے جسم میں اس خیال سے خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اگلی صبح سلطان نے رات آنے والا خیال اپنے والد کو بتایا۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنے جسم کے گرد لمبی بیل لپیٹ لے گا پھر وہ دونوں ہاتھوں سے بیل کو مضبوطی سے پکڑ لے گا۔ جب وہ جھولے کے نقطہ¿ عروج یعنی سب سے اُونچی جگہ پر پہنچے گا تو وہ بیل کو چھوڑ کر اس کے بل کھولتا بیل کے سب سے نچلے سرے تک پہنچ جائے گا اور یہ بیل کیونکہ اس کی کمر سے بندھی ہوگی لہٰذا اس کے دونوں ہاتھ خالی ہوں گے۔ اس لیے وہ با آسانی کسی چیز کو تھام لے گا۔ سلطان کے والد نے قبیلے کے بوڑھے لوگوں کو اکٹھا کیا اور اِنھیں اپنے بیٹے کو تجویز سے آگاہ کیا۔ جسے اُنھوں نے بڑی توجہ سے سنا اور پھر بولے:
”یہ ایک بوڑھے شخص کا ذہن ہے جو ایک چھوٹے بچے کے سر میں سما گیا ہے۔“ پھر کوئی درجن بھر نوجوان اس کام کو انجام دینے کے لیے رضا کارانہ طور پر آ گئے۔ ہر کوئی چاہتا تھا کہ وہ یہ کارنامہ سر انجام دے کیونکہ سلطان ابھی بچہ ہے۔ بوڑھوں نے نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ یہ کتنا خطرناک کام ہے۔ اگر تم نے تیزی سے بیل سے نیچے لڑھکنے کی کوشش کی تو آخری سرے تک پہنچتے تمھیں اتنا دھچکا لگ سکتا ہے جس سے تم زخمی ہو سکتے ہو اور اگر تم نے کوئی درخت یا شاخ نہ پکڑی تو دریا کے تند و تیز پانی میں بہہ سکتے ہو۔
سلطان بھی منھ بسور رہا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ خود یہ کام نہیں کر سکے گا۔ بالآخر اس نے خوش قسمت نوجوان کو دیکھا جس کی کمر سے اس کا والد اور قبیلے کے دوسرے بوڑھے بیل کو باندھ رہے تھے۔
نوجوان نے طویل سانس لیا اور چھلانگ لگا دی۔ یہ منظر ایسا تھا جو پرندے بھی خاموشی سے دیکھ رہے تھے۔ پھر اُنھوں نے دیکھا کہ نوجوان جب جھولے سے فضا میں سب سے اُونچی جگہ پرپہنچا تو اس نے اپنے ہاتھوں سے کَسی ہوئی بیل کو نرم کرنا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ اس نے بیل کے نچلے سرے کی طرف آنا شروع کیا اور دونوں کُھلے ہاتھوں سے دریا کے دوسرے کنارے موجود درخت کو تھامنے کے لیے تیار ہوگیا۔ ایک دفعہ تو وہ نظروں سے اوجھل ہی ہوگیا۔ پتوں کے ٹوٹنے کی آوازیں آئیں۔ کیا اس کی گرفت کامیاب ہو گئی تھی؟ یا وہ زخمی ہو گیا تھا؟ بیل اونچائی سے دریا کے پانی کی طرف آئی تو لوگوں کی خوشی سے چلاتی ہوئی آوازیں سنائی دینے لگیں۔
وہ محفوظ تھا اور اب بیل کو باندھ رہا تھا۔ وہ دوسرے کنارے تک ان لوگوں کا پہلا پل باندھ رہا تھا۔ کچھ منٹوں کے بعد اس نے چیخ کر بتایا کہ اس نے کام مکمل کر لیا ہے۔ پھر سلطان کے والد نے ایک بیل اپنی کمر کے گرد باندھی اور پہلی بندھی ہوئی بیل کے ذریعے دریا عبور کرنا شروع کردیا۔ اس کے بعد ایک اور نوجوان نے ایسا ہی کیا۔ لوگ دریا عبور کرتے گئے اور بیلیں دوسرے کنارے پر باندھتے گئے۔ حتیٰ کہ شام تک جب سارا قبیلہ دریا عبور کرگیا تو دونوں کناروں پر نازک مگر بہت مضبوط پل بن چکا تھا۔ وہ رات اسی پل کے نزدیک ہی سب سوگئے۔
اگلی صبح نوجوان شکاری ’اوکاپی‘ ڈھونڈنے نکلے۔ کچھ ہی دیر میں ایک اوکاپی کے شکار کی خبر آگئی۔ بچے اور عورتیں بھی بتائی ہوئی جگہ کی طر ف روانہ ہو گئے۔ جب سلطان شکاریوں کے پاس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ’اوکاپی‘ کی جلد اُتار لی گئی ہے مگر ابھی اس کی انعام والی پٹیاں نہیں کاٹی گئیں۔ اس کی آنکھوں میں انتظار تھا۔ جیسے ہر پگمی بچے کی نظر اوکاپی کی جِلد کی پٹی پر ہوتی ہے۔ اس پٹی سے پگمی لڑکے اپنا شکاری سفر شروع کرتے تھے۔ یہ ایسا اعزاز تھا جو قبیلے کے بوڑھے نوجوانوں کو دیتے تھے۔
سلطان سوچ رہا تھا کہ دیکھیں اس دفعہ اس اعزاز کا حقدار کون ٹھہرتا ہے۔ اس کی نظر میں اس پٹی کا حقدار وہ نوجوان تھا جس نے پہلی چھلانگ لگائی تھی۔ پھر قبیلے کے سردار نے چاقو سنبھالا اور جلد سے پٹی کاٹنی شروع کر دی۔ یہ تمام لوگوں کے لیے بڑے ذہنی تناﺅ کا مرحلہ تھا۔ پھر سلطان کی زبان اس کے دانتوں میں دَب گئی جب اس نے دیکھا کہ سردار کا چاقو اس کے ہاتھ میں پھسل گیا۔ پٹی عام لمبائی سے بہت چھوٹی کٹ گئی تھی۔ یہ کسی نوجوان کے سینے پر پوری نہیں آسکتی تھی۔
وہ قبیلے کے سردار کے لیے دل میں شرمندہ تھا اس نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو وہ سلطان کو ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ مسکرارہا تھا۔ چھلانگ لگانے والا نوجوان بھی بلکہ سب مسکرارہے تھے۔
سردار نے پٹی سلطان کے سینے پر اَوڑھا دی۔ پھر ایک چھوٹی سی تقریر کی۔ سلطان کو تقریر سمجھ نہ آئی۔ سردار کسی بوڑھے دماغ کو کسی نوجوان کے سر میں سمانے کا ذکر کررہا تھا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ لیکن جیسے ہی اس کی انگلیوں نے پٹی کا لمس محسوس کیا تو وہ یوں اَکڑ کر کھڑا ہو گیا کہ کم از کم اوکاپی کے گھٹنوں سے دس سنٹی میٹر اونچا ہوگیا ہوگا۔
٭….٭