skip to Main Content
اوکاپی: عجیب وغریب جانور

اوکاپی: عجیب وغریب جانور

محمد فرحان اشرف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اوکاپی دنیاکاعجیب وغریب جانورہے۔اس کاشمارجانوروں کے جرافیڈی خاندان سے ہے۔دنیامیں اس خاندان کی دوانواع اوکاپی اورزرافہ پائی جاتی ہیں۔اسے جنگلی زرافہ اورزیبرازرافہ بھی کہاجاتا ہے۔اس کی شکل وصورت زیبرے اورزرافے سے ملتی جلتی ہے ،اس اعتبارسے یہ زرافے کاقریبی رشتہ دارہے۔یہ ایک درمیانے قدکے زرافے جیسانظرآتاہے۔اس کے جسم کی اونچائی اس کے کندھوں تک4.9فٹ ہوتی ہے۔یہ سواآٹھ فٹ لمبااور350کلوگرام وزنی ہوتاہے۔اس کی گردن زرافے جیسی مگراُ س سے چھوٹی ہوتی ہے۔کان بڑے اورہاتھی کے کانوں کی طرح حرکت کرتے رہتے ہیں۔ اس کی کھال سرخی مائل بھوری اورپچھلی ٹانگوں پردُم تک زیبرے جیسی دھاریاں بنی ہوئی نمایاں نظرآتی ہیں۔اگراوکاپی کودورسے دیکھاجائے تویہ زیبرے کی طرح نظرآتاہے۔یہ دنیامیں صرف براعظم افریقہ کے ملک عوامی جمہوریہ کانگومیں پایاجاتاہے۔
یہ جانوراپنی عادات میں زرافے سے کافی حدتک مشابہت رکھتاہے۔بھاگتے وقت زرافے کی طرح چاروں ٹانگوں کوآگے کی جانب حرکت دیتاہے۔اس کی پچھلی ٹانگوں پرزیبرے کی طرح بنی ہوئی دھاریاں اسے دشمن سے بچنے میں مدددیتی ہیں۔ان دھاریوں کے باعث یہ جانورگھنی جھاڑیوں میں گھل مل جاتاہے اوردشمن کودکھائی نہیں دیتا۔اس کے کُھرزرافے کی طرح دوحصوں میں تقسیم ہوتے ہیں ۔اس کاچہرہ ،گلااورسینے کارنگ سفیدہوتاہے۔اس کی زبان زرافے کی طرح سیاہ لیکن اُس سے زیادہ لمبی ہوتی ہے۔زبان کی لمبائی ڈیڑھ فٹ ہوتی ہے۔اپنی زبان کی مددسے یہ اپنی آنکھیں اورکانوں کی صفائی کرتاہے۔نراوکاپی مادہ سے تھوڑابڑاہوتاہے اوراس کے سرپرکانوں کے آگے دوچھوٹے چھوٹے سینگ ہوتے ہیں جوبالوں میں چھپے ہونے کی وجہ سے نظرنہیں آتے۔ اس کی نظربہت تیزہوتی ہے، جس کی مددسے یہ رات کے وقت بھی دیکھ سکتاہے۔اس کے کان اورسونگھنے کی حس کافی تیزہوتی ہے۔اس کی زیادہ سے زیادہ عمر30سال ہے۔
اوکاپی سبزی خورجانورہے۔یہ زیادہ ترگھاس،پتے،پھل ،پھول اوردرختوں پرلگی ہوئی فنجائی کھاتاہے۔اپنی لمبی زبان کی مددسے درختوں کے تنوں میں موجودسوراخوں میں اُگے ہوئے پتے بھی کھاجاتاہے ۔یہ ایک دن میں خوراک کے حصول کے لیے5کلومیٹرکافاصلہ طے کرلیتاہے۔ یہ 100قسم کے درختوں کے پتے کھاتاہے۔ان میں سے کچھ درختوں کے پتے انسانوں کے لیے زہریلے ہوتے ہیں مگر اس جانورپران زہریلے پتوں کاکوئی اثرنہیں ہوتا۔اوکاپی بہت کم مقدارمیں پانی پیتاہے۔اس کی پانی کی زیادہ ضرورت سبزپتوں سے حاصل ہوجاتی ہے۔یہ جانوربھی گائے ،بھینس کی طرح جگالی کرتاہے ۔یہ بہت کم گوجانورہے اورزرافے کی طرح بہت کم آوازنکالتاہے۔یہ ایک دوسرے کوبلانے کے لیے شف شف جیسی ہلکی آوازیں نکالتے ہیں۔اس کابچہ بکری کے بچے کی طرح میں میں کی آوازنکالتاہے۔ خطرے کے وقت یہ موموجیسی آوازنکالتاہے۔اس کاسب سے بڑی دشمن تیندواہے۔تیندوے کوجیسے ہی موقع ملتاہے وہ اوکاپی اور اس کے بچوں کو شکارکرلیتاہے۔اسے چیتے اورجنگلی بلی سے بھی خطرہ رہتا ہے،جواس کے شکارکی تاک میں رہتے ہیں۔
مادہ اوکاپی سال میں ایک بارایک ہی بچہ پیداکرتی ہے۔پیدائش کے وقت بچہ زرافے کے بچوں سے ملتاجلتانظرآتاہے۔اپنی پیدائش کے آدھ گھنٹے بعدیہ اپنی ٹانگوں پرکھڑاہوجاتاہے۔اس کے جسم پرگھنے بال ہوتے ہیں جوآہستہ آہستہ ختم ہوجاتے ہیں۔مادہ اپنے بچے کوتین ماہ تک دودھ پلاتی ہے۔اُس دوران یہ بڑی تیزی سے نشوونماپاتاہے۔بچے زیادہ تراپنی ماں کے پاس رہتے ہیں،جودشمنوں سے انہیں محفوظ رکھتی ہیں۔اوکاپی دن کے وقت خوراک کی تلاش کے لیے چلتاپھرتاہے۔یہ شام کے وقت بھی کھاتاپیتانظرآتاہے۔رات کے وقت آرام کرنے کے لیے کسی بڑے درخت یاگھنی جھاڑیوں میں چھپ کرسوجاتاہے۔یہ اکیلارہناپسندکرتاہے۔نراوکاپی خوراک کے حصول کے لیے 13کلومیٹرتک کے علاقے میں گھوم پھرکرخوراک حاصل کرتاہے۔جب کہ مادہ ایک ہی جگہ پررہتی ہے اوروہیں سے اپنی خوراک حاصل کرتی ہے۔دیگرجنگلی جانوروں کی طرح یہ جانوربھی اپنے اپنے علاقے کی حدبندی کرتے ہیں۔نراپنے علاقے میں موجوددرختوں پراپنی گردن رگڑکرنشان لگادیتاہے۔یہ کسی دوسرے اوکاپی کواپنے علاقے میں برداشت نہیں کرتا۔اگرکوئی دوسرااوکاپی اس علاقے میں آجائے تویہ اسے ڈرانے کے لیے سرکونیچے کرلیتاہے اوراکثردولتی بھی جھاڑدیتاہے۔
دنیامیں ایشیاکے لوگ اس جانورسے صدیوں سے واقف تھے۔قدیم ایران کے شہرپرسی پولس کے ایک محل کی دیوارپراس کی کھال کی تصویرآج تک موجودہے۔ایک اندازے کے مطابق یہ کھال ایتھوپیا کے حکم ران نے ایران کے حکم ران کوبطورتحفہ دی تھی۔یورپ کے لوگ اس جانورسے انیسوی صدی عیسوی میں متعارف ہوئے۔جب یورپ کے مہم جوافریقہ کے مرکزی علاقوں میں پہنچے تب وہ پہلی باراس جانورسے آشناہوئے۔ہنری مارٹن سٹینلے نے اس جانورکاذکرپہلی مرتبہ اپنے ایک سفرنامے میں کیاتھا۔اس نے اوکاپی کوافریقی گدھاکہا،جب کہ مقامی لوگ اسے آتی کہتے تھے۔1882ء میں ایک انگریز ہیری جانسٹن کومقامی لوگوں نے اس کی کھال بطورتحفہ دی۔ہیری بعدمیں یوگنڈاکاگورنربھی رہاتھا۔اس نے بھی اس جانورکاذکربرطانیہ میں کیاتھا۔انگریزماہرحیوانات فلپ لٹلے نے 1901ء میں اس جانورپرباقاعدہ تحقیق کی اوراس کی درجہ بندی کی۔یہ ایک شرمیلاجانورہے،لیکن انسان سے جلدمانوس ہوجاتاہے۔یہ انسان کوخودپربطورسوارپسندنہیں کرتا،اس لیے اسے بطورسواری آج تک استعمال نہیں کیاجاسکا۔
اوکاپی کی نسل معدومیت کے خطرے سے دوچارہے۔ادارہ برائے تحفظ حیوانات کی فہرست میں یہ جانوربھی شامل ہے۔بیسوی صدی عیسوی میں انسانوں نے اس جانورکوکھال کے حصول کے لیے بہت زیادہ شکارکیا۔جس کی وجہ سے اس کی تعدادخطرناک حدتک کم ہوگئی۔1950ء کی دہائی میں بلجیم نے کانگومیں اس کے غیرقانونی شکارپرپابندی عائدکردی۔اُن دنوں کانگوپربلجیم قابض تھا۔کانگونے جب آزادی حاصل کی توحکومت کانگو نے اس کے تحفظ کے لیے چندعلاقوں کومخصوص کردیا۔اُ ن علاقوں میں اس جانورکے شکارپرمکمل پابندی تھی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top