skip to Main Content

اوہ! پاگل

عبدالرشید فاروقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جھینگروں کی آوازیں جنگل کے ماحول کو ہیبت ناک بنا رہی تھیں۔ وہ دونوں نہایت احتیاط سے آگے بڑھ رہے تھے۔ اُن کی تیز نگاہیں بڑی تیزی سے اِدھر اُدھر ہو رہی تھیں۔ اُن کی منزل ابھی بہت دُور تھی لیکن وہ پرجوش تھے۔ جلد از جلد منزل تک پہنچ جانا چاہتے تھے۔ معاً ایک نے اپنے ساتھی کو آہستہ سے پکارا۔
”گل احمد! اندازاً وہ بنگلہ کتنی دور ہو گا؟“
اُس کی آواز جھینگروں کی آوازوں میں دَبتی محسوس ہوئی تھی۔ دوسرے نے گردن گھما کر اُس کی طرف دیکھا، بولا:
”پندرہ بیس منٹ کا فاصلہ تو ہو گا ہی۔“
”اگر ہم اپنی رفتار بڑھا دیں ……؟“
”پھر شاید تین چار منٹ کم لگیں۔“ گل احمد نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اندھیرے کی وجہ سے اُس کا ساتھی اُس کی مسکراہٹ نہ دیکھ سکاورنہ یہ ضرور کہتا:
”کیا بات ہے، اِس خوف ناک جنگل اور اندھیری رات میں تم کیسے مسکرا سکتے ہو۔“
گل احمد کے ساتھی نے خاموشی سے اُس کی بات سنی اور پھر اُسی حالت میں وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ اُن کے درمیان ایک ڈیڑھ گز کا فاصلہ تو ضرور ہو گا۔
اچانک گل احمد کا ساتھی چیخ اُٹھا۔ جنگل میں ہلچل بپا ہو گئی۔ قریبی درختوں پر سوئے ہوئے پرندے ہڑ بڑا کر اُڑے:
”کیا ہوا احمد یار…… کیا ہوا؟“
”مم…… مجھے سانپ نے کاٹ لیا ہے، مم……مجھے……“ احمد یار کی آواز کانپ رہی تھی۔
”کیا کہا…… تمھیں سانپ نے کاٹ لیا ہے!“ گل احمد اُچھل ہی تو پڑا۔
”ہاں! یہ، یہ دیکھو…… سانپ ابھی تک یہیں پر ہے۔“ وہ پاؤں پکڑ کر بیٹھ گیا تھا۔
ا ُس سے ذرا آگے ایک لمبا سا سانپ موجود تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ سانپ حرکت نہیں کر رہا تھا۔ گل احمد نے جھک کر غور سے سانپ کو دیکھا۔ پھر سیدھا ہوتا ہوا اور بولا:
”بزدل آدمی! یہ سانپ نہیں ہے۔“
”یہ…… یہ سانپ ہی ہے، اِس نے مجھے کاٹا ہے۔“ احمد یار کی آواز میں کپکپاہٹ تھی:
”تمھارے ذہن پر خوف سوار ہے، جنگلی جانوروں اور سانپوں کا، اس لیے یہ چھڑی تمھارے پاؤں سے ٹکرائی تو تم سمجھے، سانپ نے کاٹ لیا ہے۔ یہ دیکھو! میں تمھارے اِس سانپ کو اُٹھا رہا ہوں۔“ گل احمد نے ہنستے ہوئے کہا اور پھر اُس نے جھک کر سانپ اُٹھا لیا۔ وہ واقعی ایک چھڑی تھی۔ زمین میں دھنسی ہوئی، اُس کا ایک سرا اُوپر کو اُٹھا ہواا باریک نوک لیے تھا۔ غالباً یہ نوک ہی احمد یار کے پاؤں پر لگی تھی۔’سانپ‘ کو اپنے دوست کے ہاتھوں میں دیکھ کر احمد یار کی جان میں جان آئی۔ وہ یک دم اُٹھ کر کھڑا ہو گیا:
”سس…… سوری، میں سمجھا……“ وہ شرمندہ تھا۔
”کوئی بات نہیں، حالات ہی ایسے ہیں۔ گزارش ہے کہ ذرا حوصلے سے کام لو، ہمیں ہر حال میں اپنی منزل تک پہنچنا ہے۔“ گل احمد نے کہا۔
”ٹھیک ہے، میں حوصلے سے کام لوں گا اور بلاوجہ تمھیں پریشان نہیں کروں گا۔“ احمد یار نے کہا۔
وہ ایک بار پھر اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگے۔ چھڑی گل احمد کے ہاتھ میں ہی تھی۔ انھوں نے ابھی تین چار منٹ کا فاصلہ طے کیا ہو گا کہ احمد یار ایک بار پھر رُک گیا۔ اُس کی نظر سامنے موجود ایک بڑے سے درخت کی جھکی ہوئی شاخ پر ٹکی تھیں۔ شاخ سے ایک موٹا، لمبا سانپ لٹک رہا تھا۔ وہ ہلکورے لے رہا تھا۔ اُس کے بوجھ سے ناتواں شاخ جھکی جا رہی تھی۔ گل احمد، احمد یار کے ساتھ ہی رک گیا تھا۔ وہ بھی سانپ کو دیکھ رہا تھا۔
”کیا یہ بھی سانپ نہیں ہے؟“
”یہ سانپ ہی ہے اور میرا خیال ہے، بڑا زہریلا ہے۔ ہمیں اِس سے بچ کر نکل جانا چاہیے۔“
”میں اس پر فائر کر وں؟“ احمد یار نے جیکٹ سے ریوالور نکالتے ہوئے کہا۔
”ہرگز نہیں، ہمیں بلاوجہ گولیاں ضائع نہیں کرنی ہیں۔ نہ جانے اس بنگلے میں کیا صورت حال ہو۔ آؤ، اس طرف سے نکل جائیں۔“ گل احمدنے کہا اور پھر احمد یار کا ہاتھ پکڑ کر درخت کی دائیں سمت سے آگے نکل گیا۔ اُن کا سفر ایک بار پھر شروع ہو گیا۔ دفعتہ گل احمدنے کلائی گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ گھڑی کے نمبر چمک رہے تھے۔
”دس بج کر تیس منٹ ہوئے ہیں اور میرا خیال ہے کہ دس، گیارہ منٹ کا فاصلہ مزیدہو گا۔“
”گل احمد! خان بابا اِس وقت کہاں ہوں گے؟“ احمد یار نے بدستور قدم بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
”خان بابا، خیال تو یہی ہے کہ وہ بلا کی قید میں ہوں گے……“ گل احمد نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
”بلا کی قید میں؟“ احمد یار نے گردن گھماکر اُس کی طرف دیکھا۔
”ہاں! کیاتم بھول گئے، راشودادا نے کہا تھا، تمھارے خان بابا میری قید میں ہیں۔ اُن کی زندگی چاہتے ہو تو جنگل میں واقع پراسرار بنگلے سے سرخ رنگ کا بُت لا دو۔ اُس نے یہ بھی کہا تھا کہ اس بنگلے میں موت کا ڈیرا ہے……“ گل احمد کہتا چلا گیا۔
”ہوں! بنگلے میں جانا،کیا ہمارے لیے ٹھیک ہو گا؟“ احمد یار نے پوچھا۔
”میرا نہیں خیال، وہاں ہماری زندگیاں محفوظ ہوں گی لیکن میرے اچھے دوست! خان بابا کی زندگی کے سامنے ہماری زندگیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ ہم اپنی جانوں پر کھیل کر اُنھیں بچائیں گے۔“ گل احمد کا لہجہ بڑا مضبوط تھا۔ ایک عزم تھا جو اُس کے لہجے سے عیاں تھا۔
”واقعی! خان بابا بہت قیمتی ہیں، ہم ہر حال میں انہیں دشمن کی قید سے آزاد کرائیں گے۔“ احمد یار نے کہا۔
”ان شاء اللہ!“ گل احمد نے کہا اور پھر یکایک ٹھوکر کھا کر گرا۔ ایک پتھر اُس کی راہ میں حائل ہوا تھا۔ وہ اُٹھا اور ایک بار پھر چلنے لگا۔
چلتے چلتے انہیں ایک عمارت دکھائی دی۔ وہ اندھیرے ہی کا حصہ معلوم ہو رہی تھی۔وہ رُک گئے۔ گل احمد نے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ دس بج کر پینتالیس منٹ ہوئے تھے۔
”لگتا ہے یہی وہ بنگلہ ہے، جہاں سے ہمیں سرخ بت حاصل کرنا ہے۔“ گل احمد نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔
”یار! یہ تو بہت ڈراؤنا ہے اور پراسرار بھی……“ احمد یار نے کہا۔
”درست کہا تم نے اور میں سمجھتا ہوں، اندر جا کر ہمیں بہت مشکل حالات سے دوچار ہونا پڑے گا……“
”ہمارے پاس ایک ایک جدید ریوالور اور ایک ایک خنجر ہے، کیا یہ کافی ہوں گے؟“ احمدیار نے گل احمد کو دیکھا۔اُن کی آنکھیں کافی حد تک اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوگئی تھیں۔
”ریوالور اس قدر خوبیوں کے مالک ہیں کہ ہمیں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ آؤ اللہ کا نام لے کر اندر جاتے ہیں، وہ مدد کرنے والا ہے۔“ گل احمد نے کہا۔
اور پھر وہ قرآنی آیات کا ورد کرتے ہوئے عمارت کے بڑے مگر بوسیدہ سے دروازے کی طرف بڑھنے لگے۔دروازہ چوپٹ کھلا ہوا تھا۔ انھوں نے اردگرد کا جائزہ لیا اور پھر اللہ کا عظیم نام لے کر عمارت میں داخل ہو گئے۔ وہ جیسے ہی اندر داخل ہوئے۔ بوسیدہ مگر بڑا سا دروازہ بند ہوتا چلا گیا۔
انھوں نے پلٹ کر دیکھا اور پھر خوف سے ان کے چہرے سیاہ پڑ گئے۔ احمد یار کی حالت بہت خراب تھی۔ گل احمد نے اس کی طرف دیکھا اور آہستہ سے بولا:
”ہم یقینا کسی پراسرار چکر میں پھنس گئے ہیں، اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔“ اس کی آواز کسی گہرے کنوئیں سے آتی محسوس ہو رہی تھی۔
دونوں نے اپنے جدید ریوالورز نکال کر ہاتھوں میں لے لیے۔پھر احمد یار بولا:
”مجھے…… مجھے تو ڈر لگ رہا ہے……“
”میرے دوست! جب اوکھلی میں سر دیا ہے تو موسلوں سے کیا ڈرنا! ہم یہاں اپنے خان بابا کی زندگی بچانے آئے ہیں۔ ہمیں ہر حال میں وہ سرخ بت حاصل کرنا ہو گا۔“ گل احمد نے کہا۔ اس نے خود کو سنبھال لیا تھا یا شاید وہ جان گیا تھا کہ ڈرنے یا گھبرانے سے وہ اپنے لیے مشکلات ہی پیدا کریں گے۔ ہمت اور حوصلے سے حالات کا سامنا کریں گے تو ممکن ہے اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہریں۔وہ خاموش ہوا ہی تھا کہ یکایک بادلوں کی اوٹ میں چھپے رہنے کے بعد چاند سامنے آ گیا۔ ایسا ہوتے ہی اس کی روشنی بنگلے کے ماحول میں تبدیلی پیدا کر گئی۔ ہر چیز صاف اور واضح دکھائی دینے لگی۔ وہ دونوں بنگلے کے خوبصورت لان میں کھڑے تھے۔ لان کی گھاس بہت بڑی بڑی تھی۔ ان کے سامنے، لان سے آگے تین راستے دکھائی دے رہے تھے۔ ایک راستہ گھوم کر غالباً بنگلے کے پچھلے حصے کی طرف جا رہا تھا۔ ایک سامنے والے دروازے کی طرف اور ایک راستہ دائیں طرف موجود چھوٹے چھوٹے کمروں کی ایک قطار کی طرف۔ پورے بنگلے میں خاموشی کا راج تھا۔ لان کے دائیں بائیں لمبے لمبے درخت سینہ تانے کھڑے تھے۔ نہ جانے وہ کس قسم کے درخت تھے۔ ان کے پتے ہاتھی کے کانوں کی صورت پھیلے ہوئے تھے۔
گل احمد اور احمد یار خود کو سنبھال چکے تھے او رآنے والے لمحوں کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے۔ گل احمد بولا:
”میرا خیال ہے، ہمیں درمیان والے راستے سے اندر جانا چاہیے۔ بُت اگر ہو گا تو اندرونی حصے میں ہو گا۔ اندر کامیابی نہ ہوئی تو پھر باقی دونوں راستے بھی استعمال کریں گے۔“
”ٹھیک ہے……“ احمد یار نے کہا اور پھر وہ لان عبور کر کے درمیان والے راستے پر ہو لیے۔ راستے کے آخر پر بنگلے کے اندرونی حصے کا دروازہ تھا۔ دیار کی لکڑی سے بڑا مضبوط دروازہ بنایا گیا تھا۔ گل احمد نے احمد یار کی طرف نظر بھر کر دیکھا اور پھر اس نے بائیں ہاتھ سے دروازے پر دباؤ ڈالا۔ہلکی سی چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلتا چلا گیا۔ وہ ایک ایک قدم پیچھے ہٹ گئے۔ حیرت کی بات تھی، ہلکا سا دباؤ ڈالنے سے پورا دروازہ چوپٹ کھل گیا تھا۔ دروازے کے کھلتے ہی بڑی تیز روشنی ان کی آنکھوں سے ٹکرائی۔ انھوں نے گھبرا کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے تھے۔ چند لمحوں بعد آگے بڑھے تو معاً ایک بڑی سی چمگادڑ اُن کے قریب سے گزر کر باہر نکل گئی۔ وہ ڈر کر نیچے بیٹھ گئے۔ احمد یار نے گل احمد کی طرف دیکھا۔ وہ بولا:
”ڈرو نہیں …… ایسی جگہوں پر ایسے واقعات تو ہوتے ہی ہیں۔“
پھر وہ آگے بڑھے اور اندر داخل ہو گئے۔ یہ ایک بہت بڑا ہال تھا۔ جس میں تکون کی شکل کے بلب جل رہے تھے۔ ان بلبوں سے اس قدر تیز روشنی خارج ہو رہی تھی کہ اس سے قبل انھوں نے ایسی تیز روشنی کبھی نہیں دیکھی تھی۔ تکونی بلب ہال کی گول چھت سے جھانک رہے تھے۔
دونوں دوست بار بار ایک دوسرے کو دیکھتے تھے۔ وہ ذرا آگے بڑھے تو چونک اُٹھے اورپھر ساتھ ہی عقب میں گھوم گئے۔ ہال کا دروازہ خود بہ خود بند ہو گیا تھا۔ وہ تیزی سے واپس پلٹے:
”اللہ رحم کرے، یہاں تو ہمیں باقاعدہ قید کیا جا رہا ہے۔“ احمد یار کے لہجے میں خوف تھا۔ گل احمد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ بڑی گہری نظروں سے ہال کا جائزہ لے رہا تھا۔
گول ہال کی دائیں سمت ایک گول سا دروازہ نظر آ رہا تھا۔ گل احمد آہستہ آہستہ اس دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ احمد یار اس کے پیچھے تھا۔ دونوں کے درمیان تین فٹ کا فاصلہ تھا۔ وہ جیسے ہی دروازے کے دو گز قریب پہنچے۔ ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی اور وہ دھڑام سے خلا میں گرے اور گرتے چلے گئے۔ ان کے حواس ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔

O

وہ جب ہوش میں آئے تو حیران رہ گئے۔ وہ رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ اُن کے سامنے کچھ فاصلے پر جنگلی گھاس پر بڑے بڑے سانپ رینگ رہے تھے۔ مختلف سائز میں، مختلف قسموں کے سانپ۔ اس قدر سانپ انھوں نے اس سے قبل نہیں دیکھے تھے۔ باوجود اس کے کہ وہ جس علاقے میں رہتے تھے، وہاں بے تحاشا سانپ پائے جاتے تھے بلکہ اس علاقے کو سانپوں کی نگری سے یاد کیا جاتا تھا۔
سانپوں اور ان کے درمیان قریباً پانچ گز کا فاصلہ رہا ہو گا۔ عجیب بات یہ تھی کہ کوئی سانپ اُن کی طرف رُخ نہیں کر رہا تھا۔ ان کی نظریں سانپوں سے ہٹ کر ذرا آگے اُٹھیں تو وہ حیرت سے اُچھل ہی تو پڑے۔ اُن کی آنکھوں میں خوف ہی خوف تھا۔
اُن کے سامنے ایک لمبا تڑنگا آدمی ٹانگیں پھیلائے کھڑا تھا۔ اُس کا رنگ توے کی مانند سیاہ تھا۔ اُس کے بڑے بڑے دانت منہ سے جھانک رہے تھے۔ بدن پر ریچھ جیسے بال تھے۔ اس کے بازو اس قدر بڑے تھے کہ نیچے گھاس کو چھوتے محسوس ہو رہے تھے۔ وہ اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اچانک اُس کے منہ سے باریک سی آواز نکلی:
”تم اس بنگلے میں کیا لینے گئے تھے……؟“
احمد یار نے بے اختیار تھوک نگلا اور پھر تھرتھرائی ہوئی آواز میں بولا:
”ہم …… ہم ……! اس بنگلے میں …… ہم اپنی مرضی…… سے نہیں گئے تھے۔ دراصل…… ایک ظالم انسان…… راشو نے ہمارے پیارے خان بابا کو اغوا کر لیا ہے…… راشو نے خان بابا کی رہائی کے لیے…… بنگلے میں موجود سرخ بت کی شرط رکھی تھی…… اس نے کہا تھا…… اگر اپنے خان بابا کی زندگی اور…… رہائی چاہتے ہو تو اسے سرخ بت لا دو…… ہم وہی سرخ بت لینے آئے ہیں۔“
”یہ راشو کون ہے اور اس نے تمھارے خان بابا کو اغوا کیوں کیا ہے؟“ باریک سی آواز دوبارہ اُبھری۔
”راشو ہماری بستی کے ساتھ پہاڑوں میں رہتا ہے۔ وہ ہم بستی والوں کو بہت تنگ کرتا ہے۔ بڑا ظالم اور سنگ دل انسان ہے۔ اس کے پاس ایک خوف ناک بلا بھی ہے۔ وہ بستی میں سے کسی کو پکڑ کر لے جاتا ہے اور پھر اس آدمی کا کوئی پتا نہیں چلتا۔ کسی پہاڑ کے اوپر انسانی ہڈیاں ملتی ہیں۔ بستی والوں کا خیال ہے، راشو کی بلا اغوا ہونے والوں کو کھا جاتی ہے۔“ اس بار گل احمدنے کہا۔
”تم میں سے کسی نے اُس بلا کو دیکھابھی ہے؟“ دیو قامت آدمی نے پوچھا۔
”کسی نے اُس بلا کو نہیں دیکھا۔“
”راشو سرخ بت کا کیا کرے گا؟“
”ہم نہیں جانتے، ہم تو اپنے خان بابا کی زندگی کے لیے اس بنگلے میں گئے تھے……“ گل احمد نے کہا۔ دیو قامت انسان خاموشی سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر اُس نے ہاتھ پیچھے کر کے اپنے عقب سے کوئی چیز اُٹھائی اور ایک دم اُن کے سامنے لہرانے لگا۔ اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چیز دیکھ کر دونوں چیخ اُٹھے۔ دیوقامت آدمی کے ہاتھ میں موجود وہ چیز راشو کا سر تھا۔
”خاموش……“ دیو قامت آدمی نے زور سے کہا۔ دونوں یوں خاموش ہوئے، جیسے اس کے حکم کے منتظر تھے۔ وہ دوبارہ بولا:
”تم اِس آدمی کو جانتے ہو؟“
”ہاں …… ہاں …… یہی تو راشو تھا…… مم…… مگر…… مگر……“ احمد یار بات پوری نہ کر سکا۔
”سنو! میرا نام جلوٹا ہے۔ میں اس بنگلے میں رہتا ہوں، جہاں تم سرخ بت لینے گئے تھے۔ جانتے ہو، میری خوراک کیا ہے؟“وہ ہنسنے لگا۔ اُس کی ہنسی بڑی عجیب تھی۔جیسے کوئی مچھر گنگنایا ہو۔
”ہمیں کیا معلوم؟“ احمد یار نے جلدی سے کہا۔
”میں انسان اور سانپ کھاتا ہوں ……“اُس نے ہلکا سا جھکتے ہوئے کہا۔
”کیا!!!“ وہ پوری قوت سے چیخ اُٹھے۔
احمد یار کی چیخ بڑی تیز تھی۔پھر وہ زور سے بولا:
”گل احمد! بھاگو…… یہ ہمیں نہیں چھوڑے گا۔“
وہ مڑے اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنے لگے۔ دیو قامت آدمی انہیں بھاگتے دیکھ کر زور زور سے ہنسنے لگا۔ پھر وہ اُن کے پیچھے لپکا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ وہ تیزی سے گرتے پڑتے بھاگ رہے تھے اور دیو قامت آدمی اُن کے پیچھے لمبے لمبے ڈگ بھر رہا تھا۔ آسمان پر موجود چاند یہ بھاگ دوڑ دیکھ رہا تھا۔ وہ بھاگتے بھاگتے ایک چھوٹی سی کھائی میں گرتے چلے گئے۔
”کیا ہوا میرے بھائی…… چیخ کیوں رہے تھے اور تم چارپائی سے نیچے کیا کر رہے ہو؟“ باجی کی پریشان کن آواز سن کر اُس نے چونک کر اُنھیں دیکھا۔ وہ پریشان نظروں سے اُس کے اُوپر جھکی ہوئی تھیں:
احمد یار نے جلدی سے اِرد گرد دیکھا اور پھر اُس کے منھ سے بڑے زور سے ’اوہ‘ نکل گیا۔ پھر جیسے ہی اُس کی نظر قریب پڑے ناول پر پڑی تو وہ بے ساختہ مسکرانے لگا۔
”کیا ہوا…… مسکرانے کیوں لگے بھائی؟“ باجی کچھ سمجھ نہ پائیں۔
اُس نے جلدی سے ناول اُٹھایا اور بستر پر لیٹ گیا۔
”یہ صاحب آج پھر نیند میں کوئی کارنامہ انجام دیتے ہوئے، چارپائی سے نیچے گر گئے ہوں گے……ہونہہ! یہ تو ایسا ہی ہے، تم کیوں اپنی نیند خراب کر رہی ہو۔“
احمد یار، اباجان کی آوازسن کر مسکرادیا۔
”باجی! اپنے بستر پر جائیے نا……“ احمد یار نے اُن کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ میں پکڑا ہوا ناول لہرایا تو اُن کے منھ سے بے اختیار نکلا:
”اوہ!پاگل……“
پھر وہ بُرے بُرے منھ بناتیں اپنے بستر کی طرف بڑھ گئیں ……

OOO

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top