نور کی برسات
سمیراانور
۔۔۔۔۔
بارش کے ننھے قطرے اُس کے معصوم چہرے کو چھونے لگے تھے۔ اُس کی آنکھوں سے بھی ’ٹپ ٹپ‘ آنسو بہنے لگے جو بارش کی بوندوں میں خاموشی سے جذب ہونے لگے۔ہر طرف خاموشی کا راج تھا،ہلکی ہلکی سسکیوں نے اردگرد کی ہر شے کو اداسی کی چادر میں لپیٹ لیا تھا۔دریا کی لہریں پلٹ کر اُس کے آنسوؤں سے تَرچہرے کو بغور دیکھتیں تو کچھ نہ سمجھتے ہوئے بادلوں کی طرف تعجب سے دیکھنے لگتیں جو پہلے سے ہی دکھی اورغم گین دکھائی دے رہے تھے۔دریا کے کنارے پر آبی پودوں کا راج تھا جو مختلف رنگ کے پھولوں سے بھرے ہوئے تھے۔ ان پھولوں نے جب وہ ہچکیاں سنیں تو بے تاب ہو کر اُسی طرف دیکھنے لگے جدھر سے وہ آواز آرہی تھی۔نیلی چڑیا نے اپنے گھونسلے سے نیچے جھانکا تواُسے درخت کے نیچے ایک ننھا سا بچہ بیٹھا دکھائی دیا جو بے تحاشا آنسو بہا رہا تھا۔بی مرغابی جو بارش کی وجہ سے ایک جھاڑی میں چھپی بیٹھی تھی، وہ بھی سسکیاں سن کر باہر نکل آئی اور اس طرف دیکھنے لگی جس طرف وہ ننھا سا وجود بیٹھا تھا۔کچھ ہی دیر میں سرمئی چڑیا،کوا اور کبوتر بھی وہاں چلے آئے۔ ہلکی ہلکی بارش نے ہر طرف جل تھل کر دی تھی۔وہ سب سوچنے لگے کہ یہ بچہ جانے کیوں اس طرح رو رہا ہے۔ اسے کیا پریشانی ہوسکتی ہے؟۔بی مانو بھی اپنے بچوں کے ساتھ اِدھر ہی چلی آئی۔
”بی مرغابی تم اس سے پوچھو کہ کیا بات ہے؟اسے ایسا کیا دکھ اور پریشانی ہے جواس طرح سے آہ و زاری کر رہا ہے۔“ سرمئی چڑیا نے سرگوشی کی۔
”بی مانو آگئی ہے،اس سے بات کرتے ہیں۔“ مرغابی نے جواب دیا۔
”کبوتر میاں! اس ننھے بچے کو کیا ہوا ہے؟اس کی آواز سن کر میرے دل کو کچھ ہوا ہے اور مجھے ایسا لگا کہ جیسے زندگی بلک رہی ہے۔“ بی مانو نے سوچ میں گم کبوتر سے پوچھا۔
”ہم میں سے کسی کو بھی کچھ معلوم نہیں ہے بی مانو،آپ ہی کوئی مشورہ دیجیے۔یہ ہماری زبان بھی تو نہیں سمجھ سکتا اس لیے ہم اس کی کیا مدد کریں گے۔“ کوے نے بی مانو کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
”ارے ہاں،یہ تو ہماری زبان سمجھتا ہی نہیں ہے،ہم کس طرح اس سے کچھ پوچھ سکتے ہیں۔“ بی مرغابی نے بھی پریشان ہوتے ہوئے کہا۔
”مجھے لگتا ہے یہ روتے روتے سو گیا ہے،اب صرف ہلکی ہلکی سسکی سنائی دے رہی ہے،شایدغنودگی میں چلا گیا ہے۔“ نیلی چڑیا نے اس ننھے بچے کے کچھ قریب آ تے ہوئے انھیں بتایا۔
”اس ویران جگہ میں اس بچے کا تنہا رہنا اچھا نہیں ہے،اسے ہماری مدد کی ضرورت ہے۔“ کوے نے کہا۔
”آج سب ادھر ہی ٹھہر جاؤ،تاکہ اس بچے کی حفاظت کر سکیں۔“ بی مرغابی نے کہا۔
”تم سب اپنے کھانے پینے کی چیزیں ادھر ہی لے آؤ،ہم مل کر کھاتے ہیں تب تک یہ بھی نیند سے بیدار ہو جائے گا۔“ کبوتر نے کہا تو اس کی بات سن کر سر مئی چڑیا سوچ میں پڑ گئی اور بولی:”میرے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے،میں نے اپنے بچوں کے لیے دانہ دنکا لینے جانا ہے۔“
”تم فکر نہ کرو،میرے پاس کافی اناج ہے۔تم اپنے بچوں کو لے آؤ ہم سب مل جل کر کھا لیں گے۔نیلی چڑیا نے کہا تو کبوتر نے بھی سر ہلاتے ہوئے اس کا ساتھ دیا۔
”اس دریا پر روزانہ ایک بزرگ اللہ کی تسبیح و ثنا کے لیے آتے ہیں،آج اگر وہ آجائیں تو وہ ضرور اس بچے کو یہاں سے لے جائیں گے۔“بی مرغابی نے کہا تو وہ سب خوش ہوگئے اور بے تابی سے بزرگ کا انتظار کرنے لگے۔ان سب نے تھوڑا تھوڑا کھانا کھایا اور اس بچے کے اردگرد بیٹھ گئے جوگہری نیند میں چلا گیا تھا۔
٭٭
بی مانو نے جوں ہی پیچھے دیکھا تو وہ بزرگ دریا کی لہروں پر نظر دوڑاتے ہوئے اللہ کی ثنا میں گم تھے۔اس نے سب کو اشارہ کیا اور اپنے ساتھ چلنے کا کہا۔سرمئی چڑیا،نیلی چڑیا،بی مرغابی،کبوتر اور کوے میاں بی مانو کی سر براہی میں ان بزرگ کے قریب پہنچ گئے۔ جو اچانک اپنے اردگرد پرندے اور جانور دیکھ کر حیران ہوئے اور پھر ان کے اشارے پر اس درخت کی طرف دیکھنے لگے، جس سے ٹیک لگائے کوئی بیٹھا تھا۔ انھوں نے کچھ قریب جا کر دیکھا تودس سال کا ایک بچہ اپنا سر گھنٹوں میں چھپائے ہوئے تھا۔انھوں نے جوں ہی قریب جا کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھاتو وہ ہڑ بڑا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ بزرگ کو اس کے قریب پہنچتا دیکھ کر بی مانو نے سب کو اپنے اپنے گھروں میں جانے کا کہااور خود بھی اپنے گھر کی طرف چل دی۔اس بچے کے چہرے پر آنسوؤں کے نشان تھے۔بزرگ نے اپنا ہاتھ اس کے بالوں پر پھیرا تو وہ حیران ہوتے ہوئے بولا:
”بابا جی آپ کون ہیں؟“
”بیٹا! اللہ کا بندہ ہوں۔ اللہ اور اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔“ انھوں نے جواب دیا۔
”تم بتاؤ،اس سنسان جگہ پر اکیلے کیا کر رہے ہو؟۔“ اُسے خاموش دیکھ کر وہ سفید لباس والے بزرگ بولے۔
”میرانام انس ہے۔ میرا گھر یہاں سے کچھ دور ہے،میں اپنی مرضی سے اس پرسکون جگہ پر آیا ہوں تاکہ اپنے دل کا غبار نکال سکوں۔“
اس کی بات سمجھ کر وہ کچھ سوچنے لگے اور بولے:”ایسی کیا بات ہے،جو تمہیں پریشان کر رہی ہے۔“
”میرا تعلق ایک امیر گھرانے سے ہے،میرے والدین مجھے کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیتے،میرے پاس ہر چیز موجود ہوتی ہے لیکن چند دن بعد سب ختم ہو جاتا ہے۔مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی،میری سب چیزیں نہ جانے کہاں جاتی ہیں۔کوئی بھی میری بات نہیں سمجھتا،صرف یہ کہتے ہیں کہ میرا وہم ہے۔“ وہ پریشانی سے بولا۔”مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شاید مجھ سے کچھ غلط ہوتا ہے،اس لیے سب غائب ہو جاتا ہے۔“
اس کی بات سن کر وہ بزرگ مسکرائے اور بولے:”مجھے تمہاری بات سمجھ میں آگئی ہے۔ تم اس وہم کی تلاش میں یہاں آئے ہو۔ اچھا ادھر بیٹھ جاؤ۔“
”جو پوچھوں گا وہ سب سچ سچ ہی بتاؤ گے۔“ وہ اس کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئے۔ان کی بات سن کر انس نے سر ہلایا۔
”تمہارا کوئی چچا زاد یا کوئی رشتے دار تمہارے گھر میں یا آس پاس رہتا ہے۔“ ان کا سوال سن کر وہ ایک لمحے کے لیے کچھ نہ سمجھ سکا پھر سوچتے ہوئے بولا:”احمر میرا چچا زاد ہے۔ اس کا گھر ہمارے گھر کے بالکل ساتھ ہے،وہ اسکو ل بھی میرے ساتھ جاتا ہے۔“
”اس کے والد کیا کام کرتے ہیں؟“ وہ بزرگ پوچھنے لگے۔
”اس کے والد یعنی میرے چچا مزدور ہیں۔ ایک فیکٹری میں کام کرتے ہیں،ان کا گزر بسر مشکل سے ہوتی ہے۔“ انس نے جواب دیا۔
”اچھا تو کیا کبھی احمر نے تم سے کچھ مانگا،کسی طرح کی کوئی مدد کی درخواست کی یا تم نے خود سے اسے کوئی تحفہ دیا ہو۔“ ان کا سوال سن کر وہ بوکھلا گیا۔
”احمر نے کبھی کچھ نہیں مانگا،میں اس کے سارے حالات جانتا ہوں لیکن پھر بھی میں نے کبھی اس کی مالی مدد نہیں کی اور نہ ہی کبھی تحائف دیے۔“اس نے صاف گوئی سے سر جھکاتے ہوئے جواب دیا۔
”بیٹا! تم نے سچ بول کر بہت اچھا کیا،ورنہ شاید میں تمہاری کوئی مدد نہ کر سکتا اور نہ اس پریشانی کا حل نکال سکتا۔“ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولے۔
”صلہ رحمی کا مطلب جانتے ہو،اس کے بارے میں کچھ علم ہے۔“ انھوں نے اس کے حیران ہوتے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔اسے خاموش دیکھ کروہ پھر بولے:”اچھا یہ بتاؤ کیا تم حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں جانتے ہو؟“
”جی ہاں میں نے پڑھا ہے وہ صحابی رسول ﷺ تھے اور بہت چھوٹی عمر میں ان کی والدہ نے انھیں آپ ﷺ کے سپرد کر دیا تھا۔ اس کے بعد آپ ﷺ کی وفات تک کم و بیش دس برس تک خدمتِ رسولﷺ کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔“ اس نے بہت خوش ہوتے ہوئے جواب دیا۔
”ماشاء اللہ۔شاباش۔اس جواب کے انعام میں تمھیں ایک حدیث سناتا ہوں،کیوں کہ اسی میں تمہاری پریشانی کا حل بھی موجود ہے۔“ انھوں نے اسے سراہا۔
”حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
”جس شخص کو یہ بات پسند ہے کہ اُس کے رزق میں فراخی اور اس کی عمر میں اضافہ کیا جائے تو اُسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔“
(صحیح بخاری:5986)
”صلہ رحمی کا مطلب ہے اپنے قریبی رشتے دار وں سے اچھے تعلقات قائم کرنا،اُن کے ساتھ اچھا سلوک کرنا،اُن کے دکھ درد میں شریک ہونا۔اپنے مال سے اُن کی مدد کرنا ہے،اگر رشتے دار غریب ہیں تو انھیں صدقہ دینا۔اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہوتے ہیں اور جو صلہ رحمی کرتا ہے اس کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے اور مالی طور پر اس کی پریشانیاں ختم ہوجاتی ہیں۔“
”بیٹا! اصل میں تمہاری چیزیں گم نہیں ہوتیں،بلکہ ان میں بے برکتی ہو جاتی ہے اور وہ منٹوں میں ختم ہو جاتی ہیں۔“ ان کی بات سن کر وہ سارا معاملہ سمجھ گیا۔
اُس کی آنکھیں احساسِ شرمندگی سے جھک گئیں۔ اظہر اس کا خالہ زاد ہے،اس کے والد کا انتقال ہوچکا ہے وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ محنت ومزدوری کرتا ہے۔اُن کے حالاتِ زندگی کے بارے میں جاننے کی اس نے کبھی کوشش ہی نہیں کی تھی کہ اُن کے گھر کا گزر بسر کیسے ہوتا ہے؟اُسے توکبھی ایسا خیال ہی نہیں آیا تھاکہ انھیں اس کی مدد کی ضرورت ہے۔
بابا جی نے اُس کا کندھا تھپتھپایا اور اپنے راستے پر چل پڑے۔انس کے قدم بھی اپنے گھر کی طرف اٹھ گئے لیکن اس کا دل اور دماغ ”شانِ مصطفیٰ“ کی روشنی سے بھرنے لگا۔جس نے اس کی زندگی ہی بدل دی تھی۔ بارش تھم چکی تھی لیکن اس کے دل پر نور کی برسات شروع ہو چکی تھی۔اُس نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ احمر اور اظہر کی ہر طرح سے مالی مدد کرے گا اور اپنے والدین کے ساتھ مل کر باقی رشتہ داروں کی خبر گیری بھی کرے گا کیوں کے اُسے اپنی چیزوں کے غائب ہونے کی اصل وجہ سمجھ میں آچکی تھی۔