حضرت نوح علیہ السلام
حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں آنے کے بعد ان کی اولاد دنیا میں خوب پھلی پھولی، لیکن ایک مدت گزر جانے کے بعد وہ لوگ خدا کو بھول چکے تھے اور ایک خدا کی بجائے انہوں نے مٹی اور پتھر کے کئی خدا بنالیے تھے، نہ صرف ان کی عبادت گاہیں بتوں سے اٹی پڑی تھیں بلکہ ہر گھر میں بت رکھے ہوئے تھے جن کی وہ پوجا کیا کرتے اور ان سے مرادیں مانگا کرتے تھے۔
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کے احسانات جتلا کر سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین کی اور اس بری راہ سے منع فرمایا، جس پر چل رہے تھے اور ان کو یہ بھی بتادیا کہ اگر تم بتوں کو چھوڑ کر ایک خدا کی طرف رجوع نہ ہوئے تو تم پر عذاب نازل ہونے کا خطرہ ہے اور کہا کہ مجھے اللہ نے تمہاری طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، اس پر ان لوگوں نے حضرت نوح علیہ السلام کا تمسخر اڑایا اور کہا بھلا یہ بتائو کہ تم نبی کیسے بن گئے، تم تو ہمارے جیسے گوشت پوست کے بنے ہوئے ہو اور ہم میں ہی پیدا ہوئے ہوئے، تم میں ایسی کون سی چیز ہے، جس سے ہم تمہیں نبی سمجھیں اور اگر خدا کو نبی ہی بھیجنا تھا تو وہ کسی فرشتے کو نبی بنا کر بھیج دیتا۔
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کے احسانات جتلائے اور کہا تم کو چاہیے کہ ان بیکار بتوں کی پرستش چھوڑ کر ایک خدا کی عبادت کرو اور میں اس کی تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا، تمہاری ہی بھلائی کے لیے تم کو نصیحت کرتا ہوں۔
حضرت نوح علیہ السلام نے کوئی ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم میں وعظ و تبلیغ کی اور کوشش کی کہ وہ خدائے واحد کے سچے پرستار بن جائیں مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا، بلکہ حضرت نوح علیہ السلام وعظ فرماتے تو ان کو ٹھٹھوں میں اڑاتے، کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے تاکہ ان کی آواز کانوں میں نہ پہنچ جائے، صرف چند لوگ تھے جو آپ پر ایمان لائے۔
قوم کی یہ سرکشی اور نافرمانی دیکھ کر حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا کہ اے اللہ، میں تو اس قوم سے تنگ آگیا ہوں، اب تو ہی ان سے بدلہ لے۔
خداوند تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ ایک کشتی بنائو اور یہ بھی حکم دے دیا کہ دیکھنا اب کسی کی سفارش نہ کرنا، اب ان پر ضرور عذاب نازل ہوکے رہے گا، حضرت نوح علیہ السلام خدا کے حکم کے مطابق کشتی بنانے میں لگ گئے۔
جب کشتی بن کر تیار ہوگئی تو خدا نے حکم دیا کہ اپنے اہل اور ان لوگوں کو کشتی پر سوار کرلو جو مجھ پر ایمان لے آئے ہیں اور ہر جانور کا ایک ایک جوڑا بھی کشتی میں رکھ لو۔
جب سب لوگ کشتی میں بیٹھ گئے تو خدا کے حکم سے زمین کے سوتے پھوٹ پڑے اس کے ساتھ ہی موسلا دھار بارش شروع ہوگئی، زمین پر پانی بڑھنے لگا اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی پانی میں تیرنے لگی، پانی بڑھا تو حضرت نوح علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کا بیٹا پانی میں ڈوبنے لگا ہے آپ نے اسے آواز دی کہ اب بھی آجائو تاکہ خدا کے عذاب سے بچ سکو، مگر اس نے جواب دیا تم جائو، میں کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اپنی جان بچالوں گا۔
پانی تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ دنیا کے نافرمان اور سرکش لوگ اس سیلاب میں فنا کے گھاٹ اتر گئے اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑی کی چوٹی پر جا کر ٹھہر گئی۔
اب خدا کے حکم سے سیلاب تھم گیا اور زمین نے سارا پانی اپنے اندر جذب کرلیا۔
اب خدا نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ کشتی سے اتر جائو، تجھ پر اور وہ لوگ جو تجھ پر ایمان لائے ہیں ان پر ہماری رحمتیں برکتیں نازل ہوں گی،
چوں کہ اس طوفان میں دنیا کے تمام لوگ ہی فنا ہوگئے تھے، صرف چند لوگ ہی زندہ بچے تھے، اس لیے حضرت نوح علیہ السلام کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے، ان ہی کی اولاد اس وقت دنیا میں آباد ہے۔