نکولائی گوگول(Nikolai Gogol)
نکولائی گوگول کا وطن یوکرین ہے جو روسی سلطنت کا حصّہ رہا اور 1991ء میں ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ یہیں 1809ء میں نکولائی گوگول نے آنکھ کھولی۔ وہ سلطنت روس کا ایک ممتاز ادیب اور مشہور ناول نگار تھا۔
وہ 15 برس کا تھا جب اس کے والد وفات پاگئے ۔اس کے بعداسے حصولِ تعلیم کے لیے ہاسٹل میں داخل کروایا گیا۔ 1828ء میں گوگول گریجویشن مکمل کرنے کے بعد سینٹ پیٹرز برگ آگیا اور سرکاری نوکری کے حصول کی کوشش کی مگرناکام رہا اور پھر اس نے تھیٹر پر بطور اداکار قسمت آزمانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کے لیے گوگولائی نے اپنی گھر سے کچھ رقم چرائی اور جرمنی چلا گیا۔ وہاں اسے ایک کم اجرت کی شاہی نوکری مل گئی، لیکن جلد ہی اس نوکری کو خیرباد کہہ دیا اور چوں کہ وہ لکھنے لکھانے کا آغاز کرچکا تھا، اس لیے اپنی کہانیوں کو کتابی شکل میں شائع کروانے کا اہتمام کیا۔ اسے یہ یقین تو نہیں تھا کہ یہ کہانیاں بہت زیادہ پسند کی جائیں گی، لیکن کہانیوں کی اشاعت کے بعد اسے ملک گیر شہرت حاصل ہوگئی۔ یہ تخلیقات 1831ء اور 1832ء میں شائع ہوئیں جو گوگول کے آبائی علاقے یوکرین سے متعلق تھیں۔
روس اور یوکرین بھر میں ادبی حلقوں میں پہچان بنانے کے بعد جب بلبا کا1835ء میں قزاقوں پر ایک تاریخی ناول تاراس بلبا شائع ہوا تو اسے زبردست پذیرائی ملی اور بعد میں اس ناول کو روسی ادب میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہوا۔ اگلے برس اس نے طنز و مزاح پر مبنی ڈرامہ انسپکٹر جنرل لکھا جس میں اس نے اشرافیہ اور نوکر شاہی پر چوٹ کی تھی۔ اس کے نتیجے میں اسے روس چھوڑ کر اٹلی جانا پڑا۔ وہاں چھ سال قیام کے دوران گوگول نے کہانیاں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور 1842ء میں اس کا ناول ’مردہ روحیں‘ منظرِ عام پر آیا جسے شاہ کار تسلیم کیا جاتا ہے۔
اسی عرصے میں گوگول کا رجحان مذہب اور اخلاقیات کی طرف ہوگیا، لیکن اس راستے میں وہ اعتدال اور توازن کھو بیٹھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کا یہ نام ور ادیب خبط میں مبتلا ہوگیا اور خود کو شدید گناہ گار تصور کرنے لگا۔ اس مریضانہ کیفیت میں گوگول نے 1852ء میں اپنے ناول کا مسودہ بھی جلا دیا اور اسی سال اپنے یوم پیدائش سے دس دن پہلے دنیا سے رخصت ہوگیا۔
روسی ادب میں گوگول کا مقام یوں سمجھئے کہ دوستوفسکی نے کہا تھا۔’ ’ہم سب گوگول کی کہانی ’اوور کوٹ‘ سے برآمد ہوئے ہیں۔‘‘
Facebook Comments