skip to Main Content

نیم

حفصہ محمد فیصل

……

دیکھو نیم کا درخت بے حد کار آمد، مفید اور بہترین فوائد کا حامل ہے بس اسے برتنا آنا چاہیے اور اس برتنے کے طریقے کو میں تمھیں سکھاﺅں گا اور پھر ”عفی ہر بل پراڈکٹ“ کے نام سے تم ان چیزوں کو فروخت کرکے ایک حلال کمائی کا ذریعہ اپناﺅگی

…….

”ابو جی! بس اب بہت ہوگیا، نیم کے ان درختوں کو اب ہمیں کٹوا ہی دینا چاہیے۔“
عفیفہ بڑے سے صحن میں جھاڑو دیتے ہوئے ابو سے مخاطب ہوئی۔
اصغر صاحب صحن میں بچھے میز کرسی پر بیٹھے کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے شام کی چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ بیٹی کی بات سن کر چشمے کے پیچھے سے جھانکتے ہوئے بولے۔”کیوں بھئی خیریت؟ آج نیم کے درختوںسے کیا قصور ہوگیا؟“
”دن میں کوئی دس دفعہ جھاڑو لگاتی ہوں صحن میں، اتنی ورزش کرتی رہی تو امید واثق ہے کہ ان نیم کے سوکھے پتوں کی طرح ایک دن میں بھی سوکھ کر اڑ جاﺅں گی۔ اس لیے ابو جی آپ کے حضور اس ناتواں اور اکلوتی بیٹی کی درخواست پیش خدمت ہے کہ نیم کے درختوں کو اب اِس صحن بلکہ گھر سے فارغ کیجیے اور اتنے بڑے صحن کے کچھ حصے پر چھت ڈلوا کر ایک کمرہ ڈلوا لیں جو ہمارے لیے مفید بھی ہوگا اور بار بار کی صفائی سے بھی اس کمزور بندی کی جان چھوٹے گی۔“ عفیفہ نے گویا تقریر ہی جھاڑ دی۔
”واہ بھئی وا! کیا اندازِ بیاں ہے ہماری اکلوتی اور لاڈلی بیٹی کا۔“ اصغر صاحب داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔
”جناب والا! داد و تحسین ایک جانب، اب کچھ عمل بھی کر گزریے تاکہ ہماری گلو خلاصی ہو۔“ عفیفہ نے بھی بھر پور اداکاری کا مظاہرہ کیا اور اصغر صاحب ہنسنے لگے۔
….٭….
”امی جان! آخر ابو جی کو آج اتنی دیر کیوں ہوگئی ہے؟اُن کا موبائل بھی مسلسل بند آرہا ہے، اللہ خیر کرے۔“ عفیفہ اور امی جان کی نگاہیں بار بار دروازے کا طواف کر رہی تھیں۔
ہلکی سی آہٹ پر بھی عفیفہ دروازے سے جھانکتی مگر اصغر صاحب کی کوئی اطلاع نہ ملتی اور پھر سارے خدشات حقیقت بن گئے۔ اصغر صاحب کا دفتر سے آتے ہوئے حادثہ ہوگیا تھا جو کہ اتنا شدید تھا کہ اصغر صاحب جائے وقوعہ پر ہی دَم توڑ گئے۔ کیسے محلے والے سول ہسپتال سے ان کی لاش لائے؟ کیسے تجیز وتکفین کی گئی؟ عفیفہ اور اس کی ا می کو کوئی ہوش نہ تھا۔ دونوں ایک ناقابل یقین کیفیت سے دو چار تھیں۔ محلے کی خواتین دونوں کو حوصلہ دینے کی کوشش کر رہی تھیںمگر دونوں دنیا وما فیہا سے بے گانہ تھیں۔
دو ہفتے بعد عفیفہ نیم کے درختوں کے نیچے بیٹھی اپنی اور مرحوم والدکی اس دن کی گفتگو کو سوچ رہی تھی اور آنکھوں سے آنسو بے اختیار نکل رہے تھے۔ ابھی تو عفیفہ نے میٹرک کا امتحان دیا تھا۔ کتنے مان سے اس کے ابونے اسے ڈاکٹر بنانے کا خواب دکھایا تھا۔
”ابو جی اب اس خواب کی تعبیر کون دکھائے گا مجھے؟“ عفیفہ ہچکیاں لیتی ہوئی کہہ رہی تھی کہ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔
عفیفہ چہرے سے آنسو پونچھتی، دروازہ کھولنے کے لیے اٹھی۔
”حکیم ماموں! ….کیسے ہیں آپ؟“
”میں ٹھیک ہوں میری بچی! تم سناﺅ؟“
حکیم ماموں نے عفیفہ کے سر پرد ستِ شفقت پھیرتے ہوئے پوچھا۔
”حکیم ماموں! آپ تو جانتے ہیں کہ اصغر صاحب کی تنخواہ لگی بندھی تھی، بس پورا ماہ اِس تنخواہ سے قناعت کے ساتھ گزر جاتا تھا، کوئی جمع پونجی پلے نہیں ہے، اصغر صاحب کے دفتر سے فقط اِس ماہ کی تنخواہ بھجوادی گئی ہے، آگے کے لیے معذرت نامہ بھجوادیا گیا ہے۔“
امی جان پردے کی اوٹ میں بیٹھ کر حکیم ماموں سے اپنا دل ہلکا کر رہی تھیں۔
حکیم ماموں دراصل اصغر صاحب کے ماموں تھے اور لاہور میں رہتے تھے، اس لیے تعزیت کے لیے اب آسکے تھے۔ حکیم ماموں صرف نام ہی کے نہیں واقعتا حکیم تھے، وہ حکمت کو بڑی گہرائی سے سمجھتے تھے۔
”حکیم ماموں !میری تعلیم بھی صرف میٹرک ہے اور کوئی ہنر بھی نہیں آتا، گھر خرچ اب کس طرح چلے گا؟ “عفیفہ فکر مندی سے ہاتھ ملتے ہوئے ماموں سے بولی۔
”پریشان مت ہو، وہ بڑا مسبب الاسباب ہے، ضرور کوئی راہ نکالے گا۔“
حکیم ماموں نے عفیفہ کو تسلی دی۔
”اچھا! آپ ا بھی اتنے لمبے سفر سے آئے ہیں، صحن میں تشریف رکھیں، میں آپ کے لیے چائے لاتی ہوں۔“ عفیفہ نے شرمندگی سے کہا۔
”جیتی رہو بیٹی!“
حکیم ماموں صحن میں پڑی کرسی پر بیٹھے گہری سوچ میں تھے کہ اُن کی نگاہ نیم کے لہلہاتے اور جھومتے درختوںپر آکر ٹھہر گئی۔
”واہ !کیا شاندار درخت ہیں “وہ زیر ِلب بڑبڑائے۔
”مل گیا سبب، مل گیا روزگار!!!“ حکیم ماموں یکلخت پکار اٹھے۔
”کیا مل گیا ماموں جان؟“ عفیفہ کچن میں سے دوڑی آئی۔
”بیٹا جی! نیم کے یہ درخت بنیں گے تمھارا روزگار۔“
”نیم کے درخت اور روزگار؟ ….میں سمجھی نہیں ماموں جان!“ عفیفہ حیرانگی سے ماموں کو دیکھتی ہوئی بولی۔
”تم بیٹھو اِدھر، میں بتاتا ہوں تمھیں….“ ماموں بے چینی سے بولے۔
”دیکھو! نیم کا درخت بے حد کار آمد، مفید اور بہترین فوائد کا حامل ہے۔ بس اسے برتنا آنا چاہیے اور اس برتنے کے طریقے کو میں تمھیں سکھاﺅں گا اور پھر ”عفی ہر بل پراڈکٹ“ کے نام سے تم اِن چیزوں کو فروخت کرکے ایک حلال کمائی کا ذریعہ اپناﺅگی۔“
ماموں کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔عفیفہ کو بھی اب کچھ کچھ بات سمجھ میں آرہی تھی۔
….٭….
اگلے دن ماموں چندچھوٹی چھوٹی مشینیں خرید لائے۔ ایک کمرہ پروڈکشن کے لیے مخصوص کیا گیا ۔کچھ کارٹن اور بوتلوں والے حکیم ماموں کے جاننے والے تھے ،انھوں نے حکیم ماموں کی ترغیب پر ایک یتیم لڑکی کے لیے انتہائی نرم شرائط پر کام کرنے کی حامی بھر لی تھی۔حکیم ماموں نے انھیں کچھ رقم پیشگی بھی دی تھی تاکہ اُن کا اعتماد قائم رہے ۔
یہ تمام انتظام کرنے کے بعد اب پروڈکشن کا کام شروع کیا جانا تھا ۔حکیم ماموں بازار سے کچھ ضروری سازو سامان خرید لائے تھے،اگلے چند دنوں میںحکیم ماموں نے عفیفہ کے ساتھ مل کر نیم کے پتوں کا عرق نکال کر نیم کا ہر بل شیمپو تیار کیا، پھر نیم کے پتوں کا پاﺅڈر، پیٹرولیم جیلی میں ملا کر زخموں کے لیے جراثیم کشا کریم تیار کی گئی۔ اسی طرح نیم کے پتوں کے پاﺅڈر میں صندل پاﺅڈر ملا کر ہر بل فیس ماسک پاﺅڈر تیار کیا گیا۔اس دوران میں بوتلیں اور کارٹن تیار ہو کر آگئے ۔ اب یہ تمام چیزیں وزن کرکے ڈبوں اور بوتلوں میں پیک کی گئیں۔
”ہاں بیٹا! اب یہ تمام ہر بل پراڈکٹ تمھیں اپنے محلے میں متعارف کروانی ہے ۔کچھ دکان دار میرے جاننے والے ہیں ،میں سے بات کروں گا ۔ان شاءاللہ وہاں سے بھی بہتر نتیجہ ملے گا۔ میں اور تم مل کر اس کی آن لائن پبلسٹی بھی کریں گے۔ دیکھنا چند ہی دنوں میں اس کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگا اور یہ ہاتھوں ہاتھ بکے گی کیوں کہ ہماری چیز خالص اور معیاری ہے۔“
ماموں جان عفیفہ کو کہتے جا رہے تھے جب کہ عفیفہ ذہن میں اُس منظر کو سوچے جا رہی تھی جب وہ ابو سے ان درختوں کو کٹوانے کی ضد کر رہی تھی اور اب یہی درخت ابو کے بعد اس کے سر کا سائبان بن گئے تھے ۔
٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top