skip to Main Content

نیلو کی حرکت

احمد عدنان طارق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پورے باغیچے میں ہڈیوں اور گوشت کی خوشبو ہر طرف پھیل گئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیلو ایک بہت ہی لالچی بلی تھی۔ محلے میں سب کو پتا تھا کہ اسے چوری کی عادت ہے۔ اس لیے اس کی موجودگی میں کوئی بھی کھانے والی چیز میز پر نہیں چھوڑتا تھا کیونکہ نیلو کھانے کی خوشبو سونگھتے ہی چھلانگ لگا کر میز پر چڑھ جاتی اور کھانے والی چیز کا تیاپانچہ کردیتی یا پھر اگر باورچی خانے کی کوئی الماری کھلی رہ جاتی تو وہ ایک ہی جست لگا کر وہاں جا پہنچتی اور پھر ہر ایک کو یقین تھا کہ وہاں کھانے کی کوئی چیز نہیں بچ سکتی۔
ایک دن نیلو اپنی خالہ زاد بہن نگو کو ملنے اس کے گھر گئی جو دوسرے شہر میں رہتی تھی۔ وہ ایرانی نسل کی سیاہ بلی تھی جس کی گہری سبز آنکھیں تھیں اور کسی بندر جتنی لمبی دُم تھی اور وہ نیلو سے کہیں ذہین تھی۔ نگو ایک جادوگرنی کی ملازمہ تھی اور اسے اس کی منتروں کی تیاری میں مدد کرتی تھی۔ نگو اپنی خالہ زاد بہن کو دیکھ کر ہمیشہ کی طرح بہت خوش ہوئی۔ اس نے ایک رکابی میں اسے دودھ پینے کو دیا۔ پھر فراغت کے لمحوں میں اس نے نیلو کو بتایا کہ اس کی مالکہ کے پاس جادو کی ایک ایسی ہڈی ہے جو اگر ایک پلیٹ میں رکھ دی جائے اور پھر یہ منتر پڑھا جائے۔
ایک کی دو، دو کی چار بن جاؤ
ہڈی پر گوشت لگاؤ
کھانے کو تیار بن جاؤ
تو فوراً یہ ہڈی مزید ہڈیاں بنانی شروع کر دیتی ہے۔ جن سے تم مزیدار سوپ مفت میں بنا سکتی ہو۔ نیلو کی آنکھیں حیرت سے اس کے حلقوں سے باہر نکل آئیں۔ اس نے سوچا کہ کسی طرح اگر یہ ہڈی اس کے پاس ہوتی تو وہ ہمیشہ مفت مزیدار کھانا کھاتی۔ اس نے نگو سے سرگوشی میں پوچھا کہ اس کی مالکہ ہڈی کہاں رکھتی ہے؟ تو نگو نے اسے وہ الماری دکھائی جہاں یہ جادو کی ہڈی اس کی مالکہ ہمیشہ تالے میں رکھتی تھی۔ نیلو نے بغور اس الماری کا جائزہ لیا۔ یقینی طور پر اسے تالا لگا ہوا تھا۔ اس میں تو کوئی شبہ والی بات ہی نہیں تھی۔
نیلوگھر واپس آگئی۔ لیکن آپ کو پتا ہے جب وہ اگلی دفعہ نگو سے ملنے اس کے گھر گئی تو الماری چوپٹ کھلی تھی۔ ہے نا حیرانی والی بات اور اس سے بھی حیران کرنے والی بات یہ تھی کہ جادوگرنی اور نگو دونوں گھر موجود نہیں تھیں۔
” واہ…. واہ کیا بات ہے۔“ نیلو اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتی ہوئی بولی۔ ”میں اس ہڈی کو اڑالوں گی۔ اس سے میں مزید کئی ہڈیاں بنا کر ان کا اپنے گھر میں ذخیرہ کرلوں گی اور پھر یہ ہڈی میں نگو اور اس کی مالکہ کو واپس کردوں گی۔ جب وہ گھر واپس آئیں گی۔“وہ الماری سے نیچے اتر آئی۔ پھر باورچی خانے سے نکلتے ہی منھ میں جادوئی ہڈی دبائے اس نے اپنے گھر کی طرف دوڑ لگادی۔
وہ گھر میں بیرونی باغیچے کی دیوار پھلانگ کر داخل ہوئی۔ وہ مزید ہڈیاں حاصل کرنے کے لیے اتنی ندیدی ہو رہی تھی کہ باغیچے میں پڑی پرانی پلیٹ میں ہڈی ڈال کر وہیں بیٹھ گئی اور منتر پڑھنا شروع کر دیا۔
ایک کی دو، دو کی چار بن جاؤ
ہڈی پر گوشت لگاؤ
کھانے کو تیار بن جاؤ
اس نے یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ پلیٹ بھولو کتے کی ہے۔ جو اس کے ساتھ گھر میں پالتو ہے۔ ہڈی کے جادو نے کام کرنا شروع کر دیا وہ نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ہڈی کی ایک سمت لمبی ہونی شروع ہوئی جیسے ہڈی پر ایک اور ہڈی اُگ رہی ہو اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہڈی سے دو ہڈیاں بن گئیں۔ اس طرح ہڈی کی دوسری سمت میں ایک گوشت کا ٹکڑا جیسے اُگا ہو اور پھر وہ بھی پلیٹ میں جھڑ کر گر گیا۔
نیلو کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ابھی سے اسے مزیدار کھانے کا ذائقہ اپنے منھ میں محسوس ہونے لگا۔ ہڈی مسلسل اپنا کام کرتی رہی حتی کہ پورے باغیچے میں ہڈیوں اور گوشت کی خوشبو ہر طرف پھیل گئی۔ جس سے سویا ہوا بھولو بھی جاگ گیا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اسے ہر طرف گوشت اور ہڈیوں کی خوشبو آرہی تھی۔
کہاں سے آرہی تھی؟ وہ فوراً نیلو کی طرف بڑھا۔ اس نے حیرانی سے وہاں کھانے کی طرف دیکھا اور پھر اس پر پل پڑا۔ نیلو نے ہش ہش کرکے اسے بہت بھگانے کی کوشش کی مگر بے سود۔بھولو گوشت کو بھنبھوڑتا ہی رہا۔ اتنی دیر میں یہ خوشبو پڑوسیوں کا کتا بھی سونگھ چکا تھا اور وہ باغیچے کے گیٹ کی طرف بھاگا آرہا تھا۔ محلے کے دو آوارہ کتے بھی اتنی دیر میں وہاں اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے پہنچ گئے۔ نیلو کو اجنبی کتوں سے شدید نفرت تھی۔ اس نے ان کو وہاں سے بھگانے کی اپنی سی کوشش کی مگر کتوں نے اس کی قطعی پرواہ نہ کی اور بدستور ہڈیاں اور گوشت بھنبھوڑتے رہے۔
اب یہ نیلو کے بس سے باہر کی بات تھی۔ وہ کب چاہتی تھی کہ اتنا عظیم جادو اس بے قدری کا شکار ہوجائے۔ اس نے اپنی جادو کی ہڈی منھ میں دبائی اور سرپٹ وہاں سے دوڑ لگا دی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ہڈی مزید ہڈیاں اور گوشت بناتی جا رہی تھی لہٰذا آدھے درجن کتے خوشی میں جھومتے جھامتے نیلو کا تعاقب کررہے تھے۔ نیلو کو اپنی جان بچانا مشکل ہو گیا۔ وہ بہت خوفزدہ تھی۔ اس نے حیرت سے ایک نظر پھر کتوں پر ڈالی جو بڑھتے ہی جارہے تھے۔ وہ جادو کی ہڈی منھ سے نہیں گراسکتی تھی۔ کیونکہ کتے فوراً اسے کھا جاتے اور پھر جادوگرنی اس کا کیا حشر کرے گی۔ یہ اسے بخوبی معلوم تھا۔ آخر نیلو جان بچانے کے لیے اپنے گھر میں گھس گئی۔ دروازہ کھلا تھا۔ نیلو گھر میں داخل ہوئی اور ایک ہی جست میں کھانے والی میز پر چڑھ گئی۔
”نیلو نیچے اترو۔“ زمان چیخا۔ یہ باورچی خانہ تھا اور اندر زمان کھانا بنا رہا تھا۔ لیکن پھر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے نیلو کے پیچھے لاتعداد سفید، سیاہ، نسواری، دھبوں والے ، چھوٹے قد والے، بڑے قد والے، کتے باورچی خانے میں داخل ہوتے دیکھے۔ زمان نے انہیں ہر طرح باورچی خانے سے بھگانے کی کوشش کی۔ اس نے کئی کتوں کو جھاڑو بھی رسید کیا مگر انہیں تو بس نیلو کے منھ میں دبی ہڈی حاصل کرنے کی دھن لگی تھی۔ تھوڑی دیر میں باورچی خانہ میدان جنگ کا منظر پیش کررہا تھا۔ ہر طرف کتوں کے کودنے کی وجہ سے پلیٹیں اور گلاس ٹوٹ رہے تھے۔ زمان نے جھاڑو کی مدد سے ایک دفعہ پھر کتوں کو نکالنے کی کوشش کی لیکن بے سود پھر زمان کو سمجھ آگئی کہ ایک ہی صورت میں کتوں کو گھر سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس نے باورچی خانے میں بکھرا گوشت اور ہڈیاں اکٹھی کیں اور انہیں باہر سڑک پر پھینک دیا۔ گوشت کے پیچھے کتے بھی باہر سڑک پر نکل گئے۔
زمان نے دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ باورچی خانے میں کچھ سکون ہوا۔ وہ نیلو کی طرف متوجہ ہوا۔ اس نے ہاتھ میں جھاڑو دوبارہ سنبھال لی۔ اس نے نیلو کی طرف دیکھا گویا وہ پوچھ رہا ہو کہ چوری کا گوشت اکٹھا کرکے گھر لانے کا آخر مطلب کیا ہے؟ پھر اس نے نیلو کی جھاڑو سے ٹھکائی شروع کر دی۔ بے چاری نیلو کو اچھی مار لگی۔ آخر وہ چیخیں مارتی جان بچانے کے لیے کھلی کھڑکی سے باہر کود گئی۔ جادو کی ہڈی اب بھی بدستور اس کے منھ میں تھی۔ وہ اس ہڈی کو لے کر اندھا دھند جادوگرنی کے گھر کی طرف بھاگی۔ اس بار کتے اس کا تعاقب نہیں کررہے تھے۔ کیونکہ وہ سڑک پر گرا ہوا گوشت کھانے میں مصروف تھے۔ جو زمان نے پھینکا تھا۔ وہ آپس میں لڑرہے تھے اور ہڈیاں بھنبھوڑ رہے تھے۔
جادوگرنی گھر پر تھی اورنگو بھی اس کے ساتھ تھی۔ وہ انتہائی ناگوار چہرہ بنا کر نیلوکو آتا دیکھ رہی تھی جو منھ میں ہڈی دبائے ان کی طرف آئی۔ جادوگرنی نے اسے اس کی دُم سے پکڑ لیا اور پھر باقاعدہ اس کی دھنائی شروع کردی۔ ابھی نیلو کے پہلے زخم بھی تازہ تھے کہ یہ نئی افتاد آن پڑی۔ نگو نے بھی اپنے ناخنوں سے اس کے ناک کے قریب اچھے خاصے نقش ونگار بنا ڈالے۔ پھر نگو نے اسے سختی سے اپنے گھر آنے سے منع کر دیا۔ روتی نیلو نے اسے بتایا کہ اسے پہلے ہی بڑی سزا مل چکی ہے۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کبھی چوری نہیں کرے گی۔ بلکہ وہ قسائی کی دکان سے مفت چھیچھڑے بھی نہیں اڑائے گی اور واقعی نیلو نے پھر کبھی چوری نہیں کی۔ رہی بات ہڈیوں کو بھنبھوڑنے کی تو پھر کبھی اسے کسی ہڈی کے قریب جانے کی بھی ہمت نہیں ہوئی۔ خواہ وہ کتنی ہی مزے دار یا خوشبودار کیوں نہ ہو۔ بے چاری نیلو۔
لیکن بچو! آپ کو معلوم ہی ہے نا کہ چوری کتنی بری چیز ہے اور چور کی سزا کیا ہوتی ہے۔
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top