نزلہ، زکام
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
”آ۔۔۔ چھیں!“ نوید نے بڑے زور سے چھینک ماری۔ پھر اسے فوراً یاد آیا کہ ابو نے بتایا تھا، چھینک آ جائے تو ’الحمدللہ‘ کہتے ہیں۔ اس نے الحمدللہ پڑھی۔ اسی وقت ڈاکٹر خورشید کمرے میں داخل ہوئے اور بولے:
”یَرْحَمُکَ اللہ!“
”السلام علیکم بھائی جان!“ نوید نے ذرا بیٹھی ہوئی سی آواز میں سلام کیا۔
”و علیکم السلام، ایسا لگتا ہے تمھیں شدید زکام ہو گیا ہے۔“
”جی ہاں، بھائی جان، ناک بہ رہی ہے، حلق میں شدید خراش ہے، لگتا ہے جکڑا ہوا ہے۔ چھینکیں آ رہی ہیں، کھانسی بھی ہو رہی ہے اور پورا جسم تھکا ہوا سا محسوس ہو رہا ہے۔“ نوید نے ایک سانس میں ساری شکایات بیان کر دیں۔
”ہوں، میرا خیال ہے تم نے سردی شروع ہوتے ہی احتیاطی تدابیر نہیں کیں، اس لیے طبیعت خراب ہو گئی ہے۔ تمھیں میں کچھ دوائیں دیتا ہوں۔ ان کے علاوہ تازہ لیموں کا رس نیم گرم پانی میں ملا کر اور اُس میں دو چمچے شہد ملا کر پیو۔ ادرک والی چائے سے بھی سکون ملے گا۔ ٹھہرو میں امی سے کہ کر بنواتا ہوں۔“ ڈاکٹر خورشید امی سے کہنے چلے گئے۔ واپس آ کر ڈاکٹر خورشید کہنے لگے:
”اب دو چار دن تم آرام کرو۔ اس مرض میں آرام ضروری ہے۔ اپنے جسم کو خصوصاً سر، کانوں اور پیروں کو سرد ہوا سے بچاؤ۔ اللہ تعالیٰ تمھیں شفا دے، چھینک یا کھانسی آئے تو منہ پر رومال رکھ لیا کرو۔“
چار دن کے بعد نوید کی طبیعت خاصی بہتر ہو گئی۔ رات میں ڈاکٹر خورشید آئے تو نوید نے ان سے پوچھا:
”بھائی جان، یہ نزلہ زکام میں چھینکیں آتی ہیں تو الحمد للہ کیوں کہتے ہیں؟“
”دراصل چھینک آنا، اللہ کی طرف سے ہمارے لیے ایک نعمت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب چھینک آتی ہے تو اس کے زور سے ہوا تیزی سے ناک کے راستے ہمارے جسم سے باہر نکلتی ہے اور ناک کے تمام اندرونی راستوں کو بہت سے نقصان دہ ذرات اور خراش ڈالنے والے مادوں سے پاک صاف کرتی چلی جاتی ہے۔ تم یہ جان کر حیران ہو گے کہ چھینک کے دوران میں، ہوا کے نکلنے کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے باہر نکلنے والے ذرات ہماری ناک سے کئی فٹ کے فاصلے پر جا کر گرتے ہیں۔ آپﷺ نے ہمیں ہدایت فرمائی ہے کہ چھینک آ جائے تو الحمد للہ کہو اور جو شخص اسے سنے وہ ’یرحمک اللہ‘یعنی اللہ تم پر رحم فرمائے، کہے۔“
”اس کا مطلب ہے کہ چھینک آ۔۔۔ آ۔۔۔ آچھیں۔۔۔۔ الحمد للہ۔۔۔۔ مفید ہے؟“ نوید نے چھینک مار کر جملہ مکمل کیا۔؎
”ہاں، لیکن چھینک آئے تو منہ اور ناک پر رومال رکھ لیا جائے تاکہ جراثیم دوسرے لوگوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ چھینکوں کو روکنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے، ور نہ نکسیر پھوٹ سکتی ہے، کان بجنے لگتے ہیں اور سانس لینے میں دشواری ہو سکتی ہے۔ جب بھی چھینک آئے، منہ کو کھول لیا جائے تا کہ قدرتی چھینک آئے، لیکن منہ پر رومال ضرور رکھ لیا جائے۔“
”بھائی جان، نزلہ زکام کیوں ہو جاتا ہے؟“ نوید نے پوچھا۔
”در اصل ہوتا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری ناک، منہ،حلق سے لے کر پھیپھڑوں تک تمام ہوائی راستوں میں نرم جھلیاں بنا دی ہیں۔ ان جھلیوں میں غدود ہوتے ہیں جو رطوبت خارج کرتے رہتے ہیں۔ یہ رطوبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان ہوائی راستوں کی حفاظت کا انتظام ہے کیونکہ اس کی وجہ سے یہ راستے نم رہتے ہیں اور رگڑ اور خراش سے محفوظ رہتے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ مختلف وجوہ کی بنا پر ان جھلیوں میں موجود خون کی رگیں سکڑ جاتی ہیں اس طرح انھیں خون کی فراہمی کم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ جھلیاں کمزور ہو جاتی ہیں۔ انھیں کمزور پا کر نزلہ کا وائرس آسانی سے ان پر حملہ کر دیتا ہے۔ کیا نزلہ زکام کے مریض کے قریب جانے سے ہمیں بھی نزلہ زکام ہو جائے گا؟“
”ہاں، اس کا امکان ہوتا ہے۔ نزلے کا مریض چھینکتا، کھانستا ہے، وہ وائرس اور جراثیم فضا میں پھیلا دیتا ہے۔ اگر نزلے کے مریض نے کسی غذا کو ہاتھ لگایا ہے اور دوسرا صحت مند آدمی اسی غذا کو ہاتھ لگا دے یا کھا لے تو وہ بھی بیمار ہو سکتا ہے بلکہ نزلے کا وائرس تو مریض کے تولیے، برتنوں اور ہر اُس شے پر ہو سکتا ہے جس کو مریض نے ہاتھ لگایا ہو۔ اگر صحت مند آدمی مسلسل کام کر کے تھکا ہوا ہو تو بھی وہ نزلے کا اثر جلدی قبول کر لیتا ہے۔“
”بھائی جان، نزلے سے محفوظ رہنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟“
”ہاں، یہ تم نے بہت اچھا سوال کیا، بیمار ہونے سے بہتر ہے کہ بیماری کو پاس ہی نہ آنے دو۔ میں تمھیں کچھ طریقے بتاتا ہوں۔ یہ اُن لوگوں کے لیے خاص طور پر مفید ہیں جن کو اکثر نزلہ زکام ہوتا رہتا ہے۔ ایک تو یہ کہ اپنی روزانہ غذا میں ایک پیالی دودھ، سبز پتوں والی ترکاری مثلاً پالک، گو بھی وغیرہ، اس کے علاوہ گاجر، شلجم اور سلاد لیں۔ ایک نارنگی، کینو یا فروٹر یا ٹماٹر لیں۔ ایک چمچہ مچھلی کا تیل لے لیا کریں، یا مچھلی کے تیل کی ایک گولی لے لیں۔ حیاتین ج والے پھل جو لوگ کھاتے ہیں، اُن کو نزلہ ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔ حیاتین ج (وٹامن سی) کینو، فروٹر، مالٹے، چکوترے میں ہوتی ہے۔ یہ سیب، آڑو اور ناشپاتی میں بھی ہوتی ہے لیکن ان پھلوں کے چھلکوں کے بالکل نیچے ہوتی ہے اس لیے اگر کوئی ان پھلوں کا چھلکا اتار کر کھائے گا تو اسے حیاتین ج نہیں ملے گی۔ اس کے علاوہ ورزش کی عادت ڈالنی چاہیے۔“
”اور کوئی بات بھائی جان؟“
”ہاں، نزلہ زکام سے محفوظ رہنے کے لیے، خاص طور پر سردیوں میں احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ گرم لباس پہنا جائے، جس سے سینہ، گردن تک ڈھک جائے۔ پیروں میں گرم جرابیں اور بند جوتے ہوں۔ سخت سردی ہو تو سر اور کانوں کو بھی ڈھانپ کر رکھیں۔ گرم کمرے سے ایک دم ٹھنڈک میں نہیں نکلنا چاہیے۔ سونے کے کمرے میں دھواں نہیں ہونا چاہیے، ہوا کی آمد و رفت کا اچھا انتظام ہو۔ موسم گرمی کا ہو، تو بھی کھلے آسمان تلے نہیں سونا چاہیے جہاں اوس پڑ رہی ہو۔ اس کے علاوہ نزلہ زکام میں چکنائی میں تلی ہوئی اشیاء نہیں کھانی چاہیں۔“
”وہ کیوں، بھائی جان؟“
”سردیوں کی بیماریوں میں کچا مکھن تو مفید ہے لیکن چکنائی میں تلی ہوئی چیزیں نزلہ کھانسی میں نقصان پہنچاتی ہیں، کیونکہ ان کی چربی گرم ہو کر حلق میں خراشیں ڈال دیتی ہے۔ اس کے علاوہ سانس ہمیشہ ناک کے ذریعے سے لیں۔“
”میں تو ناک ہی سے سانس لیتا ہوں۔“نوید نے جلدی سے کہا۔
”نزلہ، زکام میں جب ناک بند ہو جاتی ہے تو کچھ لوگ منہ سے سانس لینے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری ناک اور سانس کی نالی اس طرح بنائی ہے کہ ہوا جب ناک سے گزرتی ہے تو پھیپھڑوں تک پہنچنے سے پہلے وہ گرم ہو جاتی ہے لیکن اگر کوئی منہ کے راستے سانس لے گا تو اس کے جسم میں ہوا کے راستوں اور پھیپھڑوں میں خراشیں پڑ جائیں گی۔ ایک بات اور یہ ہے کہ پانی خوب پیا کریں، کم سے کم دس بارہ گلاس روزانہ پییں۔ اور ہاں۔۔۔ جو لوگ روزانہ غسل کرتے ہیں، وہ بھی نزلہ زکام سے محفوظ رہتے ہیں۔“
”بھائی جان، آپ نے بہت مفید باتیں بتا ئیں، اللہ تعالیٰ آپ کو بہت زیادہ اجر عطا فرمائے۔“ نوید نے محبت سے کہا۔
”آمین!“