ننھا مَک
کہانی: The Story of little Muck
مصنف: Wilhelm Hauff
مترجم: جاوید بسام
۔۔۔۔۔۔۔۔
”لٹل مک“ پریوں کی ایک کہانی ہے، جسے جرمن مصنف ”ولہیم ہاؤف“ نے لکھا اور یہ اس کے کہانیوں کے مجموعے”دی کارواں“میں شامل ہے۔ ولہیم کا یہ مجموعہ 1826 ء میں شائع ہوا۔ یہ کہانیاں قافلے کے لوگ پڑاؤ کے دوران راتوں کو اپنی بوریت دور کرنے کے لیے ایک دوسرے کو سناتے تھے۔ اس کہانی کے راوی کا نام مولے ہے۔ جو ایک نوجوان تاجر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
باب:۱
میرے آبائی شہر نیکیا (ترکی) میں ایک شخص تھا۔جس کا نام ننھا مک تھا۔ میں اگرچہ اس وقت کافی چھوٹا تھا، لیکن مجھے آج بھی وہ اچھی طرح یاد ہے۔ غالباًاس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ ایک بار میرے والد نے اس کی وجہ سے میری پٹائی کی تھی۔ اس وقت ننھا مک ایک بوڑھا آدمی تھا، مگر اس کا قد تین یا چار فٹ سے زیادہ نہیں تھا۔ وہ دیکھنے میں عجیب الخلقت نظر آتا تھا۔ اس کے ہاتھ، پیر اور دھڑ بچوں جیسے چھوٹے اور نازک تھے، جبکہ سر عام انسانوں سے بہت بڑا اور موٹا تھا۔ وہ اکیلا ایک بڑے سے گھر میں رہتا تھا اور اپنے لیے کھانا بھی خود پکاتا تھا۔ وہ مہینے میں صرف ایک بار سڑک پر دکھائی دیتا تھا۔ اگر روز دوپہر کے کھانے کے وقت اس کے گھر کی چمنی سے دھواں نہ نکل رہا ہوتا تو شہر میں کسی کو معلوم نہ ہوتا کہ وہ زندہ ہے یا مرگیا ہے۔ تاہم، شام کو وہ اکثر چھت پر چلتا نظر آتا اور گلی میں سے دیکھنے والوں کو ایسا لگتا تھا جیسے ایک بہت بڑا سر چھت پر گھوم رہا ہے۔
میں اور میرے دوست بہت شرارتی تھے۔ ہم لوگوں کو چھیڑنے اور ان کا مذاق اڑانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ ہمارے لیے وہ دن چھٹی اور خوشی کاہوتا، جب لٹل مک گھر سے نکلتا تھا۔
ایک دن ہم اس کے گھر کے سامنے جمع تھے اور اس کے باہر آنے کا انتظار کررہے تھے۔ جوں ہی دروازہ کھلا۔ بڑی نیلی پگڑی میں ایک بہت بڑا سر نمودار ہوا، جس کے نیچے جسم پر ایک دھاری دار لال نیلا چوغہ تھا اور اس کے نیچے ایک ڈھیلی ڈھالی پتلون۔ اس کی کمر میں ایک چوڑا لال پٹکا بھی بندھا تھا، جس میں ایک لمبا خنجر لٹکا ہوا تھا۔ ہمیں بہت دیر تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ مک نے خنجر لگا رکھا یا خنجر نے مک کو۔ جوں ہی وہ باہر آیا، ہم نے خوشی سے آوازیں نکالیں، اپنی ٹوپیاں ہوا میں اچھالیں اور اس کے اردگرد ناچنے لگے۔ ننھے مک نے جواب میں سختی سے نفی میں سر ہلانے پر اکتفا کیا اور گلی میں آہستہ آہستہ چل دیا۔ وہ پاؤں گھسیٹ کر چل رہا تھا، کیونکہ اس کے جوتے اتنے بڑے اور چوڑے تھے کہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ ہم لڑکے خوشی سے آوازیں لگاتے ہوئے اس کے پیچھے چل رہے تھے۔”ننھا مک، ننھا مک!“
اس کے علاوہ، ہم نے مضحکہ خیز گانا بھی گایا۔
ننھے مک۔۔۔ ننھے مک
تم چھوٹے، تمہارا گھر بڑا
تم چھوٹے، تمہارا سر بڑا
مہینے میں ایک بار
تم آؤ گھر سے باہر
چلو جلدی گھومو
چلو ہمیں پکڑو
ننھے مک۔۔۔ ننھے مک
ننھے مک۔۔۔ ننھے مک
ہم اسے چھیڑتے اور اس سے لطف اندوز ہوتے چلے جارہے تھے۔ میں شرمندگی کے ساتھ یہ اعتراف کرتا ہوں کہ میں اس کھیل میں سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا۔ میں نے اس کے چوغے کو کئی بار گھسیٹا اور ایک بار پیچھے سے اس کے بڑے جوتوں پر پاؤں رکھ دیا، جس سے وہ گر پڑا۔ میں خوب ہنسا، لیکن میری ہنسی اس وقت دم توڑ گئی جب میں نے دیکھا کہ ننھا مک میرے گھر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پھر وہ گھر میں داخل ہوگیا۔ میں نے خود کو دروازے کے پیچھے چھپالیا اور انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد میں نے دیکھا کہ مک باہر آرہا ہے۔ اس کے ساتھ میرے والد بھی تھے۔ وہ اس کے ساتھ بہت عزت سے پیش آرہے تھے۔ پھر وہ اسے دروازے پر الوداع کرتے ہوئے احترام سے جھکے اور اسے رخصت کیا۔ میں بہت پریشان تھا۔ میں نے بہت دیر تک اس اندھیرے کونے سے نکلنے کی ہمت نہیں کی، لیکن آخر کار بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر میں باہر آیا۔ بھوک مجھ سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔ وہ مار سے بھی زیادہ خوفناک تھی۔ میں عاجزی سے سر جھکائے اپنے والد کے سامنے حاضر ہوا۔
”میں نے سنا ہے کہ تم نے مہربان مک کا تمسخر اڑایا ہے؟“ انھوں نے سخت لہجے میں بات شروع کی۔
میں خاموشی سے سرنگوں کھڑا رہا۔
”میں تم کو مک کی کہانی سناتا ہوں۔ پھر مجھے یقین ہے کہ تم اس کو چھیڑنا بند کردو گے، لیکن اس سے پہلے اور بعد میں تم کو معمول کے مطابق سزا ملے گی۔ سزا کا پہلا حصہ پچیس ضربوں کا تھا، جسے وہ ہمیشہ ٹھیک ٹھیک گنتے تھے۔ انھوں نے اپنی لمبی چھڑی لی اور مجھے پہلے سے کہیں زیادہ زور سے مارا۔
جب پچیس ضربیں مکمل ہوگئیں تو انہوں نے مجھے غور سے سننے کا حکم دیا اور ننھے مک کے بارے میں بتانے لگے۔
باب:۲
ننھے مک کے بوڑھے والد کا نام”مکرا“تھا۔ وہ نیکیا کا ایک عزت دار آدمی تھا۔ وہ اگرچہ غریب تھا، لیکن اسی طرح رہتا تھا جیسے آج مک رہتا ہے۔ وہ مک کے چھوٹے قد کی وجہ سے اسے ناپسند کرتا تھا۔ اس نے مک کو تعلیم بھی نہیں دلوائی تھی۔ مک سولہ سال کا ہوگیا تھا، لیکن وہ اب بھی ایک معصوم بچے کی طرح تھا۔ باپ اسے اس بات پر ڈانٹتا کہ اب اسے بڑا ہوجانا چاہیے۔
ایک دن بوڑھا آدمی کہیں گرگیا۔ اسے سخت چوٹ لگی اور اس کی موت ہوگئی، وہ مک کو غریب اور بے سہارا چھوڑ گیا تھا۔ اس کے گھر پر ظالم رشتہ داروں نے قبضہ کر لیا کیونکہ اس پر ان کی بہت زیادہ رقم واجب الادا تھی۔ مک بے چارے کو گھر سے باہر نکال دیا گیا اور اسے دنیا میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا گیا۔ ننھے مک نے جواب دیا کہ وہ پہلے ہی جانے کے لئے تیار ہوچکا ہے۔ اس نے صرف اپنے والد کے کپڑے مانگے، لیکن اس کے والد ایک قد آور آدمی تھے۔ ان کے کپڑے اس کو بہت بڑے تھے۔ تاہم، مک نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ان چیزوں کو کاٹ پھینکا جو لمبی تھیں یعنی چوغے کی آستینیں اور پتلون کی لمبائی، مگر اس نے ان کی چوڑائی پر توجہ نہیں دی اور یوں اس سے ایک عجیب وغریب لباس نکلا، جس میں وہ اب بھی گھوم پھر رہا ہے۔ ایک بڑی پگڑی، چوڑا چوغہ، ایک ڈھیلی ڈھالی پتلون اور بہت بڑے جوتے۔ یہ سب اس کے والد کی میراث ہے، جسے وہ عرصے سے پہنے ہوئے ہے۔ اس نے اپنے باپ کے دمشق کے خنجر کو اپنے پٹکے میں لٹکایا، سڑک کی طرف بڑھا اور نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔
وہ سارا دن تیزی سے چلتا رہا۔ وہ اپنی کامیابی کی تلاش میں نکلا تھا۔ جب اسے دور سے شیشے کا ٹکڑا دھوپ میں چمکتا نظر آیا تو وہ سمجھا کہ وہ ہیرا ہے۔ پھر اس نے مسجد کے گنبد اور جھیل کی چمکتی ہوئی سطح دیکھی تو سوچا وہ جادوئی سرزمین پر پہنچ گیا ہے۔ وہ خوشی خوشی اس طرف بڑھا۔ مگر افسوس وہ سورج کی روشنی میں چمک رہے تھے، قریب پہنچنے پر وہ روشنی غائب ہو گئی۔ اسے بھوک اور تھکاوٹ نے یاد دلایا کہ وہ ابھی انسانوں کی سرزمین پر ہی ہے۔
وہ دو دن تک برابر چلتا رہا۔ وہ بھوکا پیاسا اور غم میں مبتلا تھا۔ خوشی کی تلاش اسے مایوس کررہی تھی۔ بس کبھی کسی درخت پر کوئی کوئی پھل مل جاتا تو توڑ کر کھالیتا تھا اور ننگی زمین کو بستر کے طور پر استعمال کرتا تھا۔
تیسرے دن صبح اس نے پہاڑی سے ایک بڑا شہر دیکھا، جس کی دیواروں پر چاند چمک رہے تھے اور گھروں پر رنگ برنگے جھنڈے لہرا رہے تھے جیسے چھوٹے مک کو وہاں چلے آنے کا اشارہ کررہے ہوں۔ وہ حیرت زدہ ہو کر شہر کو دیکھ رہا تھا۔
”جی ہاں۔۔۔۔ وہاں ننھا مک خوشی پائے گا۔“ اس نے خود کلامی کی اور تھکاوٹ کے باوجود اٹھ کھڑا ہوا۔”وہاں یا کہیں نہیں۔“ وہ پھر بڑبڑایا۔
اس نے اپنی طاقت جمع کی اور شہر کی طرف چل پڑا۔ اگرچہ فاصلہ بہت کم لگتا تھا، لیکن وہ دوپہر کے وقت وہاں پہنچا، کیونکہ اس کی چھوٹی چھوٹی ٹانگوں نے اس مشقت سے انکار کردیا تھا۔اسے کئی بار کھجور کے درخت کے سائے میں بیٹھ کر آرام کرنا پڑا تھا۔ آخر کار اس نے اپنے آپ کو شہر کے دروازے پر پایا۔ اس نے اپنے لباس کو ٹھیک کیا، اپنی پگڑی کو زیادہ خوبصورتی سے باندھا، اس کے شملے کو اونچا کیا اور پیچھے خنجر کو اور بھی زیادہ ترچھا کیا، پھر اپنے جوتوں سے دھول صاف کی، سڑک پر آیا اور بہادری سے گیٹ سے گزر گیا۔
وہ شہر کی کئی گلیوں سے گزرا، لیکن اس کے لیے کہیں کوئی دروازہ نہیں کھلا، نہ کسی نے اسے پکارا۔ جس کی وہ توقع کر رہا تھا:”چھوٹے مک، یہاں آؤ، کھاؤ، پیو اور آرام کرو۔“
پھر جوں ہی اس کی نظر ایک بڑی خوبصورت حویلی پر پڑی۔ وہاں ایک کھڑکی کھلی اور ایک بوڑھی عورت نے باہر دیکھا اور چلائی:
ہپ ہپ ہلیہ، مزیدار دلیہ
اس طرف، اس طرف
تکلف۔۔۔ برطرف
پکا ہے بہت کھانا
بالکل نہ گھبرانا
جو بھی یہاں آئے
خوب مزے اڑائے
ہپ ہپ ہلیہ، مزیدار دلیہ
جلدی جلدی گھروں کے دروازے کھلنے لگے اور مک نے دیکھا کہ بہت سارے کتے اور بلیاں باہر نکل رہے ہیں اور چلتے ہوئے بوڑھی عورت کے گھر میں داخل ہورہے ہیں۔ مک پریشان کھڑا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ دعوت قبول کرنی چاہیے یا نہیں، لیکن پھر خود کو راضی کرکے وہ بھی گھر میں داخل ہوگیا۔ اس کے آگے دو بلیاں چل رہی تھیں۔ اس نے ان کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ وہ باورچی خانے کا راستہ اس سے بہتر جانتی تھیں۔
جب مک سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچا تو اس کی ملاقات بوڑھی عورت سے ہوئی۔ اس کا نام”مس آحوزی“ تھا۔ اس نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا: ”تم کیا چاہتا ہو؟“
”آپ نے سب کو کھانے کے لئے اپنے گھر پر مدعو کیا ہے۔ مجھے بہت بھوک لگی ہے۔“ ننھے مک نے جواب دیا۔
مس آحوزی نے ہنس کر کہا۔”تم عجیب ہو، تم کہاں سے آئے ہو؟ پورا شہر جانتا ہے کہ میں صرف اپنی پیاری بلیوں کے لئے کھانا پکاتی ہوں اور کبھی کبھی ہمسایوں کے جانوروں کو بھی مدعو کرلیتی ہوں۔جیسا کہ آج تم نے دیکھا ہے۔“
باب:۳
ننھے مک نے ان کو بتایا کہ والد کی وفات کے بعد وہ بہت مشکل سے گزر بسر کر رہا ہے۔ وہ اسے بلیوں کے ساتھ کھانا کھانے دے۔
مس آحوزی نے اس کی کہانی سن کر ہمدردی محسوس کی اور اسے خوب کھلایا پلایا۔ جب وہ کھا کر تازہ دم ہوگیا تو مس آحوزی نے اسے غور سے دیکھا اور بولی:”ننھے مک، میرے پاس نوکری کرلو، تمھیں تھوڑا سا کام کرنا پڑے گا اور تم اچھی طرح سے رہو گے۔“
ننھے مک کو بلی کا دلیہ پسند آیا تھا۔ وہ راضی ہو گیا اور مس آحوزی کا خادم بن گیا۔ اس کا کام مشکل نہیں تھا، لیکن عجیب تھا۔ مس آحوزی کے پاس دو بلے اور چار بلیاں تھیں۔ مک روز صبح ان کے بالوں میں کنگھا کرتا اور قیمتی کریموں سے ان کا مساج کرتا۔ جب مس آحوزی گھر سے جاتی تو وہ بلیوں کو خوش رکھتا۔ جوں ہی کھانے کا وقت ہوتا، انہیں کھانا پیش کرتا اور بار بار ان کے پیالے دلیے سے بھرتا رہتا۔ وہ رات کو انہیں ریشمی تکیوں پر لٹاتا اور مخملی چادریں انھیں اوڑھا دیتا۔ بلیوں کے علاوہ گھر میں کئی کتے بھی تھے، جنھیں ٹہلانے کا بھی اسے حکم دیا گیا تھا، حالانکہ ان کی بلیوں کی طرح زیادہ دیکھ بھال نہیں کی جاتی تھی۔ بلیاں تو بس مس آحوزی کے اپنے بچوں کی طرح تھیں۔ یہاں مک اب ویسی ہی زندگی گزار رہا تھا، جیسی اپنے والد کے گھر میں تھی۔ کیونکہ، مس آحوزی کے علاوہ اسے سارا دن صرف بلیاں اور کتے ہی نظر آتے تھے۔
کچھ دنوں تک مک اچھی طرح رہتا رہا۔ وہ پیٹ بھر کر مزے دار کھانے کھاتا تھا اور اسے زیادہ کام بھی نہیں کرنا پڑتا تھا۔ مس آحوزی بھی اس سے خوش نظر آتی تھی، لیکن کچھ دنوں بعد بلیوں نے شرارتیں شروع کردیں۔ ایک دن جب مس آحوزی کہیں گئی ہوئی تھی تو وہ دیوانوں کی طرح دوڑتی ہوئی کمروں میں گھس آئیں اور سب کچھ الٹ پلٹ کر ڈالا۔ کئی قیمتی ظروف بھی ٹوٹ گئے۔ لیکن، جوں ہی سیڑھیوں پر مس آحوزی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ وہ اپنے بستروں پر لیٹ گئیں۔ گویا کچھ ہوا ہی نہیں اور اپنی دم لٹکائے سوتی بن گئیں۔
مس آحوزی نے جب اپنے کمرے کا برا حال دیکھا تو غصے میں آگئی۔ انہوں نے اس کا قصور وار مک کو ٹھہرایا۔ مک کی بات کو انہوں نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ وہ نوکر سے زیادہ اپنی بلیوں کی معصوم شکل پر یقین کرتی تھیں۔
ننھے مک کو بہت رنج ہوا۔ وہ سمجھ گیا کہ وہ اب یہاں نہیں رہ سکے گا۔ اس نے مس آحوزی کی نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کیا، لیکن اسے یاد آیا، اپنے پہلے سفر میں روپے پیسے کے بغیر کتنی مشکل ہوئی تھی۔ لہٰذا اس نے کسی نہ کسی طرح اپنی تنخواہ وصول کرنے کا ارادہ کیا، جس کا مس آحوزی نے کام شروع کرتے وقت دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن کبھی ادائیگی نہیں کی تھی۔
مس آحوزی کے گھر میں ایک کمرہ تھا جو ہمیشہ بند رہتا تھا۔ وہ اکثر اس میں جاتی اور کمرہ بند کر کے دیر تک کچھ کرتی رہتی تھی۔ جب مک نے سوچا کہ سفر کے لیے رقم کیسے حاصل کی جائے تو فوراً اسے وہ بند کمرہ یاد آیا۔ اس کا خیال تھا کہ وہاں خزانہ چھپا ہوا ہے۔ لیکن دروازے پر ہمیشہ تالا لگا رہتا تھا۔ مک اس انتظار میں تھا کہ کسی طرح اس کی چابی مل جائے۔
مس آحوزی کے پاس ایک کتا تھا، جسے وہ پسند نہیں کرتی تھی۔ وہ مک کے اچھے سلوک کی وجہ سے اس کے قریب ہوگیا تھا۔ ایک دن جب مس آحوزی گھر سے چلی گئی تو وہ مک کے پاس آیا اور اس کی پتلون کا پائینچہ پکڑ کر گھسیٹا، گویا اسے اپنے پیچھے آنے کا کہہ رہا ہو۔ مک جو کتوں کے ساتھ کھیلنا پسند کرتا تھا، اس کے پیچھے چل دیا۔ کتا اسے مس آحوزی کے بیڈ روم میں لے گیا۔ وہاں اس نے ایک چھوٹا دروازہ دیکھا جو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ دروازہ آدھا کھلا تھا۔ کتا اندر داخل ہوا۔ مک بھی پیچھے تھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ اسی کمرے میں ہے جہاں وہ اتنے دنوں سے جانے کی کوشش کر رہا تھا یعنی خزانے والا کمرہ، لیکن اس میں کوئی خزانہ یا روپیہ پیسہ نہیں تھا۔ پورا کمرہ پرانے کپڑوں اور عجیب و غریب برتنوں سے بھرا ہوا تھا۔ ان برتنوں میں ایک خوبصورت ڈیزائن والا شیشے کا برتن بھی تھا۔ مک اسے اٹھاکر دیکھنے لگا۔ لیکن آہ۔۔۔۔۔ برتن اس کے ہاتھ سے گرا اور کرچی کرچی ہوگیا۔
ننھا مک خوف کے مارے ساکت ہوگیا۔ اس کی تقدیر کا فیصلہ خود ہی ہو گیا تھا۔ اب وہ وہاں نہیں رک سکتا تھا، ورنہ مس آحوزی اسے مار ڈالتی۔ اس نے فوراً ہی وہ جگہ چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا، لیکن جانے سے پہلے اس نے ایک بار پھر غور کیا کہ آیا اس کے سفر کے لئے یہاں سے کوئی کارآمد چیز مل سکتی ہے یا نہیں؟ اچانک اس کی نظر جوتوں کی ایک جوڑی پر پڑی۔ وہ خوبصورت نہیں تھے، مگر اس کے ناپ کے تھے۔ اس نے انہیں پہن لیا۔ پھر اسے ایک خوبصورت چھڑی نظر آئی۔ جس کے ایک سرے پر شیر کا سر کھدا ہوا تھا۔ اس نے چھڑی بھی اٹھائی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
وہ پہلے اپنی کوٹھری میں گیا۔ اپنے باپ کی پگڑی کو سر پر جمایا اور گھر سے باہر دوڑ گیا۔ باہر نکل کر بھی وہ رکا نہیں بلکہ دوڑتا رہا۔ وہ چاہتا تھا کہ جتنی جلد ممکن ہو شہر سے نکل جائے۔ وہ مس آحوزی کے غصے سے خوفزدہ تھا۔ وہ اپنی زندگی میں کبھی اتنا تیز نہیں دوڑا تھا۔ آخر وہ شہر سے باہر نکل گیا۔ شہر سے باہر آکر جب اس نے رکنے کی کوشش کی تو اس پر انکشاف ہوا کہ وہ نہیں رک سکتا۔ ایسا لگتا تھا کہ کوئی غیبی طاقت اسے دوڑا رہی ہے۔ اس نے مایوسی سے سوچا کیا میں ہمیشہ دوڑتا رہوں گا۔ وہ گھبرا کر یوں چلایا جیسے گھوڑا روکتے ہیں۔ ”ارے ارے او۔۔۔۔“
آخر جوتے رک گئے اور مک تھک کر زمین پر گر گیا۔
باب:۴
ننھا مک جوتے پاکر بہت خوش تھا۔ اس نے اپنی محنت کا اچھا صلہ پایا تھا۔ ان کی مدد سے وہ دنیا میں کامیابی آسانی سے تلاش کرسکتا تھا۔ اس خوشی کے باوجود وہ تھکن سے بے حال ہوکر جلد خواب خرگوش کے مزے لینے لگا۔
سوتے میں اس نے خواب میں اس چھوٹے کتے کو دیکھا، جس نے مس آحوزی کے گھر میں اس کی مدد کی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا۔
”پیارے مک! آپ نے ابھی تک جوتے ٹھیک طرح استعمال کرنے نہیں سیکھے ہیں۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ان کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ ایک پاؤں اٹھا کر اپنی دوسری ایڑی پر تین بار گھومنے پر آپ جہاں چاہیں پرواز کرسکتے ہیں اور چھڑی آپ کو خزانہ تلاش کرنے میں مدد کرے گی، جہاں سونا دفن ہے۔ وہاں وہ زمین پر تین بار ٹکرائے گی اور جہاں چاندی دفن ہے وہاں دو بار۔“
ننھے مک نے جاگ کر اس حیرت انگیز خواب کو یاد کیا اور تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنا ایک پیر اٹھایا اور دوسرے پر گھومنے لگا۔ بے چارہ اس کوشش میں کئی بار زمین پر گرا، لیکن ہمت نہ ہاری۔ آخر کامیاب ہوا۔ اس نے اپنے آپ کو قریب کے بڑے شہر میں دیکھنے کی خواہش کی، اچانک اس نے دیکھا کہ وہ ہوا میں اٹھ رہا ہے۔ وہ گول دائرے میں گھومتا، جیسے بھنور میں پھنسا ہو، بادلوں سے بھی اوپر اٹھ گیا۔ ابھی مک خود کو سنبھال بھی نہیں پایا تھا کہ اس نے خود کو ایک بڑے بازار کے چوراہے پر پایا۔ جہاں اجناس سے بھری دکانیں تھیں اور لوگ آجارہے تھے۔ وہ بھیڑ میں جلد گھبرا گیا کیونکہ راہ چلتے کسی آدمی نے اس کے جوتے پر پیر رکھ دیا تھا۔ جس سے وہ گرتے گرتے بچا تھا۔ پھر کوئی اس کے خنجر سے اٹک گیا۔ اس نے رک کر مک کو غور سے دیکھا تھا۔ آخر اس نے فیصلہ کیا کہ اسے کسی ویران گلی کا رخ کرنا چاہیے۔
اب ننھا مک سنجیدگی سے سوچ رہا تھا کہ وہ تھوڑا سا پیسہ کیسے کما سکتا ہے۔ یہ سچ تھا کہ اس کے پاس خزانے کی نشاندہی کرنے والی چھڑی تھی، لیکن وہ فوری طور پر وہ جگہ کیسے ڈھونڈ سکتا تھا جہاں سونا یا چاندی دفن ہو۔
اچانک اسے اپنی ٹانگوں کی تیز رفتاری یاد آگئی۔ اس نے سوچا۔ میرے جوتے مجھے اچھی ملازمت دلاسکتے ہیں۔
اس نے پیغام رساں بننے کا فیصلہ کیا، لیکن اس طرح کی ملازمت سوائے بادشاہ کے اور کسی کے پاس نہیں مل سکتی تھی۔ وہاں تنخواہ بھی اچھی ملتی۔ آخر وہ بادشاہ کے محل کی تلاش میں چل دیا۔
محل کے دروازے پر ایک محافظ موجود تھا۔ جس نے مک سے پوچھا کہ وہ یہاں کیوں آیا ہے؟
اس نے جواب دیا کہ وہ ملازمت کی تلاش میں ہے، تو اسے غلاموں کے نگران کے پاس بھیج دیا گیا۔
مک نے نگراں کو بطور شاہی پیغام رساں ملازمت کرنے کی درخواست پیش کی۔ نگران نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور کہا۔
”آپ کو شاہی پیغام رساں بننے کا خیال کیسے آیا؟ کیا آپ نے کبھی اپنی ٹانگیں نہیں دیکھیں؟ بس جلدی سے نکل جائیں، میرے پاس ہر بیوقوف کے ساتھ بات کرنے کا وقت نہیں ہے۔“
لیکن ننھے مک نے قسمیں کھانی شروع کردیں کہ وہ مذاق نہیں کر رہا تھا اور کسی بھی پیغام رساں سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ نگران نے محسوس کیا کہ اس طرح کا مقابلہ ایک اچھی تفریح ہوگی۔ جو بادشاہ کو خوش کردے گی۔
اس نے مک کو شام تک مقابلے کے لئے تیار رہنے کے لئے کہا اور اسے باورچی خانے میں لے گیا اور باورچی کو حکم دیا کہ اسے مناسب طریقے سے کھلایا پلایا جائے۔ پھر وہ خود بادشاہ کے پاس چلا گیا اور اس چھوٹے آدمی اور اس کے دعوؤں کے بارے میں بتایا۔
بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا کہ نگران نے اس کے لطف اور خوشی کے لیے ایک بونے کا بندوست کیا ہے۔ لہٰذا اس نے شاہی محل کے پیچھے گھاس کے بڑے میدان میں انتظام کرنے کا حکم دیا تاکہ اس دوڑ کو سب دیکھ سکیں اور بونے کے بارے میں خاص خیال رکھنے کو کہا۔ بادشاہ نے اپنے شہزادوں اور شہزادیوں کو بتایا کہ شام میں تفریح کے لئے اس نے کیا انتظام کیاہے۔
باب:۵
جب بادشاہ اپنے شہزادوں، شہزادیوں اور مصاحبوں کے ساتھ بلند نشست پر بیٹھ گیا تو ننھے مک نے گھاس کے میدان میں قدم رکھا اور بادشاہ سلامت کے سامنے احترام سے جھک کر تعظیم دی۔
لوگ اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ جیسے انھوں نے کوئی عجوبہ دیکھ لیا ہو۔ ایک نازک جسم پر ایک بہت بڑا سر رکھا تھا، عجیب ڈھیلے ڈھالے لباس میں۔ چھوٹے ہاتھ اور چھوٹی چھوٹی ٹانگیں۔ انھوں نے ایسی مضحکہ خیز شخصیت پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ وہ بے اختیار قہقہے لگانے لگے۔ لیکن مک نے ان کی ہنسی کی پروا نہ کی۔ وہ فخر کے ساتھ چھڑی کے سہارے کھڑے ہو کر اپنے حریف کو دیکھنے لگا۔ مک کے اصرار پر نگران نے بہترین دوڑنے والے کا انتخاب کیا تھا۔ دونوں ساتھ ساتھ کھڑے تھے اور اشارے کے منتظر تھے۔ پھر شہزادی امرزہ نے جیسے ہی جھنڈی لہرائی۔ دونوں اس طرح دوڑے گویا ایک ہی نشانے پر دو تیر چلائے گئے ہو۔ وہ گھاس کے میدان میں دوڑ رہے تھے اور تماشائیوں کی نظریں ان پر جمی تھیں۔
پہلے تو مک کے حریف کو برتری حاصل تھی، لیکن جوں ہی مک نے اپنے جوتوں کو استعمال کیا، وہ جلد اس تک پہنچ گیا پھر پلک جھپکتے ہی اس سے آگے نکل گیا۔ جلد ہی وہ فتح کے نشان پر کھڑا گہری سانسیں لے رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے سامعین حیرت اور تعجب سے بے ہوش سے ہوگئے، لیکن جب بادشاہ نے تالیاں بجانی شروع کی تو ہجوم بھی خوشی سے چیخنے اور پُرجوش نعرے بازی کرنے لگا۔
”ننھا مک زندہ باد۔۔۔ فاتح ننھا مک۔۔۔ زندہ باد!“
ننھے مک کو پلیٹ فارم پر لے جایا گیا، اس نے بادشاہ کو تعظیم دی اور بولا۔ ”حضور والا! میں نے آپ کو اپنے فن کی ایک معمولی مثال پیش کی ہے۔ آپ مجھے سلطنت کے پیغام رسانوں میں شامل ہونے کی اجازت دیجیے۔“
بادشاہ بولا۔”پیارے مک! سلطنت کے نہیں آپ میرے ذاتی پیغام رساں ہوں گے۔ آپ کو سال میں ایک سو سونے کی اشرفیاں بطور تنخواہ ملیں گی اور آپ میرے قریبی خادموں کی طرح اسی میز پر کھانا کھائیں گے۔“
تب مک نے آسودگی سے سوچا کہ آخرکار اسے طویل انتظار کے بعد کامیابی مل گئی ہے۔ اس کی روح مسرت سے سرشار ہوگئی۔ بادشاہ اس کے ذریعے انتہائی اہم اور خفیہ پیغام بھیجنے لگا۔ جنھیں مک درست طریقے سے برق رفتاری کے ساتھ منزلوں تک پہنچاتا۔لیکن بادشاہ کے دوسرے مصاحبوں کو یہ بات ناگوار گزری کہ ایک بونے کو جو صرف تیزی سے بھاگنا جانتا ہے،بادشاہ سلامت کا قرب حاصل ہورہا ہے۔ وہ اس سے حسد کرنے لگے اور انھوں نے اسے اس منصب سے گرانے کے لیے سازشیں شروع کر دیں، لیکن ان کی یہ سازشیں بادشاہ سلامت کے اس اعتماد کو ضرر نہ پہنچا سکیں جو وہ ننھے مک پر کرتا تھا۔
مگر ننھا مک اس سے پریشان ضرور ہوا، لیکن وہ کبھی ان سے انتقام کے بارے میں نہیں سوچتا تھا۔ وہ نیک فطرت تھا۔ وہ ان کے لیے اچھا بننے اور ان کے دل جیتنے کی کوشش کررہا تھا۔
پھر اسے اپنی چھڑی یاد آگئی، جو خوشی میں وہ بھول گیا تھا۔ اس نے سوچا اگر وہ چھڑی کی مدد سے خزانہ حاصل کرلے تو سب اس سے اچھا سلوک کرنے لگیں گے اور اس کے دوست بن جائیں گے۔ اس نے وہاں کئی بار لوگوں سے یہ سنا تھا کہ موجودہ بادشاہ کے والد نے اپنے بہت سے خزانے کو اس وقت دفن کر دیا تھا جب کسی دشمن نے ان کے ملک پر حملہ کیا تھا، مگر وہ اپنے بیٹے کو یہ بتانے سے پہلے ہی موت کی وادی میں چلے گئے تھے کہ خزانہ کہاں دفن ہے۔
اب مک ہر وقت اپنی چھڑی ہاتھ میں لیے ادھر ادھر گھومتا رہتا۔ اسے امید تھی کہ کسی دن شاید اس جگہ سے گزر ہوجائے، جہاں خزانہ دفن ہے۔
ایک شام وہ محل کے وسیع باغ کے ایک دور دراز حصے میں ٹہل رہا تھا، جہاں وہ پہلے کبھی نہیں آیا تھا، اچانک اس نے چھڑی ہاتھ میں لرزتی محسوس کی۔ پھر وہ تین بار زمین سے ٹکرائی۔ مک فوراً سمجھ گیا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ اس نے اپنی پٹکے سے خنجر کھینچ کر نکالا اور آس پاس کے درختوں پر نشان لگادیئے،پھر خاموشی سے محل میں چلا گیا۔ وہاں اس نے ایک بیلچہ ڈھونڈا اور اسے ایک جگہ چھپا کر رات ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
رات کو مک نے باغ کا رخ کیا اور اس جگہ پر پہنچ کر کھدائی شروع کی، مگر یہ کام اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کے لیے بہت مشکل تھا۔ وہ جلد تھک گیا، مگر اس نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ دو گھنٹے میں چند فٹ گڑھا کھود سکا، لیکن پھر بیلچہ کسی ٹھوس چیز سے ٹکرایا۔ وہ تیزی سے کھدائی کرنے لگا۔آخر اسے لوہے کی ایک دیگ نظر آئی جس میں سونے کی اشرفیاں بھری تھیں۔
وہ دیگ بہت بھاری تھی، لہٰذا اس نے اپنا چوغہ اتارا، اس میں اشرفیاں باندھیں اور دیگ کو واپس زمین میں دفن کر کے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ اب سب کچھ بدل جائے گا۔ سب اس کے دوست بن جائیں گے اور اس کی عزت کرنے لگیں گے، مگر معصوم مک یہ نہیں جانتا تھا کہ دولت سے حقیقی دوست نہیں خریدے جاسکتے۔ کیونکہ اس نے اچھی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ ورنہ وہ یہ تصور بھی نہیں کرتا کہ سونے کی مدد سے دوستی کو خریدا جاسکتا ہے۔ اوہ، کاش اس نے اس وقت اپنے جوتوں کو آزمایا ہوتا اور سونے سے بھرے اپنے چوغے کو کسی شکاری کو دے دیا ہوتا۔
باب:۶
اب لٹل مک نے وہ سونا اپنے دائیں بائیں لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا۔ اسے اتنا امیر دیکھ کر وہ حسد میں مبتلا ہو گئے۔
خانسامانوں کے نگران اگولی نے کہا۔ ”وہ جعل ساز ہے۔“
غلاموں کے نگراں احمت نے کہا۔”اس نے یہ سب بادشاہ سے بٹورا ہے۔“
اور اس کا بدترین دشمن خزانچی ارحاز، جو خود بادشاہ کے خزانے میں خوردبرد کرتا تھا بولا۔ ”اس نے چوری کی ہے۔“
انھوں نے نئی سازش تیار کرنی شروع کی، جس پر انہیں اپنی کامیابی کا پختہ یقین تھا۔ ایک دن خانسامانِ علیٰ اگولی بادشاہ کے سامنے غم زدہ اور نم آنکھوں کے ساتھ حاضر ہوا۔ بادشاہ نے پوچھا کیا معاملہ ہے۔
”آہ۔۔۔۔ مجھے دکھ ہے کہ میں نے اپنے آقا کا اعتماد کھو دیا ہے۔“ وہ بولا۔
”وہ کیسے؟ میرا خیال ہے کہ میرے اعتماد کا سورج آپ پر آج بھی چمک رہا ہے۔“ بادشاہ نے کہا۔
”آپ نے خفیہ پیغام رساں پر سونے کی بارش کردی ہے، مگر اپنے پرانے وفادار خادموں کو کچھ نہیں دیا ہے۔“ خانسامانِ اعلیٰ بولا۔
بادشاہ یہ سن کر حیران ہوا۔ اس نے کھل کر بیان کرنے کو کہا۔
خانسامان نے بتایا کہ کس طرح ننھا مک سونا تقسیم کررہا ہے۔ اس نے آسانی سے بادشاہ کے دل میں یہ شبہ پیدا کیا کہ مک نے خزانے سے اشرفیاں چوری کرلی ہیں۔ معاملے کا یہ موڑ خزانچی کے لئے بہت خوشگوار تھا کیونکہ اس کا حساب کتاب گڑبڑ تھا، جسے وہ بہانے کر کے بادشاہ کو نہیں دکھاتا تھا۔
بادشاہ نے حکم دیا کہ مک کی نگرانی کی جائے اور موقع پر رنگے ہاتھوں پکڑا جائے۔ ننھے مک کی سخت نگرانی کی جانے لگی۔
پھر ایک دن مک نے دیکھا کہ اس کے پاس اشرفیاں ختم ہو رہی ہیں۔ وہ بہت فراخدلی سے لوگوں کو بانٹتا رہا تھا۔
اس رات وہ باغ میں گیا تاکہ دوبارہ زمین سے اشرفیاں نکال سکے۔ خانسامانِ اعلیٰ اگولی اور خزانچی ارحاز کی سربراہی میں نگرانی کرنے والے اس کے پیچھے تھے اور عین اس وقت جب وہ دیگ میں سے سونا اپنے چوغے میں باندھ رہا تھا، انہوں نے اسے پکڑ لیا اور باندھ کر بادشاہ کے پاس لے گئے۔ سازشی لوگ اشرفیوں سے بھری دیگ اور بیلچہ بھی ساتھ لے جانا نہیں بھولے تھے۔
انہوں نے سب چیزیں بادشاہ کی خدمت میں یہ کہہ کر پیش کیں کہ مک یہ دیگ زمین میں دبا رہا تھا کہ ہم نے چھاپہ مار کر اسے گرفتار کر لیا۔
بادشاہ نیند میں خلل ڈالنے پر سخت غصے میں تھا۔ اس نے ملزم سے پوچھا۔ ”کیا یہ سچ ہے؟ اور یہ سونا تمہیں کہاں سے ملا تھا؟“
ننھے مک نے کہا۔ ”میں بے گناہ ہوں۔ مجھے یہ دیگ باغ میں ملی ہے۔ میں نے دفن نہیں کی، بلکہ کھود کر نکالی ہے۔“
وہاں موجود لوگ اس بہانے کو سن کر ہنسنے لگے۔
بادشاہ کو یہ سن کر بہت غصہ آیا۔وہ چیخ اٹھا،”یہ کیا بدتمیزی! تم جھوٹ بول رہے ہو۔ خزانچی ارحاز! میں آپ سے پوچھتا ہوں۔ کیا ہمارے خزانے میں کوئی کمی ہوئی ہے؟“
خزانچی نے جواب دیا۔”جی جناب! مجھے پورا یقین ہے کہ شاہی خزانے میں سے کچھ عرصے سے سونا چوری ہورہا ہے اور میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ سونا وہ ہی ہے۔“
تب بادشاہ نے حکم دیا کہ ننھے مک کو زنجیروں میں جکڑ کر ٹاور پر قید کردیا جائے۔ پھر اس نے سونا خزانچی کے حوالے کیا تاکہ وہ اسے خزانے میں جمع کرلے۔
خزانچی اس معاملے کے اتنے خوش گوار انجام پر بہت خوش تھا۔ وہاں سے نکل کر وہ گھر گیا اور سونے کی اشرفیاں گنیں۔ اشرفیوں کے نیچے سے ایک پرچہ برآمد ہوا۔ جس پر لکھا تھا۔ ”دشمن نے میرے ملک پر حملہ کردیا ہے۔ لہٰذا میں اپنا کچھ خزانہ یہاں چھپارہا ہوں۔ جسے بھی یہ ملے وہ فوراً! میرے بیٹے کو اطلاع دے۔ اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو اس پر بادشاہ کی لعنت ہوگی۔“
شاہ سدی۔
خزانچی نے فوراً وہ پرچہ ضائع کردیا۔
ننھا مک اپنی قید میں بہت غمزدہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ شاہی سامان چوری کرنے والے کو موت کی سزا ملتی ہے۔ مگر وہ بادشاہ کو اپنی چھڑی کا راز بھی بتانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اس سے بھی خوفزدہ تھا کہ یہ جوتے اس سے نہ چھین لیے جائیں۔ بدقسمتی سے وہ جوتوں سے کوئی مدد نہیں لے سکتا تھا۔ کیونکہ زنجیر بہت چھوٹی تھی۔ اس نے جوتے استعمال کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوا۔ لیکن جب اگلے دن اس کو سزائے موت دینے کا اعلان کیا گیا تو اس نے فیصلہ کیا کہ مرنے سے بہتر ہے کہ جادو کی چھڑی کے بارے میں بادشاہ کو بتادیا جائے۔
باب:۷
اس نے بادشاہ کے سامنے چھڑی کے راز کا انکشاف کردیا۔ پہلے تو بادشاہ کو اس کے بات پر یقین نہیں آیا۔ لیکن لٹل مک نے کہا کہ وہ تجربے سے ثابت کرسکتا ہے۔ اگر بادشاہ سلامت وعدہ کریں کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ بادشاہ نے مک سے وعدہ کیا۔ پھر اس نے خفیہ طور پر کچھ سونا دفن کرنے کا حکم دیا۔
کچھ دیر بعد سب باغ میں آئے۔ مک نے جلد ہی سونا ڈھونڈ لیا۔ کیونکہ چھڑی زمین پر تین بار واضح طور پر ٹکرائی تھی۔ اب بادشاہ جان گیا کہ اس کا خزانچی ایک دھوکے باز آدمی ہے۔ اس نے خزانچی کو پھانسی دینے کا حکم دیا۔
پھر بادشاہ نے ننھے مک سے کہا۔ ”اگرچہ میں نے تم سے جان بچانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن مجھے لگتا ہے کہ تم اب بھی ایک راز چھپا رہے ہو، لہٰذا تم اس وقت تک میری قید میں رہو گے جب تک اپنی تیز رفتار دوڑ کا راز نہیں بتادیتے۔“
لٹل مک جو ٹاور میں صرف ایک رات گزار کر ہی حوصلہ ہار بیٹھا تھا۔ اس نے اعتراف کر لیا کہ اس کا سارا فن جوتوں میں موجود ہے، لیکن اس نے بادشاہ کے سامنے جوتوں کو روکنے کا راز ظاہر نہیں کیا۔ بادشاہ نے خود تجربہ کرنے کے لئے اپنے جوتے اتار پھینکے اور مک کے جوتے پہن کر باغ میں پاگلوں کی طرح بھاگنے لگا۔ پھر اس نے رکنے کی کوشش کی، لیکن وہ جوتوں کو روکنے کا طریقہ نہیں جانتا تھا۔ بادشاہ اس وقت تک بھاگتا رہا جب تک گر کر بے ہوش نہ ہوگیا۔ یوں ننھے مک نے اس سے چھوٹا سا انتقام لیا۔
جب بادشاہ کو ہوش آیا تو وہ ننھے مک پر سخت ناراض تھا، جس نے اسے خوب دوڑایا تھا۔
”میں نے تم کو آزادی اور زندگی دینے کا وعدہ کیا تھا، لہٰذا بارہ گھنٹوں میں یہ ملک چھوڑ کر چلے جاؤ، ورنہ تم کو پھانسی چڑھادیا جائے گا۔“ اس نے کہا۔
پھر بادشاہ نے جوتوں اور چھڑی کو اپنے خزانے میں جمع کروانے کا حکم دیا۔
ننھا مک فوراً روانہ ہوگیا۔ وہ اپنی حماقت پر لعنت بھیج رہا تھا، وہ اس ملک کو غربت اور مفلسی کی حالت میں چھوڑ رہا تھا اور بہت غم زدہ تھا۔ اسے چلنے میں مشکل ہورہی تھی۔ کیونکہ وہ اپنے شاندار جوتوں کا عادی ہوگیا تھا۔ مگر خوش قسمتی سے سرحد قریب ہی تھی۔وہ بارہ گھنٹے سے پہلے اس کی حدود سے نکل گیا۔
سرحد عبور کرنے کے بعد وہ راستے سے ہٹ گیا اور گھنے جنگل میں گھستا چلا گیا، کیونکہ وہ سب سے ناراض تھا۔ وہ جنگل میں ایک ایسی جگہ پر پہنچا جو اسے بہت پسند آئی۔ وہاں انجیر کے درختوں میں گھرا ایک شفاف پانی کا چشمہ تھا اور دور تک نرم گھاس اگی تھی۔ مک گھاس پر لیٹ گیا اور اس نے عزم کیا کہ وہ کچھ نہیں کھائے گا اور موت کا انتظار کرے گا۔ ان ہی غمگین خیالوں میں ڈوبا وہ گہری نیند سو گیا۔
لیکن جب وہ بیدار ہوا اور بھوک نے اسے اذیتیں دینا شروع کیں تو اس نے فیصلہ کیا کہ فاقہ کشی ایک خطرناک کام ہے۔ اس نے آس پاس دیکھا کہ کچھ کھانے کو ہے یا نہیں۔ تو اسے درخت سے لٹکے بہترین پکے انجیر نظر آئے۔ مک انھیں توڑنے کے لئے اس پر چڑھ گیا اور خوب پیٹ بھر کر انجیر کھائے۔ پھر اپنی پیاس بجھانے کے لئے چشمے کے پاس گیا۔ جب اس کی نظر پانی پر اپنے عکس پر پڑی تو وہ اچھل پڑا۔ اسے اپنے چہرے پر دو بڑے کان اور ایک موٹی لمبی ناک نظر آئی۔ اس نے حیرت سے اپنے کان پکڑے۔ وہ اس کے بازو سے زیادہ لمبے تھے۔
”میں گدھے کے کانوں ہی کا مستحق ہوں۔ کیونکہ میں، گدھے کی طرح اپنی خوشی کو روندتا رہا ہوں۔“ وہ چیخا۔
وہ درختوں کے نیچے بے مقصد گھومنے لگا۔پھر جب اسے دوبارہ بھوک لگی تو اسے پھر انجیر کا سہارا لینا پڑا، کیونکہ وہاں صرف انجیر کے درخت تھے۔ اس نے دوسرے درخت سے توڑ کر انجیر کھائے۔ پھر اس نے سوچا کہ اپنے مضحکہ خیز کان پگڑی کے نیچے چھپالیتا ہوں، اچانک اس نے محسوس کیا کہ اس کے کان غائب ہو گئے ہیں۔ وہ انھیں دیکھنے کے لیے فوری طور پر چشمے کی طرف بھاگا۔ بڑے کان واپس چھوٹے ہوگئے تھے۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ کیسے ہوا۔ جلد ہی اس کی سمجھ میں آگیا کہ انجیر کے پہلے درخت سے اس کی ناک اور کان لمبے ہوگئے اور دوسرے نے اسے شفا بخش دی۔ اسے خوشی محسوس ہورہی تھی۔ پھر اس کے ہاتھ ایک ہنر آگیا تھا جو اسے کامیابی دلاسکتا تھا۔
چنانچہ اس نے دونوں درختوں سے اتنے پھل توڑے جنھیں وہ ساتھ لے جاسکے اور واپس اس ملک کی طرف چل دیا۔ جو حال ہی میں اس نے چھوڑا تھا۔
باب:۸
اس ملک میں ابھی درختوں پر انجیر نہیں پکے تھے۔ لہٰذا، ننھا مک محل کے پھاٹک کے پاس بیٹھ گیا۔
وہ جانتا تھا کہ یہاں خانسامان کے مددگار اس طرح کے نایاب پھل خریدنے آتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد، مک نے دیکھا کہ خانسامان خود صحن کے پار سے گیٹ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مک نے جلدی سے اپنی پگڑی کھولی اور چادر کی طرح اوڑھ کر بیٹھ گیا۔
خانسامان نے تاجروں کے سامان کی جانچ کرنا شروع کی جو محل کے دروازے پر جمع تھے۔ آخر اس کی نگاہ مک کی ٹوکری پر پڑی۔
”بہت خوب! پکے ہوئے انجیر۔ یہ تو بادشاہ سلامت کو بہت پسند ہیں۔ اس پوری ٹوکری کی کیا قیمت ہے؟“ اس نے پوچھا۔
ننھے مک نے مناسب قیمت بتائی۔ جلد ہی سودا طے ہوگیا۔ اس نے ٹوکری غلام کے حوالے کی اور چل دیا۔
ننھا مک فوراً وہاں سے غائب ہوگیا۔ اسے خوف تھا کہیں پھر قسمت پلٹا کھائے اور خانسامان اسے پہچان کر واپس نہ آجائے اور اسے سزا دے۔
کھانے کے وقت بادشاہ کا مزاج بہت اچھا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے خانسامان کی تعریف کرتا تھا جو اس کے لیے نت نئے کھانے تیار کرتا اور نایاب پھل ڈھونڈ لاتا تھا۔ آج بھی وہ انتظار میں تھا۔ وہ بولا۔”ہم دیکھیں گے، آج ہمارے لیے کیا مزیدار چیز پیش کی جاتی ہے۔“
شہزادیاں بھی تجسس میں تھیں۔ جب خانسامان نے خوب پکے ہوئے انجیر پیش کیے تو بادشاہ پکار اٹھا۔”واہ۔۔۔ کتنا میٹھا اور کتنا مزیدار پھل ہے۔ خانسامان! آپ ایک عظیم خدمت گار ہیں اور آپ ہمارے خاص احسان کے مستحق ہیں۔“
بادشاہ نے یہ کہ کر ان انجیروں کو بڑی احتیاط سے اٹھایا اور ہر شہزادے اور ہر شہزادی کو دو دو اور دربار کے وزیروں اور خواتین کو ایک ایک انجیر دی۔ باقی انجیروں کو اس نے اپنے سامنے رکھا اور خوشی خوشی کھانے لگا۔
”میرے خدا! یہ آپ کیسے حیرت انگیز نظر آرہے ہیں؟“ شہزادی امرزہ نے اچانک چیخ کر کہا۔
سب نے حیرت سے بادشاہ کی طرف دیکھا۔ اس کے سر کے دونوں طرف دو بڑے اور بھاری کان لٹکے تھے اور لمبی ناک اس کی ٹھوڑی کے نیچے تک چلی آئی تھی۔ اور پھر وہ سب حیرت اور خوف سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ہر کوئی کم و بیش اس عجیب و غریب بیماری کا شکار ہوگیا تھا۔
ہم اس جگہ کی ہولناکی کا تصور نہیں کرسکتے۔ جہاں لمبے کانوں اور لمبی ناک والے اتنے لوگ موجود تھے۔ فوراً ہی بادشاہ نے شہر کے تمام طبیبوں کو بلایا۔ انھوں نے گولیاں اور دوائیں دیں، لیکن کان اور ناک ختم نہیں ہوئے۔ ایک شہزادے کا آپریشن بھی کیا گیا، لیکن کان پھر بڑھ آئے۔
مک نے جب اس کہانی کو اپنے خفیہ ٹھکانے پر سنا، تو وہ سمجھ گیا کہ اب کام کا وقت آگیا ہے۔ اس نے انجیروں سے جو رقم کمائی تھی،اس سے اپنے لیے کپڑے خریدے اور لمبی داڑھی لگا کر بوڑھا طبیب نظر آنے لگا۔ پھر وہ انجیروں سے بھری ٹوکری لے کر بادشاہ کے محل میں آیا اور اپنے آپ کو ایک غیر ملکی طبیب قرار دیا اور مدد کی پیش کش کی۔ پہلے تو کسی نے اس پر اعتماد نہیں کیا۔ لیکن جب ننھے مک نے ایک شہزادے کو کھانے کے لئے انجیر دیا اور اس نے اس کے کان اور ناک کو اپنی سابقہ حالت پر لوٹا دیا تو ہر ایک کی خواہش ہوئی کہ غیر ملکی طبیب پہلے اس کو شفا بخش دے۔ لیکن بادشاہ خاموشی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گیا۔ وہاں اس نے ایک خفیہ دروازہ کھولا اور مک کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ وہ خزانے کے کمرے میں جا پہنچے۔
بادشاہ نے کہا،”یہ میرا خزانہ ہے۔ اگر آپ ہمیں اس شرمناک بیماری سے نجات دلائیں گے تو میں آپ کو کسی چیز سے انکار نہیں کروں گا۔ آپ جتنا چاہیں لے سکتے ہیں۔“
بادشاہ کی یہ بات ننھے مک کے کانوں میں کسی سریلی موسیقی کی طرح لگی۔ مگر اس کی تیز نظروں نے اندر داخل ہوتے ہی دیکھ لیا تھا کہ اس کے جوتے اور چھڑی ایک طرف رکھے ہیں۔ وہ دھیرے دھیرے چلتا بادشاہ کے خزانوں کی تعریف کرتا اس طرف بڑھ رہا تھا۔ پھر جیسے ہی وہ اپنے جوتوں تک پہنچا، اس نے جلدی سے ان میں پیر ڈالے اور چھڑی کو اٹھالیا۔ پھر اس نے اپنی داڑھی اتار پھینکی۔ بادشاہ اسے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔
”غدار بادشاہ! آپ اپنے وفاداروں کی خدمت کا معاوضہ ناشکری کر کے ادا کرتے ہیں، لہٰذا آپ اس بدصورتی کی سزا کے مستحق ہیں۔ اب آپ ان کانوں کے ساتھ ہر دن ننھے مک کو یاد کریں گے۔“
یہ کہتے ہوئے وہ جلدی سے اپنی ایڑی پر گھوما اور دور اپنے دیس پہنچنے کی خواہش کی۔ اس سے پہلے کہ بادشاہ مدد طلب کرتا، چھوٹا مک وہاں سے غائب ہوگیا۔
تب سے لٹل مک یہاں رہ رہا ہے۔ وہ ایک تجربہ کار اور عقل مند آدمی ہے، لیکن تنہائی پسند ہے، کیوں کہ وہ لوگوں پر اعتبار نہیں کرتا۔
اپنے عجیب و غریب حلیے اور حساس طبیعت کے باوجود میں آپ کو اسے چھیڑنے اور تنگ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ کیوں کہ وہ عزت کا مستحق ہے۔“
میرے والد نے یہ کہہ کر اپنی بات ختم کی۔
میں نے فوراً ان سے معافی مانگی۔ میں بہت شرمندہ تھا۔ میرے والد نے میرے رویے کو دیکھتے ہوئے باقی سزا معاف کردی۔
جب میں نے اپنے ساتھیوں کو ننھے مک کی حیرت انگیز مہم جوئی کے بارے میں بتایا تو وہ سب اس سے بہت متاثر ہوئے۔ اب ہم سب اس کی بہت عزت کرنے لگے۔