نعمت
کرن نورین
۔۔۔۔۔۔
پرانی بوتلوں میں پودے لگانے سے گھر کی سادگی میں ہرا رنگ نمایاں ہو گیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔
ارشد نے کھانا کھا کر ہاتھ دھوئے اور کھونٹی پر ٹنگے تولیے سے ہاتھ پونچھنے لگا۔ اسی وقت اس کی نظر برآمدے میں رکھے دوگملوں پر پڑی۔”یہ کب لائیں؟“اس نے اپنی بیوی پروین سے پوچھا۔
”سبزی لینے گئی تھی تو لے آئی۔“
”اری نیک بخت!یہ سب امیروں کے چونچلے ہیں۔“
ارشد نے کہا
”مجھے اچھا لگا تو میں لے آئی ۔“اُس کے چہرے پر خوشی دیکھ کر ارشد کچھ بولے بغیر کمرے میں چلا گیا ۔
”میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں گھر کے کونے کونے میں پودے لگا دوں۔ تم نے دیکھا اس دن بچوں کا اسلام میں کتنا اچھا مضمون آ یاتھا ،پودوں سے زندگی۔“
رات سونے سے پہلے پروین نے پھر کہا۔
”اس کے لیے جگہ بھی تو ہو، تنگ گلی کا گھر جس میں سورج کی روشنی بھی ادھار کھائے رکھتی ہے ،ہوا کا گزر نہیں تو پودا کہاں سے پنپے گا؟اس کو سورج کی روشنی اور ہوا چاہیے ہوتی ہے۔“ارشد نے تلخ حقیقت کا آئینہ دکھایا۔
”معلوم ہے مگر میں کوشش کروں گی ۔“پروین کے لہجے میں عزم تھا ارشد خاموش ہوگیا۔
دو مہینے میں ہیگھر کافی ہرابھرا ہوگیا تھا۔ پروین نے کچھ انڈور پلانٹس خریدے تھے مگر وہ کچھ مہنگے تھے ۔ سو اس نے زیادہ تر منی پلانٹ کی بیل لے کر پرانی بوتلوں میں لگا کر کھڑکیوں سے باندھ دی تھیں اور پرانے ٹوٹے مگ اور پیالیوں میں بھی تھوڑی مٹی اور پودے لگائے تھے، جو اَب دو ماہ میں اتنے بڑھ گئے تھے کہ گھر کی سادگی میں ہرا رنگ نمایاں ہو گیا تھا۔
پروین اب ہرہفتے بچت کرکے کوئی نہ کوئی نیا پودا لے آتی مگر اب ارشد اس کو کچھ نہیں کہتا تھا ۔ا سے بھی یہ ہریالی اچھی لگنے لگی تھی۔اس کے مزاج میں بھی غیر محسوس طریقے سے خوشگواریت آئی تھی، ورنہ وہ پہلے کافی چڑچڑا سا رہتا تھا۔
آج کافی عرصے بعد وہ ہسپتال آیا تھا۔ سینے کا ایکسرے کرواکر ڈاکٹر کے پاس گیا۔
ڈاکٹر نے ایکسرے دیکھتے ہوئے خوشگوار حیرت سے کہا:
”ماشا اللہ اب تو کافی بہتر ی آ گئی ہے، لگتا ہے دوا کے علاوہ بھی کوئی تبدیلی آئی ہے زندگی میں۔“
”نہیں تبدیلی کیا آئے گی وہی تنگ گلی کا گھر ،لوہے کے کارخانے کی نوکری۔“
ارشد نے کہا۔
” آپ نے چہل قدمی شروع کر دی ہے کسی قریبی پارک میں۔“
”بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد گھر آکر کھانے کی ہمت نہیں ہوتی پارک جانے کا وقت کہاں سے لاو¿ں؟“ارشد نے ذرا تلخ لہجے میں کہا۔
”بہرحال جو کچھ بھی ہے اس بار بہت بہتر ی آئی ہے، میں نے دوا میں کمی کردی ہے مگر پابندی سے لیں اور دو ماہ بعد دکھائیں۔“ ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ لہجے میں کہا۔
”ہاں ایک تبدیلی آئی ہے۔ پچھلے مہینے بیگم نے گھر میں جگہ جگہ پودے لگا دیے ہیں کہ تازہ ہوا ملے۔“ارشد کو اٹھتے اٹھتے یاد آیا۔
”اوہوبالکل یہی بات ہے ….پودے تو صحت مند زندگی کے لیے بہت ضروری ہیں۔“ ڈاکٹر نے چہکتے ہوئے کہا۔ ”بس یہی وجہ ہے کہ آپ کی صحت بہتر ہورہی ہے۔“
واپسی پر بس کے انتظار میں کھڑے ارشد نے سڑکوں پر لگے درختوں اور پودوں کو بڑی محبت سے دیکھا ۔ اس کا ہمیشہ سے ناراض دل خوشی اور شکر سے بھر گیا۔ وہ جان گیا تھا کہ خدا کی عطا کردہ تمام نعمتیں بہت عام ہیں ۔ ان کے لیے ڈھیر سارے پیسوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ذرا سی کوشش اور تھوڑے سے پیسوں سے اس کی بیوی نے خدا کی ایک نعمت اس کے گھر میں بھر دی تھی ، جس سے اس کی کئی مہینوں سے رہنے والی سینے کی تکلیف اور کھانسی میں افاقہ ہو گیا تھا۔
اچانک ایک خیال نے اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دی۔
اس نے قریبی نرسری کا رخ کیا اور زندگی میں پہلی بار پروین کے لیے ایک خوبصورت پودا بطورتحفہ خریدا۔اپنی بیوی کا شکریہ ادا کرنے کا اس کے پاس یہی طریقہ تھا۔
٭٭٭