نیک جن
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
آسیب پکڑے گئے!مگر کیسے؟
۔۔۔۔۔
”حارث بیٹے!“ امی کی آواز آئی۔
”جی امی!“ حارث نے کیرم کی گو ٹیں جماتے ہوئے کہا۔
”بیٹے، یہ برآمدے کا بلب تم نے اُتارا ہے؟“ امی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں تو! کیوں کیا بلب وہاں نہیں ہے؟“
”نہیں ہے جبھی پوچھ رہی ہوں، تم سے خالد!“ امی نے خالد سے پوچھا، جو حارث کے ساتھ کیرم کھیل رہا تھا۔
”ارے چھوڑیے امی، فیوز ہو گیا ہو گا تو کسی نے نکال کر پھینک دیا ہو گا۔“ حارث نے بے پروائی سے کہا۔
”جی نہیں، ابھی دوروز قبل میں نے منگوا کر لگوایا تھا۔“ امی تیز لہجے میں بولیں۔ پھر انہوں نے ذکیہ باجی،رضو آپا اور بھابھی سے بھی پوچھ گچھ کر ڈالی لیکن ہر ایک کا یہی جواب تھا۔”مجھے کیا معلوم؟“
”امی نے گھر کی نوکرانی کو آواز دی جنہیں سب لوگ ’بوا‘ کہتے تھے۔ کہتے ہیں کہ بوا کو حارث کی دادی مرحومہ نے ملازمہ رکھا تھا۔ اس لیے بُوا کو گھر کے ایک فرد کی سی حیثیت حاصل تھی۔ سب ان کا ادب کرتے تھے۔ بُوا آئیں تو امی نے اُن سے پوچھا۔”بوا آپ کو پتا ہے کہ بر آمدے کا بلب کہاں گیا؟“
”بی بی جی مجھے بلب سے کیا کام؟“ بوا حیرانی سے بولیں۔ ”اللہ رکھے میرے کمرے میں دو دو بلب لگے ہیں۔ پھر بُوا کے چہرے پر فکر مندی پھیل گئی۔
”میں تو کہوں، بی بی جی یہ کسی انسان کا کام نہیں لگتا۔“
”پھر کس کا ہے؟ حیوان کا ہے؟“ حارث نے مذاق اُڑایا۔
”تو بہ کر و حارث میاں۔“ بوامنہ پر ہاتھ رکھ کر بولیں۔”میرا مطلب یہ ہے کہ یہ کسی جن کا کام ہے؟“
”ہشت“ حارث نے خالد کو اپنی باری چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”جن بھی اب اپنے گھروں میں سوواٹ کے بلب لگانے لگے ہیں کیا؟“
”میرا خیال ہے کہ یہ کوئی پڑھا لکھا جن ہو گا اور اُسے رات کو پڑھنے کے وقت ٹیبل لیمپ کی ضرورت پڑتی ہوگی۔“ خالد نے شرارت سے کہا۔ اُسی وقت بے اختیار سب کی نظر میز پر رکھے ٹیبل لیمپ کی طرف اٹھ گئی کہ جن کہیں ٹیبل لیمپ بھی تو نہیں لے گیا، لیکن ٹیبل لیمپ اپنی جگہ موجود تھا۔
شام کو ابو اور حامد بھیا دفتر سے آئے، دونوں سے بلب غائب ہونے کا تذکرہ کیا گیا۔ دونوں نے کہا۔”کوئی بات نہیں، دوسرا بلب آجائے گا۔“ بات آئی گئی ہوگئی۔ تین چار روز بعد، ذکیہ باجی کو کسی دعوت میں جانا تھا۔ تیار ہو کر انہوں نے سینڈ لیں نکالیں تو صرف ایک سینڈل موجود تھی۔ انہوں نے تخت کے نیچے الماری کے پیچھے، دروازوں کی آڑ میں غرض کمرے کا کو نا کو نا چھان مارا مگر سینڈل نہ ملی۔ پھر انہوں نے گھر بھر میں جہاں جہاں سینڈل ملنے کے امکانات تھے، وہاں وہاں تلاش کیا مگر سینڈل نہ ملنی تھی نہ ملی۔ گھر میں کوئی چھوٹے بچے بھی نہ تھے جو سینڈل اُٹھا کر گھر سے باہر پھینک دیں۔ ذکیہ باجی کو دیر ہو رہی تھی۔تھک ہار کر وہ بھائی کی چپلیں پہن کر دعوت میں چلی گئیں، ویسے ان کا منہ بنا ہوا تھا۔
دوسرے دن پڑوس کے مکان کی چھت سے ہی پڑوسن نے دیکھا کہ ایک سینڈل حارث کے مکان کے برآمدے کی چھت پر پڑی ہے۔ اُنہوں نے آکر ذکیہ باجی کی امی کو یہ بات بتائی۔ ذرا سی دیر میں ہر ایک کی زبان پر ایک ہی سوال تھا۔”سینڈل برآمدے کی چھت پر گئی کیسے؟“
”بی بی جی! میں تو جانوں یہ کوئی چڑیل ہے۔“ بوا بڑے یقین سے بولیں۔
”لیجیے…!ایک ذکیہ باجی کیا کم تھیں کہ ایک اور آگئی۔“ حارث نے ہنس کر کہا۔
”حارث۔“ امی نے ڈانٹا۔”ادب سیکھو، وہ تم سے بڑی ہے۔“
”امی یہ بات آپ نے ایک ہفتہ پہلے بھی کہی تھی اور میں نے اُسی وقت فوراً اردو ادب کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔“ حارث بڑا سنجیدہ بن کر بولااور باوجود ضبط کرنے کے امی مسکرا پڑیں۔
”حارث میاں، ہنسی مذاق چھوڑو۔ میں تو کہوں کسی پیر صاحب کو بلا ؤ، وہی کچھ عمل کریں گے تویہ چڑیل جاوے گی۔“ بوا پریشان ہو کر بولیں۔
چند روز بعد حامد بھیا چیختے ہوئے آئے۔ یہ میرا نیا قلم کس نے نالی میں پھینک دیا تھا؟“
”کس نے پھینکا ہوگا۔ تم ہی سے گر گیا ہو گا۔“ امی نے رضو آپا کی قمیص پر بٹن تا نکتے ہوئے کہا۔
”گویا میں نالیوں میں جھانکتا پھرتا ہوں تاکہ میری قمیص کی جیب سے قلم نالی میں گر جائے۔“ حامد بھیا لال پیلے ہو کر بولے۔ ذرا سی دیر میں گھر کے سارے افراد جن کی اس تازہ ترین واردات پر اظہار خیال کر رہے تھے۔
”حامد بھیا، میں نہ کہتا تھا، کوئی پڑھا لکھا جن ہے۔“ خالد نے شرارت بھرے لہجے میں کہا۔
”خالد میاں جنات سے مذاق نہیں کرتے۔“بوا بولیں۔ ”میں تو کہتی ہوں بی بی جی کسی عامل کو بلوائیں۔“
”او ہو…اب عامل بلوائے جائیں گے۔“ حامد بھیا بُڑ بڑاتے ہوئے چلے گئے۔
اگلے روز ایک عجیب واقعہ ہوا۔ حامد بھیا اور بھابی کسی عزیز سے ملنے گئے تو اپنے کمرے کے دروازے پر تالا ڈال گئے۔ واپس آئے اور کمرے کا دروازہ کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کا قیمتی گل دان فرش پر چکنا چور پڑا ہے۔ بستر کے تکیے بھی فرش پر پڑے ہیں۔ ایک ٹوٹی ہوئی چپل جو خدا جانے کس کی تھی، بستر پر بڑے سلیقہ سے رکھی ہے۔ بھابی جو چند کتا بیں شو کیس پر رکھ کر گئی تھیں، اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی ہیں۔ بھابی تو ڈر کے مارے کا نپنے لگیں۔ ذرا سی دیر میں گھر بھر کے لوگ بھائی کے کمرے میں جمع ہو گئے۔ پڑوس والوں کو بھی کسی طرح خبر مل گئی اور پڑوس والی خالہ بھی بر قعہ ڈال دوڑی آئیں۔ اب جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی کہہ رہا ہے”سوالاکھ بار آیت کریمہ کا ختم کراؤ۔“ کوئی کہہ رہا ہے۔ ”ایک ہزار ایک روپیہ صدقہ دے دو۔“کسی کی آواز آئی۔”ہزار روپے نہیں بلکہ سیاہ بکر اقربانی کر کے اس کا خون اس کمرے میں ڈال دو۔“ بوا بولیں۔”میری مانیں بی بی جی یہ مکان ہی چھوڑ دیں۔ یہاں رہنا اب ٹھیک نہیں؟“ اسی وقت لائٹ چلی گئی اور پورا گھر رضو آپا کی چیخوں سے گونج اُٹھا۔ سب لوگ گھبرا گئے۔ رضو آپا برآمدے میں کھڑی چیخے جا رہی تھیں۔”امی امی یہاں جن ہے۔ اُس نے میرا ہاتھ چھیل دیا ہے۔“
سب کو ایسا لگ رہا تھا جیسے سکتہ ہو گیا ہو۔ اس وقت کسی نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ رضو آ پانے زور کی چیخ ماری اور اچانک جیسے سب ہوش میں آئے۔ ایک بھگدڑ سی مچ گئی۔ حامد بھیا ڈانٹ کر بولے۔
”ارے کیا ہو گیا ہے تم سب کو۔“اور دروازہ کھولنے کے لیے چلے گئے۔ امی کہتی رہ گئیں۔”حامد، حامد، اکیلے مت جاؤ۔ حارث تم بھی جاؤ ساتھ۔“ بیرونی دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور ابو یہ کہتے ہوئے اندر آگئے۔”بھئی لائٹ گئی ہوئی ہے تو موم بتی ہی جلالی ہوتی۔“
”ابو جن کا اصرار ہے کہ اندھیرا ہی ٹھیک ہے۔“ حارث نے سنجیدگی سے اطلاع دی۔
”جن کا اصرار ہے؟ کن کا اصرار ہے…؟“ ابو نے حیرانی سے پوچھا۔
”جن! ابو جنات والا جن۔ بوا کہتی ہیں کہ ایک جن ہمارا مہمان ہے۔“ خالد کی آواز آئی۔
”پتا نہیں میاں، جن ہے، آسیب ہے، چڑیل ہے کہ بدروح ہے، کچھ ہے ضرور۔ اب اس مکان میں رہنا ٹھیک نہیں۔“ بوا جلدی سے بولیں۔”آج رضو بیٹا پر اس نے حملہ کیا ہے، کل کلاں کو کچھ اور ہوگیا تو؟“
اُسی وقت لائٹ آگئی۔ سب لوگ رضو آپا کے گرد جمع ہو گئے، جن کا رنگ خوف کے مارے پیلا پڑ گیا تھا۔ ان کی کلائی پر لمبا سا کھرونچا پڑ گیا تھا جس پر خون کے قطرے جم گئے تھے۔
”ارے! یہ کسی بلی کا کارنامہ تو نہیں ہے؟“ حارث نے پو چھا۔
”تمہیں نہیں معلوم میاں جنات جانوروں کی شکل میں بھی تو آجاتے ہیں۔“ بوا بولیں۔
سب لوگ پریشان نظر آرہے تھے۔ اگلے دن ذکیہ باجی کی شال صحن میں پھٹی ہوئی ملی۔ اس کے اگلے دن حارث کی قمیص کی آستین الگ پڑی ہوئی نظر آئی۔ جن صاحب کی شرارتوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اب تو گھر کے اندر اور باہر لگے تمام بلب رات بھر جلتے تھے۔ پھر بھی رضو آپا، ذکیہ باجی اور بھابی کا حال یہ تھا کہ رات کے وقت اگر پڑوس میں میز بھی گھسیٹی جاتی تو وہ اچھل پڑتی تھیں۔
چند دن بعد حارث نے خالد سے کہا۔”یار یہ جن بھوت کچھ نہیں ہے؟“
”آپ اتنے یقین سے کس طرح کہہ سکتے ہیں؟“ خالد نے پوچھا۔
”بتاتا ہوں۔“ پھر حارث کی آواز دھیمی ہو گئی، خالد اس کی باتیں بڑے غور سے سن رہا تھا۔ شام میں حارث کا ایک گہرا دوست شریف آگیا۔ وہ حیدرآباد میں رہتا تھا۔ حارث، خالد اور شریف دیر تک بیڈ منٹن کھیلتے رہے۔ شریف کو اگلے دن کسی دفتر میں کوئی کام تھا۔ اس لیے وہ حارث کے ہاں رات ٹھہر گیا۔ ابو گھر آئے تو سب نے رات کا کھانا کھایا۔تھوڑی دیر گپ لڑا کر سب لوگ اپنے اپنے بستر میں گھس گئے۔ تھوڑی دیر میں مختلف قسم کے خراٹوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ حارث، خالد اور شریف ابھی جاگ رہے تھے، لیکن ان کے کمرے میں مدھم روشنی والا بلب جل رہا تھا۔ شریف نے پوچھا۔”یار یہ جن کا کیا قصہ ہے؟“
”ہم خود جن سے ملنا چاہ رہے ہیں، آج شام وہ آئے۔“ حارث نے ہنس کر کہا۔
”آجائے تو اچھا ہے۔“ خالد بولا۔
”مگر کچھ دیر صبر کے ساتھ چُپ چاپ انتظار کرنا چاہیے۔“ حارث بولا۔
خاموشی چھا گئی۔ شاید ان تینوں کی آنکھ لگ گئی تھی۔ پتا نہیں کتنا وقت گزر گیا ہلکی سی آہٹ سُن کر حارث نے شریف اور خالد کو جگا دیا۔ شاید وہ ابھی تک جاگتا ہی رہا تھا۔ تینوں بڑی آہستگی سے اُٹھے اور اُنھوں نے کمرے کی بتی بجھا کر دروازہ آہستہ سے کھول دیا۔ با ہر صحن میں ہلکی سی روشنی تھی اور اس روشنی میں ایک سایہ حرکت کر رہا تھا۔ اس سائے نے باورچی خانے کا رخ کیا۔ پھر وہ باورچی خانے سے لوٹا۔ اس کے ہاتھ میں کچھ چیزیں تھیں۔ بیلن، ڈبے، توا وغیرہ۔ اس نے سب چیزیں صحن میں آہستہ سے ادھر ادھر رکھ دیں۔ پھر وہ بر آمدے کی طرف بڑھنے لگا۔ اُسی وقت چمک دار سفید روشنی کا ایک جھما کا سا ہوا اور برآمدے کے بلب کی دھیمی سی روشنی میں ایک خوفناک کالا پتلا حرکت کرنے لگا۔ اس سائے کے ہاتھ میں پلاسٹک کی ٹرے تھی، وہ ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی۔ اب سائے کے چہرے پر برآمدے کے بلب کی روشنی پڑنے لگی تھی۔ وہ بواتھیں جن کی آنکھیں خوف کے مارے جیسے ابلی پڑ رہی تھیں۔ وہ ہکا بکا ہو کر سیاہ خوفناک پتلے کی طرف دیکھ رہی تھیں جس میں سے مسلسل ”ٹوں ٹوں ٹٹ، ٹوں ٹوں ٹٹ“کی آواز آرہی تھی۔ روشنی کا ایک اور جھما کا ہوا اور ایک عجیب باریک سی آواز آئی۔
”بوا!تم ہم سے پوچھے بغیر یہ کیا کر رہی ہو؟“
بوا تھر تھر کانپ رہی تھیں۔شاید وہ چیخنا چاہتی تھیں لیکن اُن کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ روشنی کاایک اور جھماکا ہوا اور وہی باریک سی آواز آئی:
”بوا انہیں معلوم نہیں کہ ہم ایک نیک دل جن ہیں، تم نے ہمیں بد نام کر دیا۔“ بوا کا یہ حال تھا کہ اب گریں کہ تب گریں۔ روشنی کا پھر ایک جھما کا ہوا اور باریک آواز نے کہا۔”اب تک تو ہم نے کسی کو تنگ نہیں کیا۔ اب ہم تمہیں اس غلطی کی سزا ضرور دیں گے۔“
بوانے دونوں ہاتھ جوڑ دیے اور بڑی مشکل سے ان کے منہ سے آواز نکلی:
”میں آئندہ ایسا نہیں کروں گی۔ مجھے عرفان صاحب نے بہکا دیا تھا۔“
”عرفان یا شیطان؟“
”جی جی! بالکل، شیطان نے مجھے اور عرفان صاحب کو بہکا دیا تھا۔ حضرت جن! اب میں اس کی باتوں میں نہیں آؤں گی۔“ بوا گڑ گڑا کر بولیں۔”مجھے عرفان صاحب نے لالچ دیا تھا کہ اگر میں جن کا خوف پیدا کر کے یہ مکان خالی کرادوں تو وہ مجھے دس ہزار روپے دیں گے۔ مجھے معاف کر دیجیے۔“
”ایک شرط پر تمہیں معاف کیا جاسکتا ہے۔“ باریک آواز آئی۔”تم کل حارث کی امی کے پاس جا کر معافی مانگو۔ اُنہیں ساری بات بتاؤ اور کہنا کہ جنوں،بھوتوں، چڑیلوں سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ صرف اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ وہی سب کی حفاظت کرتا ہے، جنوں کی بھی انسانوں کی بھی… سمجھیں…؟“
”جی جی بالکل سمجھ گئی۔“
روشنی کا پھر ایک جھما کا ہوا۔ ”شاباش اب تم جاکر سو جاؤ لیکن اگر کل تم نے حارث کی امی سے معافی نہیں مانگی تو یا درکھنا بہت نقصان اُٹھاؤ گی۔“
”جی جی بہت بہتر حضرت جن۔“بُوا گھبرا کر بولیں۔
روشنی کا ایک اور جھما کا ہوا اور سیاہ خوفناک پتلا حرکت کرتا ہوا تاریکی میں چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ”ٹوں ٹوں ٹٹ“ کی آواز بھی بند ہو گئی۔
دوسرے دن صبح حارث،خالد اور شریف بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے کہ امی آکر قریب کے صوفے پر بیٹھ گئیں اور بڑے جوش سے بولیں۔
”حارث میاں تم کہتے تھے کہ جن ون کچھ نہیں ہے، حالانکہ جن ہے اور بڑا شریف جن ہے۔“
حارث، خالد اور شریف نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور مسکرا پڑے۔
”اچھا امی۔“ حارث نے حیرت ظاہر کی۔
”ہاں بھئی… بوانے مجھے ابھی ابھی بتایا…کل رات جن نے انہیں پکڑ لیا تھا۔ کالا کالا سا تھا۔ عجیب باریک سی آواز تھی اُس کی۔ اُس میں سے روشنی کی لہریں نکل رہی تھیں۔ اور”ٹوں ٹوں“ کی آواز آرہی تھی۔“
”پھر کیا ہوا۔ بو اخیریت سے تو ہیں۔“خالد نے پوچھا۔
”بڑا تیز بخار ہے انہیں۔“ امی بولیں۔”جب وہ صبح باورچی خانے میں نہیں آئیں تو میں اُن کی خیریت پوچھنے کے لیے اُن کے کمرے میں گئی، تب انھوں نے مجھے رات کا واقعہ سنایا اور مزے کی بات سنو۔اب تک جتنی چیزیں غائب ہوئیں اور جو بھی گڑ بڑ ہوئی تھی وہ جن نے نہیں بلکہ بوا نے کی تھی۔“
”کیا مطلب؟ کیا بوا بھی جنوں کی نسل میں سے ہیں؟“ حارث نے تعجب سے پوچھا۔
”او ہو۔ بُوا کہاں سے جن ہونے لگیں۔“امی نے جھلا کر کہا۔ ”دراصل ایک شخص یہ مکان ہم سے خالی کروانا چاہتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ یہ مکان خود خریدے۔ جن کی دہشت پھیلے گی تو کوئی اس مکان کو خرید نے بھی نہ آئے گا اور دام بھی زیادہ نہیں لگیں گے۔ اس شخص نے بوا کو پانچ ہزار روپے دیے تھے کہ وہ مکان میں گڑ بڑ کریں اور جن جن کا شور مچائیں۔ مجھے بوا سے ایسی امید نہ تھی۔“
”مگر امی، وہ بھابی کے کمرے میں جو چیزیں اُلٹ پلٹ ہو گئی تھیں۔ کمرے کے دروازے پر تو تالا لگا ہواتھا۔“خالد نے یاد دلایا۔
”وہ بھی بوا کا کارنامہ تھا۔“امی اطمینان سے بولیں۔”حامد کے کمرے کی پچھلی کھڑ کی کھلی رہتی ہے۔ وہیں سے لمبا سا بانس ڈال کر بوا نے ساری چیزیں زمین پر گرادی تھیں۔ مگر دیکھو تو بوا کو کیا خبر تھی کہ اس مکان میں واقعی ایک جن موجود ہے۔ وہ تو شکر کرو میاں کہ جن شریف ہے اگر خراب جن ہوتا تو…؟“
”آپ بالکل ٹھیک کہتی ہیں، جن واقعی شریف ہے۔ جیسا نام و یسا کام۔“ حارث نے شرارت بھرے لہجے میں کہا۔
”کیا مطلب؟“ امی کچھ نہیں سمجھیں۔
”یہ رہا آپ کا جن۔“ حارث نے شریف کی طرف اشارہ کیا جو بڑے اطمینان سے سر جھکائے ناشتے میں اُسی طرح مصروف تھا جیسے اُس کے سوا کمرے میں کوئی موجود نہیں ہے۔
”تم مسخرہ پن بند نہیں کر وگے حارث۔“ امی نے ڈانٹا۔
”مسخرہ پن نہیں امی۔ یہی جن ہے۔کیوں بھئی جن بادشاہ؟“ خالد نے ہنس کر شریف کی طرف دیکھا اور شریف نے سر ہلا دیا۔
”بھئی تم لوگ تو پہیلیاں بجھوانے لگے۔“ امّی نے اُٹھ کر کہا۔
”امی… بات صرف یہ ہے کہ شریف کٹھ پتلیوں کا تماشا دکھانے کا ماہر ہے۔ یہ اپنے کالج میں کٹھ پتلیوں کے کئی تماشے دکھا چکا ہے۔ بُوا نے جو جن دیکھا وہ شریف کی ایک کٹھ پتلی تھی، جس کو ذراخوفناک بنا دیا گیا تھا؟“
”مگر بوا تو کہہ رہی تھیں کہ اس میں سے روشنی کی لہریں نکل رہی تھیں۔“ امی بولیں۔
حامد صاحب کے کیمرے کی فلیش گن آخر کس دن کام آتی؟“ حارث نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”اور وہ ٹوں ٹوں کا شور؟“
”امی آپ تو جانتی ہیں کہ رات دو بجے ریڈیو لگا یا جائے تو کم ہی اسٹیشن لگتے ہیں، زیادہ تر ٹوں ٹوں ٹیں ٹیں کا شور سنائی دیتا ہے۔ شریف نے ایک پاکٹ سائز ریڈیو کٹھ پتلی میں فٹ کر دیا تھا۔ رہی جن کی باریک سی آواز تو یہ خاکسار کا کمال ہے۔“ حارث نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔”آپ کو تو معلوم ہے میں ریڈیو کے کئی ڈراموں میں حصہ لے چکا ہوں۔“
”بڑے شریر ہو تم تینوں۔“ امی ہنسنے لگیں۔”اگر بوا کا ہارٹ فیل ہوجاتا تو…“پھر وہ کچھ سوچ کر بولیں۔”لیکن تمہیں بُوا ہی پر شک کیسے ہوا…؟“
”امی بوانے جب جن سے ہمیں ڈرانے کی کوشش کی تھی تو اُسی وقت مجھے کچھ شبہ ساہوا تھا، پھر کل اتفاق سے میں نے بوا کو غازی پارک کی طرف جاتے دیکھا، میں بھی پارک ہی جارہا تھا۔ پارک پہنچ کر میں نے دیکھا کہ بوا ایک صاحب سے بڑی رازداری سے باتیں کر رہی ہیں اور گھبرا گھبرا کر ادھر ادھر دیکھتی جارہی ہیں۔ میں نے سوچا کہ کہیں یہ آدمی بُوا کو پریشان تو نہیں کر رہا…… باڑ کے پیچھے چھپ کر جو دونوں کی گفتگو سنی تو پتا چلا کہ معاملہ ہی اُلٹا ہے۔ وہ آدمی بوا سے کہہ رہا تھا۔’میں نے تمہیں پانچ ہزار روپے دے دیے ہیں مگر تم نے ابھی تک کچھ نہیں کرکے دکھایا۔ آج رات زیادہ گڑ بڑ کرو۔گھر والوں کو جن بھوت سے اتنا ڈراؤ کہ وہ مکان چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔ باقی رقم کام ہونے کے بعد مل جائے گی؟‘
بس امی، میں نے یہ سنا تو بھاگا اور فون کر کے شریف جن کو بلا لیا کیونکہ معاملہ اب انسانوں کے قابو سے باہر ہو چکا تھا…؟“
خالد اور امی زور سے ہنس پڑے۔ ”شریف جن“ بھی مسکرار ہاتھا۔