نیک دل بادشاہ
صوفی غلام مصطفی تبسم
۔۔۔۔۔۔۔
پرانے زمانے کی بات ہے۔ایران میں ایک جوان خوبصورت بادشاہ تھا۔اس کا نام ماہیار تھا۔وہ بڑانیک اور رحمدل تھا۔ہر ایک کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آتا تھا۔رعیت اس سے بڑی خوش تھی۔
ایک دن اس نے خواب میں ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا۔بوڑھے آدمی نے اس سے کہا۔دیکھو!اگر تم اپنی بہتری چاہتے ہو تو پورے ایک سال کے لیے اپنا تخت و تاج چھوڑ کر کہیں چلے جاؤ اور اس طرح سے جاؤ کہ کوئی تمہیں پہچان نہ سکے۔سادہ فقیرانہ لباس پہنو اور خالی ہاتھ جاؤ۔
بادشاہ یہ خواب دیکھ کر پریشان ہوا لیکن تھوڑی دیر کے بعد جب اس کی آنکھ کھل گئی تو اس نے پھر یہی خواب دیکھا۔تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔
بادشاہ خوابوں کو سچ سمجھتا تھا،اس لیے اس نے صبح اٹھتے ہی یہ فیصلہ کر لیا کہ تخت و تاج اور شاہی خزانہ چھوڑ کر چلا جائے۔
اب سوال یہ تھا کہ سلطنت کا کام کس کے سپرد کرکے جائے۔بادشاہ کے دو وزیر تھے۔ان میں ایک کا نام خرم تھا۔یہ وزیر بڑا دانا اور سلطنت اور حکومت کے کاموں کو خوب سمجھتا تھا۔بادشاہ کو ہمیشہ نیک مشورے دیا کرتا تھا۔اگر کسی وقت بادشاہ کوئی غلط کام کرنا چاہتا تو وہ اسے فوراً روک دیتا تھا۔
دوسرا وزیر بڑا خوشامدی تھا۔اس کا کام بادشاہ کی تعریف ہی کرنا تھا۔بادشاہ دل میں اس وزیر کو زیادہ مخلص اور خیرخواہ سمجھتا تھا۔بادشاہ نے دل میں فیصلہ کیا کہ اس خوشامدی وزیر کو اپنی جگہ تخت پر بٹھادے لیکن رات کو اس بوڑھے بزرگ آدمی نے خواب میں آ کر بادشاہ سے کہا۔
”خرم ہم کو اپنا جانشین بناؤ۔“
بادشاہ کو چار و ناچار یہی کرنا پڑا۔خرم کو بلا کر ساری بات سنا دی اور سلطنت کا سارا کام اس کے سپرد کرکے چلا گیا۔
تھوڑے دن تو اپنے ہی دیس میں پھرتا رہا اور ایک لکڑہارے کے ساتھ مل کر لکڑیاں کا ٹتا اور اپنا پیٹ پالتا رہا۔آخر اس نے سوچا کہ اپنے ملک میں رہنا اچھا نہیں کسی اور جگہ جانا چاہیے۔اپنے وطن سے باہر نکل گیا اور آٹھ مہینے تک دیس بدیس پھر تا رہا۔آخر ایک ایسی ولایت میں پہنچا جو اسے بہت پسند آئی۔اس نے ارادہ کرلیا کہ باقی چار مہینے وہیں گزار دے۔
ایک دن صبح کو جب وہ جنگل کی طرف جا رہا تھا،تو اس نے دیکھا کہ ایک نقارچی نقارہ بجا کر سب نوجوانوں کو شہر کے بڑے میدان کی طرف بلا رہا ہے۔ماہیار نے بھی ادھر کا رخ کیا۔وہاں بہت سے لوگ جمع تھے۔اس نے لوگوں سے پوچھا۔بھائیو! کیا معاملہ ہے کہ یہاں خلقت کا اتنا ہجوم ہے؟
لوگوں نے کہا،ہمارے شہر کے امیر کی چار لڑکیاں ہیں۔چاروں بڑی خوبصورت ہیں۔وہ آج یہاں آئیں گی اور نوجوانوں میں سے اپنا اپنا شوہر چن لیں گی۔
یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ چاروں شہزادیاں زرق برق لباس پہنے میدان میں نکل آئیں۔ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک سنہری گیند تھی جس پر شہزادی کا نام لکھا ہوا تھا۔چاروں نے ادھر ادھر گھومنا شروع کیا کہ اپنی پسند کا شوہر انتخاب کر لے۔
بڑی لڑکی نے اپنی گیند وزیر کے بیٹے کی طرف پھینکی۔دوسری نے ایک دولت مند سوداگر لڑکے کی طرف اور تیسری نے سرکاری خزانچی کے بیٹے کی طرف۔چوتھی لڑکی جو سب سے چھوٹی تھیں،بڑی عقلمند تھی۔اس نے نہ دولت کی پروا کی نہ ظاہری شکل و صورت کی۔اٹھا کر اپنی گیند ایک میلے کچیلے نوجوان کی جھولی میں ڈال دی۔لوگ دوڑ کر ادھر گئے کہ آخر یہ ہے کون جسے شہزادی نے پسند کیا ہے۔دیکھتے کیا ہیں ایک اجنبی ہے۔اس کے ہاتھ میں کلہاڑی ہے۔یہ وہی پردیسی بادشاہ ماہیار تھا۔
شہر کا امیر اپنی پہلی تین بیٹیوں سے بہت خوش تھالیکن اسے چوتھی بیٹی کا چناﺅ پسند نہ آیا،لیکن وہ شہزادی بہت خوش تھی۔ماہیارجو کچھ کما کر لاتاوہ اسے بھی بڑی نعمت سمجھ کرخوشی خوشی دن گزارتی۔
ایک دن ماہیار جنگل میں ایک درخت کی شاخ کاٹنے لگا تو اسے وہاں پرندوں کا گھونسلا نظر آیا۔اس نے سوچا اس شاخ کو کاٹنا ٹھیک نہیں۔وہ آگے جانا ہی چاہتا تھا کہ گھونسلے میں سے ایک سونے کی انگوٹھی دھڑام سے نیچے آ گری۔ماہیا رنے اسے اٹھا لیا اور صاف کرنے لگا۔انگوٹھی چمکتے ہی بولی۔”دیکھو تم نے پرندوں کے گھونسلے کو بچا لیا۔ اب جو کام کہو گے کروں گی۔“ماہیار نے یہ بات سن لی لیکن اس کا ذکر کسی سے نہ کیا۔ماہیار کے جتنے ہم زلف تھے سب بڑے بڑے جشن مناتے تھے۔ایک دن ماہیار کو خیال آیا۔میں بھی کیوں نہ جشن مناؤں۔اس نے اپنی بیوی کو کسی بہانے باہر بھیجا اور پھر انگوٹھی سے کہا،” لو اب میرے لیے عالی شان محل لاؤ اور اس میں طرح طرح کے لذیذ کھانے چن دو۔“
یہ کہنا تھا کہ آن کی آن میں سارا نقشہ بدل گیا۔ماہیار کی بیوی یہ نقشہ دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ماہیار نے منہ پر انگلی رکھ کر کہا۔”خاموش!“
شہر کا امیر،اس کی لڑکیاں،اور ان کے شوہر سب ہی یہ ٹھاٹ دیکھ کر حیران تھے۔اور ماہیار کا سلیقہ اور انتظام دیکھ کر سب عش عش کرنے لگے۔سوچتے تھے کہ یہ تمام خوبیاں گنوار سے آدمی میں کیسے آگئیں۔انہیں کیا معلوم تھا کہ ماہیار لکڑہارا نہیں،بادشاہ ہے۔یہ راز تو اس نے اپنی بیوی کو بھی نہیں بتایا تھا۔
اتفاق سے شہر کے امیر کو اطلاع ملی کہ ایک ہمسایہ ملک کا بادشاہ مہمان بن کر اس کے دیس میں آرہا ہے۔امیر نے سوچا کہ اس کی مہمان داری کے لیے ماہیار سے بہتر اور کوئی نہیں ہو سکتا۔۔۔ماہیار کو بلا کر یہ کام اس کے سپرد کیا۔ماہیار نے باخوشی منظورکرلیا۔
مہمان بادشاہ تشریف لائے۔ماہیار نے بڑھ کر استقبال کیا لیکن مہمان بادشاہ کی نظر جونہی ماہیار پر پڑی،اس نے فورا ًاس کے قدم چوم لیے۔یہ مہمان بادشاہ دراصل خرم تھا،اس کا وزیر۔
شہر کا امیر اور اس کے وزیر سب وہاں موجود تھے۔ماہیار کا راز سب پر کھل گیا۔شہر کا امیر بھی آگے بڑھ کر آداب بجا لایا۔ماہیار کی بیوی کی خوشی کی تو انتہا ہی نہ تھی۔
اب سفر کا سال بھی گزر چکا تھا۔ماہیار بڑے ٹھاٹھ سے اپنے وزیر خرم کے ساتھ ساتھ اپنے دیس کو لوٹا اور چلتی دفعہ انگوٹھی اپنے سسر،شہر کے امیر کو بطور تحفہ دے گیا۔اسے اپنے تخت پر بیٹھے ہوئے چند روز ہی ہوئے تھے کہ ایک قاصد وہی انگوٹھی لے کر حاضر ہوا اور اور آداب بجا لا کر کہنے لگا۔”حضور! ہمارے شہر کے امیر نے یہ انگوٹھی شکریہ کے ساتھ واپس کر دی ہے کیوں کہ یہ انگوٹھی گم سم رہتی ہے،اس کا کہا نہیں مانتی آپ ہی کو مبارک ہو۔“