skip to Main Content

انٹرویو: ندیم اختر

ماہنامہ بچوں کی دنیا
دسمبر2021ء
مہمان: ندیم اختر
میزبان: صدف شاہد
۔۔۔۔۔

محمد ندیم اختر بچوں کے معروف ناول نگار و کہانی کار ہیں۔ آپ کا تعلق ضلع لیہ سے ہے۔ گزشتہ پچیس سالوں سے بچوں کے لیے کہانیاں لکھ رہے ہیں ان کی کہانیاں ملک کے طول عرض سے چھپنے والے رسائل کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ آپ نے 1999میں یونیسیف کے زیر اہتمام حقوق اطفال کے موضوع پر مقابلہ میں دوسرا ایوارڈ مع کیش پرائز حاصل کیا۔ علاوہ ازیں ساتھی ایوارڈ سمیت درجنوں ایوارڈ ان کے حصے میں آئے۔ آپ ادب اطفال کی متحرک شخصیت ہیں اور پاکستان میں ادب اطفال کے فروغ کے لیے ان کی کوششیں ڈھکی چھپی نہیں۔ آپ نے ادب اطفال کے فروغ کے لیے کاروان ادب اطفال جیسے ادارے بنائے اور آج کل ماہ نامہ نوائے ادیب کے ذریعے ادب اطفال کے فروغ میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔ آپ کا بچوں کے لیے ایک سفر نامہ ذرا ایوبیہ تک اور کہانیوں کے تین مجموعوں سمیت دوناول قارئین میں غیر معمولی پذیرائی حاصل کر چکے۔ حال ہی میں چلڈرن لٹریری سوسائٹی کے تحت شائع ہونے والے ماہ نامہ بچوں کی دنیا میں سلسلہ وار ناول تابوت کے قیدی مقبول رہا۔ آج قارئین کے لیے ان سے ہونے والی گفتگو شائع کی جارہی ہے۔
السلام علیکم قارئین، میں ہوں آپ کی میزبان صدف شاہد اور آج آئی ہوں آپ سب کے پسندیدہ ادیب محمد ندیم اختر کے ہمراہ، امید کرتی ہوں ان سے مل کر اچھا لگے گا، تو چلیں پھر ان سے بات کرتے ہیں۔۔۔

۔۔۔۔۔

سوال:السلام علیکم! کیسے ہیں آپ؟؟
جواب:وعلیکم السلام، اللہ کا شکر ہے۔

سوال:آپ کامکمل نام؟اور کس شہر سے تعلق ہے؟
جواب: میرا پورا نام محمد ندیم اختر ہے، میں ضلع لیہ کے ایک قصبہ چوک اعظم میں رہتا ہوں۔

سوال:آپ قلمی نام استعمال کرتے ہیں، اگر ہاں تو کیوں، اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
جواب: اس وقت میں اپنے اصل نام سے ہی لکھتا ہوں۔ شروع کے دنوں میں جب ابھی کہانی لکھنا شروع نہیں کی تھی تو ان دنوں روزنامہ نوائے وقت کے زیر اہتمام ہفتہ وار چھپنے والے ”پھول اور کلیاں“ کے سلسلے آپ کی رائے میں خطوط لکھتا تھا تو ”ایم ندیم اختر“ کے نام سے چند خطوط لکھے، لیکن بعد میں ہمارے دوست، استاد جو ملک کے معروف ناول نگار ہیں جن کے ناول ان دنوں ماہنامہ سب رنگ، سسپنس و دیگر ڈائجسٹوں کے زینت بن رہے ہیں، ان کے کہنے پر اصل نام سے ہی لکھنا شرو ع کیا۔ کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ محمد ندیم اختر بذات خود ایک خوبصورت نام ہے۔ اس لیے اس دن کے بعد میں نے ہمیشہ اپنے اصل نام سے ہی لکھا ہے۔

سوال: آپ اپنی سالگرہ کب مناتے ہیں؟
جواب: میری سالگرہ 6جولائی کو منائی جاتی ہے۔ البتہ میرے سرکاری کاغذات میں تاریخ پیدائش 12دسمبر 1981درج ہے۔ میں نے کبھی باقاعدہ سالگرہ کا اہتمام نہیں کیا۔ لیکن کبھی کبھار گھر والے کیک اور چھوٹی سی گیدرنگ کا اہتمام کر لیتے ہیں۔

سوال:آپ کا بچپن کیسا گزرا، کبھی امی جان اور ابوجان سے مار پڑی؟
جواب: میرا بچپن اس حوالے بڑا شاندار گزرا کہ میں پانچ سال تک اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا تو بچوں والا سارا پیار صرف میرے لیے تھا، اپنے ننھیال اور ددھیال میں جتنا پیار اور توجہ حاصل کر سکتا تھا اس وقت کی۔۔ جب میری عمر پانچ سال ہوئی تو اس وقت میری چھوٹی بہن کی پیدائش کے بعد مجھے لگا تھا کہ جیسے توجہ تقسیم ہوئی گئی گھر والوں کی۔ امی سے اکثر مار پڑ جاتی تھی۔ ابو جان سے کبھی مار نہیں پڑی۔اگر پڑی بھی ہوتو یاد نہیں۔ میں اسی لیے ابو جان کی بجائے امی جان سے بہت ڈرتا تھا۔لیکن ایک بات جواب یاد آتی ہے جب میری امی جان اورابو جان اس دنیا میں نہیں ہیں تو یہ سوچ کر غمزدہ ہوجاتا ہوں کہ امی جان مار کر بھی اپنی گود میں بٹھاتی اور پھر پیار کرتی تھیں۔ مار کیوں پڑتی تھی اس کا کچھ کچھ یاد ہے۔ جیسے اس وقت میری عمر کوئی آٹھ سال ہوگی۔ ہم ان دنوں نوشہرہ میں تھے تو ہمارے سرکاری ڈبل سٹوری کوارٹروں کے سامنے ریلوے لائن اورریلوے لائن سے پار پہاڑوں کا لامتناہی سلسلہ تھا۔ چونکہ یہ پہاڑی علاقہ تھا۔ اس لیے ایک روز میں اپنے دوستوں کے ساتھ ریلوے لائن عبور کر کے پہاڑوں پر پہاڑی بیر کھانے چلاگیا۔ دوسرا ہمارا مشغلہ گولیوں کے وہ خول تلاش کرنا ہوتا تھا جو آرمی والے رات کو فائرنگ کی پریکٹس کرتے تھے۔ ہم وہ گولیوں کے خول اکٹھے کر کے لے آتے۔ لیکن اس روز ہم پہاڑوں پر ذرا دور نکل گئے۔ ایک جگہ ہمیں بارش کا جمع شدہ پانی نظرآگیا۔ ہم سب دوستوں نے نہانا شروع کر دیا۔ اس طرح جب بہت دیر سے گھر پہنچے تو گھر والے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہلکان ہوئے بیٹھے تھے۔ بس پھر نہ پوچھیے۔ لیکن اس دن کے بعد جب تک امی اور ابو جان زندہ رہے کبھی بتائے بغیر گھر سے باہر نہیں گیا۔

سوال:کب آپ کو محسوس ہوا کہ آپ لکھ سکتے ہیں، تب احساسات کیا تھے آپ کے؟
جواب: مجھے آج بھی یاد ہے ہمارے گھر میں ابو جان ہر ہفتے اخبار جہاں لایا کرتے تھے۔ اور چھوٹی عمر میں جب مجھے قلم سے لکھنا بھی نہیں آتا تھا تو ابوجان میرا ہاتھ پکڑ کر لکھنا سکھا رہے تھے تو میں اکثر سردیوں کی راتوں میں ضد کرتا تو وہ مجھے اخبار جہاں میں سے کہانیاں پڑھ کر سناتے تھے۔ میں کافی عرصہ تک کہانی لکھنے والوں کو اپنے سے اوپر کی کوئی مخلوق سمجھتارہا۔ میرے لیے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ کہانیاں انسان لکھتے ہیں۔ پھر ابھی میں پہلی کلاس میں ہی تھا جب نوشہرہ کے ایک بازارمیں ایک سٹال پر نظرپڑی۔ مجھے یاد ہے اس وقت مہینے کے شروع میں جب ابوجان کو تنخواہ ملتی تھی تو ہم یعنی میں، امی جان اور ابوجان نوشہر ہ شہر میں جاتے اور ضرورت کی چیزیں خریدتے تھے۔ یہ ہر ماہ کا معمول تھا۔ وہ بھی معمول کا ایک مہینہ تھا جب مہینے کے آغاز پر امی، ابو جان کے ساتھ نوشہرہ شہر میں خریداری کر رہے تھے تو ایک سٹال پر نظر پڑی جہاں پاکٹ سائز رسائل نظرآئے۔ ان کے سرورق پر بنی خوبصورت نقش ونگاراور تصاویر نے مجھے متاثر کیا تو میں نے ضد کر کے دو رسالے خرید لیے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ دونوں ٹارزن سیریز کے رسالے تھے۔ مجھے آج بھی یاد پڑتا ہے کہ ایک رسالے پر سرورق پر ایک ندی کی تصویر اور ندی میں سے ایک مینڈک باہر نکل رہا ہوتا ہے۔ایک انسان جس نے چیتے کی کھال پہنی ہوتی ہے وہ ایک درخت پر چھپ کر بیٹھا ہوتا ہے۔ اس کی کہانی بھی یاد ہے کہ کوئی اسمگلر ہوتے ہیں جو مینڈکوں کے ذریعے کوئی خزانہ دوسری طرف لے کر جانا چاہ رہے ہوتے ہیں اور جنگلی انسان جسے بعد میں میں نے سمجھا کہ وہ ٹارزن تھا وہ ان اسمگلروں کو سبق سکھاتا ہے۔ بس ایسی ہی کچھ کہانی تھی۔ بس پھر کیا وہ رسالہ میرے پاس بہت سال رہا۔ میں اسے پڑھنے کی کوشش کرتا رہااور ایک دن واقعی پڑھنے کے قابل ہوگیا۔ بس پھراس کے بعد بہت سے رسائل پڑھے لیکن پاکٹ سائز۔ جب پانچویں کلاس میں تھاتو محسوس ہوا کہ میں بھی لکھ سکتا ہوں۔ لیکن ساتویں یا آٹھویں کلاس کا طالب علم تھا جب پہلی کہانی لکھی۔ یہ 1995کا سال اور اگست کا مہینہ تھا۔ ایک ہفتے کہانی لکھی اور دوسرے ہفتے پھول اور کلیاں میں شائع ہوگئی۔ بس اس خوشی کا اندازہ شاید میں آج نہیں لگاسکتا، اتنا یاد ہے وہ اخبار کئی روز جیب میں ڈال کر گھومتارہا جو بھی دوست ملتا اسے دکھاتا۔ یہ دیکھو میری کہانی اس اخبار میں شائع ہوئی۔

سوال: بچوں کا ادب لکھنا مشکل ہے۔ آپ نے اسی میں کیوں طبع آزمائی کی؟
جواب:بلاشبہ بچوں کے لیے لکھنا بچوں کا کام نہیں۔ میں شاید بچوں کے لیے نہ لکھ رہا ہوتا۔ میں نے اوائل میں افسانے بھی لکھے۔ لیکن میرے ایک جاننے والے دانشورنے مجھے سمجھایاکہ ابھی سے اپنی فیلڈ واضع کر لو کہ بچوں کے لیے لکھنا چاہتے ہو یا بڑوں کے لیے۔ اس طرح آپ کی سمت کا تعین ہوجائے۔ زیادہ کشتیوں میں پاؤں ڈالو گے۔ ادھر کے رہوگے نا ادھر کے رہوگے۔ پھر میں نے بچوں کی کہانی کی فیلڈکو چنا اورآج تک بچوں کے لیے ہی لکھ رہا ہوں۔ آج تک تین سوسے زائد یا چار سو کے قریب کہانیاں لکھ چکا ہوں۔ میری پہلی کہانی کاعنوان ”چھٹیوں کا کام تھا“جو سن 1995میں نوائے وقت کے میگزین پھول اورکلیاں میں شائع ہوئی تھی۔

سوال: آپ کوکس موضوع پر لکھنا بہت اچھا لگتا ہے؟
جواب: پہلے تو میں اصلاحی کہانیاں لکھتا تھا۔ لیکن کچھ عرصہ قبل مجھے اس بات کاادراک ہوا کہ آج کا بچہ اصلاح کے ساتھ ساتھ ایسی کہانی چاہتا ہے جس میں دلچسپی کا پہلو زیادہ ہو۔ مثلاً اس میں ٹریول ہو، جنگل ہو، سمندر، دریا ہو، جانور ہوں، بونے ہوں، پریاں ہوں، منظر نگاری ہو۔ بس اس کے بعد مجھے اب ایسی کہانیاں لکھنا ہی پسند ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جاسوسی کہانی لکھنے میں بھی زیادہ مزہ آتا ہے۔ کچھ عرصے سے میں جاسوسی کہانیاں زیادہ لکھ رہا ہوں۔ حال ہی میں ماہ نامہ بچوں کی دنیا میں میرا ہارر ناول ”تابوت کے قیدی“بھی شائع ہوا۔ جسے میں نے دل وجان سے لکھا۔ اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے اب بچوں کے لیے کسی بھی موضوع پر لکھنا بہت زیادہ اچھا لگتاہے۔

سوال:گھر والے کیسا محسوس کرتے ہیں، سپورٹ کرتے ہیں؟
جواب: گھروالے سپورٹ کرتے ہیں۔کیونکہ اکثر اوقات ان کے حصے کا وقت میں بچوں کے ادب خصوصاً لکھنے کو دے رہا ہوتاہوں۔اس سے بڑھ کرتعاون کیا ہوسکتا ہے۔ میں ان کا وقت لکھنے کو دے رہا ہوتا ہوں۔ گھر والے بلکہ میرے دوست اور رشتے دار بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ میں اپنے دونوں خاندانوں میں پہلا فرد ہوں جس نے کہانی لکھنا شروع کی۔

سوال: کس سے متاثر ہیں؟
جواب:ہر اس فرد سے جو بچوں کے لیے لکھ رہا ہے۔ کسی فرد واحد کا ذکر کرنا میرے لیے مشکل ہے۔

سوال: بچوں میں اعتماد کیسے لایا جاسکتا ہے؟
جواب: بچوں میں اعتماد لانے میں سب سے بڑاکردار والدین ہی ادا کر سکتے،اس کے ساتھ ساتھ ان کے اساتذہ۔ اب دیکھیے میری بیٹی عبیرہ ندیم ابھی سات سال کی ہوئی ہے۔ لیکن وہ ایک اچھی اورخوبصورت کہانی لکھ سکتی ہے۔ وہ سکول میں نمایاں پوزیشن لیتی ہے۔ وہ اپنے دوستوں میں مقبول ہے۔ وہ اپنے کزنز کی آنکھ کا تارا ہے۔ اس کے پیچھے میرا اور میری بیوی سمیت اس کے اساتذہ کا ہاتھ ہے۔ ہم نے عبیرہ کو جو پڑھایا، وہ عملی طور پر دکھایا بھی سہی۔ جب وہ چار سال کی تھی تو اس نے جانوروں کے بارے میں کتابوں میں پڑھا، ٹی وی پر دیکھا تو میں اسے لاہور چڑیاگھر لے گیاکہ عبیرہ بیٹی یہ دیکھو جو تم نے کتابوں میں اور ٹی وی کی سکرین پر دیکھا تھا،اصل میں وہ چیز یہ ہے۔ ایسے ہی اس نے ٹرین کے بارے میں پڑھا تو اسے میں لیہ سے ملتان تک ٹرین میں سفر پر لے گیا۔ اب وہ جہاز کے بارے میں ایک دن پوچھ رہی تھی۔ تو سوچ رکھا ہے کہ جیسے ہی کرونا جیسی مہلک وبا میں کمی نظرآتی ہے، اسے جہاز کا سفربھی کرادیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈانٹ بھی بچے کے اعتماد کوٹھیس پہنچاتی ہے۔ ڈانٹیں ضرور لیکن نوالہ سونے کادیں۔اور دیکھیں شیر کی آنکھ سے۔

سوال: صاحب کتاب ہونا کیسا لگتا ہے اور کتاب چھپوانے کے معاملے میں جو واقعات اور حالات پیش آئے وہ کچھ ہمارے بھی گوش گزار کریں۔
جواب: صاحب کتاب ہونا ……اس سے بڑھ کر اعزاز کیا ہوسکتا ہے۔ کتاب بچوں کی طرح ہوتی ہے، کسی بھی مصنف کے لیے۔ کتاب لکھنابھی مشکل ہے اور اس کا چھپوانا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔ لیکن میرے لیے اعزاز یہ ٹھہرا کہ مجھے چھاپنے والے وہ لوگ ملے جو میرے اچھے دوست پہلے بنے۔ تکنیکی حوالے سے ان کے پاس مہارت موجود تھی۔ مثلا رابعہ بک ہاؤس میں ابوالحسن طارق اور عبدالصمد مظفر اور بچوں کا کتاب گھر میں محمد فہیم عالم اپنے کام میں مہارت رکھتے ہیں۔ میری ساری کتابیں انہی دونوں پبلشرز نے شائع کیں۔اس لیے میرے لیے بہت آسانی رہی۔

سوال: ننھے بچوں کے لیے کہانی لکھتے ہیں، بچوں کی کون سی ادا بھاتی ہے؟
جواب:مجھے بچوں کی ہرادا پسند ہے۔ ان کا ہنسنا،ان کا رونا، ان کا شرارتیں کرنا۔ ان کی معصومیت۔ مجھے ان کی معصومیت سے پیار ہے۔ اور اسی پیار کے لیے میں لکھتا ہوں۔

سوال:آپ سنجیدہ ہیں یا بہت بولنے والے؟
جواب: میں معتدل طبیعت کا واقع ہوا ہوں۔ کبھی سنجیدہ اور کبھی بہت زیادہ بول لیتا ہوں۔ اکثر اوقات زیادہ بولنا بھی میرے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔ سو آج کل آبزرویشن زیادہ کرتا ہوں۔ بولتا کم ہوں۔ جہاں موقع ہواور ضروری ہو وہاں اپنے موقف کے لیے خوب بول لیتا ہوں۔

سوال:ننھے قارئین کے لیے کوئی پیغام؟
جواب: ہمیشہ مثبت سوچیں کیونکہ کامیابی کی ضمانت مثبت سوچنے میں ہی ہے۔

سوال: بچوں میں مطالعے کی عادت کیسے ڈالی جائے؟
جواب:والدین کا کردار یہاں زیادہ بنتا ہے۔ کچھ ہمارے تعلیمی اداروں کو بھی اب سنجیدہ ہو کر سوچنا ہوگا۔ مختلف مقابلہ جات کے ذریعے بھی بچوں کو راغب کیا جاسکتا ہے۔

سوال:بچوں کی نفسیات کو سمجھنا مشکل ہے۔ آپ کہانی لکھتے وقت جو خیال آئے لکھ دیتے ہیں یا بہت غور وفکر کرتے ہیں؟
جواب: میں چونکہ جس ادارے میں کام کرتا ہوں، وہاں میرا لوگوں سے واسطہ زیادہ پڑتا ہے۔ لوگوں سے مطلب ہر عمر کے افراد سے۔ اب چونکہ ایک عرصہ ہوگیا۔ زمانے کے ساتھ ساتھ ترجیحات بھی بدل رہی ہیں تو میں زمانے کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال کر یہ کوشش کرتا ہوں کہ بچوں میں مایوسی کی کوئی بات نہ پھیلے۔ بلکہ جہاں وہ دلچسپی کی چیزیں میری کہانی سے اخذ کریں وہاں زندگی گزارنے کی مہارتیں بھی سیکھ سکیں۔ میری بہت سی کہانیاں زندگی کی مہارتوں کا بھی احاطہ کرتی ہیں۔ مثلاً دانت صاف کرنا، ہاتھ صاف رکھنا، بچوں سے پیار، بڑوں کا ادب و دیگر بہت سے ایسے اسباق جو میری کہانیوں کا کہیں نہ کہیں حصہ ہوتے ہیں۔

سوال:بچوں کو سمجھنا چاہیے یا سمجھانا چاہیے؟
جواب: بچوں کو سمجھنا چاہیے۔ پھر جہاں وہ کھڑے ہیں اس سے اگلی بات کریں یا لکھیں تب ہی بات بنے گی۔ اگر سمجھانے پر آگئے تو اسے پہلے ہی سمجھانے والے بہت سے افراد ہیں۔

سوال:آپ کی کتنی کتابیں منظر عام پہ آ چکی ہیں؟؟
جواب:میری چھ کتابیں آچکی ہیں۔
1: بچوں کے لیے سفر نامہ۔۔ ذرا ایوبیہ تک
2:کہانیوں کا مجموعہ۔۔ شرارت کی چالاکی
3:چاند کی بڑھیا
4: بچوں کے لیے ناول۔۔نیلے کنویں کا آخری بونا
5: بچوں کے لیے ناول۔۔تابوت کے قیدی
6:کہانیوں کا مجموعہ۔۔ہیٹ والا لڑکا

سوال:چلڈرن لٹریری سوسائٹی کے بارے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟؟
جواب:چلڈرن لٹریری سوسائٹی موجودہ عہد میں بچوں کے ادیبوں اور بچوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ چلڈرن لٹریری سوسائٹی ایک تاریخ ساز کام کر رہی ہے۔

۔۔۔۔۔

اسی طرح ہم نے محترم ندیم اختر سے اجازت چاہی، امید ہے انٹرویو اچھا لگا ہوگا۔پھر جلد ہی ملوں گی،تب تک کے لیے اللہ کے سپرد……

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top