skip to Main Content
مصوری کا شاہکار

مصوری کا شاہکار

حماد ظہیر

…………………………

اس مرتبہ شجاعت مرزا نے بڑا گیم کھیلا تھا

…………………………

ہم اپنے ایک انکل کے ہاں گئے تو وہاں ایک کینوس سجا دیکھا۔قریب ہی کئی رنگ بھی بنے رکھے تھے اور برش کی بھی کچھ اقسام رکھی تھیں۔
ہم جو کورے کاغذ اور قلم کو ساتھ رکھا دیکھ لیتے تو تحمل نہ کر پاتے تھے ، بھلا اس پر کیسے صبر کر جاتے،چنانچہ برش اور کینوس کو آرسی کیا کے مصداق ہم نے جھٹ ہاتھ کی صفائی دکھانی شروع کردی۔مگر وہ ہمارے اناڑی پن کی وجہ سے ہاتھ کی گندگی ہی لگی۔
پینٹنگ سے ہمیں شغف صرف اس روزسے ہوا تھا جب ہمارے شجاعت سے دو نمبر زیادہ آگئے تھے۔اور ان میں سے نو ڈرائنگ کے تھے۔اس کے باوجود بھی ہم گھرمیں ڈرائنگ کرنے کو وقت کا زیاں، اورواٹر کلر خریدنے کو فضول خرچی شمار کرتے تھے۔یہ تو دور کی بات ہم تو پینسل کلر تک خریدنے کے روادار نہ تھے۔مگر آج جو ہم نے انکل کے ہاں پکی پکائی دیگ دیکھی تو ہاتھ مارنے سے گریز نہ کیا۔
پہلے ہم نے آم بنانے کی کوشش کی،نہ بنا تو سیب ،کیلا وغیرہ ٹرائی کیا۔یہ بھی نہ بن سکا توسینری بنانے کا قصد کیا۔آم کو گول کر کے سورج بنایا،سیب کو پہاڑوں کے اندر چھپایا،کیلے سے گھر وغیرہ بنائے۔نہر جاری کرنے کی کوشش کی تو رنگ زیادہ ہوگیا،اور وہ جھیل کی شکل اختیار کرگیا۔
ایسی بھدی اور بدنما پینٹنگ کو چھپانے کیلئے ہم نے جھیل کو مزید وسعت دی،اور سمندر کی شکل دے دی۔پھر پہاڑوں کو چھپانے کیلئے ان پر سرخ رنگ کا آتش فشاں نکال دیا،سورج کی روشنی سارے آسمان پر نکال کر اسے پیلا کردیا۔پھر اسی پر بس نہیں کیا،بلکہ الٹے سیدھے رنگ لیکر ساری کی ساری پینٹنگ کو بگاڑ دیا۔تاکہ کوئی یہ جان ہی نا پائے کہ کچھ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
انکل کو دیکھ کر ہم جھینپ گئے۔
’’سوری انکل !ہم نے آپ کے کافی پینٹس ضائع کئے ہیں۔‘‘
’’صرف پینٹس ہی نہیں میرے لعل !تم نے میرا ایک کینوس اوراپنا وقت بھی برباد کیا ہے۔‘‘وہ مسکرا کر بولے۔
ہم نے شجاعت کو گہرے غور و خوص میں پایا،دیکھا تو وہ ہماری اسی پینٹنگ نما بد سلوکی کو دیکھ رہے تھے۔
’’شجاعت کیا تمہیں اس میں’ کچھ ‘نظر آگیا ہے؟‘‘ ہم امید سے بولے۔
’’ایں۔ہاں! میں تو صرف یہ سوچ رہا ہوں کے پینٹنگ کرتے وقت اگر ہاتھ گندے ہو جائیں تو انہیں کسی رومال وغیرہ سے پوچھ لینا چاہےئے، نہ کہ کینوس سے!‘‘
ہماری رہی سہی امید بھی ختم ہو گئی۔ہم تو اسے یہ سوچ کر کمرے میں لے آئے تھے کہ ایک رنگ برنگی چیز کسی نہ کسی آنکھ کو تو بھلی لگے گی۔جبکہ انکل پہلے ہی کہ چکے تھے
’’بیٹا اسے اپنے ساتھ ہی واپس لے جانا۔کیونکہ اسے گھر میں رکھنا جگہ کا زیاں ہے۔‘‘
ہم نے انکل کی بات سے بھرپور اتفاق کیا اوراب اسے اٹھا کر گھر سے باہر رکھ دیاکہ کوئی ٹین ڈبے والالے جائے یا پھر کوئی اپنے جھونپڑے کی چھت پر استعمال کرلے!
مگر شجاعت مرزا کا اندازہ لگانا کوئی آسان بات نہیں۔انہیں نیچ اور گھٹیا سمجھنا ہمیشہ غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ وہ اس سے بھی زیادہ نیچے پائے جاتے ہیں۔اس مرتبہ تو انہوں نے ٹین ڈبے والوں اور جھونپڑے والوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا،اور ہمارا کینوس خود ہی اٹھا کر لے گئے۔
یہ ہی نہیں بلکہ اپنی بے عزتی اور بربادی کیلئے یہ کیا کہ اسے کالج کے آڈیٹوریم میں رکھ دیا اورباہر اشتہار لگا دیا ’’بے نام اور پراسرار پینٹنگ‘‘۔ اس کے اندر کم از کم دس پیغامات چھپے ہیں۔اور ایک بڑا پیغام۔زیادہ سے زیادہ پیغامات ڈھونڈنے والے کا نام اور اسکی ریسرچ فلاں میگزین میں پینٹنگ کے ساتھ شائع ہو گی۔
اشتہار پڑھ کر ہم فوراََ مرزا کے پاس پہنچے اور بولے۔
’’کچھ روز بعد تو تمہیں بری طرح پٹنا ہی ہے مگر آج تم زخمی ہونے سے بچ گئے۔‘‘
’’وہ کیوں‘‘مرزا بھنویں اچکا کر بولے۔
’’اسلئے کے تم نے ہمارا نام پینٹنگ کے ساتھ منسوب نہیں کیا ،ورنہ برا حشر کرتے۔‘‘
’’ہوں۔میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ کچھ روز بعدکیوں بری طرح پٹنا ہے؟‘‘
’’ظاہر ہے،اسلئے کہ اسمیں دس تو کیا ایک بھی پیغام نہیں چھپا،کیونکہ بنانے والے تو خود ہم ہی ہیں نا!‘‘
ہم نے یوں فخر سے گردن اکڑائی گویاکوئی ماسٹر پیس بنا ڈالا ہو۔
’’ایک پیغام تو یہ ہی ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے تم کرو تو ٹھینگاباجے!‘‘انہوں نے ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور آگے بڑھ گئے۔

*۔۔۔*

کالج کے لڑکوں کو بھی بس ایک شوشہ چاہئے ہوتا ہے اس کو شو۔شا اور کھیل تماشہ وہ خود ہی بنا لیتے ہیں۔کھوج،مقابلہ ،انعام۔۔یہ الفاظ اگر الگ الگ بھی ہوں تب بھی ان کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہیں۔ساتھ ہوں تو انہیں پاگل کر دیتے ہیں۔
پہلے دن تو نہیں لیکن دوسرے اورتیسرے دن ہم نے آڈیٹوریم میں پاگلوں کا میلہ دیکھا۔لڑکے اس کام کو معمہ کا درجہ دے کراس کے پیچھے کریزی ہو گئے۔ہر کوئی اپنے حلقہ احباب میں اپنے اخذ کردہ نتیجے دلائل کے ساتھ پیش کر کے منوانے کی کوشش کرتا،اور زیادہ سے زیادہ نتائج نکال کر ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرتا۔
’’دیکھو تم ہمیں پہلے سے پیسے دے دینا تاکہ جس دن تم نتائج کا اعلان کرواس دن ہم تمہارے لئے ایمبولینس منگوالیں۔خود سے اٹھا کر تمہیں ہرگز اسپتال نہ لے جائیں گے بتارہے ہیں۔‘‘ہم نے وارننگ دی۔
’’ایمبولینس کے بجائے فائر بریگیڈ منگوالو۔جیسے ہی تمہارے سر سے دھواں نکلتا دیکھیں گے اشارہ کر دیں گے،تاکہ آگ لگنے سے پہلے ہی قابو پا لیا جائے۔‘‘مرزا تفکر سے بولے۔
’’لیکن ذرا یہ تو بتاؤ کہ تم نے خود کوئی اٹکل پچو سے دس نکات نکالے بھی ہیں؟‘‘
’’مجھے نکالنے کی بھلا کیا ضرورت ہے جب ساری دنیا کو اسی کام پر لگا دیا ہے۔پچاسوں نکات آجائیں گے اس میں سے کوئی سے بھی دس مناسب نکات نکال لوں گا ۔‘‘مرزا لاپرواہی سے بولے تو ہم دانت پیس کر رہ گئے۔

*۔۔۔*

چونکہ مرزا کا ہر کسی سے لین دین رہتا ہے، لہٰذا اکثر لوگ انہیں اچھی طرح جانتے ہیں۔کسی چھوٹے موٹے رسالے والے نے بھی شایداسی وجہ سے وہ پینٹنگ اور اس میں چھپے دس پیغامات چھاپ دےئے۔
مگر مرزاصرف اس ہی پر کیسے بس کر سکتے تھے،جب تک وہ بات کا بتنگڑ نہ بنا لیں اور اس کی بھی کھال نہ اتار لیں، انہیں چین کہاں آتا۔لہٰذا ساتھ ہی اس پینٹنگ کی نیلامی کا بھی اشتہار تھا۔
’’لوگ آئیں گے ضرور مرزا لیکن پینٹنگ دیکھنے نہیں بلکہ یہ دیکھنے کہ اشتہار دینے والے کے سر پر کتنے سینگ ہیں!‘‘ہم نے شجاعت کو خبردار کیا۔
’’پھر تو تم میرے لئے ایک بارہ سنگھے کا بندوبست کردویا بھلے خود ہی ساتھ ہو جاؤتاکہ آنے والوں کو مایوسی نہ ہو‘‘
بظاہر تو شجاعت مرزا آ نے والوں کو مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا،مگر حقیقتاً اس نے کردیا جب ایک آرٹ گیلری نے اس تصویر میں دلچسپی ظاہر کی۔
’’معاف کیجئے گا میں یہ پینٹنگ آپ کو نہیں دے سکتا،ہاں اگر آپ چاہیں تو بکنے تک اپنی آرٹ گیلری میں رکھ ضرورسکتے ہیں۔اس سے آپکی مشہوری بھی ہو جائے گی۔‘‘
گو کہ وہ لوگ اس ردی برابر چیز کے ہزاروں روپے دینے کو تیار ہو گئے تھے،پھر بھی مرزا نے صاف انکار کر دیا۔ظاہر ہے وہ یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ بیوقوفی اور حماقت میں وہ نمبر ون نہ رہیں؟
آرٹ گیلری میں پہنچنا تھا کہ گویا وہ پینٹنگ آسمان پر نمودار ہو گئی۔ایک دنیا نے اسے دیکھ لیااور وہ دس پیغامات والی پینٹنگ مشہور ہو گئی۔آرٹ گیلری نے اپنی مشہوری کیلئے اس کی نیلامی کے کچھ اور اشتہارات بھی دے ڈالے،اور یوں مقررہ دن پر وہاں شائقین فن خصوصاََ مالدار لوگوں کا ایک مجمع لگ گیا۔
ایک تعداد ضرور ان لوگوں کی تھی جونیلامی میں بڑھ چڑھ کر بولی لگانے اور پینٹنگ حاصل کرنے آئے تھے،مگربڑی تعداد ان عوام الناس کی تھی جویہ جاننا چاہتے تھے کہ اسے بنایا کس نے کیوں بنایا اور اس کا سب سے بڑا پیغام کیا ہے؟
مزے کی بات یہ تھی کہ ان جوابات کو جانتے ہوئے بھی ’ہم بھی وہاں موجود تھے‘اور خود کشی حرام ہونے کی وجہ سے زہر تو ساتھ نہ لائے تھے مگر بے ہوشی کی دوا ضرور ساتھ رکھ لی تھی کہ خدا نخواستہ مرزا ہمارا نام لے لیں تو ہم فوراََ وہ دوا لے لیں۔
ان سوالوں کا جواب بعد میں تھا،پہلے تھی بولی۔اور جب وہ لگنی شروع ہوئی تو ہم نے بے ہوشی کی دواؤں کو جیب سے نکال کر پھینک دیاکیونکہ ہم اس کے بغیر ہی باآسانی بے ہوش ہو سکتے تھے۔دوسری تیسری ہی دفعہ میں وہ بولی ہزاروں سے نکل کر لاکھوں تک پہنچ گئی۔اور اب اسی میں گردش کر رہی تھی۔ہم دل تھامے سنتے رہے یہاں تک کہ مکمل بیہوش ہو گئے۔

*۔۔۔*

ہوش آیا تو یہ آواز کانوں میں پڑی۔
’’یم۔یم۔مم!‘‘
نظر اٹھا کر دیکھا تومرزا مائیک پکڑے کھڑے تھے اور یقیناًکچھ بولنے کی تیاری کر رہے تھے۔ہم نے جلدی سے جھک کر بے ہوشی کی دوائیں اٹھائیں اور مضبوطی سے تھام کر بیٹھ گئے۔ (دوائیں نہیں دل)
’’پینٹنگ بنانے والے نے دراصل اس پینٹنگ میں پیغامِ انقلاب دیا ہے۔اور اسی وجہ سے اسے اپنی جان کا خطرہ لگا تو اس نے اسے بے نام رہنے دیا،تاکہ کوئی اس تک پہنچ نہ سکے۔‘‘
’’مگر اب یہ نیلامی کی رقم اسے ملے گی تو اس کا پتا چل ہی جائے گا۔‘‘کسی نے آواز اٹھائی۔
’’یہ نیلامی کی رقم بنانے والے کو نہیں بلکہ کسی فلاحی ادراے کو دی جائے گی۔‘‘مرزا ڈھیٹ پن سے مسکرائے۔ہم نے دل ہی دل میں انہیں ایک گھونسا مارا۔
’’لیکن آپ کو یہ کیسے ملی۔آپ کے ذریعے تو اس بنانے والے تک پہنچا جا ہی سکتا ہے۔‘‘کسی نے انسپکٹر جمشید بننے کی کوشش کی۔
مرزا اتنی زور سے مسکرائے کہ اگر انکا چہرہ کلی ہوتا تو ضرور پھول بن جاتا اور وہ بھی گوبھی کا۔
’’میرے خاندان میں یا جاننے والوں میں دور دور تک کوئی پینٹر نہیں ہے،نہ ہی کسی کے گھر میں اتنے برش،پینٹ اور کینوس ہیں۔‘‘
’’تو پھر آپ تک آخر یہ پینٹنگ پہنچی کیسے۔اگر کسی نے پراسرار طریقے سے بھیجی بھی،تو بھی یقیناًو ہ آپ کو جانتا ضرور ہوگا۔‘‘بولنے والے نے سوچا کہ انسپکٹر جمشید نہ بن سکا تو چلو کامران مرزا ہی بن کر دیکھتا ہوں۔مگر شجاعت مرزا کے ہوتے ہوئے بھلا وہ کیسے کچھ بن سکتا تھا۔
’’بولی جیتنے والے صاحب شاید افسوس کریں لیکن انہیں کرنا نہیں چاہیے۔ کیونکہ ان کی دی ہوئی رقم کسی اچھے کام ہی میں خرچ ہوگی۔دراصل یہ پینٹنگ مجھے سڑک کے کنارے سے ملی تھی۔‘‘
’’اوہ۔اوہ۔اوہ‘‘کچھ لوگوں کی تو کراہیں ہی نکلیں،کافی کی چیخیں بھی سنائی دیں۔
’’اور ساتھ ہی ایک کاغذ کا پرچہ ملا ہوگاجس میں یہ سب ہدایات درج ہوں گی۔‘‘کسی نے اندازہ لگایا۔
مرزا خاموش رہے۔
’’لیکن اس کا سب سے بڑا اور اہم پیغام کیا تھا؟‘‘کسی اور نے پوچھا۔
’’یہ ایک کچرے کی طرح پڑی ہوئی چیز تھی جس کی کوئی قدر و قیمت نہیں تھی۔اسے کوئی کچرا چننے والا یا ٹین ڈبے والا اٹھاتا تو نہ جانے اس سے اپنی جھگی کی چھت بناتا یا توڑ کر آگ جلانے کیلئے استعمال کرتا،ایسے بے مقصد اور بے کارچیز کی بھی جب صحیح طریقہ سے تشہیر کی گئی تو یہ ٹکوں سے لاکھوں روپے مالیت کی چیز بن گئی۔اس میں سے پیغامات بھی نکال لئے گئے اور ہزاروں لوگ اس کے قائل بھی ہو گئے۔‘‘
شجاعت نے کچھ دیر سکوت کیا،وہ یہ ہی کوشش کرتا تھا کہ لوگ اس کی بات کو ہضم کر سکیں۔مگرہمیں ابھی تک کچھ ہضم نہ ہوا تھا۔
’’کیا یہ ہی اس کا سب سے اہم پیغام تھا؟‘‘ کسی نے منہ بنایا۔
’’نہیں۔سب سے اہم پیغام یہ تھا کہ جب ایسی کچرا چیز لوگوں کومرعوب اور قائل کر سکتی ہے،تو ہمارے پاس جو سونا چیز ہے اسے ہم کیوں چھپا کر رکھتے ہیں،اس پر محنت کر کے کوشش کر کے دنیا کے سامنے کیوں پیش نہیں کرتے؟‘‘
اب ہمارا نظامِ ہضم کچھ چلنا شروع ہوا،کیونکہ مرزا نے سسپنس پھیلا کرلوگوں کے ذہنوں میں اپنے پنجے جو گاڑ دئے تھے۔
’’کیا ہے وہ سونا چیز؟‘‘
’’وہ ہمارا ایمان ہے۔۔ہمارا دین اسلام ہے،ہم چیزوں کی تعریف کرتے ہیں اسلام کی نہیں۔لوگوں کی تعریف کرتے ہیں،اﷲ کی نہیں،اور کریں کیسے،نہ ہم ادھر محنت مطالعہ کرتے ہیں نہ ہی دماغ خرچ کرتے ہیں اور نہ ریسرچ کرتے ہیں۔۔۔
ایک بے کار سی پینٹنگ کو خریدنے کیلئے بے شمار لوگ تیار ہو گئے،اس کیلئے لاکھوں روپے خرچ کرنے کو آمادہ ہو گئے،تو کیا اسلام کو اس کے فضائل و فوائد کوٹھیک طریقے سے پیش کیا جائے گا تو مصائب مشکلات کے شکار لوگ اس کو اپنانے کو تیار نہ ہوں گے؟مگر ہم ان کے پاس جائیں اور پیش کریں تب نا!۔‘‘مرزا نے تقریر کی۔
’’مگر ہم تو خود مصائب و مشکلات کا شکار ہیں،سکون کو ترسے ہوئے ہیں۔‘‘کسی نے شکایت کی۔
’’چونکہ ہم خود ہی اسلام پر ٹھیک سے عمل پیرا نہیں ہیں۔کتنی نمازیں ہیں جو ہم پڑھتے ہیں اورکتنی ہیں جو ہم جماعت سے پڑھتے ہیں؟یہ ہی حال ہماری معاشرت کا ہے،تجارت کا ہے معاملات کا ہے۔۔۔
پھر اگر ہمیں اللہ پر کامل بھروسہ اور یقین ہو تو ہر مشکل پر صبر کریں،تقدیر پر ایمان ہو تو ہر حالات سے آسانی سے گزر جائیں۔ ‘‘
’’لیکن شجاعت،جب ہم خود ہی ٹھیک مسلمان نہیں تو دوسروں کو اسکی کیا دعوت دیں؟‘‘ یہ ہم تھے۔
’’اسی لئے تو کہ رہا ہوں بابا کہ اس کو پڑھیں، علماء سے سمجھیں تاکہ دوسروں کو ٹھیک سے بتا سکیں،اور اس بہانے وہ سب باتیں ہمیں بھی پتا چلیں گی تو اِن شاء اللہ عمل میں بھی آجائیں گی!‘‘
شجاعت مرزا شجاعت ملّا کا روپ دھار چکے تھے۔جبکہ ہم اب یہ سوچ رہے تھے کہ اسی جیسی کئی اور پینٹنگ بنائیں اور اس کا پیسہ کسی رفاہی ادارے کو ہرگز نہ دیں،بلکہ خود ہی ہڑپ کریں۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top