مسلمان گھبراتا نہیں
احمد حاطب صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِسلام آباد کے شہرِشاداب سے بس چلی تو گھوم کر شاہراہِ کشمیر پر جانکلی۔ اب مغرب کا وقت ختم ہوچکاتھا۔ جب میں مظفر آباد جانے والی بس کے اڈے پر پہنچا تھا تو شام کا وقت تھا۔ شہر پر ایک عجیب سی اُداسی طاری تھی۔ شام کی دھند سے سارا منظر نیلا اور اُودا سا دکھائی دے رہا تھا۔ اُفق پر نارنجی دھاریاں پھیلی ہوئی تھیں اوراُونچے درختوں کا چہرہ نارنجی ہوگیا تھا۔مظفر آباد جانے والی بس کے چلنے میں دیر تھی ۔ بس کا ٹکٹ خریدنے اور اپنی نشست مخصوص کروانے کے بعد میں نے سڑک سے اُتر کر یونہی بے مقصد اسلام آباد کے کچے راستوں پر گھومنا شروع کر دیا ۔جگہ جگہ درختوں کے جُھنڈ تھے، گھنی جھاڑیاں اور شور مچاتے ہوئے قُدرتی نالے۔ مجھے اس قسم کے فطری مناظر بہت بھلے لگتے ہیں۔ اِتنے میں مغرب کی اذان ہوگئی۔ ایک چھوٹی سی خوب صورت مسجد میں نماز پڑھی اور باہر نکل آیا۔ اب شہر کی روشنیاں جگنوؤں کی طرح جگمگارہی تھیں۔ سُنہرے اور گلابی مکانوں پر ہلکی ہلکی دُھند چھاگئی تھی۔بس چلی تو اِردگِرد کے مناظر بھی ساتھ ہی چل پڑے۔ شاید یہ خوش اخلاق اور مہمان نواز مناظر اپنے شہر سے رُخصت ہونے والے مسافروں کو الوداع کہنے کے لیے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔چلتے چلتے چاند نکل آیا۔ چاندنی کھلے میدانوں میں کھیلنے لگی۔ چاندی کے رنگ کے بادل مرگلہ پہاڑ کے اوپر ہی اوپر اُڑے جارہے تھے۔چاند تھوڑی دیر کو اِن بادلوں کی اوٹ سے نکل آتا، مگر آسمان پر دور دور تک پھیلے ہوئے بادل اُسے اپنی رضائی میں چھپالیتے ۔اُس کا مُنھ چوم کر تھوڑی دیرکو اُسے چھوڑدیتے اور پھر لپک کر اُس کو اپنی آغوش میں دبوچ لیتے۔ پہاڑ پر کبھی چاندنی اور کبھی تاریکی پھیل جاتی۔ہوا میں تازہ پھولوں کی مہک تھی۔ رات کی رانی کی پُر اسرار خوشبو کے جھونکے ،کسی شریر بچے کی طرح، باربار بس میں چلبلا تے ہوئے چلے آتے اور اُسی طرح ایک چنچل شوخی کے ساتھ واپس بھی چلے جاتے۔ شہر کی خاموشی سائیں سائیں کررہی تھی۔صرف ہماری بس کے زوردار زنّاٹے کی آواز اِس سُنسان سناٹے کو چیر رہی تھی۔تمام مناظر دوڑتے چلے جارہے تھے۔ پہاڑ ، کھائیاں، جنگل، پانی ، گھاس،جھومتی لہلہاتی بیلیں اور اٹکھیلیاں کرتی ہوئی خوشبوئیں۔
***
میں اِن مناظر کے سحر میں ایسا کھو گیا تھا کہ سب کچھ بھول چکا تھا۔ یہ بھی کہ میں اِس وقت ایک بس میں بیٹھا ہوا ہوں اور میرے ساتھ دوسرے مسافر بھی ہم نشیں ہیں۔میں جس نشست پر بیٹھا تھا اُس پر صرف دو مسافروں کے بیٹھنے کی گنجایش تھی۔ میرے ساتھ ہی ایک نوجوان لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ اِس کا احساس بھی مجھے اُس وقت ہوا جب کئی باراُس کا ہاتھ میری واسکٹ کی جیب پر پڑا۔ میری جیب میں اِس وقت پچاس ہزار روپئے تھے۔ آپ بھی کہیں گے کہ یہ شخص یا تو شیخی خورا ہے یا احمق۔ بھلا پچاس ہزار روپئے یوں واسکٹ کی جیب میں ڈال کر کوئی بس میں سفر کرتاہے؟مگر اِس کی وضاحت میں ابھی تھوڑی دیر میں کرتا ہوں۔اِس وقت تو مجھے یہ تشویش شروع ہوگئی تھی کہ کہیں کسی طرح اِس لڑکے کو یہ پتا تو نہیں چل گیا ہے کہ میری جیب میں اتنی خطیر رقم موجود ہے۔ خوف یہ تھا کہ یہ چالباز لڑکا ہاتھ کی صفائی نہ دِکھا دے۔ میں ایک غریب اِسکول ماسٹر ہوں۔ میری تنخواہ بھی کُل مِلا جُلا کر دس ہزار روپئے ماہانہ بنتی ہے۔ جیب میں پڑی ہوئی یہ رقم تو میری پانچ ماہ کی تنخواہ کے برابر ہے۔ اگر خدانخواستہ جیب سے نکل گئی تو کیسے ادا کرو ں گا؟ پانچ ماہ تک بھوکا رہا جا سکتا ہے نہ یہ الزام برداشت کیا جاسکتا ہے کہ ماسٹر امانت کی رقم کھا گیا ۔اب بہانے کررہاہے کہ جیب کٹ گئی اور قسطوں میں رقم ادا کردوں گا۔قسطوں میں ادا بھی کروں گا تو کس طرح؟ نصف تنخواہ کی قسطیں بنادوں تب بھی دس ماہ تک تنگی اور عُسرت سے بسر کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ ایک ہزار روپئے ماہانہ کی قسط کرنے سے مکمل پچاس ماہ بنتے ہیں۔ چاربرس اور دوماہ۔ یوں اِتنے عرصہ تک کون جی سکے گا۔ لو! بات کا بتنگڑ بناتے بناتے میں آپ کو یہ تو بتانا بھول ہی گیا کہ میرے غریب اسکول کے غریب بچوں اور غریب اساتذہ نے مل جل کر یہ رقم زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے جمع کی تھی۔ اور اُنھوں نے مُجھ پر اعتماد کرکے میری یہ ذمہ داری لگائی تھی کہ میں خود مظفرآباد جا کر دیکھوں کہ زلزلہ زدگان کی حقیقی مدد کون کر رہاہے؟ یہ رقم صرف اُسی کے حوالے کی جائے اور رسید لی جائے،تاکہ حق داروں کا حق اُن تک پہنچ سکے۔ اگر ذرا بھی شک و شبہ ہوتو میری ذمہ داری تھی کہ مستحقین کو یہ رقم خود اپنے ہاتھوں سے پہنچاکر آؤں۔ میرے گھرمیں کوئی بریف کیس یا بیگ نہ تھا۔ اہلِ محلہ سے معلوم کیا تو وہ بھی میرے ہی جیسے نکلے۔ بس میں نے اﷲ کے بھروسے پر یہ رقم اپنی واسکٹ کی دو الگ الگ اندرونی جیبوں کی تہوں میں تقسیم کرکے ڈال دی اور آیت الکرسی پڑھ کر گھر سے چل پڑا۔
***
بس فراٹے بھرتی چلی جارہی تھی اور میں ابھی اِنھی سوچوں کے اُدھیڑ بُن میں تھا کہ لڑکے کا ہاتھ ایک بار پھر میری جیب پر پڑا۔ پہلے تو میں نے سوچاکہ اِس بد بخت کو زور سے ڈانٹوں۔ مگر پھر خیال آیا کہ اِس طرح تو بات بڑھ جائے گی۔ بات بڑھی تو عین ممکن ہے کہ ’’ وہ بات‘‘ دوسروں تک بھی پہنچ جائے۔ایسے’ پاکٹ مار‘ بس میں تنہا تو سفر نہیں کرتے۔ اِن کے سرپرست بھی ہوتے ہیں۔اگر پورے گینگ کو اندازہ ہوگیا کہ میری جیب میں اِتنی بڑی رقم ہے تو وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ سُنا ہے کہ بعض اوقات بس کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر بھی ایسے جرائم پیشہ افراد سے ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ میں یہ سوچ ہی رہاتھا کہ اِتنے میں لڑکے کا ہاتھ پھر میری جیب پر لگا۔ اب تو مُجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے بڑے ضبط و تحمل کے ساتھ اور شائستہ لہجہ میں لڑکے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’ میاں! کیا کررہے ہو؟‘‘
لڑکے نے چونک کر میری طرف دیکھا اور قدرے شرمیلے لہجہ میں بتایا:
’’ سندھ مُسلم سائنس کالج سے انٹرکررہاہوں۔‘‘
پہلے تو مجھے اِس چالباز لڑکے کی مکاری پر سخت غصہ آیا۔ میں نے چاہا کہ اُسے ایسی کڑی اور کرخت اُستادانہ نگاہوں سے گھور کر دیکھوں کہ اس کا رنگ فق ہوجائے۔ مگر جب میں نے اُس کی طرف دیکھا….. (اور ظاہر ہے کہ پہلی بار دیکھا)….. تو اُس کے چہرے پر فرشتوں کی سی معصومیت اور کسی اچھے خاندان کی شرافت پھیلی ہوئی تھی۔ اِس پس منظر میں جب میں نے اُس کے دیے ہوئے جواب پر غور کیا توخود میرے چہرے پر بھی مُسکراہٹ پھیل گئی۔شاید اُسے احساس ہی نہیں تھا کہ وہ کیا کررہاتھا۔میں نے اُس کے جواب پر مزید غور کیا تو حیران ہوکر پوچھا:
’’ ارے! تو کیا تُم کراچی سے آرہے ہو؟‘‘
’’ جی ہاں!‘‘
’’کہاں جارہے ہو؟‘‘
’’مظفرآباد‘‘
’’ کیوں؟‘‘
’’ میرے ایک کلاس فیلو کا پورا گھرانا زلزلے کی زد میں آکر شہید ہوگیا ہے۔ صرف اُس کی ایک ننھی مُنی سی بہن بچی ہے۔ہماری پوری کلاس نے اُس کے لیے کچھ رقم جمع کی ہے۔وہی اُس کو پہنچانے جارہاہوں۔‘‘
’’کتنی رقم ہے؟‘‘
’’پچاس ہزار روپئے۔‘‘
’’ارے باپ رے!‘‘ میرے مُنھ سے بے ساختہ نکلا، اور میں نے حیران ہوکر پوچھا:
’’پچاس ہزار روپئے؟‘‘
’’ جی ہاں! ہماری کلاس کے دونوں سیکشنوں کوملاکر کُل اِکیاون طلبہ ہیں۔ اپنے اُس ایک ساتھی کو چھوڑ کر ہم باقی پچاس بچے۔ ہم سب نے اپنے اپنے بڑوں کی مدد سے یہ رقم جمع کی ہے۔ ناظم صاحب نے ہمیں فی طالب علم ایک ہزار روپئے کا ہدف دیا تھا۔ ہمارے بھائی پر مصیبت پڑی ہے۔ ہم یہی کچھ کر سکتے تھے۔‘‘
لڑکا روہانسا ہوگیا تھا۔ میں نے سرزنش کے انداز میں کہا:
’’ میاں! اتنی خطیر رقم لیے تُم اکیلے پھر رہے ہو، اور اِس پر حماقت یہ کہ ایک اجنبی شخص کو بتا بھی رہے ہوکہ تمھارے پاس ایسی رقم ہے۔ مزید حماقت یہ کہ یہ بھی بتا رہے ہو کہ کُل کتنی رقم ہے۔ بُرا نہ ماننا۔ میں بھی ایک اسکول میں اُستاد ہوں۔ بحیثیت اُستاد یہ بات تمھارے بھلے اور تربیت کے لیے کہہ رہاہوں۔ ہزار طرح کے سانحے سفر میں گذرتے ہیں۔ اگر کوئی تمھاری سادہ لوحی سے فائدہ اُٹھا کر یہ رقم ہتھیا لے تو تُم دوستوں کو کیا مُنھ دِکھاؤگے؟‘‘
لڑکا یہ سُن کر مؤدّب ہوگیا اور کہنے لگا:
’’ آپ ٹھیک کہتے ہیں سر!آدمی آدمی میں فرق ہوتاہے۔مگر میں بھی کچھ کچھ مردم شناسی کر لیتاہوں۔پھر میں نے اِس آزمایش کے موقع پر اپنی قوم کو از سرِنو زندہ اور بیدار ہوتے دیکھاہے۔ میرا عزم، یقین، حوصلہ اور اپنی قوم پر اعتماد بڑھ گیاہے۔ کراچی سے یہاں تک کے سفر میں مَیں نے ایثار اور قُربانی کے ایسے ایسے مناظر دیکھے ہیں کہ مجھے یقین آگیا ہے کہ ہمارے بزرگ جو باتیں بیان کرتے ہیں وہ سو فیصد درست ہوں گی۔ سب سمجھ میں آگیا کہ یہ قوم قائدِ اعظم کی قیادت میں کس طرح متحد ہوگئی ہوگی ۔ کس طرح پاکستان کی خاطر اپنا تن مَن دھَن سب کچھ قربان کردیا ہوگا اور یہاں کے انصار نے پاکستان میں داخل ہونے والے لُٹے پِٹے مہاجر بھائیوں کے لیے کس طرح ایثار کیا ہوگااور اپنے اُن دُکھی بھائیوں کی راہوں میں کیسے کیسے پلکیں بچھا دی ہوں گی ۔‘‘
مجھے لڑکے کی یہ باتیں اُس کی عُمر سے بڑھی ہوئی محسوس ہوئیں۔ سچ پوچھیے تو میں حیرت کے پہاڑ تلے دب گیاتھا۔ میں نے پوچھا:
’’ آپ کا نام کیاہے؟‘‘
’’ساجد‘‘
’’ ساجد بیٹے! میں آپ کے خیالات کی قدر کرتا ہوں۔مگر اب زمانہ بہت بدل چکاہے۔ اب اِن تِلوں میں وہ تیل نہیں رہا۔ ابھی آپ کم عُمر ہیں، آپ کو اِس تلخ حقیقت کا تجربہ نہیں کہ خواب و خیال کی دُنیا اور حقیقت کی دُنیا میں کتنا بھیانک فرق ہوتا ہے۔ ‘‘
’’ سر! دیکھیے نا! حکیم الامت شاعرِ مشرق علامہ سر محمد اقبال نے ایک الگ اِسلامی ملک کا خواب ہی تو دیکھا تھا۔ مگر ہمارے قائدؒ نے اپنے عزم و ہمت اور مستقل مزاجی سے اُس خواب کو حقیقت میں تبدیل کرکے دکھادیا۔ میں ریڈیو اور ٹی وی سے سُنائی جانے والی قائد ؒ کی اُس آواز اور اُس یقین بھرے لہجہ کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا، اور اُن کی اُس تقریر کو کبھی بھلانہیں سکتا جس میں بڑے اعتماد اور بہت پختگی کے ساتھ اُنھوں نے اُردو میں کہا تھا کہ’’ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتے‘‘۔ سر میں مانتا ہوں کہ ہماری قوم ایک بار پھر ’’گوروں کی غلامی‘‘ کا شکار ہوکر بہت سی خرابیوں میں پڑگئی ہے۔ لیکن سر! کم ازکم مجھے تو یقین ہے کہ اِ ن شا ء اﷲاِسی قوم کے بچوں میں سے ایک نہ ایک محمد علی جناح ایک بار پھر اُٹھے گا، جو ایک بار پھر اِس قوم کوگوروں کی غلامی سے آزادی دِلائے گا۔ اِن شاء اﷲ!‘‘
’’گوروں کی غلامی؟ میاں یہ کیا کہہ رہے ہو؟ الحمدُ ﷲ ہم ایک آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں اور تمھیں اِس بات پر اﷲ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ورنہ جو قومیں واقعی غلام ہیں ،ذرا اُن کے حال پر نظر ڈالو تو لگ پتا جائے گا۔‘‘
’’ جی سر! ہم کہنے کو تو ایک آزادا ور خود مختار ملک کے باشندے ہیں ۔ لیکن سر! :ہم غریب ملکوں کی بے وقار آزادی
تاج سر پہ رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں
ہمارے قائدؒ نے تو کہا تھا کہ مسلمان ہر لحاظ سے ایک الگ قوم ہیں۔ سر! ہمارا مذہب ، ہماری ثقافت، ہماری تعلیم ، ہماری سیاست، ہمارا رہن سہن ، ہماری معیشت اور ہمارے حلال و حرام سب کچھ تو دوسروں سے الگ ، منفرد اور ممتاز ہیں۔ لیکن سر! ہم مذہبی ، ثقافتی ، تعلیمی، سیاسی، سماجی، معاشی حتیٰ کہ دینی طور پر بھی غیروں کے غلام بنا دیے گئے ہیں۔ ہمارے نصاب سے اسلامیات اور قرآنی آیات خارج کر دی جاتی ہیں، جہاد جیسے اسلامی فرائض اور پردہ اور داڑھی جیسے اسلامی شعائر کا کھلم کھلا مذاق اُڑایا جاتاہے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کے بنائے ہوئے ملک کے یومِ آزادی پر قوم کو حکمرانوں کا ڈانس دکھایا جاتا ہے۔ سر! پہلے ہم صرف جسمانی طور پر غلام تھے، مگر اب ذہنی اور نفسیاتی طور پر بھی غلام بنا دیے گئے ہیں۔ یہ غلامی کی بد ترین شکل ہے۔سر! ہمیں ایک بار پھر ایک تحریکِ آزادی کی ضرورت ہے۔ قوم ایک اور قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کی منتظر ہے۔‘‘
’’یا خُدا ! یہ لڑکا ہے یا کوئی بلا ہے!‘‘
میں نے دِل میں سوچا اور اُس سے کہا:
’’ میاں! تمھارا یہ مردِ غیب، یہ قائدِ اعظم ثانی آئے گا کہاں سے؟‘‘
’’اِسی قوم سے سر! اِسی قوم سے۔ اِس قوم نے ثابت کر دیا ہے سر، کہ یہ ایک زندہ و بیدار قوم ہے۔ سر! میرا تعلق صوبۂ سندھ سے ہے۔ وادئ کشمیر کے اُس نوجوان، اپنے اُس کلاس فیلو سے ہماری کلاس کا آخر کیا رشتہ ہے سر؟ ہماری پوری کلاس کا،جو اُس کے ماں باپ اور بھائی بہنوں کے جاں بحق ہوجانے پر آنسوؤں سے روئی ہے۔ اِسلام اور پاکستان کا رشتہ ہے سر! اِمداد تو دوسرے ملکوں اور دوسری قوموں نے بھی کی ہے، مگر ہماری قوم کے لوگ اپنے بھائیوں کی مصیبت پر تڑپ تڑپ کر اور دھاڑیں مار مار کر روئے ہیں سر۔ یہ لوگ کوئی غیر نہیں، یہ ہمارے سگے بھائی ، ہماری سگی بہنیں ہیں سر! میں اپنے اُن بھائی بہنوں اور بزرگوں کے نام اپنے قائد کا یہ پیغام لے کر جارہا ہوں کہ:
’’ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتے‘‘۔
سچ پوچھیے تو اب خود میری آنکھوں میں بھی آنسو آگئے تھے۔ میں نے اپنی نمناک نگاہیں چھپانے کے لیے بس کی کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا۔ مری آگیا تھا۔ اونچے اونچے سہ منزلہ مکانات، لکڑی کے نقش و نگار والی اشیا، بازاروں کی بھری دُکانوں میں سجی ہوئی دست کاری کی چیزیں، جگہ جگہ بلندیاں اور ڈھلان،پہاڑ اور کھائیاں،برفانی ٹوپی اوڑھے ہوئے اونچی سے اونچی پہاڑی چوٹیاں اور دھُند میں چھپی ہوئی گہرائیاں۔ مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ یہ سارے مناظر ہماری قومی زندگی کے علامتی مناظر ہیں۔ پھر یکایک مجھے خیال آیا کہ میں تو صرف آخرِ ہفتہ (Week End) کا خیال کرکے گھر سے چل پڑا تھا۔ مگر آج محض ہفتہ اور کل صرف اتوار ہی نہیں ہے۔ آج ۲۴ دسمبر کی شب اور کل ۲۵ دسمبر کی صُبح بھی ہے۔ قائدِ اعظم ؒ کا یومِ پیدائش۔ میں نے کَن انکھیوں سے اُس لڑکے کی طرف دیکھا۔ اب وہ کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ اُس کے چہرے پر عزم و اعتماد کے ساتھ ساتھ وہی معصومیت اور وہی شرافت رقصاں تھی۔ مجھے اقبالؔ کا ایک مصرع یاد آگیا:
’’جہانِ نو ہورہاہے پیدا، وہ عالَمِ پیر مررہاہے!‘‘
***
بس فراٹے بھرتی چلی جارہی تھی اور میں ابھی اِنھی سوچوں کے اُدھیڑ بُن میں تھا کہ لڑکے کا ہاتھ ایک بار پھر میری جیب پر پڑا۔ پہلے تو میں نے سوچاکہ اِس بد بخت کو زور سے ڈانٹوں۔ مگر پھر خیال آیا کہ اِس طرح تو بات بڑھ جائے گی۔ بات بڑھی تو عین ممکن ہے کہ ’’ وہ بات‘‘ دوسروں تک بھی پہنچ جائے۔ایسے’ پاکٹ مار‘ بس میں تنہا تو سفر نہیں کرتے۔ اِن کے سرپرست بھی ہوتے ہیں۔اگر پورے گینگ کو اندازہ ہوگیا کہ میری جیب میں اِتنی بڑی رقم ہے تو وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ سُنا ہے کہ بعض اوقات بس کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر بھی ایسے جرائم پیشہ افراد سے ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ میں یہ سوچ ہی رہاتھا کہ اِتنے میں لڑکے کا ہاتھ پھر میری جیب پر لگا۔ اب تو مُجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے بڑے ضبط و تحمل کے ساتھ اور شائستہ لہجہ میں لڑکے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’ میاں! کیا کررہے ہو؟‘‘
لڑکے نے چونک کر میری طرف دیکھا اور قدرے شرمیلے لہجہ میں بتایا:
’’ سندھ مُسلم سائنس کالج سے انٹرکررہاہوں۔‘‘
پہلے تو مجھے اِس چالباز لڑکے کی مکاری پر سخت غصہ آیا۔ میں نے چاہا کہ اُسے ایسی کڑی اور کرخت اُستادانہ نگاہوں سے گھور کر دیکھوں کہ اس کا رنگ فق ہوجائے۔ مگر جب میں نے اُس کی طرف دیکھا….. (اور ظاہر ہے کہ پہلی بار دیکھا)….. تو اُس کے چہرے پر فرشتوں کی سی معصومیت اور کسی اچھے خاندان کی شرافت پھیلی ہوئی تھی۔ اِس پس منظر میں جب میں نے اُس کے دیے ہوئے جواب پر غور کیا توخود میرے چہرے پر بھی مُسکراہٹ پھیل گئی۔شاید اُسے احساس ہی نہیں تھا کہ وہ کیا کررہاتھا۔میں نے اُس کے جواب پر مزید غور کیا تو حیران ہوکر پوچھا:
’’ ارے! تو کیا تُم کراچی سے آرہے ہو؟‘‘
’’ جی ہاں!‘‘
’’کہاں جارہے ہو؟‘‘
’’مظفرآباد‘‘
’’ کیوں؟‘‘
’’ میرے ایک کلاس فیلو کا پورا گھرانا زلزلے کی زد میں آکر شہید ہوگیا ہے۔ صرف اُس کی ایک ننھی مُنی سی بہن بچی ہے۔ہماری پوری کلاس نے اُس کے لیے کچھ رقم جمع کی ہے۔وہی اُس کو پہنچانے جارہاہوں۔‘‘
’’کتنی رقم ہے؟‘‘
’’پچاس ہزار روپئے۔‘‘
’’ارے باپ رے!‘‘ میرے مُنھ سے بے ساختہ نکلا، اور میں نے حیران ہوکر پوچھا:
’’پچاس ہزار روپئے؟‘‘
’’ جی ہاں! ہماری کلاس کے دونوں سیکشنوں کوملاکر کُل اِکیاون طلبہ ہیں۔ اپنے اُس ایک ساتھی کو چھوڑ کر ہم باقی پچاس بچے۔ ہم سب نے اپنے اپنے بڑوں کی مدد سے یہ رقم جمع کی ہے۔ ناظم صاحب نے ہمیں فی طالب علم ایک ہزار روپئے کا ہدف دیا تھا۔ ہمارے بھائی پر مصیبت پڑی ہے۔ ہم یہی کچھ کر سکتے تھے۔‘‘
لڑکا روہانسا ہوگیا تھا۔ میں نے سرزنش کے انداز میں کہا:
’’ میاں! اتنی خطیر رقم لیے تُم اکیلے پھر رہے ہو، اور اِس پر حماقت یہ کہ ایک اجنبی شخص کو بتا بھی رہے ہوکہ تمھارے پاس ایسی رقم ہے۔ مزید حماقت یہ کہ یہ بھی بتا رہے ہو کہ کُل کتنی رقم ہے۔ بُرا نہ ماننا۔ میں بھی ایک اسکول میں اُستاد ہوں۔ بحیثیت اُستاد یہ بات تمھارے بھلے اور تربیت کے لیے کہہ رہاہوں۔ ہزار طرح کے سانحے سفر میں گذرتے ہیں۔ اگر کوئی تمھاری سادہ لوحی سے فائدہ اُٹھا کر یہ رقم ہتھیا لے تو تُم دوستوں کو کیا مُنھ دِکھاؤگے؟‘‘
لڑکا یہ سُن کر مؤدّب ہوگیا اور کہنے لگا:
’’ آپ ٹھیک کہتے ہیں سر!آدمی آدمی میں فرق ہوتاہے۔مگر میں بھی کچھ کچھ مردم شناسی کر لیتاہوں۔پھر میں نے اِس آزمایش کے موقع پر اپنی قوم کو از سرِنو زندہ اور بیدار ہوتے دیکھاہے۔ میرا عزم، یقین، حوصلہ اور اپنی قوم پر اعتماد بڑھ گیاہے۔ کراچی سے یہاں تک کے سفر میں مَیں نے ایثار اور قُربانی کے ایسے ایسے مناظر دیکھے ہیں کہ مجھے یقین آگیا ہے کہ ہمارے بزرگ جو باتیں بیان کرتے ہیں وہ سو فیصد درست ہوں گی۔ سب سمجھ میں آگیا کہ یہ قوم قائدِ اعظم کی قیادت میں کس طرح متحد ہوگئی ہوگی ۔ کس طرح پاکستان کی خاطر اپنا تن مَن دھَن سب کچھ قربان کردیا ہوگا اور یہاں کے انصار نے پاکستان میں داخل ہونے والے لُٹے پِٹے مہاجر بھائیوں کے لیے کس طرح ایثار کیا ہوگااور اپنے اُن دُکھی بھائیوں کی راہوں میں کیسے کیسے پلکیں بچھا دی ہوں گی ۔‘‘
مجھے لڑکے کی یہ باتیں اُس کی عُمر سے بڑھی ہوئی محسوس ہوئیں۔ سچ پوچھیے تو میں حیرت کے پہاڑ تلے دب گیاتھا۔ میں نے پوچھا:
’’ آپ کا نام کیاہے؟‘‘
’’ساجد‘‘
’’ ساجد بیٹے! میں آپ کے خیالات کی قدر کرتا ہوں۔مگر اب زمانہ بہت بدل چکاہے۔ اب اِن تِلوں میں وہ تیل نہیں رہا۔ ابھی آپ کم عُمر ہیں، آپ کو اِس تلخ حقیقت کا تجربہ نہیں کہ خواب و خیال کی دُنیا اور حقیقت کی دُنیا میں کتنا بھیانک فرق ہوتا ہے۔ ‘‘
’’ سر! دیکھیے نا! حکیم الامت شاعرِ مشرق علامہ سر محمد اقبال نے ایک الگ اِسلامی ملک کا خواب ہی تو دیکھا تھا۔ مگر ہمارے قائدؒ نے اپنے عزم و ہمت اور مستقل مزاجی سے اُس خواب کو حقیقت میں تبدیل کرکے دکھادیا۔ میں ریڈیو اور ٹی وی سے سُنائی جانے والی قائد ؒ کی اُس آواز اور اُس یقین بھرے لہجہ کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا، اور اُن کی اُس تقریر کو کبھی بھلانہیں سکتا جس میں بڑے اعتماد اور بہت پختگی کے ساتھ اُنھوں نے اُردو میں کہا تھا کہ’’ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتے‘‘۔ سر میں مانتا ہوں کہ ہماری قوم ایک بار پھر ’’گوروں کی غلامی‘‘ کا شکار ہوکر بہت سی خرابیوں میں پڑگئی ہے۔ لیکن سر! کم ازکم مجھے تو یقین ہے کہ اِ ن شا ء اﷲاِسی قوم کے بچوں میں سے ایک نہ ایک محمد علی جناح ایک بار پھر اُٹھے گا، جو ایک بار پھر اِس قوم کوگوروں کی غلامی سے آزادی دِلائے گا۔ اِن شاء اﷲ!‘‘
’’گوروں کی غلامی؟ میاں یہ کیا کہہ رہے ہو؟ الحمدُ ﷲ ہم ایک آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں اور تمھیں اِس بات پر اﷲ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ورنہ جو قومیں واقعی غلام ہیں ،ذرا اُن کے حال پر نظر ڈالو تو لگ پتا جائے گا۔‘‘
’’ جی سر! ہم کہنے کو تو ایک آزادا ور خود مختار ملک کے باشندے ہیں ۔ لیکن سر! :ہم غریب ملکوں کی بے وقار آزادی
تاج سر پہ رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں
ہمارے قائدؒ نے تو کہا تھا کہ مسلمان ہر لحاظ سے ایک الگ قوم ہیں۔ سر! ہمارا مذہب ، ہماری ثقافت، ہماری تعلیم ، ہماری سیاست، ہمارا رہن سہن ، ہماری معیشت اور ہمارے حلال و حرام سب کچھ تو دوسروں سے الگ ، منفرد اور ممتاز ہیں۔ لیکن سر! ہم مذہبی ، ثقافتی ، تعلیمی، سیاسی، سماجی، معاشی حتیٰ کہ دینی طور پر بھی غیروں کے غلام بنا دیے گئے ہیں۔ ہمارے نصاب سے اسلامیات اور قرآنی آیات خارج کر دی جاتی ہیں، جہاد جیسے اسلامی فرائض اور پردہ اور داڑھی جیسے اسلامی شعائر کا کھلم کھلا مذاق اُڑایا جاتاہے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کے بنائے ہوئے ملک کے یومِ آزادی پر قوم کو حکمرانوں کا ڈانس دکھایا جاتا ہے۔ سر! پہلے ہم صرف جسمانی طور پر غلام تھے، مگر اب ذہنی اور نفسیاتی طور پر بھی غلام بنا دیے گئے ہیں۔ یہ غلامی کی بد ترین شکل ہے۔سر! ہمیں ایک بار پھر ایک تحریکِ آزادی کی ضرورت ہے۔ قوم ایک اور قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کی منتظر ہے۔‘‘
’’یا خُدا ! یہ لڑکا ہے یا کوئی بلا ہے!‘‘
میں نے دِل میں سوچا اور اُس سے کہا:
’’ میاں! تمھارا یہ مردِ غیب، یہ قائدِ اعظم ثانی آئے گا کہاں سے؟‘‘
’’اِسی قوم سے سر! اِسی قوم سے۔ اِس قوم نے ثابت کر دیا ہے سر، کہ یہ ایک زندہ و بیدار قوم ہے۔ سر! میرا تعلق صوبۂ سندھ سے ہے۔ وادئ کشمیر کے اُس نوجوان، اپنے اُس کلاس فیلو سے ہماری کلاس کا آخر کیا رشتہ ہے سر؟ ہماری پوری کلاس کا،جو اُس کے ماں باپ اور بھائی بہنوں کے جاں بحق ہوجانے پر آنسوؤں سے روئی ہے۔ اِسلام اور پاکستان کا رشتہ ہے سر! اِمداد تو دوسرے ملکوں اور دوسری قوموں نے بھی کی ہے، مگر ہماری قوم کے لوگ اپنے بھائیوں کی مصیبت پر تڑپ تڑپ کر اور دھاڑیں مار مار کر روئے ہیں سر۔ یہ لوگ کوئی غیر نہیں، یہ ہمارے سگے بھائی ، ہماری سگی بہنیں ہیں سر! میں اپنے اُن بھائی بہنوں اور بزرگوں کے نام اپنے قائد کا یہ پیغام لے کر جارہا ہوں کہ:
’’ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتے‘‘۔
سچ پوچھیے تو اب خود میری آنکھوں میں بھی آنسو آگئے تھے۔ میں نے اپنی نمناک نگاہیں چھپانے کے لیے بس کی کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا۔ مری آگیا تھا۔ اونچے اونچے سہ منزلہ مکانات، لکڑی کے نقش و نگار والی اشیا، بازاروں کی بھری دُکانوں میں سجی ہوئی دست کاری کی چیزیں، جگہ جگہ بلندیاں اور ڈھلان،پہاڑ اور کھائیاں،برفانی ٹوپی اوڑھے ہوئے اونچی سے اونچی پہاڑی چوٹیاں اور دھُند میں چھپی ہوئی گہرائیاں۔ مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ یہ سارے مناظر ہماری قومی زندگی کے علامتی مناظر ہیں۔ پھر یکایک مجھے خیال آیا کہ میں تو صرف آخرِ ہفتہ (Week End) کا خیال کرکے گھر سے چل پڑا تھا۔ مگر آج محض ہفتہ اور کل صرف اتوار ہی نہیں ہے۔ آج ۲۴ دسمبر کی شب اور کل ۲۵ دسمبر کی صُبح بھی ہے۔ قائدِ اعظم ؒ کا یومِ پیدائش۔ میں نے کَن انکھیوں سے اُس لڑکے کی طرف دیکھا۔ اب وہ کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ اُس کے چہرے پر عزم و اعتماد کے ساتھ ساتھ وہی معصومیت اور وہی شرافت رقصاں تھی۔ مجھے اقبالؔ کا ایک مصرع یاد آگیا:
’’جہانِ نو ہورہاہے پیدا، وہ عالَمِ پیر مررہاہے!‘‘