مرادیں غریبوں کی۔۔۔
محمد فیصل علی
۔۔۔۔۔
صبح کے دس بج رہے تھے۔ارشد ایک درخواست اٹھائے محکمہ تعلیم کے دفاتر کے سامنے موجود تھا۔اس وقت وہاں خوب گہما گہمی تھی۔ہر طرف لوگ فائلیں اٹھائے آ اور جا رہے تھے۔کوئی موبائل پہ بات کرتا نظر آرہا تھا تو کوئی کاغذ قلم تھامے اپنے کاغذات میں کوائف کا اندراج کر رہا تھا۔”بڑے صاحب“(چیف ایگزیکٹو آفیسر) کے دفتر کے باہر لوگوں کی قطار نظر آرہی تھی۔ارشد سیدھا اسی طرف بڑھ گیا اور قطار میں شامل ہو گیا۔
اب وہ کان لگائے بڑے صاحب کے بارے میں سن گن لے رہا تھاکہ وہ دفتر میں موجود بھی ہیں یا نہیں۔بڑے صاحب کے دفتر کے باہر کھڑا قاصد بتارہا تھا کہ صاحب ایک اہم ملاقات میں مصروف ہیں اور کچھ دیر بعد وہ سائلوں کی درخواستیں دیکھیں گے۔ارشد یہ سنتے ہی قطار سے ہٹ گیا،اب وہ ایک طرف دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا۔انتظار طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا۔بڑے صاحب کے دفتر پہ کئی سائلوں کی نظریں تھیں کہ کب دروازہ کھلے اور وہ اپنی عرضیاں پیش کریں۔ایک گھنٹے بعد دفتر کا دروازہ کھلا اور بڑے صاحب نمودار ہوئے،انھوں نے موبائل کان سے لگایا ہوا تھا،اور بڑے خوش گوار موڈ میں گپ شپ کرتے نظر آرہے تھے۔باہر نکل کر انھوں نے قاصدکو کچھ کہا اور پھر خراماں خراماں چلتے ہوئے اپنی کار کی طرف بڑھ گئے۔ڈرائیور نے جلدی سے دروازہ کھول کر صاحب کو بٹھایااور پھرمستعدی سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے صاحب سے منزل کے بارے میں دریافت کیا،صاحب نے لب ہلائے اور اگلے ہی لمحے کار دھواں اڑاتی ہوا ہو گئی۔سائلوں کی نظریں کار کو دیکھتی رہ گئیں۔ارشد کے چہرے پر بھی مایوسی کے بادل چھا گئے۔آج بھی کرائے کی مد میں دو سو روپے چٹ ہوگئے تھے اور کام نہیں ہو سکاتھا۔وہ افسوس کے عالم میں ہاتھ ملتا رہ گیا۔
٭٭٭
ارشد ایک تعلیمی ادارے میں درجہ چہارم کا ملازم تھا۔اس کی ملازمت بطور مالی ہوئی تھی۔وہ اپنے فرائض ادا کرنے میں جی جان لگاتا تھا اور اس کا منہ بولتا ثبوت اس ادارے کا سبزہ زار، پھول اور پودے تھے۔ہرطرف پھولوں سے لدے پودے بہار دکھا رہے تھے اور چاروں طرف سبز گھاس زمرد کے فرش کی طرح بچھی ہوئی تھی۔ارشد سارا دن پودوں کی دیکھ بھال اور کانٹ چھانٹ میں گزارتا تھا۔ اسے ملازمت کرتے ہوئے بیس سال گزر چکے تھے۔
پچھلے کچھ دنوں سے وہ پریشان دکھائی دے رہا تھا۔دراصل اسے بیٹی کی شادی کے لیے کچھ روپوں کی ضرورت تھی۔اس نے اس بارے میں بہت سوچا،دوستوں سے مشورہ کیا،تب اسے یہ راہ سجھائی گئی کہ وہ محکمہ مالیات میں درخواست دے کر اپنا جی پی فنڈ ایڈوانس میں نکلوا لے تاکہ اس کی ضروریات پوری ہوں۔اس نے ادارے کے پرنسپل سے بات کی،انہوں نے اجازت دے دی اور کلرک کو درخواست تیار کرنے کی ہدایت کی۔ کلرک نے اسے درخواست لکھ کر دی اور کہا:
”ارشد میاں،یہ لو درخواست، اس پہ سی ای او صاحب کے دستخط کراؤ اور پھر اسے محکمہ مالیات میں جمع کرادو،تمہارا جی پی فنڈ مل جائے گا،انہی مشکل وقتوں کے لیے تو جمع کیا تھا یہ روپیہ،لہٰذا اسے نکلواؤ اور کام چلاؤ۔“
ارشد نے اس کا شکریہ ادا کیا اور درخواست سنبھال کر رکھ لی۔اب وہ دودن سے لمبا سفر کر کے،بسوں پہ دھکے کھاتے ہوئے دفتر جاتا تھا مگر بڑے صاحب مل ہی نہیں رہے تھے۔آج بھی وہ مایوس ہو کر،کف افسوس ملتا گھر واپس آرہا تھا۔
٭٭٭
”ہاں بھئی،اب تم جاؤ،زیادہ وقت نہیں ہے صاحب کے پاس۔“
قاصدنے کہا تو ارشد تیزی سے سر ہلاتا ہوا شیشے کا دروازہ دھکیلنے لگا۔مگر دروازہ کھل ہی نہیں رہا تھا۔
”اوہو باہر کھینچو،کیا لکھا ہے اوپر،اندھے ہو؟؟“قاصد نے اسے جھاڑ پلاتے ہوئے کہا۔
”جج جی۔۔۔۔“ارشد گڑبڑا گیا اور دروازہ اپنی طرف کھینچ کر اندر داخل ہوگیا۔
ایک بڑی سی میز کے پیچھے اونچی کرسی پر صاحب براجمان تھا۔ ارشد تھا تو اس کا ہم عمر لیکن اس وقت وہ بڑا صاحب تھا اور ارشد ایک مالی۔۔۔
”السلام علیکم صاحب جی!“اس نے مسکراتے ہوئے قدرے جھک کر سلام کیا۔
”ہاں بولو کیا مسئلہ ہے؟؟“صاحب نے سلام کو نظر انداز کرتے ہوئے چبھتے لہجے میں کہا۔
”جج جی۔۔۔یہ ہے۔۔۔مسئلہ۔۔“ارشد اس کے رویے پر گھبرا کر بولا اور درخواست سامنے کردی۔
اس نے درخواست کو قہر آلود نظروں سے گھورا اور پڑھے بغیر بولا:
”کیا ہے یہ؟؟فائل میں لگاتے ہیں درخواست،کسی نے نہیں سکھایا۔۔۔؟؟“
”جی جی۔۔۔لگا لیتا ہوں،معافی چاہتا ہوں۔۔“ارشد نے درخواست واپس لینے کے لیے ہاتھ بڑھائے۔۔
”نہیں۔۔چھوڑو۔۔۔مسئلہ بتاؤ۔۔وقت نہیں ہے میرے پاس۔۔۔“بڑے صاحب نے درشت لہجے میں کہا۔
”جی جی صاحب،وہ اصل میں،میں ایک مالی ہوں۔۔۔آپ کے ایک ماتحت ادارے میں مالی۔۔۔مجھے جی پی فنڈ ایڈوانس چاہیے۔۔اس کے لیے یہ۔۔۔“ارشد نے اٹک اٹک کر بے ترتیب انداز میں مدعا بیان کیا۔
”ہوں۔۔۔اپنے پرنسپل کے دستخط کرا لیے ہیں۔۔۔؟؟“بڑے صاحب نے اب کی بار درخواست پہ اچٹتی نظر ڈالی تھی۔
”جی جی صاحب۔۔۔“ارشد نے پرامید لہجے میں کہا۔
”ٹھیک ہے،لیکن ابھی محکمہ مالیات کا بجٹ نہیں ہے،تم اگلے مہینے آنا۔۔“صاحب نے درخواست والا کاغذ واپس کرتے ہوئے کہا۔
”جی،مم مگر۔۔۔صاحب جی۔۔۔مجھے بب بہت ضرورت ہیں۔۔۔“ارشد ہکلایا۔
”جاؤ جاؤ اگلے ماہ دیکھیں گے۔“صاحب نے ہاتھ سے اشارے کرکے اسے دھتکارا۔
اب وہاں سے جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ارشد مایوسی کا بوجھ لادے دفتر سے باہر نکل آیا۔عین اسی وقت دفتر کے احاطے میں ایک بڑی سی گاڑی رکی۔فوراً ہی دروازے کھلے اور فاخرانہ لباس میں تین لوگ نمودار ہوئے۔ان کے آنے سے دفتر میں کھلبلی سی مچ گئی تھی۔ ارشد نے دیکھا کہ اس بڑی سی گاڑی کی نمبر پلیٹ کے ساتھ ”ایم این اے“کے حروف بھی جگمگا رہے تھے۔یعنی آنے والا قومی اسمبلی کا ممبر تھا یا پھر اس کا سیکرٹری۔ارشد نے دیکھا کہ قاصد جلدی جلدی بڑے صاحب کے دفتر میں گھسا تھا جیسے نوواردوں کی خبر دینا چاہتا ہو،اسی اثناء میں وہ تینوں بڑے صاحب کے کمرے تک پہنچ چکے تھے اور پھر وہ دروازہ کھینچ کر اندر داخل ہو گئے۔ارشد کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ایک منٹ بعد کمرے کا دروازہ کھلا اور سی ای او صاحب ایک فائل تھامے سراسیمہ انداز میں باہر نکلے اور انہوں نے چپڑاسی کو کہا:
”فوراہیڈ کلرک احسن کو بلواؤ۔“
”جی سر۔“قاصدبھاگ کر حکم کی تعمیل میں لگ گیا۔
سی ای او صاحب نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر ایک اور ملازم کو پکارا:
”او ناصر،ادھر آؤ بھاگ کے جوس لے آؤ۔دیکھ نہیں رہے معزز افراد آئے ہوئے ہیں۔“
”معزز افراد“ کے الفاظ سن کر ارشد کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔اسی دوران ہیڈ کلرک آن پہنچا تھا۔
”جی سر؟“اس نے حکم دریافت کیا۔
”احسن!! یہ فائل لو،تین لوگوں کے ایڈوانس جی پی فنڈ کے لیے پروپوزل بنانی ہے ابھی،اور آج ہی محکمہ مالیات سے منظور کروانی ہے۔ایم این اے صاحب کے سیکرٹری خود آئے ہوئے ہیں،جلدی کرو۔“
سی ای او صاحب نے تیز تیز بولتے ہوئے کہا تو ارشد دھک سے رہ گیا۔
ایک غریب کے جی پی فنڈ کے لیے بجٹ نہیں ہے لیکن ایم این اے کے سیکرٹری کی سفارش پر تین لوگوں کے لیے ایڈوانس جی پی فنڈ دستیاب ہے۔ وہ سوچنے لگا۔
ہیڈ کلرک”یس سر“ کہہ کر چلا گیا تھا۔ارشد سکتے کے عالم میں اپنی قسمت اور اس ظالمانہ نظام پر افسوس کررہا تھا۔
”سر یہ کدھر لگوائیں۔یہ آپ کے کہنے پرربیع الاول کے لیے بنوایا ہے۔“
ارشد ان الفاظ کو سن کر چونکا۔اس نے دیکھا دو آدمی ایک پینا فلیکس لیے سی ای او صاحب سے پوچھ رہے تھے۔
”اچھا کیا اکرم!!اشعار بھی میرے پسندیدہ ہیں،گڈ!!یہ میرے دفتر کے سامنے لگنا چاہیے۔۔۔بس ادھر لگادو اونچا کرکے۔۔“
سی ای او نے دیوار کی طرف اشارہ کیا اور وہ دونوں آدمی کام میں مصروف ہوگئے۔کچھ دیر بعد احسن فائلوں کاکام مکمل کر کے سی ای او صاحب کے دفتر میں داخل ہو رہا تھا۔ادھر دیوار پر ربیع الاول کے حوالے سے پینا فلیکس لگ چکا تھا جس پہ یہ اشعار جگمگا رہے تھے:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے
مرادیں غریبوں کی بر لانے والے
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
یہ کتنا بڑا المیہ تھا کہ اسی بینر کے سائے تلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انہی اخلاق پہ عمل پیرا ہونے کے بجائے انہیں پامال کیا جا رہا تھا۔ایک غریب ہمدردی سے محروم روتا ہوا گھر جارہا تھا جب کہ ایک سفارشی طاقت کی پوجا پاٹ کروا کر کامیاب لوٹ رہا تھا۔۔آنسو ارشد کی آنکھوں کو دھندلا چکے تھے اور بینر پہ لکھے اشعار اس کی نگاہوں سے غائب ہو چکے تھے۔
۔۔۔۔۔
معزز قارئین!!!یہ کہانی ایک مثال ہے۔ہم میں سے ہر ایک کے لیے اس میں سبق موجود ہے۔ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سیرت کے اس پہلو پہ بھی ضرور توجہ دینی چاہیے۔ہمیں ارد گرد کے افراد کا جائزہ لینا چاہیے اور جن افراد کی ہم مدد کر سکتے ہیں،ان کی مددکرنی چاہیے۔ کاش ہمارا مقتدر طبقہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے یہ اخلاق اپنا لے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غریبوں، مسکینوں،محتاجوں کی مدد فرمایا کرتے تھے۔یہ اسوہ حسنہ اپنا کر وہ اتنی دعائیں لے سکتے ہیں کہ ان کی دنیوی و اخروی زندگی سنور جائے۔