مُلمّع کی انگوٹھی
اسمٰعیل میرٹھی
چاندی کی انگوٹھی پر جو سونے کا چڑھا جھول
اوچھی تھی ، لگی بولنے اترا کے بڑا بول
اے دیکھنے والو ! تمہی انصاف سے کہنا
چاندی کی انگوٹھی بھی ہے کچھ گہنوں میں گہنا
چاندی کی انگوٹھی کے نہ ساتھ میں رہوں گی
وہ اور ہے میں اور ، یہ ذلت نہ سہوں گی
میں قوم کی اونچی ہوں ، بڑا میرا گھرانا
وہ ذات کی گھٹیا ہے ، نہیں اس کا ٹھکانا
میری سی کہاں چاشنی ، میرا سا کہاں رنگ
وہ مول میں اور تول میں ، میرے نہیں پاسنگ
میری سی چمک اس میں نہ میری سی دمک ہے
چاندی ہے کہ ہے رانگ مجھے اس میں بھی شک ہے
یہ سنتے ہی چاندی کی انگوٹھی بھی گئی جل
اللہ رے مُلمع کی انگوٹھی ، تیرے چھل بَل
سونے کے مُلمع پہ نہ اِترا میری پیاری
دو دن میں بھڑک اس کی اُتر جائے گی ساری
کچھ دیر حقیقت کو چھپایا بھی تو پھر کیا
جھوٹوں نے سچوں کو چڑایا بھی تو پھر کیا
مت بُھول کبھی اصل تُو اپنی ، اری احمق
جب تاؤ دیا جائے گا ، ہو جائے گا منہ فق
سچے کی تو عزت ہی بڑھے گی جو کریں جانچ
مشہور مثل ہے کہ نہیں سانچ کو کچھ آنچ
کھوٹے کو کھرا بن کے نکھرنا نہیں اچھا
چھوٹے کو بڑا بن کے ابھرنا نہیں اچھا