مجھے میرے تیمارداروں سے بچاﺅ
وقار محسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکثر اوقات انسان موذی سے موذی مرض اور مہلک سے مہلک حکیم یا ڈاکٹر کے حملوں سے تو بچ جاتا ہے لیکن تیمارداروں کی یلغار کی تاب نہ لا کر چل بستا ہے کچھ پیشہ ور تیماردار تو ایسے موقعے کی ٹوہ میں رہتے ہیں کہ خاندان میں کہیں کسی کی ناساز طبیعت کی افواہ بھی سن لیں تو عین ناشتہ یا کھانے کے وقت مع اہل و عیال موقعے پر پہنچ جائیں اور اپنے خطرناک مشوروں، آزمودہ ناکام نسخوں اور ٹوٹکوں سے مریض کو ہلکان کر ڈالیں۔
شاید ان دنوں ہمارے بھی ستارے گردش میں تھے۔ ہمارے جگری دوست رفیق جاگرانی اصرار کرنے لگے کہ ہم اپنا مکمل چیک اپ (طبی معائنہ) کرالیں۔ ہمارا پس و پیش دیکھ کر کہنے لگے۔
“میاں چالیس سال کی عمر کے بعد گھنٹی بج جاتی ہے، چیک اپ کراتے رہنا چاہیے، نامعلوم کون کون سے مہلک امراض جڑ پکڑ رہے ہوں اور کسی دن بھی۔۔۔۔۔۔۔” اس کے ساتھ ہی انہوں نے شرارتاً پرائیویٹ وارڈ میں قیام و طعام کی ایسی تصویر کھینچی کہ ہم نے حامی بھرلی اور پھر ایک سہانی شام ہسپتال میں داخل ہوگئے۔
رات تو خیر سے گزر گئی لیکن صبح آٹھ بجے جب ہم ناشتہ کی تیاری کررہے تھے، ہمارے خونخوا پھوپھا قدیر اپنی مٹکاسی توند سہلاتے نمودار ہوئے۔ ان کے پیچھے شٹل کاک برقعے میں ملفوف ان کی اہلیہ مع اپنے چار بچوں کے ساتھ تھیں۔ پھوپھا نے ہمارے سرہانے بیٹھ کر ہمارا ہاتھ اپنے آہنی ہاتھوں میں لے لیا اور انگوٹھے سے فرضی آنسو صاف کرتے ہوئے بولے۔
اماں حد کردی، ہسپتال میں داخل ہونے کی نوبت آگئی اور ہمیں خبر بھی نہیں، وہ تو تمہاری پھوپھی نے نسرین کو اتفاقاً فون کیا تو یہ المناک خبر ملی، یہ تو رات ہی آنے کے لیے ضد کررہی تھیں، میں نے بہت مشکل سے سمجھا کر روکا، اب صبح سے تمہارے لیے مونگ کی دال کی کھچڑی، دلیہ اور کریلے کا سوپ بنانے میں لگی ہوئی تھیں۔ ہمت کرو۔ اللہ چاہے تو تنکے میں جان ڈال دے۔
ہم ابھی ناشتہ کے اس مینو کو سن کر ابکائی روکنے کی کوشش کررہے تھے کہ پھوپھی برقع کی قید سے آزاد ہو کر ہمارے نزدیک آکر بیٹھ گئیں۔ ہمارے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے گلو گیر آواز میں بولیں۔ “اے ہے دیکھو تو بچہ ایک دن میں کیسا پیلا پڑ گیا جیسے کسی نے سارا خون نچوڑ لیا۔ یہ کمبخت مارا پیلیے کا مرض ہے بھی بڑا خطرناک۔ پچھلے ہفتے ہمارے گلی میں مرزا چھکن اسی موذی مرض میں۔”
“اوہو بیگم، تم بھی حد کرتی ہو۔ مرزا تو گردے فیل ہونے کی وجہ سے اللہ کو پیارے ہوئے تھے، مجھے تو ہیضے کی علامت لگ رہی ہیں۔”
پھوپھا نے سرگوشی کی اور پھر ہمارے اوپر مشفقانہ نظریں ڈالتے ہوئے کہنے لگے، “اسی دن کے لیے ہم کہتے تھے کہ اپنا مکان بنوالو۔ بیوی بچوں کے لیے سر چھپانے کی جگہ تو ہو اگر اللہ نہ کرے۔”
اسی دوران ویٹر ناشتہ کی ٹرے میز پر رکھ گیا۔ پھوپھا نے ایک اچکتی ہوئی نظر آملیٹ اور مکھن لگے ٹوسٹوں پر ڈالی اور ہمیں ڈپٹ کر بولے۔
“اماں یہ ہسپتال والے ڈاکٹر ہیں یا قصائی، بھلا اس موذی مرض میں یہ بدپرہیزی۔” پھوپھی سے مخاطب ہو کر، “ارے بھئی نکالو وہ مونگ کی دال کی کھچڑی اور کریلے کا سوپ”، اس دوران پھوپھا کے چاروں نور نظر واکنگ چیئر کو چھکڑا بنانے کی مشق چھوڑ کر ناشتہ کی ٹرے پر ٹوٹ پڑے۔
ابھی ہم پھوپھا کے لگائے ہوئے زخموں کو سہلا رہے تھے کہ ہماری بیگم کے خالو جو پچاسی کے پیٹے میں تھے، لڑکھڑاتے ہوئے، ہانپتے کانپتے وارد ہوئے۔
پھوپھا نے ان کو سہارا دے کر کرسی پر بٹھایا۔ جب خالو کی سانس کچھ درست ہوئی تو ہماری طرف متوجہ ہوئے۔
“میاں بس تمہاری محبت میں کھنچا چلا آیا ہوں۔ ویسے تو زندگی حرام ہے۔ رات بھر کروٹیں بدلتا ہوں۔ تم نے بھی کیسا بیہودہ ہسپتال چنا ہے، بھلا بتاﺅ گیٹ پر دیکھتے ہی دو پہلوانوں نے ہمیں دبوچ لیا اور زبردستی اسٹریچر پر ڈالنے لگے۔”
اس کے بعد ہماری طرف قابل رحم نظر ڈالتے ہوئے پھوپھا سے کھسر پھسر کرنے لگے۔
“میاں کیا کہویں ہیں یہ ڈاکٹر۔ ہے کچھ امید۔”
پھوپھا: “چچا میاں بس دعا کریں۔ مجھے تو رہ رہ کر نسرین کا خیال آتا ہے۔ کیسے گزرے گی اس کی پہاڑ سی زندگی۔”
ہم نے ان بزرگان کے وسوسے سن کر محسوس کیا کہ واقعی ہم پر نقاہت طاری ہورہی ہے۔ اسی دوران ہمارے دوست مولوی انور علوی تسبیح گھماتے ہوئے داخل ہوئے کیوں کہ بیٹھنے کے لیے جگہ نہ تھی ہم اخلاقاً پلنگ کے نزدیک اسٹول پر ٹک گئے، علوی ہمارے پلنگ پر نیم دراز ہوتے ہوئے بولے۔
“اوہو، چہرے پر ایک دن میں اتنی سوجن، بلاوجہ ڈاکٹروں کے چکروں میں پڑے ہو۔ حاجی اللہ بخش کی خاک شفا کی صرف دو چٹکیاں کافی تھیں۔” زیر لب کچھ بدبداتے رہے، پھر پھونک کے ساتھ پان کی پیک کی پھوار سے ہمارے چہرے کو گلنار کرتے ہوئے بولے۔
یار، ریموٹ کدھر ہے، بڑے کانٹے کا میچ ہورہا ہے، آفریدی نے چھکوں کی بارش کی ہوئی ہے۔” کیوں کہ میچ ختم ہوچکا تھا۔ وہ ادھر ادھر دوسرے چینل کھنگالتے ہوئے ہماری طرف متوجہ ہوئے۔
ہمارے نزدیک آکر کہنے لگے۔
“یار دیکھ، سارے بینک اکاﺅنٹ جوائنٹ رکھنا بھابی کے دستخط کے ساتھ۔ بعد میں ورثاء رلتے پھریں گے۔” ہمارے تکیہ کے نیچے سے جھانکتے جاسوسی ناول پر نظر پڑتے ہی پھنکارے۔
“اماں حد کردی۔ ایسے نازک وقت میں اس قسم کی کتابیں پڑھ رہے ہو،سونے سے پہلے سورة یسین کا ورد رکھو۔ اللہ نے توبہ کا دروازہ آخری سانس تک کھلا رکھا ہے۔”
ابھی ہم موجودہ تیمارداروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے کہ بالکنی میں ہمارے پڑوسی حاجی امام دین کی کرخت آواز سنائی دی، جو کسی سے ہمارے کمرہ کا نمبر پوچھ رہے تھے۔ ہم نے محسوس کیا کہ پورا کمرہ گھوم رہا ہے اور ہم کسی گہری کھائی میں گرتے جارہے ہیں۔ چاروں طرف عرق گلاب اور کافور کی خوشبو پھوٹ رہی ہے۔ کمرہ کے پھولدار پردوں کی جگہ سفید کورے لٹھے کے تھان لٹکے ہوئے ہیں، جب ہماری آنکھ کھلی تو ہم نے خود کو ایمرجنسی وارڈ میں لیٹا ہوا پایا۔