محب کا کچن گارڈن
ناہید جعفر
۔۔۔۔۔۔۔
جب کسی پودے پر سبزی لگتی ہے یا کوئی پھول کھلتا ہے تو میری روح بھی کھل اٹھتی ہے!
ایک دوست نے اسے کوفت اور پریشانی سے نجات کا صحیح راستہ بتا دیا تھا
”محب بیٹا! ذرا سبزی والے سے پودینے کی گڈی تو لے آؤ….“
امی جان کی آواز محب کے کانوں سے ٹکرائی تو اس کے چہرے پر بارہ بج گئے ۔
” امی! اتنی دھوپ میں اتنی دور سے پودینہ کیسے لاؤں؟ کیا بہت ہی ضروری ہے اس وقت پودینہ؟…. شام کو نہ لادوں!“
” بیٹا! دوپہر میںدال چاول کے ساتھ جب تک پودینے اور کیری کی چٹنی نہ ہو تو مزہ نہیں آتا۔“
”لیکن پرسوں آپ نے رات کے نو بجے مجھے ہرا دھنیا لینے بھیجا تھا۔“
”بحث مت کرو بیٹا!اُس دن سالن بنانے میں دیر ہوگئی تھی۔ “
” آپ باقی سبزیوں کے ساتھ ہرا دھنیا پودینہ بھی منڈی سے اکٹھا ہی کیوں نہیں منگوالیتیں؟ “وہ بحث کیے جا رہا تھا۔
” ارے بچے! ہرا دھنیے، پودینے ا ور سلاد کے پتے بہت نازک ہوتے ہیں،وہ ایک دو دن سے زیادہ نہیں چلتے، اس لیے مجبوری ہے، سو ابھی تو تمھیں جانا ہی پڑے گا۔“
امی ہار ماننے پر آمادہ نہیں تھیں۔چار و ناچار محب کو ایک بجے کی کڑی دھوپ میں پودینے کی خاطر جانا ہی پڑا،لیکن گھر لوٹتے ہی اس کی تکلیف خوشی میں بدل گئی ۔اس کا دوست عمر ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا۔دونوں نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا ۔
عمر بولا :”اتنی دیر لگادی! میں کتنی دیر سے تمھاری راہ دیکھ رہا ہوں۔“
محب بے چارگی سے بولا:”یار کیا کروں، امی کا حکم تھا پودینہ لانے کا اور دکان ہمارے گھر سے خاصی دور ہے ،اس لیے دیر ہو گئی…. کاش سبزی کی ایک دکان ہمارے گھر کے ساتھ ہو تی اور جب کبھی وقت بے وقت امی ہرا دھنیا، پودینہ، سبز مرچیں لیموں، کڑی پتہ وغیرہ منگواتیں تو فٹ سے لادیتا۔“
” چھوٹی موٹی سبزیوں کی ایسی دکان تو تمھارے گھر میں ہی کھل سکتی ہے، جیسی میرے گھر میں ہے۔ “عمر مسکرا کر بولا۔
”کیا مطلب؟….میں نے تو آج تک تمھاری دکان نہیں دیکھی؟“
”تو کل آجاﺅ ۔میں دکھادوں گا۔“
” کل تک کون صبر کرے گا۔میں آج شام کوہی آجاﺅں گا۔“
شام کو وہ سائیکل پر عمر کے گھر جا پہنچا۔ راستے بھروہ سوچتا رہا تھا کہ عمر کا گھر زیادہ بڑا تو ہے نہیں ، نہ جانے دکان کہاں کھول رکھی ہوگی۔گھنٹی کی آوار پر عمر نے گیٹ کھولا اوراسے اپنے گھر کے پیچھے والے صحن میں لے گیااور بولا:” دیکھو! یہ رہی میری دکان….“
محب نے دیکھا ،صحن کا ایک چھوٹا سا حصہ کچی زمین پر مشتمل تھا۔چھوٹی چھوٹی کیاریاں تھیں،جن میں ترتیب سے سبزیاں لگی ہوئی تھیں۔ہرا دھنیا، پودینہ، ہری مرچیں تھیں۔ ایک طرف کڑی پتے کا پودا تھا تو دوسری طرف لیموں کا۔ دیوار پر توری کی بیل چڑھی ہوئی تھی جس میں بہت سی توریاں لٹک رہی تھیں۔
محب مبہوت سا اس منظر میں کھویا ہوا تھا۔ عمر کہنے لگا:
” مجھے بھی وقت بے وقت یہ چھوٹی موٹی سبزیاں لینے بازار دوڑ لگانا پڑتی تھی۔کبھی آپی کو شکنجبین بنانے کے لیے پودینہ چاہیے ہوتا تو کبھی بھیا کو قہوے کے لیے لیموں اورکبھی امی کو کڑی پتہ اور سلاد منگوانا ہوتا۔ مجھے باغبانی کا بہت شوق ہے،سوچا یہ سب چیزیں گھر میں لگالی جائیں تو ہر وقت بازار بھاگنے سے جان چھوٹ جائے۔ یوں اس کچی جگہ کو میں نے کچن گارڈن کی شکل دے دی۔اب گھر میں یہ چھوٹی موٹی سبزیاں موجود رہتی ہیںاور ہمیں بہت سے دوسرے فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں۔“
محب نے دلچسپی سے پوچھا: ”مثلاً کیا؟“
”شاید تمھیں معلوم نہ ہو کہ بازار میں موجود سبزیاں کیمیکل کھاد والی ہوتی ہیں، پھر اُن پر کیڑے مار اسپرے بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اکثر گندے پانی سے اُن کی آبیاری کی جاتی ہے۔ ان سب باتوں کی وجہ سے یہ بے حد مضر صحت ہوجاتی ہیں۔ گھر میںاگائی گئی سبزیاں بازاری سبزیوں کی نسبت بہت زیادہ صحت بخش اور ذائقے دار ہوتی ہیں۔ اِن سبزیوں سے ہمیں پیسوں کی بھی بہت بچت ہوجاتی ہے۔ یہی دیکھ لو آج کل توریاں ڈیڑھ سو روپے کلو بک رہی ہیں اور اس بیل سے ہم کئی بار توریاں توڑ کر پکا چکے ہیں۔ سلاد کے پتوں کی گڈی پچاس روپے کی ملتی ہے۔ وہ بھی کیمیکل اسپرے والی جسے کھا کر امی کے تو معدے میں درد ہوجاتا تھا۔ اب ہر روز تازہ پتے کیاری سے توڑ کر سلاد ڈالتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ کیاریوں اور سبزیوں کی دیکھ بھال میں میرا وقت بھی اچھا گزرجاتا ہے، جب کسی پودے پر سبزی لگتی ہے یا کوئی پھول کھلتا ہے تو میری روح بھی کھل اٹھتی ہے ۔“
محب نے رشک بھری نگاہوں سے اُس کے چھوٹے سے باغیچے کو دیکھا اور بولا: ” مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے گھر میں ایسی کچی جگہ نہیں ہے۔“
”اِن چھوٹے چھوٹے پودوں کے لیے بہت بڑے لان کی ضرورت نہیں ،یہ تو چھوٹی سی کیاری میں بھی اگ جاتی ہیں۔ تمھارے گھر کے صحن میں کیاریاں تو بنی ہوئی ہیں اور گھر کے باہردیوار کے ساتھ ساتھسبزے کے لیے بھی ایک کچی جگہ چھوڑی ہوئی ہے۔ بس اتنی جگہ کافی ہے اِن کے لیے۔“
محب نے دوسرا سوال داغا: ” لیکن اس کام میں خرچا تو بہت آتا ہوگا؟“
عمر ہنس کر بولا:” ارے بالکل نہیں، بیجوں کا پیکٹ صرف بیس روپے کا اور بہت ساری پنیریاں سو روپے میں مل جاتی ہیں۔“
محب پر جوش لہجے میں مکا لہرا کر بولا: ”بس پھر تو میں یہ کام ضرور کروں گا، لیکن عمر! مجھے تمھاری مدد کی ضرورت ہوگی۔“
عمر نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کہا۔” کیوں نہیںمیں حاضر ہوں،یہ تو ثواب کا کام ہے۔“
محب نے گھر جا کر سب کے سامنے یہ خیال پیش کیا تو سب نے اس کی زبردست تائید کی۔ امی جان نے فوراً کچھ پیسے نکال کر محب کو دیے۔ آپی اور بھائی نے ہر طرح کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ یوں اگلے دن سے ہی اس منصوبے پر کام شروع ہو گیا۔
گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے فرصت بھی تھی۔ عمر اور محب نے صحن میں بنی کیاریوں اور باہر والی کچی زمین میں لگے بے کار جھاڑ جھنکار نما پودوں کو اکھیڑ کر گوڈی کر کے صاف کر دیا ، پھر محلے کے مالی بابا سے پوچھا کہ موسم کون سی سبزیاں لگانے کے لیے موزوں ہے۔
اُن کے مشورے سے قریبی نرسری سے بیج اور پنیریاں لاکر مالی بابا کو دیے گئے تو انھوں نے مناسب مناسب فاصلے سے پودے لگادیے۔ اسٹور میں دو تین پلاسٹک کی بڑی بڑی بالٹیاں جو نیچے سے کریک ہونے کی وجہ سے بے کارپڑی تھیں۔ اُن میں مٹی بھر کر لیموں کے پودے لگادیے گئے۔ دونوں لڑکوں نے اُن پرسرخ رنگ پھیر کر ترتیب سے دھوپ والی جگہ پر رکھ دیا۔
اب تینوں بہن بھائی صبح شام باری باری پودوں میں پانی ڈالا کرتے۔ محب گوڈی کرتا اور فالتو جڑی بوٹیاں نکالتا رہتا۔ محب کی محنت رنگ لائی اور چند مہینوں میں پودے لہلہانے لگے اور اُن پر سبزیاں لگنی شروع ہوگئیں۔
ہر بار سردیوں کے آغاز پر گرمیوں والے پودے نکال کر مالی بابا سردی والی سبزی مثلاً سرخ مولی، سفید مولی، پالک میتھی، سلاد کے پتے، دھنیا وغیرہ لگا دیتے ہیںاور گرمیاں شروع ہونے پر پرانے پودے اکھیڑ کر بینگن، پودینہ، سبز مرچیں کھیرے، ٹماٹر، لوکی اور توری کی بیلیں چڑھادیتے ہیں۔ کڑی پتہ کا پودا تو سدا بہار تھا جس کے پتے وہ لوگ اپنے محلے داروں اور خاندان والوں کو بھی تقسیم کرتے ہیں۔
اب سب گھر والوں کے مزے ہی مزے ہیں۔ روزانہ گھر کے تازہ خوشبودار پودینے اور لیموں کی شکنجبین بنائی جاتی ہے جو بازار سے 150 روپے کا گلاس ملتا ہے اور محب کو بے حد پسند ہے۔ تازہ تازہ مولی، کھیرا، سلاد کے پتے توڑ کر سلاد بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو بھی سبزی گھر سے توڑ کر پکائی جائے وہ اتنی مزے دار پکتی ہے کہ سب انگلیاں چاٹتے رہ جاتے ہیں۔
جو پیسے روزانہ چھوٹی موٹی سبزیاں منگوانے پر خرچ ہوتے تھے، وہ اب امی انعام کے طورپر محب کو دے دیا کرتی ہیں اور سونے پہ سہاگا یہ کہ محب کا یہ آئیڈیا سارے محلے والوں کو اتنا پسند آیا کہ اب تقریباً ہر گھر میں ایسی سبزیاں جھوم جھوم کر اپنی بہار دکھا رہی ہیں۔
تودوستو! آپ کب عمل کر رہے اس انوکھے آئیڈیے پر؟
٭٭٭