۵ ۔ محمّد ﷺ اور خدیجہؓ کی شادی
ڈاکٹر عبدالرؤف
۔۔۔۔۔۔۔۔
خدیجہؓ پہلے ہی سے آپ ﷺ کے حسنِ اخلاق اور سحرِآفریں شخصیت کی مدّاح تھیں ۔خوشگوار کاروباری تجربوں سے اُن کے اِبتدائی تاثّر کو ایک اور پہلو سے مزید تقویّت مِلی ۔ان سب باتوں کا مجموعی نتیجہ یہ مرتّب ہُواکہ وُہ مستقل طور پر آپ ﷺ کے سیرت وکردار کی گرویدہ ہو گئیں ۔آپ ﷺ سے اُن کی بڑھتی ہُوئی عقیدت محبت کے جذبوں میں پروان چڑھتی گئی ۔
پاکیزہ خاتون کے حالاتِ زِندگی
خدیجہ خویلد بن اسد کی چہیتی بیٹی تھیں ۔اُن کی پہلی شادی ایک نوجوان ابو ہالہ سے ہُوئی تھی ۔اُن کے ہاں دو بچے پیدا ہُوئے تھے ۔مگر کُچھ عرصہ بعد ابو ہالہ وفات پا گئے ۔اس کے بعد اُنھوں نے مکّہ کے ایک متموّل تاجر عتیق بن عائد مخزومی سے شادی کرلی ۔ایک بچّی کی ولادت کے بعد عتیق بھی انتقال کر گئے ۔جب خدیجہ سے حضور ﷺ کے کاروباری مراسم کی راہ ہموار ہُوئی تو اُس وقت وہ ایک چالیس سالہ بیوہ تھیں ۔وُہ جسمانی اور اخلاقی اعتبار سے بے حد پُر کشش اور پُر وقار دکھائی دیتی تھیں ۔
خدیجہ صرف جسمانی طور پر ہی صحت مند نہ تھیں بلکہ اُن کے اخلاق و عادات کا شہرہ زبان زدِخلائق تھا۔چنانچہ اِسی غیر معمولی اخلاقی پاکیزگی کی وجہ سے اُنھیں مکّہ بھر میں ’’طاہرہ ‘‘یعنی ’’پاکیزہ خاتون‘‘کے معزّ ز لقب سے یاد کیا جاتا تھا ۔قبیلہ قریش کے کئی چوٹی کے سرداروں نے آپ سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔مگرآپ نے ان سب تجویزوں کو مستردکر دیا تھا۔اُنھیں حضور ﷺ کی عالی ظرفی اور حُسن اخلاق ہی متاثّر کر سکے تھے ۔خدیجہ کی طرح حضور ﷺ بھی اپنی غیر معمولی دیانت وامانت کی وجہ سے ’’امین‘‘ یعنی ’’قابلِ اعتماد ‘‘کے معزز لقب سے شہرت حاصِل کر چکے تھے ۔اِسی لیے ’’طاہرہ ‘‘نے ’’امین ‘‘ہی سے شادی کا تہیہ کر لیا۔
اُس زمانے کے مر وجّہ رسم ورواج کے مطابق عورتوں کو اپنے ازدواجی معاملات طے کرنے میں مکمّل خود مختاری حاصل تھی ۔خدیجہ نے جب حضور ﷺسے ازدواجی رشتے کا فیصلہ کر لیاتو اُنھوں نے اپنی ایک قریبی سہیلی نفیسہ سے دل کی بات کہہ ڈالی ۔اور ےُوں شادی کی بنیادیں استوار ہونا شُروع ہوئیں ۔
محمد ﷺ اور خدیجہؓ کا نکاح
نفیسہ بُہت سمجھدار خاتون تھیں ۔وُہ فوراًحضور ﷺ سے ملیں اور باتوں ہی باتوں میں آپ ﷺ سے پُوچھا :’’آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے ؟‘‘آپ ﷺ نے فرمایا :’’میرے پاس مطلوبہ مال و دولت نہیں ہے ۔‘‘نفیسہ بولی :’’اگر کوئی حسین و جمیل ،خوش اخلاق اور عالی خاندان خاتون سے آپ ﷺ کا رشتہ ہو جائے تو آپ اسے قبول کر لیں گے ؟‘‘آ پ ﷺ نے دریافت کیا :آخر ایسی خاتون ہے کون ؟‘‘جب نفیسہ نے خدیجہ کا نام لیا تو آپ ﷺ نے فوراًاپنی رضا مندی کا اظہار کر دیا ۔
بات پکّی ہو گئی تو تمام اِبتدائی مراحل بھی طے ہو تے چلے گئے ۔شادی کی حتمی تاریخ مقرر ہو گئی۔حضو ر ﷺ اپنے عزیز وا قرباء کو لے کر خدیجہ کے گھر تشریف لے گئے ۔دولہا میاں ﷺ کے ساتھیوں میں حضرت ابوطالب اور حضرت حمزہؓ ایسی بُلند شخصیات بھی شامل تھیں۔خدیجہؓ کے ہاں اُن کے رشتہ دار اور احبابِ خاندان پہلے ہی سے مدعو تھے ۔چنانچہ ایک عظیم نکاح کی پُر مسرّت تقریبات کا سلسلہ شُروع ہوا ۔جناب ابو طالب نے خُطبہ نکاح پڑھا ۔حضرت خدیجہؓ کاحق مہر بیس جوان اُونٹنیاں مقرّر ہُوا ۔عرب دستور کے مطابق شادی کے بعد حضور ﷺ نے خدیجہؓ کے ہاں سکونت اختیار کر لی ۔ازدواجی زندگی کے آغاز سے ذاتی غور و فکر اور عوامی فلاح واصلاح کے کاموں میں حضور ﷺ کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا ۔
مثالی محبت ،مثالی شادی
حضور ﷺ اور حضرت خدیجہؓ کی عمر میں پورے پندرہ سال کا فرق تھا ۔دونوں کے معاشی مدارج بھی قدرے مختلف تھے ۔مگر چونکہ سیرت و کردار،عادات واطوار اور عمومی رہن سہن میں دونوں بلند ترین مقام حاصل کر چکے تھے ،اُن میں روحانی اور اخلاقی ہم آہنگی کے پائیدار رشتے موجود تھے۔اسی لیے مالی منصب اور عمر کی تفاوت ان کے ازدواجی تعلّقات پر قطعی کوئی ناخوشگواراثر مرتب نہ کر سکی ۔بلکہ یہ شادی ہر اعتبار سے ایک مثالی رشتہ ثابت ہُوئی ۔وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ محمّدﷺ اور خدیجہؓ کے گھر میں مسرّتوں اور نیکیوں کا اضافہ ہوتا چلا گیا۔
حضرت خدیجہؓ اِس خوشگوار شادی کے بعد پچّیس برس زندہ رہیں ۔اُن کی ازدواجی زندگی کا لمحہ لمحہ مسرّت ،سکون ،طہارت اور توازن کی نعمتوں سے لبریز رہا۔اُن کے ہاں دو بیٹے اور چار بیٹیاں پیدا ہُوئیں ۔دونوں بیٹے ابتدائی عمر ہی میں اللہ کو پیارے ہُوئے ۔چار لڑکیوں کے نام یہ ہیں:فاطمہؓ ،زینبؓ ،رقیہؓ ،اور اُمِّ کلثومؓ ۔حضور ﷺ کو اولاد اور بیوی سے بے پناہ محبّت تھی۔
حضرت خدیجہؓ سے حضور ﷺ کی محبت لازوال تھی ۔خدیجہؓ کے انتقال کے بعد بھی وہ اُنھیں اُسی محبت اور احترام سے یاد کیا کرتے تھے ۔اُن کی وفات کے کافی عرصہ بعد ایک بار حضور ﷺ نے آ پ کو سپاسِ عقیدت پیش کرتے ہُوئے فرمایا :’’وہ ایک مثالی بیوی تھیں۔اُنھوں نے اُس وقت اسلام قبول کیا،جب سارا عرب کافر تھا ۔انُھوں نے اپنی ساری دولت مُجھ (یعنی میرے مشن)پر نچھاور کردی ۔‘‘
حضور ﷺ حضرت خدیجہؓ کے عزیزواقارب سے بھی ہمیشہ کمال حُسنِ سلوک سے پیش آتے تھے ۔چنانچہ اُن کی وفات کے بعد جب بھی اُن کے رشتہ دار یا سہیلیاں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ ﷺ اُن سے انتہائی احترام اور شفقت سے پیش آتے ۔