محمد بن قاسم
ہندوستان کو فتح کرنے والے پہلے نوجوان سپہ سالار۔ انہوں نے پہلی بار برعظیم پاک و ہند کے علاقہ سندھ پر قدم رکھا اور تھوڑے ہی عرصے میں اپنی جرات اوربہادری‘نرم دلی‘ حسن سلوک اور دانش و حکمت سے غیر مسلموں کو متاثر کیا۔ کئی ہندو ان کے اخلاقی اوصاف سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔
اس زمانے میں عرب تاجر خلیج فارس اور بحیرئہ عرب کے راستے اپنا مال تجارت دور دور تک جاتے تھے۔ ان تاجروں میں سے بہت سے ان ملکوں میں ہی آبادہوگئے تھے۔ جزیرہ سر اندیب میں کچھ عرب تاجروں کا انتقال ہوگیا۔ وہاں کا ہندو راجہ مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے خواہاں تھا چنانچہ اس نے عرب تاجروں کے لواحقین کو ایک جہاز کے ذرےعے واپس کیا اور ولید کے دربارمیں قیمتی تحائف بھی روانہ کےے۔
دیبل کے قریب سندھ کے حاکم راجہ داہر کے سپاہیوں نے جہاز کو لوٹ لیا اور عرب عورتوں بچوں کو گرفتار کرلیا ۔ گرفتار کی گئی عورتوں میں سے ایک عورت نے حجاج کوخط لکھ کر اطلاع دی کہ ہمیں گرفتار کیا گیا ہے۔ ہماری مدد کی جائے۔ حجاج نے راجہ سے کہا کہ ڈاکوﺅں کو سزا دیکر ہماری عورتوں کو رہا کیا جائے۔ تو راجہ داہر نے کہا کہ یہ کام بحری ڈاکوﺅں نے کیا ہے۔ میں اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتا۔
راجہ داھر کا یہ جواب سن کرحجاج سندھ پر حملہ کا منصوبہ بنایا اوردو سپہ سالاروں کو فوج دیکر روانہ کیا مگر وہ ناکام رہے۔ پھر حجاج نے اپنے بھتیجے محمدؒ بن قاسم کو چھ ہزار کی فوج کے ساتھ سندھ کی مہم پر بھیجا۔ محمدؒ بن قاسم نے دیبل پہنچ کر شہر کا محاصرہ کرلیا اپنی فوج کے آگے خندق کھود کر صف آرائی کی اورمنجنیق بھی نصف کردےے۔ جب معرکہ شروع ہوا تو مسلمانوں نے منجیق کے ذرےعے دیبل کا گنبد ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ جس سے مسلمانوں کے حوصلے بڑھگئے حاکم نے راہ فرار اختیار کی اور مسلمانوں نے شہر پر قبضہ کرلیا۔ محمد ؒ بن قاسم نے دیبل میں چارہزار مسلمانوں کو آباد کیا اور ایک جامع مسجد تعمیر کرائی۔ دیبل سے نیروق اورپھر یلغار پہ یلغار کرتا ہوا آگے بڑھا اور دریائے سندھ کو عبور کیا اور مزید شہروں کو زیر لگیں کیا۔ یہاں سے وہ ملتان پہنچا اور راجہ گور سنگھ کو شکست سے دو چار کیا۔ اس معلم میں بہترے کفار و مشرکین نے اسلام قبول کیا۔ اس پوری مہم کے دوران حجاج بن یوسف کا انتقال ہوا پھر ولید بن عبدالملک خلیفہ بنا اور وہ بھی دنیا سے رخصت ہوا۔ مسلمان بن عبدالملک جب خلیفہ بنا تو اس کے خوشامدیوں نے اسے محمد ؒبن قاسم کے بارے میں بھڑکایا اورملسمان نے محمدؒ بن قاسم کو فتوحات کا سلسلہ روکنے کا کہا اوراپنے دربار میں طلب کرلیا۔ محمد ؒ بن قاسم مسلمان کے سامنے پیشہوا تو اسے قید کرلیا گیا اور وہاں وہ تکالیف و مصائب کی سختیوں کو برداشت نہ کرسکا اور س طرح یہ عظیم سپہ سالار اس دنیاسے ہمیشہ کےلئے رخصت ہوگیا۔