skip to Main Content

باب پنجم: محاکمہ اور نتائج

باب پنجم
محاکمہ اور نتائج

سہ ماہی ادبیات اطفال کاموضوعاتی مطالعہ پچھلے صفحات میں پیش کیا گیا ہے۔اس جائزہ سے قبل ضروری تھا کہ ہم ادب اور ادب اطفال کی تفہیم کریں ۔اس لیے پہلے باب میں ادب اور ادب اطفال کو زیر بحث لایا گیا۔سب سے پہلا ادب کو سمجھنا ضروری تھا۔راقم نے متعدد کتب سے ادب کی تفہیم کے لیے مطالعہ کیا اور یہ تعریف متعین کی کہ:
’’ادب کسی دور کے اعلی خیالات کو الفاظ کی صورت میں لکھنے اورمحفوظ کرنے کانام ہے۔یہ خیالات جذبات اور احساسات کا امتزاج لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ادب معاشرے سے اخذ ہوتا ہے اور اس کا مقصد بھی معاشرے ہی کی تطہیر ہوتا ہے۔ادب انسان کو مسرت اور روحانی سکون فراہم کرتا ہے۔‘‘
ادب کی تفہیم کے بعدبچوں کے ادب کی تفہیم آسان ہوگئی،کیوں کہ ادب تو سب کے لیے تھا اور بچوں کا ادب صرف بچوں کے لیے ہے۔ بچوں کا ادب بچوں کے لیے تخلیق کیا جاتا ہے اسی لیے اس میں بچوں کی پسند ناپسند کا خیال رکھنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔راقم کو دورانِ تحقیق بچوں کے ادب کے لیے یہ خصوصیات ملیں:۔
٭ادب اطفال بچوں کو تفریح فراہم کرے۔
٭اس سے بچوں کی تربیت ہو۔
٭اس کی زبان بچوں کے لیے عام فہم ہو۔
٭اس میں بچوں کے موضوعات بیان کیے جائیں۔
٭اس کا اسلوب دل چسپ ہو۔
٭بچوں کے لیے لکھتے ہوئے ان کی ذہنی سطح اور نفسیات کو پیشِ نظر رکھا جائے۔
٭بچوں کا ادب بچوں کے تخیل کو مضبوط کرے اور ان کی ذہنی پرداخت کا سبب بنے۔
٭بچوں کو زمانے کی ضروریات کے مطابق معاشرے میں رہنا اور آگے بڑھنا سکھائے۔
بچہ خالی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے،اس خالی سلیٹ پہ جو کچھ لکھا جائے ،وہی نظر آئے گا۔یعنی اس کی تربیت جیسے کی جاتی ہے وہ ویسا بن جاتا ہے۔اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دیکھیں کہ ہمارے بچے کی تربیت کیسے ہورہی ہے ۔بچے کی تعلیم و تربیت کے بنیادی اور ابتدائی عناصر یہ ہیں:۔
٭اس کا گھر
٭اس کا اسکول
٭میڈیا
بچہ ان خانوں میں ہی رہتا ہے اور ان سے باہر نہیں نکل سکتا۔وہ یا تو گھر ہو گا یا پھراسکول تک جائے گا۔اس کے علاوہ وہ میڈیا سے منسلک ہو گا۔آج کل یہ میڈیا دو طرح کا ہے:
(۱)الیکٹرانک میڈیا
(۲)پرنٹ میڈیا
ان دونوں کی اہمیت وافادیت سے انکار ممکن نہیں۔بچوں کا ادب وہ پرنٹ میڈیا ہوتا ہے جو بچوں کے لیے ہو یا بچوں کے بارے میں بڑوں کو راہ نمائی فراہم کرتا ہو۔ الیکٹرانک میڈیا میں ہم بچوں کے کارٹون،بچوں کی کہانیاں ،بچوں کی نظمیں،معلوماتی ویڈیوز اور بچوں کے دیگر پروگرامز شمار کر سکتے ہیں۔
ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ہمارا بچہ جو کچھ سنے،پڑھے اور دیکھے گا وہی سب اس کے اندر جبلت کی صورت اختیار کرتا جائے گا۔ایک خالی گھر میں آپ جیسے سجاوٹ کریں،جیسا پینٹ کریں،چیزوں کی ترتیب جیسے رکھیں وہ اسی طرح ہی نظر آئے گا جیسے آپ کی منشا ہوگی اور اس کے ذمہ دار بھی آپ ہی ہوں گے۔آپ کا بچہ بھی بالکل ایسے ہی ہے۔آپ اس کی جسمانی صحت اور ظاہری وضع قطع اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں،اس طرح اس کی روحانی نشوونما کے ذمہ دار بھی آپ ہی ہیں۔اس لیے اپنے بچوں کے لیے اچھی خوراک ،اچھے لباس کے ساتھ ساتھ اچھے ماحول کا بھی بندوبست کریں۔
اس ماحول میں جہاں گھر اور اسکول ہیں وہیں میڈیا بھی ہے۔آج کل الیکٹرانک میڈیا عروج پر ہے لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بچے اس میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ انہیں کسی چیز کا ہوش ہی نہیں رہتا۔وہ اس میں اس قدر منہمک ہو جاتے ہیں کہ ان سے مطالعہ کا شوق ،پڑھنے کی عادت اور محنت کی طبیعت رفتہ رفتہ چھنتی چلی جاتی ہے۔اس لیے بچوں کے لیے بچوں کے لیے اچھا،معلوماتی،تفریحی،دل چسپ اور اخلاقی اقدار سے ادب نہایت ضروری ہے جو انہیں تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ تفریح بھی فراہم کرے اور ان کے اندر مطالعہ کا ذوق وشوق بھی پیدا کرے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق بچپن ہی کے دوران بچے کا 90فیصد دماغ تشکیل پاتا ہے۔ اسی عمر کے دوران بچے کی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ 5 سال کی عمر سے بچہ مختلف سوالات کرنے لگتا ہے، جس میں زیادہ سوالات اس کے اپنے وجود اور اطراف کی چیزوں کے بارے میں ہوتے ہیں۔ یہ عمر کیوں؟ اور کیسے؟ کی کھوج کرتی ہے۔ اس عمر میں بچہ اپنی زندگی کی تشکیل کی بنیادیں تیار کرتا ہے۔ لہذا ایک بچے کے لیے بچپن کی صحیح تربیت بہت ضروری ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے، بعد ازاں اس کے ماں باپ اور ماحول یا تو اسے مومن بناتے ہیں یا مجوسی و یہودی۔
اس حدیث سے اس عمر کی اہمیت اور اس عمر کے دوران تربیت کی ضرورت کا اندازہ ہوتا ہے۔
بچوں کا ادب ہر عمر کے بچوں کے لیے لکھا جاتا ہے۔مختلف محققین نے بچوں کو عمر کے لحاظ سے مختلف گروہوں میں تقسیم کیا ہے۔راقم نے ان سب کا مطالعہ کیا اوراسکول میں دوران تدریس مختلف کلاسوں کا جائزہ لینے کے بعد اس گروہ بندی کو موزوں خیال کیا:۔
ؑ گروہ اول :(پلے گروپ تا جماعت اول)
چونکہ بچوں کا ادب ان لوریوں اور جھولنوں سے شروع ہوتا ہے جو مائیں بچوں کو سناتی ہیں اس لیے پہلا گروہ سمعی و بصری گروہ قرار دیا گیا ہے،جس میں بچے سن کر یا دیکھ کرلطف اندوز ہوتے ہیں اور لظف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ وہ کچھ سیکھ بھی رہے ہوتے ہیںجیسا کہ راقم نے اپنے چار سالہ بیٹے کو دیکھا کہ اس نے ایک کارٹون میں دیکھا کہ ایک وزنی چیز کو ہٹانے کے لیے ایک لکڑی کو بطور لیور استعمال کیا گیا ہے تو اس نے ایک موقع پر گھر میں اس سے ملتی جلتی صورت حال میں، جب ہم ایک شہتیر کو ہٹا رہے تھے ،ایک چھوٹی سی لکڑی اٹھائی اور کہنے لگا کہ اس کی مدد سے اس شہتیر کو ہٹا لیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بچے اپنے مزاج اور میلانات کے مطابق سنتے اور دیکھتے ہیں اور یہی ادب اطفال کا پہلا گروہ ہے۔اس میں کارٹون،باتصاویر کہانیاںاور سنائی جانے والی نظمیں اور کہانیاں بھی شامل ہیں۔
گروہ دوم:(دوم جماعت تا پنجم)
اس گروہ میں شامل بچوں کے لیے تمثیلی اور اخلاقی کہانیاں موزوں ہوتی ہیں جو مختصر ہوں اور بچے انہیں بآسانی انھیں سمجھ سکیں۔اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے نصاب میں شامل کہانیاں تمثیلی نوعیت کی ہوتی ہیں جیسے شیر اور چوہے کی کہانی،پیاسے کوے کی کہانی،شہد کی مکھی اور فاختہ کی کہانی۔
گروہ سوم:(ششم جماعت تا ہشتم)
یہ گروہ ایسے بچوں پہ مشتمل ہوتا ہے جو بچپن کی سرحدوں سے نکل کر لڑکپن اور جوانی کی حدود میں داخل ہورہے ہوتے ہیں ،اس لیے ان کے لیے معاشرتی اقدار کا سیکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے اور ان کے لیے اس نوع کے مضامین کہانیوں ،نظموں میں پیش کیے جانے چاہئیں۔
گروہ چہارم:(نہم،دہم جماعت تا انٹر)
یہ گروہ سمجھ دار اور باشعور بچوں کا ہے۔ایک طرف یہ اپنے آپ کو کامل سمجھ کر خود فیصلے کر رہے ہوتے ہیں جب کہ دوسری طرف ان کا تجربہ اور عقل دونوں ناقص ہوتے ہیں،اس لیے اس عمر کے بچوں کے لیے نفسیاتی اصولوں کی روشنی میں انھیں قائل کرنے والا ادب فراہم کیا جانا چاہیئے،جو ان میں پختگی لائے۔
اس کے بعد راقم نے بچوں کے ادب کی تاریخ بیان کی ہے اور اس ضمن میں عالمی ادب میں سے انگریزی،عربی اور فارسی ادب اطفال کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے اور اس کے بعد اردو ادب اطفال میں نمایاں شخصیات،اداروں اور رسائل کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔اس باب کے آخر میں بچوں کے رسائل کا اشاریہ بھی پیش کیا گیا ہے۔
دوسرے باب میں اکادمی اد بیات پاکستان کاادب اطفال میں کردار زیر بحث آیا ہے۔اس کے بعد بچوں کے ادب میں کہانی کے کردار پہ روشنی ڈالی گئی ہے اور سہ ماہی ادبیات اطفال کی کہانیوں کو درج ذیل موضوعات میں تقسیم کیا گیا ہے:۔
٭مذہبی اور اسلامی کہانیاں
٭اصلاحی واخلاقی کہانیاں
٭سماجی و معاشرتی کہانیاں
٭مزاحیہ کہانیاں
٭تمثیلی کہانیاں
٭جاسوسی کہانیاں
ان تمام موضوعات کی کہانیوں کو الگ کر کے ان کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔
اس مقالہ کے تیسرے باب میں بچوں کی شاعری کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔اس میں راقم نے بچوں کی شاعری کی درج ذیل خصوصیات بیان کی ہیں:۔
٭اختصار
٭غنائیت
٭موزونیت
٭جوش وولولہ
٭تخیل
٭تدریس کے لیے سہل
٭حفظ میں آسانی
اس کے بعد سہ ماہی ادبیات اطفال کی منظومات کو درج ذیل اقسام میں الگ الگ کر کے تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔
٭حمدیہ نظمیں
٭نعتیہ نظمیں
٭ملی نظمیں
٭اصلاحی نظمیں
٭مزاحیہ نظمیں
٭معلوماتی نظمیں
٭مشاہداتی نظمیں
٭متفرق نظمیں
اس مقالے کے چوتھے باب میں بچوں کے ادب میں تراجم کے کردار پر بات کی گئی ہے۔اس ضمن میں تراجم کے بنیادی مباحث بھی پیش کئے گئے ہیں۔اس کے بعد ملکی اور عالمی ادب کے ان تراجم کا جائزہ لیا گیا ہے جو سہ ماہی ادبیات اطفال میں شامل اشاعت ہوئے۔ان تراجم میں آزاد ترجمہ کا طریقہ استعمال ہوا ہے بلکہ بعض مقامات پہ صحافتی ترجمہ کا طریقہ بھی دیکھنے کو ملا،یعنی ترجمہ نگار نے کہانی کے مرکزی خیال کو لے کر اس میں اپنی طرف سے تبدیلیاں بھی کردی ہیں اور کچھ واقعات میں قطع وبرید سے بھی کام لیا۔میرے خیال میں یہ کام ترجمہ نہیں بلکہ تالیف کہلائے گا۔ملکی ادب سے تراجم کی تعداد 27ہے جب کہ عالمی ادب سے تراجم کی تعداد21ہے۔
آخر میں راقم اللہ تعالی کا بے پناہ شکر گزار ہے جن کے فضل وکرم سے یہ مقالہ مکمل ہوا۔اس سفر میں نگران مقالہ ڈاکٹر گل عباس اعوان صاحب کا کردارناقابل فراموش ہے جنھوں نے قدم قدم پہ راہنمائی کی۔اللہ تعالی ان کا سایہ تادیرقائم ودائم رکھے تاکہ مجھ جیسے کئی اور تشنگان ادب اس شجرِسایہ دار کی چھائوں میں اپنی علمی پیاس بجھا سکیں۔آمین ثم آمین۔

کتابیات

بنیادی ماخذ:
(1) سہ ماہی’ ادبیات اطفال‘ ،شمارہ نمبر1،اسلام آباد:اکادمی ادبیات پاکستان،(مدیر:اختر رضا سلیمی)
(2) سہ ماہی’ ادبیات اطفال‘ ،شمارہ نمبر2،اسلام آباد:اکادمی ادبیات پاکستان،(مدیر:اختر رضا سلیمی)
(3) سہ ماہی’ ادبیات اطفال ‘،شمارہ نمبر3،اسلام آباد:اکادمی ادبیات پاکستان،(مدیر:اختر رضا سلیمی)
(4) سہ ماہی’ ادبیات اطفال‘ ،شمارہ نمبر4،اسلام آباد:اکادمی ادبیات پاکستان،(مدیر:اختر رضا سلیمی)
(5) سہ ماہی’ ادبیات اطفال‘ ،شمارہ نمبر5،اسلام آباد :اکادمی ادبیات پاکستان،(مدیر:اختر رضا سلیمی)
(6) سہ ماہی’ ادبیات اطفال‘ ،شمارہ نمبر6،اسلام آباد:اکادمی ادبیات پاکستان،(مدیر:اختر رضا سلیمی)
(7) سہ ماہی’ ادبیات اطفال ‘،شمارہ نمبر7،اسلام آباد:اکادمی ادبیات پاکستان،(مدیر:اختر رضا سلیمی)
(8) سہ ماہی’ ادبیات اطفال ‘،شمارہ نمبر8-9،اسلام آباد:اکادمی ادبیات پاکستان،(مدیر:اختر رضا سلیمی)
(9) سہ ماہی’ ادبیات اطفال‘ ،شمارہ نمبر10،اسلام آباد:اکادمی ادبیات پاکستان،(مدیر:اختر رضا سلیمی)
ثانوی ماخذ:
(10) آزاد،محمد حسین،آب حیات،دہلی:کتابی دنیا،طبع2004
(11) ابن انشائ، بلو کا بستہ ، کراچی:فضلی سنز، طبع 1996
(12) انشاء اللہ خان انشائ، داستان رانی کیتکی، دکن: انجمن ترقی اردو، طبع 1933
(13) اسلم فرخی ،ڈاکٹر،اردو کی پہلی کتاب، کراچی: ترقی اردو بورڈ، طبع 1963
(14) اسرارالحق سبیلی،ڈاکٹر،بچوں کے ادب کی تاریخ، دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، طبع 2016
(15) اسرارالحق سبیلی،ڈاکٹر،بچوں کا ادب اور اخلاق ایک تجزیہ:دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، طبع 2015
(16) اطہر پرویز،ڈاکٹر،ادب کا مطالعہ،علی گڑھ:اردو گھر،طبع بار سوم 1966
(17) اطہر پرویز،ڈاکٹر،بچوں کے نظیر، علی گڑھ: اردو گھر، طبع اول 1959
(18) افتخار کھوکھر،ڈاکٹر،روشنی کاسفر،اسلام آباد:شعبہ بچوں کا ادب،دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی
اسلامی یونیورسٹی،2013
(19) اکبر رحمانی،پروفیسر،اردو میں ادب اطفال ایک جائزہ،،جلگائوں:ایجوکیشنل اکادمی اسلام پورہ،طبع 1990
(20) امتیاز علی تاج،سید،چڑیا خانہ، لاہو:ر دارالاشاعت پنجاب ،طبع 1935
(21) خلیق انجم،،فن ترجمہ نگاری،دہلی:انجمن ترقی اردو ،طبع سوم ستمبر1996
(22) خوش حال خان زیدی،ڈاکٹر، اردو میں بچوں کا ادب، دہلی: کلمہ پرنٹنگ پریس، طبع 1989
(23) صالحہ عابد حسین،، بچوں کے حالی، نئی دہلی: ترقی اردو بیورو،طبع1983
(24) ضیاء اللہ کھوکھر،بچوں کی صحافت کے سو سال،(1902تا2002)،گوجرانوالہ:عبدالمجیدکھوکھر میموریل
لائبریری،2004
(25) ظہور الدین،پروفیسر،، فن ترجمہ نگاری، نئی دہلی: سیمانت پرکاشن پبلشرز، 2006
(26) عبدالقوی دسنوی،، بچوں کا اقبال، لکھنئو: نسیم بک ڈپو، طبع 1978
(27) عابد علی عابد،، اصول انتقاد ادبیات لاہور:مجلس ترقی ادب،طبع1960
(28) عبدالغفار شکیل،اقبال کے نثری افکار، دہلی: انجمن ترقی اردو، طبع 1977
(29) فاخرہ نورین،ترجمہ کاری،،اسلام آباد: ادارہ تحقیقات اردو،2004
(30) قمر رئیس،پروفیسر، ترجمہ کا فن اور روایت،دہلی:خواجہ پریس،بار اول1976
(31) گیان چندجین،ڈاکٹر،تحریریں،لکھنئو:سرفراز قومی پریس،طبع دسمبر 1964،
(32) گیان چندجین،ڈاکٹر،ادبی اصناف ، گجرات:اردو اکادمی،طبع اول1989
(33) محمد ابوبکرفاروقی،تراجم کے مباحث، کراچی: سٹی بک پوائنٹ،2016
(34) محمداجمل جامعی،، بچوں کے شاعر، پٹنہ: نیو آزاد پریس، طبع 1993
(35) محمد احسن فاروقی،ڈاکٹر،ناول کیا ہے؟،لکھنئو:طبع 1948
(36) محمد یحی خان،،بچوں کا اسلامی انسائیکلوپیڈیا،لاہور:دارالسلام پبلشرز،طبع2009
(37) محمد سعید،حکیم، وہ بھی کیا دن تھے، (خود نوشت) ،کراچی:نونہال ادب ہمدرد فاؤنڈیشن، طبع اول 1997
(38) محمد فیصل،ابن صفی فن اور شخصیت ،اسلام آباد:اکادمی ادبیات پاکستان،2017
(39) محمودالرحمان،ڈاکٹر، اُردو میں بچوں کا ادب،حصہ اول،اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان اردو،
طبع اول اکتوبر 1992
(40) مرزا حامد بیگ،اردو میں ترجمے کی روایت،اسلام آباد:دوست پبلی کیشنز،2016
(41) مشیر فاطمہ،بچوں کے ادب کی خصوصیات،علی گڑھ:انجمن ترقی اردو،طبع1962
(42) نثار قریشی،ڈاکٹر، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کتابیات، اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان طبع 1991
(43) نذیر انبالوی،آئیے لکھنا سیکھیں مع کہانی کیسے لکھیں،لاہور:بچوں کا کتاب گھر طبع 2018
(44) نعیم الدین زبیری،حکیم،بچوں کے اسماعیل میرٹھی، نئی دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،2013
(45) یوسفی،مشتاق احمد،چراغ تلے،حیدرآباد:حسامی بک ڈپو،طبع 1984
لغات:
(46) فیروزالدین مولوی،فیروزاللغات،لاہور:فیروز سنز،باراول 2010
(47) وارث سر ہندی، علمی اردو لغت جامع، لاہور: علمی کتاب خانہ،1976
(48) وحیدالدین قاسمی،مولانا،، القاموس الوحید، لاہور: ادارہ اسلامیات ،طبع 2001
رسائل وجرائد:
(49) سہ ماہی’ ادبیات‘،بچوں کا ادب،جلد اول،شمارہ نمبر92-93،اسلام آباد:
اکادمی ادبیات پاکستان،(مدیر:محمد عاصم بٹ)
(50) سہ ماہی’ ادبیات‘،بچوں کا ادب،جلد دوم،شمارہ نمبر94-95،اسلام آباد:
اکادمی ادبیات پاکستان،(مدیر:محمد عاصم بٹ)
(51) سہ ماہی ’ادبیات‘،بچوں کا ادب،جلدسوم،شمارہ نمبر99،اسلام آباد:
اکادمی ادبیات پاکستان،(مدیر:اختر رضا سلیمی)
تحقیقی مقالہ جات:
(52) اسد اریب، ڈاکٹر،اردو میں بچوں کا ادب،مقالہ پی،ایچ۔ڈی،پنجاب یونی ورسٹی لاہور،1963
(53) مجیب ظفر انوارحمیدی،ڈاکٹر،اردو میں بچوں کا ادب،آزادی کے بعد(1947تا2003)،
مقالہ پی،ایچ۔ڈی،شعبۂ اردو،وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top